قومِ عاد

قومِ عاد

جب بھی ارضِ مقدس پر فساد بر پا ہوا اس کی بنیاد اور اساس انسان ہی بنا، جب اللہ رب العزت نے ارض و سماء کو تخلیق فرمایا تو امن ہی امن تھا کہیں فتنہ و فساد کی بُو تک نہ تھی - پوری زمین امن کا گہوارہ تھی ،ایک ہی گھاٹ پر شیر اور بکری پانی پیتے، ایک ہی جنگل چراگاہ و قیام گاہ تھی ، اکٹھے چرتے، اکٹھے کھاتے پیتے، محبت ہی محبت تھی - نفرت و عداوت ، دوری و فساد نام کی کوئی چیز نہ تھی- تمام دریائوں ، سمندروں اور ندی نالوں کا پانی میٹھا تھا کڑواہٹ نام کی کوئی چیز نہ تھی - یہ کڑواہٹ ، عداوت، دوری ، فتہ و فساد کب اور کیسے پیدا ہواتو زمین پر سب سے پہلافساد’’ قابیل کا ہابیل کو‘‘ اور دریا میں پہلا فساد’’ بادشاہ جلندی کا کشتیاں چھیننا‘‘،بعض مؤرخین کے مُطابق یہ جلندی حجاج بن یوسف کے اجداد سے ہے ، درمیا ن میں ۷۰ پشتوں کا فاصلہ ہے - پہلے تمام زمین سر سبز و شاداب تھی ، ہر درخت صاحبِ ثمر تھا، ابنائے آدم جس درخت سے چاہتے پھل حاصل کرلیتے-قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو زمین پر تغیّر آگیا ، درخت کانٹے دار بن گئے ، دریا کا پانی نمکین اور کڑوا ہوگیا، بعض جانور ایک دوسرے کے دشمن بن گئے-

کسی نبی کو کانٹا چبھا تو انہوں نے اس پر لعنت کی ،کانٹے نے کہا میرا قصور نہیں مَیں تو ابنائے آدم کے گناہوں کی شامت ہوں-

 تو اس زمین پر فساد کی وجہ ابنِ آدم ہے - ایک آدمی کے گناہ و ظلم کی یہ نحوست کہ پوری روئے زمین پر فساد برپا ہوگیا ،جہاں پوری قوم اور معاشرہ صبح و شام اس فتنہ و فساد میں مبتلا ہو اور کوئی لمحہ امن اور سلامتی میں نہ گزرے تو پھر خود فیصلہ فرمائیں اس ارضِ مقدس کا کیا حال ہوگا؟

تخلیقِ آدم سے آج تک انسانیت مختلف عروج و زوال سے گزری اور کئی قومیں معرضِ وجود میں آئیں اوراپنا مقررہ وقت گزار کر چلی گئیں ، کئی قومیں لوگوں کیلئے عبرت بنیں اور ان کو ان کے کیے پر وہ عبرت ناک سزا ملی اور ان کا اتنا بھیانک انجام ہوا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بطورِ عبرت یاد کی جانے لگیں انہی قوموں میں سے ایک قومِ عاد بھی ہے-

’’قومِ عاد کا سلسلہ نسب، تعارف، ہلاکت،وجہ ہلاکت -سلسلہ نسب ، ھود بن شاع ابن ارقحشر بن سام بن نوح آپ کا دوسرا نام عابربھی ذکر کرتے ہیں - ‘‘ (تاریخ طبری جلد ۱ ص، ۱۳۷)

تاریخ میں عاد کے دو قبیلے مشہور تھے ایک کو عادِ اِرم یا عاد اولیٰ کہا جاتا ہے اور دوسرے کو عادِ اخریٰ-عاد اولیٰ کا نسب نامہ یہ ہے، عاد بن ارم بن طوص بن سام بن نوح اسی عاد کی اولاد قوم عاد کے نام سے مشہور ہوئی - ھود علیہ السلام انہی کی طرف مبعوث ہوئے لیکن انہوں نے ان کی دعوت کو مسترد کردیا اسی لئے تباہ کر دیئے گئے اس قبیلہ کے جو لوگ عذاب سے بچ گئے اور پھر ان کی نسل بڑھی وہ بھی قومِ عاد ہی کہلائی دونوں میں امتیاز کرنے کیلئے پہلی کوعادِ اولیٰ یا عادِ ارم کہا جاتا ہے او ردوسری کو عادِ اخریٰ کہا -(ضیاء القرآن جلد ۵ ص ۵۵۶)

ھود علیہ السلام بن رباح بن الخلود بن عوص بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام بعض روائتوں میں یہ ہے ھود بن شالخ بن ارفحشد بن سام بن نوح-(روح البیان، پارہ ۱۲، ص ۱۲۱)

تعارف:-

عاد کانام عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح پھر لفظ عاد اس کے قبیلہ کا نام بن گیا وہ پھر اسی قبیلے کے متقدمین کو عادِ اولیٰ کہا جاتا ہے -

علامہ قرطبی نے کہا ہے حضرت ابن عباس نے فرمایا ان میں سے لمبے قد کا آدمی پانچ سو ذراع کا ہوتا (ایک ذراع ڈیڑھ فِٹ کا تھا) اور ان سے چھوٹے قد کا آدمی تین سو ذراع کا ہوتا تھا قوم عاد احقاف میں رہتی تھی-

علامہ محمد بن مکرم بن منظور افریقی مصری (متوفی ۷۷۱) لکھتے ہیں ، احقاف کا معنی ہے ریگستان، جوہری نے کہا الاحقاف عاد کا وطن ہے اظہری نے کہا یہ یمن کے شہروں کا ریگستان ہے قوم عاد یہاں رہتی تھی-

علامہ سید مرتضیٰ زبیدی حنفی متوفی (۱۲۰۵) لکھتے ہیں حضرت ابن عباس نے فرمایا ’’ الاحقاف‘‘ ارض مھرہ اور عمان کے درمیان ایک وادی ہے- ابن اسحاق نے کہا الاحقاف عمان سے لے کر حَضر مُوت تک ایک وادی ہے- قتادہ نے کہا الاحقاف ارض یمن میں بلندی پر ایک ریگستان ہے - تبیان القرآن ج۴ ص ۲۰۲)

احقاف حقف کی جمع ہے اور عرب ریت کے بَل کھاتے ہوئے ٹیلے کو حقف یا احقاف کہتے ہیں ، قرآن کریم میں احقاف سے مراد وہ ریگستان ہے جو عمان سیحَضر مُوت تک پھیلا ہوا ہے اس کا کل رقبہ تین لاکھ مربع میل بتایا جاتا ہے، اسے الرابع الخالی بھی کہتے ہیں بعض مقامات پر ریت اتنی باریک ہے جو چیز وہاں پہنچے اندر دھنستی چلی جاتی ہے ، بڑے بڑے مہم جو سیاح بھی اس کو عبور کرنے کی جرأت نہیں کرتے یہی وہ علاقہ ہے جہاں کسی زمانہ میں اپنے عہد کی ایک طاقتور زبردست مقبول قوم آباد تھی جس کی دولت و ثروت کے افسانے دورو نزدیک تک زبان زدِ عام تھے جب انہوں نے اپنے نبی کی دعوت کو ٹھکرا دیا تو عذابِ الٰہی نے ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہنے دیا آج اس علاقہ کی ویرانی و بربادی دیکھ کر یہ اندازہ ہی نہیں ہوسکتا کہ یہ علاقہ قوم عاد کا مسکن تھا- (ضیاء القرآن ج ۴ ص ۴۹۰)

احقاف حقف کی جمع جس کا معنی ایسا ریگستان ہے جو مستطیل اور خم دار ہو- ابن زاہد نے کہا حقف اس ریگستان کو کہتے ہیں جو پہاڑ کی شکل کا ہو لیکن  پہاڑ جتنا بلند نہ ہو، کسائی نے کہا گول ریگستان کو حقف کہتے ہیں -(تفسیر مظھری جلد۸ ص ۵۲۱)

احقاف یہ حقف کی جمع ہے اس کا معنی ابن زید نے ریت کا ٹیلا بتایا ہے ،عکرمہ نے پہاڑ اور غار کہا، حضرت علی کا قول ہے خضر موت میں ایک وادی ہے اسے بر ہوت کہتے ہیں اس میں کافروں کی روح ڈالی جاتی ہے-قتادہ سے منقول ہے یہ ایک قبیلہ ہے جو یمن میں ساحل سمندر پر تیسر نامی علاقے میں رہتے تھے- (تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۳۰۶)

یہ لوگ ستون کھڑے کر کے ان کے اوپر مکان بناتے تھے اس لئے ان کو ستون والے فرمایا اور یہ بھی ہوسکتا ہے ان کے لمبے قد کی وجہ سے ان کو ستون والا فرمایا - ضحاک نے کہاستون والے سے مراد بہت قوت والے

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر