مشترکاتِ حضرت سلطان باھوؒ و حضرت ابنِ عربیؒ

مشترکاتِ حضرت سلطان باھوؒ و حضرت ابنِ عربیؒ

مشترکاتِ حضرت سلطان باھوؒ و حضرت ابنِ عربیؒ

مصنف: بلال باھُو فروری 2015

جب خالقِ کائنات نے نبی اکرم ﷺ کو بحیثیت خاتم النبیین مبعوث فرمایا تو سلسلۂ نبوت مکمل ہوا،آپ ﷺکے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا- آپﷺ کا پیغام تلاشِ حق ،باہمی ہم آہنگی ، محبت و اخوت اور بھائی چارے پر مبنی ہے-آپﷺ کے اس پیغام کو خلقِ خدا  تک پہنچانے میں آپ ﷺ کے عُشّاق نے اہم کردار ادا کیا اور پھر اس عظیم فریضہ کو سرانجام دینے کیلئے سلسلۂ ولایت شروع ہوا جو صحابہ کرام ؓ سے لے کر اب تک جاری ہے اور قیامت تک جاری و ساری رہے گا- اِس سلسلہ کا آغاز تو خود رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی سے ہوتا ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اُس مکتبِ فقر کے اوّلین طالبین تھے اور بعد میں تابعین و تبع تابعین رضوان اللہ علیھم اجمعین آئے اور اِسی مکتب نے ایسے ایسے جواہر تخلیق کئے جنہوں نے اِصلاحِ انسانیّت و فلاحِ آدمیّت کیلئے گراں قدر خِدمات سرانجام دیں جن کی تعلیمات و واقعاتِ زندگی آج بھی فلکِ عرفان پہ انجمِ تاباں کی حیثیت رکھتے ہیں - اُن کی زندگیوں کا ایک ایک واقعہ اور ایک ایک لمحہ ہزار ہا حکمتوں سے لبریز ہے اُن کا کہا ہوا ایک ایک حرف اللہ تعالیٰ کی بندگی سے معمور اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شرابِ عشق و محبت سے مخمور ہے - بحرِ محبتِ اِلٰہی میں اُن کی غوّاصی سے نکالے گئے لعل و جواہر کی شُعاعیں آج بھی مُردہ دِلوں کو ذوق و حضوری عطا کرتی ہیں جب انسان آتش و آہن اور گولہ بارُود کی تپش سے تباہ و برباد ہوتی اِس کائنات کو دیکھتا ہے تو مارے خوف کے آنکھیں موند کر تاریخِ اَسلاف کے سُنہری واقعات میں جھانکتا ہے تو اِسے اِحساس ہوتا ہے کہ اصل زندگی بھی اس طرح کی ہے اور امن و محبت کی تعلیمات بھی انہی بزرگوں نے عطا فرمائی ہیں - جب تک اِنسان تزکیّہ نفس و تصفیّۂ قلب کے اِن مراحل کو کسی مرشدِ کامل کی نگرانی میں طے نہیں کرتا تبب تک انسان کا باطن بے آباد و مُنتشر و مُشتعل رہتا ہے ، معاشرہ کی بربادی ، انتشار اور اشتعال صرف انسان کے اندر سے یعنی باطن سے ہی ٹھیک کیا جا سکتا ہے - 

 زیرِ نظر مضمون اسی سلسلے میں عظیم خدمات سر انجام دینے والی تاریخِ اسلام کی دو عظیم شخصیات سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ او ر شیخ اکبر حضرت محی الدین محمدابنِ عربی ؒ کے مابین مشترکات کے مختصر جائزہ پر مشتمل ہے جنہوں نے دینِ اسلام کی ترویج کیلئے خاطر خواہ خدمات سر انجام دیں- یوں تو اتنی عظیم المرتبت شخصیّات کا ذکر اتنے مختصر مضامین میں کرنا ’’لانا ہے جوئے شِیر کا ‘‘ کے مترادف ہے اور ممکن ہی نہیں مگر اس سے مقصود ایک تو حصولِ بَرکت ہے کہ اُن کی تعلیمات و اَفکار کا ذکر و مُطالعہ تقویّتِ ایمانی کا باعث ہے اور دُوسرا یہ کہ اِن دونوں شخصیات کی کُتب میں پائے جانے والے مشترکات و مختلفات پہ ایک تحقیقی کام کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے اور ضرورت بھی - دونوں شخصیات کا عہد بھی مختلف ہے ، بود باش اور زُبانِ مادری بھی مختلف ہے اور خِطّہ بھی ، حتّیٰ کہ مُشاہدات و روحانی تجربات بھی مختلف ہیں جس بِنا پہ ان کی تعلیمات میں مشرتکات کے ساتھ ساتھ مختلفات بھی یقناً موجود ہیں - مگر جب ہم مشترکات کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ بھی بکثرت نظر آتے ہیں جن کا مختصر ترین اَحوال آئندہ سطُور میں آئے گا -

خاندانی پسِ منظر و ولادت با سعادت:

سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو ؒ ۱۰۳۹ ھ(1629 ء )میں شور کوٹ میں پیدا ہوئے -شورکوٹ پنجاب کے ضلع جھنگ کا تحصیل ہیڈ کوارٹر ہے - آپؒ کے والد ماجد حضرت محمد بازید رحمتہ اللہ علیہ ایک صالح ، حافظ قرآن اور فقیہ شخص تھے اور مغلیہ خاندان کے فرمانروا شاہ جہان کے دور میں قلعہ شور کے قلعہ دار تھے-آپؒ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی راستی ؒ کامل ولیہ تھیں ۔ حضرت سلطان باھوؒ کی ولادت سے قبل آپ ؒ کی والدہ محترمہ کو باطنی طور پر آپؒ کی پیدائش اور نام کے متعلق بشارت مل چکی تھی-آپؒ نسبت کے لحاظ سے اعوان قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور آپؒ کا سلسہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے آپؒ کا مزار مبارک قصبہ گڑھ مہاراجہ کے نزدیک دریائے چناب کے غربی کنارے کے قریب واقع ہے-حضرت ابن عربی ؒ کاپورا نام محمد بن علی بن محمد، لقب محی الدین اور کنیت عبداللہ ہے جبکہ بعض کتب میں آپ ؒ کی کنیت ابوبکر بھی بیان کی گئی ہے- آپؒ عرب کے مشہور قبیلے بنوں طے سے تعلق رکھتے تھے اور آپ ؒ کا شجرنسب مشہور سخی حاتم طائی سے جاملتا ہے-آپؒ ۵۶۰ھ بمطابق 1165ء اندلس (موجودہ اسپین) کے شہر مرسیہ میں پیدا ہوئے آپ بالعموم ابنِ عربی ؒ کے نام سے جانے جاتے ہیںاس کے ساتھ ساتھ جس لقب سے آپؒکو شہر ت ملی وہ’’شیخ اکبر ‘‘ کا  لقب ہے-آپؒ کے والد کا نام علی بن محمد تھاجوغوث اعظم حضر ت سیّد عبد القادر الجیلانی ؒ (۴۷۰ھ تا ۵۶۱ ھ- ۱۰۷۸ ء تا ۱۱۶۵ء ) کے مرید تھے-حضرت ابنِ عربی کے متعلق حضور غوث پاک ؒ نے آپؒ کے والد کو بشارت دی کہ آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا اور اس کا نام محمد رکھنا ۔آپؒ کا مزار مبارک دمشق میں جبل قادسیون کے پہلو میں واقع ہے-

نسبتِ رُوحانی :

حضرت سلطان باہوؒ کا سلسلہ سروری قادری ہے   -آپؒ اپنی کتاب امیرالکونین میں فرماتے ہیں کہ میں تیس سال تک مرشد کامل کی تلاش میں پھرتا رہا مگر مجھے اپنے مطلب کامرشد نہیں مل سکالیکن باطنی طورپر پیردستگیر ؒ شاہ عبدالقادر جیلانی ؒ نے اپنے باطنی فیض سے مجھے مالا مال فرمایا-بعد میں حضور غوث پاک شاہ عبد القادر جیلانی ؒ کے حکم پر آپ نے ظاہر ی بیعت دہلی کے شیخ سیّد عبد الرحمٰن گیلانی قادریؒ (حضور غوث الاعظمؒ کی اولاد میں سے ہیں)کے دست مبارک پر کی-   حضرت ابن عربی ؒ بھی سلسلہ قادریہ میںپروئے ہوئے ہیں- آپؒ کے مرشد سیدنا ابوالسعود بن الشبلی ؒ، حضور غوث الاعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی ؒ کے فیض یافتگان میں سے ہیں -حضرت ابن ِ عربیؒ کو بھی روحانی فیض حضور غوث الاعظمـ ؒ سے عطا ہوا ہے-

تصنیفات و تعلیمات :

سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ نے کم وبیش 140 کتب تحریر فرمائیںآپؒ نے اکثر کتب فارسی زبان میں تحریر فرمائیںکیونکہ اس وقت کی سرکاری زبان فارسی تھی- ابن عربی ؒ نے تقریباً 500کے لگ بھگ کتب تحریر فرمائیں-آپؒ نے اپنی تمام تصانیف عربی زبان میں تحریر فرمائی ہیں حضرت سلطان باہوؒ اور حضرت ابنِ عربیؒ نے اپنی تصانیف میں جا بجا قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کو نقل کیا ہے -حضرت سلطان باھو ؒ اور ابن عربی ؒکے افکار کا ایک اہم مشترکہ پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے کسی بھی مسئلہ کو زیرِ بحث لانے کیلئے قرآن کریم کو مشعلِ راہ بنایا ہے اور اسی لئے ان کی تصانیف میں قرآن پاک کی آیات کا جا بجا تذکرہ ملتا ہے اور انہوںنے اپنی تعلیمات کا اسلوب قرآن واحادیث کی روشنی میں پیش فرمایا ہے-مزید برآں دونوں شخصیات نے اپنے فلسفے کو نثر اور شاعری دونوںاندازمیں بیان فرمایا ہے- بطورِ نمونہ حضرت سُلطان باھُو اور حضرت ابنِ عربی کی ایک ایک غزل پیش کی جاتی ہے -

یقیں دانم دریں عالم کہ لا معبود الا ھو        ولا موجود فی الکونین لا مقصود الا ھو

چو تیغ لا بدست آری بیا تنہا چہ غم داری       مجو از غیر حق یاری کہ لا فتاح الا ھو

بلا لا لا ہمہ لا کن بگو اللہ واللہ جو                        نظر خود سوی وحدت کُن کہ لا مطلوب الا ھو

’’مجھے یقین حاصل ہے کہ اس کائینات میں سوائے اُس (ڈاتِ پاک) کے کوئی بندگی کے لائق نہیں، اور کائینات میں کوئی بھی وجود (حقیقی) نہیں (اور)  اُس (ڈاتِ پاک) کے سوا نہ کوئی مقصود (بالذات) ہے-‘‘

’’تو جب نفی (لا الہ الا اللہ) کی تلوار ہاتھ میں رکھتا ہے (تو) اکیلے ہی آ جا (پھر) تمہیں کیا فکر ہے، تُو حق (تعالیٰ) کے بغیر (کسی میں ) وفا تلاش نہ کر کیونکہ اس (ذات پاک ) کے بغیر کوئی کارساز نہیں-‘‘

’’نفی (کلمہ طیب) کی کی لا سے ہر چیز کی نفی کر کے اللہ (تعالیٰ) کو پکار اور اللہ(تعالیٰ) کو تلاش کر، اپنی نگاہ وحدت ِ(ذات) پر رکھ کیونکہ اُس (ذاتِ پاک) کے سوا کوئی محبوب نہیں-‘‘

 حضرت ابنِ عربی فرماتے ہیں:

فلم یبقیٰ الا الحق لم یبق کاین     فماتمتہ موصول ومائمہ بان

’’حضرت ابنِ عربی ؒ اللہ تعالیٰ کی توحید کو بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’وجود اور احدیت میں تو سوائے حق تعالیٰ کے کوئی موجود رہا ہی نہیں ۔پس یہاں نہ کوئی ملا ہوا ہے  نہ ہی کوئی جدا ہے یہاں تو ایک ہی ذات ہے-‘‘

فکرِ اِنسانیّت:

حضرت سلطان باھوؒ اور حضرت ابنِ عربیؒ نے انسان کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اسے جاننے اور اس پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے -حضرت سلطان باہوؒ انسان کی حقیقت کو بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’ انسان کو تمام مخلوقات پر فضلیت حاصل ہے-‘‘

مزید آپ ؒ فرماتے ہیں کہ

 ’’دنیا اورآخرت کی کوئی چیز انسان کے وجود سے باہر نہیں-‘‘

زمین و آسمان و عرش و کرسی

ہمہ در تست تو از کے بہ پرُسی

یعنی’’زمین آسمان وعرش وکرسی، سب کچھ (اے انسان)تیرے اندر ہے، تو دوسرے سے کیا پوچھتا پھرتا -‘‘(۱)

لہٰذاانسان کی حقیقت نہایت پُر اسرار اور گہری ہے یہ گوشت پوست کا جسم، انسانی وجود کا محض ایک ادنیٰ پہلو ہے -حضرت سلطان باہوؒ کے نزدیک وہ منزل جسے ہرانسان لازمی طور پر اپنا مقصدِ حیات بنائے ،وہ معرفتِ رب تعالیٰ ہے-

’’دنیا میں تجھے چندروزہ زندگی عطا کی گئی ہے، یہ زندگی دائمی بندگی کے لئے ہے اور بندگی اللہ تعالیٰ کی ’کامل معرفت ‘کا نام ہے-‘‘(۲)

آپؒ فرماتے ہیں کہ

 ’’ انسان آدم ؑ ہیںاور جو آدم ؑ کے مرتبے پر پہنچ جاتا ہے و ہ حقیقت میں انسان ہے -اگر کوئی کہے کہ کیا اولادِ آدم حضرت آدم ؑکے مرتبے تک پہنچنے کی قدرت رکھتی ہے تو اِس آیتِ کریمہ کے مطابق عین ممکن ہے -{وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی اٰدم}(۳)

ــــ’’اور تحقیق ہم نے اولادِ آدم کو عزت والا بنایا-‘‘اور اسی طرح آپؒ انسان کے مقام کے بارے اپنے پنجابی کلام میں فرماتے ہیں۔‘‘(۴)

ایہہ تن رب سچے دا حجرا وچ پا فقیرا جھاتی ھُو

ناں کر منت خواج خضر دی تیرے اندر آب حیاتی ھُو

یعنی اے انسان ! آبِ حیات کیلئے تو خضرکی منت سماجت نہ کر ،آبِ حیات تو تیرے اندر موجود ہے -

ــ’’کیا تو آدمی کو محض خاکی و خام سمجھتا ہے ؟ ارے اس وجو د کو خاکی نا سمجھ کہ اس کے اندر ایک نوری چراغ روشن ہے-ـ‘‘(۵)

آپؒ اس نوری چراغ کو روح سے تشبہہ دیتے ہیں کہ انسان کو روحانی وجو د سے ہی برتری حاصل ہے- اس لئے آپؒ انسان کو اپنے اندر جھانکنے کی تلقین کرتے ہیں- حضرت ابن عربی ؒ بھی انسان کی حقیقت بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ

 ’’ انسا ن کائنات کی روح ہے- ‘‘  (۶)

 یعنی جس طرح انسان کے اندر روح موجود ہوتو انسان کی عظمت وتکریم ہوتی ہے -اگر روح نکل جائے تو اُس کی کوئی قدروقیمت نہیں رہتی-اسی طرح اگرکائنات کے اندر انسان ہے تو کائنات کی رونقیں بحال ہیں اگر انسان نہ ہو تو کائنات کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی-ا نسان کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں-

’’اے انسان اللہ تعالیٰ نے تیرے اندر بہت بڑا خزانہ رکھا ہے اور اسی تناظرمیں آپؒ اپنی تصنیف میں قرآن پاک کی آیتِ مبارکہ کو نقل فرماتے ہیں -

ـ{ وفی انفسکم افلا تبصرون }(۷)

’’ اور میں تمھارے انفس یعنی تمھارے اندر ہوں کیا تم غور نہیں کرتے -‘‘(۸)

شیخ ابن عربی نے نہایت تفصیل کے ساتھ انسان کی توجہ اس منہج پر دلائی ہے جس سے وہ اپنے اندر غور کرکے اس منزل کو پاسکتا ہے-

تصوف اور علمِ تصوف:

حضر ت سلطان باھُوؒ نے تصوف کی وضاحت فرماتے ہوئے فرمایا-

’’علم تصوف توحید پر نہایت قوی اِیمان کو کہتے ہیں-‘‘(۹)

 ایک اور مقام پر آپؒ فرماتے ہیں کہ

 ’’ علم تصوف کا عالم صاحب تقویٰ ہوتا ہے-‘‘(۱۰)

 آپ ؒ نے اہلِ تصوف کے متعلق یوں بھی فرمایا کہ

 ’’ اہل تصوف عارف باللہ عالم کی زبان اللہ کی تلوار ہوتی ہے-‘‘(۱۱)

حضرت ابنِ عربی ؒ کی ویسے تو ساری کتب تصوف پر مشتمل ہیں لیکن شاعری اسلوب میں آپ نے ذخائر الاعلاق میں تصوف کو بیان فرمایاہے ابن ِ عربی ؒ اپنی تصنیف عنقائِ مغرب میں فرماتے ہیں کہ

’’ اہل تصوف دنیا سے کنارا کش ہوکر اللہ تعالیٰ کی توحید میں محو ہوتا ہے- ‘‘

سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کامل مرشد کے متعلق فرماتے ہیں کہ

 ’’وہ شریعتِ محمدیﷺ کا پابند اور اس کا کوئی کام شریعت کے خلاف نہیں ہوتااور وہ ایسا کامل فقیر ہوتاہے جو قلب کو زندہ اور نفس کو مارتا ہے اور وہ سنگِ پارس کی مانند ہوتا ہے جو اگر لوہے کو چُھو جائے تو لوہا سونا بن جاتا ہے مرشد کامل کسوٹی کی مثل ہے اس کی نظر آفتاب کی طرح فیض بخش ہوتی ہے جو طالب کے وجود سے خصائل بد کو مٹادیتی ہے-‘‘ (۱۲)

’’اور مرشد کامل فقرِ محمدیﷺ کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے -‘‘(۱۳)

حضرت ابن عربی ؒ نے مرشدکی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ آقا پاک ﷺ کے نقشِ قدم پر ہوتا ہے-اس کا کوئی عمل خلافِ شرع نہیں ہوتا -ـآپؒ نے مرشد کامل کو مختلف صفات کے ساتھ بیان کیا ہے اور آپؒ اپنی کتاب فصوص الحکم میں مرشد کے متعلق فرماتے ہیں :

’’وہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقشے قدم پر ہوتا ہے ۔وہ خلقِ خدا کی رہنمائی کرتا ہے تاکہ مخلوق اللہ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان حاصل کرسکے -‘‘

مزید آپؒ فرماتے ہیں کہ

’’ اگر وہ مرشد(نائبِ رسول)دنیا میں نہ ہوتو اس کا نظام رک جائے ۔اس کا کوئی کام شریعتِ محمدیﷺ اور اللہ تعالیٰ کی رضاکے خلاف نہیں ہوتا -‘‘

 شریعتِ اِسلامی پہ عمل پیرائی:

شریعت مطہرہ کی پابندی دونوں صوفیاء کی زندگی اور ان کے افکار میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے- حضرت سلطان باہو شریعتِ محمدیﷺ پر مضبوطی سے ثابت قدم رہے، آپؒ فرماتے ہیں -

ہرمراتب از شریعت یافتم

 پیشوائے خود شریعت ساختم

اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ حضرت سلطان باہوؒ اپنے بارے میں فرمارہے ہیں-’’میں نے ہرمرتبہ شریعت کے ذریعے حاصل کیا اور شریعت ہی کو اپنا پیشوا بنائے رکھا-حضرت ابنِ عربی ؒ نے بھی شریعتِ مطہرہ کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے آپؒ کی جتنی بھی تعلیمات یاتصانیف ہیں اُن کے اندر آپؒ نے شریعت پربہت زور دیا ہے حضرت ابن ِ عربی ؒ فرماتے ہیں کہ

’’ طریقت ،معرفت، اور حقیقت کو پانے کیلئے سب سے پہلے شریعت پر عمل پیرا ہونا پڑے گا-(۱۴)

طلبِ مولیٰ :

 حضرت سلطان باہوؒ کی مشہورِ زمانہ تصنیف عین الفقر شریف میں فرماتے کہ

’’ طالب تین قسم کے ہوتے -طالبِ دنیا ، طالبِ عقبیٰ ،طالب مولیٰ،لیکن آپ ؒ طالب ِمولیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں -

’’جس طالب میں طلبِ مولیٰ نہیں وہ ہوائے نفس کا قیدی ہے-‘‘ (۱۵)

آپؒ نے اپنی تصنیف کلید التوحید خورد میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان نقل کیاہے کہ

 ـــ’’دنیا حرام ہے طالب ِ عقبیٰ پر ، عقبیٰ حرام ہے طالبِ دنیا پر اور دنیا اور عقبیٰ دونوں حرام ہیں طالبِ مولیٰ پر‘‘

اور آپؒ کی ساری تعلیمات طالبِ مولیٰ کیلئے مشعلِ راہ ہے-حضرت ابنِ عربی ؒ نے فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کے اندر طالبِ مولیٰ کاذکر فرمایا ہے آپ فصوص الحکم میں فرماتے ہیںکہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی چیز کی طلب نہیں ہونی چاہیے مزید آپؒ فرماتے ہیں کہ جو اللہ کی ذات کے علاوہ کسی چیز کی طلب کر تا ہے وہ خام ہے -

درج بالا حوالہ جات حضرت سلطان باھوؒ اور حضرت ابن عربیؒ کے افکار کے مشترکات کا ایک مختصر جائزہ ہے لیکن یہ تشنگیٔ علم و تحقیق کو بُجھانے کیلئے ناکافی ہے - ان کے افکار و خیالات کے مشترکات و مُختلفات پہ ایک مسلسل تحقیق و جستجو کی ضرورت ہے -

حوالہ جات:

(۱)(نورالہدیٰ العارفین پبلیکیشنز لاہور) 

(۲)(نورالہدی العارفین پبلیکیشنز لاہورٰ)

(۳)(بنی اسرائیل:۷۰ )

(۴)(نور الہدی العارفین پبلیکیشنز لاہورٰ)

(۵)(عین الفقر العارفین پبلیکیشنز لاہور)

(۶)(تدبیراتِ الٰہیہ)

(۷)(الذریات:۲۱)

(۸)(تدبیراتِ الٰہیہ)

(۹)(محک الفقر العارفین پبلیکیشنز لاہور)

(۱۰)فتوحاتِ مکیہ از ترجمہ از مولٰینا محمد عبدا لقدیر صدیقی نزیر سنز پبلشرز لاہور پاکستان

 (ٍ۱۱)(امیرالکونین العارفین پبلیکیشنز لاہور )

(۱۲)(محک الفقر العارفین پبلیکیشنز لاہور)

 (۱۳)(عین الفقر العارفین پبلیکیشنز لاہور)

(۱۴)(محک الفقر العارفین پبلیکیشنز لاہور)

(۱۵)(محک الفقرکلاں العارفین پبلیکیشنز لاہور)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر