عظمتِ صحابہ(رضی اللہ عنہ) اور تعلیماتِ حضرت سُلطان باھوؒ

عظمتِ صحابہ(رضی اللہ عنہ) اور تعلیماتِ حضرت سُلطان باھوؒ

عظمتِ صحابہ(رضی اللہ عنہ) اور تعلیماتِ حضرت سُلطان باھوؒ

مصنف: لئیق احمد جنوری 2019

انبیائے کرام (علیہم السلام)کے بعد روئے زمین پر سب سے پاک باز جماعت صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی جماعت ہے- جن کی آنکھیں نہ صرف حالت ایمان میں حضور رسالت مآب (ﷺ)  کے دیدار سے منور ہوئیں بلکہ انہیں حضور نبی کریم (ﷺ)کی معیت و قربت بھی نصیب رہی- اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) عدول ہیں، اللہ کے اولیاء و اصفیاء ہیں اور نبیوں اور رسولوں کے بعد تمام مخلوق سے افضل ہیں-یہ عقیدہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی احادیث مبارکہ سے اخذ کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

’’حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا: میرے اصحاب کو بُرا نہ کہو اگر تم میں سے کوئی ایک شخص احد پہاڑ جتنا سونا خیرات کردے، پھر بھی وہ ان کے دئیے ہوئے ایک کلو یا نصف کلو کے برابر نہیں ہوگا‘‘-[1]

’’حضرت  ابو بردہ اپنے والد (رضی اللہ عنہ)سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)نے آسمان کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: ستارے آسمان کی امان ہیں اور جب ستارے چلے جائیں گے تو آسمان پر وہ چیزیں آجائیں گی جن سے آسمان کو ڈرایا گیا ہے اور میرے اصحاب میری امت کے امان ہیں- جب میرا وصال ہوگا تو میرے اصحاب کے پاس وہ چیزیں آجائیں گی، جن سے ان کو ڈرایا گیا ہے‘‘- [2]

’’حضرت عبداللہ ابن مغفل بیان کرتے ہیں کہ رسول  اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: میرے اصحاب کے متعلق اللہ سے ڈرو، ان کو میرے بعد طنز کا نشانہ نہ بناؤ- جس نے ان سے محبت رکھی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا انہوں نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے ان کو اذیت دی، اس نے بے شک مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی اس نے بے شک اللہ کو اذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی، عنقریب اللہ اس کو پکڑے گا‘‘-[3]

 صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)امت کے رہنما و قائد ہیں - صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کے وسیلے سے ہی اس امت تک دین پہنچا ہے کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) نے جو کچھ ہم کو من جانب اللہ عطا کیا ہے وہ ہم تک صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) ہی کی معرفت سے پہنچا ہے- اسی لیے امام المفسرین علامہ قرطبی فرماتے ہیں:-

’’یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے- اس لیے ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اور سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی- یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے باہمی اختلاف میں کف لسان کریں اور ہمیشہ ان کا ذکر بہتر طریقہ پر کریں کیونکہ صحابیت بڑی حرمت (وعظمت) کی چیز ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے ان کو معاف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے‘‘-[4]

عظمتِ صحابہ تعلیماتِ باھو کی روشنی میں:

سلطان العارفین قدس اللہ سرہ اہل بیت اطہار (علیہم السلام) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)سے بےحد عقیدت رکھتےتھے جس کا اظہار آپؒ نے اپنی نثر میں بھی فرمایا اور اپنی فارسی و لہندی(پنجابی) زبان کی شاعری میں بھی فرمایا- آپ کی تمام تصانیف کا اسلوب یہ ہے کہ آپ اپنی تصانیف کی ابتدا اللہ رب العزت کی حمد و ثناء سے کرتے ہیں اور پھر حضور نبی کریم (ﷺ) کی نعت میں چند نثری کلمات فرماتے ہیں- اکثر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام، آپ (ﷺ) کی آل،آپ (ﷺ)کے اصحاب (رضی اللہ عنھم) اور آپ (ﷺ)کے اہل بیت (علیہم السلام)پر ان الفاظ میں درود و سلام پیش کرتے ہیں:

’’لا محدود درود ہو اشرف المخلوقات ابو القاسم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہ و اھل بیتہ اجمعین‘‘[5]

سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) اپنی تصنیف لطیف  ’’شمس العارفین‘‘ کے ابتدائیہ میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے متعلق اپنے عقیدے کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:-

’’صلوٰۃ و سلام ہو اللہ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)پر، ان کی آل اور ان کے جملہ اصحاب پر جو سب کے سب اہل مغفرت اور اہل رضوان ہیں‘‘- [6]

 آپ (قدس اللہ سرّۂ)نے اپنی تمام تصانیف میں سینکڑوں مقامات پر اپنے اہل سنت ہونے کا بیان فرمایا ہے اور اہلِ بیت اطہار و صحابہ کرام (علیہم السلام)سے اپنی محبت کو بیان فرمایا ہے- آپ اپنی تصنیف لطیف ’’عقل بیدار‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’مَیں رافضِی مذہب اور خارجی ملت سے بیزار ہوں- مَیں اہل سنت ہوں اور میری دوستی حضور (ﷺ) کے چاروں یاروں سے ہے‘‘-[7]

آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے کم و بیش 140 کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے صرف 35 کتب منظر عام پر ہیں- صحا بہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی شان وعظمت پر آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کی کوئی مستقل تصنیف نہیں ہے لیکن آپ کی تمام تصانیف میں مختلف عنوانات کے تحت صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کا ذکر خیر نظر آتا ہے جن میں سے چند عنوانات کی تفصیل درج ذیل ہیں:

سب سے پہلے ایمان لانے والے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم):

صحیح احادیث کے مطابق مرد حضرات میں ایمان لانے والے سب سے اول حضرت ابو بکر صدیق(رضی اللہ عنہ)، خواتین میں حضرت خدیجہ(رضی اللہ عنہا)، بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی (رضی اللہ عنہ)، غلاموں میں حضرت زید بن حارث (رضی اللہ عنہ)ہیں- دیگر حضرات نے ان کے بعد اسلام قبول کیا- پہلے پہل اسلام لانے والے حضرات کو سابقین اول کہا جاتا ہے-[8]

 سب سے پہلے ایمان لانے والے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا تذکرہ سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)اپنے دلکش روحانی انداز میں اپنی تصنیف لطیف ’’عین الفقر‘‘ میں یوں فرماتے ہیں:

’’حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام پر جس نے سب سے پہلے کلمہ طیب پڑھا وہ خود اللہ تعالیِ نے پڑھا، پھر حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)  کی روح مبارک نے پڑھا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجھہ شکم مادر میں مسلمان ہوئے اور انہوں نے کلمہ طیب ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘پڑھا- اس کے بعد دیگر صحابہ کرامؓ معجزہ ایمان سے مشرف ہوئے‘‘-[9]

صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی افضلیت:

یہ ایک فطرتی بات ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی ہر نسبت انسان کو عزیز ہو جاتی ہے- اسی لیے سلطان العارفین (قدس اللہ سرہٗ) فرماتے ہیں کہ وہ شخص حضور علیہ السلام کی محبت میں جھوٹا ہے جو آپ (ﷺ) کی آل و اصحاب (رضی اللہ عنھم)سے محبت نہیں رکھتا- جیسا کہ آپ اپنی تصنیف لطیف ’’محک الفقر (کلاں)‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’جو آدمی حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے دوستی کا دعوی کرتا ہے لیکن آپ (ﷺ) کے اصحاب(رضی اللہ عنھم)، آپ (ﷺ) کی آل اولاد اور شریعت و علماء سے دوستی نہیں رکھتاتو حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے اس کی دوستی کس طرح سچی ہوسکتی ہے؟ اس کا دعوٰیٔ دوستی سراسر جھوٹا ہے‘‘-[10]

جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے محبوب ترین نبی ہیں اور کوئی بھی آپ (ﷺ)کے مقام و مرتبے کے برابر نہیں آسکتا -بعین اسی طرح جنہیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی قربت و معیت حالت ایمان میں نصیب ہوئی، انبیاء کرام (علیہم السلام) کے بعد کوئی بھی ان کے مراتب تک پہنچنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا  جیسا کہ آپ اپنی تصنیف لطیف ’’محک الفقر‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’پانچ مراتب ایسے ہیں جن پر کوئی نہیں پہنچ سکتا اور اگر کوئی ان پر پہنچنے کا دعوی کرتا ہے تو وہ دین محمدی (ﷺ)سے برگشتہ و کافر ہے -مَیں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں:

1.      قرآن مجید حضور رسالت مآب (ﷺ) کے بعد کسی اور پر نازل نہیں ہوسکتا-

2.       مراتب معراج پر حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اور کوئی نہیں پہنچ سکتا-

3.       مراتب نبوت پر انبیاء کرام (علیہم السلام)کےعلاوہ اور کوئی نہیں پہنچ سکتا-

4.       سوائے پیغمبروں کے اور کسی پر وحی نازل نہیں ہوسکتی-

5.       اصحاب کبار اور دیگر صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کے مراتب تک اور کوئی نہیں پہنچ سکتا‘‘- [11]

ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:-

’’جو شخص اسم اللہ ذات، قرآن و حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)و شریعت و علماء و فقراء کا ادب و احترام نہیں کرتا وہ ملعون و بے دین ہے- میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں‘‘-[12]

صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا راہ خدا میں مال خرچ کرنا:

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر انفاق مال کی تاکید کی گئی ہے اور اس میں بھی بہترین اور پسندیدہ مال کی شرط لگائی ہے- قرآن مجید کے ان احکامات کی عملی تفسیر صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی جماعت تھی جنہوں نے اسلام کے استحکام کے لیے اپنی جانوں کے ساتھ اموال کی قربانی بھی پیش کی-

سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)طالبان مولیٰ کو صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی سنت پر چلنے کی تلقین فرماتے ہیں اور راہ للہ میں انفاق کو قربِ الٰہی کا ذریعہ بتاتے ہیں:

’’اگر کوئی کہے انبیاء و اصحاب کے پاس دنیا ہوتی تھی وہ کیوں دنیا رکھتے تھے؟ تو اس کو جواب دے کہ ان کے پاس دنیا رات دن اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور کفار و یہود کے ساتھ جنگ کرنے میں خرچ ہوتی تھی- وہ دنیا کو آخرت کی کھیتی بنا لیا کرتے تھے‘‘-[13]

صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) میں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)انفاق مال میں مشہور تھے-سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)اہل اللہ بادشاہ کا یہ وصف بیان فرماتے ہیں کہ وہ سیدنا عثمان غنی (رضی اللہ انہ) کی پیروی میں ہر وقت اللہ کی راہ میں انفاق کرتا ہے:

’’اہل اللہ و ظل اللہ (مسلمان بادشاہ) دنیا کو اس انداز سے خرچ کرتےہیں کہ ان کا تصرفِ دنیا عین مسلمانی ہوتا ہے- جیسا کہ حضرت عثمان اور حضرت نعمان (رضی اللہ عنھم)کا تصرفِ دنیا تھا اور اسی کے بارے میں فرمایا گیا کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے- وہ دن کی روزی رات تک خرچ کردیا کرتے تھے اور رات کی روزی دن چڑھے تک خرچ کردیا کرتے تھے- چنانچہ صاحب مدینہ محمد مصطفےٰ (ﷺ) نے فرمایا ہے ’’فقیر نہ تو دنیا کی طمع کرتا ہے، نہ دنیا کو جمع کرتا ہے اور نہ ہی دنیا کو روکتا ہے‘‘-[14]

مہاجرین صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی عظمت:

جو صحابہ کرام مکہ معظمہ سے اللہ تعالی اور رسول اللہ (ﷺ)  کی محبت میں اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینہ طیبہ ہجرت کر گئے ان کو مہاجرین صحابہ کہا جاتا ہے-سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) مہاجرین صحابہ کی شان و عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کو دین عزیز تھا- ان کو ابو جہل نے دین کے بدلے مال و زر اور حکمرانی کی پیش کش کی لیکن انہوں نے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی راہ میں جان تک قربان کر دی اور بعض لوگوں نے منافقت سے کام کیا، وہ کبھی مومن بن جاتے، کبھی کافر ہو جاتے اور کبھی تذبذب کا شکار ہوجاتے- جب حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اللہ کے حکم سے کعبہ سے کوچ کیا اور مدینہ کی طرف ہجرت کی تو ہر اہل محبت و جاں نثار ساتھی نے بھی آپ (ﷺ)کی اتباع میں ہجرت کی اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر اپنی جان و مال اور سر قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا- اس کے برعکس جن لوگوں پر اپنے وطن، اپنی زمین، اپنے مال، اپنی دولت اور اپنے قرابت داروں کی محبت غالب آئی وہ خدمتِ ہجرت سے جدا و محروم رہے- لیکن اصحاب جو اہلِ محبت تھے اور طائفہ فقراء میں سے تھے پکے عاشقِ رسول (ﷺ) تھے-اس لیے وہ آپ (ﷺ) کے ساتھ ہی ہجرت کرگئے- جو بھی سنتِ ہجرت سے محروم رہا طمع دنیا کی وجہ سے رہا‘‘-[15]

صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کا علم و تقوٰی:

سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)اپنی جملہ تصانیف میں طالبانِ مولیٰ کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ صرف علم انسان کو قرب الٰہی عطا نہیں کرتا جب تک کہ اس علم کے ساتھ تقوٰی نصیب نہ ہو جائے- آپؒ فرماتے ہیں کہ بعض صحابہ زیادہ اہل علم نہ تھے- لیکن تقوی اور عمل کے باعث بارگاہ خداوندی میں محبوب تھے:

’’اگر زیادہ علم پڑھنے میں فضیلت ہوتی تو علماء و فضلا کا مرتبہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)سے افضل ہوتا کہ بعض صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اہل علم نہ تھے لیکن انہوں نے اپنے دل میں تخم علم کاشت کررکھاتھا- ان میں سے جو کوئی زیادہ علم پڑھ کر یاد کرلیتا تھا اسے اپنی پرہیزگاری کے لیے پیشہ نہیں بناتا تھا کہ انہیں رحمٰن نے قرآن پڑھا دیا تھاکہ اللہ ہی ہے جو بندے کو علم و قرآن پڑھاتا ہے- چنانچہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) قرآن نازل ہوتے ہی اسے یاد کرلیا کرتے تھے‘‘-[16]

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اپنی تصنیف لطیف ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’علم ادب ہے جس کا تعلق نفسِ مطمئنہ سے ہے- الغرض! اصحاب رسول (ﷺ) کے پاس ظاہری علم نہ تھا لیکن ذکر اللہ کی تاثیر، کلمہ طیب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی محبت اور قلبی روحی سری جیسے خفیہ ذکر سے انہیں علم لدنی اور علم تفسیر کا روشن اور پر تاثیر فیض حاصل تھا- وہ اپنی ہر گفتگو میں پہلے کلمہ طیب یا اللہ تعالی کا نام لیتے تھے اور اس کے بعد کوئی دوسری بات کرتے تھے‘‘-[17]

سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) اپنی تصنیف لطیف ’’محک الفقر کلاں‘‘ میں علم کے طبقات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’یاد رہے کہ علم کے پانچ طبقات ہیں- ایک طبقہ عربی ہے کہ حضور علیہ السلام کے دور میں علم بھی زیادہ تھا اور عمل بھی زیادہ تھا- دوسرا طبقہ حضور علیہ السلام کے وصال کے بعد صحابہ کرام کا تھاکہ ان میں علم زیادہ نہ تھا مگرعمل زیادہ تھا- تیسرا طبقہ بعد کا ہے- ان میں علم زیادہ تھا مگر عمل نہ تھا- چوتھا طبقہ ایسا ہے کہ ان میں علم تھا نہ عمل- پانچواں طبقہ وہ ہے کہ جس میں حضرت عیسٰی روح اللہ آسمان چہارم سے خانہ کعبہ میں نزول فرمائیں گے اور آقا کریم (ﷺ) کے علم پر عمل پیرا ہونگے اور ان کا علم و عمل بھی زیادہ ہوگا‘‘[18]

شانِ اصحابِ صُفہ:

اصحابِ صفہ فقراء صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کو کہا جاتا تھا جو مسجد نبوی (ﷺ)سے متصل ایک چبوترے پر رہتے تھے- یہ صحابہ کرام کا ایک گروہ تھا جو محض عبادت الٰہی اور صحبت رسول (ﷺ)کو اپنا حاصل سمجھتا تھا-سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)فقراء اصحاب (رضی اللہ عنھم)کے متعلق فرماتے ہیں:

’’حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی قلبی دوستی فقر اور فقراء سے تھی کہ وہ فقراء صاحبِ معرفت تھے اور حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کو اللہ کی طرف سے حکم تھا کہ آپ(ﷺ) فقراء کو عزت وعظمت سے نوازیں- چنانچہ آپ (ﷺ)فقراء کی بہت زیادہ عزت افزائی فرمایا کرتے تھے- جسے دیکھ کر لوگ کہا کرتے تھے یا رسول اللہ یہ فقراء تو مجنون ہیں؛آپ (ﷺ) ان کی اس قدر دلداری کیوں فرماتے ہیں؟ اس پر آپ (ﷺ) فرماتے ’’جب اللہ تعالی نے انہیں اتنی عزت سے نوازا ہے تو مَیں ان کی اتنی عزت کیوں نہ کروں؟‘‘[19]

ایک مقام پر ان صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی طلبِ فقر بیان کرتے ہوئے آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں:

’’سفر معراج سے واپسی پر جب آپ (ﷺ)مجلس صحابہ میں پہنچے اور دریائے فقر سے حقیقتِ فقر مؤجزن ہوئی تو فقر معرفت کے احوال سن کر صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی ایک کثیر تعداد فقر محمدی (ﷺ)کی طلب گار ہوگئی- جس پر اللہ تعالی نے حکم فرمایا اے محمد(ﷺ)!آپ (ﷺ) ہر وقت ان فقراء پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور ان سے اپنی نگاہ نہ ہٹائیں کہ یہ ہر وقت ذکر خدا میں غرق رہنے والے لوگ ہیں- اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام شکر بجا لائے اور فرمایا الحمد للہ! اب ہم اللہ تعالی کے اس حکم کی تعمیل سے دم بھر کے لیے بھی فارغ نہیں ہونگے‘‘-[20]

شانِ خلفائے راشدین:

صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) میں افضل ترین لوگ خلفائے راشدین ہیں- جملہ صحابہ کرام میں خلفائے راشدین کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ حضور علیہ السلام کی ذات پاک سے غیر معمولی وابستگی اور عشق کے طفیل ہے-سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) نے اکثر اپنی کتب میں خلفائے راشدین کا ذکرایک مقام پر فرمایا ہے:

صدقِ صدیق و عدلِ عمر پر حیا عثمان بود
گوئی فقرش از محمد شاہِ مرداں می رمود

’’صدیق نے صدق، عمر نے عدل، عثمان نے حیا اور شاہِ مرداں مولی علی نے آقا کریم (ﷺ) سے فقر کی دولت پائی‘‘[21]

آپ (قدس اللہ سرّہٗ) طالبانِ مولیٰ کیلئے خلفائے راشدین کی زندگیوں کو رول ماڈل قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’طالبِ مولیٰ کے کیا معنی ہیں؟ طواف کنندہ دل، اہلِ ہدایت کہ جس کے دل میں صدق ہو جیسے کہ صاحبِ صدق حضرت ابوبکرصدیق، جیسے کہ صاحبِ عدل حضرت عمر بن خطاب، جیسے کہ صاحبِ حیاء حضرت عثمان غنی، جیسے کہ صاحبِ رضا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم، جیسے کہ سرتاجِ انبیاء و اصفیاء خاتم النبیین امین رسول رب العالمین صاحبِ الشریعت و السر حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کہ یہ تمام طالبانِ مولیٰ مذکر ہیں‘‘-[22]

آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ فقیر وہ ہوتا ہے جو خلفائے راشدین کی 4 صفات سے متصف ہوتا ہے:

’’فقیر میں چار صفات اصحاب کبار کی پائی جاتی ہیں- ایک صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ)کی صفتِ صدیق، دوسری حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کی صفتِ محاسبہ، تیسری حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ) کی صفتِ حیاء اور چوتھی حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کی صفتِ علم وجود و سخا‘‘-[23]

آپ(قدس اللہ سرّہٗ)مجلس محمدی (ﷺ) کی حضوری کی تاثیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’جب کوئی طالب اللہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں داخل ہوتا ہے تو اس پر چار نظروں کی تاثیر وارد ہوتی ہے- حضرت صدیقِ اکبر(رضی اللہ عنہ) کی نگاہ سے اس میں صدق پیدا ہوتا ہے اور جھوٹ و نفاق وجود سے نکل جاتا ہے- حضرت عمر فاروق(رضی اللہ عنہ) کی نظر سے عدل اور محاسبۂ نفس کی قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے وجود سے خطرات ہوائے نفسانی کا خاتمہ ہوجاتا ہے- حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کی نظر سے ادب و حیاء پیدا ہوتا ہے اور بے حیائی ختم ہو جاتی ہے- حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کی نظر سے علم ہدایت فقر پیدا ہوتا ہے اور اس کے وجود سے جہالت اور حب دنیا کا خاتمہ ہوجاتا ہے‘‘-[24]

عظمتِ صحابہ ابیاتِ باھوؒ (پنجابی)کی روشنی میں: -

آپؒ نے اپنے پنجابی کلام میں  جہاں بھی عشاق کی بات کی ہےیا فقراء کی شان بیان کی ہے؛ اس سے اولین مراد صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) ہی ہیں جو ہر دور کے عشاق اور فقراء کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں-کیونکہ یہ بات آپؒ کی نثر سے عیاں ہے کہ انبیاءکرام (علیہم السلام)کے بعد اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)سے سب سے زیادہ  محبت کرنے والی جماعت صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی ہےاور ان کے مقام و مرتبے تک کوئی بھی ولی نہیں پہنچ سکتا- آپؒ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی شان اپنے پنجابی بیت میں یوں فرماتے ہیں:

میں قربان تنہاں تو یا حضرت باھو جنہاں ملیا نبی سہارا ھو

آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے اس بیت میں کس دلکش انداز میں صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) کی مدح فرمائی ہےکہ میں ان اصحاب پر قربان جاؤں جنہیں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی معیت میں حضوری اور قرب نصیب ہوا کیونکہ حضور نبی کریم (ﷺ)کی معیت اتنا بڑا شرف ہے  کہ کوئی شخص پوری زندگی عبادت میں گزار دے لیکن اس کی تمام عبادت کسی صحابی کےاس ایک لمحہ کو نہیں پہنچ سکتی جو حضور نبی کریم (ﷺ)کی معیت میں کسی صحابی کا گزرا ہے- ایک اور مقام پہ اِسی مضمون کے تحت آپ فرماتے ہیں :

جنہاں مجلس نال نَبِیؐ دے باھوؒ سوئی صاحب ناز نوازاں ھو

سیّدنا فاروقِ اعظم (رضی اللہ عنہ) کو مُرادِ رسول کہا جاتا ہے- اِس واقعہ کو حضرت سُلطان العارفین اپنے ایک بیت میں یوں بیان فرماتے ہیں :

مُڑن محال تنہاں نوں باھُو جنہاں صاحب آپ بلائی ھُو

حضرت سُلطان العارفین سُلطان باھُوکا وہ مشہور بیت ’’ایہہ تن میرا چشمہ ہووے‘‘میں جب بھی پڑھتا ہوں تو مجھے حدیثِ ثوبان (رضی اللہ عنہ)یاد آ جاتی ہے جس میں انہوں نہایت غمزدہ ہوکر عرض کی کہ یا رسول اللہ (ﷺ)! جنت میں آپ انبیاء کرام  (علیہم السلام) کے ساتھ ہونگے تو ہم آپ کا دیدار کیسے کر سکیں گے؟ مجھے اس مذکورہ بیت میں صحابی رسول حضرت ثوبان (رضی اللہ عنہ)کے واقعہ کی جھلک نظر آتی ہے -

موضوع کی طوالت کے پیشِ نظر ناچیز چند ابیات پر ہی اکتفا کررہا ہے حالانکہ یہ عنوان بہت تفصیل کا متقاضی ہے-

مرویاتِ صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم):

آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اپنی تصانیف میں دیگر صوفیاء کی طرح احادیثِ نبوی (ﷺ) کو بیانِ سند کے بعد نقل فرماتے ہیں کبھی سند کے بغیر بیان کرتے ہیں لیکن بعض جگہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نےاس روایت کو بیان کرنے والے صحابی کا بھی ذکر فرمایا- جن صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی مرویات کا ذکر آپ نے فرمایا ہے ان میں سے چند نام یہ ہیں: ابوذرغفاری، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت معقل بن یسار، حضرت معاذ،  ابن عباس،  ابن مسعود، حضرت علی کرم اللہ وجھہ، حضرت اسہل بن سعید (رضی اللہ عنہ)

اقوالِ صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم):

آپ (قدس اللہ سرّہٗ)جہاں طالبانِ مولیٰ کو تلقین قرآن مجید و احادیث نبوی (ﷺ) بیان فرمایا کرتے ہیں وہیں آپ نے اکثر اقوالِ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)کو بھی پیش کیا ہے- جن میں سے صرف چند اقوال ِ سیدنا علی (رضی اللہ عنہ)درج ذیل ہیں:

1.       ’’مَیں جس چیز کو بھی دیکھتا ہوں اس میں اللہ ہی اللہ دیکھتا ہوں کہ ہر چیز کی عین حقیقت اللہ ہی ہے‘‘-[25]

2.       ’’جس نے مجھے ایک حرف سکھایا وہ میرا مولیٰ یعنی استاذ ہے‘‘-[26]

3.       ’’آج کل کے یار عیبوں کے جاسوس ہیں‘‘-[27]

4.       ’’حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے جسے وہ ضرور حاصل کرے خواہ کافر سے ملے‘‘-[28]

حرفِ آخر:

آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی جملہ تصانیف طالبانِ مولیٰ کےلیے لکھی ہیں جس میں آپ (قدس اللہ سرّہٗ) طالبانِ مولیٰ کو قرآن و احادیث سے تلقین کرتے ہیں-حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اہل بیت (علیہہم السلام)اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)کو طالبانِ مولیٰ کے لیے رول ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں- اس مقالے  میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)سے متعلق چند فرمودات کو چند عنوانات کے تحت منتخب تصانیف سے اخذ کرکے پیش کیا گیا ہے- حالانکہ اس موضوع پر ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے- اللہ تعالیٰ ہمیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام، آپ (ﷺ)کے اہل بیت و اصحاب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے-آمین---!


[1](صحیح بخاری، رقم الحدیث:3673)

[2](صحیح مسلم، رقم الحدیث:2531)

[3](سنن ترمذی، رقم الحدیث :3862)

[4](تفسیر قرطبی، ج:16، ص:322)

[5](نور الھدٰی، ص:23، ایڈیشن اکتوبر 2014ء)

[6](شمس العارفین، ص:23، ایڈیشن اکتوبر 2015ء)

[7](عقل بیدار، ص:235، ایڈیشن:مارچ 2013ء)

[8]( مواھب لدنیہ، ج:1، ص:244)

[9](عین الفقر،ص :73، ایڈیشن: اپریل 2017ء)

[10](محک الفقر کلاں، ص:91، ایڈیشن: جنوری 2015ء)

[11](ایضاً، ص:35)

[12]( ایضاً، ص:133)

[13]( ایضاً، ص :535)

[14](کلید التوحید کلاں، ص:453، ایڈیشن: جنوری 2015ء)

[15](عین الفقر ، ص :369،  ایڈیشن: اپریل 2017ء)

[16](محک الفقر کلاں، ص:547)

[17](کلید التوحید کلاں، ص:447)

[18](محک الفقر کلاں، ص:457)

[19](محک الفقر کلاں، ص:95)

[20](محک الفقر کلاں، ص:521)

[21](محک الفقر کلاں، ص:565)

[22](عین الفقر،  ص:171)

[23](اسرار القادری ، ص:169)

[24](شمس العارفین، ص:149)

[25](عین الفقر، ص:45)

[26](عین الفقر، ص:81)

[27](عین الفقر، ص:119)

[28](عقل بیدار، ص:299)

انبیائے کرام (﷩)کے بعد روئے زمین پر سب سے پاک باز جماعت صحابہ کرام (﷢)کی جماعت ہے- جن کی آنکھیں نہ صرف حالت ایمان میں حضور رسالت مآب (ﷺ)  کے دیدار سے منور ہوئیں بلکہ انہیں حضور نبی کریم (ﷺ)کی معیت و قربت بھی نصیب رہی- اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ کرام (﷢) عدول ہیں، اللہ کے اولیاء و اصفیاء ہیں اور نبیوں اور رسولوں کے بعد تمام مخلوق سے افضل ہیں-یہ عقیدہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی احادیث مبارکہ سے اخذ کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

’’حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا: میرے اصحاب کو بُرا نہ کہو اگر تم میں سے کوئی ایک شخص احد پہاڑ جتنا سونا خیرات کردے، پھر بھی وہ ان کے دئیے ہوئے ایک کلو یا نصف کلو کے برابر نہیں ہوگا‘‘-[1]

’’حضرت  ابو بردہ اپنے والد (﷜)سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)نے آسمان کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: ستارے آسمان کی امان ہیں اور جب ستارے چلے جائیں گے تو آسمان پر وہ چیزیں آجائیں گی جن سے آسمان کو ڈرایا گیا ہے اور میرے اصحاب میری امت کے امان ہیں- جب میرا وصال ہوگا تو میرے اصحاب کے پاس وہ چیزیں آجائیں گی، جن سے ان کو ڈرایا گیا ہے‘‘- [2]

’’حضرت عبداللہ ابن مغفل بیان کرتے ہیں کہ رسول  اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: میرے اصحاب کے متعلق اللہ سے ڈرو، ان کو میرے بعد طنز کا نشانہ نہ بناؤ- جس نے ان سے محبت رکھی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا انہوں نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے ان کو اذیت دی، اس نے بے شک مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی اس نے بے شک اللہ کو اذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی، عنقریب اللہ اس کو پکڑے گا‘‘-[3]

 صحابہ کرام (﷢)امت کے رہنما و قائد ہیں - صحابہ کرام (﷢)کے وسیلے سے ہی اس امت تک دین پہنچا ہے کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) نے جو کچھ ہم کو من جانب اللہ عطا کیا ہے وہ ہم تک صحابہ کرام (﷢) ہی کی معرفت سے پہنچا ہے- اسی لیے امام المفسرین علامہ قرطبی فرماتے ہیں:-

’’یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے- اس لیے ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اور سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی- یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے باہمی اختلاف میں کف لسان کریں اور ہمیشہ ان کا ذکر بہتر طریقہ پر کریں کیونکہ صحابیت بڑی حرمت (وعظمت) کی چیز ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے ان کو معاف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے‘‘-[4]

عظمتِ صحابہ تعلیماتِ باھو

کی روشنی میں:

سلطان العارفین قدس اللہ سرہ اہل بیت اطہار (﷩) اور صحابہ کرام (﷢)سے بےحد عقیدت رکھتےتھے جس کا اظہار آپؒ نے اپنی نثر میں بھی فرمایا اور اپنی فارسی و لہندی(پنجابی) زبان کی شاعری میں بھی فرمایا- آپ کی تمام تصانیف کا اسلوب یہ ہے کہ آپ اپنی تصانیف کی ابتدا اللہ رب العزت کی حمد و ثناء سے کرتے ہیں اور پھر حضور نبی کریم (ﷺ) کی نعت میں چند نثری کلمات فرماتے ہیں- اکثر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام، آپ (ﷺ) کی آل،آپ (ﷺ)کے اصحاب (﷢) اور آپ (ﷺ)کے اہل بیت (﷩)پر ان الفاظ میں درود و سلام پیش کرتے ہیں:

’’لا محدود درود ہو اشرف المخلوقات ابو القاسم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہ و اھل بیتہ اجمعین‘‘[5]

سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) اپنی تصنیف لطیف  ’’شمس العارفین‘‘ کے ابتدائیہ میں صحابہ کرام (﷢) کے متعلق اپنے عقیدے کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:-

’’صلوٰۃ و سلام ہو اللہ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)پر، ان کی آل اور ان کے جملہ اصحاب پر جو سب کے سب اہل مغفرت اور اہل رضوان ہیں‘‘- [6]

 آپ (قدس اللہ سرّۂ)نے اپنی تمام تصانیف میں سینکڑوں مقامات پر اپنے اہل سنت ہونے کا بیان فرمایا ہے اور اہلِ بیت اطہار و صحابہ کرام (﷢)سے اپنی محبت کو بیان فرمایا ہے- آپ اپنی تصنیف لطیف ’’عقل بیدار‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’مَیں رافضِی مذہب اور خارجی ملت سے بیزار ہوں- مَیں اہل سنت ہوں اور میری دوستی حضور (ﷺ) کے چاروں یاروں سے ہے‘‘-[7]

آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے کم و بیش 140 کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے صرف 35 کتب منظر عام پر ہیں- صحا بہ کرام (﷢)کی شان وعظمت پر آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کی کوئی مستقل تصنیف نہیں ہے لیکن آپ کی تمام تصانیف میں مختلف عنوانات کے تحت صحابہ کرام (﷢)کا ذکر خیر نظر آتا ہے جن میں سے چند عنوانات کی تفصیل درج ذیل ہیں:

سب سے پہلے ایمان لانے والے صحابہ کرام (﷢):

صحیح احادیث کے مطابق مرد حضرات میں ایمان لانے والے سب سے اول حضرت ابو بکر صدیق(﷜)، خواتین میں حضرت خدیجہ(﷞)، بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی (﷜)، غلاموں میں حضرت زید بن حارث (﷜)ہیں- دیگر حضرات نے ان کے بعد اسلام قبول کیا- پہلے پہل اسلام لانے والے حضرات کو سابقین اول کہا جاتا ہے-[8]

 سب سے پہلے ایمان لانے والے صحابہ کرام (﷢) کا تذکرہ سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)اپنے دلکش روحانی انداز میں اپنی تصنیف لطیف ’’عین الفقر‘‘ میں یوں فرماتے ہیں:

’’حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام پر جس نے سب سے پہلے کلمہ طیب پڑھا وہ خود اللہ تعالیِ نے پڑھا، پھر حضرت ابو بکر صدیق (﷜)  کی روح مبارک نے پڑھا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجھہ شکم مادر میں مسلمان ہوئے اور انہوں نے کلمہ طیب ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘پڑھا- اس کے بعد دیگر صحابہ کرامؓ معجزہ ایمان سے مشرف ہوئے‘‘-[9]

صحابہ کرام (﷢) کی افضلیت:

یہ ایک فطرتی بات ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی ہر نسبت انسان کو عزیز ہو جاتی ہے- اسی لیے سلطان العارفین (قدس اللہ سرہٗ) فرماتے ہیں کہ وہ شخص حضور علیہ السلام کی محبت میں جھوٹا ہے جو آپ (ﷺ) کی آل و اصحاب (﷢)سے محبت نہیں رکھتا- جیسا کہ آپ اپنی تصنیف لطیف ’’محک الفقر (کلاں)‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’جو آدمی حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے دوستی کا دعوی کرتا ہے لیکن آپ (ﷺ) کے اصحاب(﷢)، آپ (ﷺ) کی آل اولاد اور شریعت و علماء سے دوستی نہیں رکھتاتو حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے اس کی دوستی کس طرح سچی ہوسکتی ہے؟ اس کا دعوٰیٔ دوستی سراسر جھو?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر