شمس العارفین : قسط 14

شمس العارفین  :   قسط  14

پس معلوم ہوا کہ عارف باللہ اُٹھتے بیٹھتے جو کام بھی کرتاہے اللہ تعالیٰ کے حکم اور حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کی اجازت سے کرتاہے- اُس کا دین و دنیا کا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا جیسا کہ فرمایا گیا ہے :’’ حکیم کا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا‘‘- اُس کی ہر حالت، ہر بات، ہر عمل اور ہر فعل معرفت ِالٰہی سے لبریز ہوتاہے کیونکہ اُس کی بنیاد تصورِاسمِ اللہ ذات پر قائم ہوتی ہے، اُس کے ہر کا م کی بنیاد مطلق وصل پر قائم ہوتی ہے اِس لئے بظاہر اُس کے کام خواہ خلق ِخدا کی نظر میں گناہ کے کام ہی کیوں نہ ہوں خالق کے نزدیک عین ثواب و راستی کے کام ہوتے ہیں جیسا کہ ایک مجلس میں موسیٰ  علیہ السلام اور خضر علیہ السلام بظاہر ایک دوسرے سے اختلاف کرتے نظر آتے ہیں، چنانچہ سورۃِ کہف میں درج ہے کہ کشتی کو توڑ کر غرق کر دیا گیا، ٹوٹی پھوٹی دیوار کو درست کر دیا گیا اور بچے کو قتل کردیاگیا- (اور موسیٰ ؑ کے اعتراض پر خضر ؑ نے فرمایا کہ) اب مَیں اور آپ ساتھ نہیں چل سکتے-جان لے کہ خلق ِخد اکی کوئی چیز بھی علمِ آیاتِ قرآن سے باہر نہیں خواہ اُس کا تعلق بحر و بر سے ہویا خشکی و تری سے ہو-جان لے کہ بعض بزرگ بارہ سا ل یا چالیس سال تک ریاضت کرتے کرتے لوحِ محفوظ کا مطالعہ کرنے کے قابل ہوگئے، عرش پر پہنچ گئے اور پھر عرش سے بھی آگے ہزاراں ہزار مقامات کی طیر سیر کر گزرے ، مقاماتِ غوثیت و قطبیت پر فائز ہو گئے، طالب مرید بنا لئے،صاحب ِعزو جاہ ہو کر نام و ناموس کماگئے، صاحب ِکشف و کرامات ہوکر جنونیات و مؤکلات کو اپنے زیرِفرمان کرلیا اور اِسی کو معرفت ِالٰہی سمجھ بیٹھے- بعض بزرگ ذکر ِقلب میں مشغول ہوئے اور اُس کے نتیجے میں صاحب ِالہا م ہوگئے اور لوحِ ضمیر کا مطالعہ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اِسی کو معرفت ِتوحید کی انتہا سمجھ بیٹھے- بعض بزرگ ذکر ِروح میں مشغول ہوئے اور دماغِ سر میں انوار و تجلیاتِ روح کے مشاہدہ میں غرق ہوگئے اور اِسی کو معرفت ِتوحید ِالٰہی سمجھ بیٹھے- یہ تمام مراتب ِ مخلوق ہیں جن کا تعلق درجات سے ہے اور اہل ِدرجات اہل ِتقلید ہیں جو فقرِ محمدی (ﷺ) سے بعید اور معرفت ِتوحید ِالٰہی سے بہت دور ہیں- الغرض اِن میں سے نہ تو کسی نے اللہ تعالیٰ کی ابتدا کو دیکھااور نہ ہی کوئی اُس کی انتہا کو پہنچا- سو معرفت کیا چیز ہے؟ توحید کسے کہتے ہیں اور مشاہدۂ قرب حضوری کیا چیز ہے؟سن! سلک سلوکِ معرفت ِتوحید ِالٰہی اور مشاہدۂ قربِ حضوری یہ ہے کہ جب طالب اللہ اسمِ اللہ ذات اور کلمہ طیبات ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘  کا تصور کرتاہے تو اسمِ اللہ ذات اور کلمہ طیبات کے ہر ایک حرف سے تجلی ٔنور پیدا ہوتی ہے جو طالب اللہ کو لامکان میں مجلس ِمحمدی (ﷺ) میں پہنچا دیتی ہے کہ لامکان ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کے مدِّنظر رہتاہے جہاں دریائے وحدانیت میں گوناں گوں قسم کی موجیں ’’ وَحْدَ ہٗ ، وَحْدَ ہٗ ‘‘ کے نعرے بلند کرتی رہتی ہیں-

(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر