اسلامی شعار کا تقدس و تحفظ

اسلامی شعار کا تقدس و تحفظ

اسلامی شعار کا تقدس و تحفظ

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی مئی 2021

دنیا کی ہرقوم اور جماعت کی ایک خاص پہچان ہوتی ہے جس کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے  کہ یہ فلاں مذہب یا نسل سے تعلق رکھتی ہے-جس طرح مختلف اداروں (عسکری یا تعلیمی وغیرہ)کی پہچان ان کے لباس سے ہی ہو جاتی ہے-اسلام دنیا کا مہذب اور منظّم ترین مذہب ہے- یہ بھی اپنی الگ پہچان اور دل کش شعائر کا حامل ہے- اس کے ماننے والے خاص طریقے سے عبادت کرتے ہیں اور خاص قسم کا اسلوبِ زندگی رکھتے ہیں- مسلمانوں کی اصطلاح میں ان خاص امور کو شعائرِ اسلام کہا جاتا ہے، یعنی ’’اسلام کی علامات‘‘-

قرآن مجید،احادیث رسول ِمقبول (ﷺ) اور ائمہ دین کی کتب میں شعائر اللہ کا ذکر و اہمیت بالتفصیل ملتاہے جس سے آشنائی کیے بغیر اسلام کی کامل تفہیم مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتی ہے-اب ہم  ذیل میں شعائرِ اسلام کی تعریفات و احکام کو زیب ِ قرطاس کرنے کی سعی سعید کرتے ہیں -

تعریفات و وضاحت:

شعائر جس کی معانی علامت کے ہیں ہمارے دین میں جن چیزوں کو شعائراللہ کہاگیاہے ،ان کی حقیقت پہ غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ واقعی اللہ عزوجل کی طرف رغبت دلانے والی اور دین کی طرف مائل کرنے والی ہیں-یہ بالکل درست ہے کہ یہ چیزیں مقصود بالذات نہیں ہوتی بلکہ حقیقی مقصود اس میں  پوشیدہ حقائق (یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب و رضا) ہیں- جس کے حصول کے لیے شعائر اللہ کی تعظیم و توقیر لازم ہے- اب ہم ذیل میں اس کی تعریفات کا نظرِ عمیق  کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں-

ابن منظور الافریقیؒ لفظ ’’شعار‘‘کی تحقیق میں رقمطراز ہیں :

’’یہ شعیرہ کی جمع ہے اور( شعار) ہر وہ چیز ہے جس کو اللہ عزوجل کی اطاعت کی نشانی بنایا گیا ہو جیسا کہ وقوف، طواف،سعی،رمی اور ذبح وغیرہ‘‘- [1]

علامہ بدر الدین عینیؒ  رقمطراز ہیں:

’’الشعائر ’’شعیرہ‘‘ کی جمع ہے، جوہری نے فرمایا ہے کہ ’’الشعائر‘‘حج کے اعمال ہیں اور ہر وہ چیز ہے جس کو اللہ عزوجل کی اطاعت کی علامت اور نشانی بنایا گیا ہے- زجاج نے فرمایا: اللہ عزوجل کی عبادت کی تمام جگہیں شعائر اللہ ہیں یعنی جن کو کسی عبادت کی علامت بنا دیا گیا وہ شعائر ہیں اور ایک قول کیا گیا ہے کہ ہر وہ عمل جس کو کسی خاص عبادت کے لیے معین کیا گیا ہو وہ شعار ہے- امام حضرت حسن بصریؒ کا قول ہے کہ دین کے احکام اللہ پاک کے شعائر ہیں ‘‘-[2]

’’تفسیرخزائن العرفان‘‘ میں مرقوم ہے:

’’شعائر اللہ سے دین کے اعلام یعنی نشانیاں مراد ہیں خواہ وہ مکانات ہوں جیسے کعبہ، عرفات، مزدلفہ، جمارثلثہ، صفا، مروہ، منٰی، مساجد یا اَزمِنہ جیسے رمضان، اشہر حرام، عید الفطر و اضحٰی، جمعہ، ایاّم تشریق یا دوسری علامات جیسے اذان، اقامت نمازِ با جماعت، نمازِ جمعہ، نماز عیدین،  ختنہ یہ سب شعائر دین ہیں‘‘-[3]

’’شعائر اللہ‘‘ کی وضاحت میں مفتی احمد یار خان نعیمیؒ فرماتے ہیں :

’’شعائر سے ہروہ چیزمراد ہے جس کی تعظیم رب تعالیٰ کی عبادت کی نشانی ہویا وہ نشان جن کے قیام کا رب تعالیٰ نے حکم ارشاد فرمایا ہو لہٰذا وہ جگہ،وہ وقت اور وہ علامات جو دین کی نشانیاں ہیں وہ سب شعائر اللہ ہیں- کعبہ، عرفات، مزدلفہ، صفا، مروہ، منیٰ، مسجدیں، بزرگانِ  دین کے مقابر وغیر ہ ایسے ہی رمضان،عید،جمعہ وغیرہ- ایسے ہی اذان، تکبیر، جماعتِ نماز، ختنہ،داڑھی، وغیرہ شعائرِ دین ہیں یعنی دین کی پہچانیں دیکھو-یہاں رب تعالیٰ نے شعائر جمع کثرت ارشاد فرمایا اور’’من تبعیضیہ‘‘ جس سے معلوم ہوا کہ شعائراللہ توبہت ہیں ان میں سے ایک صفا مروہ بھی ہیں- لہذا یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں صرف صفا مروہ پہاڑ اور ہدی کے جانور کا شعائر اللہ ہونا ثابت ہے اور شعائر اللہ کہاں سے ہوئیں؟ (اس سوال کا جواب یہ ہے)کیونکہ شعائر جمع کثرت ہیں جو دس سے زیادہ پر بولی جاتی ہے-قرآن پاک نے بتایا کہ اسلام میں بہت سے چیزیں شعائر اللہ ہیں-صفا مروہ کی طرح جس کو مقبول بندوں سے نسبت ہوجائے وہ (سب)شعائر اللہ ہیں ‘‘-[4]

علامہ غلام رسول سعیدیؒ فرماتے ہیں:

’’شعائر ’’شعیرہ ‘‘ کی جمع ہے-شعیرہ کے معانی علامت ہے اور شعائر اللہ کا معانی ہے، اللہ عزوجل کے دین کی علامتیں اور خصوصیات اور وہ اعمال جن کو اللہ عزوجل نے عبادت اوردین کی علامتیں قرار دیا ہے ‘‘- [5]

مذکورہ بالاتعریفات کی روشنی میں کم و بیش درج ذیل (اوقات،اشیاء،مقامات اورعبادات) ’’شعائراللہ‘‘ میں داخل ہیں-

  1. اَوقات: ماہِ رَمضان ، حُرمت والے مہینے ، عیدین ، جُمعہ ، ایامِ تشریق-
  2. اشیاء، مقامات اور عبادات: قرآنِ مجید، کعبہ، میدانِ عَرَفات ،  مُزدلفہ، تینوں جَمرات، صَفا، مَروہ، مِنیٰ، مساجد، اَنبیاء کرام ؑ ، صحابہ کرام ؓ اور اولیا ء اللہ کے  تبرکات و مزارات، اَذان، اِقامت، نمازیں، داڑھی رکھنا ، قُربانی-

’’شعائر اللہ‘‘ میں جو چیزیں شامل ہیں مذکورہ بالا تصریحات سے ان کے احوال معلوم ہوئے ،اب ہم ذیل میں قرآن وسنت اور اقوال ِ ائمہِ دین کی روشنی میں اس کے احکام و اہمیت کو زیب ِ قرطاس کرنے کی سعی سعید کرتے ہیں -

قرآن و سنت اور شعائر اللہ کا تقدس:

1-’’اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ‘‘[6]

’’بےشک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں سے ہیں‘‘-

مفتی احمد یار خان نعیمیؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

’’دینی شعائر یعنی علامتوں کا برقرار رکھنا سنتِ الٰہی ہے جیسے صفا مروہ کو اللہ رب العزت نے باقی رکھا کیونکہ یہ بزرگوں کی یادگار ہیں- لہذا بزرگانِ دین کے تبرکات اور ان کے روضے وغیرہ باقی رکھے جائیں تاکہ انہیں دیکھ کر ایمان تازہ کریں-(مزید ارشاد فرمایا) ناجائز کاموں کی وجہ سےسنت نہیں چھوڑی جاسکتی لہذا قبورِ اولیاء پر گانے کی وجہ وغیرہ کی وجہ سے زیارتِ قبر جوسنت ہے نہ چھوڑی جائے گی-(البتہ ناچ گانے اوردیگر منہیات شرعیہ کی روک تھام کی جائے)جیسے بتوں کی موجودگی میں خانہ کعبہ کاطواف اور صفا مروہ کی سعی بند نہ ہوئی ‘‘-[7]

2-’’وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ‘‘ [8]

’’اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیز گاری سے ہے‘‘-

امام بیضاویؒ ’’شعائر اللہ‘‘کی تفسیرمیں ایک قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’شعائر اللہ‘‘ہی اللہ عزوجل کا دین ہیں کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان مبارک ہے :

’’وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللهِ أي دِيْنَهٗ‘‘

’’ اور جو اللہ کے نشانیوں یعنی اس کے دین کی تعظیم کرے‘‘-

اس کی تفسیر میں ’’ابو الفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیرؒ نے امام محمد بن ابی موسیٰ کاقول نقل کرتے ہوئے فرمایا:

’’وقوف، مزدلفہ، جمار، رمی، حلق اور بُدن ’’شعائر اللہ‘‘ میں سے ہے-حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ سب سے بڑی ’’شعائراللہ‘‘بیت اللہ ہے ‘‘-[9]

3-’’یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآىٕرَ اللّٰهِ‘‘

’’اے ایمان والو حلال نہ ٹھہرا لو اللہ کے نشان‘‘-

اس کی تفسیرمیں امام رازیؒ فرماتے ہیں :

’’شعائراللہ کسی ایک معین چیز کے ساتھ خا ص نہیں بلکہ تمام مکلفات کو شامل ہے اورحضرت حسنؒ کا قول اس کے قریب ہے کہ ’’شعائراللہ ‘‘اللہ عزوجل کا دین  ہیں‘‘- [10]

امام شافعیؒ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

’’و هي كل ما كان لله عزوجل من الهدي وغيرہ‘‘[11]

’’اس میں ہروہ چیز شامل ہے جواللہ عزوجل کے لیے ہو مثلاً ہدی وغیر ہ‘‘-

4-’’قُلِ اسْتَہْزِءُوْاج إِنَّ اللهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ؁ وَ لَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَ نَلْعَبُط قُلْ اَبِاللهِ وَآيَاتِهٖ وَرَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ؁ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيْمَانِكُمْط‘‘

’’اور اے محبوب (ﷺ)فرمادیجئے ہنسے جاؤ اللہ کو ضرور ظاہر کرنا ہے جس کا تمہیں ڈر ہے اور اے محبوب (ﷺ) اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے -تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول (ﷺ)سے ہنستے ہو- بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے مسلمان ہوکر‘‘-

ان آیات مبارکہ کا شانِ نزول بیان فرماتے ہوئے علامہ ابن کثیرؒ نے تین روایات رقم فرمائیں ، جن میں غزوہ ِ تبوک کے موقع پہ مسلمانوں کی تعداد کی کمی کو موضوع ِ بحث بناکر مذاق اڑایاگیا- اختصار کی خاطر ایک روایت زیبِ قرطاس کرتے ہیں:

 حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:

’’غزوہ تبوک کے موقع پر ایک مجلس میں ایک شخص (منافق) نے کہا کہ میں نے ان قاریوں سے زیادہ کھانے میں پیٹو، کلام میں جھوٹے اور لڑائی میں بزدل کسی اور کو نہیں دیکھا- مسجد میں سے ایک دوسرے شخص نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو بلکہ تم منافق ہو- مَیں رسول اللہ (ﷺ)  کو ضرور بتاؤں گا - پس رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں یہ بات پہنچی تو قرآن حکیم کی آیات نازل ہوئیں-حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں اس شخص کو دیکھ رہا تھا وہ رسول اللہ (ﷺ) کی اونٹنی کے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور پتھر اس کے پاؤں کو زخمی کر رہے تھے اور وہ کہ رہا تھا یا رسول اللہ (ﷺ) ہم تو یونہی آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے اور (سیدی رسول اللہ (ﷺ) اس کی طرف نظرِ التفات نہیں فرما رہے تھے) اور آپ (ﷺ) یہ آیات مبارکہ تلاوت فرما  رہے تھے:

’’قُلِ اسْتَہْزِءُوْاج إِنَّ اللهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ؁ وَ لَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَ نَلْعَبُط قُلْ اَبِاللهِ وَآيَاتِهٖ وَرَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ؁ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيْمَانِكُمْط‘‘[12]

5-’’وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّ لَعِبًاطذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ‘‘[13]

’’اور جب تم نماز کیلیے اذان دو تو اسے ہنسی کھیل بناتے ہیں یہ اس لیے کہ وہ نرے بے عقل لوگ ہیں‘‘-

اس آیت مبارک کے تحت علامہ جریر طبریؒ ایک روایت نقل فرماتے ہیں:

’’مدینہ طیبہ میں ایک (بدبخت)عیسائی تھا جب وہ سیدی رسول للہ (ﷺ) کے مؤذن کو سنتاکہ وہ (اپنی زبان مبارک سے )پکار رہا ہے ’’أشهد أن محمدًا رسول الله‘‘ تو وہ ملعون کہتا:’’حُرِّق الكاذب‘‘(معاذاللہ)- ایک رات اس کی خادمہ آگ لائی تو وہ اور اس کے گھر والے سوئے ہوئے تھے- آگ سے ایک شرارہ اُڑا تو تمام گھر جل گیا اور وہ نصرانی اور اس کے گھر کے لوگ بھی جل گئے‘‘-

اس روایت مبارک سے  مسلمانوں کو  عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ اللہ کے دین کی علامت کی اہانت کا ارتکاب اگر ایک غیر مسلم نے بھی کیا تو اللہ عزوجل نے اس کو ذلت و رسوائی سے دوچارفرمادیا-

6-’’یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا‘‘[14]

’’اے ایمان والو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنالیا ہے ان کو دوست نہ بناؤ‘‘-

اس آیت مبارک کی روشنی میں پہلی بات تویہ ہے کہ اللہ پاک نے ایسے لوگوں کی رفاقت اختیار کرنے سے منع فرمایا جو اللہ عزوجل کے دین متین کو کسی بھی حوالے سے مذاق اڑاتے ہیں اور شعائر اللہ کی توہین کرتے ہیں دوسری بات اگر بفرض محال اگر ایسے مقامات یا ایسی محافل سے گزر ہو جہاں شعائر اللہ (زمان، مکان یا اللہ عزوجل کے برگزیدہ بندوں کے مزارات وتبرکات وغیرہ) کی بے ادبی ہو رہی ہو تو چاہیے کہ وہ فورًا وہاں سے اٹھ جائے- جیساکہ اللہ رب العزت  کافرمان مبارک ہے :

’’وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ یُكْفَرُ بِهَا وَ یُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖق اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْطاِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْكٰفِرِیْنَ فِیْ جَهَنَّمَ جَمِیْعَا‘‘ [15]

’’اور بے شک اللہ عزوجل تم پر کتاب میں اتار چکا کہ جب تم اللہ عزوجل کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکا رکیا جاتا اور ان کی ہنسی بنائی جاتی ہے تو ان لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک وہ اور بات میں مشغول نہ ہوں ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہو بے شک اللہ کافروں اور منافقوں سب کو جہنم میں اکٹھا کرے گا‘‘-

علامہ غلام رسول سعیدی صاحبؒ اس آیت مبارک کی تفسیر میں ایک روایت مبارک رقم فرماتے ہیں کہ:

’’جب مسلمان سجدہ کرتے تو یہود اورمشرکین ان کا مذاق اڑاتے تھے اورجب مسلمان اذان دیتے تو وہ کہتے یہ اس طرح چلارہے ہیں جیسے قافلے والے چلاتے ہیں‘‘-[16]

اللہ عزوجل نے  سابقہ  آیت مبارک کے حکم مبارک کی طرح اسی چیز کو دوسرے مقام پہ یو ں بیان  فرمایا:

’’وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖط وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ‘‘[17]

’’اور اے سننے والے جب تو انہیں دیکھے جو ہماری آیتوں میں پڑتے ہیں تو ان سے منہ پھیرلے جب تک اور بات میں پڑیں اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ‘‘-

7-اگر کوئی باوجود علم ہونے کے دینی شعائر کا مذاق اڑانے سے باز نہیں آتا تو اللہ عزوجل کے فرامین مبارکہ کو بار بار پڑھنا چاہیے-ایک اور مقام پہ اللہ عزوجل ارشادفرماتے ہیں:

’’وَ إِذَا عَلِمَ مِنْ آيَاتِنَا شَيْئًا اتَّخَذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ‘‘[18]

’’اور جب ہماری آیتوں میں سے کسی پر اطلاع پائے تو اسے مذاق بناتا ہے ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے‘‘-

مزیدارشادفرمایا:

’’وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ‘‘[19]

’’اور انہیں گھیرلے گا وہی عذاب جس کی ہنسی اڑاتے تھے‘‘-

شعائر ِ اسلام کی (معاذ اللہ) بے ادبی و گستاخی قبل از اسلام کے منافقین کا بھی وطیرہ رہا ہے جیساکہ اللہ رب العزت نے ارشادفرمایا:

’’مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ‘‘[20]

’’اور اُن کے پاس جو غیب بتانے والا (نبی) آیا اس کی ہنسی ہی بنایا گیا‘‘-

دینی شعار کا مذاق اڑانے والوں کو مذکورہ آیات مبارکہ ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیے جس میں ’’شعائر اللہ‘‘  کا مذاق  اڑاناکفار و مشرکین کا طریق بتایا گیا ہے- انہیں آیات مبارکہ و احادیث مبارکہ کی روشنی میں فقہائے امت نے ’’شعائر اللہ‘‘ کی توہین ومذاق کو کفر گرداناہے -

آج کا دور دورِ فتن کہلاتا ہے،اس میں سلامتی ایمان ایک چیلنج سے کم نہیں ہے-اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’قیامت سے پہلے فتنے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے اور آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا-توشام کو کافر ہو جائے گا اور شام کو ایمان کی حالت میں ہوگا توصبح کافرہوجائے گا اورکئی اقوام دنیاوی مال کے عوض اپنا دین بیچیں گی‘‘-[21]

اس لیے ضروری ہے کہ دین کے معاملے کو باریک بینی سے دیکھا جائے،کیونکہ ذرا سی غفلت کا نتیجہ بعض اوقات ایمان سے ہاتھ دھونے کی صورت میں ملتا ہے جیسا کہ روایت مبارکہ میں ہے: حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی رحمت(ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’بے شک بندہ ایک بات کہتا ہے جس میں اللہ عزوجل کی رضا ہوتی ہے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا اور اللہ عزوجل اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے درجات بلند فرماتا ہے اور ایک بندہ کوئی بات کہتا ہے جس میں اللہ عزوجل کی ناراضگی ہوتی ہے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا اور وہ اس بات کی وجہ سے جہنم میں گر جاتا ہے ‘‘-[22]

مزید روایت مبارک ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سُخْطِ اللهِ، لَا يَرَى بِهَا بَأْسًا، فَيَهْوِي بِهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ سَبْعِيْنَ خَرِيْفًا‘‘[23]

’’آدمی (بعض اوقات) کوئی ایسی بات بول دیتا ہے جو اللہ کو ناراض کردینے والی ہوتی ہے، جبکہ وہ (اُس کے بولنے میں) برائی خیال تک نہیں کرتا، مگر وہ اس کی وجہ سے جہنم کے اندر ستر سال تک گرتا چلا جاتا ہے‘‘-

اگر ہم باوجود مسلمان کہلانے کے ہمارے گھروں میں غیر مسلم کلچر پروان چڑھ رہا ہے تو حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی حضور رسالت مآب (ﷺ) کا یہ فرمان ذیشان پیشِ نظر رکھیں کہ ’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘[24] ’’جو آدمی جس قوم کے ساتھ مشابہت رکھے گا، وہ انہیں میں سے ہے (یعنی وہ آخرت میں اسی قوم کے ساتھ اٹھایا جائیگا)‘‘-ایک اورمقام پہ آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’أنت مع من أحببت‘‘[25]

’’ توُ(یعنی تیراحشراس کے ساتھ ہوگا)جس کے ساتھ تو محبت کرتاہے‘‘-

نوٹ: یہ بات ذہن نشین رہے کہ شعائراللہ صرف وہ ہیں جن کو اللہ عزوجل اوراس کے حبیب ِمکرم،شفیعِ معظم (ﷺ) نے مقرر فرمایا  اور فقہاء ومحدثین نے قرآن و سنت کی روشنی میں جن  کی نشاندہی فرمائی ہے-اس لیے ہر شخص کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کوشعائراللہ قرار دے کر اس کی تعظیم کو لازم قراردے-

حرف آخر :

ہر ذی شعور یہ بات جانتاہے کہ پاکستان کے معرض ِ وجود میں آنے کی ایک ظاہری وجہ یہ بھی تھی کہ ہندوؤں کےساتھ رہتے ہوئے ہمارے لیے اسلامی شعار (قربانی وغیرہ) پہ کماحقہ عمل پیرا نہیں ہوسکتے تھے- اس لیے مندرجہ بالا حقائق کوسامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان پہ لازم ہے کہ وہ باطل کی سازشوں کو سمجھتے ہوئے ان کا شکار ہونے کی بجائے ان  کے سامنے مضبوط بندھ باندھے اور اپنے مسلمہ عقائد کے ساتھ ساتھ  اسلامی شعار کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے -

آج لمحہ فکریہ ہے کہ قرآن پاک نے تومذاق اڑانا کفار و مشرکین کی روِش وطریق قرار دیاہے لیکن بدقسمتی سے آج ہمیں کئی نام نہاد مسلمان بھی ایسے نظر آتے ہیں جو قرآنی آیات، احادیث ِ نَبویہ (ﷺ)، دینی کتابوں ، دستار، داڑھی، مدرسہ،دینی وضع وغیرہ کو طعنہ وتشنیع کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے -جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں لوگوں نے دستارکو ترک کیا وہاں مساجد و مدارس میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے سے کترانے لگے اور لوگوں نے دین کی تعلیم کو نظرانداز کرنا شروع کر دیا ہے -

ان ناگفتہ بہ حالات کے باوجود الحمدللہ! آج ہماری خوش قسمتی ہے کہ سرپرست اعلیٰ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین ،صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) کی زیرِ قیادت جو مدارس کام کررہے ہیں  اس میں عصری تقاضوں کے عین مطابق کورسز کو مرتب کیا گیا ہے -جن میں نہ صرف عقائد کے تحفظ کو یقینی بنا یا گیاہے بلکہ شعائرِ اسلام پہ پہرہ بھی ان کا مقصدِ حیات ہے اور آپ (مدظلہ الاقدس) کے زیرِ قیادت قائم ہونے والے مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کے سینے نہ صرف معرفتِ الٰہیہ سے روشن ہوں گے بلکہ وہ دین کا کامل شعور اور دورِ حاضر کے مکمل تقاضوں کا بھی ادراک رکھتے ہو ئے شعائرِ اسلام پہ پہرہ بھی دیں گے -ان شاء اللہ عزوجل

٭٭٭


[1](لسان العرب،  ج:4،ص:414-415)

[2]( عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،باب وجوب الصفا والمروة وجعل من شعائر الله)

[3](تفسیر خزائن العرفان،زیرِ آیت،البقرۃ:158)

[4]( تفسیر نعیمی،زیرِآیت،البقرۃ:158)

[5]( تبیان القرآن،زیرِ آیت،البقرۃ:158)

[6]( البقرۃ:158)

[7]( تفسیر نعیمی،زیرِآیت،البقرۃ:158)

[8]( الحج:32)

[9]( تفسیر ابن کثیر،زیرِآیت،الحج:32)

[10]( مفاتيح الغيب،زیرِ آیت،المائدہ:02)

[11]( تفسير الإمام الشافعي زیرآیت،المائدہ:02)

[12]( تفسیر ابن کثیر ،زیرآیت،65-66)

[13]( المائدہ:58)

[14]( المائدہ:57)

[15]( النساء:140)

[16]( تبیان القرآن زیر آیت، النساء:140)

[17]( الانعام :68)

[18]( الجاثیہ:09)

[19]( الجاثیہ:33)

[20](الزخرف:7)

[21](سنن الترمذی،ابواب الفتن)

[22]( صحیح البخاری ،کتاب الرقاق)

[23]( سنن ابن ماجہ ،باب کف اللسان فی الفتنہ)

[24](سنن ابی داؤد،بَابٌ فِي لُبْسِ الشُّهْرَةِ)

[25]( صحیح البخاری ،باب مناقب عمر بن الخطابؓ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر