ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

راتیں رتی نیندر نہ آوے دہاں رہے حیرانی ھو
عارف دی گل عارف جانی کیا جانی نفسانی ھو
کر عبادت پچھو تاسیں تیری زایا گئی جوانی ھو
حق حضور اُنہاں نوں حاصل باھوؒ جنہاں ملیا شاہ جیلانی ھو

Could not sleep moment at night and remain perplexed during the day Hoo

Arifs (Gnostic) speech could only be understood by Arif what would person of nafs know about it hey Hoo

Resort to worshiping you will regret your life is being wasted away Hoo

Presence of Haqq accessed by those ‘Bahoo’ who met Shah Gillani on the way Hoo

Ratee’N ratti nendar nah Aaway diha’N rahay herani Hoo

Aarif di gal aarif janay kia jane nafsani Hoo

Kar ibadat pachotase’N teri zaya gai jawani Hoo

Haq Hazoo onha’N no’N Hasil Bahoo jinha’N milya Shah Jilani Hoo

تشریح

فقیر بعشق بے قرار و بے آرام

 

و علم بے معرفت چنانچہ نمک بے طعام[1] 

’’فقیر عشق میں مبتلاہوکر بے قرار و بے آرام رہتاہے ،بے معرفت علم ایسے ہے جیسے نمک بے طعام‘‘-

جب طلب اپنے عروج کو پہنچتی ہے،تو ان کو دن رات یہ کھٹکا سالگا رہتاہے کہ کہیں احکاما تِ الہٰیہ کی تعمیل میں کمی نہ رہ جائے،اپنے مالک کے احکامات کی تعمیل کی فکر میں اس قدر مگن ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے جسم وجان کی بھی فکر نہیں ہوتی جیسا کہ حضور شہنشاہ بغداد (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:

’’اور محبوب (کی توحالت یہ ہوتی ہے کہ )اس کا وجود ہی نہیں ہوتا اور قضا و قدر اور علمِ حق تعالیٰ کی وادی میں اللہ تعالیٰ کی معیت میں (حیران و سرگشتہ )ہوتا ہے کہ دریاے علم کی موجیں اسے اٹھاتی بٹھاتی رہتی ہیں،کبھی عالم بالا تک چڑھاتی ہیں اورکبھی تخت زمین پر اتارتی ہیں اوروہ متحیر ہوتا ہے کہ کچھ نہیں سمجھتا -گونگا بہراہوتاہے کہ نہ غیر کی سنتاہے اورنہ غیر کو دیکھتاہے اور وہ گویا اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں میں مردہ بے جان ہوتاہے ‘‘- [2]

2-اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ لوگوں کا اللہ پاک کے ساتھ ایک راز و نیاز کا تعلق ہوتاہے ان کی تمام باتیں چونکہ عشق و محبت کی ہوتی ہیں اوران کو عام آدمی نہ جا ن سکتا ہے اور نہ اس کے بس کی بات ہے کہ وہ عارف کی کیفیات پہ مطلع ہوسکے،جیساکہ حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں :

’’ارے احمق !مراتبِ فقرکو تُونے دیکھاہی کب ہے؟تو تو ابھی تک اندھاہے،ابھی تک تو فقر کی بُو بھی تیرے دماغ تک نہیں پہنچی،فقرتو رستگاری اورکم آزاری کی راہ ہے،اسے بازاری لوگ کیاجانیں کہ بازاری لوگوں کا نفس ہی ادھررخ نہیں کرتا اور اگر کرے تو بھی ٹھہرتا نہیں -مرتبہ فقرکی تو ابتداء عین بہ عین مشاہدہ ہے‘‘ - [3]

جس کو عرفانِ الٰہی حاصل ہوتا ہے اس کی بات وہی سمجھ سکتا ہے جو اس راہ کے راز و اسرار سے واقف ہوتا ہے کیونکہ راہِ سلوک میں جب طالب مدارج کو طے کرتا ہے تو ایسے مقامات سے گزرتا ہے جو نفسانی لوگوں کے سمجھ و فہم سے بالا تر ہوتے ہیں کیونکہ جو اپنی غرض کے احوال سے کبھی نکلا ہی نہ ہو وہ بھلا عاشق کی مشکلات کو کیوں سمجھ سکتا ہے-

حافظ شیرازی اس ضمن میں کیا خوب کَہ گئے:

ز آشفتگی حالِ من آگاہ کے شود

 

آنرا کہ دل نگشت گرفتار ایں کمند[4]

’’میرے حال کی پریشانی سے وہ شخص کب واقف ہو سکتا ہے جس کا دل اس کمند میں کبھی گرفتار نہ ہوا ہو‘‘-

3-حضور سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ اےانسان اگر تو نے جوانی کے لمحات کو غنیمت نہ جانا تو آخری عمر میں سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہ ہوگا-کیونکہ ویسے تو انسان عمر کے جس حصے میں اپنے معبودِ حقیقی کی بارگاہِ اقدس کا قصدکرتا ہے اپنے مالک وخالق کے نوازشات کے دروازوں کو کھلا ہوا پاتا ہے،لیکن جوانی کو اس لیے ترجیح دی گئی کیونکہ اس وقت نہ صر ف انسان کے جذبات جوان ہوتے ہیں بلکہ ظاہری قوٰی بھی اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ اللہ پاک کے احکامات کو عملی جامہ پہناسکیں،اس لیے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا بہترین وقت جوانی ہے،جس میں وہ عبادت کرکے اللہ پاک کو راضی کرسکتا ہے اور دوسرا جوانی میں تمام خواہشات نفسانیہ اپنے عروج پہ ہوتی ہیں،جس طرح منہ زور اور سرکش جانور کو قابو کرنا مشکل ہوتا ہے ایسے ہی جوانی کے عالم میں اپنی نوجوان دھڑکنوں کو اپنے مالکِ حقیقی کےنا م لگانا جہاں مشکل ہے وہاں اللہ پاک کی رضا کا ذریعہ بھی ہے، خاص طور پر جب ایک نوجوان سچے دل سے تمام معاصی سے توبہ تائب ہو کراپنی خواہشات ِ نفسانیہ سے دست بردار ہو جاتا ہے تو اللہ پاک ایسے نوجوان سے خوش ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا کہ:

’’مَا مِنْ شَیْءٍ أَحَبُّ إلَى اللہِ تَعَالىٰ مِنْ شَابٍ تَائِبٍ‘‘[5]

 

’’اللہ تعالیٰ کو توبہ کرنے والے نوجوان سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ‘‘-

4-آخری مصرعہ میں آپ (قدس اللہ سرّہٗ) فرما رہے ہیں کہ عرفانِ حق تعالیٰ اسی کو حاصل ہوتا ہے جو دل و جان سے سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ) کو اپنا رہبر و مرشد تسلیم کر لیتا ہے جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اپنی مایہ ناز تصنیفِ لطیف ’’محک الفقر کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں :

’’جس نے بھی غوثیت، قطبیت و درویشی و فقیری و اولیائ و ولایت و ہدایت کی دولت و نعمت و سعادت پائی حضور غوث الاعظم (قدس اللہ سرّہٗ) کی بارگاہ سے پائی کیونکہ دونوں جہان کی چابی آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کے ہاتھ میں ہے‘‘-[6]

ایک اور مقام پہ  حضورسلطان العارفینؒ فرماتے ہیں:

’’پیر ہو تو ایسا ہو کہ جیسے میرے پیر شاہ محی الدین سلطان عبدالقادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ) ہیں جو روزانہ ہزار مریدوں کو حضور علیہ الصلوٰۃُ والسلام کی مجلس کی حضوری بخشتے ہیں -

سگِ درگاہِ میراں شو چوں خواہی قرب ربانی

 

کہ بر شیران شرف دارد سگِ درگاہِ جیلانی[7]

’’ اگرتُو قربِ ربانی کا طلب گار ہے تو درگاہِ میراںؒ کا کتا بن جا کہ اُن کی درگاہ کے کتوں کو شیروں پر برتری حاصل ہے‘‘-


[1](عین الفقر)

[2](فتح الربانی)

[3](نور الہدی)

[4](حافظ شمس الدین شیرازی دیوان، ص:152)

[5](الجامع الصغیر از امام جلال الدین سیوطی)

[6](محک الفقر کلاں)

[7](محک الفقر کلاں)

فقیر بعشق بے قرار و بے آرام

 

و علم بے معرفت چنانچہ نمک بے طعام[1] 

’’فقیر عشق میں مبتلاہوکر بے قرار و بے آرام رہتاہے ،بے معرفت علم ایسے ہے جیسے نمک بے طعام‘‘-

جب طلب اپنے عروج کو پہنچتی ہے،تو ان کو دن رات یہ کھٹکا سالگا رہتاہے کہ کہیں احکاما تِ الہٰیہ کی تعمیل میں کمی نہ رہ جائے،اپنے مالک کے احکامات کی تعمیل کی فکر میں اس قدر مگن ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے جسم وجان کی بھی فکر نہیں ہوتی جیسا کہ حضور شہنشاہ بغداد (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:

’’اور محبوب (کی توحالت یہ ہوتی ہے کہ )اس کا وجود ہی نہیں ہوتا اور قضا و قدر اور علمِ حق تعالیٰ کی وادی میں اللہ تعالیٰ کی معیت میں (حیران و سرگشتہ )ہوتا ہے کہ دریاے علم کی موجیں اسے اٹھاتی بٹھاتی رہتی ہیں،کبھی عالم بالا تک چڑھاتی ہیں اورکبھی تخت زمین پر اتارتی ہیں اوروہ متحیر ہوتا ہے کہ کچھ نہیں سمجھتا -گونگا بہراہوتاہے کہ نہ غیر کی سنتاہے اورنہ غیر کو دیکھتاہے اور وہ گویا اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں میں مردہ بے جان ہوتاہے ‘‘- [2]

2-اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ لوگوں کا اللہ پاک کے ساتھ ایک راز و نیاز کا تعلق ہوتاہے ان کی تمام باتیں چونکہ عشق و محبت کی ہوتی ہیں اوران کو عام آدمی نہ جا ن سکتا ہے اور نہ اس کے بس کی بات ہے کہ وہ عارف کی کیفیات پہ مطلع ہوسکے،جیساکہ حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں :

’’ارے احمق !مراتبِ فقرکو تُونے دیکھاہی کب ہے؟تو تو ابھی تک اندھاہے،ابھی تک تو فقر کی بُو بھی تیرے دماغ تک نہیں پہنچی،فقرتو رستگاری اورکم آزاری کی راہ ہے،اسے بازاری لوگ کیاجانیں کہ بازاری لوگوں کا نفس ہی ادھررخ نہیں کرتا اور اگر کرے تو بھی ٹھہرتا نہیں -مرتبہ فقرکی تو ابتداء عین بہ عین مشاہدہ ہے‘‘ - [3]

جس کو عرفانِ الٰہی حاصل ہوتا ہے اس کی بات وہی سمجھ سکتا ہے جو اس راہ کے راز و اسرار سے واقف ہوتا ہے کیونکہ راہِ سلوک میں جب طالب مدارج کو طے کرتا ہے تو ایسے مقامات سے گزرتا ہے جو نفسانی لوگوں کے سمجھ و فہم سے بالا تر ہوتے ہیں کیونکہ جو اپنی غرض کے احوال سے کبھی نکلا ہی نہ ہو وہ بھلا عاشق کی مشکلات کو کیوں سمجھ سکتا ہے-

حافظ شیرازی اس ضمن میں کیا خوب کَہ گئے:

ز آشفتگی حالِ من آگاہ کے شود

 

آنرا کہ دل نگشت گرفتار ایں کمند[4]

’’میرے حال کی پریشانی سے وہ شخص کب واقف ہو سکتا ہے جس کا دل اس کمند میں کبھی گرفتار نہ ہوا ہو‘‘-

3-حضور سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ اےانسان اگر تو نے جوانی کے لمحات کو غنیمت نہ جانا تو آخری عمر میں سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہ ہوگا-کیونکہ ویسے تو انسان عمر کے جس حصے میں اپنے معبودِ حقیقی کی بارگاہِ اقدس کا قصدکرتا ہے اپنے مالک وخالق کے نوازشات کے دروازوں کو کھلا ہوا پاتا ہے،لیکن جوانی کو اس لیے ترجیح دی گئی کیونکہ اس وقت نہ صر ف انسان کے جذبات جوان ہوتے ہیں بلکہ ظاہری قوٰی بھی اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ اللہ پاک کے احکامات کو عملی جامہ پہناسکیں،اس لیے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا بہترین وقت جوانی ہے،جس میں وہ عبادت کرکے اللہ پاک کو راضی کرسکتا ہے اور دوسرا جوانی میں تمام خواہشات نفسانیہ اپنے عروج پہ ہوتی ہیں،جس طرح منہ زور اور سرکش جانور کو قابو کرنا مشکل ہوتا ہے ایسے ہی جوانی کے عالم میں اپنی نوجوان دھڑکنوں کو اپنے مالکِ حقیقی کےنا م لگانا جہاں مشکل ہے وہاں اللہ پاک کی رضا کا ذریعہ بھی ہے، خاص طور پر جب ایک نوجوان سچے دل سے تمام معاصی سے توبہ تائب ہو کراپنی خواہشات ِ نفسانیہ سے دست بردار ہو جاتا ہے تو اللہ پاک ایسے نوجوان سے خوش ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا کہ:

’’مَا مِنْ شَیْءٍ أَحَبُّ إلَى اللہِ تَعَالىٰ مِنْ شَابٍ تَائِبٍ‘‘[5]

 

’’اللہ تعالیٰ کو توبہ کرنے والے نوجوان سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ‘‘-

4-آخری مصرعہ میں آپ (قدس اللہ سرّہٗ) فرما رہے ہیں کہ عرفانِ حق تعالیٰ اسی کو حاصل ہوتا ہے جو دل و جان سے سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ) کو اپنا رہبر و مرشد تسلیم کر لیتا ہے جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اپنی مایہ ناز تصنیفِ لطیف ’’محک الفقر کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں :

’’جس نے بھی غوثیت، قطبیت و درویشی و فقیری و اولیائ و ولایت و ہدایت کی دولت و نعمت و سعادت پائی حضور غوث الاعظم (قدس اللہ سرّہٗ) کی بارگاہ سے پائی کیونکہ دونوں جہان کی چابی آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کے ہاتھ میں ہے‘‘-[6]

ایک اور مقام پہ  حضورسلطان العارفین (﷫) فرماتے ہیں:

’’پیر ہو تو ایسا ہو کہ جیسے میرے پیر شاہ محی الدین سلطان عبدالقادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ) ہیں جو روزانہ ہزار مریدوں کو حضور علیہ الصلوٰۃُ والسلام کی مجلس کی حضوری بخشتے ہیں -

سگِ درگاہِ میراں شو چوں خواہی قرب ربانی

 

کہ بر شیران شرف دارد سگِ درگاہِ جیلانی[7]

’’ اگرتُو قربِ ربانی کا طلب گار ہے تو درگاہِ میراںؒ کا کتا بن جا کہ اُن کی درگاہ کے کتوں کو شیروں پر برتری حاصل ہے‘‘-



[1](عین الفقر)

[2](فتح الربانی)

[3](نور الہدی)

[4](حافظ شمس الدین شیرازی دیوان، ص:152)

[5](الجامع الصغیر از امام جلال الدین سیوطی)

[6](محک الفقر کلاں)

[7](محک الفقر کلاں)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر