تحریکِ پاکستان ، اقبالؒ اور آج کا پاکستان

تحریکِ پاکستان ، اقبالؒ اور آج کا پاکستان

تحریکِ پاکستان ، اقبالؒ اور آج کا پاکستان

مصنف: ڈاکٹر فیاض احمد شاہین اگست 2021

تحریکِ پاکستان ایک طویل فکری، ذہنی اور طبعی کاوشوں کا نام ہے-یہ ایک طویل سیاسی جدوجہد تھی مگر اس کے پیچھے مذہبی نظریہ کارفرما تھا-اس تحریک میں علامہ اقبال ؒ عملی طور پر سیاست میں حصہ نہ لے سکے مگر تحریکِ پاکستان کے اس مردِ مجاہد کا کردار اس وقت تک واضح نہیں کیا جا سکتا جب تک ان کے فکری اور عملی سیاسی پہلوؤں کا بنظرِ غائر جائزہ نہ لیا جائے-دیکھنا یہ ہے کہ عمل میں تحریک کیوں پیدا ہوتی ہے اور اسے کون سی قوت کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے، یہاں اگر ہم انسانی رویوں کی ترویج میں نفسیات کا کردار دیکھیں تو سب سے پہلے مہیج اپنا عکس ہمارے اذہان پر مرتسم کرتا ہے، اس کے بعد سوچ اور فکر پیدا ہوتی ہے، جتنا مہیج طاقتور اور مؤثر ہو گا یا اس کی پیش کاری منظم ہوگی اتنی ہی فکر کاری ہو گی-مسلمان جب بھی ظلم و جبر کا شکار ہوتے تو آزادی کا جذبہ پیدا ہوتا مگر پھر کسی واقعے کے رونما ہونے کا صبر سے انتظار کرتے اور تب تک پہلے کے زخم مندمل ہو چکے ہوتے اور نئے زخموں کا مداوا کرتے لیکن جب مہیج طاقتور بنا اور ویژن واضح ہوا اور مضبوط قوتِ فکر نے انگڑائی لی تو چشمِ عالم نے دیکھا کہ پھر کوئی چین سے گھر نہیں بیٹھا-اسی فکر نے آگے چل کر ایک مربوط نظریے کا روپ دھار لیا- رہنمایانِ تحریک ِ پاکستان کی روح پرور تقاریر ہوں یا علامہ اقبال ؒ کے فکری تیر و نشتر اور شاعرانہ مجالس ہوں،قوم کے لئے نشانِ منزل بنتی چلی گئی- علامہ اقبال ؒ نے نظریے کے فکری و عملی پہلوؤ ں کو نثری انداز میں اور شاعری کے قالب میں ڈھال کر جس مؤثر انداز میں پیش کیا، مَیں سمجھتا ہوں اپنے اکابرین کی کاوشوں کو نیا ولولہ عطا کر دیا جس سے انہیں منزل سامنے نظر آنے لگی-نقوشِ پاکستان دل پر کندہ ہونے لگے جو حصولِ پاکستان کے لئے ممدد و مماد ثابت ہوئے-

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں

علامہ اقبال ؒ نے اپنے فلسفیانہ افکار سے اہلِ اسلام کو دو اہم باتیں سمجھائیں، پہلی بات اور مقصدِ اول، قیامِ اسلام اور مسلمانوں کو ان کی خوابیدہ قوت کا اندازہ کرایا-

دوسری بات:غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر فرنگی اقتدار کا خاتمہ کرنا یعنی آزادی حاصل کرنا-درحقیقت علامہ اقبال ؒ کے انہی دو افکار نے مسلمانوں کی بے ترتیب کاوشوں کو تحریک پاکستان کے نام سے موسوم کر دیا-

اب اگر علامہ اقبال ؒ کے فکری پہلوؤں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس کی چند جہتیں نظر آتی ہیں-ان میں پہلا کام، مسلمانوں میں یہ احساس بیدار کیا کہ تم مسلمان ہو، اسلام میں کسی کی غلا می کا کوئی تصور نہیں، اس فکر کی وجہ سے مسلمان بیدار ہوئے-آپ کا دوسرا کام دو قومی نظریے کو منظم کرکے شد و مد کے ساتھ پیش کرنا ہے-اسی اصول نے پاکستان کو حقیقی اور ٹھوس نظریاتی بنیاد فراہم کی-تیسرا اہم کام علامہ  صاحب نے مسلمانوں کو خطبہ الٰہ آباد میں کر دکھایا جس سے مسلم لیگ کو مملکت خداداد کی راہیں متعین کرنے میں آسانی ہوئی اور چوتھا اہم کام جس کی طرف ہم توجہ نہیں دیتے وہ علامہ اقبالؒ کا خود مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنا اور اپنے افکار و خیالات سے مسلمانوں کو فیض یاب کرنا تھا-یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب تحریک ِ پاکستان ابھی ابتدائی مراحل میں تھی تو مسلمان ہندو فکر کو محسوس کئے بغیر منزل کی دوری کا شکوہ کر رہے تھے، وہاں علامہ اقبالؒ کی نظر مسلمانوں کے مستقبل پر تھی-اس لئے انہیں یہ یاد دلایا کہ تم مسلمان ہو اور تمہارے پاس اپنا ضابطہ حیات ہے جو کامل و اکمل ہے، یہاں علامہ اقبالؒ نے اپنے نثری اور شاعرانہ انداز میں ان کے تابناک ماضی کا پرتو دکھایا اور عظمتِ رفتہ کی یاد دلائی اور با لخصوص مسلمانوں میں جو احساسِ زیاں جاتا رہا تھا اور جمود پیدا ہو گیا تھا اس کا خاتمہ کیا-کیونکہ یہی وہ بے حسی تھی جس کی بدولت غلامانہ ذہنیت پیدا ہو رہی تھی، مغربی فکر پروان چڑھ رہی تھی-ہوا کا رخ دیکھ کر تو سبھی ساتھ ہو لیتے ہیں اور فیصلہ کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے مگر علامہ اقبالؒ نے جرأت ِ گویائی اس وقت کی جب فرنگی سلطنت عروج پر تھی مغربی استعمار پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا- مشرقی ذہن جو زنگ آلودہ ہوچکے تھے اور مغرب کی چھاپ ان کے ذہنوں پر لگ چکی تھی بالخصوص باشعور اور پڑھے لکھے افراد جو برطانوی حکومت کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی اختیار کرچکے تھے ان کے ذہنوں سے فرنگی اقتدار پرستی کے خول کو اتار پھینکا اور جو مسلمان اپنے تراشیدہ نظریات کی بدولت گروہ بندی کا شکار ہوچکے تھے وہ قومی دھارے میں شامل ہونے لگے، یوں آہستہ آہستہ تصورِ ملت مستحکم ہونے لگا - علامہ اقبالؒ نے ایک طرف تو دین کو بت پرستی سے آزاد کرایا اور اسلامی تفکرات اور تصورات پر جو جمود طاری تھا اس کے طلسم کو توڑا اور دوسری طرف جو دین سیاست سے جدا ہوچکا تھا ان میں امتزاج پیدا کیا- لہٰذا تبدیلی کا ایک نیا رخ متعین ہوا - وہ نظریہ جس پر ابھی مصالحتی انداز اختیار کیا جارہا تھا اسے مصلحت پسندی سے آزاد کراکر حقیقت پسندی کا روپ دیا گویا کہ مسلمانوں کو اٹل نظریات عطا کیے- جس کی بدولت مسحور ذہنیت پر سے سحر انگیزی مفعود ہونے لگی اور قوم مقابلِ جمود ہونے لگی چنانچہ دو قومی نظریہ جو دورِ سرسید میں امن پسندی اور مصلحت پسندی کی فکر سے دو چار تھا اب ببانگِ دہل اپنا آپ منوانے لگا اور حقیقت کا روپ دھارنے لگا - لہٰذا اب مسلم لیگی فیصلے اس کے تناظر میں ہونے لگے جب علامہ اقبالؒ نے الگ وطن کا مطالبہ کیا تو انگریز اور ہندو دونوں سامراجیوں کو یکساں جھٹکا لگا اور یہی آخری کیل ٹھوکنے کی دیر تھی کہ یہ نعرہ زبان زدِ خاص و عام ہوگیا-

لے کے رہیں گے پاکستان
بن کے رہے گا پاکستان

علامہ اقبالؒ نے خطبہ الٰہ آباد میں کچھ اس طرح ارشاد فرمایا:

’’ہندوستان کی سیاسی زندگی نے ایک نہایت نازک صورت اختیار کرلی ہے--- اسلام پر ابتلا اور آزمائش کا ایسا سخت وقت نہیں آیا جیسا کہ آج درپیش ہے --- مسلمانوں کا مطالبہ کہ ہندوستان میں ایک اسلامی ہندوستان قائم کیا جائے بالکل حق بجانب ہے --- میری خواہش ہے کہ پنجاب ، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملادیا جائے خواہ یہ ریاست سلطنتِ برطانیہ کے اندر حکومتی خود مختاری حاصل کرے خواہ اس کے باہر--- مجھے تو  ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمالی مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے اور اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے طور پر زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرسکے- میں صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کا مطالبہ کررہا ہوں---‘‘

علامہ اقبالؒ نے اس اجلاس میں مسلمانوں میں یوں نئی روح پھونک دی :

بانگِ اسرافیل بھی زندہ کر سکتی نہیں
زندگی سے تھا تہی جس کا جسد
مر کے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام
گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوشِ لحد

چنانچہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے جب لاہور آ کر علامہ اقبالؒ سے درخواست کی کہ وہ مسلم لیگ پنجاب کی صدارت فرمائیں تو علامہ اقبالؒ نے علالت کے باوجود ان کی تجویز کا احترام کیا اور آپ کی یہ شمولیت تحریکِ پاکستان کیلیے تقویت کا باعث بنی، ساتھ ہی ساتھ وہ مطالبہ جو علامہ اقبالؒ پہلے ہی کر چکے تھے اس کو مقبولیت حاصل ہوئی- علامہ اقبالؒ نے عالمِ پیری میں بھی نوجوانانہ ولولے سے کام کیا اور جس مستعدی کے ساتھ مسلم لیگ کی تنظیم سازی کی اور پذیرائی کے لیے کمر بستہ ہوگئے اسے دیکھ کر نوجوان بھی ورطۂ حیرت میں پڑ گئے کہ آخر کہ یہ تندۂ و تیزی اور یہ انہماک و استعداد کہاں سے آگیا - در حقیقت قدرت اقبال سے کام لینا چاہتی تھی اور کوئی شک نہیں کہ اقبال ؒاپنے حصے کا کام کر گئے اور ان کے مجوزہ خطوط پر چل کر ہم نے پاکستان حاصل بھی کرلیا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہم نے اقبال کے فلسفیانہ افکار کی پاسداری کی؟کیا ہم نے اپنی فکری و نظریاتی حدود پر پہرہ داری کی؟ کیا ہم نے اپنی نسلِ نو کو افکارِ اقبال سے روشناس کرایا ؟ ہم نے تو اس مردِ مجاہد کا یوم منانے سے بھی اعراض کیا اور ان کے نام سے معنون تعطیل کو ختم کردیا- ہر روز نہ سہی ، سال بعد بھی ملکِ عزیز کے گوشے گوشے میں ہر تعلیمی ادارے میں احوال و افکار کی صداکاری ہوتی رہتی تو صورتحال شاید مختلف ہوتی، جب ہم اپنی نسلِ نو کو اس مردِ مجاہد کے افکار سے متعارف ہی نہیں کرائیں گے تو اقبال ؒکے پیروکار کہاں سے آئیں گے، وہ افراد کہاں سے آئیں گے جو طاغوتی اور سامراجی قوتوں سے ٹکرانے والے ہوں گے-

اقبالؒ تو 1907ءسے ہی اپنے فکری انقلاب کا راستہ ہموار کرچکے تھے اور اپنی راہِ عمل مرتب کرلی تھی، جو تغیر نظر آتا ہے وہ انگریزوں اور ہندوؤں کے رویوں میں تبدیلی تھی جس نے نزاکتِ وقت کے تحت اقبالؒ کو اپنی نگاہوں میں تغیر لانے پر مجبور کیا- کیا علامہ اقبالؒ حالات و واقعات کو اپنی ذات پر برستے دیکھتے رہتے، کوئی جواب نہ دیتے اور اپنی راہِ عمل متعین نہ کرتے -

نالے بلبل کے سنوں محوِ غمِ دوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

علامہ اقبالؒ کا مقصد تو جبر و استبداد کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا تھا اسی لیے اقبالؒ آخری حد تک گئے اور وقت نے دیکھا کہ امتِ مسلمہ سراسیمگی اور زبوں حالی سے نکل آ ئی ،وہ ا فراد جن کا مستقبل خطرے سے دو چار تھا اور اسے کوئی قبول کرنے کو تیار نہ تھا - یہ فیضِ اقبالؒ تھا جس نے اسے قابلِ فخر قوم بنادیا- بکھری ہوئی قوم کو مثلِ مالا پرو دیا -یہی تو اندازِ جواں مردی تھا جو بیگانوں اور یگانوں کی نگاہوں کا مرکز بن گیا-

اقبالؒ کے نزدیک سیاست، دین اور نظامِ حکومت شانہ بشانہ چلتے ہیں-

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اس کا قیام اور یکجائی اسی صورت میں ہے جب ملتِ اسلامیہ خدا کے علاوہ کسی اور کے آگے اپنا سر نہ جھکائے اسی کو اپنا حاکمِ اعلیٰ اور معاون و مددگار سمجھے اور حضور خاتم النبیین (ﷺ) سے والہانہ عشق رکھے - اقبالؒ کا تصورِ تشکیلِ امت نسل اور وطنیت کے بتوں کو پاش پاش کرتا ہے -

بر نسب نازاں شدن نادانی است
حکمِ او اندر تن، تن فانی است

کانگریس میں شامل رہنماؤں کے اہداف بظاہر ایک تھے ،  مفادات اجتماعی تھے مگر اقبال ؒ نے بہت جلد ہندؤوں کے دوغلہ پن کو محسوس کر کے مسلمان قائدین اس سے الگ ہونے کا مشورہ دیا کیونکہ اقبالؒ محسوس کر رہے تھے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد اونچی ذاتوں کے برہمن ہندوستان پر قابض ہوجائیں گے اور آزادی کے ثمرات میں مسلمانوں کو شریک نہیں ہونے دیں گے بظاہر برہمن اپنے مفاد کے حصول کیلئے مسلمانوں کا احترام کرتے دکھائی دیتا ہے- حقیقت میں وہ مسلمان اور اسلام سے بغض رکھتا ہے اس کا اظہار اقبالؒ نے کچھ اس طرح کیا:

نگہ دارد برہمن کارِ خود را
نمی گوید بہ کس اسرارِ خود را
بمن گوید کہ از تسبیح بگزر
بدوش خود برد زنار خود را

’’برہمن اپنے کام کی حفاظت کرتا ہے، وہ اپنے راز کسی سے نہیں کہتا، مجھے کہتا ہے کہ تسبیح چھوڑ دے مگر اپنا زنار کندھے سے نہیں اتارتا‘‘-

اقبالؒ نے کبھی اسلام کی موجودگی میں کسی ازم کو پنپنے نہیں دیا اقبالؒ اسلامی جمہوریت کے داعی ہیں جس جمہوریت کو دنیا آج سیکھ رہی ہے اسے اقبالؒ نے درِ رسول (ﷺ) سے کب کا سیکھ لیا تھا -

اقبالؒ کا پاکستان:

جس طرح اقبالؒ نے پاکستان کا نقشہ کھینچا اسی طرح انہوں نے اس کے نظامِ حکومت کو چلانے کیلیے زرعی اصول بھی وضع کیے -

v     اسلامی، سیاسی اور معاشی نظام کو وضع کرنا

v     اسلام کی موجودگی میں کسی ازم کو قبول نہ کرنا

v     ملک سے غربت کا خاتمہ

v     ایک فلاحی ریاست کا قیام

v     رزقِ حلال پر زور دینا

v     ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا

v     اسلامی اتحاد کو فروغ دینا

v     اقلیتوں کو ان کے حقوق دینا

v     دو قومی نظریے کا عملی اطلاق کرنا

v     سب مذہبی گروہوں کو عبادات میں آزادی دینا

v     اسلامی نظامِ تعلیم کا فروغ

آج کا پاکستان:

 آئیے ہم موجودہ پاکستان کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہیں قارئین خود فیصلہ فرمالیں کہ اقبالؒ کے پاکستان میں اور آج کے پاکستان میں مماثلت ہے یا پھر تضاد -

v     مغربی سیاسی نظام اور سودی نظامِ معیشت

v     اسلام کی موجودگی میں کمیونزم /لبرل ازم کو تقویت دینا

v     غربت میں دن بہ دن اضافہ

v     عوام اپنے حقوق کے لیے دست و گریباں

v     کرپشن و بدعنوانی عروج پر

v     اسلامی وحدت پارہ پارہ اور اسلامی ممالک نظریاتی طور پر دور

v     اقلیتیں حقوق کے لیے پریشانِ حال

v     دوقومی نظریےکا لفظی یا ظاہری اطلاق

v     مذہبی گروہ عبادت کے لئے آزاد مگر غیر محفوظ

v     سیکولر نظامِ و بے خُدا تعلیم سے وابستگی

فرقہ واریت ، لسانیت اور عصبیت کی آگ وطن کو جلا رہی ہے داخلی اور خارجی سازشوں کی بدولت وطنِ عزیز کا وقار مجروح ہو رہا ہے عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو غیر محفوظ ہوتی جارہی ہے اسلامی ریاست جو حقوق کا تصور دیتی ہے اس کا عشرِ عشیر بھی نظر نہیں آتا -

قائد اعظمؒ کے ایک قول پر اپنی معروضات کو سمیٹتا ہوں- قائداعظمؒ نے پنجاب یونیورسٹی 1940میں یومِ اقبال کے موقع پر ارشاد فرمایا:

’’گو کہ میرے پاس سلطنت نہیں ہے لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبالؒ اور سلطنت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آجائے تو میں اقبالؒ کو منتخب کروں کا‘‘-

اس لیے کہ قائد اعظمؒ علامہ اقبالؒ کو اپنا رہبر و رہنما اور عظیم فلاسفر مانتے تھے لہٰذا انہوں نے اقبالؒ کو سلطنت سے بھی زیادہ قیمتی جانا مگر افسوس ہم نے سلطنت منتخب کرلی اور اقبالؒ کو چھوڑ دیا -

سوچئے کہیں آج کا پاکستان فکرِ اقبال سے متصادم تو نہیں!!!

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر