تعلیماتِ حضرت سلطان باھومیں تعریفاتِ حروف کا اسلوب

تعلیماتِ حضرت سلطان باھومیں تعریفاتِ حروف کا اسلوب

تعلیماتِ حضرت سلطان باھومیں تعریفاتِ حروف کا اسلوب

مصنف: لئیق احمد اگست 2020

لفظ اور معنی کے درمیان گہرا ربط اور تعلق موجود ہوتا ہے-لفظ خود تو چند دائروں، لکیروں اور نقطوں کا نام ہے اور اس کے اندر جو حقیقت پوشیدہ ہوتی ہے اسے معنی کہتے ہیں لیکن لفظ اور معنی میں ایسا باہمی ربط ہوتا ہے کہ ہم جیسے ہی لفظ کا تصور کرتے ہیں تو اس کا معنی ذہن میں خود بخود ابھر آتا ہے-

ہر لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں، لفظ کا وہ اصلی معنیٰ جو اہلِ زبان مراد لیتے ہیں اسے لغوی معنیٰ کہتے ہیں-[1]

لفظ کا وہ معنیٰ جو ماہرِ زبان، اہلِ علاقہ یا اہلِ فن ’’متعین‘‘ کر لیں اسے اصطلاحی معنیٰ کہتے ہیں-[2]

اگر کوئی لفظ ان معنوں میں نہ بولا جائے جن معنوں کے لئے وہ بنایا گیا ہے تو یہ اس کے مجازی معنی ہونگے-اس طرح الفاظ کے معانی کو بیان کرنے کی متعدد اقسام اہلِ لغت بیان کرتے ہیں-

لیکن الفاظ کی وضاحت کا جو اسلوب سلطان العارفین حضرت سُلطان باھُوؒ نے اپنی تعلیمات میں بیان کیا ہے وہ بہت منفرد ہے اور اس کی نظیر بہت کم ہی عربی و فارسی ادبیات میں ملتی ہے- آپ کسی بھی لفظ کی وضاحت اس کے لغوی اور اصطلاحی معانی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے نہیں کرتے بلکہ آپ الفاظ کو بطورِ وضاحت استعمال کرتے ہیں اور لفظ میں موجود ہر حرف کی الگ الگ وضاحت کرتے ہیں تاکہ سالک پر اس لفظ کے تمام اسرار و معانی منکشف ہو جائیں-

زیر نظر مضمون آپؒ کی تصانیف میں موجود ان الفاظ سے متعلق ہے جن کی وضاحت و توضیح آپؒ حروف تہجی کے اعتبار سے کرتے ہیں- آپؒ کی 31 کتب منظر عام پر موجود ہیں جس میں سے 2 کتب منظوم صورت میں ہیں، ایک ابیاتِ باهو (فارسی) ہے اور ایک ابیات باهو (پنجابی) ہے- اس کے علاوہ 29  کتب نثری صورت میں ہیں- راقم نے 28 کتب سے استفادہ کیا ہے -

آپ (قدس اللہ سرہٗ) کی 28 کتب میں 69 مقامات ایسے ہیں جہاں آپ نے الفاظ کی تشریح حروفِ تہجی کے اعتبار سے کی ہے- سب سے زیادہ حروف تہجی کے اعتبار سے جس لفظ کی تشریح آپ کی تصانیف میں ملتی ہے وہ لفظ ’’فقر‘‘ ہے، اس لفظ کی وضاحت آپ نے اپنی تصانیف میں 13 مقامات پر فرمائی ہے- حذفِ تکرار کے بعد دیکھا جائے تو کُل 30 الفاظ ہیں جن کی تشریح و توضیح آپ کی تصانیف مبارکہ میں موجود ہیں- ناچیز نے اس مقالے میں ان تمام الفاظ کو ایک جگہ جمع کیا ہے، جن کی تشریح و توضیح آپؒ نے حروفِ تہجی کے اعتبار سے اپنی تصانیف میں فرمائی ہے- ذیل میں ہر لفظ کی وضاحت کوبہ اعتبارِ حروفِ تہجی رقم کیا ہے -

1-     آدم:

’’آدم کے تین حروف ہیں ’’ا،د،م‘‘- حرف ’’ا‘‘ سے ادب و حیاء، انس، الفت، احسان اور ارادۂ صادق- حرف ’’د‘‘ سے دوامِ عبادت، دم ذکرِ اللہُ میں رواں، دل زندہ عارف باللہ، ’’د‘‘دل آدم پر دلالت کرتا ہے اور نص و حدیث کے عین مطابق الہامِ الہی کی صورت میں گواہی دیتا ہے کیونکہ یہ وہ انتہائی غیبی علم ہے جس میں اسمِ اللہُ سے نامتناہی خاص الخاص فتوحات و واردات حاصل ہوتی ہیں اور علم ’’د‘‘ ظاہر و باطن میں ہر علم کی آگاہی بخشتا ہے- جب عارف باللہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو اپنی زبان سے اس آیتِ مبارکہ کا ورد شروع کر دیتا ہے:’’لمن الملک الیوم للہ الواحد القہار‘‘ اس کے بعد واپس دل پر لا الہ الا اللہ کی ضرب لگاتا ہے تو اس کے دل میں خوف و رجا پیدا ہو جاتا ہے اور اس پر محبتِ حقیقی اور تجلیاتِ نور اللہ ذاتی و صفاتی کا فقرِ تحقیقی منکشف ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر وقت سوزِ عشق میں آہیں بھرتا رہتا ہے- فرمان حق تعالیٰ ہے:’’اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے خوف و بھوک اور نقص اموال سے‘‘-حرف ’’م‘‘سے مروت و مردانگی کے ساتھ نفس کے خلاف جنگ میں میدانِ شجاعت کا شہسوار و سابقہ سالارِ کار زار، تارکِ مردار دنیائے مردود، مغضوبۂ خدا‘‘- [3]

2-     اسم اللہ:

’’اسم اﷲ میں چار حروف ہیں اور اس میں چار ہی مُلک ہیں- یعنی ایک ازل، دوم ابد، سوم دنیا اور چہارم آخرت- جس شخص کا دل اسمﷲ سے روشن ہو جاتا ہے، اس کا دل جام جہان نما ہو جاتا ہے- اس کا آئینہ قلبی صفا ہو جاتا ہے اور اسے اس میں اٹھارہ ہزار مخلوق نظر آنے لگتی ہیں  اور وہ احدیت تک پہنچ جاتا ہے- حرف ’’ا‘‘ سے ازدست، حرف ’’ل‘‘ سے ملک لا نہایت اور حرف ’’ل‘‘ سے لا مکان اور حرف ’’ہُ‘‘ سے ہدایت مراد ہے جو شخص یہ احوال نہیں رکھتا اس کو اسم اﷲ سے تاثیر نہیں ملتی اور اسم اﷲ کی اسے خبر ہی نہیں‘‘-[4]

3-     اسم محمّد():

حضرت محمد رسول اﷲ (ﷺ) کے حرف  ’’م‘‘ سے معرفت الہٰی کا مشاہدہ ہوتا ہے اور حرف ’’ح‘‘ سے مجلسِ محمدی (ﷺ) کی حضوری نصیب ہوتی ہے اور حضرت محمد رسول اﷲ (ﷺ)کے دوسرے حرف ’’م‘‘ سے دونوں جہاں کا نظارہ دکھائی دیتا ہےاور حرف ’’د‘‘ سے شروع ہی میں مقاصد رونما ہو جاتے ہیں- چاروں حروف کافروں کے قتل کیلیے ننگی تلوار ہیں- یہی ہے محمد (ﷺ)[5]-

4-     اعتقاد:

’’جان لے کہ اعتقاد کے چھ حروف ہیں ’’ا، ع، ت، ق، ا، د‘‘- حرف ’’ا‘‘ سے مراد آئینہ دل، حرف ’’ع‘‘ سے عین دیکھے اور عین بخشے، حرف ’’ت‘‘ سے کونین کو طے کرنے کی توفیق بخشے، حرف ’’ق‘‘ سے قربِ اللہ حضوری کی قوت بخشے، حرف ’’ا‘‘ سے ارادۂ صادق رکھے اور حرف ’’د‘‘ سے دوامِ مجلسِ محمد رسول اللہ (ﷺ) کی حضوری بخشے‘‘- [6]

5-     پیر:

’’پیر کے تین حرف ہیں’’پ، ی، ر‘‘- حرف ’’پ‘‘ سے مراد یہ ہے کے طالبوں اور مریدوں کو اس طرح پاک و صاف کرے  جس طرح نہلانے والا مردے کو غسل دیتا ہے- حرف ’’ی‘‘ سے یہ مراد ہے کہ وہ مرید کی اس طرح مدد کرے کہ جس طرح مردے کی نمازِ جنازہ کے وقت کرتے ہیں- حرف ’’ر‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اس پر ازل و ابد کے راز منکشف کرے تاکہ منکر نکیر کے سوال و جواب میں اسے آسانی ہو اور وہ نفس و شیطان سے خلاصی پائے‘‘-[7]

6-     تفکر

’’تفکر کے چار حروف ہیں ’’ت، ف، ک، ر‘‘- حرف ’’ت‘‘ سے ترک ہوا، حرف ’’ف‘‘ سے فنائے نفس، حرف ’’ک‘‘ سے کرامت رو ح اور  حرف ’’ر‘‘ سے رازِ حق‘‘-[8]

7-     تصوف:

’’تصوف کے چار حروف ہیں ’’ت، ص، و، ف‘‘-حرف ’’ت‘‘ سے تصرف کرتا ہے اپنی جان و مال کو اللہ کی راہ میں اور اُس کا ایصالِ ثواب کرتا ہے حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی روح مبارک کو- حرف ’’ص‘‘ سے صراطِ مستقیم پر گامزن رہتا ہے-حرف ’’و‘‘ سے وعدہ خلافی نہیں کرتا اور حرف ’’ف‘‘ سے فتح القلوب و فنائے نفس جو آدمی اِن صفات سے متصف نہیں اُسے صاحبِ تصوف نہیں کہا جا سکتا‘‘-[9]

8-     تقویٰ:

’’تقویٰ کے چار حرف ہیں ’’ت، ق، و، ی‘‘- پس حرف ت سے ترک، توکل، تواضع،ترحم اور تلقین مراد ہے- حرف ’’ق‘‘ سے قوی دین ، قہر بر نفس اور قرب اﷲ مراد ہے- حرف ’’و‘‘ سے وعظ پذیر اور وحدت فی الوحدت مراد ہے- حرف ’’ی‘‘ سے یاد حق کرنے والا، مسلمانوں کی امداد کرنے والا یا ایسی چیز نہ رکھنے والا ہو جو حق کو پسند نہ ہو اور مخلوق سے مدد نہ مانگنے والا مراد ہے‘‘-[10]

9-     درویش:

’’لفظ درویش کے پانچ حروف ہیں ’’د، ر، و، ی، ش‘‘- پس حرف ’’د‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ درد رکھتا ہو-حرف ’’ر‘‘ سے مراد راست دین ہو، حرف ’’و‘‘ سے مراد وحدانیت لا شریک لہ ہے- یعنی شرک سے دور رہتا ہو- حرف ’’ی‘‘ سے مراد یہ ہے کہ یاد حق کرنے والا ہو اور حرف ’’ش‘‘ سے مراد یہ ہے کہ نافرمودۂ خدا اور صاحب شریعت رسولِ خدا (ﷺ) سے شرم کرنے والا ہو‘‘-[11]

10- دعوت:

’’دعوت کے چار حروف ہیں اور ہر حرف کو طاعت و شرائط کے اعتبار سے ایک خاص بزرگی اور عزت و شرف حاصل ہے - وہ چار حروفِ دعوت یہ ہیں ’’د، ع، و، ت‘‘- حرف ’’د‘‘ سے دل کو ذکر دوام سے دائم پاک رکھنا ہے اور ذکر دوام حضور علیہ الصلوۃ والسلام خود عطا فرماتے ہیں- حرف ’’ع‘‘ سے علم غیبی اور فتوحات لاریبی کہ جس کی تفصیل علم غیب کے مؤکلات رحمانی و روحانی سے حاصل ہوتی ہے- حرف ’’و‘‘ سے ورد وظائفِ کلام الٰہی کو عزت و ادب و اعتقاد کے ساتھ ترتیب وار پڑھنا اور حرف ’’ت‘‘ سے ترک کرنا ہر اس چیز کا جسے حضور علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کے اصحاب پاک نے ترک کیا ‘‘-[12]

11- دنیا:

’’دنیا کے چار حروف ہیں ’’د، ن،  ی، ا‘‘- حرف ’’د‘‘سے دنیا کا کوئی دین نہیں- حرف ’’ن‘‘ سے دنیا نافرمان حق فرعون ہے- حرف ’’ی‘‘سے دنیا شیطان کی یار یگانہ ہے اور حرف ’’ا‘‘ سے دنیا اظلم و آدم کش ہے-اے احمق دنیا سے وہ آدمی طارق فارغ ہوتا ہے جو دین کو قابو میں رکھتا ہے‘‘-[13]

12- دین:

’’دین کے تین حروف ہیں ’’د، ی، ن‘‘- حرف ’’د‘‘سے دین معرفت کی آنکھ کھول کر مولا کا دیوانہ و فریفتہ کرتا ہے جس سے بندہ طالب محمد رسول اللہ (ﷺ) بنتا ہے- حرف  ’’ی‘‘سے دین یاری کراتا ہے اللہ سے اور یاری کراتا ہے تمام مومن بھائیوں سے، اہل اسلام مسلمانوں اور تمام مسلمانوں سے اور حرف ’’ن‘‘ سے دین نیت کو خالص کر کے طالب اللہ کو صفا کیش و خیر اندیش بناتا ہے‘‘-[14]

13-  شریعت، طریقت، حقیقت،  معرفت :

’’شریعت کے حرف ’’ش‘‘ سے مراد شوق ہے اور طریقت کے حرف ’’ط‘‘ سے طاعتِ باطنی اور ذکر الٰہی مراد ہے- حقیقت کے حرف ’’ح‘‘ سے حرص کو دور کرنا اور معرفت کے ’’م‘‘سے محرم اسرار ہونا مراد ہے- جس شخص کو یہ چار حرف حاصل ہیں، اسے اہل حرف مجموعۂ فقر اور اہل اﷲ کہتے ہیں‘‘-[15]

14-  شوق:

’’شوق کے تین حروف ہیں’’ ش، و، ق‘‘-پس حرف ’’ش‘‘ سے شہادت کی گواہی مقصود ہے-حرف ’’و‘‘ سے معرفتِ الٰہی کے احوال سے واقفیت اور حرف ’’ق‘‘ سے قتلِ نفس مراد ہے‘‘-[16]

15- طالب:

’’طالب کے بھی چار حروف ہیں ’’ط، ا، ل، ب‘‘ -حرف ’’ط‘‘سے طلاق دینے والا جملہ علائقِ غیر ما سویٰ اللہ کو- حرف ’’ا‘‘ سے الوہیتِ ربوبیت میں غرق، اللہ  بس ماسویٰ اللہ ہوس کے اصول پر قائم - حرف ’’ل‘‘ سے لائقِ درگاہ، علائقِ خلق سے بیزار- حرف ’’ب‘‘ سے بدکاری سے پاک، با ادب و با مراد، بے ریا، صبح سے شام اور شام سے صبح تک طلبِ خدا میں غرق، غیر ماسویٰ اللہ سے دل کو پاک رکھنے والا، مرشد سے با اخلاص رہنے والا جس طرح کے ندی کا پانی ندی سے با اخلاص رہتا ہے-جو آدمی یہ اوصاف نہیں رکھتا وہ مرشد ہے نہ طالب، اُس پر ہوائے نفس ہے غالب‘‘-[17]

16- عارف:

’’عارف کے چار حروف ہیں ’’ع، ا، ر، ف‘‘- حرف ’’ع‘‘ سے عبادتِ الٰہی ، وہ عبادت کے جس سے عین (قربِ ذاتِ حق) نصیب ہو- عبادت اُسے کہتے ہیں کہ جس میں بندہ عین بعین غرقِ وحدانیت ہو کر تجلیاتِ نور ذات الٰہی  کا مشاہدہ کر سکے- جو آدمی عین ذات کو پا لیتا ہے وہ اُسے پہچان لیتا ہے جو آدمی عین رب کو پہچان لیتا ہے وہ عارف باللہ ہو جاتا ہے- حرف ’’ا‘‘سے اُلفت نہ رکھے اللہ کے سوا کسی اور سے حرف ’’ر‘‘ سے راز بین و صاحبِ حق الیقین ہو جائے اور حرف ’’ف‘‘ سے فوت نہ ہو اُس سے عبادتِ ظاہری کے فرائض و واجب و سنت و مستحب- جو آدمی اِن صفات سے متصف ہو جائے وہ عارف باللہ ہے‘‘-[18]

17- علم:

’’علم کے تین حروف ہیں”ع، ل، م‘‘- اگر علم کو سر سے پکڑا جائے تو علم کا سر ’’ع‘‘ ہے اور علمِ ’’ع‘‘ عالم کو عین العنایت، عین الولایت، عین الہدایت، عین علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کے مراتب پر پہنچاتا ہے اور باطل سے بیزار کر کے حق رسیدہ کرتا ہے- اگر علم کو درمیان سے پکڑا جائے تو درمیانی حرف ’’ل‘‘ ہے- علمِ ”ل‘‘  عالم کو لا یحتاج کرتا ہے اور ’’لا‘‘ نفی ہے اور نفی سے مراد فنائے نفس ہے- حضور علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: جس نے اپنے نفس کو پہچانا،بے شک اس نے اپنے رب کو پہچانا،جس نے اپنے نفس کو فنا سے پہچانا بے شک اس نے اپنے رب کو بقاء سے پہچانا-فنا و بقا اور معرفتِ الٰہی کو جس نے بھی پہچانا علم کے ذریعے ہی پہچانا-کبھی کوئی جاہل عارف باللہ نہیں ہوا-اگر علم کو آخر سے پکڑا جائے تو علم کا آخری حرف”م‘‘ہے-جس نے علمِ ’’م‘‘ حاصل کر لیا اسے حضور علیہ الصلاۃ و السلام سے مجلس و ملاقات نصیب ہو گئی- اس کے برعکس جس نے احکامِ علم سے بغاوت کی اور علم کی مخالفت میں نفس و ہوا سے اتحاد کر کے مراتبِ علماء کو نظر انداز کیا تو وہ علم کے حرف ’’ع‘‘ سے عاق، حرف ’’ل‘‘ سے لادین اور حرف ’’م‘‘ سے مردار خور ہوکر ہمیشہ کے لئے نفس مردود اور ہوا و ہوس کا غلام ہوگیا‘‘-[19]

18- فقر:

’’جان لے کہ فقر کے تین حروف ہیں یعنی ’’ف، ق، ر‘‘-حرف ’’ف‘‘ سے فکرِ کونین سے فارغ یعنی فنائے نفس-حرف ’’ق‘‘ سے قہر برنفس اور قربِ الٰہی اور حرف ’’ر‘‘ سے راہِ راستی، دائم استغراقِ الٰہ-جو شخص فقر کے اس مرتبے پر پہنچنے کے بعد دنیا کی طرف متوجہ ہوجائے اور فقرِ محمدی (ﷺ) کو چھوڑ کر دنیا کے مرتبۂ فرعونیت کو اپنالے تو وہ حرف ’’ف‘‘ سے فضیحتِ فرعون، حرف ’’ق‘‘ سے قہرِ خداوندی اور حرف ’’ر‘‘ سے راندۂ حق مثلِ ابلیس مردود ہو جاتا ہے‘‘[20]

19- فقہ:

’’علمِ فقہ کے تین حروف ہیں ’’ف، ق، ہ‘‘- حرف ’’ف‘‘سے عالمِ فقہ نفس کو فنا کرتا ہے، نفس کی قید میں ہرگز نہیں آتا اور نہ اس کے تابع ہوتا ہے سواۓ عبادت کے کہ عبادت سرمایۂ ایمان و سعادت ہے اور بالیقین تقوی بارادت ہے- حرف ’’ق‘‘ سے عالمِ فقہ دین میں قوی ہوتا ہے- اگر دنیا بھر کی بادشاہی بھی دے دی جائے تو دین کے بدلے قبول نہیں کرتا- حرف ’’ہ‘‘ سے عالمِ فقہ رہنماۓ خلق ہوتا ہے جو مسائل اور وعظ و نصیحت کے ذریعے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے‘‘-[21]

20- قلب :

قلب کے تین حروف ہیں ’’ق، ل، ب‘‘- حرف ’’ق‘‘ سے مراد قربِ الٰہی، حرف ’’ل‘‘ سے مراد لقائے الٰہی اور حروف ’’ب‘‘ سے مراد بقاباللہ کا مشاہدہ ہے-[22]

21- کامل:

’’کامل کے چار حروف ہیں”ک،ا، م، ل‘‘-حرف ’’ک‘‘ سے کل شے اُس کے تصرف میں ہو-حرف’’ا‘‘سے اسم اللہ ذات کا تصور عطا کرے طالبِ صادق کو- حرف ’’م‘‘ سے مردہ دل کو زندہ کرے اپنی نگاہ سے اور اُسے مشرفِ دیدار کر کے معرفتِ الٰہی کی حضوری بخشے اور حرف ’’ل‘‘ سے لقائے الٰہی و قربِ الٰہی بخش کر طالبِ اللہ کو لا یحتاج کرے‘‘-[23]

22- کبر:

’’کبر کے تین حروف ہیں ’’ک، ب، ر‘‘- حرف ’’ک‘‘ سے کرامت چلی جاتی ہے- حرف ’’ب‘‘سے برکت چلی جاتی ہے اور حرف ’’ر‘‘سے رحمت چلی جاتی ہے‘‘-[24]

23- محبّت:

’’محبت کے چار حروف ہیں ’’م، ح ، ب، ت‘‘- حرف ’’م‘‘ سے اسم مسمّٰی میں محو و فنا فی اﷲ ہونا- حرف ’’ح‘‘ سے اپنے وجود سے حرص کو نکال باہر کرنا- حرف ’’ب‘‘ سے بخل نہ رکھنا-حرف ’’ت‘‘ سے فقر کو تمام کرنا مراد ہے‘‘-[25]

24- مرشد:

’’مرشد کے چار حروف ہیں:’’ م، ر، ش، د‘‘-حرف ’’م‘‘ سے مردِ خدا از خود جدا، خادم ِمحمد مصطفےٰ (ﷺ)، صاحبِ صفا، حرف ’’ر‘‘ سے روانہ رکھے غیر ما سویٰ اللہ کے بجز توحید اِلہٰ- حرف ’’ش‘‘ سے شوق ریز (عاشق) قلب خیز (زندہ دل)، عشق و محبت کا متوالا غرقِ وحدت عارف باللہ- حرف ’’د‘‘ سے دائم غرق فنا فی اللہ صاحبِ حضور‘‘-[26]

25- مسلمان:

’’مسلمان کے چھ حروف ہیں یعنی ’’م، س، ل، م، ا، ن‘‘- حرف ’’م‘‘ سے موافق رحمن و مخالف شیطان، موافق علم و مخالف جہالت، موافق روح و مخالفت نفس، موافق شریعت و مخالف بدعت، موافق فقر و مخالف دنیا و اہل دنیا اور قاطع شہوات و حرص و طمع اور قاطع دیگر اوصاف نا شائستہ-حرف ’’س‘‘ سے سلیم الطبع یعنی صاحب قلب سلیم، صاحب تسلیم و رضا اور خلق خدا سے خوش خلقی سے پیش آنے والا حرف ’’ل‘‘ سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ذاکر- حرف ’’م‘‘ سے متکلم نص وحدیث، متکلم علم مسائل فقہ اور متکلم علم توحید تصوف- حرف ’’ا ‘‘ سے ارادہ صادق کا حامل صدیق با تصدیق اور حرف ’’ن‘‘ سے نیک نیت- یہ ہے صحیح مسلمان- تجھ پر سلام ہو اے مسلمان! جو شخص ان اوصاف سے متصف ہے وہ حق بردار، حق پر جان نثار اور باطل سے بیزار حقیقی مسلمان ہے-[27]

26- مولیٰ:

’’مولیٰ کے بھی چار حروف ہیں ’’م، ل، و، ی‘‘- طالبِ مولیٰ وہ آدمی ہو سکتا ہے جو مولیٰ کے ان چار حروف کی موافقت میں چار چیزیں اختیار کرے - سب سے پہلے مولیٰ کے حرف ’’م‘‘ سے موت اختیار کرے کہ جو آدمی زندگی میں ہی موت اختیار کرتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جاتا ہے جو آدمی مولیٰ کے حرف ’’و‘‘ کو اختیار کرتا ہے وہ واحد فنافی اللہ ہو کر تنہائی اختیار کر لیتا ہے جو آدمی مولا کے حرف ’’ل‘‘ کو اختیار کرتا ہے وہ ترک لعنت اختیار کر لیتا ہے کہ دنیا کا ذکر کرنے سے لعنت نصیب ہوتی ہے اور جو آدمی مولیٰ کے حرف ’’ی‘‘ کو اختیار کرتا ہے وہ مولیٰ سے یگانہ ہو جاتا ہے اور مولا کے سوا کسی اور کی یاری پسند نہیں کرتا‘‘-[28]

27- مومن:

جان لے کے مومن کے بھی چار حروف ہیں یعنی حروف ’’م، و، م، ن‘‘- حرف ’’م‘‘ سے مومن نفاق سے پاک ہوتا ہے، مدام تصدیق القلب، مولیٰ طلب میں غرق اور محبت افزا- یہ شان ہے ایک صاف دل و حیا دار و با ادب مومن کی- حرف ’’و‘‘ سے واحد، وحدانیت میں غرق ماسوی اللہ سے بیزار-’’حرف ’’م دوم‘‘ سے مومن موذی نفس کو مراد لذت ہوا مہیا نہیں کرتا- حرف ’’ن‘‘ سے نیت مومن اس عمل سے بہتر ہوتی ہے یہ ہے مومن کی شان اے مومن تجھ پر سلام ہو!- مومن کا دل ہر وقت رحمت الٰہی کے نور سے پُر رہتا ہے اور ازلی غنائیت و ہدایت کی بدولت ‘‘-[29]

28- نفس امّارہ:

’’نفس کے تین حروف ہیں”ن، ف، س‘‘-حرف ’’ن‘‘ سے نیتِ بد، نالائق، نان طلب،ایمان کش،ناقص اور ناپسند-حرف ’’ف‘‘ سے فریبی،فتنہ پرور، فضیحت پسند، فساد کش اور فاجر- حرف ’’س‘‘ سے سخت، آہن و سنگ سے زیادہ سخت، مخالفِ  رحمان-یہ حقیقت نفسِ امارہ کی ہے جس کے مالک کفار و منافق و کاذب و ظالم دنیادار لوگ ہیں‘‘-[30]

29- نفس مطمئنہ:

’’نفس مطمئنہ کے بھی تین حروف ہیں ’’ن، ف، س‘‘- حرف ’’ن‘‘ سے نالد یعنی رات دن خوفِ خدا میں رونے والا،نہی یعنی اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ باتوں سے پرہیز کرنے والا اور نیکی کو پھیلانے والا،نانِ حلال یعنی حلال کی کمائی کھانے والا،اطاعتِ بے ریا اختیار کرنے والا،ایمان کی سلامتی والا،ناصر التوفیق یعنی توفیقِ الٰہی سے مدد کیا ہوا اور ذکر، فکر و اشتغال اللہ یعنی تصور اسم اللہ ذات کی مدد سے مراقبہ و معرفت و مشاہدۂ نور میں مستغرق-نفس جب نورِ الٰہی میں غرق ہوتا ہے تو مغفور ہوکر نفسِ مطمئنہ بن جاتا ہے کہ اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے-حرف ’’ف‘‘  سے فخر دین، کفر و اسلام کے درمیان ’’تفریق کرنے‘‘ والا فاروق -فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’یہ اس لئے ہے کہ مومنوں کا مولیٰ اللہ ہے اور کافروں کا مولیٰ کوئی نہیں-”اہلِ نفسِ مطمئنہ حق الیقین کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے اور صاحب حق الیقین اُسے کہتے ہیں جسے استغراقِ حق حاصل ہو اور وہ باطل کی طرف متوجہ نہ ہو-حق اسلام ہے اور باطل کفر ہے-اسلام کی بنیاد فقر اور معرفتِ الٰہی ہے،کفر کی بنیاد درمِ دنیا ہے،بدعت کی بنیاد حبِّ دنیا ہے اور ہدایت کی بنیاد حبِّ الٰہی ہے-حرف ’’س‘‘ سے سر راستئ راہ بااِستغراقِ الٰہ یعنی صراطِ مستقیم پر گامزن اور تصورِ اسم اللہ ذات میں غرق، بظاہر مشغولِ سجدہ سجود لیکن بباطن غرق فنافی اللہ بامعبود-ان صفات سے متصف نفسِ مطمئنہ انبیاء و فقراء  کا ہوتا ہے اور بہت کم صاحبِ ولایت اولیاء کا بھی ہوتا ہے‘‘[31]

30- یقین:

’’یقین کے چار حروف ہیں ’’ی، ق، ی، ن‘‘-حرف ’’ی‘‘ سے یقین” یگانۂ حق‘‘کرتا ہے-حرف ’’ق‘‘ سے قربِ حق بخشتا ہے-حرف دوسری ’’ی‘‘سے یکتا بحق کرتا ہے اور حرف ’’ن‘‘ سے نفس کو ہوا و ہوس سے نیست و نابود کرتا ہے‘‘-[32]

حرفِ آخر:

اس مقالہ کا مقصد سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) کی منظرِ عام پر موجود کتب میں مندرج ان الفاظ کے معانی کو پیش کرنا ہے جن کی وضاحت آپ نے حروف تہجی کے تحت کی ہے- ناچیز نے تمام الفاظ کو حذفِ تکرار کے ساتھ اس مقالے میں ایک جگہ جمع کیا ہے تاکہ اہلِ ذوق و اہلِ طلب حضرت سلطان باھوؒ کے بحرِ معانی سے وہ گُہر نکال لائیں جن کی شعاعیں معاشرے میں پھیلتی ظلمت و تاریکی کو مٹا کر انوارِ حق سے منور کر دیں - اللہ تعالیٰ ہمیں اولیائے کاملین بالخصوص حضرت سلطان باھو کی تعلیمات سمجھنے اور ان  پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین

٭٭٭


[1](شرح مختصر الروضة:1/ 128، غاية السول إلى علم الأصول: ص35)

[2](ایضاً)

[3](محک الفقر کلاں، ص: 637)

[4](شمس العارفین، ص: 63)

[5] (شمس العارفین ص :83 )

[6](نور الہدی، ص: 585)

[7](جامع الاسرار، ص: 57)

[8](محک الفقر کلاں، ص: 205)

[9]( محک الفقر کلاں، ص: 83)

[10](مفتاح العارفین، ص: 123)

[11] (محک الفقر کلاں، ص: 529)

[12](کلید التوحید کلاں، ص :649)

[13]( محک الفقر کلاں، ص:607)

[14](ایضاً)

[15](جامع الاسرار، ص: 197)

[16](فضل للقاء،ص: 103)

[17](عین الفقر، ص :225)

[18](محک الفقر، ص: 239)

[19](کلید التوحید کلاں، ص: 561 )

[20](کلید التوحید کلاں، ص :633)

[21]( محک الفقر،ص:193)

[22] (امیر الکونین، ص :357)

[23](امیر الکونین، ص:357)

[24]( محک الفقر کلاں، ص: 491)

[25]( جامع الاسرار، ص: 201)

[26](عین الفقر، ص :225)

[27](کلید التوحید کلاں، ص: 463)

[28](محک الفقر کلاں، ص: 205 )

[29]( کلیدالتوحید کلاں، ص: 463)

[30](کلید التوحید کلاں، ص: 175 )

[31]( کلید التوحید کلاں، ص:175)

[32](کلید التوحید کلاں، ص:555)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر