ابیات باھوؒ : عاشق ہونویں تے عشق کمانویں دل رکھیں وانگ پہاڑاں ھو

ابیات باھوؒ : عاشق ہونویں تے عشق کمانویں دل رکھیں وانگ پہاڑاں ھو

ابیات باھوؒ : عاشق ہونویں تے عشق کمانویں دل رکھیں وانگ پہاڑاں ھو

مصنف: Translated By M.A Khan مارچ 2021

ع: عاشق ہونویں تے عشق کمانویں دل رکھیں وانگ پہاڑاں ھو
لکھ لکھ بدیاں تے ہزار الاہمے کر جانیں باغ بہاراں ھو
منصور جیہے چک سولی دتے جیہڑے واقف کل اسراراں ھو
سجدیوں سر نہ چائیے باھو ؒ تونیں کافر کہن ہزاراں ھو

Being an aashiq nurture your ishq and keep stamina of your heart like mountain Hoo

Hundreds thousands of enmities and thousands of taunts will please you as spring garden Hoo

Likes of Mansoor were crucified who was aware of entire secrets Hoo

Never to lift the head from prostration Bahoo even thousands call you kafir (infidel) Hoo

Aashiq hoonwe’N tay ishq kamawe’N dil rakhe’N wang paharaa’N Hoo

Lakh lakh badia’N tay hazar ullahmay kar janae’N ba’Gh bahara’N Hoo

Mansoor jehai’N chuk soli cha;Rh dittay jeh’Ray waqif kul asrara’N Hoo

Sajdioo’N sar na chaye Bahoo toone’Y kafir kehan hazaraa;N Hoo

تشریح : 

1-یہاں پر حضورسلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے عاشق صادق کو پہاڑ جیسا دل رکھنے کی نصیحت فرمائی کیونکہ پہاڑ مضبوطی اور استقامت سے کھڑے رہنے کا استعارہ ہے -آپؒ نے اپنی تعلیمات مبارکہ میں اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشادفرمایا :

’’دل بھی تین قسم کے ہوتے ہیں،ایک دل پہاڑ کی مثل ہوتا ہے جو اپنی جگہ سے ہرگز نہیں ہلتا، یہ عاشقوں کا دل ہے‘‘-(عین الفقر )

حوصلہ باید وسیع طالب بود

 

طالبِ کم حوصلہ دشمن شود

’’ طالب کو وسیع الحوصلہ ہونا چاہیے کہ کم حوصلہ طالب مرشد کا دشمن ثابت ہوتا ہے‘‘-(امیر الکونین)

مزیدارشادفرمایا :’’اہل ِہدایت صدیقین کا یقین پہاڑ کی طرح مستحکم ہوتا ہے جو ہلتا ہے نہ لرزتا ہے اور نہ لڑکھڑاتا ہے کہ اُن کی دوستی اﷲ کے دین سے پکی ہوتی ہے-اِس کے برعکس منافق و بے دین و بے یقین و بد مذہب اور شیطان لعین کے پیروکار کا یقین ریت کی طرح غیر مستحکم ہوتاہے جو ایک حالت پر قائم نہیں رہتا-(کلیدالتوحیدکلاں)

2-’’یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىِٕمٍ‘‘           ’’اور وہ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہیں ڈرتے ‘‘-( المائدہ:54)

عاشقانِ الٰہی کی اس صفت کا ذکر ہمیں سلطان العارفینؒ کی تعلیمات مبارکہ میں بھی ملتاہے جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے:

’’عاشق پر ہر کوئی توبیخ و ملامت کرتا ہے مگر عاشق ہر چیز سے بے تعلق رہتا ہے، اُس کی نظر صرف معشوق پر ہوتی ہے اور وہ جملہ مخلوق سے اپنا تعلق منقطع کر لیتا ہے‘‘-(عقل بیدار)

مزیدارشادفرمایا :’’عاشق کے دو اوصاف ہیں، ایک یہ کہ اُس کی توجہ معشوق پر رہتی ہے، دوسرے یہ کہ مخلوق کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتا‘‘-(ایضاً)

3-حضور سلطان العارفینؒ چونکہ ایمان کے اعلی ٰ ترین مقام پہ فائز تھے -اس لیے آپؒ اپنے بارے میں ارشادفرماتے ہیں :

’’اگر میرا دل انا الحق کہتا ہے تو اِس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ کہ ذاتِ حق نے خود ہی تو اپنی روح ہمارے اندر پھونک رکھی ہے‘‘-(محک الفقرکلاں)

لیکن یاد رہے ہرکامل صوفی کی طرح سلطان العارفینؒ نے اس چیز کی تحسین نہیں فرمائی کہ بندہ مؤمن جب ایمان کے اعلیٰ و ارفع درجہ پہ پہنچ جائے اور وہ راز کاامین بن کرصاحب راز بن جائے تووہ اس رازکو عوام الناس کے سامنے آشکار فرمائے بلکہ آپؒ فرماتے ہیں کہ اس راز کوراز رکھاجائے جیساکہ آپؒ سیدالشھداءسیدنا امام حسینؓ کو یوں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں:

سچّا عِشق حسینؑ علیؑ دا باھوؒ سِر دیوے رَاز نہ بھنّے ھو

الشیخ منصورحلاجؒ کے اظہارِ راز کے مقام کو خام گردانتے ہوئے آپؒ نے ارشادفرمایا:

’’اِس مقام سے خبردار رہو کہ اِس مقام پر منصور ؒ نے ’’اَنَاالْحَقُّ‘‘ کہا حالانکہ وہ تمامیت ِفقر تک نہ پہنچ سکے اور اُنہیں سولی پر چڑھا دیا گیا ‘‘-(محک الفقرکلاں)

مزید ارشادفرمایا:’’ارے ہاں! یہ تو مقامِ انا الحق ہے -اِس مقام پر تو منصور ؒ بھی وسیع و فراخ حوصلہ نہ رکھ سکے اور انا الحق کہہ کر تصدیق القلب کا معاملہ زبان پر لے آئے - مرتبۂ انا الحق تو راز ہے جو سولی پر چڑھا دیتا ہے - یہی وجہ ہے کہ منصورؒ انتہائے فقر تک نہ پہنچ سکے کہ وہ رازِ انا الحق کو زبان پر لے آئے اور فنا فی الشیخ کے شہرت پذیر مرتبے پر قناعت کر گئے - ہاں ! دل میں انا الحق کہنا روشن ضمیری ہے اور یہ مقامِ فنا فی اللہ بقا باللہ میں روح کا مرتبہ ہے‘‘-(محک الفقرکلاں) 

4-’’جو شخص فقر کے اِس انتہائی مرتبے پر پہنچ جاتاہے وہ خلق میں نشا نۂ ملامت بن جاتاہے- یہ ملامت اُسے خلق سے سلامت رکھتی ہے اور اُس کا خاتمہ بالخیر ہوتاہے‘‘-)نورالھدٰی(

یاد رہے! جب ا اللہ پاک کسی کو حقائق سے روشناس کروا کرمنبع ِ حقیقت بناتاہے تب لوگوں کے طعن وتشنیع کے تیروں کا رخ اس کی جانب ہوجاتاہے اس لیے آپؒ عاشق صادق لوگوں کو ملامت کی پرواہ نہ کرنے بلکہ ان کوپسِ پشت ڈالنے کی ترغیب دیتے ہوئے رشاد فرماتے ہیں:

’’ (اے طالب اللہ ) خلق کی ملامت و غیبت اور رنج و آزار سے غمزدہ نہ ہو بلکہ خلق ِخدا کا بار اُٹھا اور خلق کو تکلیف نہ دے کہ اِسی میں نجات ہے‘‘-(امیرالکونین)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر