سماج اور تصوف

سماج اور تصوف

اُمتِ مسلمہ کا خلافت سے ملوکیت کی جانب سفر کا آغاز ہوا تو مسلمانوں کی قیادت دو حصوں میں بٹ گئی- ایک طرف بعض مواقع پہ سیاسی قیادت اُن لوگوں کے ہاتھوں میں آئی رہی ، جن کے شب و روز اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی تدبیروں میں بسر ہوتے اور جو مسلمانوں کی گردنوں پر محض اِس بنا پر سوار ہوگئے تھے کہ اُن کے پاس قبائلی عصبیتوں، مکارانہ چالوں اور قوت و دولت کا سرمایہ وافر مقدار میں تھا وہ اپنے اقتدار کی شبِ تاریک کو طول دینے کے لیے سب کچھ کر گزرنے کیلئے تیار ہوتے تھے ، دھوکہ، فریب، عیاری، مکاری ،ترغیب و تحریص، ظلم و ستم، وحشت و بربریت حتیٰ کہ ایمان فروشی سے بھی دریغ نہ کرتے    -

دوسری طرف وہ علمائے ربانیّین ، اولیائے کاملین اور بزرگانِ دین تھے جن کا سرمایۂ حیات خدا خوفی، صبر ، توکل، تقویٰ، فقر، محاسبہ، تزکیہ، اخلاص ، امانت ، دیانت، اور اعلائے کلمۃاللہ تھا- خاتم الابنیا محمد رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ تعلیمات کا پرچار ان کی زندگی کا مشن و مقصد تھا اور وہ اِس سلسلے میں کسی کمزوری اور مداہنت کا مظاہرہ نہ کرتے- انہیں اپنے مقصد و مشن سے عشق تھا- یہی وہ طبقہ تھا جس نے مسلمانوں کے روحانی استحکام کی لگام تھامے رکھی- دُنیا کے کئی دیگر خطوں کی طرح برِصغیر پاک و ہند میں بھی اشاعتِ اسلام کا سہرا اُنہی کے سر جاتا ہے جن کے علم و عمل سے یہاں کے چپے چپے پر اسلام کا نور پھیلا ۔اُن کی شبانہ روز محنتوں اور پاکیزہ و مطاہر روحانی زندگیوں سے متاثر ہو کر حلقہ بگوشِ اسلام ہونے والوں کی تعداد بے شمارہے -ہر چند کہ صوفیا کے پاس نہ کو ئی سلطنت ہوتی اور نہ سرکاری عہدہ حتیٰ کہ وہ اکثر اوقات رعایا کے عام افراد سے بھی بڑھ کر تنگدست اور مفلوک الحال ہوتے لیکن ان کے حقیقی اقتدار کا دائرہ بہت وسیع تھا، انسانی دل و دماغ پر حکومت کرنے والے یہ لوگ بیک وقت لاکھوں کروڑوں انسانوں کے مرجع عقیدت ہوتے اور اُن کی بے باکی اور فراست سے بڑے بڑے فرعون صفت سلاطین و حکمران بھی قائل تھے    -

 

یہی وہ لوگ تھے جن کی خانقاہوں اور مجالس میں بیٹھنے والے افراد بڑے بڑے کجکلاہوں کو خاطر میں نہ لاتے مساوات اور انسانی اقدار کا اِس قدر پاس تھا کہ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے -اسلام کے عالمگیر پیغام سے انسانیت کو روشناس کرانے اور اسلام کی عالمگیر اور ابدی سچائیوں کو انسانی اذہان میں راسخ کرنے کیلئے جو کارنامہ صوفیا نے انجام دیا اور آقا دوجہان  کی سُنّت کے مطابق ’کہنے سے زیادہ عملی نمونہ‘ پیش کرنے کی جو تکنیک انہوں نے اپنائی وہ اپنی مثال آپ ہے-

تاریخ کے صفحات و اوراق پلٹ کر دیکھیں کہ اُن ہستیوں میں اشاعتِ دین کا جذبہ کتنا بلند اور کتنا وسیع تھا - اُن کی ایک ایک سانس اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف تھی- کس نے کہا کہ صوفیائ زیست کے ہنگاموں اور سرگرمیوں سے دور تھے ؟ اُن کے ہاں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور جہاد کا ظاہری سبق بھی دیا جاتا اور ان عبادات کے باطنی پہلؤں کی بھی تربیّت کروائی جاتی -

صوفیا عبادات کو ان کے باطن سے ادا کرنے کی تربیّت کرواتے کہ ابتداً تو اس کی پاندی کی عادت ڈالی جائے پھر جیسے جیسے درجات میں ترقی کرتا جائے ویسے ویسے عبادت کے باطن میں اُترتا چلا جائے- مثلاً : وہ پانچ وقت کی نماز کے ساتھ ساتھ پوری زندگی کو نماز بنانے کا داعیہ رکھتے تھے ،وہ صرف پانچ وقت ہی خدا کے حضور حاضر ہونے پر نہیں بلکہ ہمہ وقت خدا کے ہاں حاضری پر زور دیتے تھے، وہ چہرے کا رُخ کعبہ کی جانب موڑنا ہی کافی نہ سمجھتے تھے جب تک دل ربِ کعبہ کے آگے نہ جھک جائے ،روزہ کا تصور اُن کے ہاں یہ تھا کہ صرف یہ نہیں کہ پیٹ کو روٹی اور پانی سے خالی رکھا جائے بلکہ دل کو شیطانی وسوسوں اور نفسانی خیالات سے بھی خالی رکھنا ضروری تھا ،وہ اَیسے روزے کو کوئی اہمیت نہ دیتے جسکا نتیجہ ضبطِ نفس اور تقویٰ کی صورت میں نہ نکلے وہ ایسی بھوک پیاس کو پسند نہ کرتے جو کسی بھوکے پیاسے کی بھوک پیاس کا احساس پیدا نہ کرے - زکوٰۃ سے متعلق وہ صرف ڈھائی فیصد پر ہی قناعت نہ کر بیٹھتے، اُن کے ہاں سب کچھ راہ خدا میں دے دینا زکوٰۃ تھا ۔ تجوری سے سکوں کا نکال دینا ہی زکوٰۃنہ سمجھی جاتی ، جب تک دل کے نہاں خانوں سے مال و زر کی محبّت کو نکالا نہ جاتا، زکوٰۃ سے مال پاکیزہ ہوجاتا ہے، وہ دل کی پاکیزگی کو بھی مد نظر رکھتے- حج کے لیے جاتے تو دیدارِ حرمین و زیارتِ مقدّسات کے ساتھ ساتھ قربِ خدا کو اوّلیت دیتے، مِنٰی میں مینڈھے کی قربانی کے ساتھ اپنے نفس کی بری خواہشات پہ بھی چھری پھیرنا لازمی سمجھتے - وہ جہاد فی سبیل اللہ کیلئے بھی سربکف رہتے اور جہاد فی اللہ کی طیر سیر سے بھی شرف یاب ہوتے ، اُن کے ہاتھ دُشمنِ دین یعنی کفار و مشرکین کے خلاف برسرِ پیکار ہوتے اور اُن کے باطن دشمنِ ایمان یعنی نفس و شیطان کی سرکوبی میں مشغول رہتے -

 اگر ہم صوفیائ کی کتب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے حقیقی پاسبانِ شریعت بھی یہی لوگ ہیں -

سُلطان العارفین حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہ، فر ماتے ہیں کہ : -

’’شریعت کی پیروی سے باطن میں اللہ تعالیٰ کا قرب و وصال اور معرفت الا اللہ نصیب ہوتی ہے - عارف باللہ فقیر خواہ حالتِ مستی میں ہو یا ہوشیاری میں وہ ہر حال میں صاحبِ بندگی ہوتا ہے کہ شریعت سے ہٹ کر ہر راہ ، خدا سے دوری اور قہر ِمحمدی ﷺ کی راہ ہے جو سراسر استدراج وگندگی ہے خواہ کوئی خلق کے سامنے کیسا ہی دعویٰ و مظاہرہ کرتا پھرے‘‘- ﴿محک الفقر، ص ۹۸۳

 

 ایک اور جگہ فرماتے ہیں :-

’’ شریعتِ محمدی ﷺ کو ابتدا سے انتہائ تک زیرِ عمل رکھ کہ یہی دین کی بنیاد ہے‘‘-

حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہ، شریعت محمدی ﷺ کے ساتھ اپنی والہانہ وابستگی کو یوں بیان فرماتے ہیں:-

شریعت مصطفے ﷺ  را جان سپارم

’’میں شریعت مصطفےٰ ﷺ پر جان فدا کرتا ہوں‘‘ ﴿امیر الکونین، ص۳۲۴

شیخِ محقّق شاہ عبد الحق محدث دہلوی (رح)فرماتے ہیں:-

’’جو صوفی شریعت اور طریقت میں فرق کرے وہ صوفی نہیں بلکہ فرقہ باطلیہ سے تعلق رکھتا ہے‘‘- ﴿اخبار الاخیار﴾

ایک اور جگہ فر ماتے ہیں :-

’’صوفیائ کرام کتاب و سنت کے عامل تھے اور شریعت و طریقت کی تمام ظاہری اور باطنی حدود کا احترام کرتے تھے‘‘-

کتبِ تاریخ گواہ ہیں کہ صوفیا نے شریعت ِمحمدی ﷺ کو اپنائے رکھا وہ تو ہمیشہ کہتے رہے کہ ہماری طریقت کی بنیادیں کتاب و سنت پر ہیں جو اُن کی مخالفت کرتا ہے ہمارے نزدیک وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور ہم اسے منکر احکام رسول(ص) جانتے ہیں جو شخض قرآن و حدیث پر غور نہیں کرتا اور علما و فقہا سے دور رہتا ہے وہ بے ادب ہے اور تباہ و بر باد ہوگا- صوفیائ کے آئمہ میں شمار ہونے والے حضرت امام ابوالقاسم القشیری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تک فر ما دیا :-

’’ظاہر میں سنت کے خلاف کرنا باطن میں ریا کاری کی علامت ہے‘‘- ﴿رسالہ قشیریہ ،ص ۲۶

صوفیائ کرام نہ صرف’’ جہادِ زندگانی ‘‘کی اصل رمز سے آگاہ تھے بلکہ ان کی زندگانی سراسر جہاد سے عبارت تھی- انہوں نے نہ صرف بگڑے نوابوں، بدمست جاگیرداروں ،جابر وظالم بادشاہوں ،بے لگام حکمرانوں ،نخوت و کبر میں چور رئیسوں ،عیش و عشرت میں غرق مہاراجوںاور بے ضمیر وزیروں کو للکارا اور بر سر عام للکارا بلکہ ان کی تنقید و تنبیہ کا ہدف وہ علمائ بھی بنے جو اپنے عالی منصب سے فروتر ، بادشاہوں کی کاسہ لیسی اور جاگیرداروں کی خوشامد کو اپنا دین سمجھے ہوئے تھے، اُن فقہا پر بھی برسے جن کی قبائیں اُن کے فتویٰ فروشی کے باعث بے گناہوں کے خون سے لتھڑی ہوئی تھیں ،ان مفتیوں کا تعاقب بھی کیا جن کی حیلہ جوئیوں اور فریب کاریوں کی وجہ سے دین اسلام کو خطرہ درپیش ہوتا- اُن عمل چور جعلی پیروں کو بھی بے نقاب کیا جو شریعت کے مخالف اور جاہلانہ رسومات کے عادی تھے ، اُن صوفیا نے اپنی صفوں میں گھس جانے والے بے عمل صوفیوں کی علامات بھی بیان کیں کہ کون لوگ لوگوں کی روحانی حساسیّت کو اپنے مالی و معاشی مفاد کیلئے استعمال کرتے ہیں - صوفیا نے ان بے ضمیروں کی خبر بھی لی جنہیں کسی بیوہ کے سر سے دوپٹہ اترنے،کسی کی بیٹی کا پیرہن نُچنے، کسی یتیم کے اُجڑنے اور کسی غریب کے لٹنے کا کوئی احساس نہ تھا-المختصر اہل تصوف کا مقدس گروہ جہاں جہاں پہنچا تبلیغ و اشاعت اسلام کا حق ادا کرتا ،حق گوئی و بے باکی کے پرچم گاڑتااور اخلاص و سوز کے نشانات چھوڑتا گیا - کلمہ حق زندگی کا نصب العین بنا لیا تھا تو بہ ہر طور نبھایا خواہ کوئے یار میں پہنچے یا سوئے دار گئے - یہ اہلِ روحانیّت پاکیزہ دانش کے مالک تھے جنہوں نے ہر محاذ پہ اُمّتِ اسلامی کی رہنمائی کی خواہ اس کیلئے انہیں پابجولاں بازاروں میں پھرایا گیا یا تختۂ دار پہ لٹکایا گیا یا ان کی گردنیں قلم کی گئیں یا نہیں کوڑے لگائے گئے ، ان عظیم ہستیوں نے بے باکی سے پیغامِ حق کی حفاظت اور بے کس انسانیّت کی بے لوث مُعاونت کی - علامہ اقبال(رح) فرماتے ہیں : -

بندئہ مومن کا دل بیم و رِیا سے پاک ہے

قوّتِ فرماں روا کے سامنے بے باک ہے

﴿بانگ درا﴾

جب بھی صوفیائ نے دیکھا کہ اقتدار کی امانت کو نا اہل ہاتھوں کے سپرد کیا جا رہا ہے اور عوام کی گردنوں پہ فاسق و فاجر کو بٹھایا جا رہا ہے تو ان کا ردِّعمل کچھ اس طرح ہوتا تھا کہ حضور غوث پاک(رح) نے بر سر منبر ایک حاکم کے متعلق فرمایا:-

’’تم نے مسلمانوں پر ایک ایسے شخص کو حاکم بنایا جو اظلم الظالمین ہے کل قیامت کے دن اُس رب العالمین کو جو ارحم الراحمین ہے کیا جواب دو گے‘‘-

ایک اور مجلس میں فر مایا:-

’’اے علم و عمل میں خیانت کرنے والو! اے اللہ اور اُس کے رسول(ص) کے دشمنو! اے رہزنو! تم کھلے ظلم اور نفاق میں مبتلا ہو ، یہ نفاق کب تک رہے گا؟اے عالمو!اے زاہدو! شاہان و سلاطین کے لیے کب تک منافق بنے رہو گے؟ کہ ان سے دنیا کا زر و مال اور اس کی سہولت و لذات لیتے رہو- تم اور اکثر بادشاہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے مال اور اس کے بندوں کے متعلق ظالم اور خائن بنے ہوئے ہو‘‘-

 جب ہم صوفیائ کرام کی مجالس و محافل کے بارے میں کچھ پڑھتے اور اُن کے ملفوظات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایسا چمنستان ہے جس میں ہر گُل اپنا رنگ اوراپنی مہک رکھتا ہے جس کا رنگ آنکھوں کو سرور بخشتا اور خوشبو مشام جان کو معطر رکھتی ہے -محفل پرکبھی جذب و جنون کی کیفیت طاری ہوتی تو کبھی عقل و خرد کی باتیں، کبھی ایمان و عرفان کی اور کبھی جنت کی شادابیوں کا ذکر-خدا کے عدل پر بات ہوتی تو چیخیں نکل جاتیں، اُس کے فضل پرزبان کھلتی تو رُخسار کھل جاتے- صوفیائ کرام کی باتیں ایجاز و اختصار کا بہترین مرقع ہوتی تھیں قطرے میں دریا اور ذرے میں صحرا کو انہوں نے سمو کر دکھایا- کتب ِ تاریخ شاہد ہیں کہ وہاں مجالس کا ایک اپنا ہی رنگ ہوتا تھا اپنوں اور غیروں کی یکجائی کا عجب سماں ہوتا، نہ کسی پر تنقید، گفتگو میں نہ مناظرانہ پن اور نہ کسی کی دل آزاری کا شائبہ، بات وہی کہی جو ہر کسی کے دل کی تھی دل سے نکلتی دل میں بیٹھتی، کوئی ویران دل لے کر بیٹھا آباد دل لے کر اٹھا، خالی ہاتھ لے کر آیا دامن بھر کر گیا، تھکا ماندہ آیا ہشاش بشاش رخصت ہوا، صوفیا کی محافل گویا صحرا کے پیادہ پا مسافروں کے لیے ٹھنڈی چھائوں ہوتی-ایسی ایمان افروز محافل میں بیٹھنے والے کیسے انسان بن کر نکلتے ہوں گے کہ جہاں احترام انسانیت، خوفِ خدا، خدمت ِخلق، محبت، تقویٰ، اخلاق، عجز ونیاز، ایثار و توکل اور حسن اخلاق کے چرچے ہوتے تھے-ایسی محفل میں اگر چھری پیش کی جاتی تو فرمایا جاتا:-

 ’’چھری نہ دو سوئی لا دو کہ ہم کاٹنے نہیں جوڑنے آئے ہیں‘‘-

حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین دہلوی(رح) فرماتے ہیں کہ :

’’جسے دیکھو اسے اپنے سے بہتر سمجھو اگرچہ تم اطاعت گزار ہو اور وہ گناہ گار ہو ،ہو سکتا ہے کہ یہ تمہاری آخری اطاعت ہو اور اس کا آخری گناہ، تم گناہ گار بن جائو اور وہ نیکوکار بن جائے‘‘-

صوفیا ئ کرام ایثار ومروت، اخوت سے معمور زندگی کا درس دیتے رہے، ’’بھلائی کر بھلا ہوگا‘‘ کی بجائے سب کا بھلا اُن کا نعرئہ تھا- ’’دوستوں سے گلہ ‘‘ ان کا شیوہ نہیں اور ’’شکایت زمانہ ‘‘ اُن کا شعار نہیں- حضرت شیخ جنید بغدادی (رح) اس نظریے کی یوں ترجمانی فرماتے ہیں :-

’’کو ئی شخص اس وقت تک عارف نہیں کہلا سکتا جب تک کہ وہ زمین کی طرح نہ ہو جائے کہ نیک و بد اسے روندتے ہیں ،بادل کی طرح نہ ہو جائے جو ہر چیز پر سایہ کرتا ہے، سورج کی طرح نہ ہو جائے جو ہر ذرے کو روشن کرتا ہے اور بارش کی طرح نہ ہو جائے جو ہر چیز کو سیراب کرتی ہے ‘‘-

حضور سلطان العارفین سلطان باہوصاحب (رح)نے بھی یہی درس دیا ہے:-

جے کوئی سٹے گُودڑ کوڑا وانگ اروڑی سہیئے ھُو

قادر دے ہتھ ڈور اساڈی جیوں رکھے تیوں رہیئے ھُو

 برصغیر پاک و ہند میں بھی دیکھیں تو اشاعت اسلام کا سہرا صوفیائ کرام کے سر جاتا ہے -صوفیائ کی کوششوں کا تذکرہ کیے بغیر برصغیر میں اشاعت اسلام کی تاریخ مکمل ہی نہیں ہوتی۔ لیکن اسے وہی شخص جان سکتا ہے جسے ہندوستان کی اخلاقی اور معاشرتی حالات کا کماحقہ ، علم ہو کہ جہاں پہ خدائوں کی حد سے بڑھی ہوئی کثرت ، جنسی خواہشات کی بحرانی کیفیت، طبقاتی تقسیم اور معاشرتی امتیازات کی لعنت کے دور میں توحید پرستی کا درس، ضبطِ نفس کی تلقین اور انسانی وحدت و اخوت کا پیغام دیا-

اُس ماحول میں انسانی مساوات اور وحدت کا پیغام جہاں ایک طرف انقلاب آفریں تھا وہاں حیات بخش بھی تھا، جہاں اپنے اندر بے پناہ مشکلات اور مصائب رکھتا تھا،وہیں پسی ہوئی قوموں کے لئے مژدہ جاں فزا بھی تھا- صوفیائ کرام اپنے مشن میں کس قدر کامیاب ہوئے تاریخ اِس کی شاہد ہے اور آج برصغیر میں بسنے والے کروڑوں مسلمان اُن کے کردار اور عمل کا منہ بولتا ثبوت ہیں- آج بھی امن و محبت اور استحکام و خوشحالی کیلئے انہی ہستیوں کے پیغام پہ عمل کرنے کی ضرورت ہے جو قرآن و سُنّت کی صحیح ترجمان اور اخوّت ، مروّت ، محبت اور برداشت کا پیکر تھیں -

اُمتِ مسلمہ کا خلافت سے ملوکیت کی جانب سفر کا آغاز ہوا تو مسلمانوں کی قیادت دو حصوں میں بٹ گئی- ایک طرف بعض مواقع پہ سیاسی قیادت اُن لوگوں کے ہاتھوں میں آئی رہی ، جن کے شب و روز اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی تدبیروں میں بسر ہوتے اور جو مسلمانوں کی گردنوں پر محض اِس بنا پر سوار ہوگئے تھے کہ اُن کے پاس قبائلی عصبیتوں، مکارانہ چالوں اور قوت و دولت کا سرمایہ وافر مقدار میں تھا وہ اپنے اقتدار کی شبِ تاریک کو طول دینے کے لیے سب کچھ کر گزرنے کیلئے تیار ہوتے تھے ، دھوکہ، فریب، عیاری، مکاری ،ترغیب و تحریص، ظلم و ستم، وحشت و بربریت حتیٰ کہ ایمان فروشی سے بھی دریغ نہ کرتے-

دوسری طرف وہ علمائے ربانیّین ، اولیائے کاملین اور بزرگانِ دین تھے جن کا سرمایۂ حیات خدا خوفی، صبر ، توکل، تقویٰ، فقر، محاسبہ، تزکیہ، اخلاص ، امانت ، دیانت، اور اعلائے کلمۃاللہ تھا- خاتم الابنیا محمد رسول اللہ


ö کی پاکیزہ تعلیمات کا پرچار ان کی زندگی کا مشن و مقصد تھا اور وہ اِس سلسلے میں کسی کمزوری اور مداہنت کا مظاہرہ نہ کرتے- انہیں اپنے مقصد و مشن سے عشق تھا- یہی وہ طبقہ تھا جس نے مسلمانوں کے روحانی استحکام کی لگام تھامے رکھی- دُنیا کے کئی دیگر خطوں کی طرح برِصغیر پاک و ہند میں بھی اشاعتِ اسلام کا سہرا اُنہی کے سر جاتا ہے جن کے علم و عمل سے یہاں کے چپے چپے پر اسلام کا نور پھیلا ۔اُن کی شبانہ روز محنتوں اور پاکیزہ و مطاہر روحانی زندگیوں سے متاثر ہو کر حلقہ بگوشِ اسلام ہونے والوں کی تعداد بے شمارہے -ہر چند کہ صوفیا کے پاس نہ کو ئی سلطنت ہوتی اور نہ سرکاری عہدہ حتیٰ کہ وہ اکثر اوقات رعایا کے عام افراد سے بھی بڑھ کر تنگدست اور مفلوک الحال ہوتے لیکن ان کے حقیقی اقتدار کا دائرہ بہت وسیع تھا، انسانی دل و دماغ پر حکومت کرنے والے یہ لوگ بیک وقت لاکھوں کروڑوں انسانوں کے مرجع عقیدت ہوتے اور اُن کی بے باکی اور فراست سے بڑے بڑے فرعون صفت سلاطین و حکمران بھی قائل تھے-

 

یہی وہ لوگ تھے جن کی خانقاہوں اور مجالس میں بیٹھنے والے افراد بڑے بڑے کجکلاہوں کو خاطر میں نہ لاتے مساوات اور انسانی اقدار کا اِس قدر پاس تھا کہ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے -اسلام کے عالمگیر پیغام سے انسانیت کو روشناس کرانے اور اسلام کی عالمگیر اور ابدی سچائیوں کو انسانی اذہان میں راسخ کرنے کیلئے جو کارنامہ صوفیا نے انجام دیا اور آقا دوجہان کی سُنّت کے مطابق ’کہنے سے زیادہ عملی نمونہ‘ پیش کرنے کی جو تکنیک انہوں نے اپنائی وہ اپنی مثال آپ ہے-

تاریخ کے صفحات و اوراق پلٹ کر دیکھیں کہ اُن ہستیوں میں اشاعتِ دین کا جذبہ کتنا بلند اور کتنا وسیع تھا - اُن کی ایک ایک سانس اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف تھی- کس نے کہا کہ صوفیائ زیست کے ہنگاموں اور سرگرمیوں سے دور تھے ؟ اُن کے ہاں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور جہاد کا ظاہری سبق بھی دیا جاتا اور ان عبادات کے باطنی پہلؤں کی بھی تربیّت کروائی جاتی -

صوفیا عبادات کو ان کے باطن سے ادا کرنے کی تربیّت کرواتے کہ ابتداً تو اس کی پاندی کی عادت ڈالی جائے پھر جیسے جیسے درجات میں ترقی کرتا جائے ویسے ویسے عبادت کے باطن میں اُترتا چلا جائے- مثلاً : وہ پانچ وقت کی نماز کے ساتھ ساتھ پوری زندگی کو نماز بنانے کا داعیہ رکھتے تھے ،وہ صرف پانچ وقت ہی خدا کے حضور حاضر ہونے پر نہیں بلکہ ہمہ وقت خدا کے ہاں حاضری پر زور دیتے تھے، وہ چہرے کا رُخ کعبہ کی جانب موڑنا ہی کافی نہ سمجھتے تھے جب تک دل ربِ کعبہ کے آگے نہ جھک جائے ،روزہ کا تصور اُن کے ہاں یہ تھا کہ صرف یہ نہیں کہ پیٹ کو روٹی اور پانی سے خالی رکھا جائے بلکہ دل کو شیطانی وسوسوں اور نفسانی خیالات سے بھی خالی رکھنا ضروری تھا ،وہ اَیسے روزے کو کوئی اہمیت نہ دیتے جسکا نتیجہ ضبطِ نفس اور تقویٰ کی صورت میں نہ نکلے وہ ایسی بھوک پیاس کو پسند نہ کرتے جو کسی بھوکے پیاسے کی بھوک پیاس کا احساس پیدا نہ کرے - زکوٰۃ سے متعلق وہ صرف ڈھائی فیصد پر ہی قناعت نہ کر بیٹھتے، اُن کے ہاں سب کچھ راہ خدا میں دے دینا زکوٰۃ تھا ۔ تجوری سے سکوں کا نکال دینا ہی زکوٰۃنہ سمجھی جاتی ، جب تک دل کے نہاں خانوں سے مال و زر کی محبّت کو نکالا نہ جاتا، زکوٰۃ سے مال پاکیزہ ہوجاتا ہے، وہ دل کی پاکیزگی کو بھی مد نظر رکھتے- حج کے لیے جاتے تو دیدارِ حرمین و زیارتِ مقدّسات کے ساتھ ساتھ قربِ خدا کو اوّلیت دیتے، مِنٰی میں مینڈھے کی قربانی کے ساتھ اپنے نفس کی بری خواہشات پہ بھی چھری پھیرنا لازمی سمجھتے - وہ جہاد فی سبیل اللہ کیلئے بھی سربکف رہتے اور جہاد فی اللہ کی طیر سیر سے بھی شرف یاب ہوتے ، اُن کے ہاتھ دُشمنِ دین یعنی کفار و مشرکین کے خلاف برسرِ پیکار ہوتے اور اُن کے باطن دشمنِ ایمان یعنی نفس و شیطان کی سرکوبی میں مشغول رہتے -

 اگر ہم صوفیائ کی کتب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے حقیقی پاسبانِ شریعت بھی یہی لوگ ہیں -

سُلطان العارفین حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہ، فر ماتے ہیں کہ : -

’’شریعت کی پیروی سے باطن میں اللہ تعالیٰ کا قرب و وصال اور معرفت الا اللہ نصیب ہوتی ہے - عارف باللہ فقیر خواہ حالتِ مستی میں ہو یا ہوشیاری میں وہ ہر حال میں صاحبِ بندگی ہوتا ہے کہ شریعت سے ہٹ کر ہر راہ ، خدا سے دوری اور قہر ِمحمدی


öکی راہ ہے جو سراسر استدراج وگندگی ہے خواہ کوئی خلق کے سامنے کیسا ہی دعویٰ و مظاہرہ کرتا پھرے‘‘- ﴿محک الفقر، ص ۹۸۳

 

 ایک اور جگہ فرماتے ہیں :-

’’ شریعتِ محمدی


ö کو ابتدا سے انتہائ تک زیرِ عمل رکھ کہ یہی دین کی بنیاد ہے‘‘-

 

حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہ، شریعت محمدی


öکے ساتھ اپنی والہانہ وابستگی کو یوں بیان فرماتے ہیں:-

 

شریعت مصطفے ٰ


ö را جان سپارم

 

’’میں شریعت مصطفےٰ


ö پر جان فدا کرتا ہوں‘‘ ﴿امیر الکونین، ص۳۲۴

 

شیخِ محقّق شاہ عبد الحق محدث دہلوی (رح)فرماتے ہیں:-

’’جو صوفی شریعت اور طریقت میں فرق کرے وہ صوفی نہیں بلکہ فرقہ باطلیہ سے تعلق رکھتا ہے‘‘- ﴿اخبار الاخیار﴾

ایک اور جگہ فر ماتے ہیں :-

’’صوفیائ کرام کتاب و سنت کے عامل تھے اور شریعت و طریقت کی تمام ظاہری اور باطنی حدود کا احترام کرتے تھے‘‘-

کتبِ تاریخ گواہ ہیں کہ صوفیا نے شریعت ِمحمدی


ö کو اپنائے رکھا وہ تو ہمیشہ کہتے رہے کہ ہماری طریقت کی بنیادیں کتاب و سنت پر ہیں جو اُن کی مخالفت کرتا ہے ہمارے نزدیک وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور ہم اسے منکر احکام رسول(ص) جانتے ہیں جو شخض قرآن و حدیث پر غور نہیں کرتا اور علما و فقہا سے دور رہتا ہے وہ بے ادب ہے اور تباہ و بر باد ہوگا- صوفیائ کے آئمہ میں شمار ہونے والے حضرت امام ابوالقاسم القشیری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تک فر ما دیا :-

 

’’ظاہر میں سنت کے خلاف کرنا باطن میں ریا کاری کی علامت ہے‘‘- ﴿رسالہ قشیریہ ،ص ۲۶

صوفیائ کرام نہ صرف’’ جہادِ زندگانی ‘‘کی اصل رمز سے آگاہ تھے بلکہ ان کی زندگانی سراسر جہاد سے عبارت تھی- انہوں نے نہ صرف بگڑے نوابوں، بدمست جاگیرداروں ،جابر وظالم بادشاہوں ،بے لگام حکمرانوں ،نخوت و کبر میں چور رئیسوں ،عیش و عشرت میں غرق مہاراجوںاور بے ضمیر وزیروں کو للکارا اور بر سر عام للکارا بلکہ ان کی تنقید و تنبیہ کا ہدف وہ علمائ بھی بنے جو اپنے عالی منصب سے فروتر ، بادشاہوں کی کاسہ لیسی اور جاگیرداروں کی خوشامد کو اپنا دین سمجھے ہوئے تھے، اُن فقہا پر بھی برسے جن کی قبائیں اُن کے فتویٰ فروشی کے باعث بے گناہوں کے خون سے لتھڑی ہوئی تھیں ،ان مفتیوں کا تعاقب بھی کیا جن کی حیلہ جوئیوں اور فریب کاریوں کی وجہ سے دین اسلام کو خطرہ درپیش ہوتا- اُن عمل چور جعلی پیروں کو بھی بے نقاب کیا جو شریعت کے مخالف اور جاہلانہ رسومات کے عادی تھے ، اُن صوفیا نے اپنی صفوں میں گھس جانے والے بے عمل صوفیوں کی علامات بھی بیان کیں کہ کون لوگ لوگوں کی روحانی حساسیّت کو اپنے مالی و معاشی مفاد کیلئے استعمال کرتے ہیں - صوفیا نے ان بے ضمیروں کی خبر بھی لی جنہیں کسی بیوہ کے سر سے دوپٹہ اترنے،کسی کی بیٹی کا پیرہن نُچنے، کسی یتیم کے اُجڑنے اور کسی غریب کے لٹنے کا کوئی احساس نہ تھا-المختصر اہل تصوف کا مقدس گروہ جہاں جہاں پہنچا تبلیغ و اشاعت اسلام کا حق ادا کرتا ،حق گوئی و بے باکی کے پرچم گاڑتااور اخلاص و سوز کے نشانات چھوڑتا گیا - کلمہ حق زندگی کا نصب العین بنا لیا تھا تو بہ ہر طور نبھایا خواہ کوئے یار میں پہنچے یا سوئے دار گئے - یہ اہلِ روحانیّت پاکیزہ دانش کے مالک تھے جنہوں نے ہر محاذ پہ اُمّتِ اسلامی کی رہنمائی کی خواہ اس کیلئے انہیں پابجولاں بازاروں میں پھرایا گیا یا تختۂ دار پہ لٹکایا گیا یا ان کی گردنیں قلم کی گئیں یا نہیں کوڑے لگائے گئے ، ان عظیم ہستیوں نے بے باکی سے پیغامِ حق کی حفاظت اور بے کس انسانیّت کی بے لوث مُعاونت کی - علامہ اقبال(رح) فرماتے ہیں : -

بندئہ مومن کا دل بیم و رِیا سے پاک ہے

قوّتِ فرماں روا کے سامنے بے باک ہے

﴿بانگ درا﴾

جب بھی صوفیائ نے دیکھا کہ اقتدار کی امانت کو نا اہل ہاتھوں کے سپرد کیا جا رہا ہے اور عوام کی گردنوں پہ فاسق و فاجر کو بٹھایا جا رہا ہے تو ان کا ردِّعمل کچھ اس طرح ہوتا تھا کہ حضور غوث پاک(رح) نے بر سر منبر ایک حاکم کے متعلق فرمایا:-

’’تم نے مسلمانوں پر ایک ایسے شخص کو حاکم بنایا جو اظلم الظالمین ہے کل قیامت کے دن اُس رب العالمین کو جو ارحم الراحمین ہے کیا جواب دو گے‘‘-

ایک اور مجلس میں فر مایا:-

’’اے علم و عمل میں خیانت کرنے والو! اے اللہ اور اُس کے رسول(ص) کے دشمنو! اے رہزنو! تم کھلے ظلم اور نفاق میں مبتلا ہو ، یہ نفاق کب تک رہے گا؟اے عالمو!اے زاہدو! شاہان و سلاطین کے لیے کب تک منافق بنے رہو گے؟ کہ ان سے دنیا کا زر و مال اور اس کی سہولت و لذات لیتے رہو- تم اور اکثر بادشاہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے مال اور اس کے بندوں کے متعلق ظالم اور خائن بنے ہوئے ہو‘‘-

 جب ہم صوفیائ کرام کی مجالس و محافل کے بارے میں کچھ پڑھتے اور اُن کے ملفوظات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایسا چمنستان ہے جس میں ہر گُل اپنا رنگ اوراپنی مہک رکھتا ہے جس کا رنگ آنکھوں کو سرور بخشتا اور خوشبو مشام جان کو معطر رکھتی ہے -محفل پرکبھی جذب و جنون کی کیفیت طاری ہوتی تو کبھی عقل و خرد کی باتیں، کبھی ایمان و عرفان کی اور کبھی جنت کی شادابیوں کا ذکر-خدا کے عدل پر بات ہوتی تو چیخیں نکل جاتیں، اُس کے فضل پرزبان کھلتی تو رُخسار کھل جاتے- صوفیائ کرام کی باتیں ایجاز و اختصار کا بہترین مرقع ہوتی تھیں قطرے میں دریا اور ذرے میں صحرا کو انہوں نے سمو کر دکھایا- کتب ِ تاریخ شاہد ہیں کہ وہاں مجالس کا ایک اپنا ہی رنگ ہوتا تھا اپنوں اور غیروں کی یکجائی کا عجب سماں ہوتا، نہ کسی پر تنقید، گفتگو میں نہ مناظرانہ پن اور نہ کسی کی دل آزاری کا شائبہ، بات وہی کہی جو ہر کسی کے دل کی تھی دل سے نکلتی دل میں بیٹھتی، کوئی ویران دل لے کر بیٹھا آباد دل لے کر اٹھا، خالی ہاتھ لے کر آیا دامن بھر کر گیا، تھکا ماندہ آیا ہشاش بشاش رخصت ہوا، صوفیا کی محافل گویا صحرا کے پیادہ پا مسافروں کے لیے ٹھنڈی چھائوں ہوتی-ایسی ایمان افروز محافل میں بیٹھنے والے کیسے انسان بن کر نکلتے ہوں گے کہ جہاں احترام انسانیت، خوفِ خدا، خدمت ِخلق، محبت، تقویٰ، اخلاق، عجز ونیاز، ایثار و توکل اور حسن اخلاق کے چرچے ہوتے تھے-ایسی محفل میں اگر چھری پیش کی جاتی تو فرمایا جاتا:-

 ’’چھری نہ دو سوئی لا دو کہ ہم کاٹنے نہیں جوڑنے آئے ہیں‘‘-

حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین دہلوی(رح) فرماتے ہیں کہ :

واپس اوپر