مسلم انسٹیٹیوٹ اورپنجاب یونیورسٹی (لاہور) کے اشتراک سے ایک بین الاقوامی کانفرنس ’’سلطان باھُو اور مولانا رومی‘ ‘۱۱ مئی ۲۰۱۷ء بروز جمعرات کو پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے الرازی ہال میں منعقد کی گئی- تاجکستان، ایران، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے محققین اور پاکستان کے چاروں صوبوں کی مختلف یونیورسٹیوں سے محققین نے اپنے تحقیقی مقالہ جات پیش کیے اور اظہار خیال کیا- پہلے سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین نصر ( پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر) نے کی جبکہ اس سیشن کے مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین (صدر ، پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن) تھے-پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر(سربراہ شعبہ فارسی، یونیورسٹی آف پنجاب) نے خوش آمدیدی کلمات ادا کیے-صاحبزادہ سلطان احمد علی( چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے افتتاحی کلمات ادا کیے-اس سیشن کے دیگر مقررین میں عزت مآب جانا نوف شیر علی (پاکستان میں تاجکستان کے سفیر)، سینیٹر عارف اللہ پشتون(سابق صدر سینٹ کمیٹی برائے بین الاقوامی تعلقات افغانستان) اور محمد حسین بنی اسدی (لاہور میں ایران کے کونسل جنرل) شامل تھے- ہر سیشن کے اختتام پہ تمام مقررین کو کانفرنس کی لوح یادگار پیش کی گئی-محققین، اسکالرز، دانشوروں طالب علموں، یونیورسٹی کے اساتذہ، سیاسی و سماجی شخصیات اور صحافیوں کی بڑی تعداد نے سیشن میں شرکت کی- مقررین کے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
افتتاحی سیشن:
اگرچہ حضرت مولانا رومی ؒ اور حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) کے ادوار میں چار (۴)صدیوں سے زائد کا فرق ہےلیکن دونوں صوفیاء میں گہری فکری مماثلت ہے-تصوف کا بیشتر ادب فارسی میں ہے جس میں مولانا رومی ؒ اور حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ) نمایاں ہیں-وہ عظیم سرمایہ علم و ادب جس کا ارتقاء اسلامی دنیا کے مختلف خطوں میں ہوتا رہا ہے وہ آپس میں بہت گہری مماثلت رکھتا ہے-خاص کر صوفیانہ ادب چونکہ باطن کی تخلیق ہے اس لئے عرب ، بغداد ، بصرہ ، مدینہ ، مکہ،سپین ، قُونیہ ، پنجاب ، سندھ یا انڈونیشاء اور دیگر علاقوں میں جو صوفیاء نظر آتے ہیں ان سب میں ایک ہی گلشن وحدت کی خوشبو آتی ہے اس لئے کہ ان سب کی منزل ایک ہے ان سب کا سفر ایک ہے اور ان سب کا نصب العین ایک ہےاور یہ سب ایک ہی باغ سے ان پھولوں سے وہ خوشبو لاتے ہیں جو ہمارے جہان کو معطر کرتی ہے-
سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)اور مولانا رومی ؒ کے درمیان جو فکری اصطلاحات ہیں جو مشاہدات کا اشتراک ہے وہ آدمی کو بعض دفعہ حیران کر دیتا ہے مثلاً حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کی خانقاہ پہ ان کی یہ دعوت مرقوم ہے کہ :
ہر کہ طلب حق بود من حاضرم |
|
ز ابتداء تا انتہاء یک دم برم |
’’جو شخص ذاتِ حق تعالیٰ کا طالب ہے وہ میرے پاس آجائے مَیں اسے ایک ہی دم میں ابتداء سے انتہا تک پہنچادوں گا-اے طالبِ حق آجا، اے طالبِ حق آجا، اے طالبِ حق آجا تاکہ مَیں تجھے پہلے ہی روز واصل باللہ کردوں گا ‘‘-
مولانا رومی ؒ نے بھی یہی دعوت دے رکھی ہے:
کعبۃ العشاق باشد ایں مقام |
|
ہر کہ ناقص آید ایں جاشد تمام |
’’یہ مقام (مزارِ مرشدکامل)عاشقوں کا کعبہ ہے جو بھی ناقص یہاں آتا ہے وہ مکمل ہوجاتاہے‘‘-
مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں کہ عظیم انسان کی یہ عارضی زندگی بھی مثالی ہوتی ہے اور بعد ازمرگ بھی مثالی- بقولِ عارف ِرومی ؒ ایسے مردان کامل کی گور ِ زمین پر نہیں مردانِ معرفت کے سینوں میں ہوتی ہے اور سلطان العارفین سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) کے نزدیک اہل فقر کہلانے کا وہی حقدار ہے جس کی قبر بھی زندوں میں شمار ہونے لگے- اسی طرح حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں :
نام فقیر تنہاں دا باھُو قبر جنہاں دی جیوے ھُو |
وہیں آپ کو حضرت مولانارومی ؒ کے ہاں ان کے مقبرے کے باہران کی یہ دعوت لکھی ہو ئی ملتی ہے-
بعد از وفات تربت مادر زمین مجو |
|
در سینہ های مردم عارف مزار ماست |
’’میرے مرنے کے بعد میری قبرزمین پر نہ ڈھونڈنا کیونکہ میرا مزار تو میرا نور تو مردانِ عارف کے سینوں میں منتقل ہوگا‘‘-
کہتے ہیں کہ ہم ایک سینے سے دوسرے سینے میں منتقل ہو جاتے ہیں ہمار ا پیغام ایک سینے سےدوسرے سینے میں منتقل ہوجاتا ہے - وہ مرتا نہیں ہے ڈوبتا نہیں ہے وہ کھو نہیں جاتا کیونکہ وہ حق سے، صداقت سے تعلق رکھتا ہے اس لئے صداقت کبھی بھی اپنے آپ کو ڈوبنے نہیں دیتی، حقانیت کبھی بھی اپنے آپ کو چھپنے نہیں دیتی- اس پیغام میں اتنی صلاحیت ہے اور اس پیغام میں اتنی قوت ہے کہ وہ ہمارے اندر اور ہمارے باطن کو اسی طرح روشن کر سکتا ہے جوہر دور میں انسانیت کی اور انسان کی ضرورت رہی ہے-ایسے دور میں جہاں دنیا بھر میں تاریخ انسانی کی سب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی ہتھیاروں کی پیداوار ہو رہی ہو جس دور میں ’’ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن‘‘(weapons of mass destruction)اور خلائی ہتھیاروں (space weaponization)کی پیداوار ہو رہی ہے یہ کسی ایک مذہب یا کسی ایک نسل کے لئے نہیں افریقہ ، یورپ ،امریکہ ، ایشیاء اور ہر خطے کے رہنے والے انسانوں کے لئے اس میں خطرات پنہاں ہیں-انسان آج بھی وہ قاصہ گدائی لئے دنیا سے امن اور آشتی کی بھیک مانگتا ہے انسان نے امن کے قیام کے لیے ہر مادی ذریعہ آزمایا مگر وہ ناکام رہا- ہمیں روحانی بنیادوں پہ امن کے قیام کی کوشش کرنا ہوگی اور اسی صورت ہم اپنے مسائل کا حل تلاش کر سکتے ہیں- آج جو دہشت گردی،عدم برداشت اور انتہاپسندی کا دور دورہ ہے اس میں صوفیاء کرام کے امن، محبت اور رواداری سے بھرپور کلام کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے-
مولانا جلال الدین رومی ؒ نے ایک حکایت اپنی کتاب میں بیان کی ہے کہ ’’میں ایسا گونگا ہوں جس نے ایک خواب دیکھا ہے کہ ساری دنیا بہری ہے میں کہنے سے مجبور ہوں اور خلق خدا میری بات سمجھنے سے مجبور ہے- ہم ایک دوسرے کی بات کو نہیں سمجھ رہے خود کو عقل کل سمجھ رہے ہیں-اس صورتحال میں اِن صوفیاء نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم سارے عاجز و انکسار والے ہیں سب سے بڑا خدائے مطلق ہے وہ ہی عقل کُل ہے اُسی کی ہی بادشاہی ہے باقی سب محتاج ہیں اور وہ خود بے نیاز ہے - نوع انسانی کو آج جس قدر ان صوفیاء جیسے مولانا جلال الدین رومی ؒ اور حضرت سلطان باھو ؒ کے پیغام کی ضرورت ہے وہ شاید اس سے پہلے نہیں تھی ان صوفیاء نے اپنے دائرہ محبت سے کسی کو خالی نہیں کیا ، فتوے نہیں لگائے ، تبرے نہیں کئے اور مشترکات کو سامنے رکھتے ہوئے سب کو ساتھ ملایا- ان کی تعلیمات میں کسی قسم کا نسلی و علاقائی تعصب نظر نہیں آتا- حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)نےایک سو چالیس(۱۴۰)کتب تصنیف فرمائیں جو زیادہ تر فارسی میں ہیں-ان تصانیف میں حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)نے شریعت کی پابندی پہ زور دیا اور اس کے ساتھ ساتھ روحانیت کو بیدار کرنے کے لیے اللہ کے نام کے ذکر پہ توجہ دی- آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے لوگوں کو محبت،احترام اور امن کا درس دیا-حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)نے تمام انسانیت کو خدا سے محبت کی دعوت دی-مختلف خطوں کے مختلف صوفیاء نے بھی یہ ہی دعوت دی ہے- حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)اور مولانہ رومی ؒ نے تشدد کو روکنے کی دعوت دی اور معاشرے کے افراد کی روحانی اصلاح کے ذریعے ان کی زندگی میں تبدیلی لانے کی دعوت دی-
محققین کے مطابق صوفیانہ ادب میں مستشرقین کے ہاں آج تک جتنی عظمت مولانا جلال الدین رومی ؒ کی شخصیت کو ملی ہے شاید ہی کسی کو ملی ہو-مولانا رومی ؒ ایک مشعل کی طرح لوگوں کے قلوب کو منور کر رہے ہیں-اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے مولانا رومیؒ کو عالمی امن کے مبلغ کا درجہ دیا- اگرچہ مولانا نے اپنی ساری زندگی میں کشت و خون ریزی دیکھی مگر ان کی ساری شاعری میں کہیں بھی نفرت کا ذکر نہیں ہے،صرف محبت و امن کا پیغام ہے مولانا کے دیوان میں شمس و قمر کا ذکر ہے جس سے مراد نور اور روشنی ہے اور مولانا نے اپنی شاعری میں تاریکی کی بجائے اجالے کی بات کی ہے-آپ کی زندگی میں شمس تبریز ؒ سے ملاقات کے بعد ایک انقلاب آ گیا اور آپ ؒ نے عشق کا درس عوام الناس میں تقسیم کیا-
صوفیانہ تعلیمات کا مغز انسان کے باطن کی پختگی اور سکونِ قلب کا حصول ہے-حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کےپنجابی ابیات،قلبِ انسانی کی وسعت بیان کرتے ہوئے خدائے واحد کی دل میں موجودگی کا احساس پیدا کرتے ہیں-تصوف کا نام لیتے ہی ذ ہن میں علم و عمل کے حسین امتزاج کا نقش سامنے آجاتا ہے کیونکہ تمام عظیم صوفیاء جیسے کہ حضرت محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی، جنیدِ بغدادی ، امام غزالی، سلطان باھو، مولانا رومی ؒ اور دیگر تمام صوفیاء، پہلے خود ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے پھر خلق کو خدا کی جانب دعوت دیتے- یعنی وہ باعلم و باعمل شخصیات تھیں-
حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)اورمولانا جلال الدین رومی ؒ کے افکار کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کے دیکھنے کی ضرورت ہے- حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)اور مولانا رومی ؒ کا کلام اس امر کا متقاضی ہے کہ ہم اس پر اپنی تحقیق اور علمی جستجو جاری رکھیں تاکہ ان میں پوشیدہ گوہر سامنے لائے جاسکیں اور نہ صرف مسلمان بلکہ تمام انسانیت اس عظیم سرمایہِ سے فائدہ اُٹھا سکیں-پنجاب یونیورسٹی، دیگر تمام تعلیمی اور سرکاری اداروں سمیت ہر فرد کو اس محبت کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے- سب سے پہلے اس بات کو ممکن بنانا ہو گا کہ صوفی ادب کی دستیابی کو پاکستان کے کتب خانوں میں یقینی بنایا جائے اور اس ادب کو دوسرے خطوں میں بھی چھپنا چاہیے تاکہ یہ پیغام بہتر طریقے سے پھیل سکے- اس کے ساتھ ساتھ تحقیقی نقطہ نظر سے ایسی کانفرنسز کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے-حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کی فارسی تعلیمات سے وابستگی اور اس پر تحقیق کرنے کی بہت ضرورت ہے جو علم، فلسفہ اور روحانیت سے آراستہ ہے-ایسے مقالے تحریر کیے جائیں جو ان صوفیاء کے کلام کی روشنی میں عصری مسائل کے حل تجویز کریں-
سیشن دوم:
کانفرنس کے دوسرے سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر احسان ملک (ڈائریکٹر سرگودھا یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس) نے کی-ڈاکٹر محمد مہدی ناصح (پروفیسر فردوسی یونیورسٹی، مشہد، ایران)، ڈاکٹر محمد اقبال شاہد (سربراہ، شعبہ فارسی،جی سی یونیورسٹی لاہور)، ڈاکٹر راشدہ قاضی(ڈین فیکلٹی آف آرٹس، غازی یونیوورسٹی، ڈی جی خان)، ڈاکٹر شہلہ سلیم نوری (سربراہ شعبہ فارسی،کراچی یونیورسٹی)اور اکبر علی ساسولی (لیکچرر شعبہ فارسی، یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ) نے اظہار خیال کی-کانفرنس کے دوسرے سیشن میں پاکستان اور بیرون ممالک کے محققین نے شرکت کی اور اظہار خیال کیا-سیشن کے اختتام پہ تمام مقررین کو کانفرنس کی لوح یادگار پیش کی گئی-
مقررین کے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
تربیتِ انسان اور انسان سازی سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی خامیوں اور نقائص کو دور کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس صورت میں ڈھال لے جس کو قرآن مجید میں زمین پہ اللہ پاک کا خلیفہ کہا گیا ہے- انسان آب وگِل یعنی بدن اور امرِ ربی یعنی روح کا مرکب ہے- پس انسان ایک حالت میں پاک صاف اور ایک حالت میں کثافتوں سے آلودہ ہے- صوفیاء کا مقصد انسان کی باطنی تربیت ہے تاکہ انسان خدا کی بندگی کے قابل بن سکے-مولانا رومی ؒ اور حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) عالی مرتبت اولیائے کرام ہیں- مولانا رومی، شمس تبریزؒ اورحضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)روحانی طور پر نبی پاک(ﷺ)کے دستِ انور پر معرفت کے اسرار و رموز سے فیض یاب ہوئے اور سلسلہ قادری میں بیعت ہوئے-دونوں صوفیائے کرام انسان سازی کے لیے عشقِ حقیقی کو ضروری سمجھتے ہیں- مولانا رومی ؒ اخلاص کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عاشقِ صادق آتشِ عشق میں جل کر اپنی حقیقت کو پالے- انسان کو اپنے بدن کے ساتھ اپنی روح کی پرورش بھی کرنی چاہیے-اگر انسان کا ظاہر و باطن عشقِ حقیقی سے لبریز نہ ہو تو وہ انسانیت کی بجائے حیوانیت کا نمونہ بن جاتا ہے- حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات میں’’لَا‘‘اور’’ھُو‘‘سب سے اہم ہیں-آپ کلمہ طیبہ کو ’’کلیدِ گنجِ تمام خزائن‘‘ یعنی تمام خزانوں کی چابی قرار دیتے ہیں-
’’لا‘‘ سے مراد ذاتِ باری تعالیٰ کے سوا تمام چیزوں کی نفی ہے-انسان جب تک اپنے آپ کو صدق و صفا سے پُر نہیں کر لیتا وہ مر تبہ انسانیت پر فائز نہیں ہو سکتا-’’لا‘‘ کا اپنانا انسان کو ’’ھُو‘‘ تک پہنچاتا ہے یعنی ہر چیز کے انکار کے بعد ہی انسان اللہ عزو جل کی ذات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے-
جب سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)بچپن میں تھے تو جو بھی آپ کا چہرہ مبارک دیکھتا وہ کلمہ پڑھ لیتا تھا یعنی مادر ذات ولی اللہ تھے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے تیس (۳۰)سال مرشد کامل کی تلاش میں گزارے اور آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی تعلیمات میں فرقہ واریت کی نفی اور حوصلہ شکنی ہے شیعہ، سنی کی بجائے آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے ہمیشہ انسانیت کی فلاح وبہبود کی بات کی ہے-اس لیےلوگ حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) پر مقالہ لکھنا پسند کرتے ہیں-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی تعلیمات میں قربِ الٰہی یعنی اللہ تعالیٰ کی پہچان اور ذکر الٰہی پر زیادہ زور دیا ہے-
مولانا جلال الدین رومی ؒ ۶۰۴ھ میں سلجوقی عہد میں پیدا ہوئے،یہ وہ عہد تھا جب فارسی زبان وادب نے بہت ترقی کی اور یہی وہ عہد تھا جب شاعری دربار کی سرپرستی سے نکل کر خانقاہوں میں داخل ہوئی -مزاج کے اعتبار سے اگر ہم سلجوقی دور کو دیکھتے ہیں تو یہ درویشی اور صوفیانہ عقائد کا حامل نظرآتا ہے،اس دور میں بڑے بڑے رباعی گو ہمیں نظر آتے ہیں،جس میں طاہر عریانی اور ابوسعید ابو الخیر نیشاپوری جیسے لوگ سامنے آتے ہیں لیکن یہ دور مثنوی کے حوالے سے زیادہ بڑا دور کہلاتا ہے جس میں اس صنف نے بہت ترقی کی اور جس میں سب سے بڑا نام مولانا رومی ؒ کا ہمیں نظر آتا ہے اور اسی صنف کی پذیرائی کا کریڈٹ بھی اُنہی کو جاتا ہے-مولانا رومی ؒ کے نام ’’رومی‘‘کی وجہ شہرت آپ کی اناطولیہ سے نسبت ہے اور یہ جزیرہ نما اناطولیہ سلطنت روم کا حصہ رہ چکا تھا، اُسی کی نسبت سے یہ رومی کہلائے-دنیاوی علم کے ساتھ ساتھ دوسرے علوم میں بھی انہوں نے بڑی مہارت حاصل کی-ابتدا میں اگر ہم مولانا رومی ؒ کے کلام پر نظر ڈالتے ہیں تو ان میں صرف ظاہری علوم کا رنگ غالب نظر آتا ہے وہ واعظ بھی کہتے تھے اور فتوی بھی لکھتے-
مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) کے کلام کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں بہت مماثلت پائی جاتی ہےمثلاً مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں:
این جهان زندان و ما زندانیان |
|
حفره کن زندان و خود را وا رهان |
’’یہ دنیا ایک قید خانہ ہے اور ہم اس کے قیدی،اس قید خانہ میں گڑھا کھود کر اس سے باہر آجاؤ‘‘-
چیست دنیا از خدا غافل بودن |
|
نی قماش و نقره و میزان و زن |
’’دنیا کیا ہے؟ خدا سے غافل کر دینے والی چیز، یہ سوداگری اور چاندی،عورت اور تولنے کی جگہ نہیں ‘‘-
ترک دنیا هر که کرد از زهد خویش |
|
بیش آید پیش او دنیا و بیش |
’’جو ترک دنیا اختیار کرتا ہے دنیا خود اس کے پیچھے بھاگتی ہے‘‘-
حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ:
ایہہ دنیاں رن حیض پلیتی ہرگز پاک نہ تھیوے ھو |
|
جیں فقر گھر دنیاں ہووےلعنت اس دے جیوے ھو |
مولانا روم ؒ کی نصیحت سے ملتی جلتی نصیحت حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)اپنی نثر میں اس طرح پیش کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ اہل دنیا مریض کی طرح بے حد پیاسا ہوتا ہے اور دنیا زہر آلود دریا کی مثل ہے-جب کوئی پیاسا زہر آلود دریا میں غوطہ لگا کہ اس کا زہر پی لیتا ہے تو وہ مر جاتا ہے،وہ جس قدر زہر آلود پانی پیتا جاتا ہے اسی قدر اس کی پیاس بڑھتی جاتی ہے اس کی پیاس جان کنی کی پیاس جیسی ہو جاتی ہے جو تلخ سے تلخ تر ہوتی ہے یا یوں کہیں کہ دنیا کی پیاس روز محشر کی پیاس سے زیادہ سخت ہوتی چلی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ فقراء دنیا کی زہر آلود دریا کے کنارے پیاسے ہی رہتے ہیں اور اس کا زہر آلود پانی نہیں پیتے اور لوگوں کو بھی منع کرتے ہیں کہ زہریلا پانی مت پیو ورنہ مرجاؤ گے-جس آدمی کو ان کی دل پذیر نصیحت اچھی نہیں لگتی وہ اس زہر بھرے دریا کے ارد گرد منڈلاتا رہتا ہے-جان لو کہ فقیر کا دل آبِ ذکر اللہ سے تر ہوتا ہے جس سے انہیں جمعیت حاصل رہتی ہے اور وہ اسی سے آبرو پا کر دونوں جہانوں میں سرخرو رہتے ہیں-اسی طرح علم کے حوالے سے مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں:
علم را بر تن زانی مارے بود |
|
علم را بر دل زنی یارے بود[1] |
’’علم کو اگر ظاہری وجود کے لئے حاصل کیا جائے تو یہ سانپ کی مانند ہے-علم کو اگر روح کے لئے حاصل کیا جائے تو یہ یار بن جاتا ہے‘‘-
اسی طرح حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)کے فرمان کا مفہوم درج ذیل ہے:
علم راستے کی روشنی ہے اور بغیر روشنی کے جاہل فقیر گمراہ ہو کر راستے سے بھٹک جاتا ہے- صوفیانہ اور عارفانہ تحریروں کا جائزہ لیں تو اِن کا دو لفظوں میں نتیجہ نکالا جاسکتا ہے ایک انسان اور دوسرا خدا اور بس-جس کسی چیز کا تعلق انسان سے ہے کسی نہ کسی طرح اللہ سے بھی اس کا تعلق ہے- سادہ لفظوں میں روح اور نظریہ کی پیش نظر ہی انسان اپنا راستہ قائم کرتا ہے-سلک سلوک میں لازم ہے کہ سالک ہمیشہ چلتا رہے رُکے نہیں اگر آپ مستقل اس راستے پر چلتے رہیں جیسے کوئی ورزش کرنے والا مسلسل ورزش کرتا رہتا ہے تو وہ عروج پر پہنچ جاتا ہے اور اگر رُک جائے تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے-عصر حاضر میں جو مذہب فرقے لسانیات کی باتیں اور قتل و غارت گری کا جو بازار گرم ہے یہ ہر دور کا حصہ رہا ہے اس سے صوفی حضرات ہمیشہ نالاں رہے ہیں-
ایک عجیب واقعہ جو مولانا رومی ؒ کی تبدیلی کا باعث نظر آتا ہے وہ واقع شمس تبریز ؒ سے اُن کی ملاقات ہے اگرچہ اِس ملاقات کو مختلف تذکروں اور تواریخ میں مختلف انداز میں نقل کیا گیا ہے لیکن جس بات پر بہت سارے ناقدین اور مورخین متفق تھے وہ بات یہی ہے کہ شمس تبریز کو اُن کے بابا کمال الدین جلبی ؒ نے حکم دیا تھا کہ جاؤ روم میں ایک دل سوختہ ہے اور اُس کو گرم کر کے آؤ تو وہ اُن کی تلاش میں نکلے اور ایک دن وہ مولانا روم ؒ سے جا ٹکرائے-مولانا روم اور مولانا شمس تبریزؒکی قربت اِس حد تک بڑھ گئی جوکہ اُن کے باقی مریدین کے لیے خوشی کا باعث نہ تھی-چنانچہ شمس تبریزؒاُ ن کی خفگی کے باعث اچانک کہیں دور چلے گئے اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آئے-شمس تبریز ؒ کی گمشدگی نے مولانا رومیؒ کی ذہنی کیفیت بالکل بدل کر رکھ دی-
مولانا کو کسی قسم کی مذہبی فرقہ بندی کا ایک رنگ دے کر اُن کی فکر کو محدود نہیں کیا جا سکتا - مزاجاً ان میں اور اقبال ؒ میں بہت مماثلت ہے اور وہ بہت بڑے اسلام شناس تھے- مولانارومیؒ پر کوئی ایک رنگ چڑھا کر یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ وہ وحدت الوجودی یا وحدت الشہودی ہیں- مگر یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ ان کا نظریہ وہی ہے جسے ابن عربیؒ نے پروان چڑھایا تھا لیکن عوام کےلیے ابن عربیؒ کی تعلیمات کے حقیقی معنی کو پانامشکل تھا، مولانا رومی نے نہایت سادگی اور چابک دستی سے اسے برتا اور اسے فلسفیانہ زبان سے نکال کر عوامی سطح پر لے آئے-
سیشن سوم:
کانفرنس کے تیسرے سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر فخر الحق نوری صاحب(ڈین فیکلٹی اورینٹل لرننگ، جامعہ پنجاب) نے کی-صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب(چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)،نے اختتامی کلمات ادا کیے-دیگر مقررین میں پروفیسر ڈاکٹرسید محمد اکرم اکرام صاحب(سربراہ شعبہ اقبالیات، جامعہ پنجاب)، ڈاکٹر محمد صفیر صاحب (سربراہ شعبہ فارسی نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئج، اسلام آباد) ڈاکٹر حیدر قربانوو (پروفیسر شعبہ اردو، نیشنل یونیورسٹی آف تاجکستان)،پروفیسر ڈاکٹر نجیب حیدر ملغانی (رجسٹرار غازی یونیورسٹی، ڈی جی خان)، ڈاکٹر فلیحا زہرا کاظمی(سربراہ شعبہ فارسی لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی) اور ڈاکٹر نذر عابد (شعبہ اردو، ہزارہ یونیورسٹی، مانسہرا) شامل تھے-ڈاکٹر عظمیٰ زریں نازیہ (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ فارسی جامعہ پنجاب) نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دئیے-سیشن کے اختتام پہ تمام مقررین کو کانفرنس کی لوح یادگار پیش کی گئی-
مقررین کے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بد قسمتی سے صوفیاء کا کلام ہمارے معاشرے میں اجنبیت کا شکار ہو چکا ہے جب کہ یہی کلام صرف نصف صدی قبل تک معاشرے میں زبان زدِ عام تھا اور مساجد میں خوبصورت خطاطی کی صورت میں نظر آتا تھا-ماضی میں برصغیر کے لوگ مثنوی اور ابیات سے دلی لگاؤ رکھتے تھے اور جب کسی مسئلہ میں اُلجھ جاتے تو اس کے حل کے لیے مثنوی سے رہنمائی لیتے- مائیں اپنے بچوں کو یہ درس دیتی تھیں کہ:
کوڑے کھوہ ناں مٹھے ہوندے باھو توڑے سے مناں کھنڈ پائیے ھو |
یعنی انسان کی باطنی خوبصورتی اس کی شخصیت کا لازمی جزو ہے- حضرت سلطان باھوؒ اور حضرت مولانا رومیؒ کی تعلیمات سے استفادہ نہ کرنا اپنے علمی ورثے کی ناقدری کے مترادف ہے اور صوفیاء کی تعلیمات سے تعلق کمزور پڑ جانے کے باعث معاشرے میں شدت،منافرت اور تعصب بڑھ رہا ہے چنانچہ ہمیں اپنی اسی بنیاد کی جانب واپس لوٹنا چاہئے-حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)اور حضرت مولانا رومیؒ کا نظریہ دراصل وحدت المقصود کا ہے اور انہوں نے ایک بڑے مقصد کی طرف انسانیت کی رہنمائی کی-
حضرت سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ) اور مولانا جلال الدین رومی ؒ کا شمار صفحہ اول کے صوفیاء میں ہوتا ہے-عرفان اور تصوف کی علمبردار ان ہستیوں کے عرفانی اور آفاقی کلام سے ہم بخوبی آگاہ ہیں-یہ وہ انسانِ کامل ہیں جنہوں نے نہ صرف خدا کے قرب کے لئے روحانی منازل طے کیں بلکہ دوسرے لاتعداد افراد میں اس روحانی سفر کو طے کرنے کا جذبہ بیدار کیا-صدیاں گزر جانے کے باوجود یہ ہستیاں لوگوں کے دلوں میں زندہ و جاوید ہیں-صوفیاء کے نزدیک عشق اللہ تعالیٰ کے قرب کا جوہرِ اصلی ہے-عشق،عرفان اور تصوف کا سرمایہ ہے کیونکہ عشق اللہ تعالیٰ کی طرف سے سالک اور عارف کے دل میں ودیعت کر کے امانت کے طور پہ رکھا گیا ہے یہی وہ عشق ہے جس کی بدولت حضرت آدم علیہ السلام نے شرف و بزرگی کا غیر معمولی درجہ پایا اور ابلیس اپنی ساری فہم و فراست کے باوجود مردود ٹھہرا-عشق انسان کو تمام موجودات عالم حتیٰ کے فرشتوں سے ممتاز کرتا ہے اور انسانوں کو انسانیت کی معراج تک پہنچاتا ہے- آفرینش کائنات عشق کی ہی مرہون منت ہے-
مولانا کہتے ہیں کہ عشق کیا ہے؟ پھر خود ہی عشق کی توضیح بیان کرتے ہیں:
پس چه باشد عشق دریای عدم |
|
در شکسته عقل را آنجا قدم |
’’عشق کیا ہے؟ نفی ذات کا سمندر، جہاں عقل کے قدم لڑکھڑ ا جاتےہیں‘‘-
بندگی و سلطنت معلوم شد |
|
زین دو پرده عاشقی مکتوم شد |
’’بندگی اور سلطنت کی حقیقت معلوم ہوگئی، یہ عشق کے پردے میں چھپے ہیں‘‘-
کاشکی هستی زبانی داشتی |
|
تا ز هستان پرده ها برداشتی |
’’اگر اس حقیقت کی زبان ہوتی، تو یہ صفحہ ہستی کا راز فاش کر دیتی‘‘-
حضرت سلطان باھُو فرماتے ہیں کہ :
ؤعشق دانی چیست کشتن نفس خویش |
|
روز و شب سوزش بود دل راز ویش |
’’ کہ اپنے نفس کو مار دینے کا نام عشق ہے، عشق وہ چیز ہے کہ جس کے زخم سے دل ہر وقت سوزش میں مبتلا رہتا ہے‘‘-
ان کے نزدیک جب تک عشق کی تلوار سے سر نہ کٹوایا جائے محبوب کو پانا ممکن نہیں- بہت سے لوگ عشق کی بھٹی میں جلتے ہیں کچھ راستے ہی سے بھاگ جاتے ہیں کیونکہ عشق کا راستہ بہت کٹھن ہے اور صبر آزما ہے کہتے ہیں کہ جب عشق کی آگ شعلہ ور ہوتی ہے تو سوائے معشوق کے سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتی ہے بقول مولانا :
عشق آن شعلهست کو چون بر فروخت |
|
هرچه جز معشوق باقی جمله سوخت |
’’عشق کا شعلہ جب بھڑکتا ہے تو یہ عاشق کے سوا ہر شے کو جلا دیتا ہے‘‘-
حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں :
ہر منتہٰی آغازِ من |
|
کس نیست محرم رازِ من |
از جانِ خود بیگانہ ام |
’’ ہر انتہا میری ابتدا ہے- میرے راز کا محرم کوئی نہیں ، کہاںمکھی اور کہاں میرا شہباز؟ مَیں اُس کے عشق کا پروانہ ہوں، اپنی جان سے بیگانہ ہوں‘‘-
صوفی جب اپنی روحانی اور قلبی واردات کے دوران محبوبِ حقیقی کے تصور میں گم اپنی ذات کی اتھا ہ گہرائیوں میں غوطہ زن ہونے کے بعد دل سے ظاہری زمان و مکان کی طرف لوٹتا ہے تو اس کا دامنِ خیال عشقِ حقیقی اور معرفتِ حق کے انمول موتیوں سے مالامال ہوتا ہے-صوفی کے لیے اگلا مرحلہ تقسیم کر دینے اور فیضان رسانی کا مرحلہ ہوتا ہے-
وہ اپنی روحانی اور قلبی واردات کے نتیجے میں کشید کردہ معرفت کے ان موتیوں اور فیضان کے ان خزانوں کو خلقِ خدا پر نچھاور کر دیتا ہے کہ تصوف دراصل احسان ہی کا دوسرا نام ہے-ایسے اہل نظر اگر تصوف اور سلوک کی پر پیچ راہوں کے پر شوق مسافر ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی ہوں تو ان کے باطنی فیضان کی تاثیر اپنی نوعیت کے اعتبار سے دوآتشہ ہو جاتی ہے کہ ایسے میں انہیں اپنے روحانی تجربات کے اظہار کے لیے اعلیٰ تخیل کی بلند پروازی اور شدت جذبات کی وارفتگی بھی میسر ہوتی ہے-مولانا جلال الدین رومی ؒ اور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) صوفیائے کرام کے اسی عظیم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے اپنی قلبی واردات اور روحانی تجربات کے راز ہائے سربستہ کی نقاب کشائی کے لیے شعری زبان کو ذریعہ اظہار بنایا-قونیہ ترکستان میں آسودہ خاک،عظیم صوفی دانشور مولانا جلال الدین رومی ؒ اور برصغیر پنجاب کی سرزمین کو اپنے مصدر ہونے کا شرف بخشنے والے مفکر سلطان الفقر حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ)کے درمیان زمانی اعتبار سے صدیوں اور مکانی اعتبار سے ہزاروں میل کا فرق ہونے کے باوجود حیرت انگیز حد تک فکری اشتراکات پائے جاتے ہیں- دونوں صاحبانِ معرفت کے ہاں توحید،رسالت،معرفت،فقر،عرفان، فنائے نفس،عشق حقیقی،باہمی رواداری،انسان دوستی،عالمگیر محبت،اخوت بھائی چارہ اور وحدت انسانیت جیسے افکارِ عالیہ میں موضوعاتی مماثلت کا سراغ ملتا ہے-زبان کے حوالے سے دیکھا جائے تو مولانا رومی ؒ کا کلامِ سر تا سر فارسی زبان میں ہے جبکہ حضرت سلطان باہوصاحب(قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی مادری زبان پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کو بھی ذریعہ اظہار بنایا- دونوں عارفانِ کامل نے زبان و بیان کی تمام ترشعری نزاکتوں کے تقاضے بھرپور فنی مہارت کے ساتھ نبھاتے ہوئے اپنے افکارِ عالیہ کو شعری روپ میں پیش کیا-درج بالا موضوعات جو دونوں عارفانِ کامل کے ہاں مشترک پائے جاتے ہیں اگر ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو جو سب سے بڑا درس ان میں ملتا ہے وہ ’’وحدت انسانی‘‘کا تصور ہے-
اگر آپ تیرہویں صدی کے زمانے پر نظر ڈالیں تو صلیبی جنگوں کی بربریت یروشلم کی طرف جاری تھی قسطنطنیہ پر قبضہ ہوچکا تھا بیزن ٹائن کی ریاست تقسیم ہورہی تھی اور چنگیز خان کے قیادت میں فوجیں توسیع پسندی کے عمل میں مشغول تھیں،عیسائی ،عیسائی سے اور مسلمان ،مسلمان سے برسرپیکار تھا اور لوگوں کی نظر مولانا رومیؒ پر تھی اور مولانا کے اندر سے لازوال محبت کے چشمے پھوٹ پڑے-دوسری طرف سترہویں صدی کے مشہور صوفی سلطان العارفین حضرت سلطا ن باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)کا عہد نسبتاً خوشحال اور سیاسی طور پر مستحکم تھا دونوں صوفیائے کرام کے درمیان صدیوں کے فاصلے ہیں مگر ان دونوں کے درمیان ایک اہم قدر مشترک عشق ہے ان کے ہاں عشق ایک لازوال قوت کے طور پر نظر آتا ہے-عشق کی وجہ سے عاشق اور معشوق کے درمیان جو فرق ہے وہ ختم ہوجاتا ہے اور صرف عشق باقی رہتا ہے-
مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں :
شاد باش ای عشق خوش سودای ما |
|
ای طبیب جمله علتهای ما |
’’شاد باش! اے میرے پیارے عشق، یہ تمام بیماریوں کا اکسیر ہے‘‘-
فرد کی انا،نفس اور اپنے کچھ ہونے پہ یقین ہوناعشق کی سر بلندی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے-مولانا ایک بہت خوبصورت نقطہ پیش کرتے ہیں اور اُن کا زاویہ فکر دیکھیے-
ای دوای نخوت و ناموس ما |
|
ای تو افلاطون و جالینوس ما |
’’یہ (عشق) ہمارے فخرو غرور کا علاج ہے یہ ہی ہمارا افلاطون اور جالینوس ہے ‘‘-
حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)بھی عشق کی اسی رمز کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:
جس منزل نوں عشق پہنچاوے ایمان نوں خبر نہ کوئی ھوُ |
مزید فرماتے ہیں :
اک نگاہ جے عاشق ویکھے لکھ ہزاراں تارے ھوُ |
|
لکھ نگاہ جے عالم ویکھے کسے نہ کدھی چاہڑے ھوُ |
مرشد کامل اندھوں کے لیے رنگ اور بہروں کے لیے موسیقی تخلیق کر سکتا ہے اور یہ دونوں پرفیکٹ ماسٹر ہیں کہ جہاں مولانا روم اور حضرت سلطان باھُوؒ کے نزدیک پرفیکٹ ماسٹر یعنی مرشد کامل کی ایک نظر عرفانِ ذاتِ تعالیٰ کی منزل تک پہنچاتی ہے-
اس کلام کی بھی مولانا رومیؒ کے کلام سے ساتھ حیران کن مماثلت ہے فرماتےہیں:
دید آن مرشد که او ارشاد داشت |
|
تخم پاک اندر زمین پاک کاشت |
’’مرشد یہ جانتا ہے کہ اس کے پاس ارشاد کی قوت ہے، اس لیے پاک زمین میں پاک بیج بوتا ہے‘‘-
تیسرا اشتراک وہ دردِ فراق ہے فرد کی زندگی دردِ فراق سے مزین ہے اور اس دردِ فراق کی کثرت جتنی زیادہ شدید ہوگی منزلِ وصل اتنی قریب ہوگی-راہِ منزل میں ریزہ ریزہ وجود، نشانِ منزل بنتا ہے جیسا کہ حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں :
تن من میرا پُرزے پُرزے جیوں درزی دیاں لیراں ھوُ |
جیسا کہ مولانا روم ؒ فرماتے ہیں:
سینه خواهم شرحه شرحه از فراق |
|
تا بگویم شرح درد اشتیاق |
’’فراق سے میرا سینہ اس قدر چھلنی ہوگیا ہے کہ میں اس دردِ اشتیاق کو بیاں کر رہا ہوں‘‘-
حقیقت ِانسانی فقط اور فقط حقیقت ِ عشق حقیقی پر مبنی ہے-ہم کچھ بھی کر لیں کچھ بھی تبدیلی اس دنیا میں لے آئیں اگر عشق حقیقی سے ہماری ذات مربوط نہیں ہے تو اس دنیا کا وجود بے کا ر ہے-آج ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد بغیر کسی فلسفہ اور اصول کے زندگی بسر کر رہی ہے-ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صوفیاء کے بیان کردہ فلسفہ سے اپنا تعلق استوار کریں تاکہ زندگی کے ہر شعبہ میں انقلاب پیدا ہو سکے-
صوفیانہ کلام سیشن:
کانفرنس میں شرکت کیلئے بیرونِ ممالک اور ملک کے چاروإ کونوں سے آئے ہوئے معزز مہمانانِ گرامی کے اعزاز میں کانفرنس کے ایک سائیڈ ایونٹ کے طور پہ صوفیانہ کلام ایوننگ کا انعقادالحمرا کلچرل کمپلیکس ، قذافی سٹیڈیم لاہور میں ہوا-اس موقع پر عمران شوکت علی، راجہ حامد علی اور پنجاب یونیورسٹی میوزیکل سوسائٹی کے گروپ نے صوفیانہ کلام پیش کیا- سیشن سےصدر لاہور چیمبر آف کامرس محترم عبدالباسط، ممبر صوبائی اسمبلی رانا تجمل حسین اور شعبہ فارسی، خیام یونیورسٹی مشہد، ایران کی پروفیسر ڈاکٹر محدث السعادات رزائی نے خطاب کیا-مسلم انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ احمد القادری نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دئیے- جبکہ وی سی پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر ظفر معین نصر ، ڈین پاکستان کالج آف لاء پروفیسر ہمایوں اِحسان ، معروف سماجی رہنما سہیل ضیا بٹ سمیت عمائدینِ شہر نے خصوصی طور پہ شرکت کی -
کلام سیشن میں اظہارِ خیال کا خُلاصہ :
اسلامی تعلیمات اور فلسفہ کی ترویج و ترقی کے لئے مولانا رومیؒ کی خدمات کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے-دور جدید کے مذہبی اسکالرز مولانا رومی ؒ کی کاوشوں سے آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں-اگر تیرہویں صدی کو مولانا روم کے نام سے منسوب کر دیا جائے تو شائد ہی اس پہ کوئی اعتراض اٹھائے-عام فہم و ادراک رکھنے والا شخص جو علم و دانش کا متلاشی ہو وہ ان صوفی حضرات کے بیان کردہ اصولوں سے مستفید ہو سکتا ہے -یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے خطے میں بھی بہت سے صوفی بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے اسلام کی خدمت کر کے ہمیشہ کے لئے اپنا نام امر کر لیا ان میں حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)کا نام بڑے ادب و احترام سے لیا جاتا ہے-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنے کلام کے ذریعے بہت سے لوگوں کا دل اسلام کی جانب موڑا-حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) نے ستارہویں صدی میں پنجابی کلام میں ایسی پُر اثر شاعری کی جس کی وجہ سے عام لوگوں کو اپنے خالق حقیقی کو پہچاننے اور ماننے میں بڑی مدد ملی-آپ کا کلام آج بھی انتہائی مقبول ہے آپ نے ’’الف - اللہ ‘‘سے’’ی- یار یگانہ‘‘ تک جس خوبی سے اپنی شاعری کا آغاز کیا اور اس میں قیمتی اسلامی پیغام عام کیے اس کی مثال نہیں ملتی-
برصغیر پاک و ہند میں انسانیت سے محبت کا درس صوفیا نے دیا- یہی وہ فلسفہ ہے جو انسان کو انسانیت کی معراج پر لے جاتا ہے-صوفیائے کرام نے اپنے عمل کے ذریعے انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا-ہمارے اس علاقے میں سکھوں کو ایک مارشل قوم سمجھا جاتا ہے مگر سِکھ مذہب کے بانی گرونانک نے اپنی سب سے بڑی عبادت گاہ’’دربار صاحب‘‘ کی بنیاد صوفی بزرگ حضرت میاں میر کے ہاتھ سے رکھوائی-سکھ مسلمانوں کے آپس کے تعلقات بہت اچھے تھے مگر آہستہ آہستہ صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی کہ سکھ ۱۴ اگست۱۹۴۷ءکو ہمارے سب سے بڑے دشمن بن کے سامنے آکھڑے ہوئے-آج بھی شدت پسندی اور انتہا پسندی کی جو فضا قائم کر دی گئی ہے اس کو ختم کرنے کے لئے صوفیاءکرام کی تعلیمات اور ان کے اسوہ حسنہ پے عمل پیرا ہونا نہایت ضروری ہے اور یہی ہماری نجات کا ذریعہ بھی ہے-آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے نوجوان صوفیا کے پیغامِ محبت کو لے کر آگے بڑھیں اور تاریکی کو روشنی میں بدل دیں-
٭٭٭
[1](بالِ جبریل)
مسلم انسٹیٹیوٹ اورپنجاب یونیورسٹی (لاہور) کے اشتراک سے ایک بین الاقوامی کانفرنس ’’سلطان باھُو اور مولانا رومی‘ ‘۱۱ مئی ۲۰۱۷ء بروز جمعرات کو پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے الرازی ہال میں منعقد کی گئی- تاجکستان، ایران، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے محققین اور پاکستان کے چاروں صوبوں کی مختلف یونیورسٹیوں سے محققین نے اپنے تحقیقی مقالہ جات پیش کیے اور اظہار خیال کیا- پہلے سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین نصر ( پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر) نے کی جبکہ اس سیشن کے مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین (صدر ، پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن) تھے-پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر(سربراہ شعبہ فارسی، یونیورسٹی آف پنجاب) نے خوش آمدیدی کلمات ادا کیے-صاحبزادہ سلطان احمد علی( چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے افتتاحی کلمات ادا کیے-اس سیشن کے دیگر مقررین میں عزت مآب جانا نوف شیر علی (پاکستان میں تاجکستان کے سفیر)، سینیٹر عا