شمس العارفین قسط نمبر 26

شمس العارفین قسط نمبر 26

شمس العارفین قسط نمبر 26

مصنف: سیدامیرخان نیازی فروری 2023

مقامِ فنا فی الشیخ یہ ہے کہ جونہی طالب اللہ صورتِ شیخ کا تصور کرتاہے، صورتِ شیخ اُسی وقت حاضر ہوجاتی ہے اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر معرفت ِالٰہی یا مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی حضوری سے مشرف کردیتی ہے-ایسے شیخ کو ’’یُحْیِیْ وَ یُمِیْتْ‘‘[1]  ۱ ؎کہتے ہیں- اور مقامِ فنا فی اسمِ مُحَمَّدٌ (ﷺ) یہ ہے کہ جب طالب اللہ اسمِ مُحَمَّدٌ (ﷺ) کو اپنے تصور میں لاتاہے تو بیشک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روح مبارک بمعہ ارواحِ اصحابِ کبار (رض) اپنے لطف و کرم کے ساتھ حاضر ہوجاتی ہے اور صاحب ِ تصور سے فرماتی ہے: ’’ میرا ہاتھ پکڑ لو‘‘-حضور علیہ ا لصلوٰۃ والسلام کا ہاتھ پکڑتے ہی صاحب ِتصور کی چشمِ دل کھل جاتی ہے اور معرفت ِالٰہی کے نور سے روشن ہوجاتی ہے اور طالب اللہ لائق ِارشاد ہوجاتاہے اور حضور  علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی زبان مبارک سے اُسے حکم فرماتے ہیں کہ اب تُو خلق ِخدا کی امداد کیا کر- پس وہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم ہی سے طالبوں کو دست بیعت کرتاہے اور اُنہیں تلقین و تعلیم سے سنوارتاہے-فرمانِ حق تعالیٰ ہے : ’’ اُن کے ہا تھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے‘‘-مجھے تعجب ہوتاہے اُن لوگوں پر کہ جنہوں نے باطن میں نورِ معرفت ِالٰہی کی لذت نہیں چکھی اور’’ فَفِرُّوْآاِلَی اللّٰہِ‘‘[2] کو ’’فَفِرُّوآ مِنَ اللّٰہِ‘‘[3]سمجھ بیٹھے-مقامِ فنا فی اللہ یہ ہے کہ جب کوئی اسمِ اَللّٰہُ  کو اپنے تصور میں لاتا ہے تو تاثیرِ ا سمِ اَللّٰہُ اُسے معرفتِ  اِلَّا اللّٰہُ  بخش دیتی ہے اور ماسویٰ اللہ کا ہر نقش اُس کے دل سے مٹا دیتی ہے - جو شخص اِس مقام پر پہنچ کر دریائے توحید سے معرفت ِ الٰہی کا جام پی لیتاہے وہ سر سے قدم تک لباسِ شریعت پہن لیتاہے اور امر معروف ِشریعت کی اشاعت میں کوشاں رہتاہے اور معرفت ِالٰہی کے جو جو اسرار اُس پر کھلتے جاتے ہیں اُن کا جاہلوں کے سامنے نہ تواظہار کرتاہے اور نہ ہی ڈھنڈورا پیٹ کراُن سے خود فروشی کرتاہے-

فرد-:’’ جہاں تک ہوسکے خود کو نگاہِ خلق سے پوشیدہ رکھ کہ عارف خود فروشی کو ہر گز پسند نہیں کرتے‘‘ –

بابِ پنجم:بیانِ مجلس ِمحمدی () 

سالک کا مجلس ِمحمدی (ﷺ) میں داخلہ اِس طرح ہے کہ جب طالب اللہ تصور سے اسمِ اللہ ذات کا نقش دل پر جماتاہے اور اسمِ اللہ ذات اُس کے دل میں سکون و قرار پکڑ لیتاہے اور باطن میں اسمِ اللہ ذات صحیح طور پر دکھائی دینے لگتاہے تو اُس کے دل میں نور ِ معرفت ِالٰہی کی تجلیات کا ظہور اِس طرح ہوتاہے جس طرح کہ صبح ِصادق کے وقت نورِ آفتاب کا ظہور ہوتاہے اور دل سے شب ِکاذبِ نفسانی و شیطانی کی ظلمت و سیاہی و تاریکی مٹ جاتی ہے- اب مرشد کو چاہیے کہ وہ طالب اللہ سے کہے کہ تفکر و تصور سے دل کے گرد اسمِ اَللّٰہُ کو دیکھے اور بتلائے کہ اُسے وہاں کیا نظر آتا ہے؟ اگر طالب اللہ کو دل کے ارد گرد اسمِ اللہ ذات نظر آتاہے اور وہ اُس کے نظارے میں غرق ہوکر باطن میں حضور مذکور کے شعور سے بیگانہ ہوجاتاہے تو سمجھ لیں کہ وہ معرفت ِالٰہی کے نور میں غرق ہوچکا ہے اور اگر وہ باطن میں باشعور رہتاہے اور بتلاتاہے کہ اُسے دل کے اردگرد ایک بے حد وسیع میدان نظر آتاہے اور ساتھ ہی وہ دل اور اسمِ اللہ ذات کی طرف متوجہ ہوجاتاہے اور جب وہ مراقبہ سے باہر آتاہے تو بتلاتاہے کہ اُس میدان میں روضے کی مثل ایک گنبد ہے جس کے دروازے پر کلمہ طیب’’ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللّٰہُ   مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  ‘‘ لکھا ہواہے- جب اُس کا دروازہ کھلتاہے اور طالب اللہ روضے کے اندر داخل ہوتاہے تو اُسے ایک خاص مجلس دکھائی دیتی ہے جس میں قرآن و حدیث کا درس ہوتاہے- معلوم ہوا کہ وہ مجلس ِمحمدی (ﷺ)  ہے- مجلس ِمحمدی (ﷺ)سات مقامات پر منعقد ہوتی ہے- اوّل مقامِ ازل، دوم مقامِ ابد، سوم مقامِ دنیا اور دنیا میں بھی دو مقامات پر یہ مجلس قائم ہوتی ہے، ایک حرمِ مدینہ میں روضہ مبارک پر اور دوسری حرمِ کعبۃ اللہ میں اور دو مقامات عرشِ اکبر سے اوپر ہیں جہاں یہ مجلس قائم ہوتی ہے اور ایک مجلس دریائے ژرف پر قائم ہوتی ہے - دریائے ژرف مطلق توحید کا دریاہے جس میں معرفت ِالٰہی کابے مثل و بے مثال نور موجزن رہتاہے -اِس کے علاوہ ایک مجلس لامکان میں بھی قائم ہوتی ہے جسے بیان نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی چیز اُس کی مثل نہیں- اِن تمام مجالس میں کلمہ طیب  ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘  کا ذکر جاری رہتاہے-

صاحب ِ تصور طالب جس مجلس میں بھی حاضر ہونا چاہتاہے مراقبہ و ذکر اللہ اُسے وہاں پہنچا دیتا ہے، باطن میں وہ مجلس ِمحمدی (ﷺ) میں حاضر ہوتاہے لیکن ظاہر میں یوں لگتاہے گویا کہ وہ ایک بے جان مردہ ہے- اِس طریق سے مجلس ِمحمدی (ﷺ)میں حاضر ہونے کا مرتبہ بھی عام اورمبتدی طالب کا مرتبہ ہے لیکن جب مراقبہ میں ظاہر باطن ایک ہوجاتاہے تو طالب اللہ منتہی و کامل عارف باللہ بن جاتا ہے -

 جان لے کہ کاملین کے لئے ہر مقام کی مجلس ِمحمدی (ﷺ) آفتاب کی مثل ہے اور صاحب ِحضور طالب ذرہ کی مثل ہے جو آفتاب سے کبھی جدا نہیں ہوتابلکہ وہ نورِ آفتا ب سے منوررہتاہے-الغرض ! ورد وظائف اور اعمالِ ظاہر سے طالب اللہ باطن میں کبھی بھی مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی حضوری تک نہیں پہنچ سکتا خواہ عمر بھر ریاضت کرتا رہے کہ راہ ِباطن صرف صاحب ِباطن مرشد ِکامل ہی سے حاصل ہوتی ہے ،وہ پل بھر میں مجلس ِمحمدی (ﷺ) میں پہنچا دیتاہے-جان لے کہ اُمت پیروکار کو کہتے ہیں اور پیروکار وہ ہے جو قدم بقدم حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے نقش ِقدم پر چل کر خود کو اُن کی مجلس میں پہنچائے- مجھے تعجب ہوتاہے اُن لوگوں پر جو راہِ حضوری نہیں جانتے لیکن نفس پرستی، خود نمائی اور کبر وہوا کے باعث عارفانِ باللہ سے طلب بھی نہیں کرتے- بھلا جو شخص نگاہِ نبوی (ﷺ) میں منظور و حضور ہی نہیں وہ مومن، مسلمان ، فقیر، درویش، عالم،فقیہہ،پیروکار اور اُمتی کیسے ہوسکتا ہے؟

جان لے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ کی حضوری ہدایت کی جڑ ہے اور یہ ہدایت بدایت (ابتدا)میں ہے-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:’’ انتہا ابتدا کی طرف لوٹ جانے کا نام ہے‘‘-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:’’ جس نے مجھے دیکھا بے شک اُس نے مجھے ہی دیکھا کہ شیطان میری مثل نہیں بن سکتا‘‘-

جان لے کہ باطن میں ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر رہنے والا طالب اگر کسی دینی یا دنیوی کا م کے لئے التماس کرتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام اُس کی درخواست منظور فرما لیتے ہیں اور آپ اور آپ کے اصحاب اُس کے لئے دعائے خیر بھی فرمادیتے ہیں لیکن اِس کے باوجود وہ کام نہیں ہوتا تو اِس کی وجہ کیاہے؟اُس طالب کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ابھی مرتبۂ کمال کو نہیں پہنچا،ابھی وہ ترقی کر رہاہے اور  طلب کے مشکل مرحلے میں داخل ہے اِس لئے باطن میں اُسے اُس کی درخواست کا نعم البدل عطا کر دیا جاتا ہے جو اُس کے لئے باعث ِفرحت ہوتاہے- ترقی ٔقرب کے اِس مرتبے پر اُسے مبارک باد ہو- اگر طالب جاہل ہے یا جیفۂ دنیا کا طالب ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس ِخاص میں طلب ِدنیا کا سوال کردے تو اُس نالائق کو اُس مجلس ِخاص سے نکال دیا جاتا ہے یا اُس کا مرتبۂ اعلیٰ سلب کرلیا جاتاہے-

(جاری ہے)



[1]دل کو زندہ کرنے والا اور نفس کو مارنے والا

[2]دوڑو اللہ کی طرف

[3]بھاگو اللہ سے دور-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر