شہرِ اقتدار میں 22 سے 24 اپریل ایک عظیم الشان تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس ’’مولانا جلال الدین رومی اور حضرت سلطان باھو‘‘ مسلم انسٹیٹیوٹ اور ادارہ فروغِ قومی زبان کے باہمی تعاون سے انعقاد پذیر ہوئی- یہ کانفرنس اسلام آباد کی تاریخ میں منفرد اور بے مثال ہے، کیونکہ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے 170 سے زائد مقررین شریک ہوئے اور یہ کل 35 سیشنز پر مشتمل تھی- جن میں تصوف اور اس کے مختلف الجہات افکار و نظریات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی- ذیل میں ہم اس عدیم النظیر کانفرنس کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہیں-
تصوف اسلام کی تعلیمات میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے- برصغیر پاک و ہند اور دیگر ممالک میں صوفیاء کرام کی خدمات نا قابلِ فراموش ہیں- جن کی بدولت اسلام بحرِ بے کنار کی طرح شرق و غرب میں پھیلتا گیا- اولیاء کرام نے محبت اور امن کےساتھ لوگوں میں اخلاقِ حمیدہ یوں راسخ کیے کہ پورا معاشرہ اخلاقیات کا حسین گلدستہ بن گیا- مولانا روم اور حضرت سلطان باھوؒ دنیائے تصوف میں عظیم المرتبت شخصیات کا درجہ رکھتے ہیں- اس کانفرنس کا بنیادی مقصد ان جلیل القدر صوفیاء کرام کے پیغام کو از سر ِنو اجاگر کرنا ہے تاکہ ہمارے معاشرے میں اتحاد، امن اور بھائی چارہ یقینی بنایا جا سکے-
اس کانفرنس میں علمی نشستوں کے ساتھ مکالمہ/ ڈائیلاگ کا کلچر متعارف کروایا گیا، تاکہ جدید طرزِ مبحث کو بھی بروئے کار لایا جا سکے- کانفرنس میں تین متوازی سیشنز چلتے رہے، جن میں ایک سیشن ’’خصوصی گفتگو‘‘ کے نام سے مکالمہ کی طرز پر جاری رہا- جس میں مقررین اپنی تقریر کے بعد تبادلہِ خیال کےلیے سٹیج پر جلوہ فرما ہوتے اور حاضرین کے سوالات کے تفصیلی جواب پیش کرتے- اس کے ساتھ باقی دو سیشنز’’علمی نشست‘‘ کے طور پر جاری رہے جن میں ملک کے نامور پروفیسرز،سکالرز اور محققین نے مختلف موضوعات پر تحریری مقالات پیش کیے، جو کہ عمق، تحقیق اور تجزیات سے مزین تھے-
اس کانفرنس میں پاکستان و بیرون ممالک سے مشہور شخصیات نے شرکت کی- افتتاحی سیشن میں چیئرمین سینیٹ جناب سید یوسف رضا گیلانی صاحب خصوصی طور پر تشریف لائے- اس طرح اختتامی سیشن میں جنرل (ر) محمد طاہر ، وی سی قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر نیاز احمد اختر اور معروف صحافی سہیل وڑائچ شریک ہوئے- ان کے علاوہ افغانستان، آذربائیجان، امریکہ، کینیڈا اور یوکے سے مقررین تشریف لائے- کانفرنس کے تمام سیشنز میں پاکستان میں مقیم مختلف ممالک کے سفیران نے خصوصی شرکت کی اور اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے تصوف کی اہمیت اور احیاء کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا-
کانفرنس میں پاکستان کے اراکینِ پارلیمنٹ، صحافی، اساتذہ، علماء، سکالرز،میڈیا الغرض تمام شعبہ ہائے زندگی سے خواتین و حضرات نے بھرپور شرکت کی- پاکستان کے تمام صوبوں سے ہر کلچر اور زبان کے لوگ شامل ہوئے، بالخصوص مختلف جامعات سے نوجوان طلباء و طالبات نے شریک ہو کر کانفرنس کی اہمیت دوگنا کر دی-
کانفرنس کے تینوں دن حاضرین کا تانتا بندھا رہا- پاکستان کے مختلف ثقافتوں اور علاقوں کے لوگوں میں تصوف کے حوالے سے دلچسپ تبادلۂ خیال ہوتا رہا، جس کی وجہ سے لوگوں کو بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا- یقیناً اس کانفرنس کی بدولت لوگوں میں ایک دوسرے کے حوالے سے مثبت جذبات فروغ پائے- وقفہ ہائے سوالات و جوابات میں حاضرین نے فکر انگیز سوالات کیے- جن سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگ تصوف کی اہمیت سے خوب واقف ہیں اور اس کے عملی ترویج کے خواہاں ہیں-
یہ کانفرنس اپنے موضوعات کے اعتبار سے نہایت جامع اور پرشکوہ تھی- اس میں تصوف، مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات اور نظریات کو مختلف انداز اور متنوع علوم کے نقطہ ہائے نظر سے پیش کیا گیا-
’’مادری زبانیں اور تصوف‘‘ کے عنوان کے تحت مختلف سیشنز میں اردو، بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائیکی ، سندھی، اور کشمیری زبان میں موجود علومِ تصوف کا احاطہ کیا گیا- ان سیشنز میں ہر زبان کے نمائند گان مقررین ملک بھر سے کانفرنس میں شریک ہوئے اور اپنے تحقیقی اور علمی مقالات پیش کیے- اس کے ساتھ ساتھ تصوف کے مذہبی، تاریخی، سماجی، اخلاقی، ثقافتی، نفسیاتی اور فلسفیانہ پہلوؤں کے تحت مختلف سیشنز منعقد کیے گئے، جو کہ علمیت اور جامعیت سے بھرپور رہے- ایک خصوصی سیشن پاکستان کی جامعات کے وائس چانسلرز کےلیےمخصوص تھا، جس میں پاکستان کی معروف جامعات کے وائس چانسلرز شریک ہوئے اور تصوف پر اپنی خوبصورت آراء پیش کیں- اس کے علاوہ کتبِ حضرت سلطان باھوؒ پر ایک سیشن میں خصوصی گفتگو کی گئی، جس میں مشہور کتب جیسے عین الفقر، اسرار القادری، مجالستہ النبی (ﷺ) اور ابیاتِ باھو کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی- ان کے علاوہ مولانا روم کی مثنوی شریف کا عرفان اور روحانیت کی دنیا میں مقام و مرتبہ واضح کیا گیا- تقابلی جائزہ کے تحت ایک سیشن میں مختلف صوفیاء کرام کی تعلیمات میں موجود فکری مماثلت اور نظریاتی وحدت پر روشنی ڈالی گئی- المختصر!یہ کانفرنس گویا تصوف کے موضوعات کا انسائیکلوپیڈیا ہے، جس میں ہر زاویے اور نقطہ نظر سے معاصر دنیا کیلئے تصوف کی اہمیت اجاگر کی گئی-
مزید برآں، اس تین روزہ کانفرنس میں ہر روز آخری سیشن ایک لاجواب پروگرام پر اختتام پذیر ہوتا رہا- پہلے روز میں ’’رومی اور اقبال‘‘ پر ٹیبلو پیش کیا گیا ہے- جس میں آستانہ عالیہ حضرت سلطان عبد العزیزؒ (دربار حضرت سلطان باھُو) پر قائم مدرسہ ’’دار العلوم غوثیہ عزیزیہ انوارِ حق باہو سلطان‘‘ کے طلباء نے شرکت کی- اس ٹیبلو کی لطیف گفتگو اور قدیم طرز پر کیے گئے روحانی ذکر نے حاضرین پر سحر طاری کر دیا- اس ٹیبلو کے بعد طلباء نے انتہائی خوبصورتی سے عربی، فارسی، اردو اور پنجابی میں نعتیہ اور عارفانہ کلام پیش کیے- کانفرنس کے دوسرے روز کا اختتام ’’سلطان الادب صوفیانہ مشاعرے‘‘ پر ہوا- جس کی صدارت پروفیسر احسان اکبر نے فرمائی، پروفیسر جلیل عالی اور ڈاکٹر وحید احمد مہمانانِ خصوصی تھے-جبکہ افغانستان سے افسر راہبین صاحب خصوصی طور پر شریک ہوئے-نظامت کے فرائض جناب محبوب ظفر صاحب نے سر انجام دیے-شعراء میں ڈاکٹر تقی عابدی، ندیم بھابھہ، مقصود وفا، اختر عثمان، ڈاکٹر فاخرہ نورین، رانا سعید دوشی، عمران عامی، مستحسن جامی، عبداللہ نشاط، خاور حسین، نسیم عظیمی اور سعید شارق نے اپنا کلام پیش کیا-یہ مشاعرہ اپنی نوعیت کا انوکھا اور منفرد مشاعرہ تھا- حاضرین نے ہر شعر کا خوب لطف اٹھایا اور دل کھول کر شعراء کو داد پیش کی-
کانفرنس کے تیسرے دن کا اختتام ’’ثقافتی صوفیانہ موسیقی‘‘ پر ہوا- جس میں پاکستان کے مشہور گلوگار راجہ حامد علی نے صوفیانہ کلام پیش کر کے سامعین سے خوب داد سمیٹی- پس یہ سیشنز صوفیاء کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کا منفرد ذریعہ بنے-
کانفرنس کا انعقاد عظیم مقاصد کے حصول کی خاطر کیا گیا- آج معاشرے میں بڑھتی شدت پسندی، فرقہ واریت، عصبیت، نفرت، حرص، بے حیائی اور بےحسی کا تدارک صرف صوفیاء کرام کے افکار و نظریات کی ترویج سے کیا جا سکتا ہے- صوفیا کا پیغام امن، محبت، برداشت، رواداری، اتحاد، صلح اور انصاف کا ہے- مولانا جلال الدین رومی، حضرت سلطان باھو، امیر کبیر شاہ ہمدان ، رحمان بابا، سچل سرمست، مست توکلی، میاں محمد بخش جیسے عظیم صوفیاء کرامؒ کی تعلیمات معاشرے کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرتی ہیں- ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر عزت اور امن کے ساتھ زندگی گزارتا ہے- جس معاشرے میں فقط انسانیت کی بنیاد پر لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے- آج معاشرے میں بڑھتا صوفی فوبیا (Sufiphobia) نہایت بُرے اثرات مرتب کر رہا ہے- کانفرنس میں قرآن کریم اور سنت مبارکہ کی روشنی میں اصفیاء و اولیاء کے طور طریقوں کو پیش کیا گیا اور تصوف کے نام پر جاری جعلی اور جھوٹے صوفیوں کے رائج طریقہ کاروں کی شدید مذمت کی گئی- کانفرنس میں تصوف کو جدید سائنسی طریقوں اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ اور مربوط کرنے کے حوالے سے بیش قیمت گفتگو کی گئی تاکہ ایک عام انسان اپنی عقل کے استعمال سے تصوف کی حقیقت سے آشنا ہو سکے- آج کے گلوبلائزیشن کے دور میں بڑھتے روابط اور تعلقات کو بہتر طریقے سے سرانجام دینے کےلیے تصوف کی امن و محبت سے لبریز تعلیمات ہی مشعلِ راہ ثابت ہو سکتی ہیں- انہی افکار کی روشنی میں ہی ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے جہاں پہ قانون، انصاف اور عدل کی حکومت ہو-
کانفرنس کے انتظامات مسلم انسٹیٹیوٹ کی ٹیم کے نظم و ضبط کا منہ بولتا ثبوت تھے-استقبالیہ کے لیے ایک خوبصورت انداز قائم کیا گیا، جس میں ایک گروہ سرخ ٹوپی اور سفید جبے کے ساتھ مولانا جلال الدین رومیؒ کے سلسلہ مولویہ کے درویشانہ لباس کی نمائندگی کر رہا تھا اور اس کے ساتھ دوسرا قطار میں سر پر سفید دستار سجائے، سفید لباس اور سیاہ ویسٹ کوٹ میں ملبوس حضرت سلطان باھوؒ کے آستانہ کے فقراء ایک مخصوص روائیتی وضع قطع کی نمائندگی کر رہےتھے- خوش آمدید کے اس انداز نے حاضرین کو خوب محظوظ کیا- اس کے علاوہ استقبالیہ سے لے کر تمام ہالز تک مسلم انسٹیٹیوٹ کی نوجوان ٹیم مہمانوں کو خوش آمدید کہنے اور ان کی راہنمائی کےلیے متحرک تھی- اس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کے لیے کتب کے سٹال کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں تصوف، ادب ، فلسفہ، تفاسیر اور احادیث جیسے مختلف موضوعات پر مشہور کتب رعایتی نرخ پر فراہم کی گئیں- کانفرنس کے تمام سیشنز مسلم انسٹیٹیوٹ کے یوٹیوب چینل پر لائیو چلتے رہے- جس کی بدولت پوری دنیا سے بڑی تعداد میں لوگ کانفرنس سے منسلک رہے- تمام سیشنز مسلم انسٹیٹیوٹ کے نام سےموجود یوٹیوب چینل پر محفوظ ہیں اور کہیں سے بھی لوگ دیکھ سکتے ہیں- انتظامی حوالے سے تمام امور اتنی باریکی اور پیشہ ورانہ انداز سے مکمل تھے کہ بیشتر مقررین نے متاثر ہو کر فراخ دلی سے مسلم انسٹیٹیوٹ اور حضرت سلطان محمد علی صاحب کی توجہ سے تربیت پانے والے نوجوانوں کو خراجِ تحسین پیش کیا-
اس تین روزہ کانفرنس نے مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات کی ترویج کےلیے بھرپور کردار ادا کیا- یہ بین الاقوامی کانفرنس یقینا ًمستقبل میں پاکستان اور پوری دنیا میں عارفانہ افکار کی اشاعت کےلیے عملی نمونہ پیش کرتی رہے گی-
٭٭٭