ع:عاشق رَاز مَاہی دے کولوں کدی نہ ہوون واندے ھو
نِیندر حرام تِنہاں تے ہوئی جِہڑے اِسم ذات کماندے ھو
ہِک پَل مُول آرام نَکردے دِینہہ رات وَتن کُرلاندے ھو
جِنہاں اَلف صَحی کر پڑھیا باھوؒ واہ نصیب تنہاندے ھو
Aashiq should never disengage from the secret of beloved Hoo
Sleep forbidden upon those who practice Ism-e-Allah zat Hoo
Never take a respite for a moment, and remain lamenting in longing pain day and night Hoo
Great is the fate Bahoo of those who have read Alif all right Hoo
Aashiq raaz mahi day kolo’N kadi na howan wanday Hoo
Nendar Haram tinha’N tay hoi jeh’Ray ism zaat kamanday Hoo
Hik pak mool Aaram na karday den’H rat watan kurlanday Hoo
Jinha’N alif sahi kar pa’Rhya Bahoo wah naseeb tinha’Nday Hoo
تشریح :
1-الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ |
|
جو اللہ کی یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں-(آلِ عمران) |
اللہ پاک کی مقبول بندوں کی یہ صفت ہے کہ وہ ہمہ وقت اللہ عزوجل کی ذاتِ اقدس کے ذکر میں محواورتخلیق ِ کائنات میں غوروفکر کرتے رہتے ہیں یعنی ان کی توجہات کا مرکز ہرآن اللہ عزوجل کی ذات مبارک ہی ہوتی ہے -عارف باللہ کے انہی اوصاف کوبیان کرتے ہوئے حضرت سلطان باھوؒ ارشادفرماتے ہیں :
’’اگرچہ عارف بظاہر ہمیشہ خاموش رہتاہے لیکن بباطن وہ ہر وقت اﷲتعالیٰ سے ہم کلام رہتا ہے اور اُسی کے ذکر میں مشغو ل رہتاہے‘‘-
2-’’ مَیں ازل سے ابد تک بے حجاب ہوں ، میری آنکھوں میں نیند ہرگز نہیں آتی ‘‘-
مزید ارشادفرمایا : ’’ جواپنی آنکھوں کو محو ِدیدار رکھتا ہے اُسے نیند نہیں آتی اور جو اپنی ہستی سے گزر جاتا ہے اُس کے لئے عذاب نہیں‘‘-
آپؒ مقبولِ بارگاہِ الٰہی کی نشانی بیان کرتے ارشادفرماتے ہیں :
’’مقربِ حق مست فقیر کی آنکھ میں رات دن نیند نہیں آتی کہ اُس کی دونوں آنکھیں دو چراغوں کی مانند انوارِ تجلی سے جگمگاتی رہتی ہیں‘‘-
3- حضور نبی رحمت (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:- ’’ اولیاء اللہ کے دلوں پر سکون حرام ہے‘‘-
’’جان لے کہ بعض فقرأ ایسے ہیں جو کہیں بھی مستقل قیام نہیں رکھتے ، وہ ہمیشہ سیر و سفر میں رہتے ہیں اور کہیں بھی آرام و جمعیت اور سکون و قرار سے نہیں رہتے خواہ کوئی اُن کی ہزار دلداری و غم خواری کرے یا نذر و نیاز سے اُن کی خدمت کرے- وہ ہر جگہ مسافروں کی طرح پریشان حال رہتے ہیں اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اَللّٰہُ سے اُنس رکھتے ہیں اور غیر اللہ سے وحشت کھاتے ہیں ،اُن کے کانوں میں ’’ فَفِرُّوْااِلَی اللّٰہِ ‘‘(پس دوڑو ’’اَللّٰہُ‘‘کی طرف ) کی آواز گونجتی رہتی ہے اور اُن کی نظر معرفت ِ اِلَّااللّٰہُ پر لگی رہتی ہے -جس طرح ذرّہ آفتاب کے مدّ ِنظر ہو کر بے قرار رہتا ہے اُسی طرح عارفانِ اِلٰہی بھی’’ اَللّٰہُ ‘‘ کے مدّ ِ نظر ہو کر خَلق سے فرار اختیار کرتے ہیں‘‘-
4 - ’’اگر تُو تصورِ اسم اللہ ذات کی راہ اختیار کرے تو اہل ِقبور روحانیوں پر غالب ہو جائے گا‘‘-
آپؒ کی تمام تعلیمات کا نچوڑ اگرکہیں کہ وہ اسم اللہ ذات ہے تو بے جا نہ ہوگا- اس بیت مبارک کے آخری مصرعہ میں غور کرنے سے بھی پتا چل جاتا ہے کہ آپؒ کتنے فخریہ انداز میں ان لوگوں پہ فخر فرماتے ہیں ،جو اسم اللہ ذات کے خزانے کو اپنے دل میں اتار لیتے ہیں - جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں :
’’جو شخص اسم اللہ ذات سے واقف و آشنا ہو جائے وہ صدق کا بَلّا لے کر ہر دو جہان کے میدان سے معرفت کی گیند لے جاتا ہے‘‘- ’’جان لے کہ ذات و صفات کا ہر مقام شریعت و احادیث و قرآن اور اسم اللہ ذات سے کھلتا ہے - کوئی چیز شریعت و قرآن و احادیث اور اسم اللہ ذات سے باہر نہیں ہے جو کوئی اسمِ اعظم و اسمِ ذات کا محرم ہوا، وہ معرفت ِالٰہی تک پہنچ کر عارف باللہ ہو گیا‘‘-
آپؒ نے مرشد کامل کی شا ن بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:’’اللہ تعالیٰ کا وصال سال و ماہ و ہفتہ و ایام کی ریاضت و مجاہدہ سے حاصل نہیں ہوتا مگر مرشد ِکامل حاضرات ِاسم اللہ ذات سے ایک ہی ساعت میں عطا کر دیتا ہے‘‘-
اسم اللہ ذات کے حصول کے بعد بھی حضور سلطان العارفینؒ کی نصیحت طالبانِ مولیٰ کو ہمیشہ پیشِ نظر رہنی چاہیے:’’جان لے کہ اسم اللہ ذات پاک ہے- یہ اسمِ اعظم تاثیر نہیں کرتا جب تک کہ وجود معظم نہ ہو اور نہ ہی یہ اخلاصِ خاص اور عطائے مرشد کامل کے بغیر نفع دیتا ہے ‘‘-