قرآن مجید میں علم البیان اور علم البدیع کا اجمالی جائزہ

قرآن مجید میں علم البیان اور علم البدیع کا اجمالی جائزہ

قرآن مجید میں علم البیان اور علم البدیع کا اجمالی جائزہ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری اپریل 2022

اللہ رب العزت کا ازل سےیہ طریقہ کار رہا ہے کہ جس دور میں جس چیز کا زور ہوتا ہے اسی کے مطابق اپنے انبیاء کرامؓ کو معجزات عطا فرمائے - مثلاًحضرت موسیٰؑ  کے زمانے میں جادوگری کا بڑا زور اور چرچا تھا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰیؑ کو ید بیضااور عصا  والا معجز ہ عطا کر کےجادوگروں کے فخر اور غرور کو توڑا- حضرت عیسٰیؑ کے زمانہ میں علمِ حکمت کا بڑا عروج تھا اُس وقت بڑے بڑے حکماءموجود تھے جنہیں اپنی حکمت پر ناز بھی تھا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کا ناز توڑنے کیلئے اپنے رسول حضرت عیسیؑ کو یہ معجزہ عطا فرمایا کہ آپ مادر زاد اندھوں کو بینائی، برص کے مریضوں کو شفاء اور مردوں کو زندہ فرما دیتے تھے- اسی طرح جب آقا کریم (ﷺ) نےاعلان نبوت کیا تو اُس وقت عربوں کی فصاحت و بلاغت کا طوطی بولتاتھا - بڑے بڑے نامور اور فصیح و بلیغ شعراء موجود تھے کہ جن کی شاعری اور قصیدے بطور چیلنج کعبے کی دیواروں کے ساتھ لٹکائے جاتے تھےتو اللہ تعالیٰ نے عربوں کا غرور خاک میں ملانے کیلئے اپنے محبوب کریم (ﷺ)کو دیگر معجزات کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کا عظیم معجزہ عطافرمایا-

قرآن مجید ایسی فصیح و بلیغ کلام پر مشتمل ہے کہ جس کی فصاحت و بلاغت کے سامنے عرب فصحاء و بلغاء کی فصاحت و بلاغت نہ صرف ماند پڑگئی بلکہ بار بار چیلنج کرنے کے باوجود قرآن مجید کی سب سےچھوٹی سورت کی مثل بھی لانے سے عاجز آگئے-اگر ہم شعراء و فصحاءِ عرب کہ جن کی فصاحت و بلاغت کی مثالیں دی جاتی ہیں اُن کی فصیح و بلیغ کلام کا مطالعہ کریں تو اختلافِ مضامین،اختلافِ احوال اور اختلافِ اغراض سے اُن کی فصاحت و بلاغت میں فرق ضرور نظر آتا ہے- کوئی تعریف و مدح میں بڑھ چڑھ کہ ہے تو کوئی ہجومیں معمول سے زیادہ گراہوا-کوئی اس کے برعکس ہے تو کوئی مرثیہ گوئی میں فوقیت رکھتا ہے-کوئی عشقیہ میں بھداہے تو کوئی رجزمیں اچھا–

مگران تمام کے برعکس اگرہم قرآن مجید میں غور کریں تو اس میں وجوہ خطاب بھی مختلف ہیں اور ان وجوہ میں اعتدال اور توازن بھی پایاجاتا ہے- کہیں قصص و مواعظ ہیں، کہیں حلال و حرام کا ذکر، کہیں وعدہ و وعید ہے تو کہیں تخویف و تبشیر، کہیں اخلاق حسنہ اور کہیں حقائق کائنات اور اُس کے اسرار و رموز کا بیان ہے- لیکن یہ کتاب ہرفن میں فصاحت وبلاغت کے اس اعلیٰ درجے پر فائز ہے جو بشری طاقت سے باہر ہے-

قرآن مجید کے مضامین، جس نظم اور عبارت میں بیان کئے گئے ہیں ان کے معجز اور انسانی قدرت سے باہر ہونے کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتاہے کہ ایک فصیح وبلیغ انسان جب ایک خطبہ یا قصیدہ لکھتا ہے تو وہ اس میں اپنی تمام صلاحیت بروئے کارلاتا ہے- پھر اس میں مسلسل غور و فکر کرتا رہتا ہے، کئی لفظ حذف کرتا ہے، کئی جملے تبدیل کرتاہے، لکھتا اور مٹاتا ہے، تصحیح در تصحیح کرتاہے، پھر کسی اور شخص کو دکھاتاہے اور وہ اُس میں مشورہ دہی اور اُس کی تنقیح کرتا ہے-اسی طرح  اس میں غور وفکر کا عمل مسلسل جاری رہتاہے پھر بھی حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں اب کوئی لفظ تبدیل نہیں یا کوئی جملہ حذف نہیں ہوگا-

لیکن! اگر قرآن مجید میں کسی ایک لفظ کو اُس کی جگہ سے ہٹا کر اُس کی جگہ دوسرا لفظ رکھنا چاہیں تو تمام لغت عرب کو چھاٹنے کے بعد بھی اس کا متبادل نہیں مل سکتا- پس معلوم ہُوا کہ یہ کلام معجزہے اور انسان کی قدرت سے باہر ہے- یہی وجہ ہے کہ فصحاءِ عرب نے جب قرآن مجید کی فصیح و بلیغ عبارات کو سنا تو وہ حیران رہ گئے اور اُن کے پاس قرآنی آیات کو من و عن قبول کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا-کیونکہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ اللہ وحدہ لاشریک کا کلام ہے-

اس مضمون میں علوم بلاغت میں سے علم البیان اور علم البدیع کاقرآن مجید میں ہونے کا اجمالی جائزہ پیش کیا جائے گا- اولاً علم البیان کا تعارف اور اُس کے تحت آنے والی اشیاء کا تعارف اور اُن کی قرآن مجید سے مثالیں پیش کی جائیں گی اور پھر اسی طرز پرعلم البدیع کا بیان ہوگا -

علم البیان کا تعارف:

امام سعد الدین تفتازانی علم البیان کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’ھوعلم یعرف بہ ایراد المعنی الواحد بطریق مختلفۃ فی وضوح الدلاۃ علیہ ‘‘[1]

’’علم بیان وہ علم ہے جس سے ایک معنی کا ایسے مختلف طریقوں سے بیان کرنا آجائے جن میں سے کوئی طریقہ اس معنی پر زیادہ وضاحت سے دلالت کرتا ہو اور دوسرا کم وضاحت سے دلالت کرتاہو‘‘-

مزید آسان لفظوں میں اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ علم البیان وہ علم ہے کہ اس کے ذریعے ایک معنی کو مختلف انداز میں بیا ن کرنے کا ڈھنگ آجاتا ہے - اب اس کے تحت آنے والی اشیاء کا ذکرکیاجاتاہے:

التشبیہ :

’’التشبیہ الحاق امر بامر فی وصف‘‘[2]

تشبیہ سے مراد ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ کسی صفت میں شریک کرنا-جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:

’’وَ جَعَلْنَا الَّیْل لِبَاسًا‘‘[3]           ’’ ہم نے رات کو لباس بنایا‘‘-

یہاں رات کو لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے مطلب یہ ہے کہ ہم نے رات کو ستر اور پردے میں لباس کی طرح بنایا ہے کہ جس طرح لباس بندے کو ڈھانپ لیتا ہے اسی طرح رات بھی ڈھانپ لیتی ہے-

ایک اور مقام پر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

’’وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ  سکتہ صلے  لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا سکتہ  وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا سکتہ وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ‘‘[4]

’’اور بے شک ہم نے جہنم کیلئے پیدا کیے بہت جن اور آدمی وہ دل رکھتے ہیں جن میں سمجھ نہیں اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتےنہیں وہ چوپائیوں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بڑھ کر گمراہ وہی غفلت میں پڑے ہیں‘‘-

اس آیت مبارکہ میں ایسے لوگ جو دل،آنکھ اور کان رکھنے کے باوجود اُن سے فائدہ حاصل نہیں کرتے اُن کو جانوروں کے ساتھ  تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح جانور کماحقہ سمجھ نہیں رکھتے اسی طرح یہ لوگ بھی سمجھ نہیں رکھتے-

مجاز:

’’ھو اللفظ المستعمل فی غیر ماوضع لہ لعلاقۃ مع قرینۃ مانعۃ من ارادۃ المعنی السابق‘‘[5]

’’مجاز وہ لفظ ہے جس کو کسی تعلق کی وجہ سے اس کےحقیقی معنی کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں استعمال کیا جائے- اس میں ایسا قرینہ ہوتا ہے جو اس کے حقیقی معنی مراد لینے سےمانع ہوتاہے‘‘-

ارشادِ خداوندی ہے:

’’ یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَہُمْ فِیْٓ  اٰذَانِہِمْ‘‘[6]

’’وہ اپنی انگلیو ں کے پوروں کو اپنے کا نوں میں بناتے ہیں‘‘-

اس آیت مبارکہ میں لفظ ’’اصابع‘‘ اپنے حقیقی معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ مجازی معنی یعنی پَورُوں میں استعمال ہوا ہے کیو نکہ اصابع کا لفظ انگلیوں کیلئے بنایاگیا ہے پَورُوں کیلئے نہیں-لیکن چونکہ پَورے انگلیو ں کی جز ہیں تو اس علاقہ کی وجہ سے پَورے مراد لیے اور حقیقی معنی انگلیاں مراد لینے میں رکاوٹ پر قرینہ بھی ہے کہ پُوری انگلی کو کان میں ڈالناممکن نہیں لہٰذاکل بول کر جز مرادلیا-

استعارہ :

’’الاستعارۃ ھی مجازعلاقتہ المشابھۃ‘‘[7]

’’استعارہ یہ مجازہی ہوتا ہے اگر حقیقی اور مجازی معنی کے درمیان علاقہ تشبیہ کا ہو تو اُسے استعارہ کہتے ہیں‘‘-

جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

’’کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ  اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ‘‘[8]

’’یہ کتاب جسے آپ کی طرف اتارا تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں‘‘-

اس آیت کریمہ میں لفظ ظلمات اور نور ان معنوں میں استعمال نہیں ہُوئے جن کیلئے ان کو بنایا گیا ہے یعنی حقیقی معنی میں استعمال نہیں ہوئے ظلمات گمراہی کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں-اندھیرےاور گمراہی کے درمیان تشبیہ کا علاقہ ہے اور اس طرح نوراور ہدایت کے درمیان بھی تشبیہ کا علاقہ ہے اور اس میں قرینہ اس کا ماقبل یعنی ’’ کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ  اِلَیْکَ ‘‘ ہے کیونکہ کتاب کے اتارنے کا مقصد گمراہی سے ہدایت کی طرف لےجاناہے- لہٰذا ظلمات گمراہی کا اور نور ہدایت کا استعارہ ہے-

کنایہ:

’’ھی لفظ ارید بہ لازم معناہ مع جواز ارادۃ ذالک المعنی‘‘[9]

’’کنایہ وہ لفظ ہے جس سے اس کے معنی کے لازم کو مراد لیا جائے اور اصل معنی کو مراد لینا بھی جائز ہو ‘‘ -

ارشادِ ربانی ہے:

’’وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ‘‘[10]

’’اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبالے گا ‘‘-

اس آیت کریمہ میں ’’ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ‘‘یعنی ظالم کا ہاتھ چبانا، یہ شرمندگی،حسرت اور غصے سے کنایہ ہے کیونکہ بندے کو جب کوئی شرمندگی ، حسرت اور غصہ ہو تو وہ ہاتھ چباتا ہے تو گو یاکہ ہاتھ چبانے کو شرمندگی،حسرت اور غصہ لازم ہے تو یہ کنایہ ہوا تو اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ قیامت کے دن ظالم شرمندگی اور حسرت کا اظہار کرے گا – علاوہ ازیں اس آیت کایہاں اصل معنی ’’ہاتھ چبانا‘‘مراد لینا بالکل جائزہے-

علم البدیع کاتعارف:

علامہ عبدالرحمن قزوینی علم البدیع کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’ھو علم یعرف بہ وجوہ تحسین الکلام بعد رعایۃ المطابقۃ لمقتضی الحال‘‘[11]

’’علم البدیع وہ علم ہے جس کے ذریعے فصیح و بلیغ کلام کو حسین کرنے کے طریقے معلوم ہو جائیں‘‘-

اس علم کے تحت آنے والی اشیا ء بہت ساری ہیں، بعض کا تعلق الفاظ کے ساتھ ہے جنہیں محسنات لفظیہ کہا جاتاہے اور بعض کا تعلق معنی کے ساتھ ہے جنہیں محسنات معنویہ کہا جاتا ہے-چونکہ اس مختصر مضمون میں اُن تمام کا ذکر کرنا ناممکن ہے لہٰذا اجمالی طور پر چند چیزوں کا ذکر کیا جاتاہے-

توریہ:

’’التوریۃ ان یذکر لفظ لہ معنیان قریب یتبادر فھمہ من الکلام بعید ھو المراد بالافادۃ لقر ینۃ خفیۃ‘‘[12]

’’توریہ سے مراد ایک ایسا لفظ جس کا ذکر کیا جائے اس کے دو معنی ہوں- ایک قریبی جو کلام سے جلد سمجھ آجائے اور دوسرا بعیدی جو کسی مخفی قر ینے کی وجہ سے فائدہ دینے کیلئے مراد لیا گیا ہو‘‘-

جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

’’وَ ہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰىکُمْ بِالَّیْلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ‘‘[13]

’’اور وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور جو کچھ تم دن کو کرتے ہو اس کو جانتاہے‘‘-

اس آیت کریمہ میں لفظ ’’مَا جَرَحْتُمْ‘‘کے دو معنی ہیں-پہلا معنی تو یہ ہے کہ جو تم نے زخم کیے یہ اس کا قریبی معنی ہے اور اس معنی کی طرف ذہن جلد جاتا ہے اور دوسرا معنی ہے کہ جو تم نے گناہ کیے یہ اس کا بعیدی معنی ہے اور ذہن اس کی طرف جلدی نہیں جاتا -اس مقام پر اگر دوسرا معنی مرادلیا ہے تو پھر مطلب یہ ہوگا کہ جو تم دن کو گناہوں کا ارتکاب کرتے ہو اللہ تعالیٰ اُس کو جانتا ہے-

الطباق:

’’ھو الجمع بین معنین متقابلین ‘‘[14]

’’طباق یہ ہے کہ کلام میں دو باہم متقابل معنوں کو اکٹھا کر دیا جائے چاہے وہ دونوں اسم ہو یا فعل‘‘-

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَ تَحْسَبُہُمْ اَیْقَاظًا وَّ ہُمْ رُقُوْدٌ‘‘[15]

’’اور تم انہیں جاگتا سمجھو اور وہ سوتے ہیں‘‘-

 اس آیت کریمہ میں ’’ اَیْقَاظ‘‘ اور’’رُقُود‘‘ یہ اسم ہیں جن کو ایک ساتھ جمع کر دیا گیا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے متقابل ہیں کیو نکہ ’’ اَیْقَاظ‘‘کا معنی جاگنا اور’’رُقُود‘‘  کا معنی سونا ہے-

فعل کی مثال فرمان باری تعالیٰ ہے:

’’وَ لٰکِنَّ  اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ؁یَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ  الدُّنْیَا ‘‘[16]

’’اور لیکن بہت لوگ نہیں جانتے اور جانتے ہیں جانتے ہیں آنکھوں کے سامنے کی دنیوی زندگی ‘‘-

دیکھئے! یہاں دو فعل ’’لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘ اور ’’یَعْلَمُوْنَ‘‘باہم متقابل ہیں اور انہیں ایک جگہ اکٹھا کر دیا گیا ہے-

المقابلہ:

’’ھوان یوتی بمعنیین او اکثر ثم یوتی بما یقابل ذالک علی الترتیب‘‘[17]

’’یہ طباق کی ایک قسم ہے اور مقابلہ یہ ہے اولاً دو یا زیادہ معنوں کو ذکر کیا جائے پھر اُن کے مقابل کو بھی بالترتیب لایا جائے‘‘-

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّلْیَبْکُوْا کَثِیْرًا‘‘[18]

’’سو  انہیں چاہئے کہ تھوڑا ہنسیں اور بہت روئیں‘‘-

اس آیت مبارکہ میں اولاً ’ضحک‘ اور ’قلت‘ کو لایا گیا پھر دونوں کے مقابل ’بکاء‘ اور ’کثرت‘ کو علی الترتیب لایا گیا ہے-

الا ستخدام:

’’ھو ذکر اللفظ بمعنی واعادۃ ضمیر علیہ بمعنی آخر‘‘[19]

’’استخدام کہتے ہیں کہ دو معنی والے کسی لفظ کو ذکر کیا جائے اور اس سے کوئی ایک معنی مرادلیا جائے پھر اُس لفظ کی طرف ایک ضمیر لوٹا ئی جائے اور اُس ضمیر سے اُس لفظ کا دوسرا معنی مراد لیا جائے‘‘-

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ‘‘[20]

’’تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے‘‘-

اس آیت مبارکہ میں لفظ ’’الشَّہر‘‘ استعمال ہُواہے جو دو معنوں والاہے -ایک معنی ہلال رمضان ہے اور دوسرا معنی شہر رمضان ہے- لفظ ’’الشَّہر‘‘سے پہلا یعنی ہلال رمضان مرادلیا گیا ہے اور پھر’’فَلْیَصُمْہُ‘‘ کی ضمیر منصوب متصل جب لفظ’’الشَّہر‘‘کی طرف لوٹائی تو اُس وقت اُس کا دوسرا معنی شہر رمضان مراد لیا گیا - اس لیے معنی ہوا کہ جوتم میں سے رمضان کےچاند کو دیکھے تو اُسے چاہیے کہ وہ ماہ رمضان کے روزے رکھے-

الطی والنشر:

’’ھو ذکر متعدد علی التفصیل اوالاجمال ثم یذکر مالکل واحد من المتعدد من غیر تعیین اعتماداعلی فھم السامع‘‘[21]

طی ونشر یہ ہے کہ کئی ایک اشیاء کو اولااجمالا یاتفصیلا ذکر کیا جائے پھر ان میں سے ہر ایک کیلئے بغیر تعین کے ایک ایک حکم بھی ذکر کردیا جائے فہم سامع پر اعتماد کرتے ہوئے‘‘-

جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَ النَّہَارَ  لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ‘‘[22]

’’اس (اللہ تعالیٰ) نےتمہارے لئے رات اور دن بنائے کہ رات میں آرام کرو اور دن میں اس کا فضل ڈھونڈو‘‘-

اب اس آیت کریمہ میں دو چیزیں لیل اور نہار علیٰحدہ علیحدہ طور پر ذکر ہوئی ہیں اور ان کیلئے دو حکم بھی بغیر تعین کے مذکور ہُوئے- مگر اس عدم تعیین سے فہم مراد میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ہر شخص جانتا ہےکہ اکثربیشترآرام رات کو ہوتا ہے اور کسب معاش دن کو ہوتا ہے- لہٰذا معلوم ہوا ’’لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ‘‘ کاربط ’’اَلَّیْلَ‘‘ یعنی رات کے ساتھ ہے اور ’’لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ ‘‘کا تعلق ’’النَّہَارَ‘‘ یعنی دن کے ساتھ ہے-

تشابہ الاطراف:

’’ھو جعل آخر جملۃ صدر تالیتھااو آخربیت صد رمایلیہ ‘‘[23]

’’تشابہ الاطراف یہ ہے کہ نثر یاشعر میں کسی جملے کے آخری حصے کو اس کے بعدوالے جملے کے شروع میں لایاجائے‘‘-

جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

’’مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌط اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ ط اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ‘‘[24]

’’اللہ تعالیٰ کے نور کی مثال اس طاق کی طرح ہے کہ جس میں ایک چراغ ہو اور وہ چراغ رکھا ہُوا ہو ایک شیشے میں وہ شیشہ ایسا ہو جیسا کہ ایک چمکتاہُوا موتی‘‘-

 اس آیت مبارکہ میں پہلے جملے کے آخری لفظ ’مِصْبَاحٌ‘ کو دوسرے جملے کے آغاز میں’اَلْمِصْبَاحُ‘ کی صورت میں لایاگیا ہے اور دوسرے جملے کے آخری لفظ ’زُجَاجَۃٍ‘ کو اس کے بعد والے جملے کے شروع میں ’اَلزُّجَاجَۃُ‘کی شکل میں اعادہ کرکے اس کلام کو زینت بخشی گئی ہے-

تصدیر:

’’ھوفی النثر ان یجعل احد اللفظین المکررین او المتجانسین اوالملحقین بھما بان جمعھما اشتقاق او شیھہ فی اول الفقرۃ والثانی فی آخرھا‘‘[25]

’’تصدیر یہ ہے کہ نژ میں ایسے دو لفظ جو مکر رہوں یا ایک جنں کے ہو ں یاان دونوں کے ساتھ اس طرح ملحق ہوں کہ ان دو لفظوں کا ماخذ اشتقاق ایک ہو بایعینہ ایک تو ہو البتہ ایک جیسا ہو ان میں سے کوئی ایک لفظ کسی فقرے کی ابتداء میں ہو اور دوسرا دوسرے فقرے کے اخیر میں استعمال کیا جائے‘‘-

جیسا کہ فر ما ن باری تعالیٰ ہے:

’’وَ تَخْشَی النَّاسَ ج وَ اللہُ  اَحَقُّ اَنْ  تَخْشٰہُ ‘‘[26]

’’ آپ لوگوں کے طعن و تشنیع سے ڈرتے تھے اور آپ کو اللہ سے زیادہ ڈرنا چاہیے‘‘-

اس کلام میں لفظ’’تَخْشی‘‘ مکر ر استعمال ہُوا ہے- پہلے فقرے میں آیت کے آغاز میں پھر دوسرے فقرے کے آخر میں اور یہ دونوں کلمے لفظ ومعنی دونوں میں متفق ہیں-

ایسے دو ملحق بالمتجانسین کہ جن دونوں کو ماخذ اشتقاق نے یکجا کر دیا ہو اُس کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ط اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا‘‘[27]

’’تم اپنے رب سے اپنے گناہوں پرمعافی طلب کرو بلاشبہ وہ بہت زیادہ معاف کرنے والاہے‘‘-

اس آیت کریمہ میں ’’اِسْتَغْفِرُوْا‘‘ اور ’’غَفَّارًا‘‘ مکرر بھی نہیں اور متجانسین بھی نہیں البتہ دونوں کا ماخذ اشتقاق ایک ہونے کی وجہ سے متجانسین کے ساتھ ملحق سمجھ لیا  گیا ہے ان میں سے ایک لفظ ایک آیت کے شروع میں ہے اور دوسر الفظ دوسری آیت کے آخر میں ہے-

سجع:

’’ھو توافق الفاصلتین نثرا فی الحرف الاخیر‘‘[28]

’’وہ نثر کہ دو جملوں کے حرف اخیر کی یکسانیت کا نام ہے‘‘-

مطلب یہ ہے کہ پہلا جملہ جس حرف پر ختم ہورہاہو دوسرا جملہ بھی اُسی حرف پر ختم ہوتو اسے سجع کہتے ہیں-

’’اِذَا  الشَّمْسُ کُوِّرَتْ ؁  وَ اِذَا  النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ؁  وَ اِذَا  الْجِبَالُ سُیِّرَتْ ‘‘ [29]

اب ان تینوں آیات میں اگر ہم غور کریں تو پہلی آیت جس حرف پر ختم ہورہی ہے اسی طرح دوسری اور تیسری آیت بھی اُسی حرف ’’ت‘‘ پر ختم ہورہی ہے-

 اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَالطُّوْرِ؁ وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ؁  فِیْ  رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ؁  وَّ الْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ‘‘[30]

ان آیات میں بھی ’سجع ‘ہے کہ جس حرف پر پہلی آیت یعنی ’’والطور‘‘ ختم ہو رہی ہے تو اُسی حرف ’’ر‘‘ پر باقی آیات بھی ختم ہورہی ہیں-

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَ الْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ لا؁ وَ شَاہِدٍ وَّ مَشْہُوْدٍ؁ قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ لا؁النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ‘‘[31]

ان آیات میں بھی اگر ہم غور کریں تو پہلی آیت جس حرف پر ختم ہو رہی ہے وہ حرف ’’د‘‘ہے اُسی حرف پر بقیہ آیات بھی ختم ہورہی ہیں-

قلب :

’’ھوان یکون الکلام بحیث لو عکستہ و بدات بحرفہ الاخیر الی الاول کان الحاصل بعینہ‘‘[32]

’’کلام کا اس طرح ہونا کہ اگر  اُس کو الٹا لیا جائے اور حرف آخر سے اؤل کی طرف ابتداء کرلی جائے تو پھر بھی عبارت اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے‘‘-

 جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

’’رَبَّکَ فَکَبِّرْ‘‘[33]

’’اپنے رب ہی کی بڑائی بولو ‘‘-

ان کلماتِ الٰہیہ میں پہلے’’ر‘‘ پھر ’’ب‘‘، پھر’’ک‘‘ اس کے بعد ’’ف‘‘، ’’ک‘‘ پھر ’’ب‘‘ اور آخر میں ’’ر‘‘ہے- اگر ہم ’’ رَبَّکَ فَکَبِّرْ‘‘کو الٹا پڑھیں یعنی ’’فَکَبِّر‘‘کی ’’ر‘‘سے ابتدا کریں اور ’’رَبَّکَ‘‘ کی ’’ر‘‘پرختم کریں پھر بھی’’رَبَّکَ فَکَبِّر‘‘ بنتاہے تو نہ لفظ میں تبدیلی آتی ہے اور نہ ہی معنی میں-

خلاصۂ کلام:

قرآن مجید میں جس انداز سے ایک معنیٰ مختلف طریقوں سے بیان ہوا ہے  اور الفاظ و معانی کی تحسین کے جو طرق بیان ہوئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں- پس معلوم ہواکہ قرآن مجیدعلومِ بلاغت میں اپنے اس منتہائے کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ جس کی نہ صرف نظیر ہی نہیں ملتی بلکہ وہ فصحاءِ عرب کہ جن کی رگوں میں فصاحت  و بلاغت خون حیات بن کر دوڑتی تھی، ان کی شاعری اور فصاحت و بلاغت ان کے معاشرے کی روح تھی-جن کے فخر و نازکا سرمایہ اور شہرت کا ذریعہ سب کچھ شعر و ادب ہی تھا، وہ بھی قرآن مجید کے نظم و نسق، اشارات و کنایات، تشبیہات و سجع کا مقابلہ نہ کر سکے-ان کا سارا ادب قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت کے آگے سر نگوں ہو گیااور وہ اس قرآن مجید کا مقابلہ کر بھی کیسے سکتے تھے کہ جب خود اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاسراء میں قرآن مجید کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ:

’’ قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاۡتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا ‘‘

’’تم فرماؤ اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو‘‘-

٭٭٭


[1]( مختصر المعانی ، ص:303)

[2](دروس البلاغہ، ص:97)

[3](النباء:10)

[4](الاعراف:179)

[5]( دروس البلاغہ، ص:114)

[6](البقرۃ:19)

[7]( دروس البلاغہ، ص:114)

[8](ابراہیم:1)

[9]( تلخیص المفتاح، ص:84)

[10](الفرقان:27)

[11]( تلخیص المفتاح، ص:86)

[12]( دروس البلاغہ، ص:128)

[13](الانعام:60)

[14]( دروس البلاغہ، ص:131)

[15](الکہف:18)

[16](الروم:6-7)

[17](تلخیص المفتاح، ص:87)

[18](التوبہ:82)

[19]( دروس البلاغہ، ص:134)

[20](البقرۃ:185)

[21]( دروس البلاغہ، ص:138)

[22](القصص:73)

[23]( دروس البلاغہ، ص:146)

[24](النور:35)

[25](تلخیص المفتاح، ص:103)

[26](الاحزاب:37)

[27](النوح:10)

[28]( دروس البلاغہ، ص:154)

[29](التکویر:1-3)

[30](الطور:1-4)

[31](البروج:2-5)

[32](مختصر المعانی، ص:485)

[33](المدثر:3)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر