امام ابوحنیفہؒ کی فکر پر اعتراضات کی حقیقت

امام ابوحنیفہؒ کی فکر پر اعتراضات کی حقیقت

امام ابوحنیفہؒ کی فکر پر اعتراضات کی حقیقت

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی جون 2023

دین اسلام کے کچھ احکام ایسے ہیں جو اس قدر واضح ہیں کہ وہ کسی دوسرے معنی اور مفہوم کا احتمال نہیں رکھتے یعنی وہ قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ ہیں ، ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیں کیا جا سکتا-باقی رہا مقام اختلاف تو وہ ظنی، فروعی اور اجتہادی مسائل ہیں - آئمہ مجتہدین اپنی فراست سے نت نئے پیدا ہونے والے مسائل کا حل قرآن و سنت میں اجتہاد کے راستے سے تلاش کرتے ہیں -اختلاف کوئی بری چیز نہیں ہے بلکہ اختلاف کو امت کیلئے رحمت قرار دیا گیا ہے- آقا کریم (ﷺ) کی موجودگی اور بعد میں بھی جلیل القدر صحابہ کرام نے کئی مسائل میں اختلاف کیا جیسا کہ جنگ بدر کے قیدیوں اور مانعینِ زکوۃ کے متعلق صحابہ کرام کی رائے ایک دوسرے سے مختلف تھی- اسی طرح تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین میں بھی فروعی مسائل میں ہمیشہ سے اختلاف رہا ہے -

اکثر اکابرین کے مطابق: اختلاف ِ رائے ایک ایسا حسن ہے جس کی بنیاد پر مفسرین وشارحین حدیث کی کثرت اور فقہ اسلامی کا عظیم ذخیرہ وجود میں آیا؛ اسی سے تو تعلیم و تعلم میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور افکار کی نئی راہیں کھلتی ہیں-

لیکن عرض یہ ہے کہ اختلاف ِرائے کو اختلاف فی الدین سمجھ کر کفر واسلام کا مسئلہ نہ بنا دیا جائے، اختلاف کی نوعیت خواہ کیسی بھی ہو یہ ہرگز مخالفت کا روپ نہ دھارنے پائے کیونکہ مخالفت سےاسلامی اخوت کا شیرازہ بکھرتا ہے جبکہ اخوت اسلامی معاشرت کی اساس ہے جس کو سلامت رکھنا لازم ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب اختلافِ رائے کا مقصود رضائے الہی ، للہیت اور حق کی تفہیم ہو، آج بھی سلف صالحین کا طرز اختلاف ہمارے لیے مشعل راہ ہے  جو کئی مسائل میں اختلاف رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کے مدّاح اور گرویدہ نظر آتے ہیں، ہاں جب اختلاف مخالفت ، حسد اور مالی منفعت کا روپ دھار لے تو یہ صرف نہ اس کے لیے برا ہے بلکہ یہ امت کے لیے بھی نقصان دہ ہے -

اختلاف و احترام سے نکل کر کچھ لوگ حضرت امام ابو حنیفہؒ کی ذات گرامی پہ تنقیص و اعتراض وارد کرتے ہیں بعض اہل نظر کے مطابق اس کی چار وجوہات ہیں- ایک حسد کی وجہ سے معترض وجود میں آئے -حاسدین کے اعتراضات کی حیثیت یوں ہے ، جیساکہ کوئی چاند پر تھوکے -

دوسرے وہ لوگ بھی فی زمانہ پائے جاتے ہیں جو قومی اور بین الاقوامی سطح پہ معاشی منفعت کے پیشِ نظر تعصبات ، فرقہ واریّت اور شدت کو ہوا دینے کیلئے اسلاف و اکابر پہ طعن کا دروازہ کھولتے ہیں ، ایسے لوگ اِس قابل ہی نہیں کہ اُن پہ کوئی تبصرہ کیا جائے-

تیسرا آپ کے فہم و بصیرت تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے معترض وجود میں آئے جس کی تصریحات محدثین اور فقہاء کرام نے بیان فرمائی ہیں ، شیخ الاسلام امام ابن حجر ہیتمی المکی الشافعی لکھتے ہیں :

’’قال ابو سلیمان کان ابو حنیفۃ عجبا من العجب و انما یرغب عن کلامہ من لم یقو علیہ ‘‘[1]

’’ابو سلیمان نے فرمایا : ابو حنیفہ عجب العجاب تھے ان کے کلام سے وہی شخص نفرت کرے گا جو شخص ان کے سمجھنے کی قدرت نہیں رکھتا‘‘-

امام اعمش سے یحی بن آدم نے پوچھا کہ جو لوگ امام اعظم پر بولتے ہیں اُن کے حق میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں :

’’فرمایا کہ امام صاحب جو مسئلے بیان فرماتے ہیں ان میں سے بعض کو وہ سمجھتے ہیں اور بعض اُن کی عقل سے ماوراء ہوتے ہیں اس لئے ان سے حسد رکھتے ہیں ‘‘-[2]

چوتھی وجہ یہ ہے کہ آپ کے مستنبط شدہ مسائل کے بنیادی ماخذ کے مقامات اور مواقع کو نہ جانے، آپ کی فکری اور استنباطی قوت تک رسائی نہ ہونے اوراپنی کج فہمی کی بنیاد پر امام صاحب کو مورد الزام ٹھہرایا گیا کہ ’’یہ تو احادیث کے خلاف اپنی رائے قائم کرتے ہیں ‘‘-اِس افواہ کے نتیجے میں آپ کے معاصرین میں سے بڑے بڑے نام ایسے ہیں جو آپ سے خفا تھے ، لیکن جب وہ آپ سے ملے تو تمام اشکال بھی رفع ہوگئے اور آپ کی فکر کو تسلیم بھی کیا اور عزت و تکریم سے نوازا بھی سہی - جس کی وضاحت کتب ِمحدثین اور فقہاء میں موجود ہے -

شیخ الاسلام امام ابن حجر ہیتمی مکی الشافعی لکھتے ہیں کہ:

’’ایک دفعہ امام اوزاعی نے عبد اللہ بن مبارک سے پوچھا یہ کون ہے بدعتی؟ جو کوفہ میں ظاہر ہوا ہے جس کی کنیت ابو حنیفہ ہے تو آپ نے اس پر جواب نہ دیا بلکہ امام صاحب کے مشکل مسئلوں سے چند مسئلے دکھائے - امام اوزاعی نے ان مسئلوں کو نعمان بن ثابت کی طرف منسوب دیکھا- بولے یہ کون شخص ہیں ؟ کہا ایک شیخ ہیں جن سے میں عراق میں ملاہوں- بولے یہ بہت تیز طبع مشائخ ہیں جاؤ اور ان سے بہت سالکھ لو، انہوں نے کہا یہی ابو حنیفہ ہیں جن سے آپ نے منع فرمایا تھا- پھر جب امام اوزاعی مکہ معظمہ میں امام صاحب سے ملے تو انہی مسئلوں میں گفتگو کی ، تو جس قدر ابن مبارک نے امام صاحب سے سیکھا تھا اس سے بہت زیادہ واضح کر کے بیان فرمایا، جب دونوں جدا ہوئے، تو امام اوزاعی نےابن مبارک سے فرمایا کہ:

’’غبطت الرجل بكثرة علمه ووفور عقله وأستغفر الله تعالى لقد كنت في غلط ظاهر إلزم الرجل فانه بخلاف ما بلغني عنه‘‘[3]

’’میں امام صاحب کے کثرت علم و کمال عقل پر غبطہ کرتا ہوں اور میں استغفار کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے ، میں کھلی غلطی پر تھا میں ان کو الزام دیتا تھا حالانکہ وہ اس کے برخلاف ہیں جو ان کے بارے میں مجھ تک پہنچا‘‘-

چونکہ امام ابو حنیفہؒ احادیث مبارکہ سے مسائل کے استنباط کرنے میں وافر ملکہ رکھتے تھے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی اس لئے بعض لوگوں نے اپنی کج فہمی اور کج فکری کی بنیاد پر آپ کے خلاف اتنی افواہیں پھیلادی تھیں جو امام اوزاعی علیہ الرحمہ تک بھی پہنچ گئیں - اسی وجہ سے تو امام ابو جعفر محمد الباقرؒ نے بھی آپ سے حدیث اور قیاس کی بابت پوچھا تھا ( تفصیل کیلئے یہ روایت اِسی شمارہ کے مضمون ’’امام اعظم ابو حنیفہؒ کامنہج استدلال اور حدیث مبارکہ‘‘  میں ملاحظہ فرمائیں) -

امام ابو بکر خطیب بغدادی تاریخ بغداد میں لکھتے ہیں :

’’عن ابی یوسف ما رایت احدا اعلم بتفسیر الحدیث و مواضع النکت التی فیہ من الفقہ من ابی حنیفۃ‘‘[4]

’’امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک حدیث کی تفسیر اور حدیث میں فقہی نکتوں کے مقامات کا جاننے والا ابو حنیفہ سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے ‘‘-

جن لوگوں نے امام صاحب اور ان کے شاگردوں کے بارے میں یہ کہا ہے کہ وہ اپنی رائے کو سنتِ رسول (ﷺ) پر ترجیح دیتے ہیں -میں سوچتا ہوں کہ آج کا اصول الشاشی پڑھنے والا طالب علم بھی اتنا شعور رکھتا ہےاور جانتا ہے کہ سب سے پہلے قرآن کی طرف رجوع کیا جائے گا پھر سنتِ رسول (ﷺ)  کی طرف پھر اجماعِ صحابہ اور بعد میں قیاس کی طرف رجوع کیا جائے گا ، تو کیا ان لوگوں کے نزدیک امام صاحب کو اس طالب علم جتنا بھی درک نہ تھا ؟ وہ امام ابو حنیفہ جن کا دادا بھی تابعی، باپ بھی تابعی اور آپ خود بھی تابعین میں سے ہیں-

جس نے پیدا ہوتے ہی آنکھ’’خیرالقرون قرنی‘‘ میں کھولی ہو ، جس نے اپنی زندگی کے شب و روز صحابہ اور تابعین کی صحبت میں گزارے ہوں، جس کیلئے آقاکریم (ﷺ) یہ خوشخبری سنائیں :

’’طُوبٰى لِمَنْ رَآنِي، وَلِمَنْ رَأَى مَنْ رَآنِي، وَلِمَنْ رَأَى مَنْ رَأَى مَنْ رَآنِي‘‘[5]

بشارت ہے اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا (یعنی صحابہ کرام) - اور اُس کے لئے بھی جس نے مجھے دیکھنے والے کو دیکھا (یعنی تابعین، امام اعظم بھی تابعی ہیں) اور اس کیلئے بھی جس نے مجھے دیکھنے والوں کے دیکھنے والوں کو دیکھا(یعنی تبع تابعین) -

اس روایت کے مطابق تو امام اعظم کی زیارت کرنے والے بھی اس بشارت کے مصداق ہیں -

 جن کے بارے میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ’’کشف المحجوب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’آپ بکثرت مشائخ متقدمین کے استاد ہیں چنانچہ ابراہیم بن ادھم، فضیل بن عیاض، داؤد طائی اور بشر حافی وغیرھمؒ نے آپ سے اکتسابِ فیض کیا‘‘- [6]

ذرا سوچئے! کہ جو اتنے بڑے مشائخ کا استاد ہو جن کے تقوی اور روحانیت کا یہ عالم ہو کہ عالم رویا میں اللہ تعالیٰ انہیں 99مرتبہ اپنے انَوار و تجلیّات کی زیارت کا شرف عطا کرے جیساکہ کتب مناقب میں مرقوم ہے:

’’ رای اللہ تبارک وتعالی تسعا و تسعین مرہ ‘‘

جن کی قُرآن و سنت سے وابستگی مُسلّم ہواور جن کی روحانیت اور ولایت پر اُمت کا اجماع ہو، ان کے بارے میں کوئی آدمی یہ کہنے کی کیسے جسارت کر سکتا ہے کہ وہ اپنی رائے کوسنت رسول (ﷺ) پر ترجیح دیتے ہیں؟

دراصل مسئلہ یہ تھا کہ جب امام صاحب کے مستنبط شدہ ذخیرہ مسائل کا مطالعہ کرتے اور اپنی کج فہمی کی وجہ سے دلیل تک رسائی نہ ہوسکتی تو سوچ اور فکر میں اشکال پیدا ہو جاتا اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک متکلم خوداُس کی وضاحت نہ کرے تو آدمی اسی اشکال میں رہتا ہے-شارح مسلم امام نوویؒ (المتوفى: 676ھ) ’’شرح المہذب‘‘ میں کچھ ایسا ہی لکھتے ہیں :

’’حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ سے قاتل کی توبہ کے بارے میں سوال کیا گیا، آپ (رضی اللہ عنہ) نے فَرمایا اُس کی توبہ (قبول) نہیں ہے، دوسرے شخص نے یہی سوال کیا آپ (رضی اللہ عنہ) نے اُس کو فرمایا کہ قاتل کی توبہ قبول ہے ‘‘-

غور فرمائیں سوال ایک ہے کہ قاتل کی توبہ قبول ہے یا نہیں؟ ایک سائل کو آپ فرمارہے ہیں کہ قاتل کی توبہ قبول نہیں ہے اور اُسی سوال کے جواب میں دوسرے کو فرمارہے ہیں کہ قاتل کی توبہ قبول ہے، حالانکہ قاتل کی توبہ قبول ہے-

صرف اتنی بات پر کم ظرف آدمی آپ کے علم پر ، آپ کی فقاہت پر،آپ کی فہم و فراست پر ،آپ کی دوراندیشی پر طعنہ زنی کر سکتا ہے ، اور اُس وقت تک اس طعن و تشنیع کے چنگل سے باہر نکل ہی نہیں سکتا ،جب تک متکلم خود اس کی وضاحت نہ کرے-

کچھ ایسا ہی حال امام اعظم کے ساتھ ہوا کہ جب کج فہم لوگ آپ کے قواعد اجتہاد، مواقع اجتہاد اور احادیث میں فقہی نکتوں کے مقامات کو نہ سمجھ سکے ،تو بدگمانی میں مبتلا ہو گئے جو انہیں طعن و تشنیع کی دہلیز تک لے گئی -

شارح مسلم ’’امام نووی‘‘ آگے لکھتے ہیں کہ:

پھر حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے اس کی وجہ بیان فرمائی کہ مَیں نے دونوں کو الگ الگ جواب کیوں دیا؟

’’پھر فَرمایا کہ بہرحال شخص اول کی آنکھوں میں مَیں نے دیکھ لیا تھا کہ ارادہ قتل ہے پس میں نے اُسے باز رکھنے کیلئے (یہ فَتوی دیا کہ قاتل کی توبہ قبول نہیں ہے ) اور رہا دوسرا شخص تو وہ قتل( کرنے )کے بعد عاجزی سے آیا تو میں نےاُسے (رحمتِ الٰہی سے)مایوس نہیں کیا - (اُسے فتوی دیا کہ قاتل کی توبہ قبول ہے - )‘‘ [7]

امام قشيری (المتوفى: 465ھ) ’’رسالة القشيرية‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام سری سقطیؒ نے فرمایا:

’’ میں نے ایک مرتبہ ’’الحمدللہ‘‘ کہا تو تیس سال سے اپنے اِس قول سے استغفار کر رہا ہوں ‘‘-

تو یہ کتنا تعجب خیز قول ہے کہ ’’ الحمد لِلهِ‘‘ کہنے پر استغفار کرنا-حالانکہ کتب حدیث میں اِن کلمات ’’الحمدللہ‘‘ کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور یہی کلمات اللہ عزوجل اور رسول اللہ (ﷺ) کو محبوب ترین ہیں-حضرت امام سری سقطیؒ ’’الحمد للہ‘‘ کی فضیلت کو بھی جانتے تھے کیونکہ وہ کوئی عام انسان نہیں تھےبلکہ امام ابو القاسم قشیری لکھتے ہیں :

’’أَبُو الْحَسَنِ سري السقطي كَانَ أوحد زمانه فِي الورع وأحوال السنة و علوم التوحيد ‘‘

’’حضرت ابو الحسن سری سقطیؒ ورع، احوال السنہ، اور علومِ توحید میں یکتائے زمانہ تھے‘‘-

تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپؒ  ذخیرہ احادیث کے خلاف بات کریں تو جب تک صاحب کلام (امام سری سقطی ) خود اس کی وضاحت بیان نہیں فرمائیں گے کہ ’الحمد لِلهِ‘ کہنے پر استغفار کرنے سے اُن کی کیا مراد ہے؟ اُس وقت تک اشکال رفع نہیں ہو سکتا اور نہ کسی کو اُس پر حکم لگانے کی شرعا ً اجازت ہو گی-

امام قشیریؒ آگے لکھتے ہیں کہ آپؒ کی خدمت اقدس میں عرض کیا گیا :

’’ کہ وہ کیسے آپ الحمدللہ کہنے پر استغفار کرتے رہے ؟ پس آپؒ نے فرمایا : ایک مرتبہ بغداد میں آگ لگ گئی ( اور لوگوں کے مکانات وغیرہ جل گئے) ایک شخص میرے سامنے آیا اور اس نے کہا کہ آپ کی دکان بچ گئی ،تو میں نے کہا : الحمدللہ ، پس میں تیس سال سے اپنے اِس قول پر نادم ہوں کہ میں نے اِس سے اپنے نفس کے لئے اُس نقصان سے محفوظ رہنے کا ارادہ کیا جو مسلمانوں کو پہنچا‘‘-

آپ نے دیکھا کہ جب تک حضرت امام سری سقطیؒ نے اپنے قول کی خود وضاحت نہیں فرمائی اُس وقت تک اشکال رفع نہیں ہوا اور جب آپ کی وضاحت سامنے آگئی تو آپ کا کلام ’’عین منشائے شریعت محمدی(ﷺ)‘‘ کے مطابق ثابت ہوا - یہی انسانیت ہے اور یہی منشائے اسلام -

باقی رہا قلت روایت اور ایک محدث کا دوسرے محدث سے روایت نہ لینے یا اس قسم کے جتنے بھی دیگر اعتراضات ہیں ان کو امام صاحب کی کمزوری اور ضعف پہ محمول کرنا یہ معترض کے اپنے کمزور شعور اور ’’ضعف فی العلم‘‘ ہونے کی دلیل ہے-

اس قسم کے اعتراضات تو کسی محدث کی کمزوری اور ضعف کو ظاہرنہیں کرسکتے چہ جائیکہ امام الائمہ امامِ اعظم ابو حنیفہ کی کمزوری اور ضعف کو ظاہر کریں -

اگر قلت روایت کو بالفرض مان بھی لیا جائے تو اس کی کئی وجوہا ت ہو سکتی ہیں اور قلتِ روایت کوئی عیب نہیں تھا اور نہ ہے-جو عیب اور کمزوری بنا کر امام صاحب پر چسپاں کر دی گئی- بندہ ناچیز کی رائے میں اگر فضیلت اورشرف کا معیار کثرتِ روایت پر ہوتا تو یقیناً خلفائے راشدین بزرگی اور فضیلت میں دیگر صحابہ کرام سے کم ہوتے- کیونکہ خلفائے راشدین کی مرویات کی تعداد دیگر کئی صحابہ کرام سے  کم ہیں- لیکن ایسا نہیں ہے کہ روایت کم ہونے کی بِنا پر خلفائے راشدین کی فضیلت و بزرگی پہ کسی محدث یا فقیہہ نے کبھی کلام کیا ہو -اس لئے عقل مندی یہ ہے کہ اعتراض کرنے سے پہلے اس کی علت اور سبب کو معلوم کر لیا جائے تا کہ آدمی الزام درازی سے بچ سکے-اگر امام صاحب کواتنا کثیر علم حدیث نہ ہوتا تو اتنے کثیر مسائل کا استنباط کیونکر ممکن تھا؟ جو لوگ امام اعظم کو محض سترہ احادیث یاد ہونے کا بہتان دھرتے ہیں ان کے دامن میں سوائے تعصب و کم علمی کے کچھ نہیں - اتنے کثیر مسائل کا استنباط کہ اسلام کا اولین اور عظیم ترین فقہی مذہب وجود میں آیا ، کیا آپ نے یہ عظیم استنباط صرف اُن 17 احادیث سے کیا ہے ؟

بالفرض! اگر اس من گھڑت فسانے کو چند لمحے کیلئے مان لیا جائے تو پھر بھی امام اعظم کی کرامت ،بزرگی اور شرف ماننا پڑے گا -

امام ابو بکر خطیب بغدادی(المتوفی:463ھ) تاریخ بغداد میں لکھتے ہیں:ابو عبدالرحمن المقری جب امام ابو حنیفہ سے روایت بیان کرتے تو فرماتے :

’’قَالَ: حَدَّثَنَا شاهنشاه‘‘[8]

’’ہم سے بادشاہوں کے بادشاہ نے حدیث بیان کی ‘‘-

امام بخاری جنہیں علم حدیث میں ’’امیرالمؤمنین فی الحدیث‘‘ کا درجہ حاصلہے وہ خود اپنی زبانی بیان کرتے ہیں:

’’فلما طعنت فی ست عشرۃ سنۃ حفظت کتب ابن المبارک ووکیع ‘‘[9]

’’جب میں سولہ سال کا ہوا تو میں نے ابن مبارک اور وکیع کی کتابیں زبانی یاد کرلیں تھیں‘‘-

سیدنا امام بخاری جن محدثین کی کتابوں کو حفظ کرنا سندِ علم اور مقامِ سعادت سمجھ کر کہہ رہے ہیں یہ دونوں آئمہ یعنی عبداللہ بن مبارکؒ اور وکیعؒ بن جراح امام اعظمؒ ابو حنیفہ کے بلند پایہ شاگرد تھے -

احادیث مبارک میں حضرت امام اعظم کے بارے آقا کریم  (ﷺ) کی بشارت ہی تمام اعتراضات کو رفع کر دیتی ہے -

شیخ اجل حضرت امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب ’’التبييض الصحيفه‘‘ میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے اس فرمان عالی شان کی روشنی میں لکھتےہیں :

’’قال رسول اللہ (ﷺ) لوکان العلم بالثریا لتناولہ رجال من ابناء فارس (حلیہ)

’’رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اگر علم ثریا ستارے پر بھی ہوتا توضرور فارس کے مردوں کی اولاد میں سے کچھ لوگ اسے پا لیتے ‘‘-

’’أقول و قد بشر (ﷺ) بالإمام أبي حنيفة في الحديث ‘‘

’’مَیں کہتا ہوں کہ امام ابوحنیفہؒ کی حدیث نبوی (ﷺ)میں بشارت دی گئی ہے ‘‘-

اس حدیث پاک کی تخریج کرتے ہوئے بخاری و مسلم کی روایت کو نقل کرنے کے بعد امام سیوطی لکھتے ہیں :

’’فهذا أصل صحيح يعتمد عليه في البشارة و الفضيلة نظير الحديثين الذين في الإمامين و يستغنى به عن الخبر الموضوع ‘‘[10]

پس یہ امام اعظم کی فضیلت اور بشارت میں ایسی صحیح اصل ہے جو قابل اعتماد ہے اور جن دو حدیثوں کو شیخین یعنی بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے ان کی وجہ سے انسان (امام صاحب کے فضائل میں) خبر موضوع سے بے نیاز ہو جاتا ہے‘‘-

امام الفقہاء و خاتمۃ المجتہدین علامہ سید ابن عابدین شامی فتاوی شامی میں لکھتے ہیں:

’’قَالَ الْحَافِظُ السُّيُوطِيّ: هَذَا الْحَدِيثُ الَّذِي رَوَاهُ الشَّيْخَانِ أَصْلٌ صَحِيحٌ يُعْتَمَدُ عَلَيْهِ فِي الْإِشَارَةِ لِأَبِي حَنِيفَةَ، وَهُوَ مُتَّفَقٌ عَلَى صِحَّتِهِ‘‘

’’حافظ سیوطی نےفرمایا ہے کہ اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے، اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے اور اس میں امام ابو حنیفہؓ کی طرف اشارہ ہے امام ابو حنیفہ کے فضائل اور مناقب میں یہ حدیث کافی ہے‘‘-

امیر المؤمنین فی الحدیث امام سفیان الثوری فرماتے ہیں:

’’جو شخص ابو حنیفہ کے خلاف کرے اس کو چاہیےکہ وہ امام صاحب سے بلند مرتبہ بالا قدر ہو اور ایسا ہونا دشوار ہے‘‘-

جو خلاف کرنے سے باز نہ آئے ان کے بارے میں امام عبد الوہاب شعرانی الشافعی ’’المیزان الکبرٰی‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’اور امام اعظم صاحبؒ کے بارے میں بعض متعصبین کے کلام کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ ان کے اس قول کی کہ آپ اہل رائے میں سے ہیں بلکہ جو آپؒ پر یہ طعن کرتا ہے اہلِ تحقیق کے نزدیک حقیقت میں اس کا یہ کلام بکواسات کی طرح ہے- ‘‘-[11]

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس طرح امام اعظم استنباط مسائل، فقہ اور علم حدیث میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اسی طرح آپ روحانیت میں بھی اوج ثریا پر فائز تھے- سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ اپنی کتاب ’’محک الفقر کلاں‘‘ میں آپؒ کے متعلق لکھتے ہیں کہ :

’’بعد از اصحاب ولایتِ فقر بد و کس رسید، یکی حضرت شاہ محی الدّ ین (ؒ) دوم حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ کوفی (ؒ) را کہ از د نیا تارک صافی بود وصوفی‘‘

’’یاد رہے کہ اصحابِ پاک ؓ کے بعد فقر کی دولت دو حضرات نے پائی، ایک محی الدین شاہ عبد القادر جیلانی اور دوسرے حضرت امام ابو حنیفہ کوفیؒ  جو ایک تارکِ دنیا صوفی تھے‘‘-

اس لئے ضروری ہے کہ جب بھی کسی معترض کی جانب سے آپ کی ذات کو نشانہ بنایا جائے تو اُس سے لاعلمی کا اظہار کیا جائے اور خاموشی اختیار کی جائے - کیونکہ آپؒ کا مقام و مرتبہ اِسی بات کا متقاضی ہے - اور یہی حق ہے -

شیخ الاسلام امام ابن حجر ہیتمی مکی الخیرات الاحسان میں لکھتے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے :

’’علامہ تاج الدین سبکیؒ فرماتے ہیں کہ اے طالب ہدایت تجھے یہی لائق ہے کہ ائمہ سلف کے ساتھ ادب کا راستہ اختیار کرو اور یہ کہ بعضوں کا کلام جو بعضوں کے حق میں ہوا ہے اُسے نہ دیکھ، مگر جب مدلل بیان کیا جائے پھر بھی اگر تاویل اور حسن ظن ہو سکے تو اس کو اختیار کر ورنہ ان میں جو اختلافات ہوئے ان سے در گزر کر اوراس کی طرف کان مت لگا ‘‘-

’’پس اگر تو اس میں مشغول ہوا ،تو تجھ پر ہلاک ہونے کا خوف ہے اور جو کچھ اُن کے درمیان واقع ہوا ،اس سے سکوت کر، جس طرح ہم اُن باتوں میں سکوت کرتے ہیں جو صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے درمیان واقع ہوئیں ‘‘-

اَسلاف کی تعلیمات کے مطابق جو شخص اِس طرح کی صاحبِ تقویٰ و صاحبِ تصرف شخصیّات پر بہ غرضِ تنقیص معترض ہوا وہ ایک بہت بڑے خسارے میں مبتلا ہوا -

جیسا کہ خاتمۃ المجتہدین علامہ ابن عابدین شامیؒ (متوفی:1252ھ)رسائل ابن عابدین میں لکھتے ہیں:

’’مَنْ فَتَحَ بَابَ اِعْتِرَاضٍ عَلَی الْمَشَائِخَ وَالنَّظْرُ فِیْ اَفْعَالِھِمْ وَالْبَحْثُ عَنْھَا فَاِنَّ ذٰلِکَ عَلَامَۃُ حِرْمَانِہٖ وَسُوْئِ عَاقِبَتِہٖ وَاِنَّہُ لَا یُفْلَحُ اِنْتَھٰی ‘‘[12]

’’جس شخص نے مشائخ (اولیاء اللہ)پر اعتراض کا دروزہ کھولا اور عیب جوئی کیلئے ان کے افعال میں نظر کی اور (مخالفت میں)اس سے بحث کی پس بے شک یہ بد نصیبی اور بُرے خاتمے کی علامت ہے اور بے شک وہ کبھی کامیاب نہ ہوگا‘‘-

حقیقت میں امام اعظمؒ  اسلامی علوم و فنون کے تمام شعبوں میں امام اور مجتہد تھے جس طرح وہ آسمانِ فقہ کے درخشندہ آفتاب تھے -عقائد و کلام کے افق پربھی انہی کا سورج طلوع ہوتا تھا اور روایت ودرایت کے میدان میں سابقیت فن حدیث میں یہ بہار انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے شافعی اور مالکی فقہ میں انہی کے پروردہ ہیں اورصحاح ستہ کے شیوخ اُن ہی کے فیض یافتہ ہیں وہ نہ ہوتے تونہ فقہاء کو یہ عروج ہوتا اور نہ بخاری ومسلم کو یہ جوبن نصیب ہوتا-

آج کل بھی یہی مسئلہ ہے کہ لوگ دوسروں کے بارے میں رائے قائم کرنے میں دیر نہیں لگاتے- مرشد ما جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس کی جانب سے یہی پیغام ہے کہ کسی کے بارے میں منفی رائے قائم کرنے سے قبل اس سے ایک بار مل لینا اپنے اوپر لازم کر لیجئے کیونکہ ہمارا رب ہمیں یہی حکم فرماتا ہے:

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآءَکُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ‘‘ [13]

’’اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جا ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ‘‘-

تاکہ ایک سنجیدہ معاشرے کا قیام عمل میں لایا جاسکے-

٭٭٭


[1](الخیرات الاحسان فی مناقب الامام اعظم ابی حنیفہ : ص: 36)

[2](الخیرات الاحسان : ص:35)

[3](الخیرات الاحسان : ص:34)

[4]( تاریخ بغداد، ج:15، ص:459، ناشر: دارالغرب الاسلامی بیروت)

[5](الفوائد لابو القاسم تمام ، ج: 2 ، ص :258، الناشر: مكتبة الرشد – الرياض)

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ،ج: 9 ،ص: 3880 ، الناشر: دار الفكر، بيروت – لبنان)

(التيسير بشرح الجامع الصغير، ج: 2 ،ص: 119 ، الناشر: مكتبة الإمام الشافعي – الرياض)

(كنز العمال ، ج: 11 ، ص: 530 ، الناشر: مؤسسة الرسالة)

[6](کشف المعجوب، ص: 146، ناشر: کتب خانہ حاجی نیاز احمد اندرون بوہڑ گیٹ ملتان)

[7](آداب الفتوى والمفتي والمستفتي للنووی ، ج 1 ،ص 56 ، الناشر: دار الفكر – دمشق)

(المجموع شرح المهذب للنووی ، ج 1 ،ص 50 ، الناشر: دار الفكر)

(روضة الطالبين للنووی ، ج 11 ،ص 102 ،الناشر: المكتب الإسلامي، بيروت)

(أسنى المطالب في شرح روض الطالب للزكريا الأنصاري ج 4 ،ص 281 ، الناشر: دار الكتاب الإسلامي)

[8](تاریخ بغداد، ج:13، ص:344، دارالکتب العلمیہ، بیروت )

[9](طبقات الشافعية الكبرى ،ج: 2 ،ص: 216) (تهذيب الكمال في أسماء الرجال ،ج 24 ،ص 439 ،)(سير أعلام النبلاء ،ج: 10 ،ص: 80 )

[10](التبييض الصحيفه بمناقب أبی حنيفه،ج:1، ص:31-33، الناشر، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

[11](المیزان الکبری، ج: 1، ص:89، داراالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

[12](مجموعہ رسائل ابن عابدین الجز الثانی، ص:289سہیل اکیڈمی لاہو ر پاکستان)

[13](الحجرات:6)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر