حضرت اسماعیل علیہ السلام

حضرت اسماعیل علیہ السلام

حضرت اسماعیل علیہ السلام

مصنف: زیب النساسروہا ستمبر 2016

اسلام کی اساس رسالت پرہے- رسالت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت محمد الرسول اللہ ﴿w﴾ تک چلا جاتا ہے- تمام انبیائ علیہم السلام، اسلام کے ہی مبلغ تھے- قرآن حکیم میں انبیائ کرام کا تسلسل سے تذکرہ، سلاسلِ نبوت کے ذریعے نبوت کی حقانیت اور ان کے دین اسلام کی توثیق و تائید کے لئے ہی دیاگیا ہے- ﴿حکیم الاُمّت حضرت علّامہ ﴾اقبال بھی نبوت کے اس ادارے کی حقانیت کو اپنے اشعار کے ذریعے دین اسلام کی دلالت کے لئے لاتے ہیں - اقبال اپنے کلام میں حضرت آدم علیہ السلام سے جناب رسالت مآب ﴿w﴾ تک متعدد انبیائ کرام کی خصوصیات کے بیان سے تمثیلی، اشاراتی اور استعاراتی دلائل و براہین لا کر اپنے تفکر اور نظریات کو بیان کرتے ہیں- ان انبیائ کرام میں حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی نمایاں ہیں جن کا ذکر اقبال نے اپنے کلام میں کیا- ذیل میں ان کی حیات اور ان صفات کا بیان ہے جن سے اقبال نے تحریک پائی اور لازوال شعر کہے- اقبال حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تذکرہ یوں کرتے ہیں:-

سرّ ابراہیم و اسماعیل بود

یعنی آن اجمال را تفصیل بود

’’وہ ﴿یعنی حضرت امام حسین علیہ السلام﴾ حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل ﴿علیہما السلام﴾ کے راز تھے- یعنی اس مختصر واقعہ ﴿ذبح﴾ کی تفصیل تھے‘‘-

 حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم کے بیٹے تھے- آپ کی پیدائش سے قبل کے حالات یوں بیان کئے گئے ہیں- مفسرین و مورخین کے مطابق حضرت ابراہیم اپنی بیوی حضرت سارہ، کنیز حضرت ہاجرہ علیہما السلام اور خدمائ و سامان کے ساتھ جب فلسطین جا کر آباد ہوئے تو اُس وقت بہت آسودہ حال تھے لیکن بے اولاد - وہاں آپ ایک ’’خانہ ذاد الیعرذد‘‘ دمشقی کے گھر مقیم ہو گئے ﴿تورات عہد عتیق، باب:۵۱، آیت:۲، سوسائٹی آف سینٹ پال، روما، ۸۵۹۱ئ﴾- آپ کی بیوی حضرت سارہ علیہا السلام عمر رسیدہ تھیں- ان سے اولاد کی امید نہ تھی جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اولاد کے شدت سے خواہش مند تھے- حضرت سارہ علیہا السلام کو جب آپ کی خواہش کا علم ہوا تو ایک روز آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ اولاد کے لئے بافا، تابع ، امین، نوعمر اور حسین و جمیل کنیز حضرت ہاجرہ سے شادی کر لیں تاکہ تنہائی و وحشت کا خاتمہ ہو جائے اور اولادِ نرینہ کی تمنا بھی پوری ہو جائے- حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ تجویز پسند آئی اور آپ نے حضرت ہاجرہ سے نکاح کر کے اولاد کے لئے دعا کی - دعا قبول ہوئی اور حضرت ہاجرہ حاملہ ہوگئیں- جب حضرت سارہ علیہا السلام کو پتہ چلا تو بتقاضائے انسانیت حضرت ہاجرہ علیہا السلام سے رشک کرنے لگیں اور انہیں تنگ کرنا شروع کر دیا اور قسم کھائی کہ حضرت ہاجرہ کے تین اعضائ کاٹ دیں گی- بعض کتب میں ہے کہ حمل ٹھہرنے کی وجہ سے حضرت ہاجرہ علیہا السلام حضرت سارہ علیہا السلام کی صحیح طرح سے خدمت نہ کر سکیں جس وجہ سے حضرت سارہ علیہا السلام نے حضرت ہاجرہ کو تنگ کرنا شروع کر دیا اور تین اعضائ کاٹنے کی قسم کھائی- مجبوراً حضرت ہاجرہ علیہا السلام آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلی گئیں- تورات کے مطابق اللہ کے فرشتے نے آپ کو واپس جانے اور حضرت سارہ علیہاالسلام کی اطاعت کا حکم دیا اور ساتھ ہی بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری دی - حضرت ہاجرہ علیہا السلام واپس آگئیں تب حضرت ابرہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ علیہا السلام سے کہا کہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام سے دل صاف کریں اور ان کے کانوں اور ناک میں سوراخ کر دیں اور اندام نہانی کا کچھ حصہ کاٹ دیں- لہٰذا آپ نے ایسا ہی کیا اور قسم پوری کر دی- حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے کانوں میں بالے ڈال لیے جس کے سبب وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت دکھائی دینے لگیں اور تب سے یہ عمل خواتین میں جاری ہو گیا ﴿تفسیرِ نعیمی ، ج ۳۱، ص ۲۷۵﴾ -

وقتِ مقررہ پر حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت لوط علیہ السلام کے محل کے قریب پیدا ہوئے - آپ کی پیدائش پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی درازیٔ عمر کی دعا مانگی تو تورات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کی خوشخبری سنائی اور بتایا کہ وہ اُسے ﴿ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو﴾ برکت دے گا، اُسے برومند کرے گا اور اس کی نسل کو بڑھائے گا جس میں سے بارہ سردار ہوں گے -

تورات کی معلومات کے برعکس قرآن پاک میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت کا کوئی واضح بیان نہیں ملتا - اس سلسلے میں جتنی بھی تفصیلات ملتی ہیں انحصار، تورات کے بیان کردہ واقعات ہیں یا پھر تاریخی رعایات وغیرہ- اکثر مورخین نے آپ کی پیدائش کے بارے میں تفصیلات انہی ذرائع سے حاصل کی ہیں- البتہ قرآن مجید آپ کا تعارف ایک سچے اور وعدے کے پکے نبی کی حیثیت سے کرواتا ہے-

﴿وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ اِنَّ ہ، کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا﴾ ﴿مریم : ۴۵﴾ ’’اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بے شک وہ وعدے کا سچا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا‘‘-

 حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تذکرہ حضرت ابراہیم کے ساتھ تو بکثرت آیا ہے لیکن مستقل طور پر آپ کا تذکرہ سورۃ البقرہ، الانعام، النسائ، ابراہیم، الصافات، مریم اور سورۃ الانبیائ میں ملتا ہے- 

اسماعیل کا عبرانی مترادف شما ایل یا اسمؤعیل ہے جو بعد میں کثرت استعمال سے اسماعیل ہو گیا- شماع کا مطلب سننا اور ایل کا مطلب اللہ ہے یعنی اللہ کا سننا - عربی زبان میں اسماعیل کا مطلب مطیع اللہ ہے یعنی اللہ کی اطاعت کرنے والا - چونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سن لی تھی اس لئے آپ کا یہ نام ہوا ﴿تفسیر نعیمی ﴾ ، جو الیقی کا قول ہے یہ نام آخر میں ن کے ساتھ ﴿اسماعین﴾ بھی بولا جاتا ہے ﴿امام جلال الدین سیوطی ، الاتقان فی علوم القرآن ج ۲ ، ص ۲۴۳﴾ - حضرت اسماعیل کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر ۴۶  یا ۶۸  یا ۶۹ یا ۰۶۱ سال تھی ﴿تفسیر نعیمی ، ج ۳۱ ص ۰۷۵﴾ - حضرت سارہ علیہا السلام کو سخت تکلیف ہوئی- انہوں نے اپنے درد کا درماں اس میں پایا کہ حضرت ابراہیم کے ذریعے ماں اور بچے کو اپنی نگاہوں سے دور بھیج دیں ﴿تاریخ ابن کثیر ج ۱ ، ص ۹۱۲﴾ -

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ اصرار پسند نہ آیا- لیکن اللہ کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت سارہ علیہا السلام کی خواہش کے مطابق عمل کرنے کا حکم ہواکہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سرزمین مکہ میں وادی اُم القریٰ میں چھوڑ آئیں - اس کا تفصیلی ذکر تورات میں بھی ہے - تورات کی یہ روایت بتاتی ہے کہ اُس وقت حضرت اسحاق علیہ السلام بھی پیدا ہو چکے تھے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سنِ رُشد کو پہنچ گئے تھے- تورات کی روایت ہی دونوں بھائیوں کے درمیان تیرہ سال کا فرق بتاتی ہے- مزید اسی واقعے کے بارے میں تورات کی دیگر آیات متضاد معلومات فراہم کرتی ہیں - ان متضاد بیانات کے برعکس اسلامی روایات کے مطابق حضرت اسماعیل علیہ السلام شیر خوار بچے ہی تھے- اللہ کے حکم کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور شیر خوار بچے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ملکِ شام سے کعبہ کے قریب ایک درخت کے نیچے زم زم کے موجودہ مقام سے اُوپر والے حصہ پر بے آب و گیاہ میدان میں ایک تھیلی کھجور اور پانی کا ایک مشکیزہ دے کر واپس جانے لگے تو بی بی ہاجرہ علیہا السلام نے آپ کو پکڑ کر دریافت کیا کہ کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟ آپ نے ہاں میں جواب دیا- تب حضرت ہاجرہ مطمئن ہو گئیں کہ اللہ انہیں ضائع نہیں فرمائے گا اور پھر واپس لوٹ گئیں- جب وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے تو انہوں نے اپنے رب سے ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگی:-

﴿رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِلا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْٓ اِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوْنَ﴾﴿ابراہیم: ۷۳﴾’’اے میرے رب میں نے اپنی کچھ اولاد ایک نالے میں بسائی جس میں کھیتی نہیں ہوتی، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے میرے رب اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھے- تو لوگوں کے دل کچھ ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں کچھ پھل کھانے کو دے شاید وہ احسان مانیں‘‘-

علامہ اقبال اس واقعہ کو یوں نظم کرتے ہیں:-

بہرِ ما ویرانہ ای آباد کرد

طائفاں را خانہ ای بنیاد کرد’’

ہماری خاطر ویرانے کو آباد کیا- طواف کرنے والوں کے لئے ﴿خدا کے﴾ ایک گھر کی بنیاد رکھی‘‘-

حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے کچھ روز پانی اور کھجوروں پر گزارہ کیا لیکن ان کے ختم ہونے پر دودھ آنا بند ہو گیا اور بچہ بھی بھوک اور پیاس سے بے قرار ہو ا- بے تاب بچے کو چھوڑ کر دور جا بیٹھیں تاکہ بچے کی بُری حالت آنکھوں سے اوجھل رہے - حضرت اسماعیل علیہ السلام بھوک اور پیاس کی شدت سے بے قرار ہو کر زمین پر لیٹے تڑپتے رہے- اس وقت حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی مادری شفقت جوش میں آئی اور انہوں نے زندگی کے لئے جدوجہد کرنا شروع کی، وہاں سے اُٹھیں اور کوہِ صفا پر چڑھیں لیکن کوئی متنفس نہ پایا- وہاں سے آئیں پھر وادی میں چلتی ہوئی کوہِ مَروَہ تک پہنچیں- اس طرح شدید پریشانی کے عالم میں ہر دفعہ اپنے نونہال کو دیکھنے آتی رہیں- آخری پھیرے میں جب مروہ تک آئیں تو ان کے کانوں میں ایک آواز آئی- کان لگا کر سنا تو یوں محسوس ہوا کہ کوئی پکار رہا ہے - حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے کہا کہ اگر تم مدد کر سکتے ہو تو سامنے آئو- دیکھا تو خدا کے فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں- روایت ہے کہ انہوں نے اپنے پر یا ایڑی کو اس جگہ مارا جہاں آج زم زم ہے- لیکن قوی روایت ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پائوں کی ایڑی سے پانی کا چشمہ جاری ہوا اور یہ آپ کا بچپن کا معجزہ قرار دیا جاتا ہے﴿تفسیر نعیمی‘‘، ج:۱، ص:۱۸۶﴾ - یہاں پانی ابلنے لگا- حضرت ہاجرہ کی مسرت قابلِ دید تھی- آپ نے خود بھی سیر ہو کر پانی پیا اور بیٹے کو بھی پلایا- پھر آپ نے پانی کے چاروں طرف باڑ بنانی شروع کی مگر پانی ابلتا رہا- حضرت محمد الرسول اللہ ﴿w﴾ نے فرمایا کہ اگر امّ اسماعیل زم زم کو اس طرح نہ روکتیں اور اس کے چاروں طرف باڑ نہ لگاتیں تو وہ آج زبردست چشمہ ہوتا - فرشتے نے حضرت ہاجرہ علیہا السلام کو تسلی دی کہ ان کا رب ان کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ یہاں بیت اللہ ہے جس کی تعمیر یہ باپ ﴿حضرت ابراہیم علیہ السلام﴾ اور بیٹا ﴿حضرت اسماعیل علیہ السلام﴾ کریں گے-

اس عرصہ میں ایک قبیلہ بنی جرہم  نے پانی کی موجودگی کی وجہ سے حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی اجازت سے وہاں ڈیرے ڈال لیے لیکن حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے انہیں پانی کی ملکیت سے مستثنیٰ رکھا - حضرت ہاجرہ علیہا السلام بھی باہمی انس و رفاقت کے لئے یہ خواہش رکھتی تھیں کہ کوئی یہاں آ کر بس جائے- انہی چند خاندانوں میں رہ کر حضرت اسماعیل علیہ السلام پلنے بڑھنے لگے - جب حضرت اسماعیل علیہ السلام تیرہ سال کے ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ختنے کا حکم آیا- آپ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام، خانہ زادوں اور غلاموں کے ختنے کروائے - یہ رسمِ ختنہ ’’ملّتِ ابراہیمی‘‘ کا شعار ہوئی اور آج بھی حضرت ابراہیم کی سنت کے نام سے مشہور ہے - اللہ کے مقرب بندوں اور انبیائ کرام کے ساتھ جو بھی واقعہ اور معاملہ پیش آتا ہے وہ عام انسانوں سے مختلف ہی ہوتا ہے اس لئے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے ایک نمونہ و مثال ہوتا ہے- جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ نے مختلف آزمائشوں اور حالات سے دوچار کیا- آپ ہر امتحان میں اور آزمائش میں کامیاب ہوئے- جب آگ میں ڈالا گیا اُس وقت صبر و استقامت اور تسلیم و رضا کا ثبوت دیا- یہ تاریخ انبیائ کرام علیہم السلام کا ایک انمول واقعہ ہے- اس کے بعد اکلوتے دودھ پیتے بچے اور بی بی کو بحکمِ الٰہی فاران میں چھوڑنے کا حکم پورا کیا اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا- یہ بھی تو کڑی آزمائش تھی- ان دونوں کڑی منازل کو طے کرنے کے بعد تیسرے امتحان کا حکم ملا - یہ ایک انوکھا اور عظیم الشان واقعہ ہے- حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مسلسل تین راتیں خواب میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا حکم پایا - آپ اس حکمِ ربی پر آمادہ ہو گئے- لیکن یہ معاملہ صرف آپ کی ذات سے وابستہ نہ تھا بلکہ اس امتحان کا دوسرا جز ’’بیٹا‘‘ تھا جس کو قربان کرنے کا حکم دیا گیا تھا - حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کو حکم الٰہی سنایا تو پیغمبر بیٹے نے پیغمبر باپ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا- کیوں نہ کرتا وہ بچہ جس نے خلیل اللہ کی گود میں پرورش پائی اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا دودھ پیا- جسے اوّل روز سے ہی درس دیا جاتا رہا کہ رضائے الٰہی کے لئے اگر جان بھی دینی پڑے تو دریغ نہ کرنا لہٰذا بیٹے نے فرمایا آپ حکمِ الٰہی کے سامنے مجھے صابر ہی پائیں گے - ﴿تفسیر ضیائ القرآن، ج:۴، ص:۱۱۲﴾ 

بیٹے کی طرف سے مثبت جواب پا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام قربانی پیش کرنے کے لئے جنگل کی طرف چل پڑے- اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام ’’سعی‘‘ کی عمر کو پہنچ چکے تھے-

﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ﴾﴿الصٰفٰت:۲۰۱﴾ ’’پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہو گیا‘‘-بعض تاریخی اور تفسیری روایات سے پتا چلتا ہے کہ راستے میں شیطان نے باپ بیٹے کو اور گھر میں حضرت ہاجرہ علیہا السلام کو تین مرتبہ بہکانے کی جدوجہد کی لیکن ہر بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے سات کنکریاں مار کر بھگا دیا اور شیطان کی یہ کوشش بے فائدہ ثابت ہوئی- اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے عمل کو مناسکِ حج میں داخل فرما دیا- ہر سال مِنٰی کے تینوں جمرات پر لاکھوں حجاج کرام اس عمل کی یاد میں کنکریاں مارتے ہیں﴿ضیائ القرآن، ج:۴، ص:۱۱۲﴾-

بالآخر دونوں باپ بیٹا عظیم بے مثل قربانی دینے کے لئے مِنٰی کی قربان گاہ میں پہنچے- باپ نے بیٹے کی مرضی پا کر مضبوط جانور کی طرح ہاتھ پائوں اور بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا کر تیز شدہ چھری گردن پر چلانی شروع کی- روایات کے مطابق اس وقت آپ کی عمر ۳۱ سال تھی- روایت ہے کہ درمیان میں ایک تانبے کی پتری آجاتی تھی اور چھری نہ چلتی تھی﴿ابن کثیر،البدایہ و النہایہ، ج:۱، ص:۲۲۲﴾-

اقبال اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:-

"می کند از ما سویٰ قطعِ نظر

می نہد ساطور بر حلقِ پسر’’

ما سوا ﴿غیر اللہ﴾ سے نظریں ہٹا لیتا ہے اور بیٹے کے گلے پر چُھری چلا دیتا ہے‘‘-

ملا معین واعظ کاشفی نے اس موقع پر بڑی لطیف بحث کی ہے - کہتے ہیں:-’’کہا جاتا ہے کہ بچوں کی یہ عادت ہے کہ بچے آزمائش و امتحان اور اس قسم کے مواقع پر اضطراب کا ثبوت دیتے ہیں- جب حضرت اسماعیل علیہ السلام نے رضائے الٰہی کے حصول کے سبب اپنی عادت کو چھوڑ دیا لہٰذا ہم نے بھی چھری کی عادت ﴿جس کی عادت کاٹناہے﴾ تبدیل کر دی اور اس کو اس کے اصل کام سے روک دیا ‘‘- ﴿معارج النبوۃ، ج:۱، ص:۱۵۶﴾

روایت ہے کہ فوراً وحی اتری:- ’’اے ابراہیم! تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا- بے شک یہ کٹھن امتحان تھا- اب لڑکے کو چھوڑ کر اپنے قریب کھڑے مینڈھے کو ذبح کرو- بے شک ہم نیکو کاروں کا امتحان لیا کرتے ہیں‘‘- 

حضرت ابراہیم رب کا شکر بجا لائے- بعض روایات کے مطابق مینڈھا نہ تھا بلکہ وہ بکری تھی جو چالیس ہزار یا اسی ہزار سال تک جنت کے مرغزاروں میں چرتی رہی تھی- یا یہ وہ بکری تھی جو ہابیل نے قربان کی تھی اور اللہ نے اس کی جنت میں پرورش کروائی تھی- یہ مقام جمرہ تھا اور اس بکری یا مینڈھے کے جسم کا ہر حصہ کھانے کے قابل تھا- یہ جانور ہڈی اور اوجری وغیرہ سے پاک تھا - یہ ایک بے نظیر قربانی کو پورا کرنے کا وسیلہ تھا - اس مینڈھے کے سینگ کئی سال تک خانہ کعبہ کے اندر لٹکے رہے ﴿ابن کثیر، قصص الانبیائ ، ص:۰۹۱﴾ - حضرت ابراہیم (ع) نے بیٹے کو حضرت حاجرہ علیہا السلام کے سپرد کیا اور شکر انے کے طور پر درویشوں میں صدقات تقسیم کرنے کے بعد حضرت سارہ علیہا السلام کے پاس روانہ ہوگئے - یہ قربانی اللہ تعالیٰ کے حضور اتنی مقبول ہوئی کہ یادگار کے طور پر ہمیشہ کے لئے   ’’ملتِ ابراہیمی ‘‘کا شعار ٹھہرا دی گئی- چونکہ یہ واقعہ دس ذو الحجہ کو پیش آیا اس لئے تمام ملتِ اسلامیہ اس عظیم قربانی کی یاد کے طور پر دس ذو الحجہ کو قربانی کرتی ہے اور وفاداری اور جانثاری کے اس واقعہ کی یاد تازہ کرتی ہے- اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے باپ بیٹے کو وہ مرتبہ عطا فرمایا جو بیٹا قربان کر دینے والے کے لئے ہو سکتا ہے -

اقبال نے اس عظیم الشان واقعہ کی طرف بڑے لطیف پیرائے میں اشارہ کیا ہے- رموز بیخودی کی نظم ’’درمعنی حریت اسلامیہ وسرِ حادثہ کربلا‘‘ میں بھی اس ﴿ذبح عظیم﴾ کی طرف اشارہ ہے- علامہ نے اس نظم میں بتایا کہ ’’ھوالموجود‘‘ سے پیمان باندھنے والے کی گردن ہر معبود کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے- مومن کی حیات عشقِ الٰہی کی بدولت ہے اور عشق کی حیات مومن کی بدولت- عشق میں وہ قوت ہے کہ یہ ناممکن کو کر دکھاتا ہے- عشق و عزم لازم و ملزوم ہیں- مومن جب عشقِ الٰہی میں ڈوب جاتا ہے تو وہ ہر لمحہ اپنا احتساب کرتا رہتا ہے- نتیجتاً وہ اللہ کی غلامی کے علاوہ ہر قسم کی غلامی کو خیر باد کہہ دیتا ہے- یہی سبب ہے کہ وہ بوقتِ قتال سرخرو ہوتا ہے- اس کے بعد علامہ اقبال ’’منقبتِ حسین ‘‘میں کہتے ہیں:-

اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر

معنی ’’ذبح عظیم ‘‘آمد پسر’’

اللہ اللہ! والدِ محترم ﴿حضرت علی المرتضیٰ کا یہ مقام کہ﴾ بسم اللہ کی ’ب‘ ہیں اور بیٹے ﴿حضرت امام حسین علیہ السلام﴾ ﴿ذبح عظیم﴾ کی تفسیر ہیں‘‘- 

اس ایک شعر میں علامہ ایک عظیم شخصیت اور ایک عظیم واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں- وہ شخصیت ہیں امام حسین(رض) اور وہ’’ ذبح عظیم ‘‘ کاواقعہ ہے حضرت اسماعیل (ع)کی عظیم الشان قربانی کا- لیکن غور کریں تو یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ علامہ اقبال نے اس واقعہ کو عام روایتی انداز میں نظم نہیں کیا بلکہ اس کو نظم کرکے وہ انسانی فرائض کی ایک حس کو بیدار کرنا چاہتے ہیں اور انسانی فرائض کی وہ حس ہے ’’ایقان ‘‘﴿ڈاکٹر توقیر احمد ، اقبال کی شاعری میں پیکر تراشی، ص: ۱۰۱، انجمن ترقی اردو، نئی دہلی﴾ - اسی ایقان کی بدولت مذہبی مرحلے پر پہنچ کر عزیمت و رخصت میں جنگ ہوتی ہے اور اس میں فتح یاب ہو کر انسان وجود ِ حق سے اپنے وجود کی غیر مشروط سپردگی کر دیتا ہے اور اسی وجودی سپردگی کی بنیاد پر وہ معتبر ہو جاتا ہے- رجعت سے وجود غیر معتبر ہو جاتا ہے- حضرت اسماعیل علیہ السلام کا جان کو قربان کرنے کا فیصلہ بھی دراصل خود سپردگی کا فی صلہ ہے- عام اخلاقیات اور فکر کے راستے کو ترک کرنے اور حصولِ شہادت کا فیصلہ ہے- یہ وہ فیصلہ ہے جس کے کر نے کے بعد شیطان بار بار آکر بہکانے اور فیصلہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے- معتبر ﴿حضرت اسماعیل علیہ السلام﴾ اور غیر معتبر ﴿شیطان﴾ کی جنگ ہوتی ہے اور اس جنگ میں معتبر ﴿حضرت اسماعیل علیہ السلام﴾ فتح یاب ہوتا ہے ﴿ڈاکٹر تسکینہ فاضل﴿سرینگر﴾اقبال اور قرآنی تلمیحات﴾ اور اقبال یہی بتانا چاہتے ہیں لیکن اسی واقعہ ’’ذبح عظیم ‘‘ کو علامہ اقبال نے ایک اور نقطہ نظر سے بھی بیان کیا ہے- انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک باپ بیٹے کے ساتھ ساتھ استاد اور شاگرد کے طور پر بھی لیا ہے- صاحبِ نظر استاد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے شاگرد حضرت اسماعیل علیہ السلام میں جو تبدیلیاں پیدا کیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ﴿ڈاکٹر وحیدعشرت ، سنتِ ابراہیمی اور اقبال﴾- اسی لئے تو بے اختیار کہتے ہیں :-

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیل (ع) کو آدابِ فرزندی؟

علامہ کی دو رس نظر اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ روشن مثال شخصیت اپنی نگرانی میں جو تعلیم و تربیت کرتی ہے وہ کتب و مکاتب نہیں کرسکتے﴿پروفیسر محمد منور، اقبال اور ابراہیمی نظر﴾ - دیگر تمام بزرگان دین کی طرح علامہ اقبال بھی ’’اسماعیلیت‘‘ کی صفات سے مزین ہونے کے لئے کسی مرشدِ کامل کی صحبت یا کسی کے فیض ِ نظر کا ہونا ضروری قرار دیتے ہیں کیونکہ تزکیہ نفس کے لئے یہ از حد ضروری ہے - بقول پروفیسر یوسف سلیم چشتی:-

’’چراغ کسی چراغ ہی سے جل سکتا ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص نہ کسی مرشد کامل کی صحبت میں رہے، نہ اس کی نگاہ سے فیض حاصل کرے- محض کتابوں کے مطالعہ سے اس لائق ہو جائے کہ صالحین کی جماعت مرتب کر کے دنیا میں کو ئی پاکیزہ انقلاب برپا کرے‘‘- ﴿شرح بالِ جبریل‘‘، ص: ۵۵۱﴾

اس تزکیہ نفس کے بعد انسان زمانے کا راکب بن سکتا ہے اور علامہ امت ِ مسلمہ کے ہر فرد کو زمانے کا راکب دیکھنے کے متمنی ہیں- حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ کے حکم سے حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ میں آباد کیا تھا تاکہ وہ مقام دین حق کا مرکز بن سکے- بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہو اکہ اللہ کی عبادت کے لئے گھر بنائیں -

روایات کے مطابق کعبہ کا وجود انسانی تاریخ سے قبل بیان کیا جاتا ہے- زمین کی پیدائش سے بھی قبل جب اس خطہ پر صرف پانی تھا اس وقت بھی موجودہ خانہ کعبہ کی جگہ ایک کثیف قسم کی جھاگ دکھائی دیتی تھی اور فرشتے اس کے گرد طواف کرتے تھے- پھر جب زمین پیدا کی گئی اسی جھاگ والے حصے سے زمین کا آغاز ہوا اور پانی کے ۳/۱ حصے پر زمین آگئی- کعبۃ اللہ ویسے ہی چھوٹے سے ٹیلے کی شکل میں ابھرا رہا- حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اترنے کے بعد اس جگہ کے بارے میں بتا دیا گیا- آپ نے اس جگہ کو اپنے ہاتھوں سے اونچا کیا اور بحکم الٰہی خود بھی اس کا طواف کیا اور اولاد کو بھی حکم دیا - اللہ تعالیٰ کا یہ گھر دس مرتبہ از سرِ نو بنایا گیا- 

۱﴾ ملائکہ - ۲﴾ حضرت آدم علیہ السلام- ۳﴾ حضرت شیث علیہ السلام - ۴﴾ حضرت ابرہیم علیہ السلام - ۵﴾ قوم عمالقہ نے - ۶﴾ قبیلہ جرہم نے - ۷﴾ قصّی نے - ۸﴾ قریش نے - ۹﴾ عبداللہ بن زبیر(رض) نے -۰ ۱﴾ حجاج بن یوسف نے - لیکن قران مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کعبۃ اللہ کا اوّلین معمار یا بانی قرار دیا ہے اور آپ کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی اس کے معمار اوّل شمار کئے گئے ہیں- اگرچہ بیت اللہ کا وجود پہلے دن سے ہی تسلیم شدہ ہے لیکن اس کی باقاعدہ تعمیر اور عمارت کا بنانا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے وجود میں نہ آیا تھا- شارحِ بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’فتح الباری‘‘ ﴿ج:۸، ص:۸۳۱﴾ میں ایک روایت نقل کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کعبہ کی بنیاد سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے رکھی اور اللہ کے فرشتوں نے ان کو وہ جگہ بتائی جہاں کعبہ کی تعمیر ہونا تھی مگر ہزاروں سال کے حوادث نے عرصہ دراز سے اس کو بے نشان بنا دیا تھا لیکن ہر زمانہ میں وہ ایک ٹیلہ یا ابھری ہوئی شکل میں دکھائی دیتا تھا- یہی وہ مقام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی حضرت ابرہیم علیہ السلام کو بتایا- ایک روایت کے مطابق خانہ کعبہ کے قریب حضرت آدم علیہ السلام کی قبر بھی تھی ﴿عماد الدین اصفہانی ، قصص الانبیائ ﴿فارسی﴾ ص:۷۰۳﴾ - حضرت ابرہیم علیہ السلام نے اس جگہ کو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مدد سے کھودنا شروع کیا تو انہیں سابقہ تعمیر کی بنیادیں نظر آنے لگیں- انہی بنیادوں پر بیت اللہ کی پہلی باقاعدہ تعمیر کا آغاز کیا گیا - یہ واقعہ ۴۵۰۲ ق م کا ہے ﴿تفسیر نعیمی ج:۳۱، ص:۴۷۵﴾- کہاجاتا ہے کہ جس پتھر پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبۃ اللہ کی دیواریں بلند کرتے رہے تھے وہ غیر محسوس طور پر اونچا ہوتا جاتا تھا- حتیٰ کہ بیت اللہ کی دیواریں مطلوبہ اُنچائی تک پہنچ گئیں ﴿عماد الدین اصفہانی محولہ بالا﴾ - یہی پتھر آج مقامِ ابراہیم کے نام سے جانا جاتا ہے - بیت اللہ کی تعمیر پایہ تکمیل کو پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتایا کہ یہ ملت ابراہیمی کے لئے قبلہ ہے اور ہمارے حضور جھکنے کا نشان- اس لئے یہ توحید کا مرکز ٹھہرایا جاتا ہے - تب حضرت ابرہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مل کر دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کی اولاد کو نماز قائم کرنے اور زکوٰۃدینے کی ہدایت عطا فرمائے اور ان کے اثمار ، میووں اور رزق میں برکت عطا فرمائے اور تمام دنیا کے ہدایت یافتہ انبوہ کو اس طرف متوجہ کرے تاکہ وہ دور سے آکر مبارک حج ادا کریں اور اس مرکز میں اکٹھے ہو کر زندگی کی سعادتوں سے مالا مال ہوں- قرآن پاک میں بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعا، اقامتِ نماز اور مناسک حج کی ادائیگی کے لئے شوق و تمنا کا اظہار اور بیت اللہ کے توحید کے مرکز ہونے کا تذکرہ جگہ جگہ کیا گیا ہے ﴿البقرہ : ۲، آیات: ۷۲،۸۲، ۹۲، ۰۳- تفصیل کے لئے دیکھیئے: ۰۱ رکوع تا ۵۱ رکوع﴾- علامہ اقبال نے بیت اللہ کی ’’تعمیر و تطہیر ‘‘ کے واقعہ کو یوں نظم کیا ہے :-

جوے اشک از چشم بیخوابش چکیدتا پیامِ ﴿طھرا بیتی﴾ شنید’’آپ کی بیدار آنکھوں سے آنسوؤں کی ندی قطرہ قطرہ بہی پھر کہیں یہ پیغام سنا کہ ﴿ تم دونوں میرے گھر کو خوب صاف ستھرا کرو﴾‘‘

دیکھیے! ا س واقعہ سے ہمیں ایک تو اَہم قرآنی معلومات ملتی ہیں ﴿جن کا ذکر کیا جا چکا﴾ دوسرے علامہ اقبال کا اس واقعہ کو نظم کرنے کا نقطئہ نظر واضح طور پر سامنے آ جاتا ہے- علامہ اقبال کا خیال ہے کہ کسی عظیم الشان کامیابی کے لئے صرف آرزو ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے انتہائی والہانہ جذبہ کی ضرورت پڑتی ہے- جب تک انسان کے اندر انقلاب جنم نہ لے خارج میں بھی انقلاب برپا نہیں ہو سکتا- وہ جو اپنے اندر انقلاب برپا کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے خارج میں بھی انقلاب لانے کی توفیق مرحمت فرمائے گا﴿یوسف سلیم چشتی،شرح جاوید نامہ ﴾- حضرت اسماعیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر ہیں- آپ انتہائی خوبصورت اور باپ سے مشابہ تھے ﴿ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج:۱، ص:۱۲۲﴾-

قرآن پاک میں آپ کو نبی اور رسول دونوں صفات سے موصوف کیا گیا ہے جو آپ کے علو مرتبہ ہونے کی علامت ہے- آپ کی صفاتِ کمال میں سے سب سے اہم صفت صادق الوعدہ ہونے کی ہے کیونکہ آپ نے اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق سے جو بھی وعدہ کیا پورا فرمایا اور سب سے اہم وعدہ وہ تھا جو آپ نے اپنے والد ماجد سے کیا تھا یعنی ذبح کرنے کے حکم خداوندی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا- آپ پر دنیا گواہ ہے کہ اس مردِ پاکباز نے اپنے اس وعدہ کو کس صدق و استقامت سے مکمل کیا ﴿تفسیرضیائ القرآن، ج:۳، ص:۸۸﴾- آپ کی مادری زبان قبطی اور پدری زبان عبرانی تھی- علاوہ ازیں بقول علامہ ابن حجر العسقلانی آپ پہلے فرد ہیں جو فصاحت و بلاغت اور روانی سے عربی بولتے تھے - تورات اور حدیث کے مطابق آپ تیر انداز تھے اور آپ نے تمام زندگی گوشت اور پانی پر گزارا کیا - آپ نے ان تمام زبانوں میں دین ابراہیمی کی تبلیغ کی اور بہت سی قوموں کی درمیان اتحاد باہمی کا وسیلہ بنے - آپ میں اپنے والد محترم والی تمام خوبیاں اور کمالات بدرجہ اتم موجود تھے ﴿ابن کثیر ، قصص الانبیا ، ص۹۵۲﴾-

آپ فرزندِ عہد ہیں کہ پہلے روز میں اللہ کے عہد میں داخل ہو گئے- آپ کو عرب، حجاز، یمن کے لئے مبعوث فرمایا گیا - آپ کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ آپ نے سب سے پہلے گھوڑے کو سدھار کر سواری کی- اس سے پہلے وہ ﴿گھوڑے﴾ وحشی ہوتے تھے آپ نے انہیں مانوس کیا﴿اصفہانی محوّلہ بالا﴾- آپ حضرت اسحاق علیہ السلام سے ﴿پانچ، چودہ، یا تینتیس سال﴾ بڑے تھے- آپ کا ختنہ بھی اسی روز ہوا جس روز آپ کے والد نے اپنا ختنہ کیا﴿تورات، عہدِ عتیق باب : ۵۲، آیت:۲۱-۶۱﴾ - آپ پہلے ذبیح ہیں- آپ نے سب سے پہلے اپنی بیوی کی تجویز پر بہت سی بھیڑوں کی پشم اکٹھی کر کے بارہ ذراع کا پردہ بنا کر کعبہ کی دیواروں پر لٹکایا- یہ اب تک معمول ہے کہ ہر سال عید قرباں پر قیمتی اور خوبصورت پردہ بنا کر لٹکایا جاتا ہے-جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کے والد وفات پا گئے تو حضرت جبرائیل نے آپ سے افسوس کیا اور وفات کی خبر دی اور صبر و شکیبائی کی تلقین کرنے کے بعد بتایا کہ نبوت و خلافت آپ کے خاندان میں ہی رہے گی- آپ یہ سن کر بہت خوش ہوئے- آپ نے حضرت اسحاق علیہ السلام سے مل کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مدفون کیا-

آپ نے پانچ شادیاں کیں- مکہ کے تمام قبائل آپ کی نسل سے ہیں، لیکن تورات کے مطابق آپ کے بارہ بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی- آپ کے تمام بیٹے اپنے قبیلوں کے سردار بنے لیکن ان میں سے دو نابت یا نیابوت اور قیدار زیادہ مشہور ہوئے- ان کا تذکرہ تورات میں بکثرت ہے- عرب مورخین نے بھی ان کی تفصیلات بیان کی ہیں- نابت کی نسل ’’اصحاب الحجر‘‘ کے نام سے اور قیدار کی نسل ’’اصحاب الرس‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی- آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سلسلہ نسب قیدار ہی سے عدنان کے واسطے سے حضرت اسماعیل تک پہنچتا ہے - باقی بھائیوں اور ان کے خاندان کے بارے میں معلومات بہت کم ملتی ہیں ﴿تفسیر نعیمی، ج:۳۱، ص:۴۷۵﴾- آپ نے اپنی وفات سے پہلے اپنے بیٹوں کو بلا کر نبوت کی ذمہ داریاں ان کے سپرد کیں- آپ نے ۰۳۱، ۶۳۱، ۸۳۱ یا ۰۸۱ سال عمر پائی﴿ابنِ کثیر ، قصص الانبیا﴾-اپنے والد سے ۸۴ سال بعد فوت ہوئے اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے پہلو میں مطافِ کعبہ کے اندر دفن ہوئے- حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں یعنی ۰۰۵ ق م تک آپ کی اولاد اور نسل کا سلسلہ حجاز، شام اور عرب کا اندرونی حصہ بنو اسماعیل کے زیرِ اثر تھا - 

حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی خدماتِ صادقہ کی بدولت ان کا نام زندہ و تابندہ ہے- غالباً چھ ہزار سال گزر چکے لیکن امتِ مسلمہ کے افراد ان پیغمبران، باپ بیٹے کی خدماتِ صادقہ کے سبب کعبہ کے گرد چکر لگا کر رحمتِ الٰہی کے طلب گار ہوتے ہیں﴿تاریخ طبری‘‘، ج:۱، ص:۴۲﴾- 

حیات و سیرتِ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور کلامِ اقبال میں آپ کے ذکر کا پہلو بہ پہلو جائزہ لینے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کے ہاں ’’اسماعیلیت‘‘ ﴿یعنی اوصاف و صفاتِ پیغمبراسماعیل علیہ السلام﴾ اطاعت و فرمان برداری ، غیر سے بے نیازی، رضا جوئی اور اللہ کے لئے خود سپردگی اور بے مثال قربانی کا عظیم الشان مرقع ہے- اقبال نے اپنے کلام میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سیرت کے نمایاں اوصاف کو اہم درجہ دیا ہے- کلام اقبال میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شخصیت انتہائی متحرک اور عملی نظر آتی ہے جس کو اخلاقی اعتبار سے تکمیلِ فرائض کی انجام دہی کا مظہر قرار دیا جاسکتا ہے﴿ڈاکٹر توقیر احمد، اقبال کی شاعری میں پیکر تراشی، ص:۱۱۲﴾- نیز آپ حق، رضا جوئی اور قربانی کی علامت کے طور پر اُبھرتے ہیں﴿سیّد عابد علی عابد ، تلمیحاتِ اقبال﴾- اقبال اُمتِ مسلمہ کو آفاقی حقیقت پر مشتمل ایک خاص پیغام دینا چاہتے ہیں اور وہ خاص پیغام ہے ’’اسماعیلیت‘‘ ﴿یعنی اوصاف و صفاتِ پیغمبراسماعیل علیہ السلام﴾ کے تمام پہلوئوں کو اپنی ذات کا حصہ بنانے کا- یہی سبب ہے کہ وہ مردِ مومن کو خود ہی اپنا حرم، اپنا ’’ابراہیم‘ ‘ اور تسلیم و رضا میں ’’اسماعیل‘‘ بن کر نفسِ امارہ کی گردن پر چھری چلانے اور صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے غیر مشروط جد و جہد کا درس دیتے ہیں -

"خود حریمِ خویش و ابراہیمِ خویش

چوں ذبیح اللہ در تسلیمِ خویش! ’’

تُو خود اپنا حرم بھی ہے اور اپنا ابراہیم بھی- ذبیح اللہ ﴿حضرت اسماعیل﴾ کی طرح خود کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والا بھی ﴿ہو جا﴾- ‘‘

علامہ کے نزدیک حضرت اسماعیل کی طرح تسلیم و رضا کے حصول کے لئے نفسِ امارہ سے جنگ ضروری ہے- اصطلاحِ تصوف میں اسے مجاہدہ کہتے ہیں- اس سے مردِ مومن ﴿سالکِ حق﴾ میں چار صفات جنم لیتی ہیں:-

۱- وہ حرص و ہوا سے پاکی حاصل کر لیتا ہے-

۲- اس میں استقامت جنم لیتی ہے-

۳- روحانی عروج کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے-

۴- اس کے دماغی قویٰ میں اضافہ ہوتا ہے-

ان صفات کی وجہ سے وہ عالمِ ناسوت کو طے کر کے عالمِ لاہوت کی طرف پرواز کرنے لگتا ہے اور فرشتوں کے مقام اور جنت الفردوس سے بالا تر ہو جاتا ہے- حتیٰ کہ وہ فنا فی الرسول ہو جاتا ہے- اس مقام پر اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنے کرم سے رسول اللہ ﴿w﴾ کے رنگ میں رنگ دیتا ہے- یعنی اس میں صفاتِ الرسول ﴿w﴾ جنم لیتی ہیں اور اس کی خودی بھی کامل و پختہ تر ہو جاتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ راہِ حق کے اس سالک کو اپنا بندہ بنا لیتا ہے اور وہ نفسِ امارہ و لوامہ کی منازل سے گزر کر مطمئنہ کی منزل پر قربِ حق حاصل کر لیتا ہے﴿یوسف سلیم چشتی، شرح جاوید نامہ﴾- علامہ کو اس مقام مطمئنہ پر فائض ذات کا نمونہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی حیات میں نظر آیا اور انہوں نے اس اعلیٰ ہستی کو بطورِ نمونہ اُمتِ مسلمہ کے افراد کے سامنے پیش کر دیا تاکہ وہ بھی یہی اسماعیلی صفت اپنی ذات میں پیدا کر کے عبدیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے لئے جدوجہد کریں اور صبر، ایثار اور اطاعت کی ایک بلند مثال قائم کریں - یہی اسلام کی روح ہے یعنی اپنے آپ کو اور اپنی ہر شئے کو اللہ کے لئے نثار کر دینا - مدعیانِ اسلام کو ایسی ہی اطاعت و فرمانبرداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ایسی ہی بزرگ ہستیوں کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے- کسی بھی حالت میں باطل ﴿شیطان﴾ کے سامنے نہ جھکنا چاہیے، چاہے جان دینی پڑے- یہی داستانِ حرم ہے ﴿پروفیسر نذیر احمد،تشبیہات اقبال، ص:۹۷۲﴾- 

غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حسین، ابتدائ ہے اسماعیل

حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے کہے گئے اشعار کے پس منظر و پیش منظرکو سامنے رکھتے ہوئے اور سیاق و سباق کو ذہن میں لاتے ہوئے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ ’’اسماعیلیت‘‘ ﴿یعنی اوصاف و صفاتِ پیغمبراسماعیل علیہ السلام﴾ علامہ کے ہاں ایک ایسے رویۂ زندگی کا نام ہے جو ہر لحظہ تسلیم و رضائے خداوندی کا جویا ہے- یہ رویہ کمال عشق سے جنم لیتا ہے اور اپنے اندر انسانیت کے لئے ایک خاص پیغام رکھتا ہے- انبیائ کرام کی تاریخ میں یہ کمالِ عشق ’’ذبیح اللہ‘‘ کی شکل میں حضرت اسماعیل کا مقدر بنا- اس سلسلے میں اقبال کے افکار کا نچوڑ یہ نکلتا ہے کہ تسلیم و رضا اور کمالِ عشق کی عملی تصویر مطلوب ہو تو اس کے لئے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سیرت و شخصیت کا مطالعہ کرو- یہی تمہارے لئے کافی ہوگا- 

یہاںایک اور بات قابلِ ذکر ہے کہ علامہ اقبال نے کلام میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لئے ’’ذبیح اللہ‘‘ کی تلمیح اور ’’تسلیم و رضا‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے یہ دونوں بہت پُرزور ہیں اور اقبال ان دونوںکو خصوصی اہمیت دیتے ہیں کیونکہ یہ ’’اسماعیلیت‘‘ ﴿یعنی اوصاف و صفاتِ پیغمبراسماعیل علیہ السلام﴾ کے سب سے نمایاں پہلو ہیں او ریہ عناصر نوجوانانِ ملّت کی صحیح تربیت میں معاون و مددگار ہو سکتے ہیں-علامہ اقبال نے ’’اسماعیلیت‘‘ ﴿یعنی اوصاف و صفاتِ پیغمبراسماعیل علیہ السلام﴾ کے حصول کے لئے ’’فیضانِ نظر‘‘ یعنی کسی صاحبِ نظر کی صحبت کا ذکر بھی کیا ہے- اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی بھی اعلیٰ منزل اور مقام کے حصول کے لئے کامل رہنما کی اکمل رہنمائی کا ہونا از حد ضروری ہے کہ ایسی پاک شخصیات کی رہنمائی ہی:-

۱- آدابِ فرزندی سکھاتی ہے اور سراپا تسلیم و رضا بناتی ہے-

۲- قلوب کی تطہیر کی طرف مائل کرتی ہے ﴿کہ کعبہ سے بتوں کو ہٹانے کے بعد پھر سے اس کی تطہیر تو کب کی ، کی جاچکی ہے﴾-

۳- اللہ کے سوا سب سے بے نیاز کر دیتی ہے اور اس قابل بنا دیتی ہے کہ مردِ مومن ہر قسم کی حتیٰ کہ جان کی قربانی کرنے کے لئے بھی بخوشی تیار ہو جاتا ہے-

علامہ ایسی ہی کامل شخصیات کے متلاشی اور ایسی ہی ’’اسماعیلیت‘‘ ﴿یعنی اوصاف و صفاتِ پیغمبراسماعیل علیہ السلام﴾ کے آرزو مند نظر آتے ہیں جو امّتِ مسلمہ کو عملی لحاظ سے سر بلند کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر