تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ میں مراقبہ کی اصطلاح

تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ میں مراقبہ کی اصطلاح

تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ میں مراقبہ کی اصطلاح

مصنف: لئیق احمد مئی 2023

وہ لفظ جو کسی شعبہ علم میں کچھ خاص اور جداگانہ معانی کے ساتھ مروج ہو یعنی جس کا کوئی خاص معنی کسی علم یا فن وغیرہ کے ماہرین نے مقرر کر لیا ہوتاکہ انہیں سمجھانے کی غرض سے مستعمل ٹھہرایا جائے اسے ’اِصطلِاح‘ کہا جاتا ہے- کسی بھی علم کے حصول سے قبل ضروری ہوتا ہے کہ اس علم یا فن کی بنیادی اصطلاحات اور ان کی تعریفات سے آشنائی حاصل کرلی جائے تاکہ اصطلاحات کی رُو معلوم ہونے کے بعد قاری کے مطالعہ اور فہم میں ابہام کی گنجائش باقی نہ رہے-

دنیا کے ہر فن اور پیشے کے ماہرین کے ہاں کچھ اصطلاحات ہوتی ہیں جن کے مطالب بمقابل دوسرے فن، علم اور پیشے سے خاص ہوتے ہیں- ان اصطلاحات کے وضع کرنے کے دو فوائد ہوتے ہیں-اول یہ کہ مشکل بات آسان ہو جائے اور اس کے مطالب اچھی طرح سمجھ میں آ جائیں- دوم یہ کہ نااہلوں سے اسرار و رموز کو چھپایا جا سکے-

زیرِ مطالعہ مقالہ علمِ تصوف کی اصطلاحات سے تعلق رکھتا ہےاور علمِ تصوف بھی باقی شعبہ ہائے فنون کی طرح اپنے اندر منفرد اصطلاحات سموئے ہوئے ہے جن سے آگاہی اتنی ہی ضروری ہے جتنی دوسرے علوم کے مطالعے سے قبل ان میں مروجہ اصطلاحات سے واقفیت-

تصوف کا تعلق ان امور سے ہے جن کو صرف حواس خمسہ اور عقل کے ذریعہ سمجھا نہیں جا سکتا بلکہ اس علم کا حصول وجدان کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اسی لیے اس علم میں اصطلاحات سے کام لینے کی سب سے زیادہ ضرورت پیش آئی -

اولیائے کاملین کا وطیرہ رہا ہے کہ انہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں عوام الناس کی رہنمائی کے لئے تصنیفات و تالیفات رقم کیں اور اُن میں قرب الٰہی کے مدارج کو سمجھانے کے لئے مخصوص اصطلاحات کاسہارا لیا جن کو انہوں نے اپنے مشاہدات و احوال کے تناظر میں وضع کیا -

زیرِ نظر مقالہ کا مقصد سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس سرہ العزیز)کی تعلیماتِ تصوف میں جابجا استعمال ہونے والی صوفیانہ اصطلاحات کی بنیادی شرح بیان کرنا ہے-تعلیمات حضرت سلطان باھو (رح) کی تفہیم کے لئے یہ نکتہ قابل غور ہے کہ بعض دفعہ آپ کسی مسئلہ کو بیان فرمانے لگتے ہیں تو اس کے وجودِ جامعیت پہ مروجہ اصطلاحات کا جامہ تنگ ہونے لگتا ہے تو آپ مسئلہ تفہیم کی غرض سے ایک نئی اصطلاح قائم فرما دیتے ہیں اور اپنی ہی اصطلاح میں اُس مسئلہ کی جامعیت قائم کرتے ہیں-اکثر محققین کو آپ کی تصانیف کی تشریح میں بالخصوص اور مطالعہ میں بالعموم یہ مسئلہ در پیش ہوتا ہے کہ وہ آپ کی بیان کردہ اصطلاح کو مروجہ اصطلاحات کے تناظر میں سمجھنا چاہتے ہیں جو کہ فی الحقیقت اُن سے یکسر مُختلف ہوتی ہے، اِس لئے وہ اُسے نہ صرف سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں بلکہ زیرِ نظر مسئلہ کی تفہیم میں بھی مغالطہ کا ذائقہ چکھ بیٹھتے ہیں- اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ صوفیاء کرام اپنے احوال و مقامات اور اپنے مشاہدات کے تناظر میں کسی اصطلاح کو وضع یا اس کی تشریح و توضیح فرماتے ہیں-اِس لئے حضرت سلطان باھو (رح) کی اصطلاحات بذاتِ خود ایک الگ موضوعِ تفہیم و تحقیق ہیں-اُن اصطلاحات کی تفہیم کیلئے محض فصاحت و بلاغت کا سہارا کافی نہیں ہوتا بلکہ اُس کیلئے کسی ایسے شیخ کی صحبت و معیت اور کسبِ تربیت ضروری ہے جس کی سالکانہ تربیت حضرت سلطان باھو (رح)  کے منہجِ طریقت و تصوف پہ ہوئی ہو-

زیر نظر مقالہ میں کوشش کی ہے کہ اصطلاحات تصوف کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم پر بات کی جائے پھر اکابر صوفیاء کرام کی تعلیمات کی روشنی میں ان اصطلاحات کے مفہوم کو جاننے کی کوشش ہوگی اور آخر میں ان اصطلاحات کو تعلیمات حضرت سلطان باھو (رح)  کی روشنی میں پیش کیا جائے گا- آغاز از اصطلاحِ مراقبہ می شود-

مراقبہ:

لغوی تعریف:

لغت میں مراقبہ کا لفظ باب راقب یراقب کا مصدر ہے- اس کا مادہ مجردہ رقب ہے جس کے معنی تکنے، دیکھنے، مشاہدہ کرنے کے ہیں - چونکہ مراقبہ باب مفاعلہ کا مصدر ہے اور باب مفاعلہ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ باہم فعل کی سرانجام دہی کو ظاہر کرتا ہے - اس لیے مراقبہ کے معنی ’’باہم ایک دوسرے کو دیکھنا ‘‘ کے ہیں-

مراقبہ ایک قلبی عمل ہے جو لفظ ’’رقیب‘‘ سے ماخوذ ہے- رقیب اسمائے الٰہی میں سے ایک اسم ہے جس کے معنی نگہبان، پاسبان کے ہیں اور اس کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں آیا ہے:

’’ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ رَّقِیْبًا‘‘[1]

’’اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے‘‘-

اہل لغت مراقبہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’المُراقَبَةُ: حِراسَة الشَّيْءِ ومُلاحَظَتُهُ، وتأْتي بِمعنى الحِفْظِ. وتُطْلَقُ المُراقَبَةُ على الخَوْفِ والخَشْيَةِ. وأَصْلُها: الاِنْتِظارُ والتَّرَصُّدُ‘‘[2]

’’مراقبہ کسی چیز کی نگرانی کرنا اور اسے ملحوظ رکھنا- مراقبہ کا معنی حفاظت کرنا بھی آتا ہے- اس كا اطلاق خوف اور خشيت پر بھی ہوتا ہے- اس کا اصل معنی انتظار کرنا اور گھات میں رہنا ہے‘‘-

اردو لغت میں مراقبے کا لفظ استغراق، گیان، دھیان، تصور، گردن جھکا کر فکر کرنا اور اللہ کے سوا سب کو چھوڑ کر محض اللہ ہی کی طرف دل لگانے کے لئے آتا ہے-[3]

انگریزی زبان میں مراقبہ کے لئے ’’meditation‘‘ کا لفظ مستعمل ہے-

مراقبہ کی اصطلاحی تعریف :

مراقبہ کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے ابن القیم لکھتے ہیں :

’’ مراقبة الرب علم العبد و تيقنه باطلاع الله على ظاهره وباطنه فاستدامته لهذا العلم واليقين هي المراقبة‘‘[4]

’’ رب کا مراقبہ بندے کا علم اور ا سکا یقین ہے- ظاہری و باطنی طور پر خدا سے واقف ہو جانا، پس اس علم اور یقین کو برقرار رکھے- یہ مراقبہ ہے‘‘-

امام جرجانی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اسْتِدامَةُ عِلْمِ العَبْدِ بِاطِّلاعِ الرَّبِّ عليه في جَمِيعِ أَحْوالِهِ مع الخَوْفِ مِن عِقابِهِ‘‘[5]

’’بندے کو ہمہ وقت اس بات کا علم ہو کہ پروردگار اس کے تمام احوال سے باخبر اور مطلع ہے بایں طور کہ وہ پروردگار کی گرفت سے خوفزدہ رہے‘‘-

اس تعریف کی شرح ’’موسوعة المصطلحات الإسلامية‘‘ کے مصنف یوں بیان کرتے ہیں :

’’المُراقَبَةُ مَنْزِلَةٌ شَرِيفَةٌ، وهي مَعْرِفَةُ العَبْدِ أنَّ اللهَ مُطَّلِعٌ عليه، ناظِرٌ إِلَيْهِ يَرَى جَمِيعَ أَعْمالِهِ، و يَعْلَم كُلَّ ما يَخْطُرُ على بالِهِ، مع مُلازَمَةِ هذا العِلْمِ لِلْقَلْبِ بِحيث يَغْلِبُ عليه، ولا يَغْفُلُ عنه. وهذه المَنْزِلَةُ تُوجِبُ تَعْظِيمَ اللهِ تعالى و إِجْلالَهُ وتَرْكَ المَعاصِي، والجِدَّ في الطَّاعاتِ‘‘[6]

’’مراقبہ‘ ایک بہت ہی بلند مقام ہے- اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ یہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے، وہ اسے دیکھ رہا ہے اور اس کے تمام اعمال پر اس کی نظر ہے اور اس کے دل میں جو کچھ خیال گزرتا ہے اس سے بھی وہ آگاہ ہے- یہ خیال ہمہ وقت انسان کے دل پر چھایا رہے اور پل بھر کے لیے وہ اس سے غافل نہ ہو- یہ مقام اللہ کی تعظیم و اِجلال کرنے، گناہوں کو چھوڑنے اور نیکیوں میں محنت وکوشش کرنے کا مؤجب ہے‘‘-

المختصر! مراقبہ اس کامل یقین کا نام ہے کہ رب تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے - یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ فکر آلودہ سے دور ہوکر فکر خالص کا حصول مراقبہ کہلاتا ہے -

مراقبہ اکابر صوفیاء کرام کی تعلیمات کی روشنی میں:

1- امام قشیری (رح) :

امام قشیری (رح) کے نزدیک مراقبہ کی اصل حدیث جبریل میں مرتبہ احسان کا بیان ہے -

حضرت سیدنا ابوہریرہ (رض) سے ایک طویل حدیث پاک مروی ہے کہ:

’’حضرت جبریل امین (﷤)بارگاہ ِرِسالت میں حاضر ہوئے اور چند سوالات کیے، اُن میں سے ایک سوال یہ تھا کہ ’’یارسول اللہ (ﷺ)! اِحسان کیا ہے؟‘‘ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’تم اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے‘‘-[7]

علامہ ابوالقاسم عبد الکریم ہوازن قشیری(رح) اس حدیث مبارکہ سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’حضور نبی کریم (ﷺ)کا یہ فرمانا کہ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے-مراقبہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ مراقبہ بندے کے اس بات کو جاننے (اور یقین رکھنے) کا نام ہے کہ رب تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے‘‘-[8]

آپ مزید بیان کرتے ہیں :

حضرت سیدنا ابن عطا(رح) سے پوچھا گیا کہ افضل عبادت کیا ہے؟ تو ارشاد فرمایا:

 ’’مُرَاقَبَۃُ الْحَقِّ عَلٰی دَوَامِ الْاَوْقَاتِ‘‘[9]

’’ہر وقت  اللہ تعالیٰ کو نگاہ میں رکھنا ‘‘-

یعنی اس بات کا علم اور یقین رکھنا کہ اللہ  تعالیٰ دیکھ رہا ہے-

امام قشیریؒ کے مطابق جو شخص اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کرتا وہ مراقبہ میں کامل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس پرکشف اور مشاہدے کے درجات کھلتے ہیں- جیسا کہ آپ فرماتے ہیں :

’’مراقبہ ہر نیکی کی اصل ہے اور انسان اس مرتبے تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ نفس کا محاسبہ نہ کرے‘‘-[10] 

مزید شیخ ابو محمد بن محمد بن حسین جریری کا ارشاد بیان فرماتے ہیں:

’’جس آدمی نے اپنے اور اپنے خالق کے درمیان تقوی اور مراقبہ کو مضبوط نہیں کیا وہ کشف اور مشاہدہ کے درجات تک ہرگز رسائی حاصل نہیں کر سکتا‘‘-[11]

2- حجۃ الاسلام امام غزالی (رح) :

امام غزالیؒ نے’’حقیقت المراقبۃ‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ ایک رسالہ تصنیف فرمایا ہے- آپ کی فکر کے تناظر میں مراقبہ کی تفصیل اس رسالے کے مطالعہ سے سمجھی جا سکتی ہے- چند اہم اقتباسات پیش خدمت ہیں:

i.   مراقبہ کی تعریف :

’’مراقبہ کے معنی ایک دوسرے کو دیکھنا یعنی یہ خیال رہنا کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو دیکھتا ہے اور میں اس کو دیکھتا ہوں ‘‘-[12]

ii.  مراقبہ پر صوفیاء کرام کے اقوال :

امام غزالیؒ نے اپنی کتاب میں مراقبہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے چند صوفیاء کرام کے اقوال درج کیے ہیں جو پیش خدمت ہیں:

امام التصوف حارث المحاسبی (رح)کا فرمان :

”مراقبہ کا شروع یہ ہے کہ دل کو پروردگار کا علم اور قرب حاصل ہونا چاہیئے“-

حضرت مرتعش (رح)کا قول:

”مراقبہ یہ ہے کہ ہر لحظ ہر کلمے پر غیب کے ملاحظے کے لیے باطن کی رعایت رکھے“-

حضرت محمد بن علی ترمذی (رح)کا فرمان :

”اپنا مراقبہ ایسے شخص کے لیے کر کہ جس کی نظر سے تو غائب نہ ہو اور شکر ایسے کا کر کہ جس کی نعمتیں تجھ سے منقطع نہ ہوں اور طاعت ایسے کی کر کہ جس سے مستغنی نہیں اور خضوع اس کے لیے کر کہ جس کی ملک اور سلطنت سے تو نہ نکلے“-

حضرت سہل تستری (رح)کا فرمان:

”بندے کے دل کو فضل اور شرف اتنا اور کسی چیز سے حاصل نہیں ہوتا جتنا اس بات سے ہوتا ہے کہ یوں جانے کہ میں جہان میں ہوں تو اللہ تعالیٰ میرا شاہد رہے گا“-

کسی بزرگ سے دریافت کیا گیا کہ ’’رَضِیَ اللهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ذَالِكَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّهٗ‘‘ کے کیا معنی ہیں تو انہوں نے فرمایا:

”اس کے یہ معنی کہ رضا اُس کی ہوگی جس نے اللہ تعالیٰ کا مراقبہ کیا اور اپنے نفس کا حساب لیا اور اخروی زندگی کے لئے سامان جمع کیا“-

حضرت ذوالنون (رح)کا فرمان:

”بندہ پانچ باتوں سے جنت کو پہنچتا ہے:-

  1. استقامت جس میں کجی نہ ہو-
  2. اجتہاد جس میں سہو نہ ہو-
  3. ظاہر و باطن میں مراقبہ الہٰی-
  4. موت کا انتظار اور اُس کی تیاری-
  5. نفس کا حساب لینا اس سے پہلے کہ اس سے حساب لیا جائے-[13]

اہلِ تصوّف کے نزدیک مراقبہ کی حقیقت :

امام غزالی  (رح)اہل تصوف کے نزدیک مراقبہ کی حقیقت پر فرماتے ہیں :

’’اہلِ تصوّف کے نزدیک مراقبہ وہ حالتِ قلبی ہے جو ایک قسم کی معرفت سے حاصل ہوتی ہے اس حالت سے کچھ اعمال اعضاء اور کچھ اعمال دل میں پیدا ہوا کرتے ہیں- پس حالت تو یہ ہے کہ قلب کا رقیب کو تاکتے رہنا اور اُس کی طرف مشغول اور ملتفت رہنا اور اُسی کو ملاحظہ اور متوجّہ ہونا اور جس معرفت سے یہ حالت پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دل کی باتوں اور باطن کے احوال کا عالم جاننا اور اُس کو بندے کے اعمال کا رقیب سمجھنا اور سب نفوس کے کسب پر واقف جاننا اور یہ کہ دل کا بھید اُس کے سامنے اس طرح عیاں ہے جس طرح انسان کاظاہری پوست مخلوق کے سامنے عیاں ہے بلکہ اس سے بھی زائد- پس یہ معرفت تب یقینی ہو جاتی ہے یعنی شک سے خالی ہوتی ہے اور پھر دل پر غالب ہو کر اُس کو دبا لیتی ہے تو قلب کی پاسداری رقیب کی طرف لے جاتی ہے اور اُس کی ہمت کو رقیب کی طرف پھیر دیتی ہے اور اس میں کچھ تعجب کی بات نہیں کہ آدمی کو کسی چیز کا یقین ہو تو مگر اُس پر وہ غالب نہ ہو جیسے موت کا علم کہ اس میں شک تو نہیں مگر دل پر اس کا غلبہ نہیں ہوتا -بہرحال جو لوگ اس معرفت کے یقین کرنے والے ہیں وہ مقرب ہیں اور اُن کی دو قسمیں ہیں:-

       پہلی قسم صدیق ہے-دوسری قسم اصحاب یمین ہے-

اس لیے ان کا مراقبہ بھی دو قسم کا ہے-[14]

مراقبہ تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒکی روشنی میں:

سُلطان العارفین حضرت سلطان باھو (رح) نے اپنی تعلیمات میں مراقبہ کی اصطلاح کا کثرت سے استعمال فرمایا ہے بلکہ متعدد کتب میں اس اصطلاح پر باقاعدہ باب رقم فرمایا ہے- اصطلاح مراقبہ کی توضیح و تشریح جس اچھوتے انداز میں آپ نے اپنی کتب میں فرمائی ہے وہ نہایت قابلِ مطالعہ ہے-

بہت ہی کم ایسے نکات ہیں جو دیگر صوفیاء کی کتب میں مل جائیں گے یا جن پر یکسانیت کا گمان ہو سکتا ہے- جتنی جہتوں سے حضرت سلطان باھو (رح)نے مراقبہ کو بیان کیا ہے وہ آپ کی ذات کا ہی خاصہ ہے-

مراقبہ کیا ہے ؟

  1. ’’مراقبہ دل کی نگہبانی کو کہتے ہیں - مراقبہ ایک نگہبان ہے- جو غیرِ حق رقیب مثلاً خطراتِ نفسانی، خطراتِ شیطانی، امراضِ پریشانی اور ماسویٰ اللہ کسی بھی چیز کو دل میں نہیں آنے دیتا- مراقبہ واصل بحق کرنے والے اور مشاہدہ خاص بخشنے والے عمل کو کہتے ہیں - مراقبہ محبوب کی محبت، اسرارِ الہٰی ومجلسِ محمدی (ﷺ) کی محرمیّت اور نور الہدیٰ تجلیٔ ذات کے مطالعہ کو کہتے ہیں ‘‘-[15]
  2. ’’مراقبہ نام ہے تحقیقِ حضوری کا‘‘-[16]
  3. ’’مراقبہ رقیب سے جدا کر کے وحدتِ خدائے تعالیٰ میں غرق کرنے والے عمل کو کہتے ہیں- مراقبہ محبتِ الٰہی کا نام ہے- مراقبہ مقامِ حیُّ قیوم کا لازوال استغراق بخشتا ہے - مراقبہ وہ عمل ہے کہ جس سے بندہ مرنے سے پہلے مر کر احوالِ حضوری اور اسرارِ الٰہی کا مشاہدہ کرتا ہے اور مجلسِ محمدی (ﷺ) کی حضوری سے مشرف ہوتا ہے - مومن کا مراقبہ اُسے اسرارِ معرفت کا محرم کرتا ہے اور منافق و کافر کا مراقبہ اُسے تحت الثریٰ کی پستی میں گراتا ہے‘‘-[17]
  4. ’’مراقبہ ایسے ہے جیسے کہ آفتاب، آفتاب جب رات کی تاریکی کا پردہ پھاڑ کر نکلتا ہے تو زمین و آسمان کے کونے کونے کو روشن کر دیتا ہے یا مراقبہ ستاروں کے جھرمٹ میں چمکتے ہوئے چاند کی مثل ہے- جب صاحبِ  مراقبہ آنکھ کھولتا ہے تو جدھر دیکھتا ہے اُس کی تاب نظر سے اللہ کے سوا ہر چیز کا حجاب جل کر خاکستر ہو جاتا ہے‘‘-[18]
  5. ’’مراقبہ رفاقتِ حق کا وسیلہ اور حقیقتِ حق تک پہنچانے کا ذریعہ ہے- مراقبہ ایک آگ ہے جو ہر قسم کے خطرات اور وساوسِ شیطانی کو اس طرح جلاتی ہے جس طرح آگ خشک ایندھن کو جلاتی ہے‘‘-

گر بگویم شرح ایں احوال را
ہر یکی عبرت خورد عارف خدا

بیت: ”اگر مَیں احوالِ مراقبہ کی شرح کھول کر بیان کر دوں تو ہر آدمی عبرت حاصل کر کے عارفِ خدا بن جائے “-

مراقبہ جوہرِ ایمان ہے کہ یہ متفقِ حضوری اور مقربِ سبحان ہے- مراقبہ نفس کو نفس سے، قلب کو قلب سے، روح کو روح سے، سرّ کو سرّ سے، عیان کو عیان سے اور ذکر کو ذکر سے آزماتا ہے، ایسا ذکر جو لازوال ہو، ایسا فکر جو با وصال ہو-[19]

  1. ’’مراقبہ یَک دِلی کا نام ہے کہ دو دِلی منافقت ہے‘‘-[20]

مراقبہ ذات کیا ہے ؟

’’مراقبہ ذات کیا ہے؟مراقبہ میں فقیر کی دو حالتیں ہوتی ہیں-اگر فقیر اِستغراقِ فنا فی اللہ کی حالت میں ہو تو خوشحال،صاحبِ ذوق اور اشتیاق ہوتا ہے اور اُسے مقامِ ”لِیْ مَعَ اللّٰہِ“ تک رسائی حاصل ہوتی ہے جہاں کسی اور کے پہنچنے کی گنجائش ہی نہیں اور اگر جدائی اور فراق کی حالت میں ہو تو پریشان و ہلاک ہو جاتاہے- حالتِ استغراق میں اُسے اور کوئی چیز نہیں بھاتی -یہ مقام ِ قبض و بسط ہے جہاں دائم وصال ہے نہ دائم فراق- فرمانِ حق تعالیٰ ہے: اور اللہ قبض ( تنگی ) بھی کرتا ہے اور بسط یعنی فراخی بھی کرتا ہے اور لوٹ کے تو اُسی کے پاس ہی جاناہے‘‘-[21]

مراقبہ کی اقسام :

’’چار قسم کا مراقبہ چار مقامات پر ہوتا ہے :

(1) مراقبۂ شریعت :اِس کا تعلق طاعت و عبادت اور مشاہدۂ ناسوت سے ہے - اِس میں صاحبِ مراقبہ مقامِ ناسوت کو دیکھتا ہے، دنیا کو دیکھتا ہے –

(2) مراقبۂ ملکوت: اِس کا تعلق وِردو ظائف اور مشاہدۂ ملکوت سے ہے- اِس میں صاحبِ وردوظائف کو فرشتوں کی سی پاکیزگی تن حاصل ہوتی ہے اور وہ صفاتِ ملائکہ کا حامل ہوتا ہے - اِس میں صاحبِ مراقبہ جو کچھ دیکھتا ہے عالمِ ملکوت کو دیکھتا ہے کہ وہ صفاتِ ملائکہ سے متصف ہوتا ہے-

(3) مراقبۂ جبروت: اِس کا تعلق ذکر اللہ اور مشاہدۂ جبروت سے ہے- اِس میں صاحبِ مراقبہ ذکر اللہ کی حاضرات سے مقامِ جبروت اور مرتبۂ جبرائیلؑ کو دیکھتا ہے-

(4) مراقبۂ لاھُوت: اِس کا تعلق اعمالِ معرفت اور مشاہدۂ لاھُوت سے ہے-اِس میں صاحب مراقبہ جو کچھ دیکھتا ہے مقام لاھُوت کو دیکھتا ہے - اِس کے علاوہ ایک پانچواں مراقبہ اور بھی ہے جس کا تعلق حضوریٔ غرق فنا فی اللہ اور مقامِ ربوبیت سے ہے-اِس میں صاحبِ مراقبہ جو کچھ دیکھتا ہے صرف ذاتِ حق کو دیکھتا ہے-توحیدِ ربوبیتِ ذات کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتا - یہاں وہ ہر روز اللہ تعالیٰ کو ایک نئی شان سے جلوہ گر دیکھتا ہے جیسا کہ فرمان حق تعالیٰ ہے:’’ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ ‘‘(وہ ہر روز ایک نئی شان سے جلوہ گر ہوتا ہے) اور یہی اُس کا مکان ہے ‘‘-[22]

’’مراقبہ کئی طرح کا ہوتا ہے، (1) مراقبۂ عام ، (2) مراقبۂ خاص ، (3) مراقبۂ خاص الخاص ، (4) مراقبۂ اخص، (5) مراقبۂ عشق، (6) مراقبۂ محبت، (7) مراقبۂ  فنا فی اللہ بقا باللہ غرقِ توحید کہ نہ خبر رہے اپنی نہ مخلوق کی اور نہ منزل و مقام کی ، مکمل طور پر غرق فی التوحید - مراقبہ روحِ روحانی (اہلِ قبر کی روح ) کی مثل ہے اور صاحبِ مراقبہ کا وجود قبر کی مثل ہے - صاحبِ مراقبہ کی روح پل بھر میں زمین و آسمان، عرش و کرسی اور لوح و قلم سے بالا تر مقامات کی طیر سیر کرنے کے بعد اُس کے وجود میں اِس طرح لوٹ آتی ہے جس طرح کہ روحانی کی روح قبر میں لوٹتی ہے‘‘-[23]

’’مراقبہ تین قسم کا ہوتا ہے، مبتدی،متوسط اور منتہی - مبتدی مراقبہ یہ ہے کہ صاحبِ مراقبہ ذکرفکر میں اِس قدر غرق ہو جائے کہ اگر کوئی تلوار سے اُس کا سر گردن سے جدا کرنا چاہے تو نہ لرزے نہ جنبش کرے- اشتغال اللہ میں اِس درجے کا استغراق بھی ابتدائی و خام مرتبہ ہے - متوسط مراقبہ یہ ہے کہ صاحبِ مراقبہ جب ذکر فکر سے مشاہدۂ و معرفتِ الٰہی میں غرق ہو تو ایک ہی مراقبہ میں بارہ سال اِس طرح گزار دے کہ اُسے خبر نہ ر ہے موسمِ گرما کی نہ سرما کی اور جب بارہ سال بعد مراقبہ سے باہر آئے تو اُسے ایسا لگے گویا پل بھر کا وقفہ بھی نہیں گزرا- اِس قسم کا مراقبہ بھی عام ہے-منتہی مراقبہ یہ کہ صاحبِ مراقبہ جب ذکر فکر کی بجائے اسمِ اَللہُ کا تصور کرتا ہے تو اسمِ اَللہُ سے اِس قدر نور پھوٹتا ہے کہ اسمِ اَللہُ کا ہر حرف نورِ وحدت کا دریا بن جاتا ہے اور صاحبِ مراقبہ اُس میں غوطہ زن ہو کر ڈوب جاتا ہے- نورِالٰہی میں مستغرق ایسے صاحبِ مراقبہ پر اگر کوئی سو بار بھی تلوار چلائےتو یہ ایسا ہے جیسے کوئی پانی پر پانی مارے کہ صاحب مراقبہ کو کوئی گھاؤ لگتا ہے نہ زخم اور نہ ہی اُس کا خون نکلتا ہے بلکہ وہ اپنے حال پر قائم رہتا ہے یا یہ کہ وہ مراقبہ میں غرق ہوکر نفسانی جسم سے باہر آجا تا ہے اور روحانی جسم کے ساتھ انبیاء و اؤلیاء کی ارواح سے مجلس و ملاقات کرتا ہے اور لوٹ کر نفسانی جسم میں نہیں آتا- اُس کے سارے وجود میں قلبی ذکر جاری ہو جا تا ہے ‘‘-[24]

’’اہلِ مکر کا مراقبہ مردُود ہے یعنی اُن کے مراقبے کی بنیاد خطرات پر مبنی ہوتی ہے اور اہلِ معرفت کا مراقبہ محمود ہے یعنی اُن کے مراقبے کی بنیاد ذاتِ حق کے وصال پر ہوتی ہے‘‘-[25]

مراقبہ کے مراتب :

’’مراقبہ کے سات مراتب ہیں(1) مراقبہَ جاہل، یہ محض دھوکہ وفریب ہے، (2)مراقبہَ اہل بدعت واہل سرود،یہ بھی مکروا ستدراج ہے،(3)مراقبۂ ذکر،اِس میں ذاکر پر مراتبِ ذکر کھلتے ہیں اور اُس پر حال کے دورے پڑتے ہیں،(4)مراقبہ فِکر،اِس میں صاحبِ تفکر پر مراتب ِاحوال کھلتے ہیں-ایسے تفکر کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰة و السلام کا فرمان ہے:”گھڑی بھر کا تفکر دونوں جہان کی عبادت سے افضل ہے“-(5) مراقبۂ کامل،اِس میں صاحبِ مراقبہ کو کمال حاصل ہوتا ہےاور وہ عارف باللہ ہو کر صاحبِ عرفان ہو جاتا ہے-(6)مراقبۂ مکمل، یہ مراقبہ اہلِ روح اللہ معارف کرتے ہیں-(7)مراقبۂ فقر، اُس لا زوال فقر کا مراقبہ ہے جس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰة والسلام کا فرمان ہے:”فقر جب کامل ہوتا ہےتو اللہ ہی اللہ ہوتا ہے“ -یہ مراقبہ وحدانیتِ ذات میں غرق فنا فی اللہ فقیر کرتا ہے‘‘-[26]

صاحب مراقبہ کی فضیلت :

’’اہل مراقبہ اُسے کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی اور چیز کا متلاشی نہ ہو، جمالِ الٰہی اور حُبّ الٰہی میں اِس طرح غرق ہو کہ اُس پر یہ قول صادق آئے:  تیرا گوشت میرا گوشت ، تیرا جسم میرا جسم-عین جمالِ عین میں غرق، عفو ہی عفو، اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس‘‘-[27]

’’مراقبہ طالب کو شاہدِ حقیقی کا مشاہدہ بخشنے والا عمل ہے جو صاحبِ مراقبہ کو باطنی صفائی بخش کر قربِ اِلٰہی اور مجلسِ انبیاء واولیاء کی حضوری سے بہرہ ور کرتا ہے اور اُسے طیرسیر کی راہ سے ایک ہی دم میں اسرارِ اِلٰہی کا مشاہدہ بخش کر زندہ جاوید کر دیتا ہے- وہ آدمی صاحبِ مراقبہ ہر گز نہیں کہ جس کا مراقبہ بلی کے اُس مراقبے کی طرح ہو جو وہ چوہے کو پکڑنے اور مارنے کے لئے کرتی ہے اور چوہے کے اِنتظار میں پریشان رہتی ہے بلکہ کامل مراقبہ وہ ہے جو رقیب کا وجود مٹا دے‘‘-[28]

’’صاحبِ مراقبہ اسمِ اللہ ذات کی برکت سے مجلسِ محمدی (ﷺ) کی حضوری حاصل نہیں کرسکتا تو سمجھ لو کہ وہ بے نصیب ہے- مَیں اِس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں‘‘-[29]

’’صاحبِ نفسِ مطمٔنہ کا چشم بند مراقبہ گویا خونِ جگر پینا ہے-ایسا کامل مراقبہ و مکاشفہ دریائے توحید کا استغراق ہے- جو اِس مراقبہ تک نہیں پہنچا اُس کا نفس تابع و مسلمان نہ ہوا اور نہ ہی وہ مقامِ مومن پر پہنچا- مقامِ مومن معرفتِ الٰہی میں محو ہو کر اپنی ہستی کو مٹانا اور نفس مردود کو فنا کرنا ہے- رسول اللہ (ﷺ)  کا فرمان ہے: ”جس نے اپنے نفس کو فنا سے پہچانا بے شک اُس نے اپنے ربّ کو بقا سے پہچانا“-[30]

’’اگر بارہ ہزار صاحبِ دعوت و صاحبِ و رد وظائف و تسبیح خوان جمع ہو جائیں تو ایک ذاکر کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے- اگر بارہ  ہزار ذاکر جمع ہو جائیں تو ایک صاحبِ مذکور الہام کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے، اگر بارہ ہزار صاحب ِ مذکور الہام جمع ہو جائیں تو ایک صاحبِ استغراقِ مراقبہ کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے ، اگر بارہ ہزار صاحبِ استغراقِ مراقبہ جمع ہو جائیں تو ایک فنا فی اللہ فقیر کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے کہ غرق فی التوحید موحد کو دونوں جہان میں دائمی حیات نصیب ہوتی ہے اور وہ ’’اِذَا تَمَّ الْفَقْرُفَھُوَاللہُ‘‘ کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے - اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس-[31]

مراقبہ کتنی چیزوں سے تعلق رکھتا ہے ؟

’’مراقبہ چار چیزوں سے تعلق رکھتا ہے اور وہ محض چار ”م“ ہیں- پہلی ”م“ مراقبۂ محبت ہے- مراقبۂ محبت سے اسرارِ پروردگارکا مشاہدہ کھلتا ہے- یہ مراقبہ تصورِ اسم اَللہُ سے ہوتا ہے- دوسری ”م“ مراقبۂ معرفت سے توحید یعنی نورِالٰہی  سےنمودار ہوتا ہے یہ مراقبہ تصورِ اسم لِلٰہِ سے ہوتا ہے- تیسری ”م“مراقبۂ معراج الصلوٰۃ ہے جس سے دل میں مشاہدہ کھلتا ہے اور ذوق بخش و فرحت انگیز ذکرجاری ہوتا ہے جس سے تمام وجود ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے اور جسم کے ہربال کی زبان سے اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر جاری ہو جاتا ہے- یہ مراقبہ اسم ”لَهٗ“ کے تصور سے ہوتا ہے- چوتھی ”م“ مراقبۂ مجموعۃ الوجود ہے- مراقبۂ مجموعۃ الوجود سے سر سے قدم تک وجود کے ساتوں اندام نور نوادر کے مشاہدہ میں غرق ہو جاتے ہیں جس سے صاحبِ مراقبہ اپنے نفس وشیطان پر غالب وقادر ہوجاتا ہے اور صاحبِ مراقبہ جب تک مجلسِ انبیاء واولیاء میں ہر ایک سے ملاقات نہیں کرلیتا مراقبہ سے باہر نہیں آتا- اگرچہ باطن میں وہ ستر سال مراقبہ میں رہتا ہے مگر ظاہر میں لوگوں کے نزدیک اُس کا آنکھیں بند رکھنا محض پلک جھپکنے کی دیر کے لئے ہوتا ہے-[32]

صاحب مراقبہ کے دشمن:

’’چار چیزیں صاحبِ مراقبہ کی دشمن ہوتی ہیں، ایک کشف، دوسری کرامات، تیسری رجوعاتِ خلق اور چوتھی طیر سیرِ طبقات- جو آدمی اِن چاروں سے جدائی اختیار کر لیتا ہے وہ مراقبۂ تصورِ اسمِ اللہ ذات میں غرق ہوکر فنا فی اللہ ہوجا تا ہے‘‘-[33]

تصور اسم اللّه ذات کا مراقبہ :

’’مراقبہ کا تعلق قربتِ موت سے ہے- جب کوئی توجہ سے تصورِ اسم اللہ ذات کا مراقبہ کرتا ہے تو اُس پر احوالِ موت کا مشاہدہ کھل جاتا ہے جس میں وہ احوالِ جان کنی کا معائنہ کرتا ہے، حقیقتِ قبر سے واقف ہوتا ہے، منکر و نکیر کے سوال و جواب سے گزرتا ہے، حساب گاہِ روزِ قیامت کو دیکھتا ہے، پل صراط سے بہ سلامت گزر کر بہشت میں داخل ہوتا ہے، حور و قصور کا تماشا دیکھتا ہے اور دیدارِ انوارِ پروردگار سے مشرف ہوتا ہے‘‘-[34]

’’جب کوئی صاحبِ غرق طالب طریقِ محمدی (ﷺ) سے تصورِ اسمِ اللہ ذات کا اِنتہائی خاص الخاص مراقبہ کرتا ہے اور مردے کی طرح جان سے بے جان ہو جاتا ہے تو مراقبہ اُسے پل بھر میں مراتبِ معراج پر پہنچا دیتا ہے کہ یہ مراقبہ اُن لائقِ دیدار مردانِ خدا کو نصیب ہوتا ہے جو مردار ناسوت سے تارک فارغ ہوتے ہیں اور تصورِ اسمِ اللہ ذات کے ایک ہی دم سے کرمِ الٰہی کی ستر ہزار سالہ راہ کو طے کرلیتے ہیں ‘‘-[35]

’’صاحبِ مراقبہ اسمِ اللہ ذات کی برکت سے مجلسِ محمدی (ﷺ) کی حضوری حاصل نہیں کرسکتا تو سمجھ لو کہ وہ بے نصیب ہے- مَیں اِس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں‘‘-[36]

کس کو مراقبہ کی حاجت نہیں رہتی :

’’اُس آدمی کو مراقبے کی کوئی حاجت نہیں جسے ظاہر باطن میں اللہ تعالیٰ کا قرب و معیت نصیب ہو اور وہ ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر رہتا ہو‘‘-[37]

’’کامل قادری کو ذکر فکر، وردوظائف اور مراقبہ و مکاشفہ کی کیا حاجت؟ کیونکہ قادری با عیاں ہو کر پورے یقین و اعتبار کے ساتھ ساکنِ لاھُوت لا مکان ہو جاتا ہے‘‘-[38]

’’مراقبہ سے کیا کام ؟ سر سے قدم تک مست فقیر کے وجود کے ساتوں اندام نور ہی نور ہوتے ہیں اور اُس کی ہر بات بارگاہِ الٰہی کا سوال جواب ہوتا ہے –

 بیت:’’ مَیں محرمِ راز مست اور اہلِ کرم عارف ہوں اور مست بے غم ہوتا ہے‘‘-[39]

طالب کا مراقبہ میں مختلف احوال کا مشاہدہ کرنا :

’’طالب اللہ خواب ومراقبہ میں حیوانات دیکھتا ہے تو سمجھ لیجئے کہ اُسے مراتبِ دنیا نصیب ہیں کہ حیوانات کا تعلق مطلق ناسوت سے ہے- اگر طالب خواب یا مراقبہ میں باغ و بہار اور حورو قصور دیکھتا ہے تو جان لیجئے کہ طالب مجاہدۂ عاقبت میں مشغول ہے اِس لئے اُس کے نصیب میں عقبٰی ہے اور اگر طالب خواب یا مراقبہ میں انبیاء واؤلیاء کا ہم مجلس ہو کر اُن سے ملاقات کرتا ہے اور فقراء کی صحبت میں بیٹھ کر ذکرِ اَللہ میں مشغول رہتا ہے تو جان لیجئے کہ وہ طالبِ مولیٰ ہے اور اُس کے نصیب میں طلبِ مولیٰ ہے- اُسے دنیا و عقبٰی سے کوئی غرض نہیں کہ اُس کے نزدیک  اللہ بس ماسوٰی اللہ ہوس ہے-[40]

صاحب مراقبہ کو کیسے بیٹھنا چاہیئے ؟

’’سب سے پہلے صاحبِ مراقبہ کو چاہیے کہ وہ مربعہ صورت میں بیٹھے اور سر کو زانو پر لے جائے تاکہ وہ ایک مردہ معلوم ہو یا وہ آغازِ مراقبہ میں ماتم زدگان کی طرح بیٹھے اور اپنے وجود کے تمام اعضاء کو قید کر کے اطمینان کے ساتھ ذکر فکرِ مولیٰ کی طرف متوجہ ہو جائے تاکہ مراقبہ اُسے ملاقاتِ انبیاء و اولیاء کے اعلیٰ مراتب پر لے جائے- اِس مراقبہ سے اعلیٰ مرتبہ اور کوئی نہیں- مراقبہ مردانِ خدا کا مرتبہ ہے- نیز مراقبہ دو قسم کا ہے- بعض آدمی دل کی آنکھ سے مراقبہ کرتے ہیں اور بعض آدمی آنکھوں سے مراقبہ کرتے ہیں چنانچہ وہ خواب میں نماز پڑھتے ہیں- یہ مراقبہ لائقِ دیدار ہے- مراقبہ وہ نہیں کہ جس میں صاحبِ مراقبہ شیطانی وسوسوں اور خناس و خرطوم میں گھر کر خوار رہتا ہے‘‘-[41]

’’مراقبہ تو اِس طرح کرنا چاہیے کہ جیسے غواص سمندر میں غوطہ زنی کرتاہے اور ہر بار سمندر سے موتی نکال لاتاہے‘‘-[42]

مراقبہ میں اذان دینا یا امامت کرنا:

’’اگر کوئی شخص خواب یا مراقبہ میں اذان دیتا ہے یا امامت کرتاہے یا تلاوتِ قرآن کرتاہے یا ذکرِ اَللّٰہُ کرتا ہے یا وضو و غسل کرتا ہے یا حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی مجلس میں حاضر ہوتا ہے تو یہ اِس کی علامت ہے کہ اُس کا نفس و قلب و روح ایک ہو چکے ہیں اور وہ ہدایتِ الٰہیہ سے مشرف ہو چکا ہے‘‘-[43]

مراقبہ میں رؤیت باری تعالیٰ:

’’امامِ اعظم (رح) نے خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور اہل شرح نے اِسے جائز قرار دیا اور اہلِ ربوبیت کا اللہ تعالیٰ کو اُس مراقبہ میں دیکھنا روا ہے کہ جس میں وہ خود سے بےخود ہو جائیں اور یہ اِس آیتِ کریمہ کے عین مطابق ہے کہ:’’اپنے ربّ کی یاد میں اِس قدر غرق ہو جا کے تجھے اپنی بھی خبر نہ رہے ‘‘- ایک اور آیتِ کریمہ میں فرمان حق تعالیٰ ہے: ’’جو یہاں (دید ِ حق سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا‘‘-[44]

’’مراقبہ کا تعلق قربتِ موت سے ہے- جب کوئی توجہ سے تصورِ اسم اللہ ذات کا مراقبہ کرتا ہے تو اُس پر احوالِ موت کا مشاہدہ کھل جاتا ہے جس میں وہ احوالِ جان کنی کا معائنہ کرتا ہے، حقیقتِ قبر سے واقف ہوتا ہے، منکر و نکیر کے سوال و جواب سے گزرتا ہے، حساب گاہِ روزِ قیامت کو دیکھتا ہے، پل صراط سے بہ سلامت گزر کر بہشت میں داخل ہوتا ہے، حور و قصور کا تماشا دیکھتا ہے اور دیدارِ انوارِ پروردگار سے مشرف ہوتا ہے‘‘-[45]

خلاصہ کلام:

اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ مراقبہ طالب و سالک کیلئے ایک ایسی راہ ہے جو اسے بارگاہِ الٰہی کی طرف گامزن کرتی ہے- اگرچہ مراقبہ کئی طریقوں سے ہوتا ہے لیکن اس کا مقصد محض ذاتِ الٰہی کا وصال ہونا چاہئے- تصوف کی ان اصطلاحات کو سمجھ کر صحیح معنوں میں تعلیمات تصوف کا ادراک کیا جاسکتا ہے-علاوہ ازیں وہ تمام باطل نظریات جنہیں تصوف سے موسوم کیا جاتا ہے ان کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے-

٭٭٭



[1](الاحزاب: 52)

[2](لسان العرب، ج:1، ص:426)

[3]https://www.rekhtadictionary.com/meaning-of-muraaqaba?lang=ur

[4](مفتاح الأفكار للتأهب لدار القرار،ج:1، ص:153)

[5](التعریفات للجرجانی، ص: 466)

[6](موسوعة المصطلحات الإسلامية، ص: 245)

[7](صحیح بخاری، کتاب الایمان)

[8](الرسالۃ القشیریۃ، باب المراقبۃ، ص:225)

[9](ایضاً، ص:226)

[10](ایضاً، ص:404)

[11](ایضاً)

[12](حقیقت المراقبہ از امام غزالی، مترجم، مولانا محمد شریف نقشبندی، ص 25)

[13](ایضاً، ص:28-32)

[14](ایضاً، ص:37)

[15](شمس العارفین، ص: 139)

[16]( نورالہدیٰ، ص: 491)

[17](عین الفقر، ص: 209)

[18]( عین الفقر، ص: 211)

[19]( عقل بیدار، ص: 144-145)

[20]( عین الفقر،  ص :235)

[21]( عین الفقر ، ص:235)

[22]( عین الفقر ،ص :214- 215)

[23](عین الفقر ،ص: 209)

[24](محک الفقر، ص: 525)

[25](عقل بیدار، ص:291)

[26]( عین الفقر، ص: 221)

[27]( عین الفقر، ص: 211)

[28](محک الفقر ،ص :127)

[29]( محک الفقر، ص :103)

[30]( کلید التوحید خورد ،ص: 22)

[31](عین الفقر، ص: 351)

[32]( کلید توحید خورد، ص: 66)

[33]( محک الفقر، ص: 527)

[34](عقل بیدار، ص: 143)

[35](محک الفقر ،ص: 55)

[36](محک الفقر ،ص: 103)

[37]( محک الفقر، ص: 127)

[38]( نورالہدیٰ، ص: 481)

[39](نورالھدٰی، ص: 253)

[40](محک الفقر ،ص: 571)

[41](محک الفقر، ص: 423)

[42](عین الفقر، ص: 217)

[43]( عین الفقر، ص: 223)

[44]( عین الفقر، ص: 215)

[45](عقل بیدار، ص: 143)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر