ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

دل تے دفتر وحدت والا دائم کر مطالعہ ھو
ساری عمراں پڑھدیاں گزری جہلاں دے وچ جالیا ھو
اکو اسم اللہ دا رکھیں اپنا سبق مطالعہ ھو
دوہیں جہاں غلام تنہاں دے باھو جیں دل اللہ سمجھالیا ھو  (ابیات باھو)

Heart is the centre of oneness keep its study forever Hoo

Spent all the life in study and still remained ignorant as ever Hoo

Keep single Ism-e-Allah in your study for learning Hoo

Both worlds are slaves of those Bahoo whose heart attains Ism-e-Allah’s yearning Hoo

Dill tay daftar wa’Hdat wala daim kar mutalia Hoo

Sari umraa’N pa’Rhdiya’N guzri jehla’N day wich jalia Hoo

Ikko isam Allah da rakhee’N apna sabaq mutalia Hoo

Dohai’N jaha’N Ghulam tinha’N dy Bahoo jai’N dill Allah samjha lia Hoo

تشریح:

(۱)اے درویش حق! تیرا دل وحدتِ حق کی لازوال کتا ب ہے-اس کتاب پہ اللہ تعالیٰ نے روزِ الست سے ہی اسم اللہ ذات رقم کردیا تھا-اے طالب! اپنے دل کی کتاب کی ورق گردانی تو کر تجھے اس کتاب کے ہر صفحہ ہر سطر اورہر حرف سے وحدت حق تعالیٰ کے وہ راز حاصل ہوں گے جوصرف شاہکار اولیاء اللہ کانصیبہ ہے-بقول سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ): 

ہر کتابی نکتہ از دل کتاب
دلی با معرفت سِرِّ الٰہی
بی کاغذ سیاہی دل کتاب است
کسی زین علم عالم خواند

 

دل کتابی دفترِ حق بی حجاب
دلی کاغذ باسرارِ اِلٰہی
بی کاغذ سیاہی دل کتاب است
بہر دو عالمی آن زندہ ماند[1]

 ’’ہر کتاب صحیفہ  ٔ دل کا ایک نکتہ ہے ، دل ایک ایسی کتاب ہے جس میں دفاتر ِ حق بے حجاب نظر آتے ہیں -صاحب ِمعرفت دل اللہ تعالیٰ کا ایک بھید ہے، دل ایک ایسا کاغذ ہے کہ جس پر اسرارِاِلٰہی درج ہیں - دل ایک ایسی کتاب ہے کہ جس میں کاغذ و سیاہی کا وجود نہیں ہے ، کتابِ دل کا مطالعہ کیا کر کہ یہ ایک بے حجاب کتاب ہے جو عالم اِس کتا ب کا علم پڑھ لیتا ہے وہ ہر دو جہان میں زندہ جاوید ہو جاتا ہے ‘‘-

(۲) ظاہر پرست علماء واہلِ دانش ساری عمر مطالعہ میں گزاردیتے ہیں لیکن راہِ راز کا ایک حرف بھی نہیں پڑھتے -یہ صدفی صد درست ہے کہ مطالعۂ علم کامقصد معرفت الٰہی ہے اور اگر مطالعہ سے قرب خداوندی حاصل نہ ہوسکے تواس کی مقصدیت و منفعت فوت ہوجاتی ہے-مقصد سے بے خبری جہالت سے تعبیر ہوتی ہے-آپ قدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں کہ:

’’اگر کوئی تمام عمر مطالعۂ علم میں صرف کردے اور صاحب ِتحصیل عالم فاضل بن کر علم کی جان کاری اور سمجھ بوجھ حاصل کرلے تو پھر بھی باطن میں معرفت ِتوحید اورقرب اللہ حضوری سے بے خبر و محروم رہتاہے اور اگر کوئی ساری عمر ریاضت میں صرف کردے اور ایک سو تیس سال تک ایک ہی پاؤں پر کھڑا ہو کر مجاہدہ کرتا رہے تو پھر بھی اُسے باطن میں طریقت و معرفت و لقا وبقا و فنا کی کوئی خبرنہیں ہوتی کہ مرشد ِکامل کی عطائے توفیق و تحقیق کے بغیر کبھی کوئی از خود باطن کے اِن مراتب تک نہیں پہنچ سکتا‘‘[2]-

(۳)اے درویش بے خوف! اپنی حقیقت پہچان اورتصورِ اسم اللہ ذات کو حرزِ جان بنالے-اسم اللہ ذات مولیٰ اوربندے کے درمیان وسیلہ و رابطہ ہے-اس رابطہ کو بحال کر تاکہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی سبیل تجھ پہ عیاں ہوجائے-جیساکہ آپ قدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں کہ :

’’اسم اللہ وہ با عظمت و عظیم نام ہے کہ تمام اِبتدأ و انتہا اور معرفت ِنور حضور کا مشاہدہ اِسی میں پایا جاتا ہے بشر طیکہ پڑھنے والا اِسے پورے اخلاص کے ساتھ پڑھے اور ایسے اِستغراق سے دل کا مطالعہ کرے کہ جیسے علماءاوراقِ کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں کہ یہی طرز ِعمل عارفوں کے لئے بمنزلہ بال و پَر ہے‘‘[3]-

ہر  کہ آید  در  مطالعہ  رازِ  رب

 

با خموشی دائمی صاحب ادب[4]

’’جو شخص اسم اﷲذات کا مطالعہ کر تا ہے وہ رازِ ربّ کو پا لیتا ہے اورہمیشہ باادب خاموش رہتاہے‘‘-

 (۴)اے طالبِ مولیٰ! اس حقیقت سے باخبر رہ کہ انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن انسان کایہ شرف قرب باری تعالیٰ سے مشروط ہے اورقربِ ذات کے انواروتجلیات کامرکز دل ہے-جس نے بھی اپنے دل نقشِ اسم اللہ ذات کو منور پایا وہ جملہ مخلوقات کامخدوم بنا اورآخرت میں بھی اُس کی فضیلت مسلّم ہے کیونکہ دیدار کی نعمت بھی آخرت میں عارفانِ مولیٰ کانصیب ہوگی-

معرفت توحید حکمت ہر سہ شد راہبر خد ا

 

با مطالعہ دل ورق شد غرق فی  اللہ با  بقا[5]

’’اگر تُو اوراقِ دل کا مطالعہ کرتا رہے تو معرفت و توحید و حکمت خدا کی طرف تیری راہنمائی کریں گی اور تُوغرق فنا فی اللہ ہو کر بقا باللہ ہو جائے گا‘‘-

 



[1](محک الفقر، ص:273)

[2]( امیرالکونین، ص:337)

[3](کلید التوحید کلاں، ص:395)

[4](کلید التوحید کلاں، ص:253)

[5](امیر الکونین، ص:303)

تشریح:

(۱)اے درویش حق! تیرا دل وحدتِ حق کی لازوال کتا ب ہے-اس کتاب پہ اللہ تعالیٰ نے روزِ الست سے ہی اسم اللہ ذات رقم کردیا تھا-اے طالب! اپنے دل کی کتاب کی ورق گردانی تو کر تجھے اس کتاب کے ہر صفحہ ہر سطر اورہر حرف سے وحدت حق تعالیٰ کے وہ راز حاصل ہوں گے جوصرف شاہکار اولیاء اللہ کانصیبہ ہے-بقول سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ):

ہر کتابی نکتہ از دل کتاب
دلی با معرفت سِرِّ الٰہی
بی کاغذ سیاہی دل کتاب است
کسی زین علم عالم خواند

 

دل کتابی دفترِ حق بی حجاب
دلی کاغذ باسرارِ اِلٰہی
بی کاغذ سیاہی دل کتاب است
بہر دو عالمی آن زندہ ماند[1]

’’ہر کتاب صحیفہ  ٔ دل کا ایک نکتہ ہے ، دل ایک ایسی کتاب ہے جس میں دفاتر ِ حق بے حجاب نظر آتے ہیں -صاحب ِمعرفت دل اللہ تعالیٰ کا ایک بھید ہے، دل ایک ایسا کاغذ ہے کہ جس پر اسرارِاِلٰہی درج ہیں - دل ایک ایسی کتاب ہے کہ جس میں کاغذ و سیاہی کا وجود نہیں ہے ، کتابِ دل کا مطالعہ کیا کر کہ یہ ایک بے حجاب کتاب ہے جو عالم اِس کتا ب کا علم پڑھ لیتا ہے وہ ہر دو جہان میں زندہ جاوید ہو جاتا ہے ‘‘-

(۲) ظاہر پرست علماء واہلِ دانش ساری عمر مطالعہ میں گزاردیتے ہیں لیکن راہِ راز کا ایک حرف بھی نہیں پڑھتے -یہ صدفی صد درست ہے کہ مطالعۂ علم کامقصد معرفت الٰہی ہے اور اگر مطالعہ سے قرب خداوندی حاصل نہ ہوسکے تواس کی مقصدیت و منفعت فوت ہوجاتی ہے-مقصد سے بے خبری جہالت سے تعبیر ہوتی ہے-آپ قدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں کہ:

’’اگر کوئی تمام عمر مطالعۂ علم میں صرف کردے اور صاحب ِتحصیل عالم فاضل بن کر علم کی جان کاری اور سمجھ بوجھ حاصل کرلے تو پھر بھی باطن میں معرفت ِتوحید اورقرب اللہ حضوری سے بے خبر و محروم رہتاہے اور اگر کوئی ساری عمر ریاضت میں صرف کردے اور ایک سو تیس سال تک ایک ہی پاؤں پر کھڑا ہو کر مجاہدہ کرتا رہے تو پھر بھی اُسے باطن میں طریقت و معرفت و لقا وبقا و فنا کی کوئی خبرنہیں ہوتی کہ مرشد ِکامل کی عطائے توفیق و تحقیق کے بغیر کبھی کوئی از خود باطن کے اِن مراتب تک نہیں پہنچ سکتا‘‘[2]-

(۳)اے درویش بے خوف! اپنی حقیقت پہچان اورتصورِ اسم اللہ ذات کو حرزِ جان بنالے-اسم اللہ ذات مولیٰ اوربندے کے درمیان وسیلہ و رابطہ ہے-اس رابطہ کو بحال کر تاکہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی سبیل تجھ پہ عیاں ہوجائے-جیساکہ آپ قدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں کہ :

’’اسم اللہ وہ با عظمت و عظیم نام ہے کہ تمام اِبتدأ و انتہا اور معرفت ِنور حضور کا مشاہدہ اِسی میں پایا جاتا ہے بشر طیکہ پڑھنے والا اِسے پورے اخلاص کے ساتھ پڑھے اور ایسے اِستغراق سے دل کا مطالعہ کرے کہ جیسے علماءاوراقِ کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں کہ یہی طرز ِعمل عارفوں کے لئے بمنزلہ بال و پَر ہے‘‘[3]-

ہر  کہ آید  در  مطالعہ  رازِ  رب

 

با خموشی دائمی صاحب ادب[4]

’’جو شخص اسم اﷲذات کا مطالعہ کر تا ہے وہ رازِ ربّ کو پا لیتا ہے اورہمیشہ باادب خاموش رہتاہے‘‘-

 (۴)اے طالبِ مولیٰ! اس حقیقت سے باخبر رہ کہ انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن انسان کایہ شرف قرب باری تعالیٰ سے مشروط ہے اورقربِ ذات کے انواروتجلیات کامرکز دل ہے-جس نے بھی اپنے دل نقشِ اسم اللہ ذات کو منور پایا وہ جملہ مخلوقات کامخدوم بنا اورآخرت میں بھی اُس کی فضیلت مسلّم ہے کیونکہ دیدار کی نعمت بھی آخرت میں عارفانِ مولیٰ کانصیب ہوگی-

معرفت توحید حکمت ہر سہ شد راہبر خد ا

 

با مطالعہ دل ورق شد غرق فی  اللہ با  بقا[5]

’’اگر تُو اوراقِ دل کا مطالعہ کرتا رہے تو معرفت و توحید و حکمت خدا کی طرف تیری راہنمائی کریں گی اور تُوغرق فنا فی اللہ ہو کر بقا باللہ ہو جائے گا‘‘-



[1](محک الفقر، ص:273)

[2]( امیرالکونین، ص:337)

[3](کلید التوحید کلاں، ص:395)

[4](کلید التوحید کلاں، ص:253)

[5](امیر الکونین، ص:303)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر