علامہ محمد اقبال -فکر اور اثر

علامہ محمد اقبال -فکر اور اثر

علامہ محمد اقبال -فکر اور اثر

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ فروری 2022

مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام نیشنل لائبریری آف پاکستان، اسلام آباد میں ’’علامہ محمد اقبال - فکر اور اثر‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا- سیمینار افتتاحی اور اکیڈیمِک سیشنز پر مشتمل تھا-سیمینار میں سفراء، علماء، طلباء، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز، وکلاء، صحافیوں، سیاسی رہنماؤں، سماجی کارکنوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی-

افتتاحی سیشن:

افتتاحی سیشن کے معزز مقررین میں صاحبزادہ سلطان احمد علی(دیوان آف جوناگڑھ اسٹیٹ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)، عزت مآب یرژان کِستافن (پاکستان میں قازقستان کے سفیر)، عزت مآب خضر فرہادوف (پاکستان میں آذربائیجان کے سفیر)، ڈاکٹر طالب حسین سیال (سابق ڈائریکٹر اقبال انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد) شامل تھے- جناب یاسر رحمان اعوان (اینکر پاکستان ٹیلی ویژن) نے ماڈریٹر کے امور سر انجام دئیے-

مقررین کی طرف سے اظہار خیال کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:

افتتاحی کلمات

صاحبزادہ سلطان احمد علی

(دیوان آف جوناگڑھ اسٹیٹ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)

علامہ محمد اقبال نے تحریک پاکستان کی فلسفیانہ اور نظریاتی بنیاد رکھی- اقبال کا پیغام اتنا مضبوط اور مؤثر تھا کہ کچھ ہی عرصے میں مسلم لیگ کیلیے مشعلِ راہ بن گیا جس کی وجہ سے 1940ء کی قرار داِد پاکستان میں علیحدہ مسلم ریاست کا مطالبہ ہوا- ڈاکٹر علامہ اقبال نے اپنی کتاب ’’اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیل نو‘‘ میں زور دے کر کہا کہ ِوحدت انسانی کو روح اور مادے کی متضاد دوئی میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا- یہ فلسفہ ان کے علمی کام کے ساتھ ساتھ ان کے مشہور سیاسی خطاب میں بھی یکساں طور پر گونجتا ہے- 1930ء میں الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب میں ہندوستان کے مسلمانوں کا سیاسی شعور بیدار کرتے ہوئے کہا کہ روح اور مادہ، مذہب اور ریاست، ایک کل کے مختلف اجزاء ہیں- انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی مستقبل کیلئے علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا- علامہ اقبال کی مشہور نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں مسجد قرطبہ سے مراد پاکستان ہے اور لفظ ’مردِ مومن‘ قائداعظم کی طرف اشارہ کرتا ہے-

عزت مآب یرزہان کسِٹافِن

 (پاکستان میں قازقستان کے سفیر)

اقبال ہر دور کے عظیم مفکر ہیں- اقبال نے تجارت اور مواصلات کے فروغ کیلئے وسطی ایشیائی خطے کی اہمیت کو اجاگر کیا- اقبال کا فلسفہ آج بھی اس ضمن میں رہنمائی فراہم کرتا ہے- ہم وسطی ایشیاء کا پاکستان سے براہ راست رابطہ قائم کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں- اقبال ان اولین فلسفیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے وسطی ایشیاء کی ثقافت کا مطالعہ کیا- آپ نے فارابی، رومی اور دیگر کی طرف خصوصی توجہ دی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مفکرین کس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے- سچ کہوں تو جتنا زیادہ میں نے اقبال کو پڑھا مجھے ان کے علم کے بارے میں اتنا ہی یقین ہوتا گیا- آج کل ہم پاکستان کے ساتھ نہ صرف تجارت اور مواصلات میں بلکہ یونیورسٹی کی سطح پر بھی تعاون کے لیے کام کر رہے ہیں- ہم پاکستان کے ساتھ اپنے ثقافتی تعلقات کے ذریعے لاہور اور ترکستان (ہمارا ثقافتی مرکز) کے درمیان مضبوط روابط رکھنا چاہتے ہیں- اگلے سال ہم اقبال کی چراسویں برسی منائیں گے- ہم اقبال پر ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے جا رہے ہیں اور اس دن کو علامہ محمد اقبال کی میراث کیلئے وقف کریں گے- یہ کانفرنس دونوں برادر ممالک کے درمیان ایک اور سنگ میل ہوگی-

عزت مآب خضرفرہادوف

 (پاکستان میں آذربائیجان کے سفیر)

اقبال کو ایک تسلیم شدہ ادیب، شاعر، فلسفی، محقق اور نظریاتی سوچ کے حامل کی حیثیت سے خراج تحسین پیش کرنا ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم ان کے خود آگاہی اور خود اعتمادی کے پیغام سے تجدید عہد کریں اور اسے یاد رکھیں- اقبال نے زندگی کی اہمیت، شعور، عزم، برداشت، ترقی، جسم اور روح کے درمیان تعلق، عقل اور احساسات، کائنات میں فردکے فرائض اور ایسے ہی دیگر امور پر توجہ مرکوز کی جو ہمیں انسان کی بہترین شخصیت سے روشناس کرواتے ہیں-

علامہ محمد اقبال نے ہر قدم پر مسلمانوں کی رہنمائی کی اور اسلام کو مکمل ضابطہ حیات سمجھا- انہوں نے امت مسلمہ کے شاندار تشخص کو واضح کیا - اقبال اور ان کی تحریریں جنوبی ایشیاء کی حدود سے تجاوز کرتی ہیں اور خاص طور پر آذربائیجان میں اقبال کی مشہور سات خطبات والی کتاب ’’اسلام میں مذہبی فکر کی تجدید‘‘ نے حالیہ ترجمے کی صورت میں بہت مقبول اور بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے جس میں اقبال کے کاموں پر تحقیق بھی شامل ہے-

ڈاکٹر طالب حسین سیال

(سابق ڈائریکٹر IRD، بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)

اقبال بیسویں صدی کے بعد بھی علم کے ماخذ کے طور پر اپنی ایک حیثیت رکھتے ہیں- ’’اسلام میں مذہبی فکر کی تجدید‘‘ میں شائع ہونے والے مشہور 7 لیکچرز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کو مشرقی اور مغربی دونوں علوم پر عبور حاصل تھا- اقبال نے 25 ہم عصروں سمیت 35 مغربی اسکالرز، ریاضی دانوں اور سائنسدانوں کی خدمات کا ذکر کیا ہے- اقبال اپنی کتابوں کے حوالہ جات کے ساتھ 15 مسلم مفکرین اور فلسفیوں کے کاموں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں- ایک شوقین قاری کے طور پر، اقبال نے مشرقی اور مغربی فلسفہ کو بڑے پیمانے پر پڑھا لیکن ان کی مشعل راہ ہمیشہ قرآن ہی رہا اور آپ نے اپنے 7 لیکچرز میں 127 آیات کا حوالہ دیا- اس کے علاوہ اقبال نے معاشیات پر اپنی پہلی تصنیف ’’علم الاقتصاد‘‘ کے نام سے شائع کی- اقبال نے اسپین میں قرطبہ مسجد کا دورہ کرتے ہوئے مسلمانوں کیلئے ایک نئی دنیا کی پیشن گوئی کی تھی- ان کی یہ پیشن گوئی درست ثابت ہوئی کیونکہ متعدد مسلم ریاستیں مغربی استعمار سے آزاد ہوئیں-

اکڈیمک سیشن

سیمینار کے اکیڈیمک سیشن میں، پروفیسر ڈاکٹر سفیر اعوان (ریکٹر نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز، اسلام آباد) نے سیشن کی صدارت کی- معزز مقررین میں پروفیسر ڈاکٹر عالیہ سہیل خان (سابق وی سی راولپنڈی یونیورسٹی)، صاحبزادہ سلطان احمد علی (جونا گڑھ اسٹیٹ کے دیوان و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ) ،پروفیسر ڈاکٹر جلیل عالی (مصنف، شاعر اور نقاد)، ڈاکٹر ایوب صابر (مصنف اور تجزیہ نگار)، جناب صلاح الدین چوہدری (سابق سفیر پاکستان) شامل تھے- جناب سمیع الرحمان (اسسٹنٹ پروفیسر آف لاء، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) نے سیشن میں ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے -

علامہ اقبال کی شاعری میں

شیکسپیئر کا تذکرہ

جناب صلاح الدین چوہدری

(سابق سفیر پاکستان)

علامہ اقبال نے اپنی پہلی اردو شاعری کی کتاب’’بانگ درا‘‘ میں چند لوگوں کو شاندار خراج تحسین پیش کیا ہے جس میں غالب، شبلی، حالی اور ولیم شیکسپیئر شامل ہیں- علامہ اقبال اور شیکسپیئر کو دنیا کی عظیم ادبی شخصیات کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے- میرا ماننا ہے کہ علامہ اقبال اور شیکسپیئر زبان و بیاں سے بڑھ کر انسانی فطرت کے گہرے پہلوؤں کو بیان کرنے کا امتیاز رکھتے ہیں- علامہ اقبال ایک آفاقی شاعر ہیں اور فلسفی شاعر کے طور پر ان کی عزت کی جاتی ہے کیونکہ ان کی شاعری صرف گیت نہیں تھی- وہ صرف خوبصورتی اور محبت کے گیت نہیں گاتے بلکہ اپنی قوموں کی تقدیر کے مقاصد اور خیالات بھی بیان کرتے ہیں - اقبال اور شیکسپیئر کی عوام میں سرائیت جزوی طور پر اس امکان میں مضمر ہے کہ وہ کوئی اجنبی نہیں تھے- اقبال کی ’’شیکسپیئر‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی نظم سونیٹ کی طرز پہ ہے جس طرز کو علامہ اقبال نے بہت سراہا- سونیٹ ایک 14 مصرعوں کی نظم ہے جس میں 4 مصرعوں کے 3 بند ہوتے ہیں اور آخر میں دو مصرعوں کا ایک شعر ہوتا ہے یعنی سونیٹ شاعری کی صنف کا ایک خاص انداز ہے-

اقبال کی شاعری:

تحریک پاکستان کیلئے اہم تحریکی قوت

پروفیسر ڈاکٹر عالیہ سہیل خان

سابق وائس چانسلر راولپنڈی ویمن یونیورسٹی

اقبال کا خیال تھا کہ مسلمان نہ تو بے بس ہیں اور نہ ہی مایوس- وہ اپنی قوت ارادی سے اپنی منزل خود حاصل کرسکتے ہیں- آپ نے مسلم تاریخ میں روحانی قوت دیکھی جو مسلمانوں کو دوبارہ ابھرنے کیلئے متحرک کر سکتی ہے- آپ تاریخ کو ایک آئینہ کے طور پر دیکھتے ہیں جو مسلمانوں کی حقیقی روح کی عکاسی کرتی ہے- جب بھی کوئی قوم دوسری قوم پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو سب سے پہلے ان کے ہیروز کو مسخ کرنے کی کوشش کرتی ہے اسی لیے علامہ اقبال اپنے فلسفہ میں انبیاء کرام، اصحاب، متقی، حریت پسندوں اور جرنیلوں جیسے ہیروز کی تصویر پیش کرتے ہیں تاکہ مسلم قوم میں اپنے ہیروز کا تشخص قائم رہے - اقبال چاہتے تھے کہ مسلمان خود اعتمادی اور اپنی کھوئی ہوئی شان کو حاصل کریں- آپ نے تاریخ کو ایک استاد کے طور پر بھی دیکھا- آپ نے فرمایا کہ ’’سچائی، بہادری اور انصاف کا سبق پڑھو‘‘- لہٰذا ہمیں حضور  نبی کریم (ﷺ) کے نقش قدم پر چلنا چاہیے کیونکہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات مقدس بہادری، جرأت، عزم، قربانی، کردار اور دیانتداری کا عظیم نمونہ ہیں-

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

یہی اقبال کا پیغام ہے اور اسی نے ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان حاصل کرنے میں مدد فراہم کی تھی-

جناح کو خطوط ِاقبال میں تصورِ پاکستان

پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر

(مصنف اور تجزیہ کار)

قائد اعظم محمد علی جناح نے ون نیشن تھیوری سے مایوس ہو کر علامہ اقبال کا مسلمانوں کی الگ قومیت کا نظریہ اپنایا جس کو بعد میں دو قومی نظریے کا نام دیا گیا- علامہ اقبال کے قائداعظم کو لکھے گئے خطوط کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قائد اعظم نے ان خطوط کو شائع کر کے خود اس اشاعت کا دیباچہ لکھا- ان خطوط کے حوالے سے قائد اعظمؒ لکھتے ہیں کہ یہ خطوط بڑی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، خاص طور پر وہ خطوط جو ہندوستان اور مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے بارے میں لکھے گئے تھے- پہلا یوم اقبال جو علامہ اقبال کی وفات کے بعد منایا گیا اس کی صدارت قائد اعظم نے کی اور ان کی خواہش تھی کہ جب کوئی نئی مملکت بنے تو اقبال کے افکار کے مطابق اس کا قیام عمل میں لایا جائے- اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے یہ نہ صرف ایک مذہبی فکر ہے بلکہ اس میں قوانین، فلسفہ اور سیاست بھی موجود ہے- علامہ اقبال اور قائداعظم نے اسلامی تہذیب کی بات کی ہے اور ان دونوں نے انصاف، فلاح اور غربت کے خاتمے پر زور دیا ہے-

اقبال کی شاعری میں

اسلامی نظریاتی ریاست

پروفیسر ڈاکٹر جلیل عالی

 (ادیب، شاعر اور نقاد)

یورپ میں جو قومیت کا تصور تھا علامہ اقبال نے یورپ میں رہ کر اسے قریب سے دیکھا- اقبال ایک نظریاتی آدمی تھے، اس لیے ان کے نظریے کے درمیان بنیادی کشمکش یہ تھی کہ انسان نے اتنی بڑی ادارہ جاتی ریاست قائم کی، جس کی بنیاد صرف نسل اور رنگ پر تھی یا صرف جغرافیہ یا نسلی گروہ پر- اگر اتنی بڑی اکائی یا ملک انسانی رہائش کے لیے بنایا گیا ہے تو کوئی نہ کوئی عمرانی معاہدہ ضرور ہونا چاہیے جو نظریاتی ہو- وہاں سے اقبال نے سوچنا شروع کیا کہ ریاست کو نظریاتی ہونا چاہیے- کیونکہ نظریہ وہ ہے جو سب کے لیے نافذالعمل ہو -

پاکستان کا تصور اور دو قومی نظریہ علامہ اقبال کے پوری انسانیت کے درد کا نتیجہ ہے، ایک ہمہ گیر نظریاتی تصور ہے، جس کا حل اقبال نے اسلام سے اخذ کیا- کیونکہ اقبال نے جب تمام مذاہب کا مطالعہ کیا تو انہیں اسلام میں آفاقیت نظر آئی- اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو ان عناصر کو اپناتا ہے جو انسان کے آفاقی ضمیر کے مطابق ہیں-

صدارتی کلمات

پروفیسر ڈاکٹر سفیر اعوان

(پرو ریکٹر نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد)

دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال کے پاس سب کچھ ہے-آپ کے پاس وہ کچھ ہے جو سب کیلئے ہے- اگر آپ انقلابی بننا چاہتے ہیں تو وہ آپ سے کہہ رہے ہیں:

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

علامہ اقبال آپ کو ابلیس  کے پیغام کے بارے میں بھی منفرد انداز میں بیان کرتے ہیں- اگر آپ انقلابی، صوفیانہ اور نظریاتی شہری بننا چاہتے ہیں اقبال بھی اس دنیا کو تلاش کرنے کی تلقین کرتے ہیں:

بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا تو کر

آپ کو اقبال کی کتاب ’’اسلام میں مذہبی فکر کی تجدید‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے-

اظہارِ تشکر

صاحبزادہ سلطان احمد علی

(دیوان آف جوناگڑھ اسٹیٹ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)

مجھے یقین ہے کہ صرف ایک عظیم مفکر ہی آپ کو ایک عظیم راستے پر لے جا سکتا ہے- یہ ایک قدیم یونانی کہاوت ہے کہ فلسفہ بڑا دیو ہے اور انسان بونا ہے لیکن اگر بونا دیو کے کندھے پر کھڑا ہو جائے تو وہ زیادہ دور کا نظارہ کر سکتا ہے- اگر آپ کے پاس ایسی بے مثال شخصیت ہو تو آپ کے مسائل کا حل نکل سکتا ہے - میرے نزدیک پاکستان اور امت مسلمہ کے مسائل کا حل علامہ محمد اقبال کی فکر میں پوشیدہ ہے، بیسویں صدی کے تمام مفکرین میں سے علامہ اقبال نے امت مسلمہ کے مسائل پر زیادہ غور کیا اور اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ حل نکالے- میر تقی میر اور مرزا اسد اللہ خان غالب بالترتیب اٹھارہویں اور اُنسیویں صدی کے عظیم شاعر تھے اور علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے عظیم شاعر تھے-اگر ہم اردو ادب کی پانچ بہترین نظموں کا انتخاب کریں تو پانچوں علامہ محمداقبال کی لکھی ہوں گی-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر