حیات اولیا و مراتب اولیا: حضرت سلطان باھوؒ کی چند کُتب کےاقتباسات سے

حیات اولیا و مراتب اولیا: حضرت سلطان باھوؒ کی چند کُتب کےاقتباسات سے

حیات اولیا و مراتب اولیا: حضرت سلطان باھوؒ کی چند کُتب کےاقتباسات سے

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز ستمبر 2021

)یہ عنوان یوں تو تقریباً تقریباً سبھی اولیا ء اللہ کی کتب و تصانیف کا مشترکہ موضوع ہے ، لیکن زیرِ نظر مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ اس موضوع کو دسویں صدی ہجری (سولہویں صدی عیسوی) کے عظیم عارف باللہ سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھُوؒ کی تعلیمات و تصنیفات سے سمجھیں گے- اس میں اپنی رائے کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ تصانیفِ حضرت سلطان العارفین سے اقتباسات اخذ کر کے انہیں ترتیب و عنوانات دیئے ہیں (-

1-نورالہدیٰ

تین قسم کے لوگ قبر میں سلامت رہتے ہیں:

12سال تک روح قبر میں اپنے جسم کے پاس آتی جاتی رہتی ہے جیسے کوئی کسی کی بیمار پرسی کیلئے آتا جاتا ہے،لیکن تین آدمیوں کا جسم اللہ تعالیٰ کی امان میں سلامت رہتا ہے جیسا کہ وہ دورانِ حیات ہوتا تھا-اوّل علمائےعامل کا جسم،دوم فقرائے کامل کا جسم،سوم شہید مکمل اکمل کا جسم کہ یہ سب حضرات شہید اکبر ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد زندہ لوگوں سے ہم کلام ہوتے رہتے ہیں- [1]

اہلِ ناسوت (طالبِ دنیا و محبّ ِ دنیا) اور اہلِ لاھوت (اولیاء اللہ) کی موت میں کیافرق ہے؟

اہلِ ناسوت کی موت اُسے مرنے کے بعد قبر کے عذاب میں مبتلا کرکے خراب کرتی ہے جس سے اہلِ ناسوت کا وجود خاک و خاکستر ہو کر نیست و نابود ہو جاتا ہے لیکن اہلِ لاھوت لامکان کو جب موت آتی ہے تو قبر میں اُس کے جسم کے ساتوں اندام صحیح سلامت رہتے ہیں کیونکہ تصورِ اسم اللہ ذات کی وجہ سے اُس کا جسم نور بن جاتا ہے،قلب زندہ ہوجاتا ہے،روح مقدس ہوجاتی ہے اور وہ ہمیشہ انبیاء و اولیاء اللہ کی مجالس میں حاضر رہتا ہے -ایسی موت کو ”قرب المعبود“کہتے ہیں- اللہ تعالیٰ کے حکم سے دونوں جہان اہلِ نظر اؤلیاء اللہ کی نگاہ میں رہتے ہیں اور زندگی و موت اُن کے لئےیکساں ہوجاتی ہے بلکہ عالمِ حیات کی نسبت عالمِ ممات میں اُن کے مراتبِ قربِ حق تعالیٰ بڑھ جاتے ہیں اور اُن کی قوتِ توفیق میں اضافہ ہو جاتا ہے-حضور علیہ الصلوٰۃُوالسلام کا فرمان ہے:بے شک اؤلیائے”اَللہُ“مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوجاتے ہیں- [2]

اؤلیاء اللہ موت کے بعد توحیدِ الٰہی میں غرق رہتے ہیں:

زندہ دل اؤلیاء اللہ ہر گز نہیں مرتے،اؤلیاءکیلئے تو قبر لقائے حق کا خلوت خانہ ہوتی ہے-مرنے کے بعد وہ پاک نوری صورت اختیار کرکےتوحید ِ الٰہی میں غرق ہوجاتے ہیں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حضوری میں رہتے ہیں-لوگ انہیں زیرِ خاک قبر کا مردہ سمجھتے ہیں لیکن وہ سر بسر دیدارِ الٰہی میں محو ہوتے ہیں-اؤلیاء اللہ ہرگز نہیں مرتے بلکہ وہ دیدارِ الٰہی میں غرق رہتے ہیں اور ان کے وجودمیں طمع و حرص و ہوس جیسے خصائل ِبد مرجاتے ہیں- [3]

بعض اولیاء اللہ اپنی قبروں سے باہر آکر بھی ارشاد و تلقین کا فریضہ سرانجام دیتے رہے ہیں:

اولیاء اللہ مرتے نہیں ہیں بلکہ اپنی زندگی کو عالمِ ممات میں لے جاتے ہیں اور مرنے کے بعد خود کو زندہ کرلیتے ہیں-بعض عالم باللہ اولیاء اللہ کا یہ طریقہ رہا ہے کہ قبروں سے باہر آکر اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے رہے ہیں اور اپنے طالبوں کو ذکر اللہ کی تلقین کرتے رہے ہیں-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ”بے شک اولیاء اللہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوجاتے ہیں“-جو شخص دنیوی گھر میں اپنے نفس سے مفرور ہو جاتا ہے وہ قبر کے گھر میں صاحبِ مشاہد حضور ہوجاتا ہے اور اس کی روح فرحت یاب ہوجاتی ہے- [4]

اولیاء اللہ کی وفات کے بعد لوگ کیا سمجھتے ہیں؟

لوگ سمجھتے ہیں کہ وفات کے بعد اؤلیاء اللہ قبر میں زیرِ خاک دفن ہوتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے پاک روحی وجود کے ساتھ حضورِ حق میں حاضر رہتے ہیں-اکثر اُن کی قبریں گمنام و بے نشان ہوتی ہیں کہ وہ اپنے روحی جسم کو قبر سے نکال کر لامکان میں لے جاتے ہیں-جب کوئی عارف اُن کا نام لے کر انہیں پکارتا ہے تو وہ حاضر ہوکر اُسے گفتگو کرتے ہیں اس طرح کی موت کوعین زندگی کہا گیا ہے کہ اِس سے قیدِ دنیا سے دائم خلاصی نصیب ہوتی ہے- [5]

مرنے کے بعد مجھے ایسا وصال نصیب ہوا ہے کہ میرے ساتوں اندام ”اَللہُ،اَللہُ “پکارتے رہتے ہیں- [6]

فقیر ولی اللہ کسے کہتے ہیں؟

فقیر ولی اللہ اُسے کہتے ہیں جو تصورِ اسم اللہ ذات کی توجہ سے کونین کا ہر مرتبہ و ہر درجہ کھول کر اپنے تصرف میں لا سکتا ہے اور تفکرکے ذریعے کل وجز کے 18ہزار عالم کو اپنے سامنے حاضر کرکے ہر عالم کو فیض و فضل سےبہرہ ور کرسکتا ہے-ایسے مرتبہ کے حامل فقیر کو بھی ولی اللہ فقیر کہتے ہیں- [7]

فقیر (ولی اللہ ) کے مراتب:

جان لے کے فقیر کو قربِ الٰہی میں اعلیٰ مرتبہ حاصل ہوتا ہے-وہ اللہ تعالیٰ کا رفیقِ باتوفیق اور صاحبِ دیدار ہوتا ہے- وہ عارف ولی اللہ، محقق عالم باللہ اور روشن ضمیر ہوتا ہے جو کونین (دونوں جہان) پر امیر ہوتا ہے، کل و جز کی تمام مخلوق اُس کی قیدی اور اسیر ہوتی ہے،لوحِ محفوظ پوری تفسیر کے ساتھ اُس کے مطالعہ میں رہتی ہے، وہ دائمی طور پر حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی مجلس میں حاضر رہتا ہے اور وہ اہلِ قبور کی روحانیت پر حاکم ہوتا ہے کیونکہ وہ صاحبِ بصارت اور صاحبِ”قم باذن اللہ “ ہوتا ہے- [8]

عارف فقیر مالک الملک ہوتا ہے:

عارف فقیر مالک الملک ہوتا ہے (اشارہ اس آیت مبارکہ کی جانب ہے ’’اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ‘‘   کل و جز کی ہرچیز پر اُس کا حق ہوتا ہے کیونکہ وہ ہر شے پر حاکم و امیر ہوتا ہے-عارف باللہ کی نظر حقیقتِ احوال پر رہتی ہے اور یہ مرتبہ وہ بارگاہِ مصطفٰے علیہ الصلوٰۃ ُ و السلام سے پاتا ہے-زندگی ہویا موت ہو وہ ہر حال میں اہلِ نجات ہوتا ہے اور وہ تصورِ اسم اللہ ذات کی ایک ہی توجہ سے مردے کو زندہ کرنے پر قادر ہوتا ہے- [9]

2-عینُ الفقر

اؤلیاء اللہ لایحتاج ہوتے ہیں:

لوگوں کو نفس ہی نے محتاج بنا رکھا ہے ورنہ آدمی اگر نفس سے خلاصی پالے تولایحتاج بن جاتا ہے-پس اؤلیاء اللہ لایحتاج ہوتے ہیں اور اؤلیاء اللہ اہلِ فقر کو کہتے ہیں-فقر خود لا یحتاج ہے اور ہرشے اُس کی محتاج ہے- [10]

مُردہ دل آدمی سے فقیر کی قبر بہتر ہے:

اگر میں مربھی گیا اور مجھے زمین میں دفنا دیا گیا تومیری جان و تن ومن ذکر اَللہُ میں مشغول رہیں گے-جب منکر نکیر میرے پاس آئیں گے تو میں اُن کو اپنا مافی الضمیر میں دکھادوں گا-پھر وہ مجھ سے کہیں گے اے سونے والے تیری قبر نہایت عمدہ خلوت خانہ ہے،اس میں اللہ تعالیٰ کی ہم نشینی حاصل کر-اے باھُو! ایک مُردہ دل آدمی سے فقیر کی قبر بہتر ہے کہ اُس سے تو جو کچھ طلب کرے گا وہ تجھے آسانی سے مل جائے گا-حضور علیہ الصلوٰۃُ والسلام کا فرمان ہے: ”موت ایک پُل ہے جو حبیب کو حبیب سےملاتا ہے“-اے باھُو! تن مردہ اور دل زندہ ہوتو بندہ اللہ تعالیٰ کا حبیب بن جاتا ہے اور اگر تن زندہ اور دل مردہ ہوتو بندہ قربِ حق سے محروم رہتا ہے- [11]

ذاکر کا دل مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے:

ذاکر کا دل مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے اور اُس میں جان باقی رہتی ہے-زندہ دل ہر گز نہیں مرتا-مٹی اور کیڑے اُس کا گوشت ہر گز نہیں کھاتے چاہے ہزارہاسال ہی کیوں نہ گزر جائیں- [12]

3-امیر الکونین

عارفِ روحانی اور عارفِ لامکانی کے لئےموت وحیات برابر ہوتی ہے:

عارفِ روحانی اور عارفِ لامکانی کے لئےموت وحیات برابر ہوتی ہے-اگر چہ وہ بظاہر مراتبِ موت کی قوت سے لوگوں کی نظروں سے غائب خلقِ خدا سے جدا ہوتے ہیں لیکن وہ زندہ لوگوں پر غالب ہوتے ہیں- لوگ انہیں زیرِ خاک مردہ سمجھتے ہیں لیکن خلوتِ قبر میں انہیں قربِ خدا حاصل ہوتا ہے اور وہ ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی مجلس میں حاضر رہتے ہیں-اؤلیاء اللہ فقیر جس طرح زندگی میں لوگوں کو طالب مرید بنا کر انہیں علم کی تعلیم اور معرفت کی تلقین سے سنوارتے ہیں مرنے کے بعد وہ یہ کام زندگی سے دوگنا زیادہ کرتے ہیں- [13]

اہلِ قبور(اولیاء اللہ) سے ہر مطلب حاصل کیا جاسکتا ہے:

اؤلیاء اللہ فقیر اپنے وجود کو قبر سے نکال کر خدا کے ساتھ رہتے ہیں،وہ قبر میں ہرگز نہیں رہتے-وہ ہروقت مجلسِ مصطفےٰ علیہ الصلوٰۃُ و السلام میں اُن کے ہم مجلس رہتے ہیں لیکن اگر اُن کی قبر پر جا کر اُن کا نام لیا جائے تو وہ قبر میں حاضر ہو جاتے ہیں-تُو اپنا ہر مطلب اہلِ قبور سے حاصل کرسکتا ہے اور اُن کی حضوری سے اپنے ہرسوال کا جواب پاسکتا ہے-بعض اؤلیاء اللہ فقیر گم قبر و گمنام و بے نشان ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے جسم کو اپنے ساتھ لامکان میں لے جاتے ہیں- [14]

اؤلیاء اللہ کو مُردہ نہ کہو:

حضور علیہ الصلوٰۃُ و السلام کا فرمان ہے:خبردار بے شک اؤلیائے اَللہ مرتے نہیں بلکہ وہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوجاتے ہیں-یہ مرتبہ ان اہلِ دیدار اؤلیاء اللہ کا ہے جو مرنے سے پہلے مرکر امر ہوجاتے ہیں-کسی کامل روحانی کی قبر پر حاضری دے تاکہ تیرا ہر مطلب پورا ہو اور روحانی تجھے تیرے مطلوبہ مقام پر پہنچا دے-فرمان ِ حق تعالیٰ ہے:”اور جو لوگ خدا کی راہ میں قتل ہوجائیں انہیں مُرد ہ مت کہو کہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں“-جو کوئی اؤلیاء اللہ کو مُردہ کہے وہ خود مُردہ ہےکہ اؤلیاء اللہ تو دنیا سے حیاتِ جاوداں لے کر جاتے ہیں-اؤلیاء اللہ تصورِاسم ِ اللہ ذات سے دائم حیات پاکر خلقِ خدا سے مکمل نجات پاجاتے ہیں- [15]

اؤلیاء اللہ مثلِ آفتاب قبر میں فیض رسانی کرتے ہیں:

اؤلیاء اللہ مثلِ آفتاب قبر میں فیض رسانی کرتے ہیں، جو بھی اُن کا نام لے کر اُنہیں پکارے وہ عیاں ہوکر حاضر ہو جاتے ہیں- [16]

قبر میں عارفانِ ذاتِ حق دائم حیات رہتے ہیں:

خلوت قبر میں سوائے ذاتِ حق کے فرشتوں کی کوئی جگہ نہیں،وہاں تو فقط عارفانِ ذاتِ حق دائم حیات رہتے ہیں-قبر میں جانا گویا وحدتِ حق کے نور میں غرق ہونا ہے کہ قبر میں لقائے حق کی یافت اور حق بحق حضوری ہوتی ہے-[17]

اہلِ راز(اولیاء اللہ) کا مرتبہ :

باھُو کی قبر سے ہر وقت ھُوھُو کی آواز آتی رہتی ہے کہ راہِ حضوری میں اہلِ راز کے یہی مراتب ہیں- [18]

4-عقلِ بیدار

اؤلیاء اللہ کی موت سے کیا مراد ہے؟

اؤلیائے اَللہُ مرتے نہیں کہ وہ حیات اسم اَللہُ سے دائم زندہ ہو جاتے ہیں اور پھر مرتے نہیں کہ اؤلیائے اَللہُ کی موت سے مراد اُن کی خطراتِ خلق سے نجا ت ہے-حضور علیہ الصلوٰۃُ والسلام کا فرمان ہے:’’جو کوئی اَللہُ کا عارف بن جاتا ہے اُسے مخلوق کے میل جول میں مزہ نہیں آتا‘‘-[19]

اؤلیاء اللہ کو مردہ سمجھنے والاکون ہے؟

فقیر کی قبر گمنام ہوتی ہے اور اُس کا جسم و جان بھی گمنام رہتا ہے کہ وہ اپنے جسم کو اپنے ساتھ لامکان میں لے جاتا ہے-جو کوئی اؤلیائے اَللہُ کو مردہ سمجھتا ہے وہ افسردہ دل عقل و خرد سے محروم ہے- [20]

اؤلیائے اَللہُ فقیر مرنے کے بعد مراتبِ عروج کی طرف انتقال کرتے ہیں:

انتقال کی اصل ذاتِ حق کا وصال ہے-یہی وجہ ہے کہ اؤلیائے اَللہُ فقیر مرنے کے بعد مراتبِ عروج کی طرف انتقال کرتے ہیں اور روحانی طیر سیر سے ترقی پذیر ہوکر بلند سے بلند مراتب پر پہنچتے ہیں-اؤلیائےاللہُ ایک ہی دم میں ہزار ہا احوال سے گزرتے ہیں،کبھی وہ مراتبِ لا الہ (کے مشاہدہ ) پر ہوتے ہیں،کبھی مراتبِ الا للہ (کے مشاہدہ) پر، کبھی مراتبِ محمد رّسول اللہ (کے مشاہدہ) پر اور کبھی مراتبِ نور حضور (کے مشاہدہ) پرہوتے ہیں- [21]

اؤلیاء اپنی قبروں سے باہر بھی آسکتے ہیں:

اؤلیاء کی قبر جنت کا گھر ہے جوکوئی اس حقیقت سے آشنا نہیں وہ بیگانہ ہے-اؤلیائےاللہُ اپنی قبروں سے باہر بھی آسکتے ہیں اور حکمِ الٰہی سے وہ تجھ سے گفتگو بھی کر سکتے ہیں-وہ طالبانِ حق کو دلیل و الہام سے آگاہی بخشتے ہیں اور روح سے پیغام دیتے ہیں کہ اُن کی روح خلیقِ حق ہوتی ہے-جس کے پاس چشمِ بینا ہے وہ ان مراتبِ حضوری کو دیکھ لیتا ہے لیکن بے شعور نابینا ان مراتب کو کہاں دیکھ سکتا ہے؟ جو کوئی ان مراتب پر پہنچ جاتا ہے اُس کیلئے موت و حیات برابر ہو جاتی ہے-[22]

انبیائے کرام اور اؤلیاء اللہ کی موت در اصل اُن کا مرتبہ معراج و مشاہدہ حضوری ہے:

انبیاء و اؤلیائے اللہ کی موت اُن کا مرتبہ معراج و مشاہدہ حضوری ہے کیونکہ موت کے بعد انبیاء و اؤلیائے اللہ کو سیرِ درجات میں ترقی اور دائمی زندگی حاصل ہوتی ہے جس سے وہ ہمیشہ زندہ ہی زندہ رہتے ہیں اور بندے اور رب کے درمیان دونوں جانب تعلق قائم رکھتے ہیں- [23]

اؤلیاء اللہ خزائن الٰہی کے مالک ہوتے ہیں:

تو اس میں تعجب نہ کر اور نہ ہی اس کا انکا ر کر کہ اؤلیائے اللہ کو ہر قسم کی توفیق حاصل ہوتی ہے اور بے شک وہ خزائن الٰہی کے مالک ہوتے ہیں- [24]

5-کلیدُ التوحید( کلاں)

 اولیاء اللہ (اہل اللہ ) کی قبر سے زیر و زبر کی ہر حقیقت کھلتی ہے:

قبر اہلِ خبر اؤلیاء اللہ کا خلوت خانہ ہوتی ہے اس لئےتُو اپنا ہر مطلب اؤلیاء اللہ کی قبر سے حاصل کر-اہل اللہ کی قبر سے ہر مشکل حل ہوجاتی ہے- کیونکہ اہل اللہ کی قبر سے زیر و زبر کی ہر حقیقت کھلتی ہے-اے باھُو!اہل اللہ کے مزار پرعلمِ دعوت[25] پڑھنے سے پہلے ہی روز حضوری حق نصیب ہوجاتی ہے- [26]

اؤلیاء اللہ کو بارگاہِ الٰہی سے تصرف حاصل ہوتا ہے:

اؤلیاءاللہ کو بارگاہِ الٰہی سے بادشاہی فقر حاصل ہوتی ہے اس لیے سات ولایتوں میں اُن کے نام کا ڈنکا بجتا ہے اور ساتوں ولایتیں اُن کے تصرف میں رہتی ہیں- [27]

اہلِ زندہ دل (اولیاء اللہ ) ہرگز نہیں مرتے:

جو شخص زندہ دل ہوکر ولی اللہ بن جاتا ہے وہ ہر گزنہیں مرتا -لوگوں کی نگاہ میں وہ مرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ مرتا نہیں کہ اُس کا دل زندہ ہوجاتا ہے-اے باھُو!اہلِ زندہ دل ہرگزنہیں مرتے،میرے لیے تو موت وصلِ خدا کی رہنما ہے-[28]

تُو اپنا ہر مطلب اہلِ قبور انبیاء واؤلیاء کی ارواح سے طلب کر:

تُو اپنا ہر مطلب اہلِ قبور انبیاء و اؤلیاء کی ارواح سے طلب کر کہ جب طالب کی ملاقات کسی اہلِ قبر روحانی سے ہوتی ہے تو وہ اُسے کون و مکان سے نکال کر لامکان میں پہنچا دیتا ہے- [29]

 اؤلیاء اللہ مرتے نہیں بلکہ نقل مکانی کرتے ہیں:

اُمتِ محمدی(ﷺ) کے فنا فی اللہ وفنافی ذات اؤلیائے اَللہُ کو موت نہیں آتی بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے چلے جاتے ہیں چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃُ و السلام نے فرمایا ہے: خبردار! بے شک اؤلیائے اَللہُ مرتے نہیں بلکہ وہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں نقل مکانی کرجاتے ہیں- [30]

اؤلیاء اللہ کے لئے قبر اُن کے جسم و جان کی مثل ہے:

اؤلیاء اللہ کے لئے قبر اُن کے جسم و جان کی مثل ہے لہٰذا اُن کو قبر میں سویا ہوا ہی جانو-قبرمیں سونے والے اؤلیاء اللہ کو بیدار کرکے اُن سے گفتگو کرو اور اُن سے دوستی بڑھاؤ-جب کسی اہلِ قبر روحانی کا کلام دل میں سنائی دینے لگے تو سمجھ لو کہ قبر میں کوئی زندہ دل عارف رہتا ہے -[31]

6-محک الفقر کلاں

اؤلیاء اللہ کی قبر اُن کیلئے خواب گاہ ہے:

جس آدمی کو مرنے کے بعدمقامِ علیّین اور مجلسِ محمدی (ﷺ) کی حضوری میں تمام انبیاء و اؤلیاء سے ملاقات کا شرف حاصل ہوجاتا ہے اُس کیلئے حیاتِ دنیا حیرانی و پریشانی و بے جمعیتی کا باعث بن جاتی ہے-اس طرح کی موت پانے والے اؤلیاء اللہ کو قبر میں مردہ تصور مت کروکہ ا ُن کی قبر اُن کیلئے محض ایک خواب گاہ ہے جہاں وہ دلہن کی طرح مزے کی نیند سوتے ہیں اور قیامت تک یہ نیند اُنہیں محض ایک لمحے کا خواب معلوم ہوتی ہے-اگراؤلیاء اللہ کو مرنے کے بعد اس طرح کی زندگی نصیب نہ ہوتی اور خواب نما موت سےمجلسِ سبحانی کا شرف حاصل نہ ہوتا تو بےشک وہ موت اختیار نہ کرتے- [32]

اؤلیاء اللہ کو قبروں میں سویا ہوا سمجھو:

اؤلیائے اَللہ  کی قبریں اُن کے جسم و جان کی مانند ہوتی ہیں، اؤلیائے اَللہ کو قبروں میں سویا ہوا سمجھو-اِن سونے والوں کو قبروں سے بیدار کرکے انِ سے دوستی کرلو اور اِ ن سے گفتگو کرو-اُن کےدل لوگوں کے دلوں سے ہم کلام ہوتے ہیں،اُن کی قلبی گفتگو سراسرالہامِ الٰہی پر مبنی ہوتی ہے- اؤلیائے اَللہ زبانِ قلب سے ہر وقت لوگوں کے دلوں سے ہم کلام رہتے ہیں کیونکہ وہ زیرِ زمین زندہ ہوتے ہیں- [33]

عارفوں کی قبریں اُن کیلئے خاص خلوت گاہ ہوتی ہیں:

عارفوں کی قبریں اُن کے لئے خاص خلوت گاہ ہوتی ہیں جہاں وہ خلق سے جدائی اختیار کرکے معیتِ خالق اختیار کئے رہتے ہیں-قبر عارفوں کو ذاتِ حق کی آگاہی بخشتی ہے کہ قبر میں پہنچ کر عارف کا سارا وجود ذاکر بن جاتا ہے- اؤلیائے اَللہُ فقیر مرتے نہیں بلکہ وہ زندہ رہ کر ہر وقت اسم اللہ ذات کے نور میں غرق رہتے ہیں-[34]

کیسی موت حیاتِ ابدی کہلاتی ہے؟

خلق کے نزدیک وہ(ولی اللہ) مرجاتاہے اور لوگ اُسے قبر میں دفنا بھی دیتے ہیں لیکن خالق کے نزدیک وہ زندہ ہوتا ہے-حضور علیہ الصلوٰۃُ والسلام کا فرمان ہے:’’موت ایک پل ہے جو محبوب کو محبّ سے ملاتا ہے‘‘-اُس کا جسم قبر کی کھال میں تہہِ خاک ہوتا ہے اوراُس کی روح بالائے عرش یار کی ہم مجلس ہوتی ہے-ایسی ہی موت کو حیاتِ ابدی کہتے ہیں-[35]

٭٭٭


[1](نورالھدیٰ،ص:65)

[2](نورالھدیٰ،ص:323)

[3](نورالھدیٰ،ص:69)

[4](نورالھدیٰ،ص:149)

[5](نورالھدیٰ،ص:471)

[6](نورالھدیٰ،ص:473)

[7](نورالھدیٰ،ص:309-311)

[8](نورالھدیٰ،ص:189)

[9](نورالھدیٰ،ص:296-297)

[10](عین الفقر،ص:133-135)

[11]( عین الفقر، 185)

[12](عین الفقر،ص:261)

[13](امیر الکونین، ص:359-361)

[14](امیر الکونین ،ص:361(

[15](امیر الکونین ،ص:361(

[16](امیر الکونین ،ص:409)

[17](امیر الکونین ،ص449)

[18](امیر الکونین ،ص449)

[19](عقلِ بیدار،ص:93)

[20]( عقلِ بیدار،ص:77)

[21](عقلِ بیدار،ص:211)

[22](عقلِ بیدار،ص: 259)

[23](عقلِ بیدار،ص:313)

[24](عقلِ بیدار،ص:157)

[25](حضرت سلطان باھو (﷫) نے اپنی کتب میں علمِ دعوت، دعوت ِ قبور اور اہلِ دعوت سے متعلق مستقل ابواب باندھے ہیں- آپؒ کے ہا ں یہ ایک خاص قسم کا طریق ہے جو خاص الاخص لوگوں کا نصیب ہے- اس موضوع پر علیحدہ سے تفصیلی گفتگو کی جاسکتی ہے-آپؒ نے دعوت قبور کا تذکرہ کرتے ہوئے کثیر مرتبہ یہ حدیث مبارکہ نقل فرمائی ہے کہ جب تم اپنے معاملات میں پریشان ہوجاؤ تو اہل قبور سے مدد مانگ لیا کرو -یہ حدیث مبارکہ حیات اؤلیاء پر سب سے بڑی دلیل ہے -الغرض سلطان العارفین ؒ کے دعوتِ قبور کے فلسفے کو سمجھنے کیلئے آدمی کو عالم باعمل اور تصوف و روحانیت سے قلبی و عملی شغف ہونا چاہئے وگرنہ یہ موضوع سر سے گزر جائے گا(-

[26](کلید التوحید کلاں،ص:167)

[27](کلید التوحید کلاں،ص:181(

[28](کلید التوحید کلاں،ص:313)

[29](کلید التوحید کلاں،ص:329)

[30](کلید التوحید کلاں،ص:637)

[31](کلید التوحید کلاں،ص:667(

[32]( محک الفقر کلاں،ص:203

[33](محک الفقر کلاں،ص:273)

[34](محک الفقر کلاں،ص:217-219)

[35](محک الفقر کلاں،ص: 527)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر