حضرت سلطان باھوؒ کی عارفانہ تعلیمات اور عصر حاضر

حضرت سلطان باھوؒ کی عارفانہ تعلیمات اور عصر حاضر

حضرت سلطان باھوؒ کی عارفانہ تعلیمات اور عصر حاضر

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ جنوری 2017

مسلم انسٹیٹیوٹ اور سنٹر فار پالیسی اسٹڈیز کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی،اسلام آباد کی جانب سے’’حضرت سلطان باھو کی عارفانہ تعلیمات اور عصرِ حاضر‘‘ کے عنوان سے ۸ دسمبر ۲۰۱۶ء کو سیمینارکا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت سابق چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل (ر) محمد آصف سندیلہ نے کی-دیگر مقررین میں چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی ،ہیڈ آف سنٹر فار پالیسی سٹدیز سی سی آئی ٹی ایمبیسڈر (ر) فوزیہ نسرین ،انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی شعبہِ تاریخ کے چیئرمین ڈاکٹر مجیب احمد ،پرنسپل آف پوسٹ گریجویٹ ویمن کالج راولپنڈی ڈاکٹر عالیہ سُہیل خان اور سابق ڈائریکٹر آئی آر ڈی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ، ڈاکٹر طالب حُسین سیال شامل تھے-معزز مقررین کی تقاریر کے بعد وقفہ سوال و جواب کا بھی انعقاد ہوا-مسلم انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ جناب سیّد عزیز اللہ شاہ نے ماڈریٹر کی خدمات سرانجام دیں-سیمینارکے بعدصوفیانہ کلام پرمشتمل ’’شامِ باھُو‘‘ کا انعقاد کیا گیا -اِس موقع پر چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی ، پرتگال کے سفیر عزت مآب جوآو پالو سبیڈو کوسٹا، سری نگر یونیورسٹی (مقبوضہ جموں و کشمیر) سے ڈاکٹر محمد معروف شاہ اورڈھاکہ یونیورسٹی  بنگلہ دیش سے پروفیسر شاہ عالم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا- استاد شوکت علی  کے صاحبزادے  عمران شوکت علی  اور راجہ حامد علی نے کلا م باھو پیش کیا- شامِ باھُو کی محفل کے دوران فاطمہ جناح وومن یونیورسٹی ، راولپنڈی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرعائشہ رفیق  نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئے-

مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)دنیائے اسلام کے عظیم صوفی بزرگ ہیں- روحانیت میں سب سے کمال درجے کو فقر کہا جاتا ہے- آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کو فقر میں نمایاں مقام حاصل ہونے کی بنا پر سلطان العارفین اور سلطان الفقر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کی پیدائش ۱۶۲۹ء میں قلعۂ شور کوٹ میں ہوئی جو کہ موجودہ ضلع جھنگ کا حصہ ہے- آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی رحلت مبارک ۱۶۹۱ء میں ہوئی- آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کا مزار مبارک گڑھ مہاراجہ کے قریب ،ضلع جھنگ میں واقع ہے- آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کا تعلق اعوان قبیلہ سے ہے جو کہ اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی (﷜)کی غیر فاطمی اولاد میں سے ہیں-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کے والد کا نام حضرت بازیدمحمد(قدس اللہ سرّہٗ) ہے جو کہ  نہایت برگزیدہ اور دین دار شخص تھے- حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کے والدِ محترم  مغلیہ فوج میں سپہ سالار کے عہدے پر فائز تھے- آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی راستی ()ہے جو کہ نہایت پاکباز اور نیک  خاتون تھیں-حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)بطنِ مادر میں ہی تھے کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی والدہ ماجدہ کو بذریعہ الہام  آپ کا نام ’’باھُو‘‘ بتا دیا گیا-حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)نے ابتدائی روحانی اور باطنی تعلیمات اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کیں جبکہ رسمی تعلیم کہیں سے حاصل نہ کی- آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کا تعلق قادری سلسلہ سے ہے جس کا آغاز بغداد کے مشہور صوفی بزرگ سیدنا عبدالقادر جیلانی(قدس اللہ سرّہٗ)نے فرمایا-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کا مزار مبارک برِصغیر کے مشہور قادری سلسلہ کے مزاروں میں نمایاں مقام رکھتا ہے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے حضرت عبدالرحمن گیلانی دہلوی (قدس اللہ سرّہٗ) سے بیعت فرمائی-

حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے جوانی کے دور میں مغل بادشاہ شاہجہان برصغیر پر حکومت کر رہا تھا اور اس کے بعد اورنگزیب کا دور حکومت آیا یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیرمیں فارسی زبان دیگر زبانوں پہ غالب تھی- حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)نے غیر شریعی صوفی روایات کے خلاف کام کیا اور اس وقت جو فرقہ واریت عروج پہ تھی اس کے خلاف بھی کام کیا-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے پنجابی زبان کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیں آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کے۲۰۰سے زائد پنجابی ابیات معرفت اور فلسفہ کا سمندر ہیں- آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کے پنجابی کلام کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے-  یمہرسٹ کالج امریکہ کے پروفیسر جمال الیاس نے ابیات باھو کا انگریزی میں ترجمہ کیا جس کو ’’یونیورسٹی آف کیلیفورنیا‘‘ پریس نے شائع کیا- ابیات باھو آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسلامی روحانی شاعری کے سلیبس کا بھی حصہ ہے-اسکول آف اورینٹیل اینڈ افریقن اسٹڈیز یونیورسٹی آف لندن نے بھی ۲۰۱۵ءمیں حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہ)اور حضرت بلھے شاہ (﷫)کے پنجابی کے لیے کی گئی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک سیشن کا انعقاد کیا-  حضرت سلطان باھو  (قدس اللہ سرّہ)کے پنجابی ابیات پنجابی کلاسیکل ادب کا بنیادی ذریعہ سمجھے جاتے ہیں اور عوام الناس میں آپ کو انہی کے باعث جانا جاتا ہے-

حضرت سلطان باھُو نے 140 فارسی کی کتب تصنیف فرمائیں جن میں ایک شاعری کی تصنیف ’’دیوان باھو‘‘ ہے اور دیگر نثر میں ہیں لیکن بد قسمتی سے آپ  (قدس اللہ سرّہ)کی فارسی تصانیف کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں ہے-حضرت سلطان باھو  (قدس اللہ سرّہ)اپنے چار مصروں پہ مشتمل پنجابی کلام کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں لیکن آپ کے فارسی کے فلسفیانہ کلام سے زیادہ آگاہی نہیں ہے-  یہ ایک حسن ِاتفاق ہے کہ عمر خیام بھی اپنے اصل نثر کے کام جو کہ ریاضیات و فلسفہ پہ ہے کی بجائے شاعری سے زیادہ پہچانے جاتے ہیں-بد قسمتی سے آپ  (قدس اللہ سرّہ)کی ہم عصر دیگر ادبی شحصیات کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ ان کے فارسی کے لیے خدمات کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی جیسا کی غنیمت کنجاہی،اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی زیب انساء اور مرزا عبد القادر بیدل- اس کے علاوہ دیگر بھی کچھ ایسی شخصیات ہیں جن کی فارسی کے لیے کی گئی گراں قدر خدمات تاریخ کے اوراق میں گم ہو گئیں- جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا ادب سے رشتہ کمزور پڑ گیا اور فارسی زبان کا گنج گراں مایہ تاریخ میں کھو گیا- حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کا فارسی ادب میں ’’مراسلہ‘‘ (مکتوبات، خطوط)اسی لاپرواہی کی وجہ سے گم نامی میں ہے اور عالم خلق سے اوجھل ہے- یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اس عظیم اور لاجواب فلسفیانہ ورثہ کو اپنائیں اور اس پر کام کریں-

حضرت سلطان باھُو  (قدس اللہ سرّہ)نے اسلام کے فروغ کے لئے مختلف سفر بھی کیے-آپ  (قدس اللہ سرّہ)کا معاشرے میں ا من و استحکام کے فروغ میں بھی عظیم کردار ہے-آپ  (قدس اللہ سرّہ)نے مسلمانوں کو فرقہ واریت سمیت دوسری کئی قسم کی تقسیم یا تفریق سے نکالا-علم دوست اور روحانی بنیادوں پر استوار معاشرے کے تشکیل کے لئے آپ  (قدس اللہ سرّہ)کی خدمات قابل ستائش ہیں- حضرت سلطان باھو  (قدس اللہ سرّہ)کی تحریر یں لوگوں کو دانشمندانہ،فلسفیانہ ،روحانی اور عالمانہ رہنمائی فراہم کرتی ہیں-

سائنسی علوم کے  علاوہ علم کے اور بھی ذرائع ہیں- زبان خداکی ایک نشانی ہےجو کہ خدا کا ایک تحفہ ہی نہیں بلکہ خدا سے ہم کلامی کا بھی ذریعہ ہے- زبان کے جہاں کئی اور کام ہیں اس کا ایک اہم کام بندے کا خدا سے تعلق قائم کرنا بھی ہے یہی وہ کام ہےجو صوفیانہ شاعری  کرتی ہےلیکن خدا کی ذات اس بات سے ماوراء ہے کہ انسانی الفاظ اس کی ذات کا احاطہ کر سکیں-تمام صوفیاء کرام نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ زبان روحانی مشاہدات کو بیان کرنے سے قاصر ہے-حرف الف کو صوفیاء کی تعلیمات اورحضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات میں باربار استعمال کیا گیا ہے-ایک مشہور ترک صوفی شاعر یونس ایمرے کے مطابق چاروں آسمانی کتب کا علم حرفِ الف میں پنہاں ہے اور یہ حرفِ الف  ’’اللہ‘‘ ہے- حضرت سلطان باھُوکی شاعری میں استعمال ہونے والا اسم ’’ھُو‘‘ خدا کی بڑائی اور اس بیکراں ذات سے محبت کو ظاہر کرتا ہے- 

پُرخلوص اعمال اور سچائی کے بنا روحانیت کے ثمرات حاصل نہیں کیے جا سکتے-خدا کی ذات کی سمائی انسان کے دل میں ہے اس لیے تکریم آدمیت حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کا خلاصہ ہے-حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)نے معاشرےمیں اخلاقیات اور آداب پہ بہت زور دیا اور حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)محبت برداشت اور امن کے ترجمان تھے جیسا کے آپ فرماتے ہیں:

جیوندیاں مر رہناں ہووے تاں ویس فقیراں بہیے ھُو
جے کوئی سٹے گوڈر کوڑا وانگ اروڑی سہیے ھُو
جے کوئی کڈھے گاہلاں مہنے اسنوں جی جی کہیے ھُو
گلا اُلا ہماں بھنڈی خواری یار دے پاروں سہیے ھُو
قادر دے ہتھ ڈور اساڈی باھُو جیوں رکھے تیوں رہیے ھُو

موجودہ دور مادیت پرستی اور انتشار کا دور ہے ہمارے اندر احترم انسانیت ختم ہوگیا ہے اور دوسرے انسانوں کے لیے پیار کم ہو گیا ہے جب کہ سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات انسانیت سے محبت کی تعلیمات ہیں جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کی جا سکتی ہے- یہ وہ واحد ذریعہ ہےجس کے ذریعے مختلف اقوم ایک دوسرے کے ساتھ امن و سلامتی کے ساتھ رہ سکتی ہیں  -مختلف اقوام ایک دوسرے کے ساتھ اسی صورت  امن کے ساتھ رہ سکتی ہیں اگر وہ آفاقی روحانیت پہ یقین رکھتے ہوں اوریہ اسی صورت ممکن ہے کہ اگر وہ حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)اور دیگر صوفیا ء کرام کی تعلیمات پر عمل پیراہوں- 

حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)کے پنجابی کلام کو معاشرے میں زندہ رکھنے میں قابل ستائش کردار اُن ماؤں کا ہے جو اپنے بچوں کو گود سے یہ کلام سناتی اور سکھاتی رہی ہیں- صوفیا کے کلام کو زندہ رکھنے میں اُن لوگوں کا بھی کردار ہے جنہوں نے اپنی آواز سے قوالی کی صورت میں اِس پیغام کو ہمارے دل و دماغ میں زندہ و روشن رکھا- تصوف،انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑتا ہے اور انسان کو اپنے باطن کی صفائی کا درس دیتا ہے- برصغیر میں صدیوں تک بین المذاہب ہم آہنگی اور پُرامن معاشرہ صوفیاء کی تعلیمات کی بدولت ہی ممکن ہوا- آج بھی ان تعلیمات کو اپنا کر پُرامن معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے-

وقفہ سوال و جوابات :

مقررین کے اظہار خیال لے بعد وقفہ سوال و جوابات  ہوا جس میں شرکاء کے سوالات کے جوابات کا خلاصہ درج ذیل ہے:

صوفیا ء کرام کی تعلیمات پر عمل پیراہونے کے لیے ضروری نہیں کہ دنیا سے لاتعلق ہو جایا جائے بلکہ روزمرہ کے معاملات سرانجام دیتے ہوئے اسلام کی تعلیمات پر پورے خلوصِ نیت سے عمل پیراہونا ہی تصوف کی تعلیمات ہیں-  سچ بولنا ایک سماجی ضرورت ہے لیکن اس کو دین کا حصہ بنایا گیا ہے اسی طرح خلوصِ نیت دنیاوی ضرورت ہے لیکن اسے دین کا حصہ بناکر اس کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے اسی طرح انصاف اور عدل کرنا ایک سماجی ضرورت ہے لیکن اس کو دین کا درجہ دیا گیا ہے لہٰذا دین یا تصوف بنیادی طور پہ ایک بہتر  معاشرہ بنانا چاہتا ہے-حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) اپنے گھر کی ضروریات کے لیے خود ہل چلا کر اناج کاشت کیا کرتے تھے حالانکہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)ایک بڑی جاگیر کے مالک تھے- حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کی جتنی تعلیمات ہیں وہ روحانیت سے متعلق ہیں لیکن اس میں وہ ایک لمحے کے لیے بھی ہمارے سماجی اصلاح سے منقطع نہیں ہوتے یا وہ ابتداءمیں اس کو  سماجی اصلاح سے جوڑتے ہیں یا اختتام پہ اس کو سماجی اصلاح سے جوڑتے ہیں- ہمارے معاشرے میں بتدریج وہ صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے کہ وہ کسی بڑی تعلیمات کو اپنے اندر جذب کر سکے- اگر ہم سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کے روحانی پیغام پر عمل پیراہونے سے قاصر ہیں تو ہمیں کم از کم ان کے سماجی پیغام پر عمل پیراہونے کی ضرورت ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر