ابیات باھوؒ : عِشق اسانوں لِسیاں جاتا کر کے آوے دھائی ھو

ابیات باھوؒ : عِشق اسانوں لِسیاں جاتا کر کے آوے دھائی ھو

ابیات باھوؒ : عِشق اسانوں لِسیاں جاتا کر کے آوے دھائی ھو

مصنف: Translated By M.A Khan جون 2022

ع:عِشق اسانوں لِسیاں جاتا کر کے آوے دھائی ھو
جِتوَل ویکھاں مینوں عِشق دِسیوے خالی جگہ نہ کائی ھو
مُرشد کامِل ایسا مِلیا جس دل دی تاکی لاہی ھو
مَیں قُربان اُس مرشد باھوؒ جِس دَسیا بھیت اِلٰہی ھو

Ishq seen us vulnerable and comes charging towards me Hoo

Whichever direction I glance I see ishq I could not find any space free Hoo

Met such murshid who has opened window of the heart for me Hoo

I sacrifice upon such murshid Bahoo who has made known secret of Elahi Hoo

Ishq asanoo’N lissya jata kr k aaway dhai Hoo

Jit wal wekhaa’N ishq diseeway Khali jagah na kai Hoo

Murshid kamil milya jis dil di taaki lahi Hoo

Main qurban os murshid Bahoo jis dassiya bhait ilahi Hoo

تشریح: 

ہر کہ در زندان بود عاجز تمام

 

بعد از مُردن شود واصل مدام

’’جو فقیر دنیا کے قید خانے میں مکمل عاجز و بے بس ہوجائے وہ مرنے کے بعد دائمی وصال سے مشرف رہتاہے‘‘-(نورالھدٰی )

در اصل اللہ عزوجل کی بارگاہ ِ اقدس میں عاجزی، مسکینی اور شکستہ دلی طالب کیلئے ایک نایاب تحفہ ہے جس کے ذریعے طالب مقصدِ حیات (معرفتِ الٰہی و مجلسِ محمدی (ﷺ)حاصل کرلیتا ہے- جیساکہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ ارشادفرماتے ہیں:

’’یہ نادر موتی جسے دل کہتے ہیں شکستگی سے جتنا عاجز ہوتا ہے اُتنی ہی اُس کی قیمت بڑھتی ہے‘‘- مزید ارشادفرمایا: ’’اپنے دل میں کبر و ہوا کا ذرہ بھی نہ آنے دے کہ کبر سے کبھی کوئی معزز مرتبہ پر نہیں پہنچ سکا ہے -تُو زلفِ محبوب کی طرح شکستہ دلی کو اپنا شیوہ بنا لے تاکہ تُو بھی ہزار ہا دلوں کو اپنا دیوانہ بنا سکے‘‘- (اسرارالقادری)

2: جب طالب اللہ ،مرشد کامل کی اجازت اور نگرانی میں غیراللہ سے توجہ ہٹا کر اپنے آپ کو اسم اللہ ذات کے ذکر میں مشغول کرتا ہے تو ’’فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللہِ‘‘ (پس تو جدھر بھی دیکھے گا تجھے اللہ کا چہرہ(انوار وتجلیات اور نور) ہی نظر آئے گا-البقرۃ:115)کا مصداق بن کر اسے ہر سُو اپنے مالک حقیقی کے جلوے اور انوار و تجلیات نظر آتے ہیں-جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒفرماتے ہیں :

’’جب سالک کے دل میں جمالِ حق تعالیٰ کا نور روشن ہوتا ہے تو تمام دل کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے، پھر مجال نہیں کہ وہ غیرحق خیال کو دل میں گزرنے دے- وہ تمام ولایت ِدل پرقابض ہو جاتا ہے - دل بھی تجلی کی گنجائش کے مطابق وسیع ہو جاتا ہے اور کسی وقت بھی مشاہدۂ تجلی سے خالی و بے بہرہ نہیں رہتا - وہ ظاہر باطن میں جدھر بھی دیکھتا ہے اُسے جلوۂ حق نظر آتا ہے ‘‘-( محک الفقرکلاں)

اس لیے آپؒ طالب اللہ کو نصیحت کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :" سن اے حق شناس ! معیت ِخدا حاصل کر اوراَللّٰہُ کے سوا ہر چیز کا نقش دل سے مٹا دے تاکہ ذاتِ حق کے سوا دل میں کچھ بھی باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان مبارک: ’’ کُلُّ مَنْ عَلَیْھَافَانٍo وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُ والْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ‘‘(  زمین پر جتنے ہیں سب کو فنا ہےاور باقی ہے تمہارے رب کی ذات عظمت اور بزرگی والا - الرحمٰن:26-27)کے مطابق صرف اُسی کے ہی جلوے تیرے دل میں باقی رہ جائیں‘‘-(عین الفقر)

3:جیسے دنیا وی علم یا ہنر سیکھنے کیلئے استا ذ کی ضرورت ہوتی ہے ایسے ہی روح کی بیداری اور رُوحانیت کے حصول کے لیے ایک رہبرِ کامل اور مرشد حق نما کی ضرورت ہوتی ہے  کیونکہ اُس کے بغیر دل کا مقصد حاصل نہیں ہوتا جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں :

’’ جس طرح کسی عامل اُستاد کے بغیر پارہ کشتہ ہو کر کھانے کے قابل نہیں ہوتا اُسی طرح عطائے مر شد ِکامل کے بغیر معرفت ِتوحید ِاِلٰہ ہرگز حاصل نہیں ہوتی کیونکہ وجودِ انسانی ایک طلسم کدہ ہے جسے صاحب ِطلسمات مرشد ہی کھول کر خزائن ِاِلٰہی بخش سکتا ہے اورصاحب ِمعما مرشد ہی وجود کے معما کو حل کر سکتا ہے- اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس‘‘(اسرار  القادری)

سلک باید سالکی را راہ ہادی پیشوا

 

سیر سرّش می رساند با محمد (ﷺ) اصفیا

4: ’’سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی ہادی(مرشد ِکامل)کو اپنا پیشوابنا لے تاکہ وہ اُسے اسرارِ الٰہی سے آگاہی بخش کر حضور نبی کریم (ﷺ) کی مجلس کی دائمی حضوری بخش دے‘‘ -( عین الفقر)

درحقیقت مرشد کامل کے سینہ مبارک میں اللہ عزوجل کی معرفت کے اسرارورموز پنہاں کامخزن ہوتا ہے جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں:

’’اِلٰہی تیرا راز ہر صاحب ِراز مرشد کے سینے میں جلوہ گر ہے ، تیری رحمت کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا ہے، جو بھی تیری درگاہ میں عاجزی سے آتاہے وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹتا‘‘ -(کلید التوحیدکلاں)

اس لیے آپؒ طالب مولیٰ کو نصیحت فرماتے ہیں کہ اگر تو معرفت الٰہی اور مجلسِ محمدی (ﷺ) کا صدقِ دل سے خواہاں ہے تو تیرے لیے مرشدِ کامل کے دامن سے وابستہ ہونے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں- جیساکہ آپؒ لکھتے ہیں :

’’ اے باھُوؒ ! جو شخص طلب ِمولیٰ کا دعویٰ کرتا ہے اُس کے لئے اِس سے بہتر اور کوئی عمل نہیں کہ وہ کسی مرشد ِکامل کو اپنا پیشوا بنا لے‘‘-(عین الفقر)

مزید ارشادفرمایا:’’الغرض ! ورد وظائف اور اعمال ظاہر سے طالب اللہ باطن میں کبھی بھی مجلس محمدی(ﷺ) کی حضوری تک نہیں پہنچ سکتا خواہ عمر بھر ریاضت کرتا رہے کہ راہ باطن صرف صاحب باطن مرشد کامل ہی سے حاصل ہوتی ہے کہ وہ پل بھر میں مجلس محمدی(ﷺ) میں پہنچا دیتاہے‘‘-(شمس العارفین)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر