مسئلہ فلسطین پر اُمتِ مسلمہ کا اتحاد : وقت کی اہم ضرورت
سر زمین ِفلسطین پر گزشتہ سات دہائیوں سےاسرائیلی ظلم و جبر اور استحصال کا شکار فلسطینی جرمِ مسلمانی کی سزا بھگت رہےہیں جہاں ہر روز اسرائیلی قابض فورسز کی طرف سےمعصوم شہریوں،عورتوں اور بچوں سے غیر انسانی سلوک کیا جا تا ہے-ہزاروں بے گناہ فلسطینی قابض افواج کے ہاتھوں جام ِ شہادت نوش کرچکے ہیں- ان دنوں بھی غزہ پر مسلسل اسرائیلی جارحیت جاری ہے جس میں فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے-
بیت المقدس پر قبضےکے بعداب اسرائیل، فلسطین کے دیگر علاقوں (غرب اردن یا مغربی کنارہ،وادی اردن، بحرمر دار) کوبھی صیہونی ریاست میں شامل کرنے کا باقاعدہ اعلان کر چکا ہےجس سے واضح ہے کہ اسرائیل فلسطین سےمسلمانوں کو ہمیشہ کیلئےبے دخل کر کے فلسطین میں صرف صیہونی بالا دستی قائم کرنے کی پالیسی پہ عمل پیرا ہے- اسرائیل کے فلسطین پرناجائز قبضےاورمجرمانہ پالیسیوں پرعالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی رہی ہیں-
ستم ظریفی یہ کہ ’’قومے فروختند چہ ارزاں فروختند‘‘ کہ ایک طرف جب فلسطینی مسلمان اپنےحقوق اور بیت المقدس کی آزادی کیلئے اسرائیل کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں تو دوسری طرف معاشی و تجارتی مفاد کی خاطر UAE اور اسرائیل کےمابین ابراہیم ایکارڈ(Abraham Accord) کے نام سےتاریخی امن معاہدے کا اعلان13اگست کو کیا گیا ہےجسے عامۃ المسلمین بالخصوص فلسطینیوں نے یکسر مسترد کر دیا ہے- فلسطینی قیادت کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ فلسطین اور اقصیٰ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کےمترادف ہے- فلسطینی عوام تمام عامۃ المسلمین نے بھی UAE-اسرائیل امن معاہدے کی بھر پور مخالفت کی ہے جبکہ غزہ میں اس معاہدے کے خلاف ہزاروں فلسطینی سراپا احتجاج ہیں-
UAE ( متحدہ عرب امارات) نےدعویٰ کیا ہےکہ اس نےیہ فیصلہ فلسطین اور فلسطینیوں کے بہتر مفاد کیلئےکیا ہےاور اس سے اسرائیل فلسطینی علاقوں میں آباد کاری روک دے گا جبکہ معاہدہ کے اعلان کے بعد اسرائیل نے دوٹوک اعلان کیا ہے کہ وہ وقتی طور پہ تو آبادکاری کو تعطل دے سکتا ہے لیکن اپنے پلان سے دستبردار نہیں ہو گا- پوری دنیا جانتی ہےکہ یہ معاہدہ اسرائیل کےمفادمیں ہےجس سے مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کوبہت بڑا دھچکا لگاہے اوریہ معاہدہ فی الحقیقت UAE کی سفارتی ناکامی ہے- اس معاہدےکےبعد فلسطین کے علاوہ بہت سے مسلم ممالک کی جانب سے اس کی مخالفت میں ردِ عمل سامنے آیا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ مزید بھی مسلمان ممالک ریاستِ اسرائیل کو تسلیم کر کے جلد معاہدے کریں گے- حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ مزید مسلم ممالک بھی اسرائیل کےساتھ مستقبل میں ایسا معاہدہ کرنے کی خفیہ منصوبہ بندی کررہے ہیں -
یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ریاستِ اسرائیل کو تسلیم کرنا اسرائیلی غاصبانہ قبضہ اور ’’سٹیٹس کو‘‘ کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے جوقانونی، اخلاقی اور روحانی کسی بھی اعتبار سے درست قدم نہیں ہو سکتا- موجودہ صورتحال میں یہ بات مسلم دنیا کے حکمرانوں کو ذہن نشین ہونی چاہئے کہ مسجدِ اقصیٰ کی مسلمانوں کیلئے کیا اہمیت ہے- اس سے ہمارا رشتہ رُوحانی ہے اور جب تک مسلمانوں کا اسلام سے رشتہ قائم ہے وہ اپنے اس روحانی ورثہ سے دستبردار نہیں ہو سکتے-بانیانِ پاکستان سے لےکر آج تک پاکستان اپنے اصولی مؤقف پہ قائم ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا حق ملنے تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا-
یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل تک مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا اور نتیجتاً مسلم دنیا امن و سلامتی کی منزل حاصل نہیں کر سکتی- یہ غالب امر ہے کہ بحیثیت مجموعی مسلم ممالک کے عوام کے دل بیت المقدس اور قبلہ اول کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ اپنے روحانی و ملکی فریضہ سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں- چنانچہ آج مسئلہ فلسطین اور کشمیر کا حل امتِ مسلمہ کے اتحاد سے جُڑا ہے جس کیلئے بالخصوص OIC اور عرب لیگ کو مل کر فوری اقدامات کرنے ہونگے کیونکہ یہ سچ ہے کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا ہے جس سے مسلمانوں کی دینی و روحانی نسبت ہے- اس لئےجب تک پوری مسلم قیادت بغیرکسی سمجھوتےیابیرونی دباؤکے متحد ہو کرایک مربوط پالیسی اپناتے ہوئےمسئلہ فلسطین پر عملاً آواز نہیں اٹھاتی اس وقت تک فلسطین کا کوئی ممکنہ حل نظر نہیں آتا-