شمس العارفین : قسط 04

شمس العارفین : قسط 04

آدمی کے وجود میں دو دم ہوتے ہیں، ایک اندر جاتا ہے اور دوسرا باہر آتا ہے - اندر جانے والے دم پر مقرر مؤکل فرشتہ بارگاہِ حق تعالیٰ میں عرض کرتاہے: ’’خدا وندا! اِس دم کو اندر ہی قبض کر لوں یا باہر آنے دوں؟ ‘‘اور باہر آنے والے دم پر مقرر فرشتہ بھی ایسے ہی عرض کرتاہے- پس ہر آنے جانے والے دم پر بارگاہِ رب العٰلمین میں ایسے ہی عرض گزاری جاتی ہے- جو دم تصورِ اسمِ اللہ ذات کے ساتھ باہر آتا ہے وہ ایک خاص نوری صور ت میں ڈھل جاتا ہے اور بارگاہ ِالٰہی میں ایک نایاب موتی بن کر پہنچتا ہے- اگر دونوں جہان کی تمام دولت اور دنیا و بہشت کی جملہ متاع جمع کر لی جائے تو اُس ایک گوہرِ دم کی قیمت کے برابر نہیں ہو سکتی کہ وہ گوہرِ دم بے حد قیمتی ہے - اِسی لئے تو فقراء کو اللہ تعالیٰ کے خزائن ِگوہر کا خزانچی کہا جاتا ہے- اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس- لیکن طالب اللہ کو چاہیے کہ پہلے وضو کرے ، پاک لباس پہنے، خالی جگہ تلاش کرے اور قبلہ کی طرف منہ کر کے قعدہ کی صورت میں بیٹھ جائے - پھر جب متوجہ باستغراق ہو کر اشتغال اللہ شروع کرنا چاہے تو دونوں آنکھیں بند کر کے مراقبہ کرے اور اسمِ اللہ ذات میں تفکر کرے لیکن شروع کرنے سے پہلے طالب اللہ کو چاہیے کہ ظاہر باطن میں شیطان کا راستہ بند کردے اور خطراتِ نفسانی سے خود کو محفوظ کر لے، اِس کے لئے طالب کو چاہیے کہ تین مرتبہ آیت الکرسی پڑھے، پھر تین مرتبہ درود شریف، تین مرتبہ بسم اللہ شریف ، تین مرتبہ’’سَلٰمٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمِ‘‘، تین تین مرتبہ چاروں قل شریف، تین مرتبہ سورۃ فاتحہ، تین مرتبہ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ  وَ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاللّٰہِالْعَلِیُّ الْعَظِیْمِ‘‘تین مرتبہ ’’اَسْتَغْفِرُوااللّٰہَ تَعَالٰی رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَ تُوْبُ اِ لَیْہِ‘‘تین مرتبہ استغفار ’’اَسْتَغْفِرُوااللّٰہَ تَعَالٰی رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَ تُوْبُ اِ لَیْہِ‘‘، تین مرتبہ کلمہ شہادت اور تین مرتبہ کلمہ طیب ’’لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘پڑھ کر خود پر دم کرے اور پھر ’’اسمِ اَللّٰہُ‘‘کا تصور شروع کرے اور تفکر سے دل پر اسمِ اللہ ذات لکھے کہ اسمِ اللہ ذات کی تاثیر سے دل صفائی پکڑتا ہے اور خناس و خرطوم مرجاتے ہیں- اِس کے بعد آنکھ میں تصور کرے اور مراقبہ کی نظر سے پرواز کرے اور دل کے گرد وسیع میدان میں داخل ہوکر مجلس ِمحمدی (ﷺ) میں پہنچ جائے اور وہاں’’لَاحَوْلَ، سُبْحَانَ اللّٰہِ‘‘اور درود شریف پڑھے تاکہ مجلس ِ محمدی (ﷺ) سے اُسے حکم ہو : ’’اے صاحب ِتصور! بے شک یہ خاص مجلس ِمحمدی (ﷺ) ہے،شیطان کو یہ قدر ت حاصل نہیں کہ وہ اِس مقام پر پہنچ سکے‘‘ -اِس کے بعد طالب اللہ حق و باطل میں واضح تحقیق کرے، اِس کے لئے وہ دل کے گرد چار میدانوں کا مشاہدہ کرے یعنی میدانِ ازل کا مشاہدہ، میدانِ ابد کا مشاہدہ، میدانِ طبقات یعنی عرش سے تحت الثریٰ تک کا مشاہدہ اور میدانِ عقبیٰ کا مشاہدہ کرے اور پھر دل میں قلب، قلب میں روح، روح میں سرّ اور سرّ میں اسرارِ معرفت ِ قربِ اللہ نورِ حضور و دیدارِ پروردگار کا مشاہدہ کر ے- مرشد ِکامل صاحب ِذوق طالب اللہ کو شروع ہی میں مشاہدۂ دل کے مرتبے پر پہنچادیتاہے اور مرشد ِناقص اُسے رات دن چلہ و ریاضت میں مشغول رکھتاہے - یہ مرشد ِکامل ہی کی شان ہے کہ وہ تصور ِاسم اللہ ذات سے میدانِ دل کھول کر طالب اللہ کو دکھا دیتاہے- ایسی فتوحات کی چابی کلمہ طیب’’لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘ہے - اِس کے بعد طالب اللہ’’ اسمِ اَللّٰہُ‘‘ اور’’اسمِ مُحَمَّدٌ(ﷺ)‘‘ کو اپنے تصور میں لائے اور اِن دونوں اسمائے پاک پر نظر جمائے- اِس کے بعد دریائے توحید میں غوطہ لگائے اور غلباتِ ذکر اللہ میں غرق ہوکر اِس آیت ِکریمہ کے مطابق خود سے بے خود ہو جائے :’’ اور اپنے ربّ کا ذکر کر اس شان سے کہ تجھے اپنی بھی خبر نہ رہے‘‘-دونوں اسمائے مبارک یہ ہیں-

اَللّٰہُ           مُحَمَّدٌ

جان لے کہ اساسِ معرفت ، معراجِ محبت، ملاقاتِ روحانی،قربِ اللہ حضوری، مشاہداتِ اسرارِ ربانی، مراتب ِفقر فنا فی اللہ بقا باللہ، ابتدا و انتہائے توحید ِ سبحانی اور تصور، تفکر، تصرف، توجہ اور توکل کے تمام مراتب صاحب ِمشق ِتصورِ اسمِ اللہ ذات کو حاصل ہوتے ہیں کہ جب تفکر کی انگلی سے دل پر نقش ِاسمِ اللہ ذات کو بار بار لکھنے کی مشق کی جاتی ہے تو ذکر ِحضور و کلماتِ ربانی و الہامِ مذکور حضور کے ہر طرح کے علوم منکشف ہوجاتے ہیں، مثلاً’’وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا ‘‘[1] کا علم،’’ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَ بِّکَ الَّذِی خَلَقَ ج خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ج اِقْرَاْ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ لا اَلَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ لا عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ ‘‘[2] کا علم، اَلرَّحْمٰنُ لا عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ طخَلَقَ الْاِنْسَانَلا عَلَّمَہُ الْبَیَانَ‘‘[3] کا علم، وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ‘‘[4]کا علم ، اِ نِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً‘‘[5] کا علم، وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا ‘‘[6] کا علم اور’’ وَذْکُرِاسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی‘‘[7] کا علم وغیرہ - یہ سب علوم اسمِ اللہ ذات سے کھل جاتے ہیں- علم بھی دو قسم کاہے،ایک علمِ معاملہ ہے اور دوسرا علمِ مکاشفہ - علمِ مکاشفہ سے معرفت ِالٰہی منکشف ہوتی ہے اور علمِ معاملہ؟ علمِ معاملہ علمِ مکاشفہ ہی میں آجاتاہے کیونکہ مشق ِتصورِ اسمِ اللہ ذات سے تمام علوم کی کتب الاکتاب صاحب ِتصور کے سامنے کھل جاتی ہے اور ظاہرباطن کے تمام علوم کلماتِ حق کی صور ت میں اُس پر کھل جاتے ہیں- فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’ محبوب! آپ (ﷺ)فرمادیں کہ اگر سمندر کلمات ربانی لکھنے کے لئے سیاہی بن جائیں تو بے شک سمندر ختم ہوجائیں گے مگر کلماتِ ربانی ختم ہونے میں نہیں آئیں گے چاہے ہم اِن جیسے مزید سمندر بھی اُن کی مدد کو لے آئیں‘‘-

جاری ہے


[1]’’آدم علیہ السلام کو تمام اسما ٔ کا علم سکھایا گیا‘‘-

[2]’’پڑھ اپنے رب کے نام سے کہ جس نے عالمِ خلق کو پید ا کیا، جس نے پیدا کیا انسان کو خون کی پھٹک سے ، پڑھ ! اور تیرا رب ہی سب سے زیادہ عزت والا ہے، وہ رب کہ جس نے قلم سے لکھنا سکھایا، اُس نے انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا‘‘-

[3]’’وہ رحمان ہے، جس نے قرآن سکھایا، انسان کو پیدا کیا اور اُسے بیان کرنا سکھایا‘‘-

[4]’’اور بے شک ہم نے اولادِ آدم کو صاحب ِعزت بنایا‘‘-

[5]بے شک مَیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں -

[6]اور ذکر کرو اپنے رب کے نام کا اور سب سے الگ ہو کر اُسی کے ہو رہو-

[7]اور اُس نے ذکر کیا اپنے رب کے نام کا اور نماز پڑھی-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر