طریقِ تصوف میں لطائف ستہ کا بیان

طریقِ تصوف میں لطائف ستہ کا بیان

طریقِ تصوف میں لطائف ستہ کا بیان

مصنف: لئیق احمد جون 2022

صوفیائے کرام نے انسانی وجود میں چند ایسے مقامات (لطائف) کی نشاندہی فرمائی ہے جو حضرتِ انسان کی بصیرت و معرفت کی معراج میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور انسان درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے مالکِ حقیقی کے قرب و وصال میں مزید ترقی کرتا چلا جاتا ہے- ان لطائف کو سمجھنے سے قبل انسان کے تصور کو واضح طور پر سمجھنا ازحد ضروری ہے- انسان دو جسموں کا مجموعہ ہے، ایک مادی سفلی اور کثیف جسم یعنی ظاہر اور دوسرا روحانی علوی لطیف جسم یعنی باطن- باطن سے مراد روح ہے جو بارگاہِ الٰہی سے ’’اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ‘‘ (دنیا)  میں آئی ہے -انسان کے ظاہری و باطنی وجود کی مختلف طبیعتیں اور اس کے وجود میں کئی اعضاء ہیں مثلاً جگر، قلب، عقل وغیرہ جو انسان کی طبیعت پر اثر انداز ہوتے ہیں- محبت، اخوت، عزم، جزم، دلیری، بزدلی، بخل، سخاوت، ندامت، عجز و انکساری جیسے جذبات انسان کے دل کی طرف منسوب ہوتے ہیں- یادداشت انسان کے دماغ (عقل) کی طرف منسوب کی جاتی ہےجبکہ نفس(قوتِ بہیمیہ) کو جگر کی طرف منسوب کیا جاتا ہے- نفس،قلب، روح  اور عقل وغیرہ وہ مقامات ہیں جن کی صلاحیتوں کو مصفیٰ کرکے انہیں اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کا پیش خیمہ بنایا جاسکتا ہے- انہیں ہی لطائف کہا جاتا ہے-

یوں تو یہ لطائف تعداد میں نو ہیں البتہ اکثر اصفیاءواتقیاء نے چھ لطائف کو زیادہ بیان کیا ہے، اس نسبت سے انہیں ”لطائفِ ستہ“ بھی کہا جاتا ہے- جیّد صوفیائے کرام کی تصنیفات میں ان لطائف کو مہذب و آراستہ کرنے کےطور طریقوں پر تفصیلی بحث ملتی ہے- لطائفِ ستہ یہ ہیں:

’’نفسی، قلبی، روحی، سرّی، خفی، اخفیٰ‘‘-

جب انسان کا نفس تابع ہوجائے تو خواہشات زیر ہو جاتی ہیں اور انسان معصیت سے خود کو محفوظ کرنے لگتا ہے-جب قلب کا لطیفہ مہذب ہو جاتا ہے تو پورا وجود درست ہو جاتا ہے، انسان کے احساسات و جذبات مشیتِ ایزدی کے تابع ہوجاتے ہیں- اسی طرح نیک و صالح ارواح سے تعلقات لطیفہ روح کے مہذب ہونے سے حاصل ہوتے ہیں- جبکہ اسرارِ الٰہی کےانکشافات لطیفہ سر کی تہذیب و تربیت سے حاصل ہوتے ہیں- جب نفس و قلب و روح و سر مہذب ہو جائیں تو انسان روحِ علوی کی طرف پیش قدمی کرتا ہےاور پھر یہ تسلسل انسان کو ذاتِ حق تک لے جاتا ہے-روحِ علوی کا تصرف لطیفہ خفی میں آجاتا ہے اور ذاتِ حق تک رسائی لطیفہ اخفیٰ کی تہذیب و تربیت کے باعث ممکن ہوتی ہے-

ان لطائف کی تہذیب و تربیت تین طریقوں سے ممکن ہے:

اول: ذکر اسم اللہ ذات و ذکر کلمہ پاک

دوم: مراقبہ، استغراق، مشاہدہ و نقشِ وجودیہ وغیرہا

سوم: توجۂ مرشد کامل –

ان لطائف کے مصفیٰ و مجلیٰ کرنے کا واحد مقصد ذاتِ حق تک رسائی ہے اور انسان کا مقصدِ حیات بھی یہی ہے- جب زمین میں بیج لگایا جاتا ہے تو انسان صرف اسے پانی دیتا ہے- اس بیج کا پھٹنا، اس میں سے پودا نکلنا، پھل آنا سب مشیتِ ایزدی کے تحت ہوتا ہے- بعینہٖ انسان کو بھی چائیے کہ وہ بیج لگائے اور ذاتِ باری تعالیٰ سے پُر امید رہے-عارفوں کے سلطان حضرت سلطان باھو قدس سرہ العزیز نے اسی بات کو اپنے پنجابی کلام میں یوں بیان فرمایا ہے:

الف: اللہ چنبے دی بوٹی میرے من وچ مرشد لائی ھو
نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہر جائی ھو
اندر بوٹی مشک مچایا جاں پھلاں تے آئی ھو
جیوے مرشد کامل باھو جیں ایہہ بوٹی لائی ھو

مزید لطائف کی تفصیل کچھ یوں ہے:

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒکے ہاں لطائف ستہ کا بیان:

برصغیر پاک و ہند کے معروف صوفی بزرگ حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے لطائفِ ستّہ کے بیان میں باقاعدہ ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے- آپؒ کا تصنیف کردہ یہ رسالہ”الطاف القدس فی معرفۃلطائف النفس“ کے نام سے موسوم ہے-آپ ؒ نے اس میں لطائفِ قدسیہ کی تہذیب اور تربیت پر جامع بحث فرمائی ہے-علمِ لطائف کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے آپ ؒ  فرماتے ہیں:

’’صوفیاء میں سے جو لوگ مدتوں راہِ تصوف کی کوچہ گردی کے باوجود لطائف کا علم حاصل نہیں کر پائے لطائف سے آشنا حضرات کے مقابلے میں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک ماہر طبیب علمِ تشریح سے واقف مختلف امراض اور ان کے اسباب و علامات اور ان کے علاج کا اچھی طرح علم رکھنے والے اور اس کے ساتھ سلف کے مجرب اصولوں کے ماہر کے مقابلے میں معمولی سمجھ بوجھ کی بوڑھی عورتیں جو محض اٹکل پچّو سے دوا دارو کرتی ہیں، یا پھر لطائف کا علم جاننے والوں کی مثال اس راہبر کی ہے جس نے طویل عمر بیابانوں میں گزار کے راستے کے تمام نشیب و فراز سے پوری طرح آگاہی حاصل کر رکھی ہے اور وہ جاری راستے اور صحرا میں بخوبی تمیز کر سکتا ہے- ظاہر ہے کہ یہ ان لوگوں کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں جو محض تفریح کی خاطر یا کسی مصیبت میں مبتلا ہو کر اس پریشانی میں پھنس گئے، کوئی مقصد پیشِ نظر نہ تھا اور نہ ہی راستے سے آگاہی، کچھ تو ان میں سے ہلاک ہوگئے ہوں اور کچھ منزل مقصود تک پہنچ گئے ہوں‘‘- [1]

آپؒکے مطابق مقامِ نفس جگر ، مقامِ قلب دل، مقام ِ روح سینہ اور مقامِ سرّ دماغ ہے-نفس و قلب و روح و سرّ کا آپسی ربط و رجحان اور درجات و مقامات کے تقرب کے باعث حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے رسالے میں متعدد مقامات پر ان چاروں لطائف کا ذکر ساتھ ساتھ کیا ہے- لطائف کےمقامات کے بارے میں آپؒ فرماتے ہیں:

’’الغرض! یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ نفس کا شعبہ جگر میں اقامت پذیر ہے، قلب کا شعبہ اس گوشت کے لوتھڑے(دل) میں اور عقل کا شعبہ دماغ میں‘‘-[2]

نفسی:

شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے وجود میں دو طرح کی قوتیں رکھی ہیں ایک ناسوتی (قوتِ بہیمیہ) ہے جس کے باعث انسان حیوانِ ناطق کی صفات میں مدغم ہے جبکہ دوسری ملَکی ہے جو انسان کو فرشتہ کی طرح عابد بناتی ہے- نفسی (لطیفہ نفس) سے آپ ؒ یہ مراد لیتے ہیں:

’’تہذیبِ نفس سے مراد یہ ہے کہ قوتِ ملکیہ کے ذریعے قوتِ ناسوتیہ میں تصرف کیا جائے، قوتِ ملکیہ کے احکام ظاہر ہوں اور قوتِ بہیمیہ کے آثار کم ہوجائیں یا پردۂ خفا میں چلے جائیں‘‘-[3]

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’نفس کی اصل فطرت تقاضائے خواہشات ہے اس لئے ضروری ہے کہ توبہ و زُہد سے اس کی تربیت کی جائے‘‘-[4]

قلبی:

 احادیثِ مبارکہ میں بہ کثرت قلبِ مومن کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے- جب بندے میں ہوائے نفس ختم ہو جاتی ہے اور خود احتسابی و تزکیہ سے وجود نفسانی خواہشات کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے اور شریعت کے اعمال و افعال کے لباسِ مطہرہ کو زیب تن کرلیا جاتا ہے تب گناہ و معصیت کی کدورت سے قلب کو پاکی نصیب ہوتی ہے-تہذیبِ نفس سے قلب میں اوصافِ حمیدہ پنپتے ہیں اور وجود پر اُن کا اطلاق ظاہر ہوتا ہے- آپ ؒفرماتے ہیں:

’’قلب کے اصلی مقامات صدق، صبر، توکل، تسلیم، تقویٰ، محبت شعائر اللہ اور سماحت ہیں، یہی وجہ ہے کہ صوفیاء نے ان مقامات کے بارے میں طویل گفتگو کی ہے‘‘- [5]

جب انسان کے باطن میں مقامِ قلب عیاں ہوجاتا ہے تو محبت جنم لیتی ہے- اسی طرف اشارہ فرماتے ہوئے شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ بندے کے وجود کے جوارح (اعضاء) میں خشوع، گفتگو میں آداب اور محبوب (اللہ سبحانہٗ تعالیٰ) کے ساتھ نسبت رکھنے والے تمام لوگوں کی تعظیم اور تکریم کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے-آپ ؒ مزید ارشاد فرماتے ہیں:

’’دل کارِ محبت سنبھالے اور محبوبِ حقیقی کے ساتھ پیوستہ و وابستہ ہوجائے‘‘-[6]

روحی:

حضرت شاہ ولی اللہؒ نے روح کے انبساط کو محبت کے ساتھ قید کیا ہے- آپ فرماتے ہیں کہ روح پر ایک خاص نور کا فیضان ہوتا ہے جس سے اس میں محبتِ خاصہ جنم لیتی ہے اور یہی وہ مقام ہے جس سے سالک قربتِ الٰہی میں مزید آگے کی جانب گامزن ہوتا ہے- روح مالک حقیقی کی فریفتہ ہے اور اسے محبت کے سوا کوئی کام نہیں رہتا- جیسا کہ آپ ؒمحبت خاصہ کے بارے فرماتے ہیں:

’’پس محبتِ خاصہ تجلی اعظم کے ساتھ پیوستگی، نزدیکی ،ہم آغوشی اور شعلہ ہائے الفت کی انگیخت اور ایسے دوسرے امور ہیں‘‘-[7]

سرّی:

جب روح اپنی صفات میں تکمیل پاجاتی ہے تو اشتیاق کے مارے اگلا مرحلہ سرّی شروع ہوجاتا ہے جو حق سبحانہٗ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کا عین بعین مشاہدہ ہے- آپ ؒ  فرماتے ہیں:

’’ہمارے نزدیک سرّسے وہی عقل مراد ہے جو زمین کی طرف جھکاؤ چھوڑ کر علوی احکام کا اثر قبول کرچکی ہےاور اسے تجلیٔ اعظم کا مشاہدہ نصیب ہے‘‘-[8]

آپ ؒنے لطیفہ ٔ سرّ کی جو مشق بیان فرمائی ہے ان میں ذکر بالجہر، حبسِ نفس، طہارتِ دائمی،تلاوت و اوراد سے منور ہونا، صفاتِ الٰہی کا مراقبہ اور اسمائے الٰہی میں تدبر و تفکر شامل ہیں- اس مقام پر سالک کا ظاہر باطن نور کی دولت سے مزین ہوجاتا ہے- جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:

’’روح سے ایک عجیب قسم کا نور نازل ہوتا ہے جو سالک کے ظاہر و باطن کو گھیر لیتا ہے،یہ وہ عجیب کیمیا ہے جس سے عوام آشنا نہیں ، اور وہ نادر دولت ہے جس کی طرف اس راہ کے راہیوں کے علاوہ کسی کی راہ نہیں‘‘-[9]

قلب و روح و عقل و سرّ کے عوامل کے بارے میں شاہ صاحب ؒبیان فرماتے ہیں:

’’روح قلب سے کہیں زیادہ لطیف ہے اور سرّ عقل سے زیادہ منور ہے قلب کا کام وجد،روح کا کام محبت،عقل کا کام یقین اور سرّ کا کا م مشاہدہ ہے‘‘- [10]

خفی:

حضرت شاہ ولی اللہ ؒنے لطائفِ نفس و قلب و روح و سرّ کو ظاہری لطائف سے تعبیر فرمایا ہے اور لطائفِ حقیقی خفی، نورالقدس، اخفیٰ اور انا کو فرمایا ہے-سالک جب رازِ حق سے آشنا ہوجاتا ہے تو اس کی روح لطیف ہوجاتی ہے، اس کے وجود میں لطیفہ خفیہ ترقی پاتا ہے اور روح القدس کے جلوے عیاں ہوجاتے ہیں- یہ مقامِ خفی ہے، جس کے بارے میں آپؒ فرماتے ہیں:

’’اس پر اوپر سے کوئی معرفت و الہام متشرح نہیں ہوتا، بلکہ جوش ِ قضا و قدراور علوم و الہامات سب اپنے سے اپنے اندر ملاحظہ کرتا ہے‘‘-[11]

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

’’جو کچھ ان لطائف خفیہ پر واقع ہوتا ہے، وہ مخفی اور مستور ہوتا ہے، عقل و وجدان سے اسے محسوس نہیں کیا جاسکتا، ان کا حاسّہ الگ ہے جو انتہائی لطیف اور نازک ہے‘‘- [12]

مقامِ خفی عقل کی تعبیر سے قاصر اور زبان  اس کے بیان کرنے سے قاصر ہے - آپ ؒاس مقام کو اس طرح تشبیہ دیتے ہیں کہ ماقبل ظل اور سایہ تھے اور یہ اس کا اصل ہے- خفی مقامِ فنا و بقا ہے،جہاں حق غالب آجاتا ہے اور حضرت انسان اپنے اصل گھر کی طرف رجوع کرجاتا ہے- آپ ؒ فرماتے ہیں:

’’وجود روحانی کی فنا اور لاہوت کی بقا سے مراد مخلوق کی ہستی پر غلبہ حق ہے اور معنوی طور پراس کا مقصد یہ ہےکہ لطیفہ خفیہ تمام لطائف پر غالب ہوجائے‘‘-[13]

اخفیٰ:

لطائف و مقامات کی انتہائی منزل اخفیٰ ہے- یہاں سالک پر حجر بحت جلّ شانہٗ کا ظہور ہوجاتا ہے-حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے اس مقام کے بارے میں فرمایا ہے:

’’یہ اخص خواص سالکین کےسیر کی آخری منزل ہے، زیادہ اللہ بہتر جانتا ہے‘‘-[14]

علوی لطیف جسم اس مقام پر آکر یک رنگی ہوجاتا ہے، اسے بقاء حاصل ہوتی ہے-آپ ؒفرماتے ہیں:

’’وہ تجلی اعظم کی طرف متوجہ ہو، اس کے ساتھ اتصال اور اس کے سامنے عاجزی اختیار کرے، اسی طرح روح علوی کی تہذیب اور ملاءاعلیٰ کا اثر قبول کئےاور اس کے رنگ میں رنگین ہوئے بغیر بھی محال ہے‘‘-[15]

منہجِ مجدد الفِ ثانیؒ اور لطائف ستہ:

’’تزکیہ نفس، تصفیہ قلب، تجلیہ روح، تخلیہ سر جیسے اعمال کا ذکر صوفیائے کرام کے ہاں جابجا ملتا ہے- مجدد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی ؒ کے مکتوبات میں بھی ان لطائفِ ستہ کا ذکر ملتا ہے جن پر بحث جاری ہے- شیخ احمد سرہندی نے خواجہ جہان کی جانب جو مکتوب لکھا ہے، اس میں آپؒ فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ آپ کے دل کو سلامت رکھے اور آپ کے سینہ کو کھولے اور آپ کے نفس کو پاک کرے اور آپ کے بدن کے چمڑے کو نرم کرے- یہ سب کچھ بلکہ روح اور سر اور خفی کے اور اخفی کے تمام کمالات حضرت سید المرسلین (ﷺ)کی تابعداری پر وابستہ ہیں- پس آپ کو چاہئے کہ حضور نبی  کریم(ﷺ) کی متابعت اور ان کے خلفائے راشدین ہادین مہدیین کی متابعت کو لازمی پکڑیں‘‘-[16]

مجدد الف ثانیؒ نے طریق و امورِ لطائف میں اغلاط کی نشاندہی کی ہے- آپؒ کے ہاں بھی سلطانی طرز کی طرح لطائف کا آپسی تذکرہ موجود ہے- آپؒ اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں:

’’جواہر خمسہ جو اہلِ فلسفہ نے ثابت کیے ہیں سب عالم خلق میں ہیں -نفس و عقل کو جو مجردات سے گنتے ہیں- یہ ان کی نادانی ہے- نفس ناطقہ خود یہی نفس امارہ ہے جو تزکیہ کا محتاج ہے اور بالذات اس کی ہمت کمینہ پن اور پستی کی طرف ہے - عالم امر سے اس کو کیا نسبت اور تجرد کو اس سے کیا مناسبت اور عقل خود معقولات میں سے سوائے ان امور کے جو محسوسات کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے محسوسات کا حکم پیدا کیا ہوا ہے- کچھ ادراک نہیں کرتی لیکن جو امر محسوسات کے ساتھ مناسبت ہی نہیں رکھتا اور مشاہدات میں اس کی شبہ و  مثال پیدا نہیں ہے- وہ عقل کے ادراک میں بھی نہیں آتا اور اس کا بند عقل کی کنجی سے نہیں کھلتا- پس عقل کی نظر احکام پیچونی سے کوتاہ ہے اور محض غیب میں گمراہ اور یہ عالم خالق کی علامت ہے- عالم امراء کی ابتدا مرتبہ قلب سے ہے اور قلب کے اوپر روح اور روح کے اوپر سرّ اور سرّ کے اوپر خفی اور خفی کے اوپر اخفی ہے- ان پنجگانہ عالم امر کو جواہر خمسہ کہیں تو مناسب ہے- کوتاہ نظری سے چند ٹھیکریوں کو جمع کر کے فلسفیوں نے ان کا نام جواہر رکھا ہے-

عالم امر کے ان جواہر خمسہ کا ادراک کرنا اور ان کی حقیقت پر اطلاع پانا حضرت محمد رسول اللہ(ﷺ) کے کامل تابعداروں کا نصیب ہے جب عالم صغیر یعنی انسان میں عالم کبیر کے ان جواہر مبداء ہے اور اسی مناسبت کی وجہ سے قلب کو بھی عرش اللہ تعالیٰ کہتے ہیں اور جواہر پنجگانہ کے باقی مراتب عرش کے اوپر ہیں-[17]

جیسا کہ قبل بھی بیان کیا گیا ہے کہ بندہ مومن کا دل  اللہ عزوجل کا عرش ہے اور وہاں مالک کریم کے انوار و تجلیات وارد ہوتے ہیں- شیخ احمد سرہندیؒ نے اسی متعلق اپنے مکتوب میں بیان فرمایا ہے- قلب کی اہمیت کو آپؒ یوں بیان فرماتے ہیں:

’’جاننا چاہئے کہ عالم کبیر کے اجزاء میں سے زیادہ اشرف جزو عرش مجید ہے اور بھی جو اس کے ساتھ مخصوص ہے دوسرے تمام اجزا کی تجلیات سے برتر ہے- کیونکہ وہ جامع تجلی ہے اور وہ ظہور وجوبی اسماءوصفات کا جمع کرنے والا ہے- نیز وہ تجلی دائمی ہے‘‘-

پوشیدگی کی گنجائش نہیں رکھتی اور انسان کامل کا قلب جو عرش کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے اور اس کو عرش اللہ بھی کہتے ہیں- اس تجلی عرشی سے نصیب وافر اور حظ کامل رکھتا ہے- حاصل کلام یہ ہے کہ تجلی عرشی کلی ہے اور تجلی قلبی جزئی لیکن قلب میں ایک اور زیادتی ہے جو عرش میں نہیں اور وہ متجلی یعنی جلوہ گر ہونے والے کا شعور ہے اور نیز قلب ایک ایسا مظہر ہے جو اپنے ظاہر کے ساتھ گرفتاری رکھتا ہے - بر خلاف عرش کے جو اس گرفتاری سے خالی ہے- اسی شعور اور گرفتاری کے باعث قلب کی ترقی ممکن بلکہ واقع ہے-’’المرء مع من أحب‘‘ ( آدمی اس کے ساتھ ہے جس سے اس کو محبت ہے ) کے موافق قلب اسی کے ساتھ ہے جس کے ساتھ وہ گرفتاری رکھتا ہے اور جس کی محبت پر فریفتہ ہے - اگر اسماء وصفات کا محب ہے تو اسماء وصفات کے ساتھ ہے اور اگر ذات تعالیٰ و تقدس کا محب ہے تو وہاں کی معیت اس کو حاصل ہے اور اسماء و صفات کی گرفتاری سے آزاد ہے- برخلاف عرش مجید کے کہ اسماء ذات وصفات سے خالی تجلی اس کے حق میں غیر واقع ہے- والسلام‘‘-[18]

شیخ صاحب ؒ نے انسان کے وجود کو دس اجزاء کا مرکب فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لطائف بتدریج یکے بعد دیگرے ترقی حاصل کرتے ہیں- آپ نے عرش مجید پر قلبِ انسان کی ترجیح کے بیان میں سیادت پناہ میر شمس الدین خلخانیؒ کی طرف یہ صادر فرمایا ہے:

’’الحمد لله وسلام على عباده الذين اصطفی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ) آدمی ایک ایسا نسخہ جامع ہے جو اجزاء عشرہ یعنی اربعہ عناصر اور نفس ناطقہ و قلب و روح و سر و خفی و اخفی سے مرکب ہے اور دوسرے قوی و جوارح واعضاء جو انسان میں ہیں انہی اجزاء میں شامل ہیں- یہ اجزاء ایک دوسرے کے متضاد اور مخالف ہیں اربعہ عناصر کا ایک دوسرے کی ضد ہونا تو ظاہر ہے‘‘-[19]

اسم اعظم سے ہی یہ تمام مقامات حاصل ہوتے ہیں- حضرت مجدد الف ثانی ؒنے بھی اسمِ قیوم کی برکات کا ذکر فرمایا ہے- نیز آپؒ نے وضاحت سے اس وہم کی بھی تردید فرمائی ہے کہ ان مقامات کے حصول سے بندہ العیاذ باللہ مخلوق کے حصار سے نہیں نکلتا بلکہ یہ سب شریعت میں رہتے ہوئے ہی حاصل ہوتے ہیں- آپ ؒفرماتے ہیں:

’’ عالم خالق اور عالم امر کے لطائف میں ہر ایک لطیفہ کی صورت بھی ہے اور حقیقت بھی یعنی جس طرح عنصر خاک ظاہر رکھتا ہے اور باطن بھی- اس طرح اخفی صورت بھی رکھتا ہے اور حقیقت بھی اور یہ باطن جو عالم خلق اور عالم امر سے تعلق رکھتا ہے- دن بدن اعمال صالحہ کے ذریعے بلکہ محض حق تعالیٰ کی بخشش سے تھوڑا تھوڑا اس باطن سے جواسم قیوم پر وابستہ ہے ملتا جاتا ہے- یہاں تک کہ اس باطن کا کچھ اثر باقی نہیں رہتا اور سوائے ظاہرصرف کے سب کچھ پوشیدہ ہو جا تا ہے- اس اسم قیوم کے ساتھ اس باطن کے ملنے سے یہ مراد نہیں کہ یہ باطن اس اسم میں حلول کر جا تا ہے- اس اسم قیوم کے ساتھ اس باطن کے ملنے سے یہ مراد نہیں کہ یہ باطن اس اسم میں حلول کر جا تا ہے- یا اس اسم کے ساتھ اتحاد پیدا کر لیتا ہے- کیونکہ یہ الحاد ہے:

’’سبحان الذي لا يتغير بذاته ولا في أسمائه بحدوث الا کوان ‘‘

’’ پاک ہے وہ ذات پاک جوموجودات کی حدوث سے اس کی ذات واسما و وصفات میں تغیر نہیں آتا‘‘-

بلکہ اس باطن کو اس اسم کے ساتھ ایک مجہول الکیفیت نسبت پیدا ہو جاتی ہے - جس سے حلول و اتحاد کا وہم گزرتا ہے- درحقیقت وہاں نہ اتحا د ہے نہ حلول کیونکہ اس سے حقیقت امکان کا حقیقت وجوب کے ساتھ بدلنا لازم آتا ہے- جو محال عقلی ہے اور شریعت میں زندقہ ہے اور وہ ظاہر محض جو باقی رہ جا تا ہے‘‘-[20]

تعلیماتِ حضرت سلطان باھو ؒ میں  لطائفِ ستہ کا بیان:

سلطان العارفین برھان الواصلین حضرت سخی سلطان باھُو قدس سرہ العزیز کے منہجِ تصوف میں ان لطائفِ ستہ کے بارے میں جابجا تذکرہ ملتا ہے- آپ قدس  اللہ سرّہٗ نے اپنی تصنیفات میں انسان کے باطن پر اِن لطائف ستہ کے اوراد و اذکار کے ذریعے وارد ہونے والے معاملات کو جامع انداز میں بیان فرمایا ہے- ان مقامات کا انسان کے وجود میں جس انداز سے موجود ہونا واقع ہے اسے حضور سلطان باھُو قدس سرہ العزیز نے ایک مقام پر یوں ارشاد فرمایا ہے:

’’بے شک اولا دآدم کے جسم میں ایک مضغہ ہے جس میں قلب ہے، قلب میں روح ہے ، روح میں سر ہے ،سر میں خفی ہے، خفی میں یخفی ہے ، یخفی میں اخفی ہے اور اخفی میں آنا ہے‘‘-[21]

 ان لطائف کی ترقی کا حصول محض ایک مقصود کیلئے ہےاور وہ ذات الٰہ ہے-خالق سے بندے کی محبت اسے ان مقامات کو طے کر نے پر مجبور کرتی ہے- حضرت سلطان صاحب نے اس فلسفہ کو اس انداز میں بیان فرمایا ہے:

’’فقیر کا وجود ایک لطیفہ ہے جو خاکِ عشق سے پیدا ہوتا ہے، اسے معشوق کی ذات کے بغیر قرار نہیں آتا ، جب تک اُسے معشوق نظر نہ آجائےوہ ازل سے ابد تک اس کے عشق میں سرگرداں رہتا ہے-اشتیاق کے مارے چار چیزوں کو قرار نہیں، (1) ہوا کو،(2)سورج کو، (3) چاند کواور(4) عاشق کو‘‘-[22]

ان لطائفِ ستہ کو ذکر و اذکار کے ذریعے بیدار کیا جاتا ہے اور حاصل لطائف معیتِ خداوندی ہے جہاں سالک پہنچتا ہے-اس فلسفہ کی اکملیت اور نتیجہ معرفت ووصالِ الہٰی ہے-جب کسی انسان کے وجود میں یہ لطائف اجاگر ہوجاتے ہیں اور ذکر فکر کی مدد سے عبد معبود سے جا ملتا ہے تو وہ بظاہر جہاں بھی ہو بباطن وہ حضورِ حق میں رہتا ہے-وہ ظاہر میں باہوشیار اور شریعت پر مکمل پابند ہوتا ہے- جیسا کہ حضور سلطان صاحب ؒفرماتے ہیں:

’’بروزِ قیامت عاشقوں کو مقامِ تجلی پر لاکر کھڑا کیا جائے گااور فرمانِ حق تعالیٰ ہوگا: ”آنکھیں کھولو اور میرا دیدار کرو“-ہر عاشق کو ہزار بار حضورِ حق میں پیش کیا جائے گااور ہر بار اآس پر تجلی کی جائے گی - جب بھی تجلی ہوگی وہ بےہوش ہوجائے گا اور ستّر ہزار سال تک بےہوش پڑا رہےگا، جب ہوش میں آئے گا تو عرض کرےگا: ”کیا یہ لطف دوبارہ نہیں ہوگا؟ “-پھر تجلی ہوگی اور پھر بےہوش ہوجائےگا-اِس طرح ہر بار وہ ستّر ہزار سال تک بے ہوش رہےگااور پھر ہوش میں آئے گا لیکن فقرائے فنا فی اللہ عاشقوں پر بارگاہِ حق سے تجلی اس انداز سے ہوتی ہے کہ اُن کا تمام وجود سر سے قدم تک انوارِ تجلی سے بھر جاتا ہے‘‘-[23]

واضح رہے کہ حضرت سلطان باھو قدس سرہ العزیز کی کل تعلیمات کا جائزہ لینے پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؒ سالک و طالب کو مقامات و کرامات سے باز رہنے کا حکم فرماتے ہیں اور استقامت کا ارشاد فرماتے ہیں-آپؒ کی تعلیمات کا نچوڑ آپؒ کے ایک فرمان میں موجود ہے جو یہ ہے:”اللہُ بس ماسویٰ اللہ ہوس“- جن لطائفِ  ستہ کی ہم یہاں بات کررہے ہیں ان کا مقصود بھی محض مالکِ حقیقی کی ذات ہونی چاہئے نہ کہ مقامت و مراتب کی شعبدہ بازیاں- ستہ لطائف کے علاوہ بھی چند مزید کا بیان ملتا ہے جب کہ ان مقامات کے اندر بھی ہزارہا مزید مقامات پنہاں ہیں- آپ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’پس جان لے کہ وہ سلک سلوک کہ جس سے وجود میں مشاہدہ حضوری کھلتا ہے -اور ابتداء و انتہا کا ہر مقام اور ظاہر و مخفی تمام خلق خدا کا عین بعین مشاہدہ حاصل ہوتا ہے اسم اللہ ذات کی طے میں ہے، اسم اللہ ذات قلب کی طے میں ہے،قلب روح کی طے میں ہے،روح سر کی طے میں ہے،سر اسرار کی طے میں ہے،اسرار خفی کی طے میں ہے،خفی یخفی کی طے میں ہے،یخفی ہویدا کی طے میں ہے اور ہویدا سویدا کی طے میں ہے‘‘-[24]

سالک کے لئے مرشدکامل کی رہنمائی بے حد ضروری ہے- صوفیائے کرام مرشد پکڑنے پر زور دیتے ہیں-مرشد سالک کو نفسی سے اخفیٰ کا سفر طے کرواتا ہے- مرشد کو کیسا ہونا چاہئے اس حوالے سے حضور سلطان صاحب ؒ فرماتے ہیں:

’’سن! آدمی کا وجود دودھ کی مثل ہے،دودھ میں لسی بھی ہوتی ہے،دہی اور مکھن بھی ہوتا ہے اور گھی بھی ہوتا ہے، اِسی طرح آدمی کے وجود میں نفس بھی ہوتا ہے، قلب بھی ہوتا ہے،روح بھی ہوتی ہے- اور سّر بھی ہوتا ہے اور یہ چاروں ایک ہی جگہ جمع ہوتے ہیں- مرشد کو اُس عورت کی طرح ہونا چاہیے جو دودھ میں-مناسب مقدار میں لسی ڈال کر رکھ دیتی ہے،ساری رات دہی جمتا رہتا ہے،صبح کو دہی بلوتی ہے تو مکھن نکل آتا ہے اور لسّی الگ ہوجاتی ہے، پھر مکھن کو آگ پر چڑھاتی ہے تو مکھن سے کثافت دور ہوجاتی ہےاور گھی نکل آتا ہے-مرشد کو عورت سے کم تر نہیں ہونا چاہیے کہ جیسے عورت دودھ کے کام کو انتہا تک پہنچاتی ہے اُسی طرح مرشد کا کام بھی یہ ہے کہ طالب کو اُس کے وجود میں مقامِ نفس،مقامِ قلب،مقامِ روحِ مقامِ سّر،مقامِ توفیقِ الہی،مقامِ علمِ شریعت و طریقت و حقیقت و معرفت اور مقامِ خناس و خرطوم و شیطان و حرص و حسد و کبر علیحدہ علیحدہ کرکے دکھائے‘‘-[25]

ایک اور مقام پر آپ ؒارشادفرماتے ہیں:

’’مرشد کامل ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ تصور اسم اللہ ذات اور غلبات ذکر اللہ سے طالب اللہ کو اس کے وجود میں صورت نفس ،صورت قلب، صورت روح اور صورت سر جدا جدا کر کے دکھا دے‘‘-[26]

حضور سلطان صاحب ؒکے ہاں یہ مقامات مانندِ قفل ہیں جن کی کلید اسم اللہ ذات ہے-ان قفل کے بارے میں آپ ؒفرماتے ہیں:

’’آدمی کے وجود میں سات قسم کے قفل ہوتے ہیں چنانچہ قفل زبان،قفل قلب ،قفل روح،قفل سر،قفل خفی،قفل یخفی اور قفل توفیق الٰہی -انہیں اسرارالانوار ہدایت کہتے ہیں‘‘-[27]

حضرت سلطان باھو قدس سرہ العزیز نے لطائفِ ستہ کو بعض مقامات پر ایک ساتھ بیان فرمایا ہے، بعض دفعہ انہیں تفصیل سے علیحدہ علیحدہ بھی بیان فرمایا ہے اور بعض جگہ کسی دوسری اصطلاح کی شرح میں ان سب کو یکبار بیان بھی فرمایا ہے- نفس و قلب و روح و سرّ کو کئی مقامات پر ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے- جیسے:

’’تزکیہ نفس سے نفس زیر ہوتا ہے ، تصفیہ قلب سے دل روشن ہوتا ہے، تجلیۂ روح سے معرفت تو حید حاصل ہوتی ہے اور تجلیہ سر سے استغراق فنافی اللہ نصیب ہوتا ہے‘‘-[28]

اسی طرح ایک مقام پر آپ قدس سرہ العزیز دعوتِ قبور کی بابت بیان فرماتے ہیں:

’’دعوت میں مؤکل فرشتوں اور جنّات و روحانیت کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ) کی طرف سے قلبی و روحی و سرّی وحی کا سلسلہ ہے اور دعوت خوان پر ایک دم میں ہزار بار بلکہ بے شمار بار وارِد ہوتا رہتا ہے‘‘-[29]

حضرت سلطان باھُو ؒ نے قادری فقیر کے اوصاف بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

’’ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:  ’’پس دوڑو اللہ کی طرف‘‘-یہ کشف الارواحِ القبور کے مراتب ہیں جن کے لئے نفسانی طالب نفس سے ذکر فکر کرتاہے، قلبی طالب دائمی ذکر فکر سے نور حضور اخذ کرتا ہے، روحانی طالب غرق فنا فی اللہ ہو کر احوالِ قبور پر نظر رکھتا ہے اور سرّی طالب عین بعین نور بنور مشاہدہ کرتا ہے- یہ ہیں مراتب ایک باطن آباد قادری عارف کے- اِن مراتب پر پہنچ کر بعض عارفوں کو مقامِ قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ   کا تصرف حاصل ہو جاتا ہے جس سے روحانی قبر سے نکل کر دست مصافحہ کرتا ہے اور ماضی و مستقبل کے احوال بتلاتا ہے ‘‘-[30]

نفسی:

پہلا مقام نفسی ہے-صوفیائے کرام کے مطابق اس کا مقام زیرِ ناف ہے- حضرت سلطان صاحب کی تصانیف ِلطیفہ میں نفس پر طویل بحث ملتی ہے- نفس چار قسم کے ہیں:

’’آدمی کے وجود میں جو نفسانیت ہے، اس کی تین قسمیں ہیں- چنانچہ جس کسی کا نفس کافر ہے،اس کی خصلت کافروں اور اہلِ زنار کی سی ہے،وہ دنیا اور کافروں ہی سےاخلاص رکھتا ہے- یہ نفسِ امارہ راہزن ہے-اور جس کے نفس میں منافقت کی خو ہے،اسکا اخلاص منافقوں سے ہے- اس کا نفس لوامہ ہے اور جس کے نفس میں اہلِ دنیا جیسی خو ہو،  وہ بہت بڑا ظالم ہے- اسے نفسِ ملہمہ کہتے ہیں- اور جس کے نفس کی دوستی علمِ شریعت، عالم، عامل، فقرائے کامل، اہلِ ترس اور خدا پرست کے ساتھ ہو اور ذکرِ الٰہی میں غرق و استغراق کے ساتھ مست رہتا ہو-ادائے حقِ عبودیت اور ربوبیت میں کامل ہو،اس نفس کو نفسِ مطمئنہ کہتے ہیں‘‘- [31]

آپ ؒکی تعلیمات میں نفس کثیفہ میں امارہ، لوامہ اور ملہمہ جبکہ نفسِ لطیفہ میں مطمئنہ، راضیہ اور مرضیہ کا ذکر ملتا ہے- ابتداء ہی میں آپ نےسالک کو افضل الذکر، ذکرِ اکبر ، ذکرِ اعظم تصور اسم اللہ ذات کے ذکر اورذکرِ کلمہ طیب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (ﷺ) سے فنائے نفس کا ارشاد فرمایا ہے-نفس کے فنا ہونے سے مراد اہلِ تصوف یہ لیتے ہیں کہ وہ تابع آجائے اور جب نفس ذکر کی تلوار کے وار سے قابو آتا ہے تو قلب بیدار ہوتا ہے- آپ ؒ  فرماتے ہیں:

’’نفس کی شناخت تصورِ اسم اللہ ذات میں غرق ہوکر فنا کے گھاٹ اُترنے سے ہوتی ہے اور ربّ کی شناخت مقامِ بقا میں بقائے روح سے حاصل ہوتی ہے- یہ ہے ابتدائے عارفان اے مردہ دل بے حیا‘‘-[32]

ان مقامات کو آپؒ نے ذکر و تصور کے ساتھ مشقِ وجودیہ سے بھی لازم فرمایا ہے – آپؒ فرماتے ہیں:

’’یہ تمام مخالفِ نفس وروح پرور مراتب ومقامات سر سے ناف تک مشقِ وجودیہ مرقوم کرنے سے حاصل ہوتے ہیں - جو کوئی اِن مراتب تک نہ پہنچے اُس کی ہر بات لافزنی ہے- مراتبِ مشق وجودیہ کے یہ احوال اِس نظم میں درج ہیں: مشقِ وجودیہ(تصور میں سر سے پاؤں تک تمام وجود پر اسمِ اَللہُ لکھنے کی مشق) صاحبِ تصور کو سر بسر انوارِ ذات حق کا دلربا مشاہدۂ بخشتی ہے جو اسرارِ وحدت کا یقینی انکشاف ہے- یہ تصور میں وجود پر اسمِ ھُو کا نقش جمانے اور زبان کو تصورِ اسمِ ھُو سے تر کرنے کی مشق ہے- یہ تصور تجھے ذاتِ کبریا سے واصل کرے گا کہ یہی عارفانِ واصل باللہ کا مرتبہ ہے- اِس مشق سے سینہ اسرارِ الہٰی سے بھر جاتا ہے اور دل صاحبِ نظر ونگاہ ہوجاتا ہے-اگر یہ تصور ناف پر مرکوز کیا جائے تو یہ نفس کی بیخ کنی کرتا ہے- جو کوئی تصور کی یہ راہ نہیں جانتا وہ محض لافزن ہے- اگر سر سے ناف تک تصور کی پچپن مشقیں کرلی جائیں تو صاحبِ تصور اہلِ نظر بن جاتا ہے‘‘- [33]

نفسی مقام پر سالک کے وجود میں عاجزی اور انکساری پیدا ہوتی ہے- تزکیہ نفس کرنے سے وجود سے نفسانی خواہشات رفع ہوتی ہیں اور ذکر فکر کا جذبہ بڑھ جاتا ہے-

قلبی:

دوسرا مقام لطیفہ قلب ہے- قلب کے بارے میں حضرت سلطان صاحب فرماتے ہیں:

’’دل یہ نہیں کہ جس کی جنبش تجھے وجود میں شکم کے بائیں جانب معلوم ہوتی ہے- خدانخواستہ یہ تو راہِ قلب کا کتا ہے-یہ حیوانی دل تو کفار و منافق و فاسق و مومن مسلمان سب کے پاس ہے‘‘- [34]

مقامِ قلب ظاہری دل کے مقام پر ہے- لطیفہ قلبی کے حصول کو حضور سلطان صاحب نے قلبی ذکر اللہ سے بیان فرمایا ہے-اسم اعظم اسم اللہُ ذات کا سانسوں سے ذکر اور قلب پر نقشِ وجودیہ سے یہ لطیف مقام حاصل ہوتا ہے- قلبی ذکر کرنے والے کے بارے میں آپؒارشاد فرماتے ہیں:

’’ذاکر قلبی کا دل ذکر قلب سے غنی رہتا ہے- اللہ بس ماسوی اللہ ہوس‘‘-[35]

بندہ مومن کے قلب کی وسعت کو حدیث پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا گھر فرمایا گیا ہے جہاں اللہ پا ک کی سمائی ہوتی ہے- صوفیائے کرام نے دل شکنی کو سب سے بُرا فعل قرار دیا ہے- جب ذاکر اسم اللہ ذات کا ذکر و تصور کرتا ہے تو اس کےنفس کو فنا اور قلب کو بقا حاصل ہوجاتی ہے - بیدار قلب بندہ مومن کا ہوتا ہے جس پر التفاتِ نظر ہوتی ہے- آپ ؒفرماتے ہیں:

’’مقامِ علم ، مقامِ بخشش ، مقامِ عطا ، مقامِ معرفت ، مقامِ فضل ، مقامِ قرب ، مقامِ ذکر ، مقامِ فکر، مقامِ فیض ، مقامِ قبض ، مقامِ بسط، مقامِ قوت ، مقامِ توفیق، مقامِ شوق ، مقامِ ذوق ، مقامِ ترک ، مقامِ توکل ، مقامِ مجاہدہ، مقامِ مشاہدہ ، مقامِ غرق ، مقامِ حضور ، مقامِ توحید، مقامِ الہام ، مقامِ دلیل ، مقامِ وہم ، مقامِ اوہام ، مقامِ خیال ، مقامِ وصال ، مقامِ محمود ، مقامِ حال ، مقامِ ماضی ، مقامِ مستقبل ، مقامِ خلق، مقامِ سکوت ، مقامِ ناسوت ، مقامِ ملکوت ، مقامِ جبروت ، مقامِ لاھُوت ، مقامِ حیرت ، مقامِ عبرت ، مقامِ سودا ، مقامِ سویدا ، مقامِ ہویدا ، مقامِ قلب ، مقامِ وجد ، مقامِ نور ، مقامِ صدق ، مقامِ جوہرالانفاس ، مقامِ کنزرہ بنائے اسلام، مقامِ طاعت ، مقامِ ولایت، مقامِ عنایت ، مقامِ غنایت ، مقامِ مراقبہ ، مقامِ محاسبہ ، مقامِ مکاشفہ ، مقامِ کرامت ، مقامِ باللہ ، مقامِ بقا باللہ ، مقامِ فنا فی محمد رسول اللہ(ﷺ) ، مقامِ تجلی ، مقامِ روح ، مقامِ سرّ ، مقامِ تمثل ، مقامِ خفی ، مقامِ طلب ، مقامِ محبت ، مقامِ مدِّ نظر اللہ منظور کہ اللہ کی نظر قلب پر رہتی ہے ‘‘-[36]

خزانہ فقر سب سے بڑی دولت ہے اور اس مرتبہ کا حصول اسم اللہ ذات کے ذکر اور مرشد کی توجہ سے حاصل ہوتا ہے-فقر کے بارے میں سیدی رسول اللہ (ﷺ)  نے ارشادفرمایا:

’’الفقرُفخری والفقرُمِنِّی‘‘

’’ مجھے فقر پہ فخر ہے اورفقر مجھ سے ہے‘‘-

 حضور  نبی  کریم (ﷺ) نے فقر پر فخر فرمایا ہے- مزید ارشاد ہوا ہے کہ’’ اِذا تم الفقرُ فَھُو اللہ‘‘- جب فقر تمام ہوتا ہے تو اللہ ہی اللہ ہوتا ہے- جب بندہ اسم اللہ ذات کی مشق کرتا ہے تو اس کا دل اللہ تبارک و تعالیٰ کی آماجگاہ بن جاتا ہے-ان لطائفِ ستّہ کا حصول بھی”فقر“ ہی ہے- آپ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’مرتبہ فقر کی ابتدا شرفِ لقا ہے اور شرفِ لقا کا حصول فنائے نفس سے ہے اور فنائے نفس کا حصول زندگیٔ قلب وبقائے روح ہے‘‘-[37]

روحی:

انسان کا سینہ مقامِ روح ہے- لطیفہ روح پر آکر انسان میں سے تمام کدورتیں فنا ہوجاتی ہیں اور وہ معراجِ ربانی میں مستغرق رہتا ہے-حضرت سلطان باھو فرماتے ہیں:

دل بازار تے منہ دروازہ سینہ شہر ڈسیندا ھوؔ
روح سوداگر نفس ہے راہزن جہڑا حق دا راہ مریندا ھو

آپؒ فرماتے ہیں کہ انسان کا سینہ شہر کی مانند ہے جہاں دل، روح اور سّر ہیں-یہ نفس انسان کا ایسا دشمن ہے جو روح کو زندہ ہونے سے روکتا ہے تاکہ انسان کی حقیقی و پوشیدہ شخصیت عیاں نہ ہوسکے-

ایک اورمقام پر فرمایا:

سینے وچ مقام ہے کیندا سانوں مرشد گل سمجھائی ھو
ایہو ساہ جو آوے جاوے ہور نہیں شے کائی ھو
اس نوں اسم الاعظم آکھن ایہو سّرِ الٰہی ھو
ایہو موت حیاتی باھو ایہو بھید الٰہی ھو

روح دراصل وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ ہے جو امرِ ربی ہے او رانسان کے وجود میں سانسوں کے ذریعے جاری ہے - جب نفس مر جائے اورقلب سانسوں سے اسم اعظم کا ذکر کرے تو روح بیدار ہوجاتی ہے-روح اللہ تبارک و تعالیٰ کی عاشق ہے- اس مقام پر سالک کو عشقِ حقیقی نصیب ہوتا ہے- روح لاہوت لامکاں سے آئی ہے ، جب یہ بیدار ہوجائے تو ایک پل کے لئے بھی اپنے مالک سے غافل نہیں رہتی- آپ قدس سرہ العزیز نے بیان فرمایا ہے:

’’کامل عارف صاحب نفس فنا و روح بقاء یہ لوگ دیدار ولقائے الٰہی سے مشرف ہوتے ہیں ، یہ ایک دم کیلئے بھی قرب خدا کی حضوری سے جدا نہیں ہوتے ، یہ نہ خدا ہوتے ہیں اور نہ خدا سے جدا یہ ہمیشہ حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ)کے ہم مجلس ہوتے ہیں‘‘-[38]

جب سالک اسم اللہ ذات کے ذکر میں محو ہوجاتا ہے اور تزکیہ نفس و تصفیہ قلب سے آگے بڑھ کر تجلیہ روح حاصل کرتا ہے تو اس مقام پر اسے معرفت و دیدار کا فیض نصیب ہوجاتا ہے- آپؒ فرماتے ہیں:

’’یاد رکھیے کہ غلباتِ تصور تجلیاتِ نور وشوقِ تصرف حضور وتعطشِ اشتیاق فراقِ ازلی فیض فضلی کے حرفِ توفیقِ توکل وصدقِ توحید وتصدیقِ تحقیق کنہ سے آوازِ کن کے ساتھ جب قلب نامِ اَللہُ کو عزت سے پڑھتا ہے تو نفس اُسے سن کر اسم اَللہُ کی عظمت وہیبت سے مطلق مرجاتا ہے اور سر سے قدم تک اُس کے ساتوں اندامِ وجود اسم اَللہُ کے نور سے جگمگا اُٹھتے ہیں اور اُس کے وجود سے جملہ کدورت وزنگار کے ظلمانی حجابات کی تمام تاریکی ختم ہوجاتی ہے- اِس کے بعد قلب وروح سے متفق ہوجاتا ہے اور روح اسم اَللہُ کو ذوق شوق سے پڑھنے لگتی ہے جسے سن کر نفس اسم اَللہُ کے قہرو قدرت سے زندہ نہیں رہتا اور دائمی طور پر معرفتِ عیانی ودیدارِ ربانی کے فقرِ تمام سے مشرف رہتا ہے‘‘-[39]

سرّی:

مقامِ سرّ انسان کے سر میں پنہاں ہے- چند اصفیاء نے سینہ کے دائیں جانب بھی سرّ کا مقام بیان کیا ہے- سرّ راز کو کہتے ہیں - سرِّ الٰہی سے یہ لطیفہ مشتق ہے- جب روح محمود اپنی آنکھیں کھول لے تو اُسے حق کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے-آپ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’سر میں ایک ایسا سرّ پایا جا تا ہے جس سے روشن ضمیری حاصل ہوتی ہے اور فقیر پر اسرار الہی کا انکشاف ہوتا ہے- (6) ”سرفروش طالب ہی دیدار خداوندی سے مشرف ہوتے ہیں کہ سر وحدت ان کا پیشوا ہوتا ہے - (7)  ” سر بریده و بے سرطالب ہی سر پر تاج سجا تا ہے اور اسے دائمی معراج حاصل رہتا ہے“- (8)”جس سر میں سرّ سما جائے اس پر اسرار الٰہی تمام ہو جاتے ہیں اور ہر مقام اس کی پہنچ میں آ جاتا ہے‘‘-[40]

ایک اور مقام  پہ آپ ؒ ارشاد فرمایا:

’’بے سر کا سر سرِّ خدا ہوتا ہے اور سّرِ خدا بہتر ہے سر سے کہ اس میں لقائے الہی نصیب ہوتا ہے-سرّ کی صورت ہوبہو انسان کے سر جیسی ہے جب سر اور سّر یک وجود ہوجائیں تو انسان صاحب نظر ہوجاتا ہے-بے حکمت آدمی انسان نہیں ہوتا اور جسے سرِّ حکمت حاصل ہوجائے وہ اہلِ راز ہو جاتا ہے-باھو سرّ بین و اسرار بین و صاحب راز کن ہے کہ اسے آواز کن سے راز کن حاصل ہوا ہے‘‘-[41]

جب سالک مقامِ سرّ پالیتا ہے تو اس کا نفس مکمل طور پر فنا ہوجاتا ہے اور اس کی روح کو بقا حاصل ہوجاتی ہے- آپ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’جان لے کہ تصورِ اسم اللہ ذات سے نفس تزکیہ حاصل کر کے صفاتِ مطمئنہ سے متصف ہوجاتا ہےاوردل صفائی پکڑتاہے- دل صفائی پاکر تجلیۂ روح حاصل کرتا ہےاور تجلیۂ روح تجلیۂ سِرّ حاصل کرتی ہے- جب یہ چاروں (نفس ،قلب، روح، سِرّ) باہم متفق ہوکر ایک ہو جاتے ہیں تو صاحبِ نفس اپنے نفس پر غالب وحاکم ہو جاتا ہے- یہ مراتب فنافی اللہ فقیر کے ہیں- فرمانِ حق تعالیٰ ہے:اوروہ داخل ہوااپنی جنت میں اپنے نفس کو مغلوب کرکے‘‘-[42]

جب روح پر تجلی حق وارد ہوجائے تو بندہ اگرنماز ادا کرتا ہے اور تکبیر ِ اولیٰ کے لئے کانوں پہ ہاتھ لے کر جاتا ہے تووہ مالکِ حقیقی کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہےاور اپنے سجود میں لبیک یا عبدی کی صدا سنتا ہے -نمازی بننے کیلئے بے سَر ہونا پڑتا ہے - تصوف میں اس سے مراد یہی ہے کہ انسان مکمل طور پر اپنے نفس کو تابع کرلے اور دل اور روح کو زندہ کرے تاکہ وہ راز پا سکے جس کے بارے میں آیا ہے کہ الانسانُ سرّی وَانا سرّہٗ- آپؒ فرماتے ہیں:

ابیات:(1)مجھے تمام مراتب کی انتہائی تحقیق حاصل ہے اور کل وجز ہر طریقہ کی انتہا میری نظر میں ہے-(2) مجھے رسول اللہ (ﷺ) نے تلقین فرماکر اِس قابل بنا دیا ہے کہ مَیں طالبانِ حق کو بارگاہِ حضور میں پہنچا سکتا ہوں‘‘-

دیدار کے یہ مراتب نمازِ شریعت یعنی نمازِ زبان، نمازِ طریقت یعنی نمازِ قلب،نمازِ حقیقت یعنی نمازِ روح اور نمازِ سرّ یعنی باعیان نماز سے حاصل ہوتے ہیں کہ جب چشمِ راز کھل جاتی ہے اور بندہ بے سر ہوکر سجدہ کرتا ہے تو قرب اللہ دیدار کی حضوری سے مشرف ہوجاتا ہے-

بیت:نماز وہ ہے کہ سر سجدہ میں جاۓ تو خدا نظر آئے- جس سجدہ میں خدا نظر نہ آئے وہ سجدہ کہاں روا ہے؟‘‘[43]

ایک اور مقام پر فرمایا:

(5) ” جب تو اس مرتبے پر پہنچ جائے  کہ نفس وقلب و روح تجھ سے متفق ہو جائیں تو تُو اولیا اللہ کاخطاب پائے گا“ -(6 ) ”جب ہر دم کے ساتھ نفس کی نماز جنازہ پڑھی جائے تو ایسی نماز سے وحدت خدا تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے“-(7) ”اور نفس و قلب و روح پکارنے لگتے ہیں کہ لائق حضوری یہی نماز ہے“ -[44]

لطائفِ نفسی، قلبی، روحی حاصل کرنے کے بعد سالک کو چاہئے کہ لطیفہ سرّ کی جانب توجہ کرے- سرّ کے بارے میں جامع انداز میں حضور سلطان صاحب نے ارشاد فرمایا ہے:

’’اگر تو فقر کا طالب ہے تو نفس و قلب و روح کو چھوڑ دے کہ فقر سراسر تو حیدِ سرّ کا نام ہے‘‘-[45]

تصورِ اسم اللہ ذات اور مشقِ وجودیہ سے جب بندہ مومن کی روح کو بقا حاصل ہوجاتی ہے تو وہ تخلیہ سر حاصل کرلیتا ہے- اس مقام پر وہ عارف سے معارف بن جاتا ہے- اور علم ِ لدنی کی برکت سےمخلوقِ خدا کو حق کی پہچان کرواتا ہے- وہ خود صاحب ِ راز ہوجاتا ہے اور ہمہ وقت ذاتِ الٰہ کے جلوؤں میں مستغرق رہتا ہے - اس متعلق حضرت سلطان باھو قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’تزکیہ نفس سے نفس زیر ہوتا ہے ، تصفیہ قلب سے دل روشن ہوتا ہے، تجلیۂ روح سے معرفت تو حید حاصل ہوتی ہے اور تخلیہ سر سے استغراق فنافی اللہ نصیب ہوتا ہے‘‘- [46]

ایک اور مقام پرفرماتے ہیں:

بیت:’’ وہاں نفس وقلب وروح کا نام ونشان نہیں ہوتا کہ وہ فنا فی الذات وحدتِ لامکانی کا مقام ہے‘‘-علمِ دیدار کا مطالعہ افسانہ طرازی وقصہ خوانی سے ہاتھ نہیں آتا کہ یہ یگانگت عین بعین عین عیانی کا مرتبہ ہے،مراتبِ علمِ فی اللہ غیب دانی عین العیانی کا مرتبہ ہے‘‘-[47]

حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرّہٗ نے نفسی، قلبی، روحی اور سری لطائف کے حاملین کی پہچان کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

’’جان لے کہ آدمی کے وجود میں چار چیزیں ہیں: نفس،قلب،روح اور سِرِّ باری تعالیٰ- نفس اور اہلِ نفس کو ذکرِ دنیا اور خواہشاتِ نفسانی سے پہچانا جاسکتا ہے- قلب اور صاحبِ قلب کو استغراقِ باطنی کی حالت میں ذکرِ باطن صفا سے پہچانا جاسکتا ہے- روح اور صاحبِ روح کو تلاوتِ قرآن واحادیث اور مسائلِ فقہ سے پہچانا جاسکتا ہے- سِرّ اور صاحب سِرِّ باری تعالیٰ کو مشاہدۂ معرفتِ الہٰی سے پہچانا جاسکتا ہے‘‘-[48]

قرآن مجید فرقان حمید تمام علوم کو اپنے اندر سموئے ہوا ہے-بے شک طریقِ تصوف میں جن لطائفِ ستہ کا  ذکر وارد ہے وہ قرآن شریف میں موجود ہے- خواہ وہ خفیہ اندازمیں ذکر کرنا ہو، سانسوں سے ذکر کرنا ہو، خاموش ذکر کرنا ہو، قلب کی بیداری ہو، نفس سے بیزاری ہویا روح کی حقیقت ہو- آپ قدس اللہ سرّہٗ قرآن شریف کےاس اعزاز کو بیان فرماتے ہیں:

’’تُو اپنی ہر طلب قرآن سے حاصل کرکہ ہر حقیقت قرآن میں موجود ہے چناچہ معرفتِ الٰہی اور حقیقتِ نفس وقلب وروح وسِرّ سب قرآن میں ہے- فرمانِ حق تعالیٰ ہے: اور اللہ ہی کہ پاس ہیں کنجیاں غیب کی- اُنہیں وہی جانتا ہے اور وہ اُسے بھی جانتا ہے جو خشکی اور تَری میں ہے اور جو پتہ بھی گرتا ہے وہ اُسے جانتا ہے اور زمین کی اندھیری تہوں میں کوئی دانہ نہیں اور کوئی تر اور خشک نہیں جو ایک روشن کتاب میں  درج نہ ہو‘‘-[49]

خفی:

لطیفہ خفی پر تعلیماتِ حضرت سلطان باھو قدس سرہ العزیز میں کافی وسعت کلامی ملتی ہے- آپؒ نے سالک کے اس مقام کی اہمیت کثرت سے بیان فرمائی ہے- اسکا مقام بھی سینہ ہے- جب ذکرواذکار،مراقبہ و مشاہدہ اور توجۂ مرشد کامل سالک کو نصیب ہوتی ہے تو وہ مرتبہ فنا فی اللہ پر فائز ہوجاتا ہے، حق تعالیٰ کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہے، مجلسِ محمدی (ﷺ) میں حاضر رہتا ہےاوراس کے لطائف نور بن جاتے ہیں-ذکرِ خفیہ اسم اللہ ذات اور اسمائے ذات اللہُ، للہِ، لہٗ اور ھُو کے تصور و مراقبہ سے سالک با ہوشیار اور باشرع ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے وجود سے شیطانی استدارج ، نفس کے مکر و فریب اور ناری تجلیات کے اثرات زائل ہوجاتے ہیں- نیز ذکرِ خفیہ کے بعد وہ اظہار نہیں کرتا بلکہ خاص راز کو راز ہی رکھتا ہے- آپ قدس  اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں:

’’مقامِ فنا فی اللہ یہ ہے کہ جب کوئی اسمِ اَللہُ کو اپنے تصور میں لاتا ہے تو تاثیرِ اسمِ اَللہُ اُسے معرفتِ اِلَّا اللہُ بخش دیتی ہے اور ماسویٰ اللہ کا ہر نقش اُس کے دل سے مٹا دیتی ہے- جو شخص اِس مقام پر پہنچ کر دریائے توحید سے معرفتِ الٰہی کا جام پی لیتا ہے وہ سر سے قدم تک لباسِ شریعت پہن لیتا ہے اور امر معروفِ شریعت کی اشاعت میں کوشاں رہتا ہے اور معرفتِ الہٰی کے جو جواسرار اُس پر کھلتے جاتے ہیں اُن کا جاہلوں کے سامنے نہ تو اظہار کرتا ہے اور نہ ہی ڈھنڈوراپیٹ کر اُن سے خود فروشی کرتا ہے‘‘- [50]

لطیفہ خفی حاصل ہونے کی نشانی یہ ہے کہ سالک کوحق سبحانہٗ وتعالیٰ کی معیت اور مجلسِ محمدی (ﷺ) کی دائم حضوری نصیب ہوجاتی ہے- جیسا کہ آپ قدس  اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں:

’’ذاکرِ خفیہ خدا کا ہم مجلس ہوتا ہے جیسا کہ حدیثِ قدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے- ”جو آدمی میرے ذکر میں مشغول ہوتا ہے مَیں اس کا ہم مجلس ہوتا ہوں‘‘-دوسرے یہ کہ ذاکر مجلسِ محمدی (ﷺ) میں ہر وقت حضور نبی رحمت (ﷺ)کا ہم صحبت ہوتا ہے‘‘- [51]

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’ذکر اللہ و تسبیح کے بارے میں ایک صحیح حدیثِ نبوی (ﷺ)میں حضور نبی کریم (ﷺ)کا فرمان مبارک  ہے- ”تمام فرائض میں سے پہلا فرض ذکر اللہ یعنی لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ کا ذکر ہے“- لیکن یہ ذکر خفیہ ہونا چاہیے نہ کہ بلند آواز سے کہ ذکرِ خفیہ مشاہدۂ حضورئ قرب اللہ راز سے تعلق رکھتا ہے- ذکرِ خفیہ اُس آدمی کو نصیب ہوتا ہے جو حضور نبی رحمت (ﷺ) کی مجلس کی حضوری سے مشرف اُن کا حبیب و مسکین و غریب و فقیر ہو‘‘-[52]

حضرت سلطان باھو قدس سرہ العزیز نے سالک کا جو معیار وضع فرمایا ہے وہ مقامِ خفی ہی ہے- جیسا کہ آپ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’عمر بھر کی ریاضت سے بہتر ہے کہ نظر تجلی پر رکھی جائے اور توجہ استغراقِ فنا فی اللہ پر- استغراقِ فنافی اللہ کے علاوہ ہر مرتبے کی تجلی خام وناتمام تجلی ہے- مطلبِ کلی کا مرتبہ کون سا ہے؟ اپنی ہستی کو مٹا کر حق رسیدہ ہوجانا کہ یہ سب سے بہتر انجام ہے یعنی جمعیتِ نورِ اللہ کا جام پی لینا- اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘-[53]

اخفیٰ:

اگرچہ مرتبہ فنا کے بعد سالک کو خاص مراتب حاصل ہوجاتے ہیں لیکن حضور سلطان باھو قدس  اللہ سرّہٗ نے سالک کے لئے انتہائی درجہ اخفیٰ بیان فرمایا ہے جہاں وہ مرتبہ بقا باللہ پر فائز ہوتا ہے- اس کا مقام بھی عین سینہ ہے- جب سالک پر لطیفہ اخفیٰ کا مقام عیاں ہوجاتا ہے تو وہ مرتبہ حق پا لیتا ہے- مقامِ اخفیٰ حضور نبی رحمت (ﷺ)کی توفیق سے عطا ہوتا ہے-لطیفہ اخفیٰ اور دیگر تمام لطائف کا حصول و ترقی اسم اللہ ذات کی برکات سے ہی ممکن ہیں - جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:

’’جان لے کہ اساسِ معرفت، معراجِ محبت، ملاقاتِ روحانی، قربِ الله حضوری، مشاہداتِ اسرارِ ربانی، مراتبِ فقر فنا فی الله بقا بالله، ابتدا وانتہائے توحیدِ سبحانی اور تصور، تفکر، تصرف ، توجہ اور توکل کے تمام مراتب صاحبِ مشقِ تصورِ اسمِ الله ذات کو حاصل ہوتے ہیں کہ جب تفکر کی انگلی سے دل پر نقشِ اسمِ الله ذات کو بار بار لکھنے کی مشق کی جاتی ہے تو ذکرِ حضور وکلماتِ ربانی والہامِ مذکور حضور کے ہر طرح کے علوم منکشف ہوجاتے ہیں‘‘-[54]

اسی ضمن میں ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

’’تصورِ اسمِ الله ذات سے اس قدر کثیر ذکر کھلتا ہے کہ جس کو شمار نہیں کیا جاسکتا - چنانچہ وجود کا ہر ایک بال علیحدہ علیحدہ ذکرِ اَللہُ کرتا ہے اور سر سے قدم تک وجود کے تمام اعضا مثلاً گوشت پوست، رگیں، ہڈیاں اور مغز وغیرہ سب پُر جوش ذکرِ اَللہُ کرنے لگتے ہیں - یہی وہ مرتبۂ صاحبِ تصورِ اسمِ الله ذات ہے کہ جس سے اُس کے مغزو پوست (ظاہر باطن) میں الله ہی الله سما جاتا ہے اور ہاں! ذکر اُس وقت تک ثابت نہیں ہوتا جب تک کہ یہ چار چیزیں حاصل نہ ہوجائیں-(1) مشاہدۂ غرق فی الله، (2)مجلسِ محمدی (ﷺ) کی حضوری، (3)غیر ماسویٰ الله سے لا تعلقی اور (4) مراتبِ بقا باللہ تک رسائی‘‘-[55]

حضرت سلطان باھو ؒ نے مقامِ اخفیٰ پر ذکر، استغراق و مراقبہ کا جو طریقہ بیان فرمایا ہے وہ کچھ اس طرح ہے:

’’جب صاحبِ اشتغال اللہ دوزانو ہوکر سر جھکاتا ہے اور آنکھیں بند کر کے تصورِ اسم اللہ ذات کے مراقبہ میں غرق ہوتا ہے تو باطن میں اپنی آخرت سنوارنے کے لئے جسم کو دارالفنا سے دارالبقا میں لے جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ ایک بے جان مردہ ہے- اِس طرح وہ عین العیان کے مرتبے پر پہنچ جاتا ہے جہاں اُس پر روحانیت کا ازلی سودا سویدا ظاہر ہوتا ہے اور حاضراتِ اسمِ اللہ ذات سے اُس پر تمام احوال منکشف ہوجاتے ہیں‘‘-[56]

طریقِ تصوف میں سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ مقامِ فنافی اللہ بقاباللہ حاصل کرے کیونکہ اس کے بعد ہی وہ صحیح معنوں میں حق کو پاتا ہے - یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے لوگ بیگانے ہیں اور جو جانتے ہیں وہ خاموش ہیں- یہی وہ مقام ہے جہاں فقر تمام ہے اور سالک فقر اختیار کرکے فقیر بنتا ہےجو حق سبحانہٗ تعالیٰ کے سوا کسی کا محتاج نہیں رہتا، اس کے لئے ابتدا اور انتہا ایک ہوجاتی ہے- حضرت سلطان باھو قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’اگر کوئی عاقل و ہوشیار باش ہے تو معرفتِ فقر کی انتہا پر پہنچ کر مرتبۂ فنا حاصل کرتا ہے اور پھر فنا سے بقا اور بقا سے لقائے حق تک پہنچتا ہے- جو آدمی اِن مراتب تک پہنچ جاتا ہے اُسے دنیا و آخرت اور موت و حیات کے ذکر فکر و مراقبہ میں مزہ نہیں آتا اور وہ تماشائے ہر دو جہان، نور حضور، حور و قصور اور نعمائے بہشت سے ہرگز خوش نہیں ہوتا کہ وہ لاھُوت لامکان کو عیاں طور پر دیکھتا ہے اور وہاں اُسے جو کچھ نظر آتا ہے اُسے خود سے بیان کرتا ہے- اِس مقام پر ابتدا و انتہا ایک ہو جاتی ہے اور درمیان میں رسم رسوم، گفت و شنید، کوشش و کشش، جذب و توجہ، وجد وارادات اور الہام و درجات کے حجابات اُٹھ جاتے ہیں اور قربِ حق کا احساس اُسے بے قرار رکھتا ہے کہ دل مشتاقِ نظارہ ہوتا ہے اور اُسے موت کا اشتیاق و انتظار رہتا ہے- اِسے رحمتِ ربّانی قربِ رحمانی کا لباس کہتے ہیں‘‘- [57]

ایک ضروری وضاحت:

لطائفِ ستّہ کے بارے میں مختلف منہاجِ تصوف میں مختلف نظریات اور طریقہ ہائے کار موجود ہیں- لیکن حضور سلطان صاحب قدس  اللہ سرّہٗ نے اس روحانی سفر کی حقیقت کو بھی بیان فرمایا اور دیگر مجہول طریقوں کی تردید بھی فرمائی ہے- آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’جب نفس کا تصفیہ ہو جاتا ہے اور مطمئنہ بن کر نور ہو جاتا ہے تو نفس نو رقلب کا لباس پہن لیتا ہے، قلب نور روح کا لباس پہن لیتا ہے ، روح نورسز کا لباس پہن لیتی ہے سر نو راسرار کا لباس پہن لیتا ہے اور یہ سب مل کر جب ایک نور ہو جا تا ہے تو وجود میں ایک نوری صورت پیدا ہو جاتی ہے جسے محض توحید مطلق توفیق الٰہی کہتے ہیں- مجھے تعجب ہوتا ہے ان احمق لوگوں بر جوتقلیدی تفکر کرتے ہیں اور باطن میں معرفت الہی توحید سے بے خبر رہتے ہیں ، دل کو دم کے ساتھ بند کر کے بائیں طرف گھماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مقام قلب ہے- یہ لوگ کلب ( طالب دنیا کتے) کو قلب سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ذکر حبس دم ہے جب کہ ذکر حبس دم کا تعلق مشاہدۂ حضوری سے ہے- ان کی ذکر حبس دم کی یہ شرح محض عبث و ناروا ہے - اس کے بعد وہ دل کو دم کے ساتھ بند کر کے دائیں جانب گھماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ذکر روح ہے لیکن وہ مقام روح سے واقف نہیں کہ ذکر روح تو ایک گہرا دریا ہے جس میں طوفان نوح کی طرح طوفان شوق موجزن رہتا ہے - اس طوفان میں شوق کی کشتی عرش سے اوپر تیرتی ہے - اس کے بعد وہ دم کو بند کر کے دماغ سر میں لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ذکر خفی ہے، یہ ذکر یخفی ہے، یہ ذکر قربانی ہے، یہ ذکر سلطانی ہے لیکن ذکر سلطانی سے یہ لوگ بےخبر ہیں‘‘-[58]

حرفِ آخر:

قرآن کا فلسفہ ہے کہ انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اور اسے لوٹ کر بھی وہیں جانا ہے- یہ درمیان کا حصہ بہت ہی مختصر ہے جس کا مقصد بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت و پہچان حاصل کرنا، اس کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرنا، اس کے احکامات کی پاسداری کرنا، اس کے قرب و وصال کے حصول کا متلاشی رہنا اور آخرت کی تیاری کرنا ہے- اس مقالہ میں چند جید صوفیاء کرام کی تعلیمات میں سے لطائف ستہ کے بیان کا مقصود بھی یہی ہے کہ حضرت انسان ایک ہی مقام پر اکتفا نہ کرے بلکہ مکتبہ عشق میں ترقی حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگا رہے اور اسم اللہ ذات کے ذکر سے اپنا ظاہر و باطن روشن کرے- اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے- آمین

٭٭٭


[1]( لطائف القدس، فصل اول، ص: 16)

[2](لطائف القدس ، ص:34)

[3](لطائف القدس ، ص:34)

[4](لطائف القدس، ص:54)

[5](لطائف القدس، ص:56)

[6](لطائف القدس، ص:59)

[7](لطائف القدس، ص:68)

[8](لطائف القدس، ص:52)

[9]( لطائف القدس، ص: 73)

[10]( لطائف القدس، ص:27)

[11]( لطائف القدس، ص: 85)

[12]( لطائف القدس، ص: 89)

[13]( لطائف القدس، ص: 86)

[14]( لطائف القدس، ص: 85)

[15]( لطائف القدس، ص: 90)

[16](مکتوب: 25)

[17](مکتوباتِ امام ربانی، حصہ اول، دفتر اول، ص:162)

[18]( مکتوبِ امام ربانی، جلد دوم، ص:842)

[19]( مکتوبِ امام ربانی (جلد دوم) 11، ص:841)

[20]( مکتوبِ امام ربانی: 93، ص:799)

[21]( نور الہدیٰ،ص: 329)

[22](عین الفقر، باب دوم، ص:41)

[23](عین الفقر، باب دوم، ص:40)

[24]( اسرار القادری،ص: 57-59)

[25](عین الفقر باب سوم، ص:109)

[26]( نور الہدیٰ،ص :511)

[27]( اسرار القادری،ص: 53)

[28]( نور الہدیٰ،ص: 313)

[29]( عقل بیدار، ص:169)

[30]( عقل بیدار ، ص: 263)

[31]( محبت الاسرار، ص:77-79)

[32]( امیر الکونین، ص: 65-67 ،ایڈیشن:اول)

[33]( امیرالکونین ،ص:129)

[34]( عین الفقر باب ہفتم ، ص:261)

[35]( اسرار القادری،ص: 175)

[36]( اسرار القادری،ص:73)

[37]( امیرالکونین، ص:303)

[38](نور الہدیٰ،ص: 307)

[39](امیرالکونین، ص:435)

[40]( نور الہدیٰ،ص: 209)

[41]( اسرار القادری،ص: 181)

[42]( مجالسۃ النبی (ﷺ) خورد، ص:15)

[43]( امیرالکونین، ص:365)

[44]( نورالہدیٰ،ص: 241)

[45]( نور الہدیٰ،ص: 269)

[46]( نور الہدیٰ،ص: 313)

[47]( امیرالکونین، ص:487)

[48]( مجالسۃ النبی خورد،ص: 25)

[49]( مجالسۃ النبی خورد،ص: 31)

[50]( شمس العارفین،ص:168)

[51]( عقلِ بیدار،ص:163)

[52](عقلِ بیدار، ص:59)

[53]( شمس العارفین،ص:223)

[54]( شمس العارفین،ص:81)

[55]( شمس العارفین،ص: 91-93)

[56]( شمس العارفین،ص:151)

[57](عقلِ بیدار، ص:116)

[58]( اسرار القادری،ص: 77-79)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر