مطالعہ غزوات کی عصری ضرورت کیوں؟

مطالعہ غزوات کی عصری ضرورت کیوں؟

مطالعہ غزوات کی عصری ضرورت کیوں؟

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز نومبر 2019

خاتم المرسلین، سیّدالانبیاء، وجۂ تخلیقِ کائنات، سرورِ کونین، احمدِ مجتبیٰ، حضرت محمدِ مصطفےٰ (ﷺ) کا دنیا میں نورِ ہدایت بن کر مبعوث ہونا انسانیت پر احسانِ عظیم ہے- بلاشبہ آپ (ﷺ) کا اسوۂ حسنہ مکمل ضابطہ حیات ہونے کی حیثیت سےحیاتِ انسانی کے ہر شعبہ میں تا ابد رہنمائی کا اکمل وسیلہ ہے-آپ(ﷺ) لامحدود اوصاف و کمالا ت کے مالک ہیں جن میں رحمتہ العالمین جیسا مرتبۂ خاص فقط آپ (ﷺ) ہی کو حاصل ہے اور آپ (ﷺ) عاصیاں را بحرِ لطاف اور شفیعِ مجرماں ہیں-رسالتِ محمدی (ﷺ) کی جامعیت و اکملیت کو ایک تحریر کی شکل میں سمونا صرف محال ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے کیونکہ آپ (ﷺ) کے اوصافِ حمیدہ بیان کرنے سے  نہ صرف انسانیِ عقل قاصر ہے بلکہ جہاں بھر کے علوم وحکمتیں ماند پڑجائیں تب بھی شمائل و فضائلِ مصطفےٰ(ﷺ) کما حقہ بیان نہیں کر سکتے-فی الحقیقت سیرت طیبہ بحرِ بیکراں کی مثل ہے جس کے کئی گوشے ایسے ہیں جو لازوال دینی اہمیت و بے مثال تاریخی حیثیت کے حامل ہیں-

خاکسار آپ(ﷺ)کی حیاتِ طیبہ کے صرف ایک پہلو (غزواتِ نبوی (ﷺ) اور عصرِ حاضر میں مطالعہ غزوات) چونکہ سیرت طبیہ کا ا یک بہت بڑا حصہ غزوات پر مشتمل ہے (کی ضرورت و اہمیت پر خیالات قلمبند کرے گا کہ اس پہلو کی عصری معنویت کیا ہے اور عصرِ حاضر میں مطالعہ غزوات کیوں ضروری ہے؟یہ پہلو نہ صرف دفاعی میدان میں یکساں قابلِ عمل ہے بلکہ حیاتِ انسانی کے دیگر کثیرسیاسی،سماجی و نظریاتی پہلوؤں میں بھی یکساں رہنمائی فراہم کرتا ہے-

غزوہ کیا ہے؟

’’محدثین و اہلِ سیر کی اصطلاح میں غزوہ وہ لشکر ہے جس میں رسول اللہ(ﷺ) بذات اقدس شامل ہوں اور اگر حضور(ﷺ) بذات خود شامل نہ ہوں بلکہ اپنے اصحاب میں سے کسی کو دشمن کے مقابلے میں بھیج دیں تو وہ لشکر سریہ کہلاتا ہے- غزوات تعداد میں 27 ہیں اور سرایا کی تعداد 47 ہے‘‘-[1]

حضور نبی کریم(ﷺ) نے اپنی حیاتِ طیبہ میں باِذنِ الٰہی کفار و مشرکین کے خلاف جہاد فرمایا تاکہ فتنہ و فساد کا قلع قمع ہو اور لوگ احکامِ الٰہی کی اطاعت کریں- غزوات کے متعلق قرآنِ کریم اور کتب ِ سیرت میں نہایت جامع تذکرہ موجود ہے جس سے ہمیں غزوات کے مقاصد و اہداف کا پتہ چلتا ہے –جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلہِ‘‘[2]

’’اور ان سے جنگ کرتے رہو حتیٰ کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین (یعنی زندگی اور بندگی کا نظام عملًا) اﷲ ہی کے تابع ہو جائے‘‘-

مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں کہ:

’’اللہ کے دین کا مطلب ہے: اللہ کی اطاعت،یعنی انسان دین اور دنیا کے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کریں،اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق عبادت کریں، اس کے آگے سر جھکائیں اور اسی سے اپنی حاجات طلب کریں اور اپنی انفرادی،عائلی، اجتماعی، نجی، تمدنی اور کاروباری زندگی کے تمام معاملات میں اسی کے دیئے ہوئے نظام پر عمل کریں‘‘-

مطالعۂ غزوات کی اہمیت :

مطالعہ غزوات سیرت طیبہ کو کئی جہات سے سمجھنے کیلئے لازم ہے-غزوات نبوی (ﷺ) کا مطالعہ نہ صرف ہمارے لئے تقویتِ ایمان کا باعث ہے بلکہ شعبہ ہائے زندگی میں مختلف امورِ زندگی بطریقِ احسن پایہ تکمیل تک پہچانے کیلئے غزوات سےرہنمائی از بس ضروری ہے- مزید یہ کہ مطالعۂ غزوات فہمِ دین اور آقا پاک (ﷺ) کی دفاعی حکمت ِعملی و سپہ سالاری سے آشنائی کا مؤثر ذریعہ ہے جس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آقا پاک (ﷺ) نے اپنی حکمت ِ عملی سے کس طرح کفارِ مکہ کے ساتھ تعلقات ،تجارت، امورِخارجہ اور غزوات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا-

غزوات سے رہنمائی کی عصری ضرورت و اہمیت سے متعلق تذکرہ ذیل میں کیا گیا ہے:

فلسفۂ غزوات اور عصری تقاضے:

عصری تقاضے جوبھی ہوں، دنیا چا ہے سائنٹیفک انداز میں پروان چڑھے یا مادی انداز میں سیرت طیبہ کےرہنما اصول آج بھی اسی طرح قابلِ عمل ہیں جس طرح 14 صدیاں قبل تھے- جہاں تک عصری تقاضے اور ملت ِاسلامیہ کی غزوات سے رہنمائی کا تعلق ہے تو یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ آج ہر طرف سےاسلام مخالف قوتیں مسلمانوں کو سیاسی، معاشی، سماجی، دفاعی سطح پر پیچھے دھکیلنے اور روحانی و نظریاتی طور پر کمزور کرنے کیلئے کمر بستہ ہیں اور دوسری طرف امتِ مسلمہ کی بے بسی دیکھ کر مولانا الطاف حسین حالی (عرض حال بجناب سرورِ کائنات (ﷺ)) کا یہ شعر یا دآتا ہے کہ:

جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے

مولانا الطاف حسین حالی کی اس نظم کا بنظرِ عمیق مطالعہ کیا جائے تو وہ حضور رسالتِ مآب (ﷺ) کی بارگاہ میں اسلام کی نشاہِ ثانیہ اور پھر امتِ مسلمہ کی زبوں حالی کا رونا روتے ہوئے آقا پاک(ﷺ) کی بارگاہ میں فریاد پیش کرتے ہیں کہ کشتیٔ امت کا واحد سہارا آپ (ﷺ)ہیں یعنی ملتِ اسلامیہ کےمسائل کا حل فقط آپ (ﷺ) کی تعلیمات پر عمل سے ممکن ہے- اب دیکھا جائے تو اس وقت سب سے اہم مسئلہ اتحادِ عالمِ اسلام اور مسلمانوں میں جذبۂ ایثار و قربانی کا فقدان ہے- یعنی کسی بھی مسئلے پر امتِ مسلمہ متحد ہو کر بات کرنے کو تیار(سوائے چند ایک ممالک کے) نہیں پھر چاہے فلسطین، روہنگیا کا مسئلہ ہو یا مقبوضہ کشمیر میں ہونے والا مسلمانوں کا قتلِ عام- اتحاد و ایثار و قربانی دو ایسے پہلو ہیں جو ہمیں غزوات میں بدرجہ اتم نظر آتے ہیں بلکہ مسلمانوں کی فتح میں اہم حثیت کے حامل ہیں-آج بھی اگر مسلمان اتحاد اور ایثار وقربانی کے جذبہ کو اپنا لیں (جو غزوہ بدر میں مہاجرین نے انصار سے دکھایا) توکرۂ ارض پرکوئی طاقت مسلمانوں کو کسی بھی سطح پر کمزور کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی-

غزوات اور عصرِ جدید کی جنگی حکمتِ عملی:

موجودہ جنگی حکمتِ عملی اپنا تے وقت ہمیں غزوات سے رہنمائی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے-مطالعہ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ مسلمانوں نے جتنی بھی فتوحات حاصل کیں ان کا’’Source of Inspiration‘‘حضور نبی کریم(ﷺ) کےغزوات، آپ (ﷺ) کی دفاعی حکمت ِ عملی اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا جذبۂ ایمان تھا- آقا پاک (ﷺ) نے غزوات میں طرح طرح کی دفاعی تدابیر اختیا ر فرمائیں جو عصرِ جدید کی جنگی حکمت ِ عملی میں بھر پورممد و معاون اور قابلِ اطلاق ہیں دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگی قوانین جو  1400سال قبل رسول اکرم (ﷺ) نے اپنی امت کو عطا فرمائے تھےوہ آج عالمی ادارے اور تنظیمیں انسانی بنیادوں پر متعین کر رہی  ہیں -

آقا پاک (ﷺ) کی اختیار کردہ کامیاب جنگی تدابیر(حکمتِ عملی) کی ایک واضح جھلک ہمیں درج ذیل پیرائے میں نظر آتی ہے-

He also very successfully employed the elements of surprise, speed and mobility in his campaigns. His enemy was often taken by surprise when they suddenly (SAWW) his forces at their gates. In order to keep his movements secret from his enemy, he followed complicated and sometimes even opposing routes to confuse them about his intentions. In six of his major campaigns, his enemy was completely surprised to his forces.” [3] 

’’انہیں(آقاپاک(ﷺ)نے اپنی مہمات میں حیرت، نقل و حرکت اور رفتار جیسے عناصر کو نہایت کامیابی سے استعمال کیا-آپ (ﷺ) کے دشمن کو اکثر حیرت کا سامنا کرنا پڑتا جب دشمن اچانک آقا پاک (ﷺ) کو لشکر سمیت اپنے دروازے پر کھڑا پاتا- اپنی نقل و حرکت سے دشمن کو بے خبر رکھنے کیلئے آپ(ﷺ) نے پیچیدہ اور حتیٰ کہ بعض اوقات دشمن کو اپنے ارادوں سے متعلق کنفیوز کرنے کیلئے مخالف راستوں کا انتخاب فرمایا-آپ (ﷺ) کی چھ بڑی مہمات میں دشمن آپ (ﷺ) کی افواج دیکھ کر مکمل طور پر حیران تھا‘‘-

آقا پاک (ﷺ) نے اپنی حکمتِ عملی میں چند اختراعات متعارف کروائیں؛غزوہ احزاب میں مسلمانوں کا خندق کھودنا، آپ(ﷺ) کی اس حکمتِ عملی کا ثبوت ہے کہ قریش کی طرف سے اتحادی فورس کا سربراہ ابو سفیان حیران ہوا اور کہا کہ اللہ کی قسم! یہ حکمت ِ عملی اہلِ عرب میں پہلے کوئی نہیں جانتا تھا- [4]

اس کے علاوہ بھی کفر و باطل کے جتنے معرکے ہوئے آپ (ﷺ) نے بے شمار تدابیر اختیار فرمائیں جن میں سے مذکورہ تین ایسی تدابیر ہیں جو ہمیں عصرِ جدید کی ملٹری ٹریننگ اور جنگی حکمتِ عملی میں بھی نظر آتی ہیں -

غزوات اور اخلاقی قواعد وضوابط:

حضور نبی اکرم(ﷺ)نےغزوات میں اخلاقی اقدار و انسانی احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے باقاعدہ ضوابط متعارف کروائے- مثلاً ظالمانہ طریقوں سے دشمن کو قتل کرنے اور اذیت دینے سے قطعاً منع فرمایا گیا-جنگ میں شریک نہ ہونے والے لوگوں ( جیسے عورتوں، بچوں، ضعیفوں اور غلاموں ) کو قتل کرنے سے منع فرمایا گیا-جنگی قیدی (آدمی) حتی ٰ کہ جانوروں کو بھی جلانے سے منع فرمایا گیا-اسی طرح فصلیں اجاڑنے اور بلاوجہ درخت کاٹنے سے منع فرمایا گیا-

مزید ناحق قتل کرنے سےبھی  منع کیا گیا اور جنگ کے لئے یہ فرمایا گیا کہ تم ان لوگوں سے جنگ کر وجوتم سےجنگ کرنا چاہتے ہیں جس کی واضح تاکید ہمیں قرآنِ کریم سےیوں ملتی ہے:

’’وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْاط اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ‘‘[5]

’’اور اﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بے شک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘-

علامہ غلام رسول سعیدیؒ  نے ’’تبیان القرآن‘‘ میں ’’حد سے تجاوز نہ کرو‘‘ سے متعلق امام ابنِ جریر کی درج ذیل روایت نقل کی ہے:

’’حضرت ابنِ عباس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: ’’حد سے تجاوز نہ کرو‘‘، کا مطلب ہے کہ عورتوں،  بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو اور نہ اس کو قتل کرو جو ہتھیار ڈال دے، اگر تم نے ان کو قتل کیا تو تم حد سے تجاوز کرنے والے ہوں گے‘‘-

تو یہ تمام ایسی چیزیں ہیں جن سےہمیں اسلام میں انسانی عظمت اور وقار کا انداز ہ ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اسلام دفاعی جنگ کی اجازت ضرور دیتا ہے لیکن اس میں بھی دشمن کے ساتھ زیادتی(حد سے تجاوز) کا قائل نہیں-

غزوات میں صلہ رحمی کا تصور:

صلہ رحمی ایک ایسا عنصر ہے جسے اسلام میں باقاعدہ ضابطے کی حیثیت حاصل ہے اور جو نہ صرف ہمیں غزواتِ نبوی(ﷺ) میں نمایاں نظر آتا ہے بلکہ آپ (ﷺ) کی پوری حیات طیبہ صلہ رحمی کی عظیم امثال سے مزین ہے-باالفاظ دیگر یوں کہ صلہ رحمی کو آپ (ﷺ) نے حقیقی معنویت عطا کی تو یہ بے جانہ ہوگا جن میں سے ایک مثال قارئین کے پیشِ خدمت ہے-

’’غزوہ حنین میں 6000 اسیرانِ جنگ کو محسنِ انسانیت (ﷺ) نے صرف بطورِ احسان بلا فدیہ رہا فرمایا بلکہ رہائی کے وقت تمام قیدیوں کوایک ایک چادر بطورِ ہدیہ عطا فرمائی‘‘-[6]

مزید آپ(ﷺ) نے فتح مکہ اور دیگر مواقع پر صلہ رحمی کی جو مثالیں قائم فرمائی وہ تاریخ کا سنہری باب ہیں-اسی طرح پھر آقا پاک (ﷺ) کے صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) نے صلہ رحمی کا جو عملی نمونہ پیش کیا تاریخ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی- تو پتہ چلاکہ آپ (ﷺ) نے غزوات میں بھی احترامِ آدمیت کی تعلیم دی یعنی اگر آپ دشمن سے بر سرِ پیکار ہوں تب بھی یہ اجازت نہیں کہ آپ دشمن کی تذلیل کریں- بالفاظِ دیگر یہ کہ آدابِ قتال ملحوظ رکھے جائیں-

غزوات کے بعد بھی دنیا میں جتنی اسلامی جنگیں لڑی گئیں اور مسلمانوں نے فتوحات حاصل کی ان میں بھی آقا پاک (ﷺ) کی عطا کردہ صلہ رحمی اور حسنِ سلوک کی روایت بر قرار رکھی گئی جس کی تاریخ میں بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے دو مثالیں ذیل میں بیان کی گئی ہیں-

مثلا711ء میں مسلمانوں نے اندلس فتح کیا تو فاتح قوم کے حسنِ سلوک کی گواہی ایک انگریز مؤرخ ول ڈیوراں کچھ ان الفاظ میں دیتےہیں کہ اندلس پر عربوں کی حکومت اس قدر عادلانہ، عاقلانہ اور مشفقانہ تھی کہ اس کی مثال اندلس کی تاریخ میں نہیں ملتی- مزید اسی بات کے تسلسل میں فرماتے ہیں کہ؛

’’1187ء میں سلطان صلاح الدّین ایوبی نے جب بیت المقدس فتح کیا تو کسی عیسائی کو کوئی تکلیف نہ دی اور ہلکا سا ٹیکس (جزیہ) لگانے کے بعد سب کو مذہبی آزادی دے دی اور دورانِ جنگ جب عیسائیوں کا سپہ سالار رچرڈ اوّل بیمار ہوا تو صلاح الدّ ین ایوبی اسے کھانا،پھل اور دیگر مفرحات بھجواتا رہا‘‘-

 یہ تھا مسلمانوں کا نظریۂ جنگ اور مفتوح اقوام سے حسن ِ سلوک لیکن اس کے برعکس جتنی بھی غیر اسلامی جنگیں لڑی گئیں جو غیر مہذب و متمدن اقوام(جن کی نظر میں انسانی جان کی کوئی قدر و قعت نہ تھی اور جن کا پیشہ محض زمین پر فساد بپا کرنا تھا) نے لڑتے ہوئے تاریخ میں تذلیل ِ انسانیت کی اندوہناک مثالیں قائم کیں جن کے تصور سے دل دہل جاتا ہے اور انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کس قدر بے رحمی سے انسانی اقدار پا مال کی گئیں- گزشتہ صدی کی دو بھیانک مثالیں (جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوم )ہمارے سامنے ہیں:

’’جنگ ِ عظیم اوّل (1914 تا 1918ء) مجموعی طور پر 75 لاکھ افراد ہلاک ہوئے-ایک کھرب ڈالر کے وسائل حیات کو نذرِ آتش کیا گیا‘‘-[7]

اسی طرح:

’’ جنگ عظیم دوم (1935 تا 1945ء)میں مجموعی طور پر ساڑھے چار کروڑ انسان ہلاک ہوئے-صرف ایک شہر سٹالن گراڈ میں دس لاکھ افراد لقمہ اجل بنے ،جرمنی میں ساٹھ لاکھ افاد گیس چیمبروں کے ذریعے ہلاک کئے گئے- جاپان کے دو شہر مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے-بیک وقت چار بر اعظموں یورپ،امریکہ،ایشیاء اور افریقہ پر مسلسل چھ برس تک اس منحوس جنگ کے مہیب سائے چھائے رہے‘‘-[8]

مذکورہ امثال سے اسلامی وغیر اسلامی تصور جنگ میں فرق بخوبی واضح ہو جاتا ہے-

غزوات سے اسباق:

غزواتِ نبوی (ﷺ)سے رہنما اصول و اسباق کی فہرست طویل ہے جنہیں اپنی روزمرہ کی سماجی زندگی میں اپناتے ہوئے ہم نہ صرف ایک کامیاب انسان کے طور پر زندگی بسر کر سکتے ہیں بلکہ اپنا دفاع بھی مضبوط بنا سکتے ہیں کیونکہ دشمن سے نمٹنے کا بہتر ڈھنگ ہمیں غزوات سے نصیب ہوتا ہے-غزوات میں سب سے اوّلین سبق جذبہ ایمان کا ہے کیونکہ تاریخ اسلام سے یہ ثابت ہے کہ مسلمانوں نے کفار کے مدِ مقابل کثرتِ سامان اور تعداد کی برتری کبھی حاصل نہیں کی بلکہ ہمیشہ اپنے جذبہ ایمان و یقین کی بنا پر ایسے ایسے محیر العقول کارنامے سر انجام دیئے کہ دشمن کی کثیر تعداد اور سامانِ جنگ بےمعنی رہ گیا-مزیدبرآں رضائے الٰہی، محبت ِ مصطفٰے (ﷺ)،ایثار و قربانی کا جذبہ، لیڈر شپ کا کردار، اتحاد، وفاداری اور ہمت،آزمائش میں ثابت قدمی کا مظاہرہ، اخلاص و استقامت، کمانڈر کی فرمانبرداری،نظم وضبط،اسلام میں مشاورت کی اہمیت اور مساوات (Equality) جیسےاسباق ہمیں غزوات سے سیکھنے کو ملتے ہیں-

غزوہ بدر میں سب سے اہم سبق انصار کی مہاجر ین سے یکجہتی اور بھائی چارے کی انمول مثال،مسلمانوں میں اتحاد اور ثابت قدمی کی صورت میں ملتا ہے-اسی طرح غزوہ اُحد میں سپہ سالار کے حکم کی اہمیت و حکمت واضح ہوتی ہے(یعنی جس درے پر صحابہ کرام( ﷢) کو رکنے کا حکم تھا آثارِ فتح دیکھ کر وہاں سے نیچے اتر آنا) تو فتح شکست میں تبدیل ہوتی نظر آئی تو یہ واضح کرتی ہے کہ مسلمانوں کی کامیابی اطاعتِ رسول (ﷺ) پر استقامت سے مشروط ہے- مزید برآں! غزوہ خندق(احزاب) میں حضور نبی اکرم(ﷺ)نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے ساتھ خندق کھودنے میں حصہ لیتے ہوئے مساوات کی جو عملی مثال قائم فرمائی جس سےدنیا ئے انسانیت پر واضح ہوگیا کہ لیڈر شپ کا کردار کیسا ہونا چاہئے-

بطورِ امتِ محمدی (ﷺ)مذکورہ اصولوں پر عمل ہی موجودہ دور میں ہماری بھلائی اور ترقی کی ضمانت ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم مطالعۂ غزوات اپنی زندگی کا عملی حصہ بنائیں گے-

آج ہماری نسلِ نو میں مطالعہ سیرت کا فقدان نظر آتا ہے جو ہماری تنزلی اور پستی میں کسی المناکی سے کم نہیں کیونکہ ایک طرح سے ہم نے اسا س دین کو ترک کر دیا ہے-امتِ محمدی(ﷺ) ہونے کے ناطے سیرت طیبہ کے اہم پہلو (غزواتِ نبوی(ﷺ) سے رہنمائی لیتے ہوئے ہم نہ صرف اپنا دفاع مضبوط بنا سکتے ہیں بلکہ اپنے سماج میں از سرِ نو ایک نئی روح پھونک سکتے ہیں ایسی روح جو جذبہ ایمانی، عشقِ مصطفےٰ (ﷺ)، توکل علی اللہ اور حرمت ِمصطفےٰ(ﷺ) کے تحفط کی خاطر مر مٹنے سے عبارت ہےجس کیلئے لازم ہے کہ مطالعہ غزوات کا شعور عام کیا جائے -گرچہ ہمارے ابتدائی اور ثانوی درجہ تعلیم میں چند ایک غزوات (جیسے بدر، احد، حنین، خندق)  کا مختصر تذکرہ  نصاب میں موجود ہے لیکن سیرتِ طیبہ کا یہ گوشہ با ضابطہ نصاب کا متقاضی ہے جس میں جدید پہلؤوں سے علمی،عملی اور تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کی ضرورت ہے-

چند اہم چیزیں جو مطالعۂ غزوات کے تناطر میں عمیق نظری و دقیق رسی کی طلب گار ہیں کا تذکرہ ذیل میں کیا گیا ہے:

  1. پہلی چیز مطالعہ غزوات کے ذریعےہمیں غزوات کے ظاہری پہلوؤں کے ساتھ ساتھ باطنی پہلؤو ں کا بھی ادراک ہو-مثلاً غزوہ بدرمیں مسلمانوں کا توکل علی اللہ جس کے نتیجے میں ملائکہ کا مدد کیلئے نازل ہونا-اسی طرح رسولِ اکر م(ﷺ) کا یہ فرمان مبارک کہ ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر(جہاد بالنفس) کی طرف لوٹ رہے ہیں-
  2. دوسری چیز اس مادہ پرستانہ دور میں مطالعہ غزوات کے ذریعے نوجوان نسل میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) جیسی شجاعت و بہادری اور حضرت عمرِ فاروق (رضی اللہ عنہ) جیسی غیرتِ مصطفےٰ (ﷺ) دلوں میں بیدار کرنا ہے-
  3. تیسری چیز یہ کہ کیسے مٹھی بھر مسلمانوں نے ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں مدِ مقابل کفار پر غلبہ حاصل کیا؟ یہ در اصل ان میں جذبہ ایمان اور عشقِ مصطفیٰ (ﷺ) کی روحانی طاقت تھی جس نے قلیل کو کثیر پر غلبہ عطا فرمایا-
  4. چو تھی چیز مطالعہ غزوات کے ذریعے نوجوان نسل میں اسلامی افکار اور محبت مصطفےٰ(ﷺ) کو فروغ دینا ہے کیونکہ بقولِ حضرت علامہ اقبال ؒ:

ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست
بحر و بر در گوشۂ دامان اوست[9]

’’جس کے پاس جناب رسول پاک (ﷺ) کی محبت کا سامان ہے، اس کے دامن کے پلو میں بحر و بر بندھے ہوئے ہیں‘‘-

مطالعۂ غزوات اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ ہماری نوجوان نسل یہ آشنائی حاصل کرے کہ کس طرح صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)نے ناموسِ دین کی خاطر قربانیاں دیں اور وہ اپنے ایمان میں کس قدر عالی مرتبت تھے؟ مزید یہ کہ وہ ارواحِ مقدسہ صراطِ مستقیم پرکس قدر استقامت سے کاربند تھیں - کیا وجہ تھی کہ قیصر و کسریٰ کے استبداد و غرور کو مٹی میں ملاتے ہوئے انہیں کوئی خوف و دقت محسوس نہ ہوئی ؟ کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ کی خاطرانہوں نےاپنے ما ل ومتاع اور گھر بار کو خیر باد کَہ دیا ؟ ان کے پیچھے کیا ڈرائیونگ فورس تھی ؟ یہ تمام ایسے سوال ہیں جو مطالعہ ٔغزوات کے تناظر میں اکثرہمارے ذہن میں ابھرتے ہیں لیکن ابھی تک تحقیق طلب ہیں جنہیں جاننے اور ان کی عصری معنویت سمجھنے کیلئے مطالعۂ غزوات لازمی ہے-

٭٭٭


[1](محمد حسین ہیکل،حیاتِ محمدؐ،مترجم محمد وقاص،ص:290،آر –آر پرنٹرز لاہور،ء2011)

[2]( البقرہ : 193)

[3]International Business Research; Vol. 8, No. 11; 2015 ISSN 1913-9004 E-ISSN 1913-9012 Published by Canadian Center of Science and Education

[4]https://www.researchgate.net/publication/283331455_The_Applicability_of_Prophet_Muhammad's_Strategies_in_his_Battles_and_Campaigns_in_Modern_Business

[5](البقرۃ:190)

[6](/غزوات---ڈاکٹر—مقبول—احمد—مکی/lib.bazmeurd.net)

[7](جہانگیر انسائیکلو پیڈیا آف جنرل نالج از زاہد حسین انجم، صفحہ 381)

[8](ماہنامہ قومی ڈائجسٹ لاہور،جولائی 1995ء )

[9](پیام مشرق - لالہ طور)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر