قرآنِ حکیم کا بنیادی عمرانی اصول

قرآنِ حکیم کا بنیادی عمرانی اصول

قرآنِ حکیم کا بنیادی عمرانی اصول

مصنف: ڈاکٹرحافظ فیض رسول مئی 2020

قرآنِ حکیم اختصار اور جامعیت کا خوبصورت امتزاج ہے- یہ بات کو بے وجہ طول دیتاہے نہ بات سے بات نکال کر کسی بات کو بڑھاتا ہے-پورا قرآن ہی دراصل عمرانیات ہی کے کسی نہ کسی پہلو کو واضح کرتا ہے - قرآنِ حکیم کی تمدنی اور اخلاقی تعلیمات میں مساوات ایک نہایت بنیادی و اہم رکن ہے- مساوات کے لفظی معنی اونچ نیچ برابرکرنے کے ہیں؛ اور جب ہم یہ لفظ تمدن یاحقوق ِ انسانی کے اعتبارسے بولتے ہیں تو مراد یہ ہوتی ہے کہ معاشرے میں مادی یا دوسرے غیر فطری، غیر اخلاقی یا غیر انسانی اعتبار سے جو اونچ نیچ پیدا ہوگئی ہے اس کو دور کر کے ایسی ہمواری پیدا کی جائے جس سے ایک طرف انسانیت کا وقار باقی رہے اور دوسری طرف لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں ، نہ کوئی کسی کو اذیت پہنچا سکے اور نہ کسی سے ناجائز فائدہ اٹھاسکے، یہ دنیا کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ جہاں ناہمواری ناگزیر نظر آتی ہے، کیونکہ انسانوں کی صلاحیتیں مختلف ہیں-بعض لوگ بہت ذہین، تیز اور چالاک واقع ہوتے ہیں کہ اپنی ان خوبیوں کی بدولت معاشرے پر چھا جاتے ہیں اور دوسروں کے حقوق سلب کر کے اپنے لئے اونچا مقام پیدا کر لیتے ہیں؛ اور پھر باقی انسانیت پرظلم کرتے رہتے ہیں، ان میں ہرطبقے سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں جو دوسرے انسانوں پر خود کو افضل جانتے ہیں-

رسول کریم (ﷺ) پر، ابتدائے عہد میں، اسلام لانے والوں میں جہاں ایک طرف قریش کے بڑے بڑے زعماء اور نامی گرامی سردار تھے وہیں دوسری طرف غریب و نادار اور بے بس و لاچار لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے ہیں- صرف یہی نہیں غلام اور باندیاں بھی حلقہ بگوشِ اسلام ہو کر اسلام کے دامانِ رحمت سے وابستہ ہونے والوں میں شامل تھیں-ذات پات کی اونچ نیچ پر مبنی نظام میں نقصان ہمیشہ انسانیت کا ہوتا ہے- ایسے ماحول میں انسانوں میں سے انسانیت رخصت ہو جاتی ہے؛اس کی جگہ درندگی اورسفاکی دُرآتی ہے- یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کاقانون راج کرتا ہے- اس طرح طاقتور کی طاقت میں روز بروز اضافہ ہوتا ہے اور کمزور و لاچاروں کے ضعف میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے- کسی کمزورکو کنارِ عافیت تک نظر نہیں آتا ہے- سادہ اور مختصر الفاظ میں اسے ہم جنگل کے قانون کے راج سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں- دوسرے ہاتھ پر قرآنِ حکیم ابدی حقیقتوں کا آئینہ دار اور دائمی ہدایت کا علمبردار ہے- ڈاکٹر ضمیر اختر لکھتے ہیں:

’’قرآنی عمرانیات کے اصول دائمی ہیں تو اس کی جہت عالمگیرہے- اس لئے قرآنی عمرانیات ہر دورمیں انسان کی رہبری کرتی رہے گی- قرآن سے اخذکردہ قرآنی عمرانیات کے اصول، ہمیشہ معاشرے، ثقافت اور شخصیات کو بناتے ہیں- تمام اصولوں کے مقابلے میں زیدہ محکم، پُرصواب، پُرمعنی اورحق نما ہیں- قرآنی عمرانیات دوامِ اثبات کے اصول پر مبنی ہے- اس کے ذریعے دین اور دنیا کی معنوی اور بامقصد تکمیل اور تعمیر ہو سکتی ہے‘‘-[1]

اسلام مساواتِ انسانی کا پیغام لے کر آیا تو مرجھائے ہوئے چہرے کِھل اٹھے- پژمردہ آنکھوں میں بہار اُتر آئی تھی- لوگ جوق در جوق اسلام کے دامانِ رحمت میں پناہ لینے لگے-یہ صورتحال قریشِ مکہ کوکسی طرح گورا یاقابل ِ قبول نہ تھی- انہوں نے کیا یہ کہ اِن کمزور اور بے سہارا افراد پر اپنا زورِ بازو آزمانے کی مشق شروع کر دی- اولین ایمان لانے والوں میں زعمائے قریش میں سے بھی لوگ شامل تھے، اِس طرف چونکہ قریش کا کوئی زور نہیں چلتا تھا، لہذا اِس طرف کا غصہ بھی کمزوروں کے حصے میں آیا-

قرآن ِ حکیم انسان کو انسان سمجھ کر اس کا احترام سکھاتا ہے، چاہے وہ ذہین ہو یا کند ذہن، امیر ہو یا غریب، اس کی نظر میں انسانیت ان قوتوں اور صلاحیتوں کے اعتبار سے جن کواللہ تعالیٰ نے ہر بشر میں کسی نہ کسی حد تک رکھا ہے تمام انسان برابر ہیں- تمام انسان خدا کی مخلوق ہیں اور نسل آدم کاآغاز بھی ایک ہی جگہ سے ہوا ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَ جَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْا‘‘ [2]

’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو‘‘-

لیکن ان ظاہری خصوصیات کی وجہ سے انسان کوحقیقی فضیلت نہیں مل سکتی، حقیقی فضیلت کا معیار قرآنِ حکیم نے صرف’’تقویٰ‘‘بتایا ہے-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰـکُمْ ط اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘[3]

’’بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگارہے- بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا، سب سے خبردارہے‘‘-

اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے وہ ہیں جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں-چنانچہ قرآن ِ حکیم کی ابتدا ہی میں فرما دیا گیاہے کہ یہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں ہے، ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جومتقی ہیں، یعنی جو لوگ اللہ کی ہدایت کے طالب اور اس کی ناراضی سے ڈرتے ہیں، حقیقی فلاح بھی انہی کا مقدر ہے-

اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسان کا شرف نہ تو اس کے علم سے ہے، نہ اس کے مال و دولت سے ہے اور نہ جاہ و منصب سے، بلکہ صرف اس بات سے ہے کہ خدا سے اس کا کیا رشتہ ہے؟ اور یہ ایسا رشتہ ہے جسے ہرانسان قائم کرسکتاہے- لہذا مساوات کے باب میں قرآنِ حکیم کی پہلی تعلیم یہ ہے کہ خدا کی مخلوق اور انسان ہونے کے اعتبار سے تمام ظاہری فرق کے باوجود سب انسان برابر ہیں اور یکساں عزت و احترام کے مستحق ہیں-

مساوات کا دوسرا سبق عبادت کے باب میں ملتاہے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ‘‘[4]

’’اور میں نے جنوں اورانسانوں کو اسی لئے پیداکیاہے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘-

یہ خطاب کسی خاص گروہ یا جماعت سے نہیں، بلکہ تمام انسانوں سے کیا گیا ہے- لہٰذا بندگی اور اطاعت کے اعتبار سے تمام انسان برابر ہیں، بندگی کے معنی ہیں خدا کے حضور میں انتہائی عاجزی اختیار کرنا اور دل سے اس بات کا اعتراف کرنا کہ خدا ہی ہمارا حاکم اور فرماں روا ہے- صرف اس سے ہی ہمیں ہدایت اور مدد مل سکتی ہے- جب سب انسانوں کے اندر بندگی کا یہی احساس پیدا ہو تو ان میں ظاہری مساوات کا پیدا ہونا بھی کچھ مشکل نہیں ہے- یہی احساس پیدا کرنے کے لئے عبادات کے باب میں اکثر یہ تنبیہ آتی ہے کہ خدا کے سامنے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ حاضر ہونا چاہیے اور اگر یہ صفات کسی معمولی حد تک بھی انسانوں میں پیدا ہوجائیں تو اس کے اندر سے غرور و تکبر اور خود فریبی و خود غرضی جیسی بری خصلتیں زائل ہو سکتی ہیں-

در اصل عبادات کا ایک بڑا مقصد بھی یہی ہے کہ ہر انسان یہ سمجھے کہ تمام دوسرے انسانوں کی طرح خدا کی بندگی میں وہ بالکل برابر ہے، یعنی محض بندگی کے اعتبار سے سب انسان یکساں ہیں، البتہ احساسِ بندگی کے اعتبار سے ان میں فرق ضرور ہوگا اور جس میں یہ احساس زیادہ ہوگا اسی میں اس قدر خاکساری و عاجزی کا جذبہ موجود ہوگا-اس لئے بندگی کایہ فرق اخلاقِ انسانی اور معاشرے کے لئے ہمیشہ برکت کاسبب بن سکتا ہے اور جس معاشرے میں ایسے بندگانِ خدا کی کثرت ہو وہ معاشرہ یقیناً اچھا ہوگا-

مساوات کے سلسلے میں سب سے اہم مسئلہ حقوق کا ہے اور یہ حقوق دو قسم کے ہیں ، سیاسی اور معاشی- سیاسی حقوق وہ ہیں جن کو ہم آج کی اصطلاح میں شہری حقوق یا کبھی بنیادی انسانی حقوق بھی کہتے ہیں- جس کا خلاصہ یہ ہے کہ معاشرے میں ہر شخص کو اپنا مذہب اختیار کرنے، تحریر و تقریر کرنے، چلنے پھرنے، رہائش اختیار کرنے اور اپنی معاش کے لئے کوئی سا بھی پیشہ اختیار کرنے کی آزادی ہونی چاہیے؛ اور یہ بھی ہے کہ ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہےاور آزاد ہی رہے گا، جب تک وہ قانونی طور پر کوئی ایسا غلط کام نہیں کرتا کہ جس کے باعث اس پر کوئی پابندی عائد ہو جائے- اِنہی حقوق میں یہ بھی ہے کہ ہر انسان کو حکومت کے کاروبار میں شریک ہونےمیں برابر کا حق ہے اور یہ حق بھی ہے کہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہوگا اور ہر شخص پر قانون کا اطلاق ایک ہی طرح کا ہوگا- قرآن حکیم نے ان تمام حقوق کا بیان اس طرح تو نہیں کیا جیسا کہ آج ہم سیاسیات کی کتابوں میں پاتے ہیں، لیکن یہ تمام مفاہیم اس کے اندر بڑی آسانی سے متعین کئے جاسکتے ہیں اور بہت جگہ ان کی وضاحت بھی کی گئی ہے، اگرچہ وہ وضاحت زیادہ تر اخلاق اور ہدایت کی زبان میں کی گئی ہے، سیاست کے محاورے میں نہیں اور جن چیزوں کا قرآنِ حکیم میں ذکر ہے تو ان کے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے- کیونکہ بہت سی ایسی باتیں ہیں جو انسانی معاشرے کے معروف میں داخل ہو چکی ہیں، ان کے تذکرے کی ضرورت نہیں تھی- تاہم قرآنِ حکیم کی تعلیمات کا لُبِ لُباب یہ ہے کہ وہ (United Nation)انسانوں کو تمام شہری آزادیاں اور انسانی حقوق عطا کرتا ہے جن کا اقوام متحدہ نے ایک طویل فہرست میں تذکرہ کیا ہے - اصل بات یہ ہے کہ سیاسی اور شہری حقوق کا عطا کرنا یا مل جانا فی نفسہٖ کوئی بڑی نعمت نہیں ہے، اصل نعمت یہ ہے کہ ان حقوق سے فائدہ کس طرح اٹھایا جائے، یہ فائدہ اس وقت اٹھایا جاسکتا ہے جب معاشرے میں معاشی جمہوریت کی کوئی قابل احترام شکل پیدا کی جائے، ورنہ محض سیاسی مساوات ایک مہمل سی چیز بن کر رہ جائیگی -

لیکن ان تمام تعلیمات کے باوجود قرآن حکیم نے کوئی مستقل اقتصادی نظام نہیں دیا، کیونکہ معاشرے میں ہروقت تغیرات ہوتے رہتے ہیں، اس کے حالات و کوائف بدلتے رہتے ہیں، اس کے ادارے بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں- اس لئے اس کیلئےکوئی مستقل سیاسی یا معاشی نظام نہیں بن سکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی حکم ہوگا وہ دائمی ہوگا اور اگر حالات کے بدلنے سے اس پر عمل نہ ہو سکا تو پورے دین کی عمارت گر جائے گی-اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں معاشی مساوات کے اصول ِ عامہ اور اس کی ترغیب وتلقین تو انسانوں پر واضح کی لیکن ان کو کسی خاص نظام پر چلنے کے لئے مجبور نہیں کیا، بلکہ آزاد چھوڑ دیا تاکہ وہ خود اپنی عقل و فطری بصیرت سے کام لے کر معاشرے میں معاشی مساوات پیدا کریں جو اللہ تعالیٰ ان سے چاہتا ہے-اس لئے جب انسان کا پیٹ خالی ہو یا وہ معاشی طور پر مجبور ہو، نہ وہ اپنی کوئی مدد کر سکتا ہے اور نہ معاشرے کی؛اور جب ایسے لوگوں کی کثرت ہو تو معاشرہ یقیناً تباہی کی طرف گامزن ہو گا-جب معاشرہ تباہ ہوگا تو نہ دین باقی رہے گا اور نہ دنیا، یقیناً اسلام اس صورتحال کی سختی سے نفی کرتا ہے- اس لئے وہ چاہتاہے کہ ایسا معاشرہ قائم ہوجس میں انسان کی جان و مال، عزت و نسل اور اس کے دین کی حفاظت ہو، یہ تمام چیزیں اسی وقت ممکن ہیں جب معاشرے میں معاشی مساوات اور معاشی جمہوریت قائم ہو-

کسی معاشرے میں حقیقی مساوات اسی وقت قائم ہوتی ہے جب وہ اس کے تمام طبقات پر مشتمل ہو اور اس حق سے کوئی جماعت یا گروہ یا دینی یا تہذیبی اقلیت محروم نہ ہو- یہاں سب سے زیادہ اہم مسئلہ اسلامی معاشرے میں غیرمسلموں کا ہے، عام خیال یہی ہے کہ ان کو وہ حقوق نہیں مل سکتے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں، کیونکہ وہ اسلامی معاشرے کی بنیاد اور اس کے اصول کے قائل نہیں ہیں، لیکن خود قرآن حکیم نے ایسے لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم نہیں کیا ہے- جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّایَعْلَمُوْنَo‘‘[5]

’’اور اگر مشرکوں میں سے کوئی بھی آپ سے پناہ کا خواستگار ہو تو اسے پناہ دے دیں تاآنکہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر آپ اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دیں، یہ اس لیے کہ وہ لوگ (حق کا) علم نہیں رکھتے‘‘-

اسلامی معاشرے میں غیر مسلم اقلیتوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو میسر ہیں، پابندی صرف ان باتوں کی ہوگی جن کی پابندی خود مسلمانوں پر بھی لازم ہے، مثلاً حرام اشیاء کا استعمال یا ان کی تجارت، یا ناجائز افعال اور سرگرمیاں جیسے جوا اور فحش کاری وغیرہ، تو اسلامی معاشرے میں کسی غیر مسلم کوبھی ان باتوں کی اجازت نہیں مل سکتی اور ان پر یہ کوئی ظلم نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کو بھی ان باتوں کی اجازت نہیں مل سکتی؛ اور رہے سیاسی حقوق تو ان میں بھی کسی پابندی کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں دیا- پچھلے 1400برس میں اسلامی معاشرے میں غیرمسلموں کو ہمیشہ وہی حقوق حاصل رہے جو مسلمانوں کو تھے، بلکہ اکثر اوقات ان سے بھی بہتر، مثلاً جب مسلمانوں کے مختلف فرقوں یا سلطنت کے مختلف دعوے داروں میں جھگڑے ہوتے تھے اور قتال و خونریزی کی نوبت پہنچتی تھی تو اکثر مسلمان ہی مارے جاتے تھے، ان کے گھر اور جائیدادیں لوٹی جاتی تھیں، لیکن غیرمسلم محفوظ رہتے تھے اور ایسا شاید ہی کوئی واقعہ پیش کیا جاسکے جب مسلمانوں نے اپنے ہی ملک میں کسی غیرمسلم اقلیت پر حملہ کیا ہو، جیسا کہ ہندوستان میں ہندو دن رات مسلمانوں پر کرتے رہتے ہیں، البتہ پچھلی صدی میں مشرقِ اوسط کے بعض علاقوں اور عثمانی سلطنت کی بعض ولایتوں میں مغرب کی استعماری اور عیسائی طاقتیں مقامی عیسائی آبادیوں کو وقتاً فوقتاً بھڑکاتی رہتی تھیں، جس کے سبب وہ مسلمانوں پر حملے کرتی تھیں تاکہ مسلمان غیض و غضب میں آکر ان پر بہت زیادہ تشدد سے کام لیں اور ان طاقتوں کو ان مسلم ممالک پر حملے کرنے کا موقع فراہم ہو- ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی دنیائے اسلام میں غیرمسلم اقلیتوں کو مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ آزادی اور بہتر حقوق حاصل ہیں- بقول علامہ اقبالؒ:

جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں، مٹ جائے گا
 ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر[6]

٭٭٭


[1](ضمیرعلی اختر، ڈاکٹر، قرآنی عمرانیات، کراچی، اخوان پبلشرز، 1982ء، ص:33)

[2](الحجرات:13)

[3](ایضاً)

[4](الذاریات:56)

[5](التوبۃ:6)

[6](بانگِ درا)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر