تعلیمات سلطان باھوؒ میں موجود طالبانِ مولیٰ خواتین کا تذکرہ

تعلیمات سلطان باھوؒ میں موجود طالبانِ مولیٰ خواتین کا تذکرہ

تعلیمات سلطان باھوؒ میں موجود طالبانِ مولیٰ خواتین کا تذکرہ

مصنف: لئیق احمد ستمبر 2020

قرآن و سنّت کی تعلیمات میں یہ امر بالکل واضح ہے کہ مرد اور عورت اللہ تعالیٰ کے سامنے بالکل برابر ہیں- صنفی تفریق کی بنا پر کسی کو برتری حاصل نہیں ہے- برتری کا معیار اللہ‎ کی بارگاہ میں تقویٰ ہے- جو بھی نیک کام کرے گا، عمل صالح کرے گا، اچھائی کا حکم دے گا، برائی سے خود کو روکے گا، صدقہ و خیرات کرے گا، اس کو پورا پورا اجر دیا جائے گا- جیسا کہ فرمانِ باری ‎ تعالیٰ ہے:

’’فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ أَنِّیْ لَا أُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی بَعْضُکُمۡ مِّنْم بَعْضٍ ‘‘[1]

’’ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمائی کہ میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کرنے والا ہوں- خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے سے ہو -

ایک اور آیت میں فرمایا گیا:

’’لِّلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاء نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْن‘‘[2]

’’مردوں کے لیے ان کی اپنی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کی اپنی کمائی کا حصہ ہے‘‘-

تزکیہ و احسان یا تصوف و سلوک کی جتنی ضرورت مردوں کو ہے اتنی ہی عورتوں کو بھی ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کے عہد مبارک میں جہاں صحابہ کرام کی دین کے لئے مشقتوں اور قربانیوں کا ذکر ملتا ہے وہیں بہت سی نامور صحابیات کا تذکرہ بھی ملتا ہے جنہوں نے دین کی ترویج و اشاعت اور اصلاح معاشرہ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے- جہاں علم تصوف میں بلند پایہ مرد صوفیاء کا ذکر ملتا ہے وہیں خواتین باطن صفا صوفیاء کا ذکر بھی کتب تصوف میں موجود ہے جنہوں نے فقر جیسی عظیم دولت کو اللہ‎ کے فضل سے پایا- علامہ ابن الجوزی نے ’’صفۃ الصفوۃ‘‘، علامہ جامی نے ’’نفحات الانس‘‘ اور ابو عبد الرحمٰن سلمی نے ’’ذکر النسوۃ الصوفیات المتعبدات‘‘ میں کئی نامور صوفی خواتین کا تذکرہ فرمایا ہے- ان کتب میں جن مشہور صوفی خواتین کا ذکر ملتا ہے ان میں سے چند اہم نامور نام مندرجہ ذیل ہیں

v     رابعہ بصریؒ

v     ابو عثمان الحیریؒ کی بیٹی عائشہؒ

v     امام محمد بن سیر ینؒ کی بہن حفصہؒ

v     مشہور صوفی بشر حافیؒ کی دو بہنیں زبدہ اور مضغہؒ 

v      ابو سلیمان دارانیؒ کی دو بہنیں عبدہ اور آمنہؒ

v     احمد بن ابی الحواریؒ کی اہلیہ رابعہ بنت اسماعیلؒ 

v     ابو علی الروذباریؒ کی اہلیہ فاطمہ ام الیمنؒ

تعلیماتِ حضرت سلطان باهُو

میں طالبان مولیٰ خواتین کا تذکرہ :

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنی تمام تر تصنیفات طالبان مولیٰ کے لیے رقم فرمائی ہیں- طالب چاہے مقام مبتدی پر ہو یا منتہی پر، آپؒ کی تصانیف اُس طالب و سالک کے لئے مرشد کا درجہ رکھتی ہیں - طالب کو راہ سلوک کے معاملات سمجھانے کے لیے جہاں آپ ؒنے صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین (رضی اللہ عنھم)اور اکابر مرد صوفیاء کے واقعات اور ان کے اقوال کو طالب و سالک کی تربیت کے لیے پیش کیا ہے وہیں آپؒ کی تصانیف مبارکہ میں صحابیات اور اکابر خواتین صوفیاء کے واقعات و اقوال بھی ملتے ہیں جنہوں نے قرب الٰہی کی منازل کو طے کیا اور اصلاح معاشرہ اور دین کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا- آپؒ کی تصانیف میں جن طالبان مولیٰ خواتین کا ذکر ملتا ہے جنہیں آپ راہ سلوک میں رول ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں، مندرجہ ذیل ہیں:

  1. 1.      سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرہ(رضی اللہ عنہا):

سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒنے فخر رسل تاجدار انبیاء حضور نبی کریم(ﷺ) کی نور نظر، حضرت خدیجہ الکبریٰ کی لخت جگر سیدۂ کائنات حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء کا (رضی اللہ عنہا) ذکر پاک بہت محبّت و عقیدت سے اپنی تصانیف میں فرمایا ہے - جس دلکش پیرائے میں آپؒ نے سیدۃ النساء (رضی اللہ عنہا) کی عظمت و رفعت کو بیان فرمایا ہے یہ امر آپ کی اہل بیت سے والہانہ محبّت کا عکاس ہے -

پہلی سلطان الفقر :

حضرت سلطان باھوؒ نے اپنی تصنیف لطیف ’’رسالہ روحی شریف‘‘ میں ارواحِ سلطان الفقرأ کا تعارف کروایا ہے - اُن میں آپ نے حضور سیدۂ کائنات (رضی اللہ عنہا) کو پہلی سلطان الفقر ہستی بیان کیا ہے- آپؒ لکھتے ہیں:

’’ایشان سلطان الفقر و سیدالکونین اند یکی روح خاتون قیامت (رضی اللہ عنہا) ‘‘[3]

’’یہ سلطان الفقر اور دونوں جہانوں کے سردار ہیں ان میں سے ایک خاتون قیامت حضرت فاطمۃ الزہرہ (رضی اللہ عنہ) کی روح مبارک ہے‘‘-

سیدہ کائنات سے اپنی روحانی نسبت کا اظہار :

آپؒ نے اپنی کتاب ’’عقلِ بیدار‘‘ میں ایک مقام پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دستِ بیعت ہونے کے واقعہ کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے اور یہ بھی بتایا کہ مجھے جگر گوشۂ رسول ، حضرت فاطمۃ الزہراء بتول (رضی اللہ عنہا) نے بھی اپنا نوری حضوری بیٹا قرار دیا -جیسا کہ آپؒ لکھتے ہیں :

خواندہ فرزند من زاں فاطمہ
معرفتِ فقر است بر من خاتمہ

’’حضرت اطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا)  نے مجھے اپنا فرزند فرمایا اور مَیں معرفت ِفقر کے مرتبۂ کمال پر جا پہنچا‘‘-

گویا آپؒ اپنے فقر کے کمال کے حصول کا وسیلہ آپ (رضی اللہ عنہا) کی ذات پاک کو قرار دے رہے ہیں اور تمام راہ فقر کے سالکین کو یہ تلقین بھی فرما رہے ہیں کہ اس راہ میں سیدہ کائنات (رضی اللہ عنہا) کی ذات بابرکت کے وسیلہ جلیلہ کے بغیر فقر کی حقیقت نہیں کھلتی-

جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:

’’حضرت ام المومنین فاطمتہ الزھراء (رضی اللہ عنہا) ہم پروردہ فقر بود و فقر داشت- ہرکرا فقر رسد از ایشان رسد ‘‘-[4]

’’حضرت فاطمتہ الزہرا (رضی اللہ عنہا) بھی فقر کی پلی ہوئی تھیں اور انہیں فقر حاصل تھا- جو شخص فقر تک پہنچتا ہے ان ہی کے وسیلہ سے پہنچتا ہے‘‘-

تارک دنیا :

حضرت سخی سلطان باھوؒکی تعلیمات میں ترک دنیا کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ کوئی بھی سالک حقوق سے دستبردار ہو جائے، گوشہ نشین ہو کر لوگوں سے تعلقات منقطع کر دے یا عبادت و ریاضت کے لئے جنگلوں میں نکل جائے بلکہ آپؒ کے نزدیک ہر وہ شے دنیا ہے جو اللہ‎ سے غافل کر دے- اگر مال و اسباب اللہ‎ کی یاد سے غافل نہیں کرتے تو وہ دنیا نہیں ہے - سیدہ کائناتؒ فقر کی اس انتہا کو پہنچی ہیں کہ آپؒ نے ہر اس شے کو ترک فرما دیا جو یادِ الٰہی سے غفلت میں ڈال سکتی تھی- اس لئے آپؒ سالکان حق کو آپؒ جیسا ترک دنیا اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’سید وہ ہے جو ترک دنیا میں سیدہ فاطمۃ الزہرہ (رضی اللہ عنہا) کی طرح تارک دنیا ہو ‘‘-[5]

  1. 2.      حضرت بی بی راستیؒ :

حضرت سلطان باھوؒ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی راستی ؒکا شمار اپنے دور کی نہایت ہی عابدہ، شب بیدار اور اولیاء اللہ خواتین میں ہوتا ہے- آپ ؒبے حد پاکباز، عفت مآب، صالحہ، عبادت گزار اور کثیر العلوم خاتون تھیں- آپ ایک صاحبِ کشف خاتون تھیں- آپؒ کا زیادہ تر وقت عبادت و ریاضت میں بسر ہوتا- گھر کے کام کاج سے فارغ ہوتے ہی مصروفِ عبادت ہوجاتیں- آپؒ کے انہی اوصاف کی بناء پر حضرت بازیدؒ نے آپؒ کو نکاح کا پیغام دیا جو قبول ہوگیا- [6]

آپ کا اسم باهو آپ کی والدہ نے رکھا :

حضرت سلطان باھوؒ اپنی کتب میں اپنی والدہ ماجدہ کو بہت خراجِ تحسین پیش فرماتے ہوئے لکھتے ہیں-

نام باھو مادر باھو نہاد
زان کہ باھو دائمی با - ھو نہاد

’’باھو کی والدہ نے اس کا نام باھو اس لئے رکھا ہے کہ وہ ہر وقت ھو کی معیت میں رہنے والا ہے‘‘-

 ایک اور مقام پر اپنی عقیدت و محبّت کا اظہار یوں کرتے ہیں:

آفرین بر مادرش کہ اسم او باھو نہاد
باھو پسر بی بی راستی کہ از ھو شدہ شاد

’’صد آفرین ہو باھو کی ماں پر کہ اس نے اس کا نام باھو رکھا باھو جو بی بی راستی کا بیٹا ہے ذکر یاھو میں مسرور رہتا ہے‘‘-

رحمت و غفران بود بر راستی
راستی از راستی آراستی

’’اللہ کی رحمت و مغفرت ہو بی بی راستی پر کہ وہ راستی (سچائی) سے آراستہ ہیں‘‘-[7]

آپ کا تعلق باللہ :

آپ اپنی والدہ محترمہ کے عبادت گزار ، زہد و ریاضت میں مگن اور ذاکرہ ہونے کے بارے میں یوں اظہار فرماتے ہیں:

’’اِس طرح ’’کلمہ طیبہ‘‘ کے ذکر ِجہر اور ذکر ِخفیہ سے آنکھوں سے خون جاری ہو جاتا ہے- مصنف کہتا ہے کہ اِس فقیر کی والدہ محترمہ اِسی طرح کا ذکر ِخفیہ کیا کرتی تھیں اور اُن کی آنکھوں سے خون جاری رہا کرتا تھا- ایسے ذاکر کو حضور الحق فقیر کہتے ہیں‘‘-[8]

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :

’’اﷲتعالیٰ نے صرف اؤلیائے کرام کو اِتنی قوت بخشی ہے کہ وہ چودہ طبق کا مشاہدہ ایسے کرتے ہیں گویا کہ اپنی ہتھیلی پر اسپند کا دانہ دیکھتے ہیں- چودہ طبق کا اِس طرح تماشا دیکھنا اُن کے لئے کوئی مشکل نہیں- جب وہ تصورِ اسم اﷲ ذات میں محو ہوتے ہیں تو اسم اﷲ ذات کی گرانی سے اُن کی آنکھوں سے خون جاری ہو جاتا ہے- اِس فقیر کی والدہ ماجدہ کو یہ مرتبہ حاصل تھا کہ شوقِ حق تعالیٰ کی سوزش سے اُن کی آنکھوں سے خون بہتا رہتا تھا‘‘ -[9]

  1. 3.       حضرت رابعہ بصریؒ :

خواتین اولیاء میں حضرت رابعہ بصریؒ کا ذکر نمایاں ہے- آپ بہت زیادہ عابدہ، زاہدہ، صابرہ، شاکرہ اور صاحب فقر ہستی تھیں- حضرت سُلطان العارفینؒ نے اپنی تصانیف میں بیشتر مقامات پر آپ کے واقعات اور اقوال کو نقل فرمایا ہے -

صاحب فقر ولیہ :

جہاں بہت سے صوفیاء سلوک کی راہ میں قربِ الٰہی کی بہت سی منازل تو طے کر پائے لیکن مراتب فقر کو حاصل نہ کر سکے وہیں آپ کو کس طرح فقر نصیب ہوا اس بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت سلطان باهوؒ لکھتے ہیں :

’’حضرت رابعہ بصریؒ حالت خواب میں بلا واسطہ مراتب فقر پر جا پہنچی ‘‘-[10]

تعلق باللہ :

حضرت رابعہ بصریؒ کے تعلق باللہ کو بیان کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں :

’’رابعہ بصریؒ سے پوچھا گیا نفس و شیطان و دنیا کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے آپ نے جواب دیا میں توحید فنا فی اللہ میں اس قدر غرق ہوں کہ مجھے نفس کی خبر ہی نہیں اور نہ ہی مجھے شیطان و دنیا کی خبر ہے‘‘- [11]

ایک اور مقام پر آپؒ لکھتے ہیں :

’’نقل ہے کہ ایک مرتبہ حضرت رابعہ بصری ؒ سے خواب میں حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے پوچھا اے رابعہ کیا تم مجھ سے محبت رکھتی ہے؟ حضرت رابعہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول (ﷺ) کیا یہ بھی ممکن ہے کہ میں آپ (ﷺ) سے محبت نہ کروں؟ ہاں البتہ میرا دل محبتِ الٰہی میں اس قدر محو ہے اور میں توحید فنافی اللہ میں اس قدر غرق ہوں کہ مجھے دوستی و دشمنی کی خبر تک نہیں رہی‘‘-[12]

رابعہ بصریؒ نے ہمیشہ طلب مولیٰ کو اختیار کیا- جیسا کہ حضرت سلطان باهوؒ آپ کا ایک واقعہ یوں رقم فرماتے ہیں:

’’حضرت رابعہ بصریؒ سے پوچھا گیا آپ اللہ کی عبادت کس غرض سے کرتی ہیں جہنم کے خوف سے یا امید بہشت میں؟ انہوں نے جواب میں التجا کی خداوند اگر میں تیری عبادت دوزخ کے خوف سے کرتی ہوں تو مجھے دوزخ میں ڈال دے اگر میں تیری عبادت امید بہشت میں کرتی ہو تو مجھ پر بہشت حرام کر دے اور اگر میں تیری عبادت محض تیری طلب میں کرتی ہوں تو مجھ پر اپنا دیدار و جمال بند نہ کر ‘‘-[13]

اکابر صوفیاء کا آپ سے استفادہ کرنا :

اکابر صوفیاء آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے اور آپ کے علم و فقر کے فیض سے مستفید ہوتے- جیسا کہ حضرت سلطان باهوؒ لکھتے ہیں:

’’ایک مجلس میں ایک ولی اللہ نے حضرت رابعہ بصریؒ سے صدق کے بارے میں کہا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں جو اللہ کی دی ہوئی تکلیف پر شکر ادا نہیں کرتا - دوسرے نے کہا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں جو اللہ کی دی ہوئی تکلیف پر صبر نہیں کرتا - تیسرے نے کہا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں جو اللہ کی دی ہوئی تکلیف سے لطف اندوز نہیں ہوتا - حضرت رابعہ نے فرمایا اس قسم کا صدق طفل بازی ہے جدائی ہے اور مجازی ہے - اس کے بعد آپ نے فرمایا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں جو مولا کی دی ہوئی تکلیف کو مشاہدہ دیدار الٰہی میں غرق ہو کر بھلا نہیں دیتا‘‘- [14]

رابعہ بصریؒ کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے آپ حضرت شیخ شبلیؒ کا قول رقم فرماتے ہوئےلکھتے ہیں:

’’نقل ہے کہ ایک روز شیخ شبلی خانقاہ سے نکلے اور ہیجڑوں کے گھر جا بیٹھے مریدوں نے پوچھا حضرت! یہ کیا؟ فرمایا لوگوں کے تین گروہ ہیں مرد عورتیں اور ہیجڑے مرد بایزید تھے عورت رابعہ بصری تھی- میں ان دونوں میں سے نہیں ہوں اس لئے یہاں آ بیٹھا ہوں‘‘- [15]

آپ خود رابعہ بصریؒ کی عظمت کو یوں بیان فرماتے ہیں:

’’پس دنیا ابوجہل و یزید ہے نہ کہ رابعہ و بایزید ‘‘-[16]

  1. 4.      ایک ولیہ کے ذریعے بزرگ کی اصلاح:

آپؒ نے اپنی تصنیف ’’محک الفقر کلاں‘‘ میں ایک خاتون ولیہ کا ذکر کیا ہے جن کے کلام سے ایک بزرگ کی اصلاح ہوئی -

’’حکایت: نقل ہے کہ ایک بزرگ نے حاضرین مجلس سے سوال کیا کہ توحید کیا چیز ہے؟ ایک عورت بولی: ’’توحید یہ ہے کہ ذات حق تعالیٰ ایک ہی ہے‘‘- بزرگ بولے:’’جواب تو تیرا درست ہے مگر اے مائی! یہ تو بتا تو کام کیا کرتی ہے؟

عورت بولی:میں کھیتی باڑی کرتی ہوں-

بزرگ بولے: ’’کھیتی باڑی تو مردوں کا کام ہے- مجھے تجھ میں کھیتی باڑی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تُو کھیتی باڑی کس طرح کرتی ہے؟

عورت بولی:میں نے خدائے تعالیٰ کے حکم سے اپنے نفس کو بیل بنا لیا ہے اور اس سے ہل جوتتی ہوں، اپنی چھاتی کو زمین بنا لیا ہے اور جس میں معرفت و عبادت کا بیج بوتی ہوں اور تمام رات جاگ کر اپنی کھیتی کی رکھوالی کرتی ہوں اور اسے گریہ زاری کے پانی سے سیراب کرتی ہوں‘‘-

یہ ماجرہ سن کر بزرگ بولے: اے مائی! تیرے باغ و بوستان میں کچھ الفت بھی ہے؟

عورت بولی:ہاں، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے دل میں دس باغ پیدا فرمائے ہیں، باغ توحید، باغ علم، باغ حلم، باغ سخاوت، باغ توکل، باغ قسمت، باغ سنت، باغ خوف، باغ رجاء با غِ رضا اور باغ تواضع لیکن شرط یہ ہے کہ جونہی صبح نمودار ہو باغبان کو چاہیے کہ وہ اپنے ہر باغ کا معائنہ کرے اور اس میں جو خاروخس نظر آئے اسے باہر نکال دے اور سوائے فصل اصلی اور شوق وصلی کے اور کچھ نہ چھوڑے- پس مومن کو چاہیے کہ اب وہ باغ توحید میں داخل ہو تو اس میں سے خارِ شرک و کفر کو نکال کر باہر پھینک دے،جب وہ باغ علم میں آئے تو خار جہل و نادانی کو نکال کر باہر پھینک دے جب وہ باغ حلم میں آئے تو خار سرکشی و بے ادبی کو نکال کر باہر پھینک دے، جب وہ باغ سخاوت میں آئے تو خار بخل و حرص کو نکال کر باہر پھینک دے جب وہ باغ توکل میں آئے تو خار طمع و حسد کو نکال کر باہر پھینک دے، جب وہ باغ قسمت میں آئے تو خار بغض و کینہ و نفاق کو نکال کر باہر پھینک دے، جب وہ باغ سنت میں آئے تو خار بدعت و ریا کو نکال کر باہر پھینک دے،جب وہ باغ خوف میں آئے تو خار عجب و کبر کو نکال کر باہر پھینک دے، جب وہ باغ رجاء میں آئے تو خار و قہر و غیبت و رشوت کو باہر نکال کر پھینک دے اور جب وہ باغ تواضع میں آئے تو خار نخوت و غرور کو باہر نکال کر پھینک دے‘‘-

 جب وہ عورت ان دس باغوں کے متعلق بیان کر چکی تو بزرگ کی آہ نکل گئی- عورت بولی:’’اے شیخ! آپ کو کوئی مرض لاحق ہے یا آپ کو کوئی دکھ پہنچا ہے کہ آپ آہیں بھرنے لگے ہیں؟

بزرگ بولے:ہاں! مجھے نیکی کا مرض لاحق ہے آپ میرے اس مرض پر توجہ دیں‘‘-

مائی بولی:اے بزرگ! تقوی کا ہلیلہ لے لیں، اپنے دونوں ہونٹوں کو اچھی طرح بند کر لیں، اس میں اِس افسوس و ندامت کے آنسو ملا لیں کہ نافرمانی و بدعملی کیوں کی؟ پیٹ کی دیگ کو بند کرکے عشق کی آگ پر چڑھا لیں، جب یہ پک جائے تو روزانہ صبح و شام اس دوا کو زہر غریبی کے ساتھ کھا لیا کریں، حتیٰ کہ آپ کو صحت کاملہ نصیب ہو جائے اور آپ محنت ہائے دنیا سے خلاصی پا جائیں- یہ نسخہ نہایت ہی آزمودہ و مجرب ہے‘‘-

  1. 5.      صاحبِ زُھد صحابیہ کا ذکر :

حضرت سُلطان العارفینؒ نے اپنی تصنیف ’’محک الفقر کلاں‘‘ میں ایک صحابی اور صحابیہ کا ذکر کیا ہے جنہوں نے جان اللہ‎ کے سپرد کر دی لیکن درمِ دُنیا کو قبول نہیں کیا اس واقعہ کو آپ یوں بیان فرماتے ہیں :

’’نقل ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک صحابی اس قدر مفلس تھے کہ ان کے گھر میں صرف ایک ہی چادر تھی جس سے دونوں میاں بیوی ستر ڈھانپتے تھے-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے حکم دیا کہ ہم سے گھر کے خرچ کے لئے چار سو درہم لے جاؤ- اس نے بیوی سے مشورہ کیا تو بیوی نے درمِ دنیا جیسے دشمنِ خدا کو گھر میں لانا مناسب نہ سمجھا-صحابی نے کہا:اگر میں وہ درم نہیں لیتا تو اللہ کے رسول کی نافرمانی ہوتی ہے، میں کیا کروں؟ بیوی نے کہا:دو رکعت نفل پڑھ کر دعا مانگو کہ الٰہی! ہمیں دنیا سے اٹھا لے تاکہ اپنے گھر میں تیرے دشمن کو نہ لا سکیں- انہوں نے ایسا ہی کیا اور اپنی جان اللہ کے حوالے کر دی - لیکن اب ایسا دور آ گیا ہے کہ لوگ درمِ دنیا کی خاطر نفل پڑھتے ہیں- میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں‘‘-

بیتِ باھو:’’درمِ دنیا کیا چیز ہے؟ پاؤں پڑی زنجیر ہے، جو اس میں پھنس گیا اسے رہائی نہ ملی‘‘-

  1. 6.      طالب مولیٰ شہزادی کا ذکر :

آپ نے اپنی تصنیف میں ایک بادشاہ کی بیٹی کا تذکرہ کیا ہے جس نے ایک فقیر سے شادی کی اس واقعہ کو آپ یوں رقم فرماتے ہیں :

’’نقل ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنی بیٹی کا نکاح ایک فقیر سے کردیا-جب وہ فقیر کے گھر پہنچی تو ابھی وہ پاؤں سے جوتی بھی نہ اتار پائی تھی کہ اسے وہاں جو کی ایک روٹی نظر آ گئی- اس نے پوچھا:یہ روٹی یہاں کیسی؟فقیر نے جواب دیا: رات کو مجھے دو روٹیاں ملی تھیں، ایک میں نے کھا لی اور دوسری کو میں نے بچا کر رکھ لیا- یہ سن کر شہزادی رونے لگی- فقیر کہنے لگا: کیا تو اس لئے روتی ہے کہ تو ایک شہزادی ہے اور ایک مفلس کے گھر آگئی ہے؟ شہزادی کہنے لگی:نہیں! میں تو اس لئے رو رہی ہوں کہ تو درویش نہیں ہے، تجھ میں تو کتے کے برابر بھی توکل نہیں ہے کہ تو آئندہ کے لئے روٹی بچا کے رکھتا ہے‘‘- [17]

حرف آخر :

یہ مقالہ حضرت سلطان باهوؒ کی منتخب چند کتب سے تیار کیا گیا ہے جن میں سے ان چندچنیدہ اولیاء خواتین کا ذکر خصوصیت سے کیا گیا ہے جن کا تذکرہ آپؒ کی تصانیف میں کثرت سے ملتا ہے- اللہ تعالیٰ ہمیں صوفیائے کرام کی تعلیمات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین-

٭٭٭


[1](آل عمران:195)

[2](النساء:32)

[3](رسالہ روحی شریف)

[4]( جامع الاسرار ، ص :46)

[5](نور الہدٰی)

[6](محمد حسیب القادری، سیرتِ حضرت سلطان باھو، ص15-16)

[7](محک الفقر کلاں)

[8](ایضاً)

[9]( کلید التوحید (کلاں)

[10]( عین الفقر)

[11](ایضاً)

[12](ایضاً)

[13](ایضاً)

[14]( کلید التوحید کلاں)

[15]( عین الفقر)

[16](ایضاً)

[17]( محک الفقر کلاں)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر