خراباتِ حافظ سے ایک جام : حصہ چہارم

خراباتِ حافظ سے ایک جام : حصہ چہارم

خراباتِ حافظ سے ایک جام : حصہ چہارم

مصنف: ملک نورحیات خان مارچ 2020

حافظ شیرازیؒ کو کمالِ شعر گوئی کی منزل تک پہنچنے میں کافی دیر لگی اور سلوک و طریقت کا ادراک بھی ان کو چالیس سال سے قبل نہ ہو سکا-جوانی کا دور گزرنے کے بعد ان کا وہ زمانہ شروع ہوا جب وہ اسرارِ سلوک سے آشنا ہوئے- انہوں نے رندی اور سرمستی کی قبائے   زرین اتار کر سالکان کا لباس پہن لیا جہاں وہ طریقت اور سالک کے روپ میں جلوہ نما نظر آتے ہیں-ان کے اسی رجحان کا نتیجہ تھا کہ وہ اس منزل پر پہنچ گئے جہاں اُن کو ’’لسانُ الغیب‘‘ کے لقب سے نوازا گیا اور یقیناً ان کا مرتبہ بھی کسی صورت اس خصوصیت سے خالی نہ تھا-حافظ شیرازیؒ کی غزل کا انداز بالکل انفرادی ہے اور یہ لب و لہجہ صرف انہی کےلئے مخصوص ہے- ان ہی خصوصیات کی بناءپر کلامِ حافظ ہر جگہ مقبول ہے-

آئیے! گلستانِ حافظ کے حسین گلدستہ سے دنیائے رنگ و بو کی زیب و زینت پر ایک نظر ڈالتے ہیں-حافظ شیرازیؒ فرماتے ہیں کہ:

گوہر پاک بباید کہ شود قابلِ فیض
ورنہ ہر سنگ و گلے لولؤ و مرجان نہ شود
 

’’فیض حاصل کرنے کے لئے پاک جوہر ہونا چاہیے ورنہ ہر مٹی ، موتی اور مونگا نہیں بن سکتا‘‘-

حافظ شیرازیؒ نے اس شعر میں محبوبِ حقیقی کے لطف و کرم اور عنایات و نوازشات کے حصول کے لئے ایک پیمانہ مقرر کیا ہے جس کو گوہرِ پاک کا نام دیا ہے-یہ گوہر پاک در حقیقت اس جذبۂ محبت کا نام ہے جس کو اہل صفا کی زبان میں ’’اخلاص‘‘ کہا جاتا ہے- اخلاص  دوستی، محبت، پیار، پاکیزگی، اطاعتِ خالص اور عبادتِ بے ریا جیسی مقدس صفات سے آراستہ ہوتا ہے-یہ انسان کی وہ باطنی کیفیت ہے جس میں ’’حیاء‘‘ اور ’’وفا‘‘ لازم و ملزوم ہیں-جب یہ دونوں مل کر ایک مستحکم صورت میں یک جان ہو جاتے ہیں تو ’’اخلاص‘‘ پیدا ہوتا ہے-

اخلاص درحقیقت محبانِ خدا کے گلے میں محبت الٰہی کی اس رسی کا نام ہے جو ہمہ وقت بندگانِ خدا کو حق تعالیٰ کی طرف کھینچتی رہتی ہے-بقول کسے:

رشتۂ در گردنم، افگندہ دوست
مے برد ہر جا کہ خاطر خواہِ اوست

’’محبوب نے میرے گلے میں وہ ڈوری ڈال دی ہے جو ہر جگہ اس کی مرضی کے مطابق مجھےلے جاتی ہے‘‘-

حضرت بُلھے شاہؒ کے بقول:

شاہ عنائت کنڈیاں پایا

 

لُک چُھپ کھچدا ڈور

ہر شے کا ایک اقتضائے ذاتی   ہوتا ہے  جس کو استعداد یا قابلیت کہا جاتا ہے-یہ قابلیت اس شے کی ذاتی فطرت پر مبنی ہوتی ہے جو اسے دوسری اشیاء سےممیز کرتی ہے-اسی  خصوصیت کی وجہ سے ہر شئے  کی ایک متعین صورت مقرر ہے- جس طرح ہر پتھر کسوٹی ہونے کے قابل نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر پتھر سنگِ پارس ہوتا ہے-اسی طرح ہر انسان کا وجود بھی معرفتِ  حق تعالیٰ اور وصالِ الٰہی کے لائق نہیں ہوتا-کیونکہ نہ ہر پتھر سنگِ مرمر  ہے اور نہ ہر دل محبت پرور ہے-اسی ضمن میں سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:

جیڑھے تھاں مِٹی دے بھَانڈے کدی نہ ہوندے کانجے ھو

یعنی جو مٹی کے بنے ہوئے برتن ہوتے ہیں وہ کبھی بھی  کانج کے برتن نہیں بن سکتے کیونکہ فطرتِ ازلی تبدیل نہیں ہوتی-

حفظِ مراتب اور ادب دنیائے اسلام کی ثقافت کا لازمی جزو ہیں اور جب ان کی آبیاری اخلاص کے پانی سے ہوتی ہے تو عشق بھی آٹپکتا ہے کیونکہ عشق ہمیشہ اسی سر زمین میں نشوو نما پاتا ہے جس کو اخلاص سے سیراب کیا گیا ہو؛ اور آدابِ عشق سیر سے نرالے ہوتے ہیں اور رموزِ عشق سے آشنا کچھ مخصوص لوگ ہوتے ہیں جن کا تعلق فطرتِ ازلی سے ہوتا ہے-ایسے ہی لوگوں کے متعلق حافظ شیرازیؒ ایک مقام پر فرماتے ہیں :

حدیثِ مدعیان و خیالِ ہم کاران
ہماں حکایت، زر دوز و بوریا باف رست

یعنی زبانی دعویٰ کرنے والوں کی بات اور اپنے خیال میں مست لوگوں میں وہی فرق ہے جو زردوز (زری اور سلمے ستارے کا کام ) اور بوریا باف (چٹائی بنانے والا) کے درمیان ہوتا ہے-یہاں بھی حافظ صاحب نے زاہد اور عاشق کا فرق بیان کیا ہے-کیونکہ زاہد کی غرض و غایت جنت کے حور وقصور تک محدود ہوتی ہے جبکہ عاشق ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا-

حق تعالیٰ خود حسین و جمیل ہے اور حسن و جمال کو پسند فرماتا ہے –چنانچہ ’’اخلاص‘‘ انسان کا وہ باطنی حسن ہے جو حق تعالیٰ کا پسندیدہ ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ  اس پر اپنے بحرِ کرم سے فیوض و عنایات کی بارش نازل فرماتا ہے-

انسان اپنی فطری خواہش کے مطابق مصیبتوں سے نجات اور نعمتوں میں اضافہ  کا آرزو مند رہتا ہے -’’اخلاص‘‘ وہ نسخۂ کیمیا ہے جو مصیبتوں میں صبر اور نعمتوں میں شکر کے ذریعے قلبِ انسان میں ایک ایسا عظیم الشان انقلاب پیدا کردیتا ہے کہ انسان قوت، ہمت اور عمل کا مخزن بن جاتا ہے-اس کی توانائیاں رائیگاں نہیں جاتیں اور حق تعالیٰ کا فضل وکرم کائنات کی تسخیر آسان فرما دیتا ہے-یہی وہ فیض ہے جس کے حصول کے لئے حافظ شیرازی نے اپنے اس شعر میں گوہر پاک یعنی ’’اخلاص‘‘ کا پیمانہ روشناس کرایا ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر