امام الجرح و التعدیل سید الحفاظ امام یحیٰ بن معین المُری البغدادی(﷫)

امام الجرح و التعدیل سید الحفاظ امام یحیٰ بن معین المُری البغدادی(﷫)

امام الجرح و التعدیل سید الحفاظ امام یحیٰ بن معین المُری البغدادی(﷫)

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری نومبر 2020

تعارف:

آپ کا نام یحیٰ کنیت ابو زکریا ہے نسب نامہ کچھ اس طرح ہے یحیٰ بن معین بن عون بن زیاد بن بسطام بن عبد الرحمٰن اور بعض نے اس طرح بھی ذکر کیا ہے یحیٰ بن معین بن غیاث بن زیاد بن عون بن بسطام قبیلہ مرۃ غطفان کی طرف ولاء کی نسبت ہونے کی وجہ سے ان کو مُرِی کہا جاتا ہے آپ کی ولادت خلیفہ ابو جعفر کے عہد میں 158ھ کو ہوئی-کہا گیا ہے کہ آپ اصل میں علاقہ انبار کی ایک بستی نقیا ہے وہاں کے تھے-[1] ابتدائی تعلیم کے بارے آئمہ سیر نے تو کوئی وضاحت نہیں فرمائی البتہ امام ذہبی فرماتے ہیں کہ آپ نے بیس سال کی عمر میں حدیث کو لکھنا شروع کیا-[2]

آپ نے تحصیل علم کے لئے حجاز مقدس، یمن، کوفہ، بصرہ، شام اور مصر کا سفر اختیار فرمایا اوروہاں کے جلیل القدر فقہاء و محدثین اور آئمہ فن سے اکتساب علم کیا ان کے فقہی مسلک کے بارے میں علامہ جمال الدین ا’’لنجوم الذاہرہ‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’وکان یتفقہ بمذہب الامام ابی حنیفہ‘‘[3]

’’ان کا تفقہ امام ابو حنیفہ کے مذہب پر تھا‘‘-

امام ذہبی سیر اعلام النبلاء میں فرماتے ہیں کہ ابراہیم بن عبد اللہ نے فرمایا کہ میں نے یحیٰ بن معین سے کہا کہ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں کہ آدمی امام شافعی کی رائے میں نظر کرے یا امام ابو حنیفہ کی رائے میں تو امام یحیٰ بن معین نے فرمایا:

’’ما اری لاحد ان ینظر فی رأی الشافعی ینظر فی رأی ابی حنیفۃ احب الی‘‘[4]

’’میں کسی ایک کے لئے بھی رائے نہیں رکھتا کہ وہ امام شافعی کی رائے میں نظر کرے بلکہ یہ چیز مجھے زیادہ پسند ہے کہ وہ امام ابو حنیفہ کی رائے میں نظر کرے‘‘ -

امام ذہبی یحیٰ بن معین کی اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’قلت قد کان ابو زکریا حنفیا فی الفروع فلھذا قال ھذا‘‘[5]

’’میں کہتا ہوں کہ ابو زکریا فروع میں حنفی المذہب تھے اسی لئے تو انہوں نےیہ کہا ہے‘‘-

اساتذہ:

آپ کو جن حضرات سے اکتساب علم کا موقع ملا ان میں سے چند مشہور شخصیات درج ذیل ہیں:

’’امام عبد اللہ بن مبارک، اسماعیل بن عیاش، اسماعیل بن مجالد، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ، معتمر بن سلیمان، سفیان بن عیینہ، حفص بن غیاث، حاتم بن اسماعیل، جریر بن عبد الحمید، امام عبد الرزاق، ہشام بن یوسف عیسی بن یونس، وکیع بن جراح، عمر بن عبید ، علی بن ہاشم، یحیٰ بن سعید القطان، ابن مھدی، امام ابن عیینہ، علی بن عیاش، عبد اللہ بن نمیر، علی بن ہاشم، عبد اللہ بن صالح ابو اسامہ، محمد بن عبد اللہ انصاری، امام ہشیمؒ ‘‘-[6]

تلامذہ:

جن حضرات کو آپ سے شرف تلمذ حاصل ہوا ان میں بڑے نامور آئمہ فن اور جلیل القدر محدثین ہیں جس سے آپ کی علمی وجاہت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپ کس پائے کے امام فن تھے جن شخصیات کو آپ سے تحصیل علم کا موقع ملا ان میں سے چند مشہور یہ ہیں:

’’امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام مسلم، امام ابو داؤد، زہیر بن حرب، محمد بن یحیٰ الذہلی، محمد بن اسحاق الصاغانی، محمد بن سعد، عبد الخالق بن منصور، عثمان بن سعید دارمی، ابوزرعہ، اسحاق الکوسج، ابراہیم بن عبد اللہ بن جنید، معاویہ بن صالح اشعری، احمد بن ابی خیثمہ، محمد بن عثمان بن ابی شیبہ، عباس بن محمد الدوری، عبد اللہ بن الرمادی، یعقوب بن شیبہ، ابویعلیٰ موصلی، احمد بن الحسن بن عبد الجبار، محمد بن وضاح مضر بن محمد الاسدیؒ ‘‘-[7]

آئمہ فن کی توثیقات و آراء:

امام یحیٰ بن معین کا شمار نامور محدثین اور آئمہ فن میں ہوتا ہے آپ علوم حدیث میں اپنے دور میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے ان کی شخصیت علم حدیث کے باب میں مرجع العلماء تھی اس لئے اصحاب سیر اور محدثین نے مختلف انداز میں آپ کے علمی کمال کو بیان فرمایا ہے امام خطیب بغدادی ان کی علمی وجاہت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’کان اماما ربانیاء عالما، حافظا، ثبتا، متقنا‘‘[8]

’’آپ امام ربانی، عالم، حافظ، ثابت اور متقن تھے‘‘-

امام ابو حاتم فرماتے ہیں:

’’یحی بن معین امام‘‘[9]

’’یحیٰ بن معین امام وقت تھے‘‘-

اپنے وقت کے عظیم محدث اور امام فن امام نسائی حدیث کے باب میں امام صاحب کے علمی معیار کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’ھو ابو زکریا الثقۃ المامون احد الائمۃ فی الحدیث‘‘[10]

’’ابو زکریا، ثقہ، مامون اور حدیث کے آئمہ میں سے ایک تھے‘‘-

امام احمد بن حنبل جو کہ علم حدیث میں امیر المؤمنین ہیں اور مجتہدین میں صاحبِ مذہب ہیں انہوں نے بڑے منفرد انداز میں امام یحیٰ بن معین کے علمی کمال کو واضح فرمایا:

’’السماع من یحیٰ بن معین شفاء لمافی الصدور‘‘[11]

’’ یحیٰ بن معین سے سماع سینوں کے لئے شفاء ہے‘‘-

امام علی بن مدینی جن کا شمار جلیل القدر محدثین میں ہوتا ہے وہ آپ کے علمی مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’انتھی علم الناس الی یحیٰ بن معین‘‘[12]

’’لوگوں کا علم یحیٰ بن معین پر ختم ہو گیا‘‘-

یہی علی بن مدینی ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

’’مارأیت فی الناس مثلہ‘‘[13]

’’لوگوں میں یعنیٰ کہ علماء میں ان کی مثل نہیں دیکھا‘‘-

امام یحیٰ بن سعید القطان فرماتے ہیں:

’’ما قدم علینا مثل ھذین الرجلین احمد بن حنبل و یحیٰ بن معین‘‘[14]

’’ہم پر امام احمد بن حنبل اور یحیٰ بن معین جیسا کوئی نہیں آیا‘‘-

امام یحیٰ بن معین علم حدیث میں ایسا نمایاں مقام رکھتے تھے کہ آپ کی ذات علماء و محدثین کے لئے مرجع تھی یہی وجہ ہے کہ ابو سعید الحداد فرماتے ہیں:

’’الناس عیال فی الحدیث علی یحیٰ بن معین‘‘[15]

’’علماء کرام حدیث کے معاملے میں یحیٰ بن معین پر عیال کی حیثیت رکھتے ہیں‘‘-

اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی علمی شان عطا فرمائی تھی کہ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:

یحیٰ بن معین رجل خلقہ اللہ لھذا الشان یظہر کذب الکذابین‘‘[16]

یحیٰ بن معین ایسا مرد ہے کہ اللہ نے ان کو اس شان کے لئے پیدا فرمایا ہے کہ وہ جھوٹو ں کے کذب کو ظاہر کرتا ہے-

امام صاحب علمی میدان میں اس نمایاں اور منفرد مقام پر پہنچے ہوئے تھے کہ آپ کی ذات لوگوں کے صادق اور کاذب ہونے کے لئے کسوٹی کی حیثیت رکھتی تھی محمد بن ہارون الفلاس فرماتے ہیں:

’’اذا رأیت الرجال ببغض یحیٰ بن معین فاعلم انہ کذاب‘‘[17]

جب تو مردوں میں سے کسی کو یحیٰ بن معین کے بغض میں گرفتار دیکھے تو تو جان لے کہ وہ کذاب ہے-

شوق حدیث:

امام یحیٰ بن معین میں سماع حدیث اور کتابت حدیث کا شوق انتہاء درجے کا پایا جاتا تھا -ہر وقت کتابت حدیث میں مصروف رہتے تھے شوقِ حدیث کا یہ عالم تھا کہ علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ آپ کے والد کا جب انتقال ہوا تو انہوں نے آپ کے لئے وراثت میں ہزاروں درہم چھوڑے تو آپ نے ان سب کو طلب حدیث اور کتابت حدیث میں خرچ کر دیا حتی کہ آپ کے پاس پہننے کے لئےجوتی بھی نہ بچی-

شوقِ حدیث کا اندازہ آپ کے اس قول سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ محمد بن علی فرماتے ہیں کہ میں نے یحیٰ بن معین سے سنا آپ نے فرمایا:

’’اشتھی ان اقع علی شیخ ثقۃ عندہ بیت ملئ بکتب اکتب عنہ وحدی‘‘[18]

’’میں چاہتا ہوں کہ میں ایسے ثقہ شیح کے پاس جاؤں کہ جس کا گھر کتابوں سے بھرا ہوا ہو اور میں اکیلا ہی ان سے لکھوں‘‘-

آپ نےکتابت حدیث اتنی کثرت کے ساتھ کی کہ باقاعدہ کئی آئمہ کرام نے ان کے اس وصف کا واضح ذکر فرمایا ہے-علی بن مدینی فرماتے ہیں :

’’ما اعلم احد اکتب من الحدیث ماکتب یحیٰ بن معین‘‘[19]

’’میں کسی کو نہیں جانتا کہ جس نے حدیث پاک کو لکھا ہو جتنی کہ یحیٰ بن معین نے لکھی ہیں‘‘-

ابن سعد فرماتے ہیں کہ:

’’کان قد اکثر من کتابۃ الحدیث و عرف بہ‘‘[20]

’’وہ کتابت حدیث کثرت کے ساتھ کرتے تھے اور اس کے ساتھ مشہور ہو گئے‘‘-

احمد بن عقبہ فرماتے ہیں کہ میں نے یحیٰ بن معین سے سوال کیا کہ آپ نے کتنی احادیث لکھی ہیں تو انہوں نے فرمایا:

’’کتبت بیدی ہذہ ست مأۃ الف حدیث قلت یعنی باالمکرر‘‘[21]

میں نے اپنے اس ہاتھ کے ساتھ چھ لاکھ حدیثیں لکھی ہیں‘‘-

 امام ذہبی فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ یہ تکرار کے ساتھ تعداد ہے-

محمد بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ جب یحیٰ بن معین کا وصال ہوا تو آپ نے 114 جزو دان اور چار چمڑے کے بڑے تھیلے کتابوں سے بھرے ہوئے چھوڑے-[22]

فن رجال میں مہارت:

امام یحیٰ بن معین ایک عظیم محدث ہونے کے ساتھ فنِ رجال میں بھی بڑی مہارت رکھتے تھے آپ اپنے عہد کے نامور امام الجرح و التعدیل تھے-راویوں میں کلام کرتے وقت بڑی احتیاط سے کام لیتے اور جرح و التعدیل کے تقاضوں کو پورے عدل و انصاف کے ساتھ ادا کرتے احساس کا یہ عالم تھا کہ ہارون بن بشیر الرازی فرماتے ہیں کہ:

’’رأیت یحیٰ بن معین استقبل القبلۃ رافعا یدیہ یقول اللھم ان کنت تکلمت فی رجل ولیس ھو عندی کذابا فلا تغفرلی‘‘[23]

’’میں نے یحیٰ بن معین کو دیکھا وہ قبلہ کی طرف ہاتھ اٹھائے ہوئے متوجہ تھے اور کہہ رہے تھے اگر میں کسی مرد کے بارے کلام کروں حالانکہ وہ میرے نزدیک جھوٹا نہ ہو تو مجھے معاف نہ کرنا‘‘-

امام صاحب کے ہم عصر علماء و محدثین اور بعد میں آنے والے آئمہ فن نہ صرف آپ کے فن رجال سے مستفید ہوئے بلکہ ان کی اس مہارت کو مختلف انداز میں بیان بھی فرمایا ہے-امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ:

’’کان یحیٰ بن معین اعلمنا باالرجال‘‘[24]

’’امام یحیٰ بن معین ہم میں سے علم الرجال کے سب سے زیادہ عالم تھے‘‘-

ابو عبیدہ آجری فرماتے ہیں کہ:

’’ میں نے ابو داؤد سے سوال کیا کہ علی بن مدینی اور یحیٰ بن معین میں سے کون علم الرجال کا زیادہ عالم ہے-تو انہوں نے جواباً ارشاد فرمایا کہ یحی بن معین زیادہ عالم ہیں‘‘-[25]

حافظ ابن کثیر آپ کے فن رجال میں مہارت پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ:

’’یحی بن معین احد آئمۃ الجرح و التعدیل و استاد اھل ھذہ الصناعۃ فی زمانہ‘‘[26]

یحیٰ بن معین جرح و التعدیل کے آئمہ میں سے ایک امام تھے اور اپنے زمانے میں اس فن والوں کے استاد تھے-

علامہ جمال الدین اپنی کتاب ’’نجوم الظاہرہ‘‘ میں فرماتے ہیں :

’’کان امام عصرہ فی الجرح و التعدیل و الیہ المرجع فی ذالک‘‘[27]

’’وہ جرح و التعدیل میں اپنے زمانے کے استاد تھے اور اس فن میں انہی کی ذات مرجع تھی‘‘-

عبد المؤمن بن خلف النسفی فرماتے ہیں کہ:

’’میں نے ابو صالح بن محمد سے پوچھا کہ یحیٰ بن معین حدیث کے زیادہ عالم ہیں یا امام احمد بن حنبل تو انہوں نے فرمایا کہ امام احمد بن حنبل یہ فقہ اور اختلاف کے زیادہ عالم ہیں اور یحیٰ بن معین ’’علم الرجال و الکُنیٰ‘‘ کے زیادہ عالم ہیں‘‘-[28]

تصنیفات:

آپ ایک عظیم محدث ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب تصنیفات بھی تھے-اصحاب سیر نے آپ سے منسوب درج ذیل تین کتب کا ذکر فرمایا ہے :

  1. التاریخ و العلل
  2. کتاب معرفۃ الرجال
  3. الکُنیٰ و الاسماء[29]

وفات:

آپ کی وفات کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ :

’’آپ بغداد سے حج کے لئے تشریف لے گئے پہلے مدینہ منورہ پہنچے وہاں کی زیارت سے فارغ ہوکر خانہ کعبہ کا قصد کیا اور منزل میں قیام کے وقت حالتِ نیند میں ہاتف غیبی سے ندا آئی کہ اے ابو زکریا ہماری ہمسائگی چھوڑ کر کہاجاتے ہو آپ سمجھ گئے یہ آپ (ﷺ) کی روح مبارک تھی تو صبح کو آپ فوراً مدینہ پہنچے اور تین دن قیام کے بعد مدینہ ہی میں آپ کا وصال ہوگیا-آپ کا وصال مبارک 233ھ میں ہوا‘‘-[30]

آپ کو یہ بھی سعادت حاصل ہے کہ جس تختہ پر سیدی رسول اللہ (ﷺ) کو غسل دیا گیا تھا اسی پر آپ کو بھی غسل دیا گیا-جب آپ کا وصال ہوا تو لوگ کہتے تھے یہ وہ شخصیت ہے کہ جو آقا کریم (ﷺ) (کی احادیث مبارکہ سے) جھوٹ اور ملاوٹ کو دور کرتے تھے- شارحِ مسلم امام یحییٰ بن شرف النَوَوِیؒ تہذیب الاسما والغات میں نقل کرتے ہیں کہ ابراہیم بن منذر فرماتے ہیں :

ایک آدمی نے (یحیٰ بن معین کے انتقال کے وقت) خاتم الانبیا (ﷺ) اور ان کے اصحاب کو خواب میں دیکھا کہ وہ جمع ہیں تو اس بندے نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) آپ کس لیے جمع ہیں تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ ہم اس مرد یعنی یحیٰ بن معین کے لئے آئے ہیں تا کہ اس پر نماز جنازہ پڑھیں اس لئے کہ وہ میری حدیثوں سے جھوٹ کو دور کرتا تھا‘‘-[31]

٭٭٭


[1](سیر اعلام النبلاء، جز:9، ص:126)

[2](ایضاً)

[3](النجوم الزاہرہ، جز:2، ص:272)

[4](سیر اعلام النبلاء، جز:9، ص:133)

[5](ایضاً)

[6](تہذیب الاسماء و اللغات، جز:2، ص:156)

[7](ایضاً)

[8](تہذیب الاسماء و اللغات، جز:2، ص:157)

[9](تاریخ الاسلام للذہبی، جز:17، ص:407)

[10](ایضاً)

[11](تہذیب الاسماء و اللغات، جز:2، ص:157)

[12](شذرات الذہب، جز:3، ص:155)

[13](تہذیب الاسماء و اللغات، جز:2، ص:157)

[14](تاریخ الاسلام للذہبی، جز:17، ص:409)

[15](ایضاً)

[16](تہذیب الاسماء و اللغات، جز:2، ص:157)

[17](تاریخ الاسلام للذہبی، جز:17، ص:409)

[18](تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، جز:31، ص:549)

[19](سیر اعلام النبلاء، جز:9، ص:135)

[20](تہذیب التہذیب، جز:11، ص:282)

[21](سیر اعلام النبلاء، جز:9، ص:129)

[22](تہذیب الاسماء و اللغات، جز:2، ص:157)

[23](تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، جز:31، ص:554)

[24](تاریخ الاسلام للذہبی، جز:17، ص:410)

[25](ایضاً)

[26](البدایہ و النہایہ، جز:10، ص:343)

[27](النجوم الزاہرہ، جز:2، ص:272)

[28](تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، جز:31، ص:552)

[29](الاعلام، جز:8، ص:173)

[30](الانساب، جز:12، ص:217)

[31](تہذیب الاسماء و اللغات، جز:2، ص:158)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر