شمس العارفین: قسط22

شمس العارفین: قسط22

جو شخص اِن اذکار کا ذاکر نہیں اُس کا مراقبہ مردود ہے اور وہ خطرات میں گھرا ہوا سیاہ دل طالب ِدنیا ئے مردار ہے- اہل ِدنیا کو قربِ الٰہی ہر گز حاصل نہیں ہوسکتا خواہ بظاہر وہ دنیا میں کتنا ہی صاحب ِعز وجاہ اور صاحب ِروضہ و خانقاہ کیوں نہ ہو-جس کی نظر آخر ت کے ملک ِ عظیم پر پڑجائے وہ نفس و شیطانِ رجیم سے فارغ ہو کر صاحب ِ وصف ِ کریم ہوجاتاہے- اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس-صاحب ِمراقبہ انتہائی عظیم مراتب کا مالک ہوتاہے کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قدیم باطنی صراط ِمستقیم  پر گامزن اہل ِ ہدایت ہوتاہے- صاحب ِمراقبہ کا مراقبہ اُس وقت تک ثابت نہیں ہوتا جب تک کہ وہ تصورِ اسمِ اللہ ذات کے ذریعہ مراقبہ نہیں کرتا- خاص الخاص مراقبہ تصورِ اسمِ اللہ ذات کا مراقبہ ہے کہ اُس کی اساس صحیح ذکر فکر اور تسبیح پر ہے -صاحب ِمراقبہ کا مرتبہ اتنا عظیم ہے کہ ہدایت ِالٰہی کا یہ راہی دورانِ خواب باطن میں معرفت ِالٰہی اور مجلس ِمحمدی (ﷺ) کا مشاہدہ کرتا ہے اور انبیاءو اؤلیا ءاللہ سے مجلس و ملاقات کرتا ہے - جس کے پاس مراقبہ کے یہ دو گواہ نہیں اُس کا مراقبہ غلط ہے بلکہ وہ مراقبہ کی راہ ہی نہیں جانتا -

مراقبہ ایک ایسا نگہبان و محافظ ہے جو صاحب ِمراقبہ کو خطراتِ نفس و شیطان و دنیا ئے پریشان سے بچا کر منزل پر منزل اور مقام پر مقام طے کراتا ہوا معرفت ِ اِلَّا اللّٰہُ  میں غرق کرکے مجلس ِمحمدی (ﷺ) میں پہنچا دیتا ہے - ایسا صاحب ِمراقبہ جب بھی چاہتا ہے طریق ِتحقیق سے ملازمِ حضور ہو جاتا ہے- عارف باللہ کا مراقبہ انتہائی کامل مراقبہ ہوتا ہے کہ اُس کا باطن معمور اور خاتمہ بالخیر ہوتا ہے، ایسی کامیابی پر اُسے مبارک باد ہو-

جان لے کہ تین چیزیں پوشیدہ نہیں رہ سکتیں خواہ اُنہیں ہزاروں پردوں ہی میں کیوں نہ چھپا یا جائے، ایک آفتاب، دوسرا مشک معطر دین ِمحمدی ’’لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ اور تیسرا صاحب ِمعرفت ِ’’ اِلَّااللّٰہُ‘‘ عارف باللہ- اگر کوئی شخص دورانِ خواب یا مراقبہ بہشت میں چلا جائے اور بہشت کا کھانا کھا لے یا وہاں کی ندی کا پانی پی لے یا حور و قصور کو دیکھ لے تو خواب و مراقبہ کے بعد عمر بھر اُسے کھانے پینے کی حاجت نہیں رہتی، اُس کے وجود سے بھوک و پیاس مٹ جاتی ہے اور عمر بھر اُسے نیند نہیں آتی اگرچہ بظاہر وہ سوتا ہوا نظر آتا ہے- وہ تمام عمر ایک ہی وضو سے گزار دیتا ہے- اُس کے وجود میں طاعت و بندگی کی ایسی توفیق بھر جاتی ہے کہ اُس کا سر رات دن سجدے سے فارغ نہیں ہوتا- وہ روز بروز فربہ ہوتاجاتاہے بظاہر وہ جو کچھ کھاتا پیتا ہے محض لوگوں کی ملامت سے بچنے اور اُن سے پوشیدہ رہنے کی غرض سے کھاتا پیتا ہے ، اُس کے لیے موسمِ سرما و گرما ایک جیسا ہوتا ہے بلکہ گرمی و سردی اُسے مزہ دیتی ہے ، لیکن ایک درویش کے لئے یہ مراتب بھی نہایت ادنیٰ اور حقیر ہیں، فقیر کو اِن مراتب سے شرم و حیا آتی ہے کہ یہ مراتب فقرِ محمدی (ﷺ) سے بہت دور ہیں، اِن کا تعلق نفس و ہوا سے ہے- ا نتہائی مرتبہ یہ ہے کہ وہ دورانِ خواب یا مراقبہ لقائے ربّ العالمین سے مشرف ہو جائے، پھر اُس کی مثل کوئی نہیں ہو سکتا- اُس کے وجود میں معرفت ِتوحید ِالٰہی ، تصورِ اسمِ اللہ ذات اور طلب و محبت کی ایسی آگ پیدا ہو جاتی ہے کہ جس کی ضرب و جلالیت سے نفس ہر وقت قہر و غضب و عتاب کا شکار رہتا ہے، لباسِ شریعت پہنتا ہے، اشاعت ِشریعت میں کو شاں رہتا ہے اور ہمیشہ پکارتا رہتا ہے: ’’  تَفَکَّرُوْا فِیْ اٰیٰتِہٖ وَلَا تَفَکَّرُوْافِیْ ذَا تِہٖ‘‘ (اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں تفکر کرو مگر اُس کی ذات میں تفکر مت کرو) -سب سے عظیم نعمت معرفت ِتوحید ہے- وہ اللہ تعالیٰ کے جسم و جوہر اور صورت کے متعلق نہیں سوچتا کہ وہ بے مثل و بے مثال ذات ہے - وہ اپنے وجود کے تنور میں اعضائے بدن کے ایندھن کو آتش ِذکر اللہ میں اِس طرح جلاتا رہتا ہے جس طرح کہ آگ خشک ایندھن کو جلاتی ہے- اگر وہ ذرہ بھر آتش ِ جلالیت ِحضور کی نظر سے زمین و آسمان کو دیکھ لے تووہ جل اُٹھیں مگر آفرین ہے اُس کے حوصلے پر کہ وہ اِس آگ میں جلتا رہتا ہے لیکن دم نہیں مارتا اور قیامت تک اِس سے خلاصی نہیں پاتا- اِس مرتبے پر پہنچ کر بعض لوگ کافر و مشرک ہو جاتے ہیں اور بعض دیوانے و مجنون و مجذوب ہو جاتے ہیں- جو شخص اِس آگ کو برداشت کر لیتا ہے وہ لباسِ شریعت پہن کر خبردار و ہوشیار رہتا ہے اور خلق ِخدا کو نہیں ستاتا- ہزاراں ہزار مجذوب اِس آگ میں جل مرے- ہزاروں میں سے کوئی ایک ہی معرفت ِالٰہی کے آبِ رحمت سے سیراب ہو کر مرتبۂ محبوبیت تک پہنچا- میرا یہ قول میرے اپنے حال کے عین مطابق ہے-جان لے کہ جملہ طبقاتِ زمین و آسمان محض اسمِ اللہ ذات کے ادب میں بغیر کسی ستون کے ایستادہ ہیں اور قیامت تک اسمِ اللہ ذات کی طرف متوجہ رہیں گے- زمین و آسمان کی ہر چیز اسمِ اللہ ذات کی تسبیح میں مشغول ہے-فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’زمین وآسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں مشغول ہے کہ وہ غالب حکمت والا ہے-‘‘مزید فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’بے شک ہم نے اپنی امانت کو زمین و آسمان اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا لیکن وہ ڈر گئے اور اُس بار ِامانت کو اُٹھانے سے معذور ت کر لی لیکن اِنسان نے اُس امانت کو اُٹھا لیا، بے شک وہ (اپنے نفس کے لئے )جاہل و ظالم نکلا‘‘-خواب و مراقبہ کی کیفیت ایک جیسی ہوتی ہے بلکہ مراقبہ خواب سے زیادہ گہرا ہوتا ہے کہ صاحب ِخواب توشور وغوغا سے بیدار ہوجاتاہے لیکن جس پر مراقبہ غالب آجاتاہے وہ نورِ وحدانیت ِذات کے مشاہدہ میں غرق ہوکر اِس حالت کو پہنچ جاتاہے کہ اگر کوئی تن سے اُس کا سر بھی اُڑا دے تو اُسے خبر نہیں ہوتی-پس معلوم ہوا کہ مراقبہ موت کی مثل ہے لیکن موت کی مثل ہوتے ہوئے بھی مراقبہ میں شعور بیدار رہتاہے اور جواب باصواب پاتا رہتا ہے- مراقبہ سے عارفوں کو نور ِمعرفت کی سرفرازی نصیب ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اُن سے راضی رہتاہے اور وہ اللہ سے راضی رہتے ہیں، یعنی وہ اللہ کی دوستی پر راضی رہتے ہیں -فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’ لوٹ اپنے پروردگار کی طرف راضی ہوکر- پس میرے بندوں میں شامل ہوکر میری جنت ِقرب میں آجا‘‘- مراقبہ محرمِ اسرارِ الٰہی ہے-صاحب ِمراقبہ کی بیدار ی بھی خواب ہوتی ہے اور اُس خواب میں وہ ہوشیار رہتاہے اور بجز مشاہدۂ حق ماسویٰ اللہ کی دید سے استغفار کرتا ہے- مراقبہ سے محبت و معرفت اور ملاقات و مجلس ِمحمدی (ﷺ) کے مراتب حاصل ہوتے ہیں جو اہل ِمحبت محققین کا نصیبہ ہے- مردہ دل مردود لوگ مراتب ِمراقبہ سے محروم رہتے ہیں- مراقبہ مومنین کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی دائمی حضوری بخشتا ہے اِس لئے مراقبہ مومنین کے لئے معراج ہے جس طرح کہ نماز مومنین کے لئے معراج ہے - مراقبہ اور معرفت عارف باللہ کے لئے بال و پر کی حیثیت رکھتے ہیں کہ اُس کی نظر ہمیشہ معرفت ِالٰہی پر رہتی ہے-مراقبہ کی بہت سی اقسام ہیں-

الغرض! جب صاحب ِاشتغال اللہ دو زانو ہوکر سرجھکاتا ہے اور آنکھیں بند کر کے تصورِ اسم اللہ ذات کے مراقبہ میں غرق ہوتا ہے تو باطن میں اپنی آخرت سنوارنے کے لئے جسم کو دارالفنا سے دارالبقا میں لے جاتاہے اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ گویا وہ ایک بے جان مردہ ہے- اِس طرح وہ عین العیان کے مرتبے پر پہنچ جاتاہے جہاں اُس پر روحانیت کا از لی سودا سویدا ظاہر ہوتاہے اور حاضراتِ اسمِ اللہ ذات سے اُس پر تمام احوال منکشف ہو جاتے ہیں-صاحب ِاستغراق جان کنی کے مراحل سے گزر کر مردہ ہو جاتا ہے اور غسال آکر اُسے غسل دیتاہے، لوگ جمع ہوجاتے ہیں اور اُس کی نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں- پھر اُس کی روح کو مقامِ دماغ کی اُس ہڈی میں لایا جاتاہے جس کا نام استخوان الابیض ہے اور اُسے ولایت الابن کہاجاتاہے اور یہ زمین و آسمان سے زیادہ وسیع مقام ہے، یہاں پل بھر میں فرشتے اُس سے ستر ہزار سوال کرتے ہیں-(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر