وہ جو آنکھوں کا تارا، دل کی ٹھنڈک، چہرے کا نور اور زندگی کا سہارا ہو جو تپتی دھوپ میں سایہ، ڈوبتے سمندر میں کنارہ، تاریک راہوں کا چراغ اور صبح کی روشنی ہو، جس سے دل کا تعلق ایسا ہو جیسے پھول کا خوشبو سے، ساز کا نغمے سے، شعر کا شاعر سے، صانع کا صنعت سے اور پرندے کا آسمان سے، جس کے خیالوں سے دل کی دھڑکنیں بحال ہوں، جس کی موجودگی سکون بخشے، جس کا ساتھ مضبوط پہاڑ کی مانند ہو، جس کا ہاتھ تھام کر قدم تیزی سے دوڑیں، لیکن اچانک وہ ہاتھ ہاتھوں سے چھوٹ جائے، دل کا شیشہ ٹوٹ جائے، قدم لرزنے لگیں، راہوں میں تاریکی چھا جائے، پھول مرجھا جائیں اور دل غم کے گہرے سمندر میں ڈوب جائے-
موت کی دستک ہو یا کوئی اور آزمائش، محبت کے سب سے بڑے امتحانات میں سے ایک جدائی ہوتی ہے- اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا محض تصور ہی دل کو ہلا دینے کے لیے کافی ہے- وہ جن کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں ہوتا، جب وہ اچانک چھن جاتے ہیں، تو انسان ٹوٹ کر رہ جاتا ہے- کبھی کوئی خاک میں دفن ہو کر جدا ہوتا ہے، تو کبھی کوئی زندہ ہو کر بھی دوری کے اندھیروں میں کھو جاتا ہے- لیکن محبت کا اصل تعلق تو دل سے ہوتا ہے، جیسے کوئی نادیدہ ڈور ایک دل سے دوسرے دل تک بندھی ہو جس سے محبت ہمیشہ دلوں میں زندہ ریتی ہے -
حضرت یعقوبؑ اپنے لختِ جگر حضرت یوسفؑ کی جدائی میں 40 برس سال تک اشک بار رہے، یہاں تک کہ غم کی شدت سے آپ کی آنکھوں کی بینائی تک جاتی رہی- جس کے بارے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ تَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰٓاَسَفٰی عَلٰی یُوْسُفَ وَ ابْیَضَّتْ عَیْنٰہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَ کَظِیْمٌ‘‘[1]
’’اور یعقوبؑ نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا: ہائے افسوس! یوسفؑ کی جدائی) پر اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں سو وہ غم کو ضبط کئے ہوئے تھے‘‘-
حضور نبی کریم (ﷺ) نے مکہ سے جدائی کا کرب سہا- وہ شہر جہاں آپ (ﷺ)کی بچپن کی یادیں جوانی کے پاکیزہ ایام ، حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا)کا ساتھ اور چچا ابو طالب کی شفقت تھی- جب ہجرت کا وقت آیا تو مکہ کو الوداع کہتے ہوئے فرمایا:
’’ اے مکہ! تو کتنا پیارا شہر ہے ، تو مجھے کس قدر محبوب ہے، اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا‘‘-[2]
حضرت موسیٰؑ کی والدہ کہ جنہوں نے اپنے جگر کے ٹکڑے کو ایک ٹوکری میں رکھ کر دریا کے حوالے کر دیا- ایک ماں کے لیے یہ کیسا صبر تھا! مگر رب نے تسلی دی:
’’وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی اَنْ اَرْضِعِیْہِ ج فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَاَلْقِیْہِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَلَا تَحْزَنِیْ ج اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَ جَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘[3]
’’اور ہم نے موسٰی کی ماں کو حکم بھیجا کہ اسے دودھ پلا، پھر جب تجھے اس کا خوف ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر، بے شک ہم اسے تیرے پاس واپس پہنچا دیں گے اور اسے رسولوں میں سے بنانے والے ہیں‘‘-
حضرت آدمؑ اور حضرت حوا بھی سالوں تک ایک دوسرے سے بچھڑے رہے یہاں تک کہ حضرت آدمؑ نے آپ کی تلاش میں پوری دنیا کا پیدل سفر کیا-
جب مولانا رومی اپنے مرشد و ھادی شمس تبریز سے جدا ہوئے تو اس جدائی نے مولانا رومی کو اس قدر گہرا صدمہ دیا کہ آپ ہر چیز سے بے خبر ہو کر دنیا سے لاتعلق ہو کر دیوانہ وار پھرتے رہے- آپ نے اپنے قلب کے قلم اور غم کی سیاحی سے مثنوی جیسی عظیم کتاب لکھ ڈالی جہاں 26 ہزار اشعار جدائی کے سوز میں آج تک روشن ہیں-
اللہ تعالیٰ نے چاند سورج سیارے ستارے آب و پہاڑ جیسے کمالات تخلیق کئے لیکن اشرف المخلوقات کے لقب سے صرف انسان کو نوازا کھجور کا تنا انسان سے افضل تو نہیں ہوسکتا لیکن جب قوت گویائی اسے عطا کی گئی توجدائی کے درد سے وہ بھی گریاں کرنے لگا-
’’صحیح بخاری‘‘کی روایت ہے کہ جمعہ کا دن آیا، تو حضور نبی کریم (ﷺ) منبر پر تشریف فرما ہوئے- اس پر اس کھجور کے تنے نے ایک چیخ ماری، جس کے پاس کھڑے ہو کر آپ (ﷺ) خطبہ دیا کرتے تھے اور قریب تھا کہ وہ پھٹ ہی جاتا- ایک روایت میں ہے کہ اس نے بچے کی طرح چلانا شروع کر دیا - اس پر حضور نبی کریم (ﷺ) نیچے اترے اور اسے پکڑ کر اپنے ساتھ لگا لیا- وہ اس بچے کی طرح سسکیاں بھرنا شروع ہو گیا، جسے چپ کرایا جا رہا ہو، یہاں تک کہ پرسکون ہوگیا- آپ (ﷺ) نے فرمایا: یہ اس ذکر (سے محروم ہونے) کی وجہ سے رویا ہے، جسے یہ سنا کرتا تھا‘‘-
اس تمہید کو سامنے رکھ کر خود کو اس عالم میں لے چلیں جسے عالم ارواح یا عالم لاھوت سے موسوم کیا جاتا ہے - وہ عالم جہاں انسانی ارواح کو تخلیق کیا گیا جہاں نہ ماں باپ تھے، نہ بیوی بچے، نہ غم روزگار تھا، نہ دانہ گندم و اناج بس ایک ہی ذات ہمارے سامنے تھی ہم اسی کے انوار و تجلیات میں پل رہے تھے ہمارا مقصود و مطلوب صرف ذات حق تعالیٰ تھا -
اسی کا ذکر اسی کی فکر اور اسی کی محبت ہماری کل متاع تھی-ہم اس کی بارگاہ میں عشق کا دعوی کر بیٹھے تھے اور اسی لئے اس نے ہمیں خود سے جدا کر کے اس کائنات میں بھیج دیا کہ دیکھا جائے کون اس کی محبت میں سچا ہے اور کون ایسا ہے جو مادی محبتوں میں گم ہو کر اسے فراموش کر بیٹھتا ہے -
انسان کی روح کا اصل تعلق اپنے خالق سے ہے- عالمِ ارواح میں ہر روح نے اللہ تعالیٰ کی قربت اور محبت کا مزہ چکھا، اسی لیے جب انسان دنیا میں آیا، تو اس جدائی کا دکھ اس کی فطرت میں پیوست ہو گیا- یہ دنیا کی ہر جدائی، ہر غم اور ہر محرومی دراصل اُسی ایک عظیم جدائی کا عکس ہے- دل ہمیشہ کسی انجانی کمی کا احساس کرتا ہے، جیسے کوئی بہت عزیز چھن گیا ہو- وہ محبوب جو سب سے قریب تھا، سب سے زیادہ مہربان تھا، جس کی قربت میں سکون تھا، وہی محبوب، اللہ تعالیٰ، جب پردۂ غیب میں چلا گیا، تو انسان کی روح اس فراق میں ہمیشہ بے قرار رہنے لگی-
اسی فطری جدائی کا نوحہ مولانا رومی نے اپنی مثنوی کے آغاز میں بانسری کی زبان سے بیان کیا- وہ بانسری جسے سرکنار سے کاٹ کر تنہا کر دیا گیا، وہ ہر وقت سوز و غم سے بھری صدائیں نکالتی ہے- رومی کہتے ہیں کہ بانسری کی یہ فریاد دراصل روح کی فریاد ہے، جو اپنے اصل محبوب، اللہ تعالیٰ سے جدائی کا دکھ سنا رہی ہے- یہ نالہ صرف عشقِ حقیقی کا نالہ ہے- وہ عشق جو روح اور رب کے درمیان ہے- اسی لیے رومی کی مثنوی کا ہر شعر، ہر استعارہ انسان کے اسی ازلی دکھ کو بیان کرتا ہے کہ وہ جس سے جدا ہوا ہے، وہی اس کی سب سے بڑی چاہت ہے-
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام دکھ، تمام محبتیں، تمام جدائیاں انسان کو دراصل اس ایک عظیم محبت کی یاد دلاتی ہیں، جو اس کی روح اور اس کے رب کے درمیان قائم تھی- اور ہر سچا عاشق، ہر سچی روح، آخرکار اُسی محبوب کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے-
عالم ارواح کے اس عہد کو قرآن کریم یوں بیان کرتا ہے :
’’وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْۢ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ اَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْط قَالُوْا بَلٰی ج شَہِدْنَا ج اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَ‘‘[4]
’’اور (یاد کیجئے!) جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا (اور فرمایا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے: کیوں نہیں! (تو ہی ہمارا رب ہے،) ہم گواہی دیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن یہ (نہ) کہو کہ ہم اس عہد سے بے خبر تھے‘‘-
اس آیت کریمہ میں جس عہد لینے کا ذکر ہے، اس عہد کی وضاحت کا ذکر احادیث مبارکہ میں بھی تفصیل سے موجود ہے -
علامہ ابن جریر طبریؒ حدیث پاک نقل کرتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ (ﷺ) فرماتے ہیں: بنی آدم کی پیٹھ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ایسے نکالیں جیسے کنگھی بالوں میں سے نکلتی ہے- ان سے اپنی ربوبیت کا سوال کیا، انہوں نے اقرار کیا، فرشتوں نے شہادت دی- اس لیے کہ یہ لوگ قیامت کے دن اس سے غفلت کا بہانہ نہ کریں‘‘-[5]
یہ آیت کریمہ اور اس سے منسلک احادیث اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار موجود ہے- ہر روح نے ازل میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور ربوبیت کو تسلیم کیا اور یہی وہ عہد ہے جو فطرت انسانی میں پیوست ہے-
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں آکر بھی ہر انسان کی فطرت میں سچائی، حق کی تلاش اور اپنے خالق کی پہچان کی جستجو موجود رہتی ہے- اگرچہ دنیا کی مصروفیات، خواہشات اور بیرونی اثرات اس فطری یادداشت کو دھندلا سکتے ہیں، لیکن دل کی گہرائی میں یہ عہد ہمیشہ زندہ رہتا ہے- یہی وہ اندرونی آواز ہے جو انسان کو کبھی نہ کبھی جھنجھوڑتی ہے اور اسے حقیقت کی طرف پلٹنے پر مجبور کرتی ہے-
اسی جدائی کا ذکر حضرت سلطان باھوؒ اپنے اس بیت میں فرماتے ہیں:
ب- بنھ چلایا طرف زمیں دے،عرشوں فرش ٹکایا ھو |
طالبِ مولیٰ کا اصل گھرتوعالمِ لاھوت ہے جہاں پر اس نے دیدارِالٰہی کے سوا دنیا اورعقبیٰ کو ٹھکرا دیا تھا- آپؒ فرماتے ہیں یہ تو ہماری تقدیر ہے جس نے ہمیں جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے اور ہمیں اپنے وطنِ ازلی، عالمِ لاھوت سےعالمِ خلق (نا سوت) میں لےآئی ہے- اے دنیا!ہمارا پیچھا چھوڑ دے اور ہمیں تنگ نہ کر ہمارا دل تو پہلے ہی فراقِ یار میں بے قرار و بے چین ہے- ہم تو اس دنیا میں پردیسی ہیں- ہمارا وطن تو محبوبِ حقیقی کے پاس ہے جو بہت دور ہے اور اِس تک جانے والی راہ میں بہت سی مشکلات اور مصائب ہیں جسے ہم نے دنیا کی محبت دل سے نکال کرعشق سےطے کرنا ہے اورہرلمحہ یہ غم بڑھتا ہی جا رہا ہے-
ہم نے اپنے محبوب حقیقی، اپنے خالق کا دیدار کیا، اس سے عہد و پیمان باندھااور پھر جدا کر دیے گئے- تب سے یہ دنیا جدائی کی سرزمین ہے-ایک ایسا دیار جہاں ہر لمحہ اُس پہلی محبت کی یاد دلاتا ہے- ہم اپنے رب سے جدا ہو کر اس دنیا میں دربدر بھٹک رہے ہیں، بے قراری کا سفر طے کر رہے ہیں-
جدائی کے بعد انسان ہمیشہ کسی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے- ہر آواز، ہر آہٹ پر چونک اٹھتا ہے کہ شاید یہ اس کے محبوب کی آمد ہو، شاید یہ کوئی پیغام ہو، کوئی اشارہ ہو- ہم بھی اسی طرح دنیا میں محبوبِ حقیقی کی جستجو میں ہیں-
ہم عہد الست کو چاہے بھول چکے ہوں لیکن ہماری روح فراق کے کرب سے گزر رہی ہیں اور شدت سے وصال کی منتظر ہے -جس طرح بچھڑے ہوئے لوگوں سے ملنے کا ایک واحد سہارا نیند کے ذریعے خواب کا راستہ ہوتا ہے اسی طرح موت کے بعد ہم بچھڑے ہوئے محبوب سے مل سکیں گے لیکن کونسی موت کے بعد؟گوشت و پوست والے جسم کی موت یا پھر نفس کی موت؟ایک موت تو جسم کی ہے کہ جب روح جسم سے نکل کر اپنے خالق کی طرف لوٹتی ہے جیسا کی اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ‘‘[6]
’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے‘‘-
لیکن ایک موت نفس کی ہے نفس کی موت سے مراد تزکیہ نفس ہے قرآن کا ارشاد ہے:
’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی ‘‘[7]
’’بیشک اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا‘‘-
نفس کی موت ہی وہی راستہ ہے کہ بندہ اپنے رب سے مل سکے اس سفر کو صوفیاء کرام موتو قبل انت موتو یعنی موت سے پہلے مرجانے کا نام دیتے -
تصوف میں سلوک کی منازل میں ایک مقام فنا فی اللہ کا بھی آتا ہے، جہاں بندہ اپنے وجود کی حقیقت کو مٹاکر محض اللہ کی ذات میں اپنی بقا پاتا ہے- اپنی خواہشات اور اپنے محدود ادراک سے آگے بڑھ کر حقیقت کی گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے-یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب وصال کی حقیقت آشکار ہوتی ہے-جب دل کی دھڑکنیں اللہ کے ذکر میں ڈھل جاتی ہیں اور روح اس فراق کے درد سے آزاد ہو کر حقیقتِ وصل سے روشناس ہوتی ہے-رب کریم کا فرمان پاک ہے:
’’وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ج صلے وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ‘‘[8]
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں‘‘-
اللہ ہمارے کتنے قریب ہے یہ بات سمجھانے کےلئے اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’حَبْلِ الْوَرِيدِ‘‘ کا ذکر کیا ہے -یہ وہ رگ ہےکہ جسے اگر کاٹ دیا جائےتو انسان کی روح نکل جاتی-علامہ علی بن محمد خازنؒ فرماتے ہیں :
"وَرِید" وہ رگ ہے جس سے خون جاری ہو کر بدن کے ہر جُزْوْ میں پہنچتا ہے ،یہ رگ گردن میں ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے اَجزاء ایک دوسرے سے پردے میں ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پردے میں نہیں ‘‘-[9]
اللہ کریم کا فرمان ’’وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ‘‘ ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ہماری ہر دھڑکن، ہر سانس، ہر خیال سے بھی زیادہ قریب ہے-
حضور نبی کریم (ﷺ) کا فرمان ہے:
’’بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت ميں ہوتا ہے- لہٰذا تم (سجدے میں) خوب دعا کیا کرو“- [10]
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ‘‘[11]
میرے بندے ! اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادیجئے کہ میں تو ان سے قریب ہوں پکارنے والا جب پکارتا ہے تو میں اس کی پکارسنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں “-
کس قدرمحبت اور مٹھاس ہے ان جملوں میں کہ اللہ ہمیں سن رہا ہے-جواب بھی دیتا ہے وہ تو بہت قریب ہے لیکن انسان اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے-جو لوگ اس دنیا میں اپنے محبوبِ حقیقی کی تلاش میں نکلتے ہیں، وہ اپنی زندگی میں ہی وصال کی چاشنی چکھ لیتے ہیں-ہم قربِ حق سے کوسوں دور ہوتے جاتے ہیں، حالانکہ وہ تو ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے- مگر دنیا کی چمک دمک، خواہشات کی دھند اور خودی کے حجاب ہماری سماعتوں پر پردے ڈال دیتے ہیں-یہی وہ غفلت ہے جس کی طرف صوفیاء کرام ہمیشہ متوجہ کرتے رہےکہ اصل راستہ وہ ہے جہاں دل کا آئینہ صاف ہو، جہاں نگاہوں کے پردے ہٹیں اور جہاں انسان اس آواز کو سن سکے جو ازل سے اس کے لیے پکار رہی ہے-
محبوب صمدانی، سلطان العارفین شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اپنی مایہ ناز کتاب سرالاسرار میں رب کریم سے جدائی اور وصال کو یوں لکھتے ہیں کہ :
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ مَنْ کَانَ فِیْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا‘‘[12]
’’اور جو کوئی اس جہان میں اندھا رہا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور راستہ سے بہت دور ہٹا ہوا‘‘-
’’فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ‘‘[13]
’’آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘-
دل کا اندھا ہونے کا سبب حجابات کی ظلمت غفلت اور نسیان ہے کیونکہ رب کریم سے کیے گئے وعدے کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے- غفلت کا سبب امرِ الہی کی حقیقت سے ناواقفیت ہے اور جہالت اس لیے کہ دل پر ظلمانی صفات چھا گئی ہیں مثلاً تکبر، کینہ، حسد، بخل، غضب، غیبت، چغلی جھوٹ اور اس کے کئی دوسری چیزیں یہی صفات کی بدترین حالت کی طرف لوٹنے کا سبب ہے ان صفات مذمومہ کی ازالے کی واحد صورت یہ ہے کہ دل کے آئینے کو توحید کے ریتی کے ساتھ صیقل کیا جائے اور علم و عمل اور ظاہر و باطن میں سخت مجاہدہ اپنا کر دل کو صاف کیا جائے اگر اس طریقے کو اپنایا جائے تو دل اسما و صفات کے نور سے ایک نئی زندگی حاصل کر لے گا اور اسے اپنا وطن اصلی یاد آ جائے گا پھر یہ دل اپنے وطن کے لیے مشتاق ہوگا وہاں لوٹنے کے لیے بے تاب ہوگا اور اللہ رحمان اور رحیم کی عنایت سے اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے گا حجابات ظلمانیہ کے ازالے کے بعد نورانیت باقی رہ جائے گی اور اب روح آنکھ بینا ہو جائے گی-اسماء و صفات کے نور سے باطن میں ایک نئی روشنی پھیل جائے گی پھر ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ نورانی حجابات بھی اٹھتے جائیں گے اور دل نور ذات سے منور ہو جائے گا‘‘-
صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ اگر اس ذات کی طلب طالب کے دل میں جاگزین ہو جائے اور وہ شریعت مطہرہ کی پابندی کرتے ہوئےاللہ کے ذکر سے اپنی روح کو بیدار کر لیں تو اسے وہ دن یاد آ جائیں گئے جو اس نے اللہ تعالیٰ کے قرب میں گزارے ہیں- لیکن قرب الٰہی کی رہنمائی اللہ والوں کی تعلیمات سے ہی نصیب ہوتی ہے جس پر چل کر انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت اور قرب الٰہی کو حاصل کر سکتا ہے -
٭٭٭
[1](یوسف: 84)
[2](صحيح ابن حبان، رقم الحدیث: 3709)
[3](القصص: 7)
[4](الاعراف: 172)
[5](تفسیر ابن جریر الطبری، رقم الحدیث :15365)
[6](آل عمران :185)
[7](الاعلیٰ: 14)
[8](سورہ ق: 16)
[9](تفسیر خازن، زیر آیت سورۃ ق:16)
[10](صحيح مسلم، رقم الحدیث: 482)
[11](البقرہ: 186)
[12]( الاسراء: 72)
[13](الحج: 46)