اسلام کا نظریہ اعتدال پسندی

اسلام کا نظریہ اعتدال پسندی

اسلام کا نظریہ اعتدال پسندی

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ ستمبر 2021

مسلم انسٹیٹیوٹ نے آذربائیجان انسٹیٹیوٹ آف تھیالوجی کے تعاون سے 29 جون 2021ء کو ’’اسلام کا نظریہ اعتدال پسندی‘‘کے عنوان پر ایک ویبی نار کا اہتمام کیا- میجر جنرل (ر) ڈاکٹر شاہد احمد حشمت (سابق پرنسپل نسٹ انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کنفلکٹ سٹڈیز)نے سیشن کی صدارت کی- صاحبزادہ سلطان احمد علی (دیوان ریاست جونا گڑھ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ ) نے خیر مقدمی کلمات اور آخر میں ہدیہ تشکر ادا کیا- اسسٹنٹ پروفیسر اجیل شیرینوو (ریکٹر آذربائیجان انسٹیٹیوٹ آف تھیالوجی) نے ابتدائی کلمات ادا کئے- مقررین میں راون حسانووو (ایگزیکٹو ڈائریکٹر باکو انٹرنیشنل ملٹی کلچرلزم سینٹر) ایسوسی ایٹ پروفیسر انار غفاروو (سربراہ شعبہ دینی علوم، آذربائیجان انسٹیٹیوٹ آف تھیالوجی)، سابق سفیر مس نغمانہ، پروفیسر ڈاکٹر عالیہ سہیل خان (سابق وائس چانسلر راوالپنڈی ویمن یونیورسٹی) اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ایلنورا عزیزوا (ڈین فیکلٹی آف تھیالوجی،آذربائیجان انسٹیٹیوٹ آف تھیالوجی) شامل تھے- حمزہ افتخار (پی ایچ ڈی سکالرجارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی، یو ایس اے) نے ویبی نار میں ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے- محققین، طلباء، ماہرین تعلیم، تھنک ٹینکس کے نمائندگان، صحافیوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ویبی نار میں شرکت کی-

مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:

اعتدال اور برداشت انسان کی منفرد خصوصیات ہیں اور یہ اسلام کی اصل ہیں بشرطیکہ ان الفاظ کے اصل معانی کو سمجھا جائے اور ان پر دل و جان سے عمل کیا جائے- شدت پسندی اور بنیاد پرستی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے دنیا کیلئے اسلام کا تصورِ اعتدال سمجھنا ماضی کی نسبت زیادہ اہم ہوگیا ہے-اسلام کا تصورِ اعتدال سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام محض عقائد اور رسومات کے احکامات کا نام نہیں- اسلام کا تصورِ اعتدال، حیات کے جسمانی، روحانی، نفسیاتی، قانونی، عقلی اور فلسفیانہ پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے-یہ انفرادی کردار اور اجتماعی ثقافت کی پرورش کرتا ہے اس طرح سے یہ فرد کی انفرادی اور معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے-اسلام کا تصورِ اعتدال، اجتماعی زندگی کی سماجی مصروفیات، سیاسی اقدامات، مذہبی عقائد، روحانی حقائق، ترقیِ تہذیب اور قوم کی تعمیر جیسے بین الا قوامی پہلو ؤں کا بھی احاطہ کرتا ہے- مسلمان ’’اعتدال‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں جو قرآن مجید کے لفظ ’’وسَطّا‘‘ سے اخذ کی گئی ہے- اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

’’وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ ‘‘[البقرہ :143]

’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو‘‘-

’’اعتدال والی‘‘ امت کی بہترین مثال جو انصاف پسند، معزز اور کامل ہو وہ اسلامی معاشرے کی وہ پہلی نسل جنہوں نے بلا واسطہ  حضور نبی کریم(ﷺ) سے تعلیم اورتربیت حاصل کی،ان سے سمجھی جا سکتی ہے- اس بہترین اور مثالی معاشرہ کے دائرے میں صوفیاء بھی شامل ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (ﷺ) کے عشق میں غرق ہیں اور ان کے پاکیزہ قلوب پر الہامی حقائق آشکارہوتے ہیں- صوفیاء اللہ تعالیٰ کے سچےعاشق اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی محبت میں فنا ہوتے ہیں-ان کے قلوب کا تزکیہ ہو جاتا ہے اور وہ نورِ نبوی (ﷺ) سے منور ہوتے ہیں-

صوفیاء نرمی، عاجزی، برداشت، صبر، عفو و درگزر، روحانی عظمت، غصہ سے پاکی جیسی بہترین خصوصیات کا مظہر ہوتے ہیں-جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے وہ نہ صرف اسی کی ساری مخلوق کو برادشت کرتا ہے بلکہ لازمی طور پر وہ ان سے محبت کرتا ہے-انسانیت سے محبت، اسی کی تعظیم اور انسانیت کی خدمت خالقِ کائنات اللہ رب العزت کی تعظیم اور اس کی بندگی کی علامت ہے- مولانا رومیؒ فرماتے ہیں :

 ’’تم آجاؤ تم جو کوئی بھی ہو‘‘-

چاہے تم یہودی ہو یا عیسائی یا کہ مسلمان، تم گرجا گھر میں عبادت کرتے ہو یاکہ تم مندر یا مسجد جاتے ہو، آؤ اور کارواںِ محبت میں شامل ہو جاؤ-اسلامی اعتدال کی یہ مثال دنیا بھر میں خصوصی طور پر جنوبی ایشیا کی صوفی خانقاہوں سے عیاں ہوتی ہے جہاں بلا امتیاز سب کو کھانا کھلایا جاتا ہے-یہ کھانا عموماً دالوں سے بنا ہوتا ہے کیونکہ یہ دالیں ہندو، سکھ، عیسائی اور مسلمان سب کھا سکتے ہیں-

صوفیاء کے اسی خیال کے پیشِ نظرحضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

یوندیاں جے مر رہناں ہووے تاں ویس فقیراں بہیئے ھو

جے کوئی سٹے گودڑ کوڑا وانگ اروڑی سہئیے ھو
جے کوئی کڈھے گاہلاں مہنے اسنوں جی جی کہئیے ھو
گِلا اُلا ہماں بھنڈی خواری یار دے پاروں سہئیے ھو
قادر دے ہتھ ڈور اساڈی باھوؒ جیوں رکھے تیوں رہئیے ھو

صوفیاء لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں اور میثاقِ مدینہ کے مطابق ہم آہنگی اور بقائے باہمی کی ترویج کرتے ہیں-ان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی توحید کا نظریہ سارے فرق ختم کر دیتا ہے-ایک صوفی ہمیشہ لوگوں کو تقسیم کرنے کی بجائے متحد کرتا ہے-متصوفانہ ادب میں صوفیاء بلا امتیازِ رنگ و نسل اور عقیدہ کے امن و آشتی کا پیغام دیتے ہیں-صوفیاء معتدل ماحول کی پرورش اور اختلافات کی نفی کیلئے ہمیشہ نظریہ توحید پر عمل فرماتے ہیں-

1979ء میں ایرانی انقلاب کے پسِ منظر میں مغرب کا اسلام کے متعلق تصورِ اعتدال ابھر کر سامنے آیا-یہ تصورِ اعتدال بہت محدود، بہت آسان لیکن تنگ نظری پہ مبنی تھا - جبکہ مسلمانوں کا تصورِ اعتدال وسعت اور کثیر جہتی کو سموئے ہوئے ہے-یہ اُس سے قدرے مختلف ہے جیسا کہ اہلِ مغرب اس کے بارے میں سوچتے ہیں- مغرب کیلئے یہ ایک مذہبی تصور نہیں بلکہ یہ بنیاد پرست اور اعتدال پسند اسلام کے دو مختلف نظریات کی کشمکش ہے جو سمجھوتہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں- مغرب خاص طور پر بنیاد پرست اسلام کے بارے میں سوچتا ہے اور اس کا موازنہ مغرب کے اعتدال پسند معاشروں سے کرتا ہے-بدقسمتی سے، یہ وہی وقت تھا جب افغانستان پر سوویت حملے ہوئے اور پھر امریکہ میں 11/9 کے واقعات نے اس بحث کو مزید بڑھا دیا-

اعتدال ہمیں نسل، ثقافت، مذہب اور نظریات کے لحاظ سے تنوع کو اپنانا سکھاتا ہے- مہاجرین کی آمد نے جدید دنیا کو اعتدال پر عمل کرنا سکھایا-عالم گیریت کے آنے سے نقل مکانی میں آسانیاں ہوئیں تاہم نقل مکانی معاشرے میں کثیر ثقافتی مسائل کو جنم دے سکتی ہے- مغرب میں اسلاموفوبیا کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے جیسا کہ پچھلے کچھ سالوں میں تشدد اور نفرت انگیز تقاریر کے زیادہ کیس درج ہوئے-

جنوبی ایشیا نے آر ایس ایس نامی ہندوستانی تنظیم کے ہاتھوں بدترین مذہبی تشدد کا مشاہدہ کیا-جوکہ بی جے پی سرکار کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مکمل کنٹرول میں کئے ہوئے ہے- حالا نکہ ہندوستان، گائے کے گوشت کے چند بڑے برآمد کنندگان میں سے ہے لیکن مسلمانوں کو وہاں پر گائے کو ذبح کرنے اور اپنے مذہب پر آزادانہ طور پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے-بھارت کے نئے قانون این آر سی کے تحت بڑی تعداد میں مسلمانوں کو ہندوستانی شہریت سے محروم کر دیا گیا ہے- مسلمانوں کے تاریخی ثقافتی مقامات کو تباہ کیا جا رہا ہے-دوسری طرف اسلامی دنیا میں کچھ شر پسند عناصر ہیں جو محض اپنی کم علمی کی بنا پر کسی دوسرے فرقے کو تسلیم نہیں کرتے-علم کی عدم موجودگی اسلامی دنیا میں فرقہ وارانہ فسادات کی بنیادی اور بڑی وجہ ہے-

 گزشتہ چند عشروں سے پاکستان نے شدت پسندی اور دہشتگردی کا سامنا کیا تاہم مجموعی طور پر پاکستانی قوم کی صوفی اقدار کی طرف جھکاؤ اور لچکدارانہ رویہ اور افواج پاکستان کی کاوشوں نے دہشتگردی کو شکست دینے میں کامیابی دی-اسی طرح ریاستِ پاکستان کا دہشتگردی کے خلاف  ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے نام سے بیانیہ اپنی طرز میں انفرادی حیثیت رکھتا ہے-جس کی تائید بیک وقت پاکستانی قوم، مذہبی رہنماؤں اور ریاست کے اعلیٰ حکام نے کی- مذہبی فیصلے نے شدت پسندوں کے نظریات اور بیانات کو واضح طور پر مسترد کر دیا ہے جو دہشت گردی کے جواز کیلیے مذہب کا نام استعمال کرنے کی مذموم کوشش کر رہے تھے-پاکستان اور آذربایئجان دونوں اپنے نظریات میں تصوف کا رجحان رکھتے ہیں اور امن اور رواداری کا پیغام دیتے ہیں-

ہم اسلام کے حقیقی تصور کو تب ہی سمجھ سکتے ہیں جب ہم اسلام کی اصل اقدار اور شناخت کا مطالعہ کریں اور یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب اسلام ہر شعبے میں ہماری تحقیق کا حصہ ہو- مذہبی وسائل کا غلط استعمال بنیاد پرستی ، انتہا پسندی اور عدم برداشت کی واحد وجہ نہیں ہے بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی پہلوؤں پر غور کرنا بھی ضروری ہے- کیونکہ ان پہلوؤں کے ذریعے، انسان اپنے مسائل کا مستقل حل تلاش کر سکتا ہے-

 ادب، اخبارات، میگزین اور کتابیں مغرب میں اعتدال پسند اسلام کے خلاف بیانیے سے بھری پڑی ہیں- تاہم، بدقسمتی سے، اس حوالہ سے ہم جوابی بیانیہ پیش نہیں کر سکے- ہمیں اپنے نوجوانوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات اور اسلام کی روح کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے-

وقفہ سوال و جواب کا خلاصہ درج ذیل ہے:

ہم یہ سنتے ہیں کہ مسلمان انتہا پسند اور بنیاد پرست ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اپنی معلومات اسلام سے متعلق ناکافی ہیں- دوسری جانب مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک بڑی تباہی آ سکتی ہے- مذہب ایک ایسی شناخت ہے جس کی بنیاد پہ لوگوں کو اشتعال دلایا جا  سکتا  ہے اگر آپ مذہب کا حقیقی اور گہرا مفہوم نہیں جانتے- اس مسئلے کے حل کیلیے ہمیں چاہیے کہ ہم اسلام کی روح اور حضرت محمد (ﷺ) کی تعلیمات کو نصاب کا حصہ بنائیں- والدین اور اساتذہ کو صرف اس بات پہ بھی توجہ دینی چاہیے کہ بچے صرف قرآن مجید کی آیات کو یاد تو ضرور کریں ساتھ اس کا مفہوم بھی سمجھیں-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر