قازقستان پاکستان تعلقات : تعاون کے مواقع

قازقستان پاکستان تعلقات : تعاون کے مواقع

قازقستان پاکستان تعلقات : تعاون کے مواقع

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ مارچ 2022

مسلم انسٹیٹیوٹ اسلام آباد میں خصوصی لیکچر ’’قازقستان پاکستان تعلقات: تعاون کے مواقع‘‘ کا اہتمام کیا گیا- قازقستان کے سفیر عزت مآب یرزہان کستافن نے خصوصی لیکچر دیا- عزت مآب صاحبزادہ سلطان احمد علی (دیوان آف ریاست جوناگڑھ و چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ابتدائی کلمات ادا کئے- تقریب میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی- اسامہ بن اشرف ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے-

معزز مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:

30 سال قبل 24 فروری 1992ء کو پاکستان اور قازقستان نے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے- تب سے دونوں ریاستیں بتدریج باہمی تعاون کو فروغ دے رہی ہیں- دونوں ممالک کے رہنماؤں اور وزرائے خارجہ کے مابین مختلف فورمز اور تقریبات میں مستقل بنیادوں پر دو طرفہ تعلقات، علاقائی مسائل اور خطے کی سالمیت پر بات چیت ہوتی رہی ہے- دونوں ریاستوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اس وقت دفاعی تعاون کو سب سے زیادہ فروغ ملا ہے- بدقسمتی سے دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعاون پر بہت کم توجہ دی گئی ہے- گزشتہ سال دو طرفہ تجارت صرف 45 ملین ڈالر تھی- فروری 2020 میں اسلام آباد میں پاکستان قازقستان بین الحکومتی مشترکہ کمیشن کا نواں اجلاس منعقد ہوا جس میں تجارت، نقل و حمل اور توانائی پر تین ورکنگ گروپس بنانے پر اتفاق کیا گیا- نومبر 2020ء میں دونوں ریاستوں کے درمیان ٹرانسپورٹ اور تجارت کیلئے مشترکہ ورکنگ گروپ پر ایک آن لائن سیشن منعقد ہوا- دسمبر 2021ء میں وزیراعظم عمران خان نے قازقستان اور پاکستان کے درمیان براہ راست پروازوں کی منظوری دینے کا اعلان کیا ہے-

پاکستان اور قازقستان دو برادر اسلامی ممالک ہیں جن کی تاریخ، ثقافت، مذہب اور تہذیب مشترک ہے- دونوں ممالک باہمی احترام، تعاون، اقتصادی انضمام اور عالمی مسائل کے حوالے سے مشترکہ نکتہ نظر پر مبنی خوشگوار تعلقات کے حامل ہیں- دونوں ممالک کے درمیان متعدد معاملات میں مماثلت پائی جاتی ہیں جو خطے میں موجود سیاسی رقابتوں، معاشی پیچیدگیوں اور سماجی انتشار کے باوجود دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنا سکتے ہیں-

وسطی ایشیائی خطہ ایک نئے رجحان کی جانب گامزن ہے جس کا مقصد وسیع تر علاقائی تعاون اور سماجی و اقتصادی انضمام کے ذریعے علاقائی روابط کو مزید بڑھانا ہے- اسی طرح، پاکستان نے اپنی توجہ جیو اکنامکس کی طرف مبذول کر لی ہے جو دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کیلئے اپنی جغرافیائی اہمیت کو بروئے کار لانے کے لیے حوصلہ افزا ہے- قازقستان اپنے جغرافیائی محل وقوع اور وسیع قدرتی وسائل کی وجہ سے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کا اہم حصہ ہے- اسی طرح سی پیک، بی-آر-آئی کا ایک فلیگ شپ منصوبہ ہے جس میں علاقائی اقتصادی انضمام کی بڑی استعداد ہے-

علاقائی اور بین الاقومی سطح پر تجارت اور توانائی کو فروغ دینے کے لئے پاکستان زمینی راستہ اور رابطہ فراہم کر سکتاہے - اس لیے نتیجہ خیز اقتصادی سفارتکاری وقت کی ضرورت ہے- اگرچہ دفاعی تعاون، تیل، گیس اور توانائی جیسے شعبوں میں تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان براہ راست جغرافیائی رابطوں کی کمی دو طرفہ اقتصادی اور تجارتی تعاون کو متاثر کرتی ہے- لہٰذا، جدید منصوبوں کے تعاون سے دونوں ممالک کے مابین رابطے بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے- 2000 کی دہائی میں شاہراہ قراقرم کی تعمیر نے مغربی چین تک پاکستان کی رسائی کو بہت وسعت دی ہے - قراقرم ہائی وے کو مزید وسیع کیا جا سکتا ہے تاکہ علاقائی رابطوں کو بڑھایا جا سکے- دوسرا آپشن ریلولے لائن سسٹم کے ذریعے اسلام آباد اور آستانہ کے مابین رابطہ قائم کرنا ہے جو قازقستان، ترکمانستان، ایران اور پھر پاکستان، ایران، ترکی کے درمیان رابطے سے ممکن ہے- قازقستان کی سڑکوں، ریلوے اور بندرگاہوں کو جدید بنانے کیلئے اقتصادی پالیسی ’NURLY ZHOL‘ پاکستان کی پالیسیوں سے ملتی جلتی ہے جیسا کہ سی پیک، ایم-ایل ون کی اپ گریڈیشن- پاکستان، ایران، ترکی ریلوے روٹ نے اس منصوبے کی تکمیل کے امکانات کو مزید بڑھا دیا ہے- مضبوط سیاسی عزم اور نجی شعبوں کی شمولیت سماجی و اقتصادی انضمام اور وسیع تر علاقائی روابط کے مطلوبہ اہداف کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے-

مزید برآں دونوں ریاستیں افغانستان میں امن و استحکام لانے کیلئے مل کر کام کر سکتی ہیں- افغانستان کی سیکیورٹی اور امن عامہ کی صورت حال جغرافیائی رابطوں اور اقتصادی انضمام کی راہ میں بڑی رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ ثابت ہوئی ہے- امریکہ کے انخلا ءکے بعد افغانستان میں استحکام باقی خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے- دونوں ممالک افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کو روکنے کیلئے تعاون اور ہم آہنگی کے ساتھ کام کر سکتے ہیں- اس مقصد کیلئے دونوں ممالک شنگھائی تعاون تنظیم، اسلامی تعاون تنظیم اور اقوام متحدہ جیسے علاقائی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز کو استعمال کر سکتے ہیں- دونوں ممالک انسدادِ دراندازی ، انسدادِ دہشتگردی، فوجی تربیت، مشترکہ فوجی مشقوں وغیرہ کے میدان میں دو طرفہ تعاون کو بڑھانے کیلئے مل کر کام کر سکتے ہیں- اس کے علاوہ، دونوں ممالک میں سماجی اور عوامی روابط کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور ادب پر کام کرنے پر تعاون بڑھایا جا سکتا ہے-

صوفی ادب کا تبادلہ انتہا پسندی، رنگ و نسل پرستی اور قوم پرستی کا مقابلہ کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ صوفی ادب محبت، امن، ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی جیسے نظریات اور بہترین طرز عمل کو جنم دیتا ہے- اس مقصد کیلئے سیاحت کے ذرائع سے استفادہ کیا جا سکتا ہے- یونیورسٹیوں، تنظیموں، فنکاروں، تحقیقی مراکز اور ذرائع ابلاغ کے شعبہ جات کے درمیان تبادلوں سے تعلیم، تحقیق، سائنس، ثقافت، آرٹ، سیاحت اور کھیل کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا جاسکتا ہے- دسمبر میں، قائداعظم یونیورسٹی اور قازق ٹیکنیکل یونیورسٹی کے درمیان ایک مفاہمت نامے پر دستخط ہوئے جو کہ دونوں ممالک کے مابین تعلیمی میدان میں تعاون کے اضافے کا ثبوت ہے-

پاکستان اور قازقستان کے درمیان رابطوں اور تبادلہ خیال کی کمی کی وجہ سے مشترکہ ورکنگ گروپس میں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے- دونوں ممالک کے درمیان عوامی سطح پر دوطرفہ تعلقات کو فرغ دینے کی ضرورت ہے- یہ وقت ہے کہ دونوں ممالک ثقافت، تاریخ اور مذہب میں دوطرفہ تعلقات کو بحال کریں- اپنی تاریخ، ثقافت اور اپنے خطے کی موجودہ صورت حال پر معلومات کے تبادلے کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے- اس مقصد کیلئے دونوں ممالک کی وزارت اطلاعات اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں- کاروباری تعلقات کیلئے پاکستان میں پانچ روزہ نمائش کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کیلئے 100 سے زائد کمپنیوں کو اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے- ستمبر 2022ء میں قازقستان کے صدر پاکستان کا دورہ کریں گے جس سے مشترکہ تعاون اور سرگرمیوں میں مزید بہتری آئے گی- ’OBOR‘ منصوبے کے ذریعے چین کی طرح پاکستان بھی یوریشین یا وسطی ایشیائی مارکیٹ اور یورپی منڈیوں تک پہنچ سکتا ہے- ہم ’OBOR‘  کے ذریعے 40 سے 45 دنوں میں یورپی منڈیوں تک پہنچ سکتے ہیں- ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام شعبوں میں پاک قازق دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط اور تیز کیا جائے-

وقفہ سوال وجواب

 سوال: کیا پاکستان اور قازقستان کے درمیان شعبہ تعلیم میں طلباء کے تبادلے کا کوئی پروگرام ہے؟

جواب: تعلیم میں تعاون کے حوالے سے قازق وزیر تعلیم نے طلباء کے تبادلے کے پروگرام کے لیے 2003ء میں ایک مفاہمت نامے پر دستخط کیے تھے- تاہم، تقریباً 1000 طلباء کی موجودہ تعداد کو بڑھا کر نوجوان نسل کے درمیان روابط بڑھانے کی ضرورت ہے- یقیناً اس سال میں طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوگا- ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف یونیورسٹیوں کے درمیان بلکہ دونوں ممالک کے نوجوانوں کی تنظیموں کے درمیان بھی روابط پیدا کیے جائیں-

سوال: مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کی طرح وسطی ایشیائی ریاستیں اپنے قدرتی وسائل کی وجہ سے بڑی طاقتوں کی سیاست کیلئے ایک اور ہاٹ سپاٹ ہیں- وسطی ایشیائی ممالک میں بغاوت کے آغاز کے بعد کیا یہ خطے میں نئی عرب اسپرنگ کی طرز کے ’’سنٹرل ایشئن اسپرنگ‘‘ کا آغاز ہے؟

جواب: وسطی ایشیائی خطے میں مختلف سطح پر اقتصادی ترقی اور سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے- قازقستان میں، سال 2022ء کا آغاز ایک پُرامن احتجاج میں ایک انتہائی المناک واقعہ کے ساتھ ہوا، جس کا آغاز قازقستان کے مغربی حصے میں ہوا- یہ احتجاج اندرونی اور بیرونی طاقتوں کی مدد سے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش میں تبدیل کر دیا گیا- قازقستان وسطی ایشیا میں سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے- 19 ملین آبادی والے ملک میں سماجی انصاف کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے- لہٰذا، یہ وسطی ایشیا میں عرب اسپرنگ کے برعکس ہے-

سوال:دونوں ریاستوں کے تعلقات میں توانائی کے شعبے میں تعاون پر روشنی ڈالیں؟

جواب: پاکستان میں توانائی کی طلب بڑھ رہی ہے- اگر افغانستان مستحکم ہو جاتا ہے تو بہت سی چیزیں مکمل ہو سکتی ہیں، جن میں پائپ لائنیں بنانا اور قازقستان کو پاکستان سے جوڑنا شامل ہے، جس میں ’تاپی‘ ایک بڑا اور مقبول ترین منصوبہ ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر