حضرت فرید الدین عطار ؒ کی نعتیہ شاعری

حضرت فرید الدین عطار ؒ کی نعتیہ شاعری

حضرت فرید الدین عطار ؒ کی نعتیہ شاعری

مصنف: ڈاکٹر شوکت حیات اکتوبر 2023

نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی وصف و خوبی اور تعریف و توصیف کے ہیں لیکن اصطلاح میں لفظ نعت صرف حضور نبی کریم (ﷺ) کی منظوم تعریف و توصیف اور مدح کے لئے مخصوص ہے-

مصباح اللغات میں نعت کا لغوی معنی یوں بیان کیا گیا ہے:

’’نعتہ (ف) نعتاً: تعریف کرنا، بیان کرنا(اور اکثر اس کا استعمال صفات حسنہ کے لیے ہوتا ہے)‘‘-[1]

 ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق لکھتے ہیں:

’’اصولاً آنحضرت (ﷺ) کی مدح سے متعلق نثر اور نظم کے ہر ٹکڑے کو نعت کہا جائے گا، لیکن اردو اور فارسی میں جب لفظِ نعت کا استعمال ہوتا ہے تو اس سے عام طور پر آنحضرت (ﷺ) کی منظوم مدح مراد لی جاتی ہے‘‘-[2]

نعت کے لئے کوئی مخصوص ہیئت مقرر نہیں ہے- یہ کسی بھی صنف سخن یعنی قصیدہ، مثنوی، غزل، قطعہ، رباعی، مخمس، مسدس، دوہے وغیرہ میں لکھی جا سکتی ہے-

نعت گوئی کا آغاز سب سے پہلے عربی زبان میں ہوا- حضور نبی اکرم (ﷺ)کے زمانے ہی سے نعت گوئی کا رواج شروع ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا اور پھیلتا چلا گیا- آپ (ﷺ)کی مدح میں سب سے پہلے جس نے لب کشائی کی وہ آپ (ﷺ) کے مربی ومحسن و عمِّ نامدار ابوطالب ہیں - سیرۃ النبی میں ابن ہشام نے ایک قصیدہ کے سات شعر نقل کیے ہیں جس میں  حضرت ابوطالب نے پرجوش اشعار میں حضور نبی کریم(ﷺ) کی مدح کی اور اپنے خاندان (بنو ہاشم) کی خصوصیات کا ذکر کیا-[3]

 اسی طرح اولین نعت گو شعراء میں آپ (ﷺ) کے صحابی، حضرت حسان بن ثابت (رضی اللہ عنہ) کا نام بھی سرفہرست ہے- اسی سلسلے میں ایک اور نام حضرت کعب بن زہیر (رضی اللہ عنہ) کا ہے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا اور حضور نبی اکرم (ﷺ)کی خدمت اقدس میں نعتیہ قصیدہ پیش کیا- عربی نعت گوئی میں ایک بہت اہم اور ممتاز نام ساتویں صدی ہجری کے محمد بن سعید بوصیری کا ہے جن کا ’قصیدہ بردہ شریف‘ دنیائے اسلام میں آج بھی مخصوص محفلوں میں عقیدت و محبت سے سنایا جاتا ہے اور جس کے تراجم مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں- نعت گوئی کا یہ سلسلہ آج بھی عربی شاعری میں جاری ہے-

عربی نعت کے زیر اثر فارسی زبان میں بھی نعت گوئی کا آغاز ہوا-فردوسی کے شاہنامہ میں نعتیہ اشعار موجود ہیں- ابو سعید ابو الخیرکی رباعیات میں نعتیہ کلام موجود ہے-ان کے علاوہ خاقانی شروانی، حکیم سنائی غزنوی، فریدالدین عطار، نظامی گنجوی، مولانا جلال الدین رومی، سعدی شیرازی ،امیر خسرو، مولانا عبدالرحمٰن جامی، عرفی شیرازی اور قدسی مشہدیؒ وغیرہ جیسے عظیم المرتبت شعراء نے بھی جابجا اپنے کلام میں مدحتِ رسول اکرم (ﷺ)کو بیان کیا ہے-

نعت گوئی کا سفر عرب سے ایران اور پھر ہندوستان تک پہنچا- حضرت امیر خسرو، حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز، قلی قطب شاہ، ولی دکنی، سراج اورنگ آبادی، امیر مینائی اور محسن کاکوروی، جگر مرادآبادی، اقبال سہیل، الطاف حسین حالی ، علامہ محمد اقبال، احمد رضا خان بریلوی، مولانا ظفر علی خان، محمد علی جوہر، حفیظ جالندھری، ماہر القادری، حفیظ تائب اور مظفر وارثی وغیرہ نے نعت نگاری میں نئے نئے مضامین کا اضافہ کیا- بقول مولانا سید ابو الحسن علی ندوی:

’’نعت گوئی، عشق رسول (ﷺ) اور شوق مدینہ ہندوستانی شعراء کا محبوب موضوع رہاہے اور فارسی شاعری کے بعد سب سے بہتر اور سب سے مؤثر نعتیں اردو ہی میں ملتی ہیں‘‘-[4]

جب عربی، فارسی اور اردو کی نعت کا ذکر کیا جائے تو پنجابی زبان کے نعت گو شعراء کا ذکر بھی لازمی بن جاتا ہے- پنجابی زبان و ادب میں نعت اس قدر رائج ہے کہ اس کا موازنہ دنیا کی کسی بھی زبان سے کیا جا سکتا ہے- پنجابی زبان کے معروف نعت گو شعراء کی تعداد سیکڑوں میں ہے- پنجابی صوفی شعراء یعنی بابا فرید، بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید، حضرت سلطان باہو، میاں محمد بخشؒ وغیرہ کے صوفیانہ کلام میں جا بجا نعتیہ اشعار ملتے ہیں- ان کے علاوہ عبدالستار نیازی، اعظم چشتی، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، ڈاکٹر فقیر محمد فقیر، استاد عشق لہر، فیروز دین شرف، یونس احقر، سید ضمیر جعفری، حافظ امرتسری، صائم چشتی، پیر فضل گجراتی، اقبال زخمی اور ڈاکٹر ارشد اقبال ارشد اور دیگر بے شمار پنجابی شعراء نے مدحتِ رسولِ اکرم (ﷺ)کو اپنی شاعری کا خاصہ بنایا-

ایران کے اسلامی دور میں فارسی شاعری اگرچہ باقاعدہ تیسری صدی ہجری میں شروع ہوتی ہے مگر نعتیہ اشعار چھٹی صدی ہجری میں نظر آتے ہیں- اس کےبعد سے فارسی شاعری کے تقریباً تمام ادوار میں شعراء نے نعت کو موضوع فکر بنایا-غزل کی ہیئت ہو یا نظم کی کوئی بھی خارجی شکل، فارسی شاعری میں نعت کا موضوع اپنے مکمل خدوخال کے ساتھ نمایاں نظر آتا ہے- فارسی ادب کے ہر دور سے متعلق نعت گو شعراء کا فرداً فرداً تفصیلی جائزہ لیا جائے تو ایک ضخیم دفتر بھی اس کا متحمل نہ ہوسکے گا- لہٰذا یہ مقالہ فارسی میں نعتیہ تحریک اور نعتیہ رجحان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت فرید الدین عطار نیشاپوریؒ کی نعتیہ شاعری کے بارے میں ایک مختصر بیان ہے- جنہوں نے ناصرف اپنی تصوفانہ مثنویوں میں فن کاری و صنعت و ہنرمندی کے جوہر دکھائے بلکہ دوسری طرف عشق نبی (ﷺ) کا جذبہ درون وارفتگی بن کے ان کے قلب و روح پر طاری رہا اور انہوں نے الہامی طور پر نعت کے والہانہ اشعار قلم بند کیے-

فرید الدین عطار، 1145ء یا 1146ء میں ایران کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے اور 1221ء میں وفات پائی- آپ کا اصل نام ابوحمید ابن ابوبکر ابراہیم تھا مگر وہ اپنے قلمی نام فرید الدین اور شیخ فرید الدین عطار سے زیادہ مشہور ہیں- وہ ایک اعلیٰ پائے کے فارسی شاعر، صوفی اور ماہر علوم باطنی تھے- ان کا علمی خاصہ اور اثر آج بھی فارسی شاعری اور صوفیانہ رنگ میں نمایاں ہے- انہیں بچپن سے ہی صوفی نظریات سے انسیت تھی- ان نظریات کو پروان چڑھانے میں انہیں اپنے والد کی مکمل حمایت حاصل رہی- شیخ فرید الدین عطارؒ کو صوفیائے کرام کے احوال زندگی سے انتہائی لگاؤ تھا اور وہ اپنی زندگی ان صوفیائے کرام کے فرمان کے عین مطابق گزارنے کے خواہاں رہے اور یہی صوفیائے کرام زندگی میں ہر موڑ پر ان کی رہنمائی اپنے فرمودات اور نظریات سے کرتے رہے- یہی وجہ ہے کہ ان کی طبیعت میں سوز و گداز کے ساتھ ساتھ عشق نبی (ﷺ)بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور عشق کا یہی جذبہ بار بار نعتیہ اشعار کی صورت میں جلوہ گر ہوتا رہا- شیخ محمد فریدالدین عطارؒ، اللہ کے برگزیدہ انسان اور ولی کامل تھے-وہ اپنی بے مثال صوفیانہ شاعری کی بدولت بھی دنیا بھر میں مقبول ہوئے- وہ نعت رسول الله (ﷺ) کو بھی فرض عین سمجھتے تھے-انہوں نے اپنی ہر کتاب میں نعت رسول مقبول (ﷺ) کو بہت احترام سے نظم کیا ہے- انہوں نے اپنی معروف مثنوی ’’مصیبت نامہ‘‘ میں نعت پیامبر (ﷺ)کے ضمن میں دو سو سے زیادہ اشعار لکھے ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:

آنچه فرض عین نسل آدم است
نعت صدر و بدر هر دو عالم است

’’جو کام اولادِ آدم پر فرضِ عین  ہے دو دونوں عالم کے سردار (ﷺ) کی نعت ہے-

آفتاب عالم دین پروران
خواجهٔ فرمان ده پیغامبران

’’آپ (ﷺ) دین پروری کے جہان کا سورج ہیں، آپ (ﷺ) پیغمبروں کے فرمانروا اور خواجہ ہیں‘‘-

پیشوای انبیا و مرسلین
مقتدای اولین و آخرین

’’آپ (ﷺ) تمام انبیاء اور رسولوں کے پیشوا ہیں،  سے سے پہلے اور آخری امام ہیں‘‘-

جلوه کرده آفتاب روی او
آسمان صد سجده برده سوی او

’’سورج ان کے چہرے کا نظارہ کرتا ہے آسمان  ان کے سامنے سینکڑوں سجدے کرتا ہے‘‘-

هشت جنت جرعه‌ ای از جام او
هر دو عالم از دو میم نام او

’’ان کی محبت کےجام کے ایک گھونٹ میں آٹھ جنتیں ہیں -دونوں جہان ان کے نام کی دو میموں کی وجہ سے ہیں‘‘-

ای زمین و آسمان خاک درت
عرش و کرسی خوشه چین جوهرت

’’زمین و آسمان ان کے در کی خاک ہیں، عرش اور کرسی ان کے موتی چننے والے ہیں‘‘-

تا که یک جان دارم و تا زنده‌ ام
بند بندت را به صد جان بنده ‌ام

’’جب تک میرے اندر روح ہے اور جب تک میں زندہ ہوں،  میرا ایک ایک جوڑ سینکڑوں جانوں سے آپ (ﷺ) کا غلام رہے گا‘‘-

در ز فانم جز ثنای تو مباد
نقد جانم جز وفای تو مباد

’’میری زبان پر آپ (ﷺ) کی تعریف کے علاوہ اور کچھ نہ ہو-میری زندگی کی جمع پونجی آپ (ﷺ) سے وفاداری کے علاوہ اور کچھ نہ ہو‘‘-

نیستم من مرد وصف ذات تو
این‌قدر هم هست از برکات تو

’’میرے اندر اتنی جرأت نہیں کہ آپ (ﷺ) کے اوصاف بیان کر سکوں، میں جو کچھ بھی ہوں آپ (ﷺ) کی برکت کی وجہ سے ہوں‘‘-

آن که او وصف از خدا داند شنید
وصف کس آن‌جا کجا داند رسید[5]

’’آپ (ﷺ) کی ذات وہ ذات ہے جس کے اوصاف خدا جانتا ہے، کسی اور شخص میں یہ خوبی نہیں کہ وہ آپ (ﷺ) کے اوصاف  کے بارے میں جان سکے‘‘-

فارسی کے شعری ادب میں’منطق الطیر‘ ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے- اس کی ابتدا ہی میں فرید الدین عطارؒ فرماتے ہیں:

خواجه‌ٔ دنیا و دین گنج وفا
صدر و بدر هر دو عالم مصطفےٰؐ

’’آپ (ﷺ) دین و دنیا کے مالک ہیں اور وفا کا خزانہ ہیں-مصطفےٰ (ﷺ) دونوں جہانوں کے سردار اور چودھویں کے چاند ہیں‘‘-

آفتاب شرع و گردون یقین
نور عالم رحمت للعالمین

’’آپ (ﷺ) شریعت کے آفتاب ہیں اور یقین و ایمان کے  آسمان ہیں، سارے جہانوں کا نور اور تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں‘‘-

هر دو گیتی از وجودش نام یافت
عرش نیز از نام او آرام یافت

’’دونوں جہانوں کا نام آپ (ﷺ) کے وجود کی برکت کی وجہ سے ہے -عرش بھی آپ (ﷺ) کے نام سے آرام پاتا ہے‘‘-

آفرینش را جز او مقصود نیست
پاک دامن‌ تر از او موجود نیست[6]

’’تخلیقِ جہان کا مقصد آپ (ﷺ) کی ذات کے سوا اور کچھ نہیں ہے- آپ (ﷺ) کی ذات سے زیادہ پاکیزہ کوئی اور موجود نہیں ہے‘‘-

 نعتیہ شاعری میں نہ صرف شعر و سخن کی آزمائش ہوتی ہے بلکہ اس کسوٹی پر عقیدۂ توحید و رسالت اور عشق حقیقی کی پرکھ بھی بدرجہ اتم ہوتی ہے- اس لیے اربابِ سخن نعتیہ شاعری کو دو دھاری تلوار سے تشبیہ دیتے ہیں - حضرت فرید الدین عطارؒ نے بھی نعت لکھتے ہوئے  کامل احتیاط سے کام لیا ہے اور انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ اپنی مثنوی ’’الٰہی نامہ‘‘میں حضور نبی اکرم (ﷺ)کی ستائش میں بہترین اشعار لکھے ہیں:

ثنایی گو بر ارباب بینش
سزای صدر و بدر آفرینش

’’تعریف اس بصیر خدا کی جس نے دونوں جہان کے سردار  اور چودھویں کے چاند  حضور نبی کریم (ﷺ) کو پیدا  کیا‘‘-

محمدؐ آنکہ نور جسم و جانست
گزین و مھتر پیغامبر انست

’’محمد (ﷺ) جسم اور جان کا نور ہیں-تمام پیغمبران میں سے برگزیدہ سردار ہیں‘‘-

ز نورش ذرۂ خورشید و ماھست
ھمہ ذرات را پشت و پناھست

’’سورج اور چاند ان کے نور کا ایک ذرّہ ہیں-ایسے تمام ذرات کے لئے آپ (ﷺ) پشت و پناہ ہیں‘‘-

فلک یک خرقہ پوش خانقاھش
بسر گردان شدہ در خاکِ راھش

’’آسمان  آپ (ﷺ) کی خانقاہ کا ایک خرقہ پوش (فقیر) ہے-وہ آپ (ﷺ) کی راہ کی خاک سامنے سر جھکائے ہوئے ہے‘‘-

تمامت انبیا را پیشوا اوست
حقیقت عاشقان را رھنما اوست

’’آپ (ﷺ) تمام انبیاء کے پیشوا ہیں -عشقِ حقیقی کے راستے پر چلنے والوں کے راہنما ہیں‘‘-

ز نور اوست اصل عرش و کرسی
چہ کروبی چہ روحانی چہ قدسی[7]

’’عرش و کرسی کی اصلیت آپ (ﷺ) کا نور ہے-فرشتے اور قدسیان  سب کی تخلیق آپ (ﷺ) کے وجودِ بابرکت کے سبب ہوئی‘‘-

نعت گوئی میں نہ تو زبان دیکھی جاتی ہے اور نہ بیان پر نظر جاتی ہے، نہ فنی نکات تلاش کئے جاتے ہیں- اس کی روح صرف اخلاص اور محبتِ رسول(ﷺ) ہے- اگر بات دل سے نکلی ہے تو دلوں پر اپنا اثر چھوڑتی ہے اور بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ)میں وہ نذرانہ عقیدت اور محبت قبول ہوجائے تو اشعار کو حیات جاویدانی نصیب ہوجاتی ہے- جیسے فارسی میں سعدی شیرازی، عبد الرحمٰن جامی، محمد جان قدسیؒ وغیرہ کی بعض نعتیں اس کی شہادت دے رہی ہیں - یہی وہ صادق جذبہ اور عشق ہے جس کی وجہ سے الٰہی نامہ میں تین سو اشعار پر مشتمل نعتِ پیغمبر (ﷺ) لکھنے کے بعد بھی فرید الدین عطارؒ کا دل نہیں بھرتا اور وہ مزید کہنے لگتے ہیں کہ:

چه گویم چون صفات تو چنانست
که صد عالم ورای عقل و جانست

’’میں  کیا کہوں کیونکہ آپ (ﷺ) کی صفات ایسی ہیں کہ سینکڑوں جہان آپ (ﷺ) کی عقل و جان کے صدقے ہیں‘‘-

ندانم تا ثنایت گفته آید
و گر آید ترا پذرفته آید[8]

’’میں نہیں جانتا کہ آپ (ﷺ) کی تعریف کیسے کروں اور اگر کر لوں تو نہیں معلوم کہ وہ آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں قبول ہوگی یا نہیں‘‘-

ایک فاسق عورت کی حکایت بیان کرنے کے بعد جو مکہ سے مدینہ  حضور نبی اکرم(ﷺ) کے پاس آئی تھی، فرید الدین عطارؒ اس کے متعلق یوں بیان کرتے ہیں:

بر امید عطای تو رهی دور
ز پس کردم من مسکین مهجور

’’یا رسول اللہ (ﷺ) میں مسکین ہجر کی ماری، آپ (ﷺ) کی عطا کی امید میں بہت دور دراز کا سفر کر کے آئی ہوں‘‘-

زن آنگه گفت: از پیکار و جنگت
ز بیم خنجر و بیم خدنگت

’’پھر اس عورت نے کہا: آپ (ﷺ) سے جنگ اور دشمنی  کے خوف سے-آپ (ﷺ) کے خنجر اور چھڑی کے خوف سے‘‘-

ز صیت قوت و اندازه‌ٔ تو
ز فضل معجز و آوازه‌ٔ تو

’’آپ (ﷺ) کی قوت اور جسامت کی وجہ سے، آپ  (ﷺ) کے معجزانہ فضل و کرم  اور شہرت کی وجہ سے‘‘-

سوارانِ عرب را سست شد پای
کسی را سوی مطرب چون بود رای[9]

’’عرب کے سواروں کے پاؤں(آپس کی دشمنی میں)  سُست ہو گئے ہیں،  آپ (ﷺ) پر ایمان لانے کی وجہ سے ‘‘-

حضور نبی کریم (ﷺ) اس عورت کی بات سننے کے بعد اپنی چادر اسے بخش دیتے ہیں اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) سے بھی فرماتے ہیں کہ ان کے پاس بھی جو کچھ ہے، وہ اس عورت کو بخش دیں- شیخ عطار بھی اسی عورت کی مثال کو سامنے رکھ کر اپنے حضور نبی اکرم(ﷺ) کی بارگاہ میں یوں عرض کرتے ہیں:

زنی را یا رسول الله که دور است
میان شرک در فسق و فجور است

’’یا رسول اللہ (ﷺ) وہ عورت جو آپ (ﷺ)  کی تعلیمات اور آپ (ﷺ) کی ذات  سے بہت دور ہے، جو شرک اور بے حیائی سے معمور ہے‘‘-

چو بستاید ترا حرفی دو یک بار
ز جودت می ‌بیابد مال بسیار

’’اگر وہ  بھی آپ (ﷺ) کی مدحت میں دو لفظ کہہ دے تو اسے بھی آپ (ﷺ) کی جود و سخا کی بدولت بے شمار مال و دولت مل جاتی ہے‘‘-

نمی‌ گردانیش نومید از خویش
نمی ‌ماند ز انعام تو درویش

’’آپ (ﷺ) اسے بھی نا امید نہیں کرتے تو یہ درویش بھی  آپ (ﷺ) کے انعام سے محروم نہیں رہے گا‘‘-

تو می‌ دانی که در وصف تو عطار
بسی گردید بر سر هم‌چو پرگار

’’آپ (ﷺ) جانتے ہیں کہ عطار آپ کی مدحت میں ہر طرف پرکار کی طرح بہت گھوما ہے‘‘-

چو خاک کوی تو وصفت به جان کرد
قبولش کن بدان گر می‌توان کرد

’’اس نے آپ (ﷺ) کے رستے  کی خاک کی خوبی کو اپنا لیا ہے-(یعنی خود کو  آپ (ﷺ) کی راہ کی خاک  جیسا بنا لیا ہے) آپ  بھی یا رسول اللہ (ﷺ) اسے قبول فرما لیں‘‘-

چو آن زن را رسید از تو ردائی
رسد از تو به من آخر نوایی

’’اگر وہ عورت آپ (ﷺ) سے ردا حاصل کر سکتی ہے تو مجھے بھی یا رسول اللہ (ﷺ) آپ کی طرف سے قبولیت کی آواز کا انتظار ہے‘‘-

به تشریفی مشرف کن تنش را
که نبود زان خبر پیراهنش را[10]

’’آپ (ﷺ) تشریف آوری سے اس شخص کے وجود کو مشرف فرمائیں جو اپنے لباس کے بارے میں بھی بے خبر ہو چکا ہے‘‘-

’’منطق الطیر“شیخ عطارؒ کا شاہکار ہے- اس کتاب میں انہوں نے تصوف کے مسائل کوتمثیل کی صورت میں بیان کیاہے- اسی کتاب میں حضور نبی اکرم(ﷺ) کی نعت کے ضمن میں ایک حکایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

مادری را طفل در آب اوفتاد
جان مادر در تب و تاب اوفتاد

’’ ایک ماں کا بچہ  گہرے پانی میں گر گیا-ماں بیچاری اپنی مامتا کی وجہ سے تڑپ اٹھی‘‘-

در تحیر طفل می‌ زد دست و پای
آب بردش تا بناب آسیای

’’بچہ حیرانی اور پریشانی کے عالم میں ہاتھ پاؤں مار رہا تھا، پانی اس کو چھو رہا تھا اور اس کو آگے بہا کرلے جارہا تھا‘‘-

خواست شد در ناو مادر کان بدید
شد سوی درز آب حالی بر کشید

’’ماں سے یہ دیکھا نہ گیا اور وہ اپنے بچے کو بچانے کے لئے پانی میں کود گئی‘‘-

مادرش در جست او را بر گرفت
شیر دادش حالی و در بر گرفت

’’اس نے جلدی سے بچے کو  بہتے پانی میں سے نکال لیا اسے گود میں لیا اور اسے دودھ پلایا‘‘-

حکایت بیان کرنے کے بعد فرید الدین عطار  التجا کرتے ہیں کہ:

ای ز شفقت داده مهر مادران
هست این غرقاب را ناوی گران

’’یا رسول اللہ (ﷺ) اپنی امت پر آپ  ماں سے کہیں زیادہ شفیق اور مہربان ہیں-اس گرداب سے نکلنےکے لیے  کشتی کی مانند ہیں ‘‘-

چون در آن گرداب حیرت اوفتیم
پیش ناو آب حسرت اوفتیم

’’ جب ہم گناہوں کے گرداب میں حیران و پریشان ہو کر پھنسے ہوئے ہوں گے توہمیں اس کشتی کے سامنے شرمندگی ہو گی ‘‘-

مانده سرگردان چو آن طفل در آب
دست و پایی می ‌زنیم از اضطراب

’’میری حالت  اس بچے کی طرح ہے جو پانی میں ڈوب چلا ہو-میں اسی  پریشانی  میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہوں‘‘-

آن نفس ای مشفق طفلان راه
از کرم در غرقهٔ خود کن نگاه

اے بچوں پر شفقت کرنے والے نبی(ﷺ)! مہربانی فرما کر اپنے غرق ہونے والے کو بچا لیجیئے-

رحمتی کن بر دل پرتاب ما
بر کش از لطف و کرم در ز آب ما[11]

’’ہماری اس جان پر رحم کیجئے-جو آپ (ﷺ) سے دور  ہو کر گہرے پانی میں ڈوب رہی ہے‘‘-

نعت گوئی حضرت فریدالدین عطارؒ کی شاعری کا جزو لا ینفک ہے- وہ صوفی با صفا تھے اور عشق نبی (ﷺ) کی دولت سے مالامال تھے- ان کی تمام مثنویاں اور دیوان، تصوفانہ اسرار و رموز کا خزانہ ہونے کے ساتھ ساتھ نعتِ رسول مقبول (ﷺ) اور ستائش پیغمبر اکرم کا بھی بہترین نمونہ ہیں- ان کی شاعری نا صرف صوفیانہ رنگ میں رنگی ہوئی ہے بلکہ مدحت حضور نبی اکرم (ﷺ) سے بھی بھرپور ہے-اہل عشق آج بھی ان کے کہے ہوئے نعتیہ اشعار سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں-

٭٭٭


[1]بلیاوی، مولوی عبدالحفیظ؛ مصباح اللغات،  ایچ ایم سعید اینڈ کمپنی، لاہور، ص 887

[2]اشفاق، ڈاکٹر رفیع الدین؛ (1976ء)، اردو کی نعتیہ شاعری، اردو اکیڈمی،  سندھ، ص 21

[3]ابن ہشام، سیرۃ النبی، طبع بیروت، ج 1، ص  156

[4]ندوی، سید ابو الحسن علی؛ کاروان مدینہ، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام، ندوہ، لکھنؤ، ص 176

[5]عطار، فریدالدین محمد بن ابراھیم نیشاپوری؛ (1386 ش)، مصیبت نامہ، بتصحیح دکتر محمد رضا شفیعی کدکنی، انتشارات سخن، تہران، ص 132-133

[6]عطار، فریدالدین محمد بن ابراھیم نیشاپوری؛ منطق الطیر، کتابفروشی تایید، اصفہان، ص:25

[7]عطار، فریدالدین محمد بن ابراھیم نیشاپوری؛ (1940ء)، الٰہی نامہ، بتصحیح ھ ۔ ربز، النشریات الاسلامیہ، لجمعیتہ المستشرقین الالمانیہ، جرمنی، ص 11

[8]عطار، فریدالدین محمد بن ابراھیم نیشاپوری؛ (1355ش)، الٰہی نامہ، بدستور سید محمد مبرکمالی خوانساری و سید احمد اخوان، کتابفروشی اسلامیہ، تہران، ص 26

[9]عطار، فریدالدین محمد بن ابراھیم نیشاپوری؛ (1355ش)، الٰہی نامہ، بدستور سید محمد مبرکمالی خوانساری و سید احمد اخوان، کتابفروشی اسلامیہ، تہران، ص 27

[10]عطار، فریدالدین محمد بن ابراھیم نیشاپوری؛ (1355ش)، الٰہی نامہ، بدستور سید محمد مبرکمالی خوانساری و سید احمد اخوان، کتابفروشی اسلامیہ، تہران، ص 28

[11]عطار، فریدالدین محمد بن ابراھیم نیشاپوری؛ منطق الطیر، کتابفروشی تایید، اصفہان، ص  31-32

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر