ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

سَبق صِفاتی سوئی پڑھدے جو وت ہینی ذاتی ھو
عِلموں علم اُنہاں نوں ہویا جیڑے اصلی تے اثباتی ھو
نال محبّت نفس کٹھونے کڈھ قضا دی کاتی ھو
بہرہ خاص انہاں نوں باھوؒ جنہاں لَدھا آب حیاتی ھو

Those who studies in attributes are weak in Essence Hoo

Those who achieve such Knowledge, are the ones in affirmation and Essence Hoo

In love, they slaughtered their nafs with fate’s knife Hoo

Actual portion is for those Bahoo who have accessed water of eternal life Hoo

Sabaq siffati soi pa’Rhday jo wat beeni zaati Hoo

Ilmo ilm unhaa’N nu’N hoya jeh’Ray asli tay asbati Hoo

Naal muhabbat nafs ki’Tnonay ka’Dh qaza di kaati Hoo

Bahra Khas unhaa’N nu’H Bahoo jinha’N laddha aab hayati Hoo

تشریح:

من کہ گشتم بذ ات حق فانی

 

طیر سیر صفات کی دانی[1]

1-’’ مَیں ذاتِ حق میں فنا ہوچکا ہوں اِس لئے مقاماتِ صفات کی طیر سیر کو مَیں کیاجانوں؟ ‘‘

’’ولایت کا دار و مدار معرفت ِالٰہی کے کمال پر ہے اور معرفت ِ الٰہی دو قسم کی ہے- ایک معرفت ِصفات ِالٰہی اور دوسری معرفت ِ ذات ِالٰہی- معرفت ِ صفات دونوں جہان میں بشری جسم کا حصہ ہے اور اُس کا مقام خلق ہے- معرفت ِصفات کے تمام مقامات کو درجات کہا جاتا ہے اور عارف ِ صفات کوصاحب ِ درجات کہا جاتا ہے- معرفت ِذات ِالٰہی عالمِ خلق سے آگے عالمِ لاھُوت میں پہنچ کر حاصل ہوتی ہے- عالمِ لاھُوت میں انسان اپنی بشریت کے تینوں وجود یعنی ناسوتی وجود ، ملکوتی وجود اور جبروتی وجود کوفنا کر کے روحِ قدسی کے لاھُوتی نوری وجود کے ساتھ داخل ہوتا ہے‘‘- [2]

اللہ تعالیٰ کی ذاتی معرفت صر ف انسان کا خاصہ ہے، مزید یہ کہ صفات تک محدود رہنے والا شخص حجابات کا شکار بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں :

’’اگرچہ فرشتے کو بارگاہ ِ الٰہی میں قرب حاصل ہے مگر مقامِ لِیْ مَعَ اللہ ِ تک تو اُس کی رسائی نہیں ہے‘‘ -[3]

اہل ِصفات کو البتہ ہزار ہا قسم کے حجابات پیش آسکتے ہیں کیونکہ وہ ثواب کے آرزو مند ہوتے ہیں اور اِس وجہ سے وہ اِلہاماتِ معرفت ِ اِلٰہی اور جواب باصواب سے محروم رہتے ہیں-بیت:’’مَیں اُس کی صفات کو کیوں دیکھوں کہ مَیں تو اُس کی ذات میں فنا ہوں‘‘ -[4]

اللہ تعالیٰ کی ذاتی معرفت وپہچان کا طریقہ بیان کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں :

’’ذاتِ اِلٰہی تک رسائی صرف تصور ِاسم اللہ ذات ہی سے ہوتی ہے، تصورِ اسم اللہ ذات سے بندہ مقاماتِ صفات سے نکل آتا ہے اور نورِ ذات میں داخل ہو کر نجات پا جاتا ہے‘‘ -[5]

ہر کہ غرقش میشود در ذات نور

 

با عقل کلی بود علم از حضور

2:’’جو شخص نورِذات میں غرق ہو جاتا ہے وہ علم حضور سے عقل ِکل کا مالک ہو جاتا ہے‘‘-

مجلس خاصہ محمدؐ با حبیب

 

نیست آنجا نفس نی شیطان رقیب[6]

      ’’ وہ حبیب ِخدا حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ)کی مجلس ِخاص میں پہنچ جاتے ہیں جہاں نفس و شیطان کی پہنچ ممکن ہی نہیں‘‘-

جب انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر فکرمیں محو ہوکرمقام اثبات تک پہنچ جاتاہے ،تو اللہ تعالیٰ اس کو تمام علوم سے نواز دیتاہے جیساکہ آپ(﷫)فرماتے ہیں :

’’جب اِسم اﷲ ذات کا نور لوحِ ضمیر پر پڑ تا ہے تو صاحب ِلوحِ ضمیر علمِ معرفت ِاِلٰہی اور مقامِ حیُّ قیوم کے تمام علوم کا حافظ ہو جاتا ہے اور اُس پر معرفت ِتوحید کا ہرایک مقام منکشف ہو جاتاہے اور وہ لوحِ محفوظ پرمرقوم تمام علوم کا عالم ہو جاتاہے کیونکہ لوحِ ضمیر جب اِسم اﷲذات کے نور سے روشن ہوتی ہے تو آئینہ بن جاتی ہے اور حضوری ٔمجلس ِ محمدی (ﷺ) کی برکت سے لوحِ محفوظ پر مرقوم ہر علم و ہر حقیقت لو حِ ضمیر کے آئینے میں نظر آنے لگتی ہے‘‘ -[7]

 باھُوا! دیو زادہ نفس را علاج نیست

 

از سوزش بسوز تا مسخّر گردد[8]

                3: ’’دیو زادے نفس کا اِس کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں کہ اُسے آتش ِعشق میں اتنا جلایا جائے کہ یہ مسخرہو جائے‘‘-

عشق کو اللہ پاک نے یہ طاقت عطافرمائی ہے کہ یہ جب اپنے عروج پہ پہنچتاہے تو انسان کے وجود سے غیریت نکل جاتی ہے جیساکہ فرمان رسول (ﷺ)ہے:

 ’’عشق ایک آگ ہے جو محبو ب کے سوا ہر چیز کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے ‘‘-[9]

آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

فقر اوّل آخر او شد تم ختم

 

کشتہ نفس و درد سوزش تنم[10]

’’فقر کی ابتدا ء و انتہاءمجھ پر ختم ہو چکی ہے اور سوزِ عشق سے میرے وجود میں نفس جل کر راکھ ہو چکا ہے‘‘-

4:آب حیات ایک استعارہ ہے جس کا معانی ہے ’’ہمیشہ کی زندگی‘‘-یعنی انسان ’’موتوا قبل ان تموتوا‘‘کامصداق بن جائے،یہ صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو اللہ پاک کی رضا میں اپنے آپ کو ختم کردیتے ہیں جیساکہ آپؒ فرماتے ہیں :

’’جو آدمی یہ چاروں مقامات طے کر کے چاروں نفسوں( نفس ِامارہ ، نفس ِلوامہ ، نفس ِملہمہ اور نفس ِمطمئنّہ) کواپنا مطیع کر لیتا ہے،  خود کو نفسانیت ِا ربعہ عناصر کے خصائل سے پاک کر لیتا ہے ، مقامِ’’ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا ‘‘ پر پہنچ کر میدانِ معرفت میں قدم رکھ لیتا ہے، نفس کو زیر قدم لے آتا ہے وہ مقامِ ہویت حاصل کر لیتا ہے - یہ مراتب ہیں فقیر فنا فی اللہ ذات کے‘‘- [11]

’’جس طرح جانور کو اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر چھری سے ذبح نہ کیا جائے وہ حلال نہیں ہوتا- اِسی طرح اگرنفس کو اَللّٰہُ اَکْبَرُ کی تکبیر سے ذبح نہ کیا جائے معرفت ِوصالِ حق تک ہرگز نہیں پہنچا جا سکتا ‘‘-[12]


[1](نور الھدیٰ، ص:531)

[2](تفہیم کلام سلطان باھو)

[3](عین الفقر،باب اول)

[4](کلیدالتوحید(کلاں)

[5]( ایضاً)

[6](نورالھدٰی)

[7](کلیدالتوحیدکلاں شرحِ مجلس ِ محمدیؐ)

[8](عین الفقر، باب دوم)

[9](عین الفقر)

[10](اسرارالقادری،شرحِ حاضرات)

[11]( محک الفقر(کلاں)

[12]( عقل بیدار)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر