ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

What would inferiors know about faqr, intimate with heart they are not Hoo

They are creation of water and earth they are unbaked clay pot Hoo

Those who are traders of crystal how could they know rubies and gems worth Hoo

Only those who will keep their faith secure Bahoo to join Sufis they run forth Hoo

Khaam keeh janan sar faqr di jeh’Ray ma’Hram nahi’N dil day Hoo

Aab matti thee’N paida hoye Khami bhanday gill day Hoo

Lal jawahara’N da qadr ki janan jo sodagar bill day Hoo

Iman salamat soi wesan Bahoo jeh’Ray bhaj faqeeraa’N milday Hoo                      

(Translated by: M.A.Khan)

تشریح: 

جولوگ رُوحانیت کاانکارکرتے ہیں اوراس سے بے خبر رہتے ہیں وہ خام ہیں-جب کہ فقر خوابیدہ رُوحانی صلاحیتوں کو ہویدا کرنے اور قربِ الٰہی کے لیے ان کو بروئے کار لانے کانام ہے-یہاں دِل سے مراد جسمانی قلب نہیں ہے بلکہ مقامِ فواد ہے جو کہ رُوح کامرکزومقام ہے-اِسی لیے حضرت سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) نے فرمایاکہ :-

قلب، دل، سِرّی بود ہمچون برق

 

آن نباشد برق باشد دل ورق

 ’’جو دل محرمِ اسرار ہو جاتا ہے وہ مثل ِبرق ہو جاتا ہے، وہ دل مثل ِ برق نہیں جو محض ایک ورق ( مضغۂ گوشت) ہے‘‘-

بدیدۂ دل دیدار را بینم دوام

 

ہر کہ این دیدہ ند ارد مردِ خام

’’ مَیں ہر وقت چشمِ دل سے دیدارِ حق میں مشغول رہتا ہوں - جس کی چشمِ دل بیدار نہیں وہ مردِ خام ہے‘‘ [1]-

(۲)بلاشبہ انسان رُوحانی علوی لطیف جسم اورمادی سفلی کثیف جسم کے مجموعہ کانام ہے-مادی جسم میں عبادت وریاضت کرنے کی صلاحیت ہے جب کہ رُوحانی جسم عرفانِ ذات کی منازل طے کرتاہے- اس مصرعہ کوسمجھنے کے لیے تخلیقِ آدمؑ کے واقعہ کے رموز واسرار سے واقفیت لازم ہے-تخلیق آدمؑ کے بارے میں ارشاد ربّانی ہے کہ:-

’’فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَـہٗ سٰجِدِیْن‘‘[2]-

’’ اورپھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اوراس میں اپنی طرف کی رُوح پھونکوں توتم اس کے لیے سجدے میں گرنا‘‘-

لیکن شیطان لعین نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا کیونکہ وہ حقیقتِ آدم علیہ اسلام سے بے خبر تھا -اسی بنا پہ وہ غرور وتکبر کاشکار ہوگیا کہ میں آدم سے افضل ہوں :-

’’قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُط  خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْن‘‘[3]-     ’’مَیں اس سے بہتر ہوں تُو نے مجھے آگ سے بنایااوراِسے مٹی سے پیدا کیا‘‘-

چونکہ وہ حضرت آدم علیہ اسلام کی باطنی حقیقت سے غفلت کی بنا پہ ماراگیا-اس لیے اُس نے دعویٰ کیا کہ اب میں ابنِ آدم کو بھی اِسی غفلت میں مبتلا رکھوں گااوراس کی رُوحانیت تک رسائی مشکل تر کردوں گا- لیکن اللہ تعالیٰ نے ابنِ آدم(انسان)کی رہنمائی کے لیے انبیائے کرام اوراولیائے کرام کو ذمہ داری سونپی کہ وہ ابنِ آدم کو رُوحانی مقاصد سے آگاہ کریں- حضرت سُلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) نے باطن سے ناآشنا لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ اگرانسان کی زندگی سے رُوحانی مقاصد خارج کردیں توانسان اورحیوان میں کیافرق رہ جائے گا؟مردہ دِل انسان کی مثال تو پانی اورمٹی کے مرکب سے بنے ہوئے کچے برتنوں کی سی ہے جوآگ کی تپش کے بغیر قابلِ استعمال نہیں ہوتے-

(۳)ایک شیشہ کی تجارت کرنے والا لعل جواہر کی قدر نہیں کرسکتا کیونکہ اُسے وہ فہم حاصل نہیں جو کانچ اورہیرے میں فرق کرسکے -مادہ پرست انسان چونکہ اپنی مادی حیثیت سے بلند ہو کر نہیں سوچتا اس لیے اُسے عرفانِ ذات اورقربِ الٰہی کے عشق اَفروز نکات سمجھ میں نہیں آتے -عشقِ حق سے بے خبر انسان حیوانیت زدہ ہوتاہے- آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے فرمایاکہ :-

’’البتہ اِس راہ میں صرف اِنسان ہی چل سکتا ہے کہ اِنسان اگر چشمِ بصیرت کھول لے تو ہر وقت ذاتِ حق کے مشاہدہ میں غرق رہتا ہے ورنہ حدیث ِ قدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے :- ’’خلقت کے لحاظ سے تو گدھے اور اِنسان کو ایک ہی جنس (اربعہ عناصر)سے پیدا کیا گیا ہے‘‘-جس شخص کو معرفت ِحق تعالیٰ حاصل نہیں اور وہ سلک سلوکِ تصوف کو نہیں جانتا ، اُس نے چاہے ہزاروں کتابیں کیوں نہ پڑھ رکھی ہوں وہ جاہل ہی رہتا ہے کہ اُس کی زبان زندہ مگر دل مردہ رہتا ہے اور وہ محض علم کا بوجھ اُٹھانے والا جانور ہی ہوتا ہے‘‘[4]-

(۴)ایمان کی سلامتی عشقِ الٰہی سے مشروط ہے-عشق الٰہی کسی مرشد فقیر کی صحبت وتربیت کے بغیر نصیب نہیں ہوتا-انسان کوچاہیے راہِ طریقت اختیا رکرنے کے لیے کسی مرشد کامل کی تلاش میں مگن ہوجائے اوراہل فقر کا مجلس نشین ہونے کی عادت ڈالے تاوقتیکہ اُس کی تلاشِ مرشد مکمل ہوجائے-

 



(محک الفقر:۵۸۵)[1]

(ص:۷۲)[2]

(ص:۷۶)[3]

(عین الفقر:۷۵)[4]

تشریح:

جولوگ رُوحانیت کاانکارکرتے ہیں اوراس سے بے خبر رہتے ہیں وہ خام ہیں-جب کہ فقر خوابیدہ رُوحانی صلاحیتوں کو ہویدا کرنے اور قربِ الٰہی کے لیے ان کو بروئے کار لانے کانام ہے-یہاں دِل سے مراد جسمانی قلب نہیں ہے بلکہ مقامِ فواد ہے جو کہ رُوح کامرکزومقام ہے-اِسی لیے حضرت سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) نے فرمایاکہ :-

قلب، دل، سِرّی بود ہمچون برق

 

آن نباشد برق باشد دل ورق

’’جو دل محرمِ اسرار ہو جاتا ہے وہ مثل ِبرق ہو جاتا ہے، وہ دل مثل ِ برق نہیں جو محض ایک ورق ( مضغۂ گوشت) ہے‘‘-

بدیدۂ دل دیدار را بینم دوام

 

ہر کہ این دیدہ ند ارد مردِ خام

’’ مَیں ہر وقت چشمِ دل سے دیدارِ حق میں مشغول رہتا ہوں - جس کی چشمِ دل بیدار نہیں وہ مردِ خام ہے‘‘ [1]-

(۲)بلاشبہ انسان رُوحانی علوی لطیف جسم اورمادی سفلی کثیف جسم کے مجموعہ کانام ہے-مادی جسم میں عبادت وریاضت کرنے کی صلاحیت ہے جب کہ رُوحانی جسم عرفانِ ذات کی منازل طے کرتاہے- اس مصرعہ کوسمجھنے کے لیے تخلیقِ آدمؑ کے واقعہ کے رموز واسرار سے واقفیت لازم ہے-تخلیق آدمؑ کے بارے میں ارشاد ربّانی ہے کہ:-

’’فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَـہٗ سٰجِدِیْن‘‘[2]-

’’ اورپھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اوراس میں اپنی طرف کی رُوح پھونکوں توتم اس کے لیے سجدے میں گرنا‘‘-

لیکن شیطان لعین نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا کیونکہ وہ حقیقتِ آدم علیہ اسلام سے بے خبر تھا -اسی بنا پہ وہ غرور وتکبر کاشکار ہوگیا کہ میں آدم سے افضل ہوں :-

’’قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُط  خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْن‘‘[3]-     ’’مَیں اس سے بہتر ہوں تُو نے مجھے آگ سے بنایااوراِسے مٹی سے پیدا کیا‘‘-

چونکہ وہ حضرت آدم علیہ اسلام کی باطنی حقیقت سے غفلت کی بنا پہ ماراگیا-اس لیے اُس نے دعویٰ کیا کہ اب میں ابنِ آدم کو بھی اِسی غفلت میں مبتلا رکھوں گااوراس کی رُوحانیت تک رسائی مشکل تر کردوں گا- لیکن اللہ تعالیٰ نے ابنِ آدم(انسان)کی رہنمائی کے لیے انبیائے کرام اوراولیائے کرام کو ذمہ داری سونپی کہ وہ ابنِ آدم کو رُوحانی مقاصد سے آگاہ کریں- حضرت سُلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) نے باطن سے ناآشنا لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ اگرانسان کی زندگی سے رُوحانی مقاصد خارج کردیں توانسان اورحیوان میں کیافرق رہ جائے گا؟مردہ دِل انسان کی مثال تو پانی اورمٹی کے مرکب سے بنے ہوئے کچے برتنوں کی سی ہے جوآگ کی تپش کے بغیر قابلِ استعمال نہیں ہوتے-

(۳)ایک شیشہ کی تجارت کرنے والا لعل جواہر کی قدر نہیں کرسکتا کیونکہ اُسے وہ فہم حاصل نہیں جو کانچ اورہیرے میں فرق کرسکے -مادہ پرست انسان چونکہ اپنی مادی حیثیت سے بلند ہو کر نہیں سوچتا اس لیے اُسے عرفانِ ذات اورقربِ الٰہی کے عشق اَفروز نکات سمجھ میں نہیں آتے -عشقِ حق سے بے خبر انسان حیوانیت زدہ ہوتاہے- آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے فرمایاکہ :-

’’البتہ اِس راہ میں صرف اِنسان ہی چل سکتا ہے کہ اِنسان اگر چشمِ بصیرت کھول لے تو ہر وقت ذاتِ حق کے مشاہدہ میں غرق رہتا ہے ورنہ حدیث ِ قدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے :- ’’خلقت کے لحاظ سے تو گدھے اور اِنسان کو ایک ہی جنس (اربعہ عناصر)سے پیدا کیا گیا ہے‘‘-جس شخص کو معرفت ِحق تعالیٰ حاصل نہیں اور وہ سلک سلوکِ تصوف کو نہیں جانتا ، اُس نے چاہے ہزاروں کتابیں کیوں نہ پڑھ رکھی ہوں وہ جاہل ہی رہتا ہے کہ اُس کی زبان زندہ مگر دل مردہ رہتا ہے اور وہ محض علم کا بوجھ اُٹھانے والا جانور ہی ہوتا ہے‘‘[4]-

(۴)ایمان کی سلامتی عشقِ الٰہی سے مشروط ہے-عشق الٰہی کسی مرشد فقیر کی صحبت وتربیت کے بغیر نصیب نہیں ہوتا-انسان کوچاہیے راہِ طریقت اختیا رکرنے کے لیے کسی مرشد کامل کی تلاش میں مگن ہوجائے اوراہل فقر کا مجلس نشین ہونے کی عادت ڈالے تاوقتیکہ اُس کی تلاشِ مرشد مکمل ہوجائے-



(محک الفقر:۵۸۵)[1]

(ص:۷۲)[2]

(ص:۷۶)[3]

(عین الفقر:۷۵)[4]

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر