تذکیہ نفس ، تصفیہ قلب

تذکیہ نفس ، تصفیہ قلب

نفس کی خار دار وادی کو عبور کیے بغیر اللہ عزوجل کا قرب وصال نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے اور اللہ عزوجل کے قرب و وصال اور معرفت و پہچان کا سب سے بڑا ذریعہ ہی تزکیہ نفس اور قلب و روح کی طہارت و پاکیزگی ہے- انبیاء و رسل (علیھم السلام)کی بعثت کامقصد اولین بھی یہی تھا کہ مخلوق کے دلوں کے رشتے کو اللہ پاک سے جوڑا جائے ،ان کے قلوب کو اللہ پاک کے انوار و تجلیات کا مخزن و منبع بنایا جائے اور اپنے پاس حاضرخدمت ہونے والوں کےنفوس کا تزکیہ کیاجائے -

’’تزکیہ نفس و تصفیۂ قلب‘‘ جیسے وسیع ٹاپک کو قرآن و حدیث اور تعلیمات حضرت سلطان باھوؒ کی روشنی میں مختصرا لکھنے کی سعی کرتے ہیں:

’’تزکیہ کا لغوی معانی بڑھنا، بڑھانا، پاک کرنا،اصلاح کرنا وغیرہ ہے ‘‘-[1]

علامہ ابن جریر طبریؒ فرماتے ہیں:

’’أن مَعْنَى ’’التَّزْكِيَّةِ‘‘: اَلتَّطْهِيْرُ‘‘[2]

’’ تزکیہ کامعانی پاک صاف ہوناہے‘‘-

تزکیہِ نفس اور تصفیہِ قلب تعلیماتِ قرآن مجید کی روشنی میں :

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

1-رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْہِمْط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo[3]

’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول(ﷺ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے‘‘-

2-’’کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ‘‘[4]

’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے‘‘-

امام فخر الدین الرازیؒ’’تفسیر کبیر‘‘ میں ’’يُزَكِّيهِمْ‘‘کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتےہیں:

’’{يُزَكِّيهِمْ}أَيْ يُصْلِحُهُمْ، يَعْنِيْ يَدْعُوْهُمْ إِلٰى اِتِّبَاعِ مَا يَصِيْرُوْنَ بِه أَزْكِيَاء ‘‘

’’{يُزَكِّيهِمْ} کا مطلب ہے کہ آقا پا ک (ﷺ)اپنے غلاموں کی اصلا ح فرماتے ہیں یعنی ان کو آپ (ﷺ) ایسی چیزوں کی پیروی کی طرف بلا تے ہیں جو تزکیہ کی طرف لے جا تی ہیں‘‘-

حافظ ابن کثیرؒ تفسیر ابن کثیر میں ’’يُزَكِّيْهِمْ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’{ يُزَكِّيهِمْ} أَيْ: يُطَهِّرُهُمْ مِنْ رَذَائِلِ الْأَخْلَاِق وَدَنَسِ النَّفُوْسِ وَأَفْعَالِ الْجَاهِلِيَّةِ، وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلَمَاتِ إِلَى النُّوْرِ‘‘

’’يُزَكِّيهِمْ‘‘یعنی رسول ِمکرم( ﷺ) اپنے غلا موں کی اخلا ق ِ رذیلہ اورنفوس کی گندگی اور جاہلیت کے افعال سے تطہیر فرماتے ہیں اور آپ (ﷺ) ان کو ظلمات سے نکا ل کر نور کی طرف لے جا تے ہیں ‘‘-

آیت مبارکہ (البقرۃ:151)کی تفسیر میں علامہ غلام رسول سعیدی صاحب رقمطراز ہیں:

’’ایک سوال یہ ہے کہ اس آیت میں تزکیہ، کتاب اور حکمت پر مقدم ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا----)میں مؤخر ہے کیونکہ انہوں نے کہا ’’ان میں ان ہی میں سے ایک رسول عظیم رسول (ﷺ)بھیج دے جو ان پر تیری آیتوں کی تلاوت کرے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے ‘‘-[5]

اس کا جواب یہ ہے کہ تزکیہ کتاب اور حکمت کی تعلیم کیلیے علت غائیہ ہے اور علت غائیہ ذہن میں مقدم ہوتی ہے اور خارج میں موخر ہوتی ہے-کتاب اور حکمت کی تعلیم کی غرض اور غایت یہ ہے کہ انسان کے ظاہر و باطن کی اصلاح ہو لہٰذا جس تزکیہ اور اصلاح کے لیے تعلیم دی جاتی ہے ،اس سے پہلے ذہن میں اس کا تصور ابھرے گا، پھر اس کے حصول کے لیے آیتوں کی تلاوت کی جائے گی اور کتاب اور سنت کی تعلیم دی جائے گی،پھر اس کے نتیجہ میں ظاہر و باطن کی اصلاح عمل اور وجود میں آئے گی اس آیت میں وجود ذہنی کے لحاظ سے تزکیہ کو مقدم کیا ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا میں وجود خارجی کے لحاظ سے تزکیہ کو مؤخر کیاہے ،اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قوت نظریہ کے کمال کے بعد قوت عملیہ کاکامل ہونا یا اصلاح عمل ہونا اور ظاہر و باطن کا نیک ہونا تزکیہ ہے-

3:اللہ پاک کا کوئی فرمان مبارک بغیر تاکید کے بھی اپنی مثال آپ ہے اور بے مثل و بے نظیر ہے،لیکن اللہ پاک جب اپنے کسی کلام کو مؤکد فرما دیں تو اس کی اہمیت کو مزید چار چاند لگ جاتے ہیں-پھر جتنی تاکید بڑھتی جائے گی اس کی اہمیت اور بڑھتی جائے گی -آپ غورکریں کہ اللہ پاک نے ایک جگہ نفس کی حالتوں کا ذکر فرمایا تو ان الفاظ میں ارشاد فرمایا :

’’وَ الشَّمْسِ وَضُحٰہَاo وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَاo وَ النَّہَارِ اِذَا جَلّٰہَاo وَ الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَاo وَ السَّمَآئِ وَمَا بَنٰـہَاo وَ الْاَرْضِ وَمَا طَحٰہَاo وَنَفْسِ وَّمَا سَوّٰہَاo فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَاo قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَاo وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا‘‘[6]

’’سورج کی قَسم اور اس کی روشنی کی قَسم اور چاند کی قَسم جب وہ سورج کی پیروی کرے (یعنی اس کی روشنی سے چمکے)اور دن کی قَسم جب وہ سورج کو ظاہر کرے (یعنی اسے روشن دکھائے)اور رات کی قَسم جب وہ سورج کو (زمین کی ایک سمت سے) ڈھانپ لےاور آسمان کی قَسم اور اس (قوت) کی قَسم جس نے اسے (اذنِ الٰہی سے ایک وسیع کائنات کی شکل میں) تعمیر کیااور زمین کی قَسم اور اس (قوت) کی قَسم جو اسے (امرِ الٰہی سے سورج سے کھینچ دور) لے گئی اور انسانی جان کی قَسم اور اسے ہمہ پہلو توازن و درستگی دینے والے کی قَسم-پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی-بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)‘‘-

یہاں اگر مذکورہ آیات مبارکہ میں غورکریں تو قاری پہ نفس کے تزکیے کی اہمیت بالکل واضح ہوجائے گی کہ اللہ عزوجل نے آٹھ قسمیں کھانے کے بعد ارشاد فرمایا :

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَاo وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا‘‘o

محی السنةابو محمد حسين بن مسعود البغویؒ ’’تفسیر معالم التنزیل‘‘ میں ’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا‘‘ کی تفسیر میں حضرت امام حسن بصریؒ کا قول مبارک نقل فرماتے ہیں:

’’مَعْنَاہُ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّی نَفْسَہ فَاَصْلَحَھَا وَ حَمَلَھَا عَلی طَاعَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلّ‘‘

’’اس کا معنی یہ ہے بے شک وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اور اس کی اصلاح کر لی اور اس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر آمادہ کر لیا‘‘ -

4-’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی‘‘[7]

’’بیشک اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا‘‘-

حافظ ابن کثیرؒ ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں ’’قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى‘‘کے تحت فرماتے ہیں:

’’أَيْ: طَهَّرَ نَفْسَهٗ مِنَ الْأَخْلَاقِ الرَّذِيْلَةِ‘‘

’’یعنی اس نے اپنے نفس کو اخلا قِ رذیلہ سے پا ک کر لیا‘‘-

امام فخرالدین رازیؒ ’’تفسیر کبیر‘‘ میں اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’إِشَارَةٌ إِلَى تَطْهِيْرِ النَّفْسِ عَنْ كُلِّ مَا لَا يَنْبَغِيْ‘‘

’’قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى‘‘یہ اشارہ ہے نفس کی ہر غیر ضروری چیز سے پا کیزگی کی طرف‘‘-

5-’’وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِىَ الْمَأْوٰى‘‘[8]

’’اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھاتو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہو گا‘‘-

نفس کی عموماً چار حالتیں بیان کی جاتی ہیں-’’امارہ، ملہمہ، لوامہ اور مطمئنہ‘‘ اور ان چاروں کا ذکر قرآن پاک میں مذکور ہے جیسا کہ اللہ پاک کے فرامین مبارکہ ہیں:

1:’’ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبّیْ‘‘[9]

’’بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے‘‘-

یہ نفس کی خبیث ترین صورت ہے ،اس حالت میں اس سے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی-اسی موذی نفس کے بارے میں حضور سلطان العارفینؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’نفس ِامارہ کو اُس کے اعمال کے مطابق کتے، خنزیر، ریچھ، سانپ، بچھو اور بیل و گدھے سے تشبیہ دی گئی ہے‘‘- [10]

2: فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَ تَقْوٰىہَا

’’پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی‘‘-

اس مقام پہ فائز نفس کو ’’ملہمہ‘‘ کانام دیاجاتاہے -

3:’’ وَ لَاْ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ‘‘[11]

’’اور میں قسم کھاتا ہوں (برائیوں پر) ملامت کرنے والے نفس کی‘‘-

4: یٰاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ‘‘[12]

’’اے اطمینان پا جانے والے نفس‘‘-

جب نفس اللہ پاک کے ذکر سے اطمینان حاصل کر لیتا ہے تو اللہ پاک نے اس کے اگلے مقامات کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :

’’ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً‘‘[13]

’’تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)‘‘-

جب وہ خوش بخت روح اللہ پاک کی رضا کے حصول کو یقینی بنالیتی ہے تو اس کے اگلے مقامات کا اللہ پاک نے ان الفاظ میں تذکرہ فرمایا ہے-

’’فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ‘‘[14]

’’پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا‘‘-

6:یہ بات ذہن نشین رہے کہ تزکیہ نفس کا سارا دارو مدار اللہ عزوجل کے فضل و کرم پہ ہے، جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان مبارک ہے:

’’اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَہُمْط بَلِ اللہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآءُ‘‘[15]

’’کیا آپ نے ایسے لوگوں کو نہیں دیکھا جو خود کو پاک ظاہر کرتے ہیں بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک فرماتا ہے‘‘-

ایک اورآیت پاک میں فرمان مبارک ہے :

7:’’وَ لَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا  ۙ وَّ لٰکِنَّ اللہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآءُ‘‘[16]

’’اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی (اس گناہِ تہمت کے داغ سے) پاک نہ ہو سکتا لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک فرما دیتا ہے‘‘-

8:خواہش نفس کی پیروی کا لازمی نتیجہ نورِ بصیرت سے محرومی، قلب و روح کی حقیقت سے دور ہونے اور اللہ پاک کے انوار و تجلیات سے دور ہونے کی صورت میں ہوتا ہے جیسا کہ اللہ پاک نے ارشادفرمایا :

’’اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ وَ اَضَلَّہُ اللہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَ قَلْبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشَاوَۃًط فَمَنْ یَّہْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اللہِط اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ‘‘[17]

’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور اللہ نے اسے علم کے باوجود گمراہ ٹھہرا دیا ہے اور اس کے کان اور اس کے دل پر مُہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے، پھر اُسے اللہ کے بعد کون ہدایت کر سکتا ہے، سو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے‘‘-

9:قیامت کے دن اولادِ آدم کی کامیابی کا معیار ان کے قلوب کا تصفیہ اور ان کا غیر ماسوی اللہ سے پاک ہونا ہے جیسا کہ  اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

’’یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَoاِلَّا مَنْ اَتَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ‘‘o[18]

’’جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے مگر وہ جو اللہ عزوجل کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر‘‘-

10:ناکامی و نامرادی کا طوق گلے میں ڈال کرجہنم کے گڑھوں کا بھی اسے مستحق ٹھہرایا گیا،جنہوں نےخواہشاتِ نفسانیہ کی پیروی کرکے اپنے دلوں کو تصفیہ کی دولت سے محروم رکھا-جیساکہ اللہ پاک نے ارشادفرمایا :

’’وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا سکتہ  وَ لَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا سکتہ وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ‘‘[19]

’’کثیر تعداد جنوں اور انسانوں کی ایسی ہے جن کا ٹھکانہ جہنم ہوگا انہیں دِل عطا کیے ہیں وہ دِل کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور ان کی آنکھیں ہیں ان سے دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں ان سے سنتے نہیں وہ جانوروں کی مثل ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں یہی لوگ غافل ہیں‘‘-

11:دنیامیں انسان اگر دل کا تصفیہ نہ کرسکے اور اس پر اللہ عزوجل کا رنگ چڑھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہوں کازنگ چڑھ جائےتو اس کا نتیجہ بھی بروزِ محشر ناکامی کی صورت میں ہوگاجیساکہ اللہ عزوجل کا فرمان مبارک ہے :

’’کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ کَلَّآ اِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ‘‘ [20]

’’(ایسا) ہر گز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تھے (اس لیے آیتیں ان کے دل پر اثر نہیں کرتیں)-حق یہ ہے کہ بے شک اس دن انہیں اپنے رب کے دیدار سے (محروم کرنے کے لیے) پسِ پردہ کر دیا جائے گا-

تزکیہ نفس و تصفیہ قلب

احادیث مبارکہ کی روشنی میں:

1:حضرت فَضالہ بن عُبَید (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حجۃ الوداع کے موقع پہ ارشادفرمایا :

’’اَلْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهٗ فِي طَاعَةِ اللهِ‘‘ [21]

’’مجاہد وہ شخص ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرتا ہے‘‘-

2:ایک مرتبہ حضور نبی کریم (ﷺ) جہادسے واپس تشریف لائے تو آپ (ﷺ) نے اپنے صحابہ کرام (علیھمم السلام) سے ارشادفرمایا:

’’ أَتَيْتُمْ مِّنَ الْجِهَاد ِالْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْأَكْبَرِ‘‘

’’تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف آئے ہو‘‘

صحابہ کرام (علیھم السلام) نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)! جہادِ اکبر کیا چیز ہے؟

رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مُجَاهِدَةُ النَّفْسِ‘‘[22]                            ’’(وہ)نفس کا مجاہدہ کرنا ہے‘‘-

ملاعلی قاریؒ اس حدیث پاک کی  شرح  میں یوں فرماتے ہیں:

’’(وَالْمُجَاهِدُ) أَيِ الْحَقِيقِيُّ ( مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللهِ) إِذْ هُوَ الْجِهَادُ الْأَكْبَرُ(وَالْمُهَاجِرُ) أَيِ الْكَامِلُ (مَنْ هَجَرَ الْخَطَايَا وَالذُّنُوبَ) أَيْ تَرَكَ الصَّغَائِرَ وَالْكَبَائِرَ‘‘[23]

’’اور حقیقی مجاہد وہ ہوتاہے جواللہ عزوجل کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرتاہے کیونکہ یہ جہاد اکبر ہے اور کامل مہاجر وہ ہے جو خطاؤں اورگناہوں کو چھوڑ دیتا ہے یعنی صغیرہ کبیرہ گناہ ترک کردیتاہے ‘‘-

ملاعلی قاریؒ جہاد اکبر کی وضاحت کرتے ہوئے  لکھتے ہیں کہ:

’’لِأَنَّ النَّفْسَ كَالْمَلِكِ فِي دَاخِلِ الْإِنْسَانِ، وَ عَسْكَرُهُ الرُّوحُ الْحَيَوَانِيَّةُ وَالطَّبِيعِيَّةُ وَالْهَوَى وَالشَّهْوَةُ وَ هِيَ فِي نَفْسِهَا عَمْيَاءُ لَا تُبْصِرُ الْمَهَالِكَ وَلَا تُمَيِّزُ الْخَيْرَ مِنَ الشَّرِّ إِلَى أَنْ يُنَوِّرَ اللهُ بِلَطِيْفِ حِكْمَتِهِ بَصِيرَتَهَا فَتُبْصِرُ الْأَعْدَاءَ وَالْمَعَارِفَ---‘‘

’’کیونکہ نفس باطنی انسان میں بادشاہ کی حیثیت رکھتاہے اور اس کا لشکر حیوانی و طبیعی روح، خواہشاتِ نفسانیہ اور شہوت ہیں؛ اور نفس کا حال یہ ہے کہ یہ بالکل اندھا ہوتا ہے اور ہلاکتوں کو نہیں پہچان سکتا اور نہ خیر کی شر سے تمیز کر سکتا ہے یہاں تک اللہ پاک اپنی حکمت کی لطافت سے اس کی بصیرت کو روشن فرما دے تو پھر تو دشمنوں اورمعارف کو پہچانے گا----‘‘

’’وَ أَمَّا جِهَادُ الْقَلْبِ فَتَصْفِيَتُهُ وَقَطْعُ تَعَلُّقِهِ عَنِ الْأَغْيَارِ، وَجِهَادُ الرُّوحِ بِإِفْنَاءِ الْوُجُودِ فِي وُجُودِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ‘‘[24]

’’اور جہاں تک قلبی جہاد کا تعلق ہے تو دل کا تصفیہ اوراس کو ماسوی اللہ سے پاک کرنا ہے اور روح کا جہاد وجود کواللہ عزوجل واحد قہار کے (شایانِ شان) وجود میں فناء کرنا ہے‘‘-

3:حضرت محمد بن کعب (رضی اللہ عنہ) روایت بیان فرماتے ہیں:

’’إِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدٍ خَيْرًا فَقَّهَهُ فِي الدِّينِ، وَزَهَّدَهُ فِي الدُّنْيَا، وَبَصَّرَهُ عَيْبَهُ فَمَنْ أُوتِيَ هَذَا فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ‘‘[25]

’’جب اللہ پاک کسی بندے کے بارے میں بھلائی کاارادہ فرماتاہے تواس کو دین کی فہم عطافرماتاہے -دنیامیں زہد عطا فرماتا ہے اور اسے اپنے عیوب پہ مطلع فرماتا ہے-پس جس (خوش قسمت)کو یہ چیزیں عطا کی گئی اس کو دنیا اور آخرت کی بھلائی عطا کی گئی‘‘-

4:جن لوگوں کو اللہ پاک اپنےعیوب پہ مطلع فرماتاہے اور وہ اپنے آپ مجاہدہ نفس کی بھٹی سے اپنے آپ کو گزارلیتے ہیں اور اپنے آپ کو نفسِ مطمئنہ کے مقام پہ فائز کرلیتے ہیں-ان کی حالت حدیث مبارک میں یوں بیان کی گئی ہے-

حضرت حارث بن مالک انصاری(رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ:

’’ایک مرتبہ وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے پاس سے گزرے تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: اے حارث! تونے کیسے صبح کی؟

انہوں نے عرض کیا: میں نے سچے مومن کی طرح یعنی(حقیقت ایمان کے ساتھ)صبح کی

آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا : اے حارث! دیکھ تو کیا کَہ رہا ہے؟ ’’حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا: یقیناً ہر ایک شےکی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہےسو تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ عرض کیا یارسول اللہ (ﷺ) میرا نفس دنیا سے بے رغبت ہوگیا ہے اور اسی وجہ سے اپنی راتوں میں بیدار اور دن میں(دیدارِ الٰہی کی طلب میں) پیاسا رہتا ہوں اور حالت یہ ہے گویا میں اپنے رب کےعرش کو سامنے دیکھ رہا ہوں اور گویا کہ مَیں جنت میں اہل جنت کو ایک دوسرے سے ملتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور گویا کہ مَیں، دوزخ میں، دوزخیوں کو تکلیف سے چلاتے دیکھ رہا ہوں‘‘-

’’حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’يَا حَارِثُ عَرَفْتَ فَالْزَمْ  ثَلاثًا‘‘[26]

’’اے حارث! تو نے(حقیقت ایمان کو) پہچان لیا، اب (اس سے) چمٹ جا-یہ کلمہ آپ (ﷺ) نے تین مرتبہ فرمایا‘‘-

5:صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کایہ معمول مبارک تھا کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی نگاہِ ناز و رفاقت مبارک سے جوتزکیہ نفس اور تصفیہ قلب نصیب ہوا وہ اس کو متاعِ بے بہا سمجھ کر دنیا کی ہر چیز پہ اس کو فوقیت دیتے اور نہ صرف اس کی حفاظت کرتے بلکہ ہر لمحہ اس میں اضافے کے خواہش مند رہتے-جیسا کہ روایت مبارک میں ہے :

’’ایک دن حضرت حنظلہ (رضی اللہ عنہ) ایک خاص احتسابی کیفیت میں سوچتے سوچتے رونے لگے اور اسی حالت میں سیدنا حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس سے گزرے تو رو رہے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: اے حنظلہ! تمہیں کیا ہوا؟حضرت حنظلہ (رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا : ’’اے ابوبکر! حنظلہ منافق ہوگیا ہے‘‘-

حضرت حنظلہ(رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں ہم نبی کریم (ﷺ) کی مجلس مبارک میں ہوتے ہیں اور آپ (ﷺ) ہم سے دوزخ و جنت کا ذکر فرماتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں پھر جب ہم اپنی حرم اور مال واسباب کی طرف لوٹتے ہیں تو اکثر باتیں بھول جاتے ہیں-حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ)  نے یہ ساری بات سن کر فرمایا ! اللہ کی قسم! میرا بھی یہی حال ہے-(آؤ) میرے ساتھ حضورنبی کریم (ﷺ) کے پاس چلو-

حضرت حنظلہ(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں پس ہم دونوں حضور رسالت مآب (ﷺ) کی بارگاہ مبارک میں چلے گئے جب رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے غلام کو دیکھا تو ارشاد فرمایا :اے (میرے ) حنظلہ تجھے کیا ہوا؟

حضرت حنظلہ (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی ’’یا رسول اللہ (ﷺ)!   حنظلہ منافق ہوگیا‘‘-

(اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے عرض کرتے ہیں )

’’یا رسول اللہ (ﷺ)! جب ہم آپ(ﷺ) کے پاس ہوتے ہیں اور آپ (ﷺ) ہمیں وعظ و نصیحت میں جنت ودوزخ کا ذکر فرماتے ہیں(ایسا معلوم ہوتا ہے)گویا کہ ان دونوں کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جب ہم واپس لوٹتے ہیں اور بیویوں اور مال و اسباب میں مصروفیت کی وجہ سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں (تو وہ کیفیت باقی نہیں رہتی )‘‘-

حضرت حنظلہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں (کہ آقاکریم (ﷺ) نے میری ساری بات تفصیل سے سنی اور پھر) ارشاد فرمایا :

’’لَوْ تَدُوْمُوْنَ عَلَى الْحَالِ الَّذِىْ تَقُوْمُوْنَ بِهَا مِنْ عِنْدِىْ لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلاَئِكَةُ فِىْ مَجَالِسِكُمْ وَفِىْ طُرُقِكُمْ وَعَلَى فُرُشِكُمْ وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً ‘‘[27]

’’اگر تم اسی حال پر باقی رہو جس حال میں میرے پاس ہوتے ہو تو فرشتے تمہاری مجلسوں، بستروں اور راستوں میں تم سے ہاتھ ملائیں لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے‘‘-

6:انسانی بدن میں دل کو اہم مقام حاصل ہے اس کے تصفیہ پہ پورے بدن کی اصلاح کا دار و مدار ہے جیساکہ رسول اللہ(ﷺ) نے ارشادفرمایا :

 أَلَا وَ إِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً، إِذَا صَلَحَتْ، صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَ إِذَافَسَدَتْ، فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَ هِيَ الْقَلْبُ‘‘[28]

’’خبردار جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہے تو سارا جسم صحیح ہے اور اگر وہ فاسد تو سارا جسم فاسد ہے خبردار وہ دل ہے‘‘-

7:ایک مقام پہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے دل کے تصفیہ کی طرف رہنمائی فرماتے ہوئے ارشادفرمایا :

’’حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) حضور نبی کریم (ﷺ) سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’لِكُلِّ شَيْءٍ صِقَالَةٌ وَصِقَالَةُ الْقُلُوبِ ذِكْرُ اللهِ‘‘ ’’ہرچیزکوصاف کرنے والاکوئی نہ کوئی آلہ ہوتاہے اور دلوں کو صیقل کرنے کے لیے اللہ پاک کا ذکرہے‘‘-

اس حدیث مبارک کی تشریح میں ملا علی قاریؒ رقم طرازہیں کہ :

’’ہر چیز جب اس پہ زنگ چڑھ جائے تواس کوحقیقی یا مجازی طور پر صیقل یعنی روشن، صاف، اس کا تزکیہ اور تصفیہ کرنے کیلیے امام ابن حجر عسقلانیؒ کے مطابق کوئی آلہ ہوگا جس کے ذریعے اس کا زنگ اترے گا اور اس کی میل کچیل دور ہوگی-دلوں کوصیقل کرنے کیلیے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے کیونکہ دل سے اللہ عزوجل کے ذکر کے ذریعے اغیار کا غبار اترتا ہے اور دل (انوارِ الہیہ)کے آثار کامطالعہ کرنے کا آئینہ بن جاتا ہے‘‘ -[29]

تزکیہ نفس و تصفیہ قلب تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کی روشنی میں:

حضورسلطان العارفینؒ کے اقوال مبارکہ سے پہلے آپؒ کے مرشد اکمل محبوب سبحانی،قطب ربانی، شہبازِ لامکانی سیدنا الشیخ عبد القادر جیلانیؒ کا نفوس کی انہی کیفیات کے بارے میں نہایت جامع و مانع قول مقدس نقل کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں-آپؒ ارشاد فرماتے ہیں :

’’ایک مرتبہ رسول اللہ (ﷺ) نے بعض صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) سے ارشاد فرمایا:

’’اَعْدٰی اَعْدَاءِكَنَفْسُکَ الَّتِیْ بَیْنَ جَنْبَیْکَ‘‘

’’تمہارا سب سے بڑادشمن تمہارانفس ہے جوتمہارے دونوں پہلوؤں کےدرمیان ہے‘‘-

’’تم اس وقت تک اللہ عزوجل کی محبت نہیں جیت سکتے جب تک کہ اپنے اندرونی دشمنوں نفس امارہ، نفس لوامہ، نفس ملہمہ کو زیر نہیں کر لیتے اور تمہارا وجود اخلاقِ ذمیمہ وبہیمہ مثلاً زیادہ کھانے پینے، زیادہ سونے اور لغویات وغیرہ کی محبت اور عادات ِ وحشیانہ مثلاً قہر و غضب،گالی گلوچ اور مار پیٹ وغیرہ اور اخلاق ِ شیطانیہ مثلاً کبر و عجب و حسد وکینہ اور ان جیسی دیگر بدنی وقلبی آفات سے پاک نہیں ہو جاتا‘‘- [30]

 حضرت سلطان باھوؒ اصلاح ِنفس کے بارے میں فرماتے ہیں :

راحتی گر خویش خواہی نفس را گردن بزن
گر وصالِ حق بخواہی بگزر ز فرزند و زن[31]

’’ اگر تُو آسودگی چاہتا ہے تو نفس کی گردن مار دے اور اگر تُو وصالِ حق چاہتا ہے تو بیوی بچوں کا خیال دل سے نکال دے‘‘ -

آپؒ طالب کو نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’طالب اللہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر دم، ہر گھڑی اور ہر وقت نفس کی مخالفت کرتا رہے اور کسی وقت بھی اُس سے غافل نہ رہے کہ نفس کافر ہے، اُس سے ہر حال میں دشمنی و جنگ جاری رکھے خواہ حالت ِخواب میں ہو یا بیداری میں، مستی میں ہو یا ہوشیاری میں کہ یہ چور دشمن ِجان ہے اور راہِ حق کا راہزن زیاں کار ہے، اِس کو اطمینان سے نہ رہنے دے‘‘- [32]

اوپر جس طرح قرآن پاک کی تعلیمات کی روسے نفس کی چار بنیادی اقسام کا ذکرکیا گیا -آپؒ نے نفس کی اقسام کا ذکرفرماتے ہوئے ارشادفرمایا :

’’نفس دو قسم کا ہے جس طرح کہ آدمی کا وجود دو قسم کا ہوتا ہے یعنی وجودِ لطیف اور وجودِ کثیف- وجودِ کثیف اُن لوگوں کا ہے جن کا نفس امارہ یا لو امہ یا ملہمّہ ہے-امارہ راہزن شیطان کانام ہے، اُس کے تابع لوامہ ہے اور لوامہ کے تابع ملہمّہ ہے- اِن تینوں کا ایک دوسرے سے اتفاق ہے وجودِ لطیف اُن لوگوں کا ہے جن کانفس مطمئنہ ہے اور مطمئنہ اُسے کہتے ہیں جو ظاہر باطن میں اطاعت گزار ہو‘‘-[33]

آپؒ کی تعلیمات کے مطابق مرشد کامل کا کام ہی سیدنا رسول اللہ (ﷺ) کی سنت مبارکہ پہ عمل ہو کر طالبان ِ مولیٰ کے نفوس کا تزکیہ،قلوب کا تصفیہ اور ارواح کو جِلا بخشنا ہے جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:

’’مرشد پہلے ہی روز تصورِ اسم اللہ ذات کی حاضرات سے طالب کے نفس کا تزکیہ، قلب کا تصفیہ اور رُوح و سِرّ کا تجلیہ کرکے نفس و قلب و رُوح و سِرّ کو مطلق نور کر دیتا ہے‘‘- [34]

جو شخص اسم اللہ ذات کی برکت سے صاحب نور ہو جاتا ہے تو اس کے مقام و مرتبے کی وضاحت آپؒ یوں فرماتے ہیں :

’’پس معلوم ہوا کہ صاحب ِنور کو تزکیۂ نفس حاصل ہو تا ہے اور وہ نفس ِ مطمئنہ بن کر نور ہو جاتا ہے، اُس کا قلب تصفیہ حاصل کر کے نور ہو جاتا ہے، اُس کی روح متجلی ہو کر نور ہو جاتی ہے اور اُس کا سِرّ اسرارِ ربانی کا مشاہدہ نما ہو جاتا ہے-قرب ِخدا کی بدولت اُس کا تجلیہ ہو جاتا ہے-سر سے لے کر قدم تک وہ شخص صاحب ِنور ہوتا ہے کہ جس سے کارِ ناشائستہ سر زد نہیں ہوتےجو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا منظورِ نظر ہوتا ہے اور جسے مجلس ِمحمدی (ﷺ)کی دائمی حضوری حاصل ہو تی ہے‘‘-[35]

جب طالب مرشد کامل سے’’اسم اللہ ذات‘‘ کی دولتِ جاودانی حاصل کر لیتا ہے تو اس کی برکت سے جو کیفیت نصیب ہوتی ہے اس  کے متعلق آپؒ ارشادفرماتے ہیں:

’’جان لے کہ تصورِ اسم اللہ ذات سے نفس تزکیہ حاصل کر کے صفاتِ مطمئنہ سے متصف ہوجاتا ہے اور دل صفائی پکڑتا ہے دل صفائی پا کر تجلیۂ روح حاصل کرتا ہے اور تجلیۂ روح تجلیۂ سِرّ حاصل کرتی ہے - جب یہ چاروں (نفس، قلب ، روح ، سِرّ) باہم متفق ہو کر ایک ہوجاتے ہیں تو صاحب ِنفس اپنے نفس پر غالب و حاکم ہو جاتا ہے- یہ مراتب فنا فی اللہ فقیر کے ہیں -فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’اور وہ داخل ہوا اپنی جنت میں اپنے نفس کو مغلوب کر کے‘‘ -[36]

مزید ارشاد فرمایا :

’’اِسی طرح طالب اللہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دماغ میں تصورِ اسمِ اللہ اورتصورِ اسمِ محمد (ﷺ)سے تصرف کرے تاکہ اُس کے مغز میں ذکر ِ روح و ذکر ِسرّ کی تپش سے ایسی آگ بھڑکے جو اُسے خلافِ نفس و خلافِ زن و خلافِ دنیا و خلافِ شیطان کر دے- جب اِن چاروں کی مخالفت سے طالب کا وجود آراستہ ہو جاتا ہے تو نفس کا تزکیہ ہو جاتا ہے،نفس سے متصل قلب کا تصفیہ ہو جاتا ہے، قلب سے متصل روح کا تجلیہ ہو جاتا ہے اور روح سے متصل سرّ کا تخلیہ ہو جاتا ہے ‘‘- [37]

نفوس کاتزکیہ کن لوگوں کوحاصل ہوتاہے-اس کی وضاحت آپؒ یوں فرماتے ہیں :

’’جو شخص دنیا میں مست مردہ دل لوگوں سے علیحدگی اختیار کر تا ہے اُس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور نفس قطعی مر جاتا ہے-یوں اُس کے نفس کا مرنا اور قتل ہونااُ سے سکون و قرار بخشتا ہے کہ اِس سے اُسے شر ک و کفر و کبر و خصائل ِبد سے نجات مل جاتی ہے-گویا نفس کی موت اور اعمالِ صالحہ سے اُسے تزکیہ حاصل ہوتا ہے اور وہ لذاتِ دنیا اور اہل ِدنیا کے میل جو ل سے توبہ کرلیتا ہے، مصفا قلوب اور مقد س ارواح سے اُنس رکھتا ہے اور عبادت و معرفت ِاِلٰہی میں محو ہو کر نفس ِمطمئنّہ حاصل کر لیتا ہے‘‘-

آپؒ ایک اور مقام پہ رقمطراز ہیں:

’’آدمی کو تزکیۂ نفس، تصفیہ ٔ قلب، تجلیۂ روح اور تخلیۂ سرّ علم سے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا چاہے ہزاراں ہزار و بے شمار علمی کتابیں پڑھ لی جائیں- پس اے صاحب ِ فضیلت عالم!(اگر قربِ ربانی کا خواہاں ہے تو) تُو راہِ وسیلت اختیار کر -

مرد مرشد را طلب کُن راہبر
تا دہد از حق ترا کُلِّی خبر[38]

’’اپنی راہنمائی کے لئے کسی مرد مرشد کو تلاش کر تاکہ وہ تجھے راہِ حق کی ہر خبر سے آگاہی بخشے‘‘ -

خلاصہ کلام:

اللہ عزوجل کے ہر مقرب بندے نے حضور رسالت مآب (ﷺ) کی سنت مبارک ’’تَنَامُ عَيْنِي وَلاَ يَنَامُ قَلْبِي‘‘[39] پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے دلوں کو اللہ عزوجل کے ذکر سے جگمگایا-علامہ محمد اقبالؒ اپنے کلام میں عشق اور اثر انگیزی کی حقیقت بیان کرتے ہوئے ایک مقام پہ ارشاد فرمایا:

شوق مری لے میں ہے، شوق مری نے میں ہے
نغمہ ’’اللہ ھو‘‘ میرے رگ و پے میں ہے

اس لیے جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ پاک کے قرب و وصال کی منازل کو پائے اسے چاہیے کہ’’اَلرَّفِيْقُ ثُمَّالطَّرِيْق‘‘ پہ عمل پیرا ہو کر سب سے مرشد کامل کے زیرِ نگرانی راہ فقر اختیار کرے اور دل کا اللہ عزوجل کے ذکر مبارک سے تصفیہ کرے-تاکہ ہمارے قلوب و اذہان اللہ عزوجل و عشق ِ مصطفےٰ (ﷺ) کے محور و مرکز بن سکیں-

آج میرے مرشد کریم حضور جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمدعلی (مدظلہ سالاقدس)کی تمام مساعی جمیلہ کی غایت اولیٰ بھی یہی ہے کہ اپنی خدمت میں حاضر ہونے والوں کو اسم اللہ ذات عطا فرما کر نفوس کا تزکیہ اور قلوب کا تصفیہ کر کے اللہ عزوجل کے عرفان اور قرب و وصال سے بہرہ ور کیا جائے اور پیغام ِ محمدی (ﷺ)ہرخاص و عام تک پہنچایا جائے- اس مشن اور مقصد کی تکمیل کیلیے جہاں سال بھر مختلف اوقات میں سالانہ اجتماعات کا انعقاد کیا جاتا ہے وہاں اصلاحی جماعت مبلغین اور کارکنان اس دعوت کو عوام الناس تک پہنچانےمیں کوشاں رہتے ہیں-

یا الٰہی دل کی یہ آرزو ہے اگر منظور ہو جائے
اسم اللہ سے ہر مومن کا دل پر نور ہو جائے

٭٭٭


[1]( المنجد: تحت حرف الزاء)

[2](تفسیر الطبری، زیر آیت، البقرۃ: 129)

[3](البقرۃ:129)

[4](البقرۃ:151)

[5](تبیان القرآن، ج:1، ص:616)

[6](الشمس:1-10)

[7]( الاعلیٰ:14)

[8](النازعات:40-41)

[9](یوسف:53)

[10](محک الفقر کلاں)

[11]( القیامۃ:2)

[12](الفجر:27)

[13](الفجر:28)

[14](الفجر:29-30)

[15](النساء:49)

[16](النور:21)

[17](الجاثیہ:23)

[18](الشعراء88۔89)

[19](الاعراف:179)

[20](المطففین:14-15)

[21](مسند احمد، مُسْنَدُ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ الْأَنْصَارِیؓ)

[22](شرح صحیح بخاری لابن بطالؒ، بَاب مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِى طَاعَةِ اللہِ)

[23](مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان)

[24](ایضاً)

[25](مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفرائض)

[26](المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث: 3289)

[27]( سنن الترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ)

[28](صحیح مسلم،کتاب المساقات)

[29](مرقاۃ المفاتیح، باب: ذِكْرِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَالتَّقَرُّبِ إِلَيْهِ)

[30](سرالاسرار)

[31](عین الفقر، باب چہارم)

[32](ایضاً)

[33](ایضاً)

[34](کلیدالتوحید(کلاں)

[35](ایضاً)

[36](خوردمجالسۃ النبی(ﷺ)

[37](محک الفقر(کلاں)

[38](ایضاً)

[39](میری آنکھ سوتی ہے، دل نہیں سوتا-(صحیح بخاری)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر