تہذیب و افکارِافغان اور تعلیماتِ اقبال

تہذیب و افکارِافغان اور تعلیماتِ اقبال

تہذیب و افکارِافغان اور تعلیماتِ اقبال

مصنف: محمد محبوب مئی 2022

ابتدائیہ:

شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال ؒ کے کلام کا اگر عمیق مطالعہ کیا جائے تو افغان قوم سے آپ کا مخصوص دلی لگاؤ نظر آتا ہے- آپ افغان قوم کی خصوصیات اور صلاحیتوں مثلاً جذبہ حریت، حرمتِ دین، اوضاع و اطوار میں سادگی، درویشی،  جوان مردی، عزم و استقلال، خودداری، استقامت، جفا کشی،  بلند پروازی، سخت کوشی اور غیرت مندی سے بے حد متاثر تھے- اس لئے آپ کے کلام میں افغانوں کے آباواجداد مثلاً مسلم فاتحین، شعراء، ادباء، صوفیاء کرام، عادل اور نیک صفت حکمرانوں کا کثرت سے تذکرہ ملتا ہے- جن میں ظہیر الدین بابر، احمد شاہ ابدالی، سلطان محمود غزنوی، داتا علی ہجویری، خوشحال خان خٹک، شیر شاہ سوری اور حکیم سنائیؒ وغیرہ شامل ہیں-

علامہ محمد اقبال ؒ کا سفرِ افغانستان:

علامہ محمد اقبال ؒ جب افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ کی دعوت پر 1933ء کو افغانستان تشریف لے گئے تو وہاں قیام کے دوران آپ کابل، غزنی اور قندھار بھی تشریف لے گئے- اسی دوران آپ نے ظہیر الدین بابر، حکیم سنائی، سلطان محمود غزنوی اور حضرت احمد شاہ باباؒ  کے مزارات پر بھی حاضری دی- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان کی مٹی اور وہاں کے باشندوں خصوصاً مسلم فاتحین، شعراء، صوفیاء کرام اور حکمرانوں سے آپ کا ایک روحانی تعلق اور رشتہ تھا جس کی وجہ سے آپ اپنے کلام میں افغانوں کا تذکرہ فرماتے ہیں-

افغانوں کو نصیحت:

اپنے کلام میں آپ افغان قوم کو نصیحت فرماتے ہوئے ان کے آباؤاجداد کی عظیم ترین روایات اور سنہرے ماضی کو یاد کرتے ہیں- آپ افغانوں سے کلام کرتے ہوئے انہیں اسی راستے پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں جو ان کے آباؤاجداد کا راستہ تھا-آج جبکہ افغانستان چار دہائیوں سے بیرونی قبضے اور خانہ جنگی سے نجات حاصل کر کے افغانوں کے زیر انتظام آچکا ہے تو یہ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ باہمی اتفاق و اتحاد سے اپنے ملک اور معاشرے کی تشکیل و تعمیر کریں جس طرح اسلامی تشخص اور شناخت پر افغانستان کاباوقار ماضی گزرا ہے-

مثنوی مسافراور تہذیب و افکار افغان:

اس سلسلے میں کلامِ اقبال اور خصوصاً ’’مثنوی مسافر‘‘  کا مطالعہ افغانوں کے لئے اپنے ماضی کی عظیم روایات اور اپنے ملک کو اصل بنیادوں پر قائم کرنے کا سامان بن سکتا ہے- اگر ’’مثنوی مسافر‘‘ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ علامہ محمد اقبال ؒ افغان قوم کو ان کے اپنے آباؤ اجداد کے اصل اسلامی تشخص، ثقافت اور تہذیب کی یاد دلاتے ہوئے اس زمانے کی اور آئندہ آنے والی نسلوں کی تربیت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں- خصوصاً عصر حاضر میں جب امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان کی سر زمین چھوڑ کر جا چکا ہے تو یہ افغانیوں کے پاس دہائیوں بعد ایک نادر موقع آیا ہے کہ افغانستان کو اس اصل شناخت اور تشخص پر تعمیر کریں جس کا ذکر علامہ محمد اقبال ؒ نے بار ہا مرتبہ اپنے کلام میں فرمایا ہے-

آباؤاجداد کی میراث اور خودی کا درس:

افغانیوں کے آباؤ اجداد کی میراث کا ذکر کرتے ہوئے علامہ صاحب افغانیوں اورخصوصاً بادشاہ ظاہر شاہ کو فرماتے ہیں کہ:

از تب و تابم نصیب خود بگیر
بعد ازیں ناید چو من مرد فقیر

’’(اے ملت افغان) میرے سوز و گداز سے اپنا حصہ حاصل کر لے کیونکہ میرے بعد مجھ جیسا کوئی مرد قلندر نہیں آئے گا‘‘-

’’خطاب بہ اقوام سرحد‘‘ میں آپ افغانستان کی سرحد پر بسنے والے قبائل کو اپنی عظمت رفتہ خودی کو پہچاننے کا درس دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسلام میں تجاہل و تغافل حرام ہے- خود آگاہی دین اور زندگی کا پیام ہے اور خود فراموشی موت کا نام ہے-

اے ز خود پوشیدہ خود را بازیاب
در مسلمانی حرام است ایں حجاب

’’اے اپنی خودی سے غافل انسان اپنے آپ کو پا لے- مسلمانی میں یہ پردہ حرام ہے‘‘- ( بحیثیت مسلمان اپنی خودی کو پہچان اور مغلوب کی بجائے غلبے والا بن)-

تو خودی اندر بدن تعمیر کن
مشت خاک خویش را اکسیر کن

’’تو اپنے بدن میں خودی کی تعمیر کر اور یوں اپنی خاک کی مٹی کو کعبہ کی طرح سونا بنالے‘‘-

ضرب کلیم میں آپ فرماتے ہیں کہ :

خودی میں ڈوب، زمانے سے نا امید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمام رفو
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اتر گیا جو تیرے دل میں لا شریک لہ

عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) سے دل کی معموری:

علامہ محمد اقبال ؒ پیام مشرق میں بادشاہ امان اللہ خان کو اپنے دل کو عشقِ مصطفےٰ(ﷺ) سے معمور کرنے کا درس دیتے ہیں-

سوز صدیق و علی از حق طلب
ذرہ عشق نبی از حق طلب

’’اللہ تعالیٰ سے حضرت سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ اور مولا کائنات علی المرتضیٰؓ  کا سوز مانگ اور عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) کا ایک زرہ مانگ‘‘-

آپؒ فرماتے ہیں عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) کی بنیاد پر ملت کی تعمیر ہی ملت کی بقاء ہے-

زانکہ ملت را حیات از عشق اوست
برگ و ساز کائنات از عشق اوست

 

” ملت کی حیات (بقا) حضور نبی کریم (ﷺ) کے عشق سے ہی ہے-کائنات کا سارا ساز و سامان آپ(ﷺ) کی محبت ہی تو ہے“-

آخر میں  آپؒ  بادشاہ امان اللہ کو پیغام دیتے ہیں کہ :

خیز و اندر گردش آور جام عشق
در قہستان تازہ کن پیغام عشق

”اٹھ اور ان (آقا پاک (ﷺ) کےعشق کے پیالے کو گردش میں لا،کوہستان (افغانستان) میں عشق کا پیغام تازہ کر‘‘- 

صحبت درویش کی اختیاری:

علامہ محمد اقبال ؒ کی افغان قوم اور مٹی سے محبت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ یہ سر زمین اولیاء اور صوفیاء ہے اور یہاں کے باسیوں کا تصوف اور فقر سے ایک خاص تعلق ہے-

دورہ افغانستان  کے دوران علامہ اقبال  ؒ  نے صوفیاء کرام کے مزارات پر  بھی حاضری دی  جس  کا  خصوصیت سے ذکر ان کے کلام میں ملتا ہے- آپ ضرب کلیم میں محراب گل کو نصیحت فرماتے ہیں کہ:

قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ

بادشاہ امان اللہ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

در قبائے خسروی درویش زی
دیدہ بیدار و خدا اندیش زی

’’شاہی قباء میں درویش بن کر زندگی گزار، بیداری اور خدا خوفی کے ساتھ جی‘‘

مرکزیت اور وحدت:

علامہ محمد اقبال بار بار اپنے کلام میں افغانوں کو وحدت اور مرکزیت کا درس دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہی راز حیات اور برگ و ساز کائنات ہے- اسی کلام میں آپ ایک مرد مومن کی تفصیلاً خصوصیات اور شان بیان کرنے کے بعد فرقوں میں بٹی ہوئی افغان قوم ’’ملت آوارہ کوہ و دمن‘‘کو مرکزیت اور وحدت کا درس دیتے ہوئے ان کے اس دور کی حالت سے آگاہ کرتے ہیں-

در جہاں آوارہ ای بیچارہ ای
وحدتے گم کردہ ای صد پارہ ای

’’تو افغانی دنیا میں کھو کر رہ گیا ہے- مرکزیت اور ملی وحدت ختم کرکےکئی قبیلوں میں بٹ گیا ہے‘‘-

بندہ غیر اللّٰہ اندر پائے تست
داغم از داغے کہ در سیمائے تست

’’تیرے پاؤں میں غیر اللہ کی بیڑیاں ہیں اور میں تیرے اس داغ سے جل گیا ہوں جو ظاہری عبادت سے تیری پیشانی پر پڑ گیا ہے‘‘-

میر خیل! از مکر پنہانی بترس
از ضیاع روح افغانی بترس

’’اے قوم کے سردار چھپے ہوئے مکر سے ڈر اور افغانی روح کے ضائع ہونے سے ڈر‘‘-

یعنی دشمن اس کوشش میں ہے کہ وہ اپنے مکر و فریب سے افغانی قبیلوں کو ایک دوسرے سے دور رکھ کر ان کی وحدت کو ختم کر دے- اے سردار تو دشمن کے اس مکر و فریب سے ہوشیار رہ-

آپؒ فرماتے ہیں:

قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند

علامہ محمد اقبال ؒ باہم متصادم افغانیوں کو جمال الدین افغانی کی تعلیمات کی روشنی میں قبائلی گروہوں میں تقسیم ہونے کی بجائے افغانیت کی تعمیر کا مشورہ دیتے ہیں- اسی طرح آپ کا ’ ’پیام مشرق‘‘ میں بادشاہ امان اللہ سے خطاب نئی افغان قومیت کی تشکیل کا منشور ہے-

آپ فرماتے ہیں:

تازہ کن آئین صدیق و عمر
چوں صبا بر لالہ صحرا گذر

’’ صدیق اکبر اور فاروق اعظمؓ کا دور تازہ کر اور صبا کی طرح  لالہ صحرا پر سے گزر‘‘-

افغانوں کی اصل شناخت کا درس:

علامہ محمد اقبال ؒ افغانوں کی توجہ بار بار اس جانب مبذول کرواتے رہے ہیں کہ عصر حاضر میں جدید تقاضوں کے ساتھ ساتھ اپنی اصل شناخت اور تشخص کے دامن کو مضبوطی سے پکڑ کر آگے بڑھنا چاہیے- ضرب کلیم میں علامہ صاحب نے  ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ افغانوں کو بیداری، اتحاد اور انقلاب کا پیغام دیا ہے- محراب گل افغانوں کی تاریخی اور نسلی روایات کا بہترین ترجمان ہے اور اقبال کی روحانی تمناؤں اور افغان کی قومیت کی اسلامی شناخت کا استعارہ بھی- اس فرضی نام کے ذریعے اقبال افغان قوم کی مرض کی شناخت کرتے ہیں اور اس بیماری کا علاج بھی تشخیص کرتے ہیں-

قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے خدائی؟

اس لئے آپؒ فرماتے ہیں:

رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندُستان
تُو بھی اے فرزندِ کُہستاں! اپنی خودی پہچان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان!
اے مرے فقر غیور فیصلہ تیرا ہے کیا
خلعت انگریز یا پیرہن تار تار

جس طرح علامہ محمد اقبال ؒ نے فرمایا تھا کہ:

ملت گم گشتہ کوہ و کمر
از جبینش دیدہ ام چیزے دگر

” پہاڑوں اور وادیوں میں منتشر اس ملت افغان کی پیشانی پر مجھے کچھ اور ہی چیز نظر آئی ہے – “

افغان قیادت کو رمز سلطانی کا درس:

آج خصوصاً افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر چار دہائیوں کی جنگ و جدل کے بعد نئی افغان قیادت کے لئے لازم ہے کہ وہ دوبارہ علامہ محمد اقبال ؒ سے اسی ’’رمز سلطانی‘‘ کو دوبارہ حاصل کریں جو انہوں نے بادشاہ ظاہر شاہ کو عطاء کی تھی-

آپ فرماتے ہیں کہ ایک عادل بادشاہ اور حکمران کے لئے لازم ہے کہ ’’مرد میدان زندہ از  اللہ ھو است‘‘ کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی طرح  خود  کو ’’ اللہ ھو‘‘ کی رمز سے واقف کرے کیونکہ :

قوت سلطان و میر از لا الہ
ہیبت مرد فقیر از لا الہ

’’عادل بادشاہ اور سلطان کی قوت اور طاقت کا سر چشمہ رمز لا الہ ہی میں پنہا ہے‘‘-

علامہ محمد اقبال ؒ نے دوران سفر افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ کی امامت میں نماز ادا کی تو آپ عادل بادشاہ کی امامت میں سوز و گداز کا ذکر فرماتے ہیں:

راز ہائے آں قیام و آں سجود
جز بیزمِ محرماں نتواں کشود!

’’اس نماز کے قیام اور سجدے کے راز سوائے اپنے محرم کے رازوں کی محفل کے علاوہ کہیں اور ظاہر نہیں کیے جا سکتے ہیں‘‘-

اسی بنیاد پر علامہ محمد اقبال بادشاہ ظاہر شاہ کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’از فقیرے رمز سلطانی بگیر‘‘ اس فقیر سے سلطانی کی رمز اور حقیقت حاصل کر لے-

آپؒ فرماتے ہیں:

ہمچو آن خلد آشیان بیدار زی
سخت کوش و پردم و کرار زی

” اپنے خلد آشیان باپ) آباؤاجداد) کی مانند بیداری کی زندگی بسر کر، زبردست جدوجہد کر اور ان تھک اور کراری (مراد حضرت علی المرتضیٰ ؓ کی طرح) کی زندگی بسر کر‘‘-

آگےچل کر  آپ فرماتے ہیں ’’نیست ممکن کہ جز بکراری حیات‘‘ کہ فانی دنیا میں قوموں کے لئے کراری کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے-آگے آپ بادشاہ ظاہر شاہ کو نصیحت کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو قرآن پاک کی آیات میں جلا اور انہی آیات کی تپش سے ملت کی تعمیر کر-

باز افغاں را از آں سوزے بدہ
عصر او را صبح نو روزے بدہ

’’ قرآن پاک کی آیات سے اہل افغانستان کو تپش دے یعنی افغانیوں کو وہی مردان حق والا سوز عطا کر اور یوں ان کو ایک زندہ قوم بنا دے‘‘-

پیام مشرق میں آپ فرماتے ہیں کہ:

سروری در دین ما خدمت گری است
عدل فاروقی و فقر حیدری است

’’ہمارے دین میں سرداری خدمت گاری کا نام ہے، عدل فاروقی اور فقر حیدری ہے‘‘-

اختتامیہ:

 آج عصرحاضر میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کی تعمیر و ترقی فکر اقبال کی روشنی میں ان کی اپنی اصل اسلامی شناخت، تشخص تہذیب اور اپنی ثقافت بنیاد پہ معاشرے کے قیام پہ مضمرہے- افغانستان کے باسیوں کو اپنے اسلامی تشخص، قبائلی شناخت و روایات، اقدار، مساوات اورجذبۂ حُریت پرمبنی نظام کےتحت بسنے کا پورا پورا حق حاصل ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر