طرابلس: ایک تعارف و جائزہ

طرابلس: ایک تعارف و جائزہ

طرابلس: ایک تعارف و جائزہ

مصنف: اُسامہ بن اشرف جنوری 2018

طرابلس(Tripoli) شمالی افریقہ میں موجود ملک لیبیا کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہےجس کی اوسط آبادی تقریباً 18 لاکھ سے زائد ہے-یہ شہر بحیرۂ روم کے ساحل اور صحرائے اعظم کے درمیان، ملک کے شمال مغربی پتھریلی علاقے میں واقع ہے-اس کا انگریزی نام، ٹریپولی، دو الفاظ ٹرائی(Tri) اور پولِس(Polis) سے مل کر بنتا ہے-ٹرائی تین کو، جبکہ پولِس شہر/آبادی/قصبہ وغیرہ کو کہتے ہیں، چونکہ یہ علاقہ تین قدیمی شہروں کے ملاپ سے بنا ہوا ہے لہذا اسے ٹریپولی کہا جاتا ہے- اس شہر کو ساتویں قبل مسیح میں فونیشی (Phoenicians) باشندوں نے قائم کیاتھا-چونکہ لبنان میں بھی طرابلس نامی شہر موجود ہے اس لیے اس لیبیائی شہر کو طرابلس الغرب بھی کہا جاتا ہے-

طرابلس لیبا کا سب سے بڑا شہر، بنیادی بندرگاہ، سب سے بڑا تجارتی، صنعتی و مالیاتی مرکز ہے-جامعہ الفاتح (جسے جامعہ الطرابلس بھی کہا جاتا ہے) بھی اسی شہر میں واقع ہے-چونکہ لیبیا ایک قدیم شہر ہے اس لیے طویل تاریخ ہونے کے باعث یہاں نہایت اہمیت کے حامل آثار قدیمہ کے کئی مقامات واقع ہیں-مثلاً آرک آف مارکس اوریلیس (The Arch of Marcus Aurelius برج طرابلس، لال قلعہ جسے السرايا الحمراء(The Red Castle or Assaraya Alhamra)بھی کہا جاتا ہے، لال قلعہ میوزیم، جانزور میوزیم (Janzour Museum) اور پرانا شہر وغیرہ سر فہرست ہیں-گرمیوں میں یہاں کا موسم خشک و گرم جبکہ سردیوں میں معمولی سرد ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر معمولی بارش بھی ہو جاتی ہے-یہ ملک ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں، غاصبوں اور استعماریوں کی جولاں گاہ بنا رہا ہے-قبل از اسلام اسے سلطنتِ روما نے کئی بار نیست اور پامال کیا-عربوں نے اس علاقہ میں اسلام کا پیغامِ امن و محبت پھیلایا اور یہاں آباد بھی ہوئے اور اسے دنیا کے بہترین علمی مراکز میں شامل کیا-جس کے بعد یہ علاقہ سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِنگیں رہا-اٹلی اور اطالوی استبدادی و استعماری غاصبانہ قبضے کے بعد لیبیا اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق24 دسمبر1951ء میں مکمل خود مختار ملک بن گیا-لیبیا دنیا کا وہ پہلا ایسا ملک ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اقوامِ متحدہ کی حمایت اور قرارداد سے آزادی حاصل کی-

تاریخی پسِ منظر:

یہ شہر ساتویں قبل مسیح میں فونیشی(Phoenicians) باشندوں نے قائم کیا تھا جس کی بنیادی وجہ اس کا بآسانی دفاع اور قدرتی بندرگاہ وغیرہ ہو سکتے ہیں-جس کے بعد برقی (Cyrenaicaians) اس پر قابض رہے اور پھر قرطاجنیوں (Carthaginians) نے برقی یونانیوں سے یہ علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا-دوسری قبل مسیح میں یہ علاقہ سلطنت روم کا حصہ بنتا ہے جس کے آثار آج بھی آرک آف مارکس اوریلیس کی صورت میں موجود ہیں جسے دوسری قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا-مسلمانوں نے اس علاقے کو ہجرت کے بائیسویں سال 642 ء میں حضرت عمر بن العاص (﷜) کی قیادت میں اپنی قلمرو میں شامل کیاجس کے بعداس علاقے پر مختلف مسلمان حکمران رہے-سولہویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی تک یہ عظیم سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا -البتہ اس دور میں یورپی استعماریوں کی سازشوں اور مداخلت کی وجہ سے مقامی قبائل کی طرف سے سلطنت عثمانیہ کی گاہے بگاہے مخالفت بھی کی جاتی رہی اور 1835ء سے پہلے سلطان کے اختیار نہ ہونے کے برابر تھے- انیسویں صدی کے آغاز میں ہونے والی بربری جنگوں میں طرابلس نے اہم کردار ادا کیا-پہلی بربر امریکا جنگ جو کہ بربری ساحل کی جنگ (Barbary Coast War ) اور جنگ طرابلس (Tripolitan War) کے نام سے بھی معروف ہےوہ پہلی جنگ تصور کی جاتی ہے جس میں ریاست ہائے متحدہ امریکا اور چند شمالی افریقی ممالک آمنے سامنے تھے-اس وقت شمالی افریقہ کا کچھ حصہ سلطنت عثمانیہ کے زیرِ انتظام بھی تھا-ان شمالی افریقی ممالک میں مراکش، الجزائر، تیونس اور طرابلس شامل تھے-آخری تین ریاستیں (الجزائر، تیونس اور طرابلس) سلطنت عثمانیہ کے نیم خود مختار صوبے تصور کیے جاتے تھے-اس وقت یورپ اور امریکہ کی بیشتر تجارت ان افریقی اور ایشیائی ممالک کے ساتھ بحیرہ روم کے ذریعے سے ہوتی تھی-جہاں بحری قزاق (Pirates) ایک بڑی تعداد میں موجود تھے-اس وقت سلطنت عثمانیہ اور ساحل سمندر پر موجود دیگر بربری ممالک کے بحری بیڑے یورپی تجارتی بحری جہازوں اور کشتیوں کی بحری قزاقوں سے حفاظت کیلئے بحیرہ روم میں موجود ہوتے تھے جس کے عوض یورپی ممالک ٹیکس ادا کیا کرتے تھے-المختصر یہ کہ برطانوی امریکہ ترکوں کو 4000 ریال مالیت کا ضروری جنگی سازوسامان، جنگی مدد اور کم و بیش 10000 ریال نقد ٹیکس ادا کیا کرتا تھا-برطانیہ (جسے انگلستان بھی کہتے ہیں) سے آزادی کے بعد امریکی بحری بیڑے امریکی پرچم کے ساتھ دنیا کے مختلف سمندروں میں تجارت کی غرض سے سفر کرنے لگے-ترک بحریہ کے ساتھ ٹکراؤ کے بعدجب امریکی بحری بیڑے ترکوں کے قبضے میں آ گئے اور بالآخر جب امریکی بحریہ زورِ بازو سے معاملہ حل کرنے سے عاجز آ گئی تو دونوں ممالک میں 5 ستمبر 1795ء کو ایک معاہدہ طے پایا جو امریکہ کی دو سو سال پر محیط تاریخ کا پہلا ایسا معاہدہ تھا جو انگریزی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں لکھا گیا ہو اور اس معاہدے کے تحت پہلی دفعہ امریکہ نے کسی غیر ملک کو سالانہ ٹیکس ادا کرنے کا فیصلہ اور عہد کیا ہو-پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن اور ترکی کے پاشا کے درمیان ہونے والے صلح نامے کے تحت امریکہ نے جو ٹیکس دینے کا عہد کیا تھا وہ نہ صرف اس سے منحرف ہوا بلکہ طرابلس میں اپنے قونصلر کے ذریعے معاہدے کے خلاف یوسف پاشا کو ٹیکس کی کمی پر قائل کرنے کی کوششیں بھی کیں-مختصر یہ کہ حالات مزید بگڑنے کے باعث 2 بڑی جنگیں ہوئیں جن میں پہلی جنگ 1801ء تا 1805ء تک رہی اور دوسری جنگ 1815ء میں لڑی گئی-1801ء میں عثمانی یوسف پاشا کی جانب سے امریکی صدر تھامس جیفرسن ٹیکس کو رقم بڑھا کر 225000 ڈالر تک کرنے کے مطالبے پر نئے منتخب شدہ صدر نےناصرف یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں آ کر پریذیڈینٹ اور فلاڈیلفیا نامی دو فریگیٹس پر مشتمل اپنا جنگی بحری بیڑا ایڈمرل ’’رچرڈ ڈیل‘‘(Richard Dale ) کی قیادت میں بحیرہ روم میں بھیجا مگر بدقسمتی سے تھامس جیفرسن کو امریکی بحریہ پر اندھا اعتماد کرنا مہنگا پڑ گیا کیونکہ طرابلس میں لیبیا کی بحریہ نے فلاڈیلفیا فریگیٹ کو گرفتار کر لیا جس پر امریکی کیپٹن ویلیم (William Bainbridge) نے خود ہی حملہ کر کے فلاڈیلفیا کو تباہ کردیا کہ یہ طرابلس کی بحریہ کے ہاتھ نہ لگ جائے-اس واقعہ کا امریکی سیاسی و دفاعی قیادت پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ انہوں نے اسے امریکی میرینز کور (United States Marine Corps)کے ترانے کا مستقل حصہ بنا لیا جسے ان کا ہر فوجی ہر صبح سویرے دہراتا ہے-اس ترانے کا مطلع یہ ہے -

From the Halls of the Montezuma to the shores of Tripoli; We fight our country’s battles in the Air, on Land and Sea.” [1]

’’ہم مونٹیزوما کے ہالز سے لے کر طرابلس کے ساحلوں تک اپنے ملک کیلئے فضاء ،زمین اور سمندر پر جنگ لڑیں گے‘‘-

بالآخر امریکہ نے شکست تسلیم کرتے ہوئے 10 جون 1805ء کو مذاکرات کے ذریعے جنگ کے خاتمے کا فیصلہ کیا اور مشہور زمانہ معاہدہ طرابلس طے پایا جس کے تحت امریکہ نے ناصرف بھاری رقم ادا کی بلکہ 1812ء تک طرابلس کے عُثمانی حاکم یوسف پاشا کو سالانہ بیس ہزار ڈالر ادا کرتا رہا-

1835ء میں سلطنت عثمانیہ نےایک خانہ جنگی کے بعد طرابلس اور لیبیا پر مکمل اختیار حاصل کر لیا اور 1882ء میں تیونس پر فرانسیسی قبضے کے بعد عثمانیوں نے طرابلس میں فوج بڑھا دی-تاریخ عالم اس بات کی گواہ ہے کہ فاشسٹ(Fascist)، استبدادی و استعماری قوتوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے غیر جانبدار ممالک پر ظلم و ستم کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کی-جس کی ایک کڑی طرابلس کی تاریخ کےاُس سیاہ باب میں ملتی ہے جب اپنے مال و دولت میں اضافہ سمیت دیگر کئی غیر اخلاقی و غیر قانونی مفادات کے پیش ِنظر اٹلی نے طویل عرصہ تک یہ دعویٰ کیے رکھا ہے کہ طرابلس اٹلی کے زیر اختیار آتا ہے لہٰذا انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ طرابلس میں لوگوں کی حفاظت کریں-پس اپنے ذاتی مفاد اور ان کے تحفظ کو سامنے رکھتے ہوئے اٹلی نے 29 ستمبر 1911ء کو ایک دن کی دھمکی (Ultimatum)کے بعد لیبیا پر حملہ کر دیا-جس کی وجوہات میں پہلی جنگِ عظیم کے پسِ منظر میں ترکی کو مزید کمزور کرنا، افریقہ اور بالخصوص لیبیا میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا، اپنے مال و دولت میں اضافہ اورفاشسٹ (Fascist)نظریات کا فروغ وغیرہ شامل تھا-اس وقت لیبیا اور دیگر علاقوں میں بہت قلیل عثمانی فوج موجود تھی جو شاید بہت جلد ہتھیار  ڈال دیتی مگر طرابلس و گرد و نواح کے مقامی غیرت مند و حریت پسند عرب اور بربر قبائل کے مجاہدین نے غیر ملکی استعمار کے غاصبانہ قبضہ کو نامنظور کرتے ہوئے ترک فوج کے شانہ بشانہ اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا اور یہ جنگ اکتوبر 1912ء تک چلی-18اکتوبر 1912ء میں معاہدہ لوازن (Treaty of Lausanne) کے تحت پہلی جنگِ عظیم کے شاطر وظالم اتحادیوں کی سازشوں کے باعث ترکی نے شکست تسلیم کرتے ہوئے طرابلس اور لیبیا کے دیگر علاقے اٹلی کے حوالے کردیے-اس کے برعکس مقامی حریت پسند قبائل نے اس معاہدے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اٹلی کے جارحانہ قبضے کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھیں-اس دوران جنگِ بلقان اور پہلی جنگِ عظیم کے دیگر کئی مقابلے چل رہے تھے-البتہ فاشسٹ اٹلی کو طرابلس کے غیور لوگوں کے ہاتھوں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور یہ کہنا بجا ہو گا کہ مقامی لوگوں نے اٹلی کی فوج کو ناکوں چنے چبوا دیے اور اس کے ساتھ ہی طرابلس پر اپنی خود مختار حکومت قائم کرلی-

پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر ترکی کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا جس میں سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بکھرے کرتے ہوئے سلطنت و خلافت کا سقوط و اختتام عمل میں لایا گیا جس کے فوراً بعد اٹلی کی فوج نے مقامی لوگوں کے خلاف شدید مظالم ڈہائے اور چن چن کر حریت پسند مجاہدین کو مارنا شروع کر دیا- اس کے باوجود مقامی لوگوں کے جوش و جذبہ میں کمی نہ آئی جس کی مثال 14 سالہ فاطمہ بنتِ عبداللہ ہے جس نے اپنے کمال جذبہ شہادت اورعظیم جذبہ جہاد سے سرشارہونے کے باعث اپنے زخمی بھائیوں اور غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا-شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نے اپنے مجموعۂ کلام بانگ درا کے حصہ سوم میں ’’فاطمہ بنتِ عبد اللہ ‘‘عنوان سے لکھی گئی نظم میں فاطمہ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور اگر حضرت علامہ یہ نظم نہ لکھتے تو شاید فاطمہ جیسے کئی حریت پسند شہیدوں کا نام و نشان ہمارے وہم و گماں میں بھی نہ ہوتا- اقبال اس نظم میں فاطمہ کے استعارے میں طرابلس کے غیور عوام کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی[2]

اسی طرح اقبال طرابلس کے غیور شہیدوں کو ایک اور جگہ خراجِ عقیدت پیش فرماتے ہوئے بانگِ درا کی نظم ’’حضور رسالت مآب میں‘‘ کے آخری بند میں فرماتے ہیں کہ :

جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں[3]

انیسویں صدی میں لیبیا کے جنوبی صحرائی علاقوں میں شروع ہونے والی سنوسی تحریک نے لیبیا اور طرابلس کی اس جنگ میں بہت اہم کردار ادا کیا-اس تحریک کے بانی سید محمد ابن علی سنوسی (1787ء تا 1859ء) تھےجن کے نام کے ساتھ اس تحریک کا نام منسوب کیا گیا-بنیادی طور پر تو یہ تحریک سنتِ نبوی (ﷺ) اور شریعت مطہرہ پر پابندی کے مقصد سے چلائی گئی تھی مگر بعد میں حالات کے پیشِ نظر زراعت، باغبانی، معماری اور جذبہ جہاد سمیت دیگر کئی امور پر تلقین بھی کی جانے لگی-المختصر یہ کہ پہلی جنگِ عظیم کے ختم ہوتے ہی جب اٹلی کو لیبیا کا کنٹرول دے دیا گیا تو اٹلی کے فاشسٹ حاکم مسولینی نے لیبیا سے انتقام لینے اور سبق سکھانے کے لیے اس تحریک کے کارکنان کے ساتھ ساتھ کئی نہتے لوگوں کو موت کی گھاٹ اتار دیا اور بالآخر1931ء میں اٹلی مکمل طور پر تمام مزاحمتوں کو عبور کر تے ہوئے طرابلس و دیگر علاقوں کے غیور، حریت پسند مجاہدین کو شہید کرنے میں کامیاب ہو گیا-اُس وقت اِس تحریک کے قائد، عمر مختار کو گرفتار کر کے، زبردستی بچاس ہزار سے زائد قیدیوں سے رچائی گئی ایک بہت بڑی تقریب میں اذیت ناک طریقہ سے پھانسی دے دی گئی تاکہ لوگوں میں ڈر اور خوف پیدا کیا جا سکے اور آئندہ نسلوں کے لیے عبرت کا سامان کیا جا سکے اور اس طرح طرابلس کی تاریخ کا ایک اور سیاہ باب شروع ہو گیا-اطالوی تاریخ داں ’’ایمولیوجینٹائل‘‘(Emilio Gentile)کے مطابق پچاس ہزار سے زائد افراد کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا، لیکن آزادی کے پروانوں کی یہ تحریک ماند نہیں پڑی- البتہ ظلم و جبر کے پہاڑ بھی عوام کے دلوں سے توحید کی امانت اور ایمان کی حرارت نہ نکال سکے جس کا اثر دوسری جنگِ عظیم میں دیکھنے کو ملتا ہے جب ان حریت پسند غیور مقامی قبائلیوں نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اٹلی کے ساتھ جنگ کی-جنگ کے اختتام سے لے کر 1951ء تک طرابلس پر برطانیہ قابض رہا اور بالآخر 24 دسمبر1951ء کو اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق لیبیا مکمل خود مختار آزاد ریاست بن گیا جس کے ساتھ ہی شہیدِ حُریت عمر مختار کا لیبیا کی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا-آزادی کے وقت، 1951ء میں طرابلس اور بن غازی کو ملک کے دارالحکومت بنایا گیا لیکن 1970ء کی ابتداء میں طرابلس واحد دارالحکومت بنا دیا گیا-لیبیا کودنیا بھر میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ دنیا کا پہلا ایسا ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ کی حمایت اور قرار داد کی رو سے آزادی حاصل کی-

آزادی کے بعد سنسوسی خاندان کے شاہ ادریس لیبیا کے پہلے بادشاہ بنے- 1959ء میں لیبیا میں تیل دریافت ہو گیا جس کے بعد ملکی معاشی و اقتصادی حالات کافی بہتر ہوگئے-مختلف تحقیقی رپورٹس سے واضح ہے کہ لیبیا میں موجود تیل کے ذخائر نے اسے دنیا کے پہلے اہم ترین دس ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا- لیکن حکومت کی لا پرواہی اور ملک میں سماجی ترقی و خوشحالی بہت کم ہونے کے باعث لوگوں میں عدم اعتماد کی لہر دوڑ چکی تھی-معمر قذافی نے شاہ ادریس کے خلاف فوجی بغاوت شروع کر دی جسے تاریخ میں الفتح انقلاب (Al Fateh Revolution)کے نام سے جانا جاتا ہے اور یکم ستمبر 1969ء کو معمر قذافی نے شاہ ادریس کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک و اقتدار کا اختیا ر اور بھاگ دوڑ خود سنبھال لی-1977ء میں معمر قذافی نے لیبیا کو ایک جمہوری ملک قرار دیتے ہوئے بہت سی سماجی، معاشرتی، معاشی، تعلیمی اور اقتصادی اصلاحات نافذ کیں-لیبیا میں قذافی کے دور میں عوام کو مفت تعلیم دی جاتی تھی-ایک امریکی تحقیقی رپورٹ کے مطابق لیبیا کی شرح خواندگی اوسط 91 فیصد سے زیادہ ہے جب کہ دیگر کئی رپورٹس کے مطابق معمر قذافی کے دور میں لیبیا کی شرح خواندنی 95فیصد سے زائد ہو گئی تھی جو قذافی سے قبل صرف 25 فیصد تھی[4]-لیبیا میں ہر فرد کو ایک گھر، مفت بنیادی تعلیم ،مفت علاج معالجے کی سہولت، مفت بجلی، پیدائش کے فوراًبعد بچے کے لیے مختص وظیفہ وغیرہ سمیت دیگر کئی سہولیات فراہم کی گئیں تھیں[5]-1975ء میں چھپنے والی سبز کتاب میں معمر قذافی لکھتے ہیں کہ :

No one has the right to acquire a house additional to his or her own dwelling and that of his or her heirs for the purpose of renting it because this additional house is, in fact, a need of someone else.” [6]

’’کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے یا اپنے ورثاء کے ایک گھر کے علاوہ کوئی مزید اضافی گھر کرائے پر دینے کی غرض سے خرید سکے کیونکہ وہ اضافی گھر کسی اور کی ضرورت ہے‘‘-

پورے ملک میں پانی کے بآسانی حصول کو ممکن بنانے کے لیے قذافی کے دور حکومت میں ہی دنیا کا سب سے بڑا نظام آبپاشی لیبیا میں ڈئزائن کیا گیا جسے قذافی خود دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا کرتا تھا -اگر لیبیا کے کسی بھی باشندے کو زراعت شروع کرنا ہوتی تو اسے حکومتی سطح پر گھر، زمین اور دیگر ضروری سامان مفت مہیا کیا جاتا تھا-ایک ماں جب بچے کو جنم دیتی ہے تو اسے علاج معالجے اور زچہ و بچہ کی پرورش کے لیے پانچ ہزار امریکی ڈالر دیے جاتے تھے[7]-مصنف گریکائی چنگو (Garikai Chengu)قذافی کے دورِحکومت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

“Gaddafi’s Libya was Africa’s Most Prosperous Democracy”.[8]

’’قذافی کا لیبیا افریقہ کی سب سے زیادہ مستحکم جمہوریت تھی‘‘-

قذافی ایک غیور، با ضمیر اور بابصیرت قائد تھا جس کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی تھی اس نے امریکی و یورپی استعمار اور استبدادی قوتوں کے سامنے جھکنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ملت اسلا میہ کو متحد و متحرک کرنے کی کئی کوششیں بھی کیں-معمر قذافی نے اپنا جمہوری نظام بھی مرتب کیا اور جوہری ہتھیار بنانے کی سعی بھی کی جس کی پاداش میں لیبیا پر مختلف پابندیاں بھی لگائی گئیں- البتہ 2003ء میں قذافی نے لیبیا کا جوہری پروگرام ختم کر دیا جس کے بعد ملک پر لگائی گئی پابندیاں ہٹا لی گئیں-قذافی نے تیل کی خرید و فروخت بھی اپنی مخصوص شرائط پر کی، اپنا فضائی اتحاد بنانے کے ساتھ ساتھ عربوں کو متحد کرنے کی کوشش بھی کی جس کی وجہ سے قذافی استعمار کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھنے لگا-عراق کے سابق صدر صدام حسین کی 30 دسمبر 2006ء کو پھانسی کے موقع پر معمر قذافی نے ملک بھر میں تین دن قومی سوگ منانے کا فیصلہ کرتے ہوئے استعمار کو یہ پیغام دیا کہ وہ صدام کے ملتِ اسلامیہ اور بیت المقدس سمیت دیگر تمام خوابوں اور منصوبوں کو شرمندہ تعبیر کرتے ہوئے پایائے تکمیل تک پہنچائے گا-معمر قذافی کا ایک انمول منصوبہ تھا کہ وہ دیگر مسلم و افریقی ممالک کے ساتھ مل کر سونے کے دینار سے بنی نئی افریقی کرنسی متعارف کروائے-یہ ایک ایسا منصوبہ تصور کیا جا سکتا ہے جس سے دنیا کی معاشیات و اقتصادیات کی صف میں ایک انقلاب برپا ہو جاتا اورعالمی اقتصادی توازن نہایت تیزی سے بدل کر رہ جاتا-اس کمال منصوبے کے تحت ڈالر کی اہمیت کم ہو جاتی کیونکہ تیل کی تجارت صرف ان سونے کے دیناروں پر ہوتی اور امریکہ کے پاس تو کوئی سونا موجود ہی نہیں ہے-مزید یہ کہ قذافی نےاپنے دورِحکومت میں نہ صرف آئی ایم ایف وغیرہ جیسے عالمی بلیک میلنگ اداروں سے قرضہ لینے سے انکار کیا بلکہ عالمی بینکاری کی بجائے اپنا افریقی بنک بنانے کی خواہش کی-جس کو زمبابوے نژاد برطانوی وکیل لویڈ مسیپا (Lloyd Msipa) اپنے ایک آرٹیکل میں یوں لکھتے ہیں کہ:

Qaddafi’s principle crime was that he refused to take any loans from institutions like IMF etc. He refused to join the club of International bankers and decided to set up his own Pan-Africanist bank that would have provided loans to African counties. Gaddafi’s Libya was the only African/Arab country that did not owe any country or institution any money[9].”

’’قذافی کا اصل جرم یہ تھا کہ انہوں نے آئی ایم ایف وغیرہ جیسے عالمی اداروں سے قرضہ لینے سے انکار کیا تھا-اس نے بین الاقوامی بینکاروں کے کلب میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور اپنے ’’پان-افریقی بینک‘‘ مرتب کرنے کا فیصلہ کیا جو افریقی ممالک کو قرضے فراہم کرے-قذافی کے دورِ حکومت میں لیبیا افریقی/عرب ممالک میں وہ واحد ملک تھا جو کسی بھی ملک یا ادارہ کا مقروض نہیں تھا‘‘-

دنیا بھر کے بینکاری اداروں، صیہونیوں اور استعماری طاقتوں کو اپنی مالی و اقصادی اجارہ داری ختم ہوتی نظر آنے لگی-معمر قذافی کی منصوبہ بندی کے سامنے ہار تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے قذافی کے قتل کا منصوبہ بنایا تاکہ اس مسلسل منڈلاتے خطرے سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑوا لی جائے-18دسمبر 2010 ءکو تیونس سے شروع ہونے والی تحریکِ عرب بَہار (Arab Spring Movement) استعماری و استبدادی طاقتوں اور سازشوں کے تحت لیبیا بھی پہنچ گئی- اُس نام نہاد عوامی بغاوت (جو درحقیقت معمرقذافی کے قتل کے لیے رچائی گئی تھی )کی تحریک کو نیٹو افواج کی طرف سے مکمل حمایت بھی دی گئی[10]- بالآخر مارچ 2011 ءمیں امریکا اور برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک کے تعاون سے لیبیا پر حملہ کر دیا گیا اور ایک مہینہ تک جنگ کے بعد قذافی کو 23 اگست 2011 ءمیں استعماری طاقتوں نے ایک خودساختہ بغاوت میں قتل کروا دیا-اس طرح تقریباً 42سال تک معمر قذافی کی بلاشرکتِ غیرے لیبیا پر حکومت کا اختتام ہو گیا اور اس عظیم باغیرت و باضمیر اسلامی سپہ سالار کی شہادت کے بعد ایک بار پھر لیبیا اور طرابلس کی تاریخ کا ایک سیاہ باب شروع ہو گیا-معمر قذافی اور صدام حسین کے قتل کے پس ِپردہ حقائق کے متعلق ماہنامہ مراۃ العارفین انٹرنیشنل کے ستمبر2017 ءکے شمارے میں چھپنے والی تحقیق قابلِ مطالعہ ہے جس میں مصنف نے عالمی مغربی دانشوروں کی زبانی یہ بتلایا ہے کہ:

’’صدام حسین اور معمرقذافی کا قتل دنیا کی بڑی طاقتوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے کیا تھا جس کو وہ انسانی بھلائی کی چادر اڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں لیکن تاریخ کسی نہ کسی طرح سچ سامنے لی ہی آتی ہے کیونکہ ظلم کبھی چھپ نہیں سکتا-یہی وہ حکمران تھے جن سےیہی مغربی طاقتیں عزت و احترام سے پیش آیا کرتی تھیں لیکن جب انہوں نے ان کی باتیں نہ مان کر ان کی معاشی و اقتصادی غلامی سے انکار کیا تو یہی عزت و احترام دشمنی میں بدل گیا اور دنیا میں امن کے رکھوالے اقوام متحدہ نے بھی انہی ممالک پر سختیاں عائد کردی تا کہ یہ حکمران ہٹائے جاسکیں، جنھیں ہٹایا بھی گیا-ان بادشاہوں کہ قتل سے یہی سبق دیا گیا ہے کہ اب کوئی بھی ’’گلوبل سٹیٹس کو‘‘ سے ٹکر نہ لے، گلوبل اکانومی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے ، ڈالر، یورو اور پونڈ کا مقابلہ کرنے کی سوچ بھی پیدا نہ کرے-کیا کسی میں اتنی جرأت ہے کہ یہ بات بھی کر سکے؟ ‘‘- [11]

قذافی کی شہادت کے بعد سوچی سمجھی سازش کے تحت بالخصوص مغربی میڈیا نے معمر قذافی پر مختلف نوعیت کے الزام تراشنے شروع کر دیے-میڈیا نے خصوصی طور پر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان چند مخصوص تقریبات کو نشر کرنا شروع کر دیا جن میں قذافی کے قتل پر جشن مناتے، فتح کے ترانے گاتے اور مٹھائیاں بانٹتے باغیوں کو دکھایا گیا -امریکی سیاستدان، سابقہ کانگریس ویمین، گرین پارٹی کی 2008ء میں صدارتی امیدوار اور عالمی شہرت یافتہ انسانی حقوق کی کارکن پروفیسر سینتھیا میکینی (Cynthia McKinney) اپنی کتاب ’’ لیبیا پر غیر قانونی جنگ (The Illegal War on Libya) ’’میں مندرجہ بالا موضوع پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ :

“A series of human rights organizations and think tanks worked with NATO in order to create the propaganda which ultimately overthrew Gaddafi's Libyan Arab Jamahiriya. When the time came these bodies coordinated with the NATO powers and the mainstream media in the project to isolate, castrate, and subjugate the Libyan Arab Jamahiriya. These so-called human rights organizations and the media worked together to propagate the lies about African mercenaries, Libyan military jet attacks on civilians, and civilian massacres by Muammar Qaddafi. International news networks would quote these human rights organizations in what would amount to a self-fuelled cycle of information, while the human rights organizations would then continue to make claims on the basis of the media's reports. This web of lies was presented to the United Nations Office as Geneva and then presented to the United Nations Security Council in New York City as the basis for the war in Libya”.[12]

’’متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں اور تھنک ٹینکس نے نیٹو کے ساتھ مل کر پراپیگنڈا کیا جس کے باعث آخر کار قذافی کی لیبین عرب جمہوریہ کو ختم کر دیا گیا-عین وقت پر ان تنظیموں نے نیٹو پاورز اورمرکزی میڈیا کے ساتھ مل کر لیبیا کی عرب جمہوریہ کو الگ اور اکیلا کرنے، تقسیم، معزول اور سرنگوں کرنے کے پروجیکٹ پر کام کیا-ان نام نہاد انسانی حقوق کے تنظیموں اور میڈیا نے مل کر عرب جنگجوں، شہریوں پر لیبیا کے فضائی حملوں اورمعمر قذافی کی طرف سے شہریوں کے قتلِ عام کے متعلق جھوٹا پروپیگینڈا کیا-بین الاقوامی نیوز نیٹ ورکس نے انہیں انسانی حقوق کے اداروں کے حوالے سے خود ساختہ خبروں کو نشر کرنا شروع کر دیا جن کو بعد میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے بنیاد بنا کر کئی دعوے کرنا شروع کر دیے-جھوٹ کا یہ انبار جنیوا میں موجود اقوامِ متحدہ کے دفتر اور پھر نیو یارک سٹی میں موجود اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا جس کو لیبیا پر جنگ کی بنیاد بنایا گیا‘‘-

صد حیف کہ کبھی اپنے ذاتی مفادات کی خاطر تو کبھی مال و دولت کے حصول کے مدِنظر طلوعِ ’’انسانیت‘‘سے شروع ہونے والا یہ درد ناک بھیانک کھیل، انسان اور انسانیت کی ’’مادی ترقی‘‘کے باوجود بھی نہیں رک سکا-مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کو برقرار رکھنے، مال و دولت اور تیل کے کنوؤں پر اپنا تسلط بڑھانے اور ملتِ اسلامیہ کے اتحا د سے ڈرنے والے اسلاموفوبیا کے شکار سامراجی، استعماری و استبدادی قوتوں نے قذافی کے سوچے سمجھے قتل کے بعد لیبیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا - آج ملکی خانہ جنگی کی وجہ سے افریقہ کے خوشحال ترین ملک کا حال اس قدر بُرا ہو چکا ہے کہ آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں-سامراجی انا کی بھینٹ چڑھنے والا لیبیا اکیسویں صدی میں دُنیا کی سب سے بڑی ’’غلاموں کی کھلی منڈی‘‘بن چکا ہے جہاں عام شاہراہوں پہ ابنِ آدم و بنتِ حوا بکتے ہوئے مغربی انصاف کو دادِ تحسین و واہ واہ دیتے ہیں [13]- ملک چھوٹے چھوٹے دھڑوں میں بٹ چکا ہے -اقوامِ متحدہ کی کوششوں کے باوجود ملکی حالات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی-آئے روز سینکڑوں کی تعداد میں عام شہری لقمہ اجل بن رہے ہیں-اس افراتفری کے عالم میں بھی عالمی طاقتیں اپنی خصلتوں اور سازشوں سے نہیں رکیں بلکہ ابھی بھی دوہری پالیسی اپنائے ہوئے ہیں-مغرب ایک دفعہ پھر اس ملکِ خداداد کو اپنی کالونی بنانا چاہتا ہے جس کے لیے وہ ملک میں ان لوگوں کو اقتدار میں لانا چاہتے ہیں جو پسِ پردہ مغربی مفادات کے لیے کام کریں-مغرب کے ان مقاصد کو لویڈ مسیپا (Lloyd Msipa) اپنے ایک آرٹیکل میں یوں بیان کرتے ہیں کہ:

The issue in Libya is not so much about Gaddafi, but that his murder symbolises the final occupation of Libya, the [this was] re-colonisation of Libya by America and NATO forces.” [14]

’’لیبیا میں مسئلہ قذافی کے متعلق نہیں بلکہ اس کا قتل لیبیا پر حتمی قبضہ اور امریکہ اور نیٹو کی طرف سے لیبیا کو دوبارہ نو آبادی/ کالونی بنانے کے عنصر کو ظاہر کرتا ہے‘‘-

لیکن انسانی حقوق کے علمبردار آج یہ یکسر بھول چکے ہیں ان کی بے حسیوں اور غلطیوں کی سزا عام شہری بھگت رہے ہیں-اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر لیبیا کے بے یارو مددگار شہری ہزاروں کی تعداد میں نا صرف تیونس، مصر اور دیگر قریبی ممالک میں نقل مکانی کر چکے ہیں بلکہ سمندر کو عبور کرتے ہوئے یورپ جانے پر مجبور ہیں جہاں ان کو دیگر کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے-پچھلی نصف صدی میں شام کے بعد دوسری بڑی ہجرت لیبیا میں دیکھنے میں آئی ہے-حالیہ تحقیقات کے مطابق کم و بیش 15لاکھ سے زائد لیبیا کے لوگ ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں کس مپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں-دہشت گرد عناصر اور ’’عالمی پراکسی وارز‘‘ کے باعث ملک جل رہا ہے-باقی تمام تجارتی خسارے تو ایک طرف، ملکی تیل جو کبھی کم و بیش 16 لاکھ بیرل یومیہ نکلا کرتا تھا اب صرف 6 لاکھ بیرل تک محدود ہو چکا ہے-قذافی کی شہادت کو آج آدھا عشرہ گزرنے کو ہے مگر ملکی حالات کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی -

آج اسلامی ممالک بےحسی کا شکار ہونے کے باعث، فلسطین ، کشمیر، روہنگیا، افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والے ظلم و ستم پر خاموش ہیں-لیکن اقبال ایک صدی قبل اپنی خداداد بصیرت سے جان چکے تھے کہ اس امت کے غیوروں کے دل میں ایمان کی حرارت اور توحید کے نقوش کسی صورت مٹائے نہیں جا سکتے-آج نہیں تو کل یہ ملت ِخداداد اپنی خودی پہچانتے ہوئے اسلاف کی وراثت کے امیں بنیں گے- آج امتِ مسلمہ کی ترقی و کامیابی کا راز اقبال کی اس نصیحت میں پوشیدہ ہےکہ:

پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار ِ دیں میں ہو
ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر[15]

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ طرابلس کے عوام با ضمیر، با غیرت و حریت پسند ہیں کہ جن کی 14 سالہ بچی سے لے کر ضعیف العمر بزرگوں میں اسلامی تعلیمات کا واضح عکس نظر آتا ہے- طرابلس کی آزادی کو کابل کی طرح کئی بار پامال کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں اور گو کہ بظاہر سامراجی طاقتیں کافی حد تک کامیا ب بھی ہوئیں لیکن یہ بات قابلِ غور ہے کہ استعمار آج اپنی ہار تسلیم کر چکا ہے اور عنقریب اپنے ہی خنجر سے خود اپنی موت آپ مر جائے گا کیونکہ شاخِ نازک پر بننےوالا آشیانہ ہمیشہ ناپائیدار ہوتا ہے-اس کے برعکس طرابلس کے شہیدوں کا لہو ماضی میں بھی رنگ لایا تھا اورہم پُرامید ہیں کہ بہت جلد یہ تاریخی شہر اپنی کھوئی ہوئی میراث حاصل کرنے میں کامیاب ہو گا اور ایک دفعہ پھر دنیا کے نقشے پر اپنے لالے کے رنگ بکھیرے گا- اللہ پاک ہمارا حامی و ناصر ہو---!

٭٭٭

[1]("History of The Marines’ Hymn," United States Marine Band,

http://www.marineband.marines.mil/About/Library-and-Archives/The-Marines-Hymn/.

[2](بانگِ درا)

[3](ایضاً)

[4](World Fact Book of Central Intelligence Agency, available at https://www.cia.gov/library/publications/the-world-factbook/fields/2103.html.

[5](Garikai Chengu, “Gaddafi’s Libya was Africa’s Most Prosperous Democracy,” Foreign Policy Journal. Jan 12, 2013, https://www.foreignpolicyjournal.com/2013/01/12/gaddafis-libya-was-africas-most-prosperous-democracy/.

[6](Muammar al-Qaddafi, The Green Book, available at http://archive.peoplescience.org.uk/education-in-general/The_Green_Book_-_by_Muammar_al-Qaddafi.pdf

[7](Steven Meltzer, "Ten Things You Didn’t Know About Libya Under Gaddafi’s So-called Dictatorship," Urban Times. May 16, 2014, http://urbantimes.co/2014/05/libya-under-gaddafi/.

[8](Garikai Chengu, “Gaddafi’s Libya was Africa’s Most Prosperous Democracy,” Foreign Policy Journal. Jan 12, 2013, https://www.foreignpolicyjournal.com/2013/01/12/gaddafis-libya-was-africas-most-prosperous-democracy/.

[9]( Lloyd Msipa, “The Assassination of Mummar Gaddafi illegal under International Law,” JDSUPRA. October 21, 2011, https://www.jdsupra.com/legalnews/the-assassination-of-mummar-gaddafi-ille-10145/.

[10](Primoz Manfreda, Current Situation in Libya: Failing Democratic Experiment, Thought Co. March 17, 2017, https://www.thoughtco.com/current-situation-in-libya-2353222.

[11]( توفیق الرحیم مہر، ’’صدام اور قذافی قتل کے چند حقائق‘‘،ماہنامہ مراۃ العارفین انٹرنیشنل،ستمبر 2017، لاہور، پاکستان)

[12]( Cynthia McKinney, The Illegal War on Libya: A Dignity Project. Atlanta, Ga.: Clarity Press, 2012.)

[13] دیکھئے نیو یارک ٹائمز کی ویب سائیٹ پہ شائع ہونے والے مسلسل مضامین

[14](Lloyd Msipa, “The Assassination of Mummar Gaddafi illegal under International Law,” JDSUPRA. October 21, 2011, https://www.jdsupra.com/legalnews/the-assassination-of-mummar-gaddafi-ille-10145/.

[15](بانگِ درا)

طرابلس(Tripoli) شمالی افریقہ میں موجود ملک لیبیا کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہےجس کی اوسط آبادی تقریباً 18 لاکھ سے زائد ہے-یہ شہر بحیرۂ روم کے ساحل اور صحرائے اعظم کے درمیان، ملک کے شمال مغربی پتھریلی علاقے میں واقع ہے-اس کا انگریزی نام، ٹریپولی، دو الفاظ ٹرائی(Tri) اور پولِس(Polis) سے مل کر بنتا ہے-ٹرائی تین کو، جبکہ پولِس شہر/آبادی/قصبہ وغیرہ کو کہتے ہیں، چونکہ یہ علاقہ تین قدیمی شہروں کے ملاپ سے بنا ہوا ہے لہذا اسے ٹریپولی کہا جاتا ہے- اس شہر کو ساتویں قبل مسیح میں فونیشی (Phoenicians) باشندوں نے قائم کیاتھا-چونکہ لبنان میں بھی طرابلس نامی شہر موجود ہے اس لیے اس لیبیائی شہر کو طرابلس الغرب بھی کہا جاتا ہے-

طرابلس لیبا کا سب سے بڑا شہر، بنیادی بندرگاہ، سب سے بڑا تجارتی، صنعتی و مالیاتی مرکز ہے-جامعہ الفاتح (جسے جامعہ الطرابلس بھی کہا جاتا ہے) بھی اسی شہر میں واقع ہے-چونکہ لیبیا ایک قدیم شہر ہے اس لیے طویل تاریخ ہونے کے باعث یہاں نہایت اہمیت کے حامل آثار قدیمہ کے کئی مقامات واقع ہیں-مثلاً آرک آف مارکس اوریلیس (The Arch of Marcus Aurelius برج طرابلس، لال قلعہ جسے السرايا الحمراء(The Red Castle or Assaraya Alhamra)بھی کہا جاتا ہے، لال قلعہ میوزیم، جانزور میوزیم (Janzour Museum) اور پرانا شہر وغیرہ سر فہرست ہیں-گرمیوں میں یہاں کا موسم خشک و گرم جبکہ سردیوں میں معمولی سرد ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر معمولی بارش بھی ہو جاتی ہے-یہ ملک ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں، غاصبوں اور استعماریوں کی جولاں گاہ بنا رہا ہے-قبل از اسلام اسے سلطنتِ روما نے کئی بار نیست اور پامال کیا-عربوں نے اس علاقہ میں اسلام کا پیغامِ امن و محبت پھیلایا اور یہاں آباد بھی ہوئے اور اسے دنیا کے بہترین علمی مراکز میں شامل کیا-جس کے بعد یہ علاقہ سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِنگیں رہا-اٹلی اور اطالوی استبدادی و استعماری غاصبانہ قبضے کے بعد لیبیا اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق24 دسمبر1951ء میں مکمل خود مختار ملک بن گیا-لیبیا دنیا کا وہ پہلا ایسا ملک ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اقوامِ متحدہ کی حمایت اور قرارداد سے آزادی حاصل کی-

تاریخی پسِ منظر:

یہ شہر ساتویں قبل مسیح میں فونیشی(Phoenicians) باشندوں نے قائم کیا تھا جس کی بنیادی وجہ اس کا بآسانی دفاع اور قدرتی بندرگاہ وغیرہ ہو سکتے ہیں-جس کے بعد برقی (Cyrenaicaians) اس پر قابض رہے اور پھر قرطاجنیوں (Carthaginians) نے برقی یونانیوں سے یہ علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا-دوسری قبل مسیح میں یہ علاقہ سلطنت روم کا حصہ بنتا ہے جس کے آثار آج بھی آرک آف مارکس اوریلیس کی صورت میں موجود ہیں جسے دوسری قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا-مسلمانوں نے اس علاقے کو ہجرت کے بائیسویں سال 642 ء میں حضرت عمر بن العاص (﷜) کی قیادت میں اپنی قلمرو میں شامل کیاجس کے بعداس علاقے پر مختلف مسلمان حکمران رہے-سولہویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی تک یہ عظیم سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا -البتہ اس دور میں یورپی استعماریوں کی سازشوں اور مداخلت کی وجہ سے مقامی قبائل کی طرف سے سلطنت عثمانیہ کی گاہے بگاہے مخالفت بھی کی جاتی رہی اور 1835ء سے پہلے سلطان کے اختیار نہ ہونے کے برابر تھے- انیسویں صدی کے آغاز میں ہونے والی بربری جنگوں میں طرابلس نے اہم کردار ادا کیا-پہلی بربر امریکا جنگ جو کہ بربری ساحل کی جنگ (Barbary Coast War ) اور جنگ طرابلس (Tripolitan War) کے نام سے بھی معروف ہےوہ پہلی جنگ تصور کی جاتی ہے جس میں ریاست ہائے متحدہ امریکا اور چند شمالی افریقی ممالک آمنے سامنے تھے-اس وقت شمالی افریقہ کا کچھ حصہ سلطنت عثمانیہ کے زیرِ انتظام بھی تھا-ان شمالی افریقی ممالک میں مراکش، الجزائر، تیونس اور طرابلس شامل تھے-آخری تین ریاستیں (الجزائر، تیونس اور طرابلس) سلطنت عثمانیہ کے نیم خود مختار صوبے تصور کیے جاتے تھے-اس وقت یورپ اور امریکہ کی بیشتر تجارت ان افریقی اور ایشیائی ممالک کے ساتھ بحیرہ روم کے ذریعے سے ہوتی تھی-جہاں بحری قزاق (Pirates) ایک بڑی تعداد میں موجود تھے-اس وقت سلطنت عثمانیہ اور ساحل سمندر پر موجود دیگر بربری ممالک کے بحری بیڑے یورپی تجارتی بحری جہازوں اور کشتیوں کی بحری قزاقوں سے حفاظت کیلئے بحیرہ روم میں موجود ہوتے تھے جس کے عوض یورپی ممالک ٹیکس ادا کیا کرتے تھے-المختصر یہ کہ برطانوی امریکہ ترکوں کو 4000 ریال مالیت کا ضروری جنگی سازوسامان، جنگی مدد اور کم و بیش 10000 ریال نقد ٹیکس ادا کیا کرتا تھا-برطانیہ (جسے انگلستان بھی کہتے ہیں) سے آزادی کے بعد امریکی بحری بیڑے امریکی پرچم کے ساتھ دنیا کے مختلف سمندروں میں تجارت کی غرض سے سفر کرنے لگے-ترک بحریہ کے ساتھ ٹکراؤ کے بعدجب امریکی بحری بیڑے ترکوں کے قبضے میں آ گئے اور بالآخر جب امریکی بحریہ زورِ بازو سے معاملہ حل کرنے سے عاجز آ گئی تو دونوں ممالک میں 5 ستمبر 1795ء کو ایک معاہدہ طے پایا جو امریکہ کی دو سو سال پر محیط تاریخ کا پہلا ایسا معاہدہ تھا جو انگریزی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں لکھا گیا ہو اور اس معاہدے کے تحت پہلی دفعہ امریکہ نے کسی غیر ملک کو سالانہ ٹیکس ادا کرنے کا فیصلہ اور عہد کیا ہو-پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن اور ترکی کے پاشا کے درمیان ہونے والے صلح نامے کے تحت امریکہ نے جو ٹیکس دینے کا عہد کیا تھا وہ نہ صرف اس سے منحرف ہوا بلکہ طرابلس میں اپنے قونصلر کے ذریعے معاہدے کے خلاف یوسف پاشا کو ٹیکس کی کمی پر قائل کرنے کی کوششیں بھی کیں-مختصر یہ کہ حالات مزید بگڑنے کے باعث 2 بڑی جنگیں ہوئیں جن میں پہلی جنگ 1801ء تا 1805ء تک رہی اور دوسری جنگ 1815ء میں لڑی گئی-1801ء میں عثمانی یوسف پاشا کی جانب سے امریکی صدر تھامس جیفرسن ٹیکس کو رقم بڑھا کر 225000 ڈالر تک کرنے کے مطالبے پر نئے منتخب شدہ صدر نےناصرف یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں آ کر پریذیڈینٹ اور فلاڈیلفیا نامی دو فریگیٹس پر مشتمل اپنا جنگی بحری بیڑا ایڈمرل ’’رچرڈ ڈیل‘‘(Richard Dale ) کی قیادت میں بحیرہ روم میں بھیجا مگر بدقسمتی سے تھامس جیفرسن کو امریکی بحریہ پر اندھا اعتماد کرنا مہنگا پڑ گیا کیونکہ طرابلس میں لیبیا کی بحریہ نے فلاڈیلفیا فریگیٹ کو گرفتار کر لیا جس پر امریکی کیپٹن ویلیم (William Bainbridge) نے خود ہی حملہ کر کے فلاڈیلفیا کو تباہ کردیا کہ یہ طرابلس کی بحریہ کے ہاتھ نہ لگ جائے-اس واقعہ کا امریکی سیاسی و دفاعی قیادت پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ انہوں نے اسے امریکی میرینز کور (United States Marine Corps)کے ترانے کا مستقل حصہ بنا لیا جسے ان کا ہر فوجی ہر صبح سویرے دہراتا ہے-اس ترانے کا مطلع یہ ہے -

From the Halls of the Montezuma to the shores of Tripoli; We fight our country’s battles in the Air, on Land and Sea.” [1]

’’ہم مونٹیزوما کے ہالز سے لے کر طرابلس کے ساحلوں تک اپنے ملک کیلئے فضاء ،زمین اور سمندر پر جنگ لڑیں گے‘‘-

بالآخر امریکہ نے شکست تسلیم کرتے ہوئے 10 جون 1805ء کو مذاکرات کے ذریعے جنگ کے خاتمے کا فیصلہ کیا اور مشہور زمانہ معاہدہ طرابلس طے پایا جس کے تحت امریکہ نے ناصرف بھاری رقم ادا کی بلکہ 1812ء تک طرابلس کے عُثمانی حاکم یوسف پاشا کو سالانہ بیس ہزار ڈالر ادا کرتا رہا-

1835ء میں سلطنت عثمانیہ نےایک خانہ جنگی کے بعد طرابلس اور لیبیا پر مکمل اختیار حاصل کر لیا اور 1882ء میں تیونس پر فرانسیسی قبضے کے بعد عثمانیوں نے طرابلس میں فوج بڑھا دی-تاریخ عالم اس بات کی گواہ ہے کہ فاشسٹ(Fascist)، استبدادی و استعماری قوتوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے غیر جانبدار ممالک پر ظلم و ستم کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کی-جس کی ایک کڑی طرابلس کی تاریخ کےاُس سیاہ باب میں ملتی ہے جب اپنے مال و دولت میں اضافہ سمیت دیگر کئی غیر اخلاقی و غیر قانونی مفادات کے پیش ِنظر اٹلی نے طویل عرصہ تک یہ دعویٰ کیے رکھا ہے کہ طرابلس اٹلی کے زیر اختیار آتا ہے لہٰذا انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ طراب?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر