مسئلہ فلسطین : مشکلات وامکانات

مسئلہ فلسطین : مشکلات وامکانات

مسئلہ فلسطین : مشکلات وامکانات

مصنف: ایمبیسیڈر(ر)خالدمحمود ستمبر 2014

پسِ منظر :-

غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے- ان مظالم کی تاریخ ۱۹۴۸ء سے جا ملتی ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تھا اور فلسطین کے اصل رہائشیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا اور انہیں زبردستی پناہ گزین بننے پر مجبور کیا گیا تھا- اُس وقت سے فلسطینی اپنے حق ِ خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد کر رہے ہیں- اسرائیل اور عرب ممالک کے مابین بہت سی جنگیں لڑی گئیں ہیں جیسا کہ ۱۹۴۸ء، ۱۹۵۶ء، ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء میں - مگر ان تمام جنگوں میں اسرائیل مزید علاقوں پر قبضہ کرتا گیااور مزید فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کیا جاتا رہا اور مزید لوگ پناہ گزین کیمپوں میں منتقل ہوتے گئے- یہ امر باعثِ افسوس ہے کہ وہ یہودی جو اپنے آپ کو مظلوم کہتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے قتلِ عام کا سامنا کیا، اُنہی کی جانب سے فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور اُنہیں اپنے ہی گھروں اور اپنی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے اور اُن کے علاقوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے-

اگر اس معاملے پر عالمی برادری کے کردار پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اقوامِ متحدہ نے واضح طور پر اپنا لائحہ عمل دیا ہے جس کے مطابق اسرائیلی فوجوں کو ۱۹۶۷ ء کی پوزیشن پر واپس جانا چاہئے ،فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے گھروں میں واپس لوٹنے کی اجازت ہونی چاہئے اور وہ جو نہ لوٹ سکیں، انہیں اس کے بدلے معاوضہ دینا چاہئے اور مزید یہ کہ سرحدوں کی سیکیورٹی یقینی ہونی چاہئے- یہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں میں واضح کیا گیا ہے اور ان کا اعادہ بھی کیا گیا ہے مگر اسرائیل اِن پر عمل درآمد کرنے کیلئے تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے فلسطینیوں کی جدوجہد بھی جاری ہے- چنانچہ موجودہ تنازعہ فقط اصل مسائل کی نشاندہی کرتا ہے،اصل مسئلہ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی پامالی ہے-تنازعہ کا اصل نقطہ یہ ہے کہ مقبوضہ علاقہ کے لوگوں کے ساتھ بدترین برتائو کیا جا رہا ہے اور انہیں بزورِ طاقت دبایا جا رہا ہے- انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں آئے روز کا معمول ہیں مگر کوئی بھی اسرائیل کے خلاف ایکشن لینے کیلئے تیار نہیں ہے- آخر ایسے اقدامات کرنے کیلئے اسرائیل کے حوصلے اتنے بلند کیوں ہیں؟ یہ واضح ہے کہ ا سرائیل کو امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے- اگر اسرائیل کی جگہ کوئی دوسرا ملک ایسا کر رہا ہوتا تو ابھی تک عالمی برادری بالخصوص عالمی طاقتیںاُس پر دبائو ڈال کر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کروا چکی ہوتیں-

موجودہ تنازعہ :-

بڑے طویل عرصے کے مذاکرات کے بعد فلسطینیوں کو غزہ اور مغربی کنارہ کی ایڈمنسٹریشن چلانے کی اجازت دی گئی- غزہ کو کئی سالوں سے مکمل طور پر اسرائیلی محاصرہ کا سامنا ہے، وہاں کے لوگ نہ تو آزادانہ طور پر نقل و حرکت کر سکتے ہیں،نہ کچھ برآمد کر سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ درآمد کر سکتے ہیں-دوسرے الفاظ میں غزہ ایک کھلی جیل کی مانند ہے وہاں کے لوگ کیا کر سکتے ہیں جن کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کیلئے بھی وسائل نہیں ہیں؟ ان کے پاس باہر کی دُنیا تک رسائی نہیں ہے تو ایسے میں لوگ مایوسی کا شکار ہیں اور اس مایوسی کے عالم میں صرف حکام نہیں بلکہ انفرادی طور بھی لوگ ایسے اقدامات کر جاتے ہیں جو انہیں نہیں کرنے چاہئیںاور اس کا جواب بہت بھاری ہوتا ہے- آٹھ جولائی سے شروع کئے گئے موجودہ آپریشن کے متعلق ہم تصور بھی نہیں کر سکتے جو پہلے صرف فضائی حملوں پر مبنی تھا مگر اب زمینی حملے بھی شروع کئے گئے ہیں- ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں فقط چند اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور شہید ہونے والے فلسطینیوں میں زیادہ تعداد عام شہریوں بالخصوص بچوں کی ہے-

جنگ بندی :-

اِن حالات میں یقیناً سب سے پہلے سیز فائر (جنگ بندی)ہونا چاہئے، یہ کہنا بہت آسان ہے مگر سیز فائر کا مطلب یہ ہے کہ صورتحال جہاں ہے وہیں جام ہو جائے گی اور فلسطینیوں پر روزمرہ کے مظالم جاری رہیں گے اور اُن کی مشکلات حل نہیں ہوں گی جن کی وجہ سے وہ اسرائیل کے خلاف جدوجہدکرتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ حماس کا یہ موقف ہے کہ وہ جنگ بندی پر تب ہی تیار ہوں گے جب اُن کے قیدیوں کے ساتھ انصاف کیا جائے، غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے اور وہاں کے لوگوں کو باہر کی دُنیا سے آزادانہ تعلقات قائم کرنے دیئے جائیں اور فلسطین کے اندر بھی آزادی سے آمدو رفت کی اجازت ہو- انہیں مسجدِ اقصیٰ میں جانے اور نماز ادا کرنے کی اجازت ہو- یہ وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی بنا پر وہ سیز فائر پر رضامند نہیں ہو رہے لیکن ہر شخص چاہتا ہے کہ سیز فائر ہو، ہم دعاگو ہیں کہ غزہ کا محاصرہ ختم ہو جائے اور پھر سیز فائر کا معاہدہ بھی طے پا جائے -

اب ایک اور صورتحال بھی تبدیل ہوئی ہے- مصر کے معزول صدر محمد مُرسی کے دورِ حکومت میں مصر نے فلسطینیوں کا ساتھ دیا اس وقت مصر کی رائے کو زیادہ اہمیت حاصل تھی اور پچھلی مرتبہ جب ایسے ہی حالات کا سامنا ہوا تھاتو صدر مرسی کے اثر و رسوخ کے باعث صورتحال پر قابو پایا گیا تھا اور سیز فائر کا معاہدہ ہوا تھا مگر اب جب مصر کے صدر السیسی ہیں، اُس طرح کا اثر و رسوخ اور فلسطین کے ساتھ دوستانہ مراسم نہیں اور اسی لئے مصر کے کئی مرتبہ کہنے کے باوجود سیز فائر نہیں ہو سکا-

اَقوامِ متحدہ کے کردار کا جائزہ :-

اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل پر پانچ مستقل ممبران کا غلبہ ہے اور یہ اُس وقت تک کوئی ایکشن نہیں لے سکتی جب تک پانچ مستقل ممبران اس پر تیار نہ ہوں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایکشن کیلئے امریکہ، فرانس اور برطانیہ تیار نہیں ہیں- وہ زیادہ سے زیادہ سیز فائر کا کہہ دیتے ہیں، سیز فائر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر فقط سیز فائر کافی نہیں ہے اور اقوامِ متحدہ اسرائیل سے اپنے احکامات پر زبردستی عمل درآمد نہیں کروا سکتی جب تک امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس اس پر تیار نہ ہوں-

عالمِ اِسلام کے کردار کا جائزہ :-

اِسلامی دُنیا کو ہم دو حصوں میں دیکھ سکتے ہیں، ایک او آئی سی اور دوسرا اِسلامی ممالک کو انفرادی حیثیت میں- جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ او آئی سی ایک مؤثر ادارہ نہیں ہے مگر بعض اوقات ہر کام کیلئے اسے غلط طور پر مورد ِالزام ٹھہرایا جاتا ہے - جدہ میں او آئی سی کا ایک اجلاس ہوا ہے جس میں اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی گئی ہے- انہوں نے اقوامِ متحدہ کو ایکشن لینے کیلئے کہا، مسلم دُنیا اور عالمی برادری پر زور دیا کہ غزہ کے لوگوں کو ریلیف پہنچایا جائے اور یہی کچھ او آئی سی کر سکتی ہے کیونکہ اس کے پاس نہ تو فوج ہے اور نہ ہی وسائل ہیں- جب تک او آئی سی کے ممبر ممالک اسے ایک مؤثر ادارہ نہیں بناتے، اس سے زیادہ اقدامات کی توقع نہیں کی جاسکتی اور اسے اپنے محدود اختیارات کو ہی استعمال کرنا ہے البتہ انفرادی طور پر مسلم ممالک کا کردار مایوس کن رہا ہے - انہوں نے بے باک انداز میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر آواز نہیں اٹھائی ہے- اسرائیل کی جانب سے نہ صرف حماس بلکہ معصوم عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے-

پاکستان کے کردار کا جائزہ :-

 اِسلامی جمہوریّہ پاکستان دیگر مسلم ممالک کی طرح اس مسئلے پر خاموش نہیں رہا وزیراعظم نواز شریف نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے جِسے پاکستان میں متعین فلسطین کے سفیرِ محترم نے بھی سراہا اور کہا کہ ’’اِسلامی دُنیا میں وزیرِ اعظم پاکستان پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے مظلومینِ غزہ کیلئے آواز اُٹھائی ہے‘‘ - انہوں نے غزہ کے لوگوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے اُن کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا ہے- دفترِ خارجہ نے بھی اس معاملے پر بیانات جاری کئے ہیں-ہم او آئی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر نہیں ہیں جس کا حالیہ دنوں اجلاس ہوا، تاہم جب تمام ارکان کا اجلاس بلایا جائے گا تب پاکستان اپنا بھر پور کردار ادا کرے گا- پاکستان نے ہمیشہ فلسطینیوں کیلئے آواز بلند کی ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا- سیکیورٹی کونسل یا جہاں بھی یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے پاکستان نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے- یروشلم جو کہ مسلمانوں کا قبلۂ اوّل بھی ہے، اس کے جغرافیہ اور ثقافت کو تبدیل ہونے سے بچانے کیلئے پاکستان نے بھر پور جدو جہد کی اور اقوامِ متحدہ سے قرارداد پاس کروائی جس کا مقصد یروشلم کے جغرافیہ، تہذیب اور عرب ثقافت کو تبدیل ہونے سے بچانا تھا- پاکستان کیلئے ابھی مزیدبہت کام کرنے کی گنجائش موجود ہے- ہمیں فلسطینیوں کو ریلیف فراہم کرنے اور اسرائیل پر مظالم بند کروانے کیلئے ڈالے جانے والے دبائو کو بڑھانے کیلئے اپنے سفارتی روابط استعمال کرنے چاہئیں-

****

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر