سورۃ کوثر میں صاحبِ کوثر کے جلوے

سورۃ کوثر میں صاحبِ کوثر کے جلوے

سورۃ کوثر میں صاحبِ کوثر کے جلوے

مصنف: سبینہ عمر جولائی 2021

مَیں پاکستانی ہوں اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ مَیں پاکستانی ہوں اور یقیناً مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے ، مان ہے، نازکرتی ہوں اس نسبت پر، کیونکہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور یہ عطیۂ خداوندی ہے؛ اوراس میں  دوسری کوئی رائے نہیں ہے کہ مدینہ طیبہ کے بعد  دنیا میں سطح زمین پر یہ واحد قلعہ ہے جو نظریاتی طور پر اسلام کے نام   اور کلمہ کی بنیا د پر ڈیزائن کیا گیا-اللہ تعالیٰ کا شکر کرتی ہوں کہ میں اس میں رہتی ہوں آزادی کے ساتھ، اپنے رب کریم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتی ہوں آزادی کے ساتھ، اپنے محبوب کریم حضور خاتم النبیین ، احمد مجتبیٰ، حضرت محمد مصطفےٰ(ﷺ) پر نازل ہونے والی کتابِ حق اور کتابِ ہدایت قرآن مجید کی تلاوت کرتی ہوں آزادی کے ساتھ، اپنے بہن بھائیوں کو قرآن مجید پڑھاتی ہوں آزادی کے ساتھ،شریعتِ محمدی (ﷺ) کے مطابق پردہ کرتی ہوں آزادی کے ساتھ-الغرض! مجھے اپنے دین و مذہب پر زندگی گزارنے میں مکمل طور پر آزادی ہے-اس لئے مَیں کہتی ہوں کہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، ہم جتنا شکر کریں کم ہے کیونکہ اسلام  پر عمل پیرا ہونے میں  آزاد ہونا سطح زمین کے دیگر خطوں پر بسنے والے مسلمانوں کے لئے شاید  ممکن نہ ہو-

اس لئے انسان کو ہر وقت سجدۂ شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اگر انسان اپنے  وجود کے اندر جھانک کر دیکھے تو لاتعداد نعمتیں اللہ تعالیٰ نے اس کے وجود میں رکھی ہیں اور اگر یہ  اپنے وجود کے خارج میں دیکھے یعنی اردگردتو اللہ تعالیٰ کی  نعمتوں کی اتنی کثرت ہے جو اعداد  وشمار میں لائی ہی نہیں جا سکتیں-اس لئے پروردگارِ عالم نے ارشاد فرمایا:

’’وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا‘‘[1]

’’اور اگر اللہ کی نعمتیں گِنو تو شمار نہ کرسکو گے‘‘-

اور سورۃ الرحمٰن  میں  اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کی بار بار یاد دہانی  کروائی   جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’فَبِاَیِّ  اٰلَآءِ  رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ‘‘[2]

’’ تو اے جن و انس تم دونوں اپنے رب کی کون سی نعمت جھٹلاؤ گے‘‘-

پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے بھری پڑی ہے جو گنتی کی حدود سے بالا تر ہے-

ہم یہاں مختصراً سائنسی حقائق بیان کرتے ہیں -

 ناسا کی رپورٹ کے مطابق محقق جنیڈی ڈونچیٹس کہتے ہیں کہ اگر ہم اوپن سٹریٹ میپ کے مطابق حساب لگاتے ہیں تو ایک ساحل اوسطاً 109 کلو میٹر طویل ہے اسی طرح دنیا میں 3لاکھ کلو میٹر طویل ریتیلا سمندری ساحل ہے-مزید بتاتے ہیں ایک مربع میٹر ریت میں دس ارب ذرات ہوتے ہیں-ماہر فلکیات کارل ساگان (Carl Sagan)کے مطابق زمین کے ساحلوں پر جتنے ریت کے ذرات ہیں-کائنات میں اس سے کہیں زیادہ ستارے ہیں-

کائنات میں ’’20 sextillion‘‘ ستارے اور زمین کے ساحلوں پر ’’sextillion 4 ‘‘ ریت کے ذرات ہیں تو گویا کائنات میں سمندری ساحلوں پر موجود ریت کے ذرات سے زیادہ ستاروں کا وجود ہے- کائنات میں تقریباً ایک کھرب کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں میں دو کھرب ستارے ہیں-[3] ہماری کہکشاں میں زمین جیسے سیاروں کی تعداد کم از کم 6 ارب ہے جس میں سورج، نظام شمسی ،چٹانیں اور میدان سب موجود ہیں-[4]

اجرام فلکی کے بعد اگر ہم مختلف جانداروں پر غور کریں اور مختصراً جائزہ لیں تو سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق دنیا میں 87 لاکھ اقسام کے جاندار پائے جاتے ہیں اور زمین کی 14 فیصد اور سمندروں کی صرف 9 فیصد جانداروں کی نشاندہی کی گئی ہے-ڈیرک ٹٹینسر کے مطابق کچھ چھوٹے جاندار ایسے بھی ہیں جہاں تک رسائی نہیں ہو سکی ہے- [5]آسٹریلوی سائنسدانوں کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پرندوں کی تعداد پچاس ارب ہے-گو یا یہ تعداد مجموعی انسانی آبادی کے6گنا برابر ہے اور پرندوں کی مجموعی انواع تمام اسپیشیز کے 92 فیصد کے قریب ہے اللہ تعالیٰ کی سب سے چھوٹی مخلوق کیڑے مکوڑوں کو دیکھیں تو کیڑے مکوڑوں کی تقریباً 55 لاکھ نسلیں ہیں جن میں سے 10 لاکھ تک رسائی ہوئی ہے- [6]

یہ تو ہمارے سیارے پر موجود چند مخلوقات کا مختصراً تذکرہ پیش کیا گیا- علاوہ ازیں فرشتے، جنات اور ماورائے مخلوق اور ایسی مخلوقات کا وجود بھی ہے جن کوعام انسان دیکھ نہیں پاتا-حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت کی لامحدود اور وسیع تر ین کائنات میں موجود اجرام فلکی اور دیگر مخلوقات کو اعداد و شمار میں لانا ماورائے عقل ہے-

اللہ تعالیٰ کی کثرتِ تخلیق کا مطالعہ کر رہی تھی  اور چشمِ تصور میں ہر ہر شئے میں اس کی کبریائی کی شان کا نظارہ کر رہی تھی کہ پڑھتے پڑھتے اچانک سورۃ النساء کی یہ آیت کریمہ  آنکھوں کے سامنے آئی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ ‘‘[7]

’’اے نبی (ﷺ)! فرما  دیجئے دنیا کا سامان بہت قلیل ہے‘‘-

یعنی دنیا کا ساز و سامان قلیل ہے-یہ پڑھ کر میری حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ جس کثرت پر دنگ  بیٹھی تھی اس کو رب جلیل قلیل فرما رہا ہے تو سوچتی رہی کہ یقیناً قرآن نے کسی کو تو کثیر بھی فرمایا ہوگا-اسی چیز کی متلاشی میں گم تھی کہ تخیل میں قلیل سے کثیر ، کثیر سے کوثر اور پھر کوثر سے صاحبِ کوثر کا خیال دل کی وادی میں اتر آیا-اس وقت اللہ عزوجل کا شکر  کرتی ہوں کہ تخیلات کی دنیا میں سورۂ کوثر میں صاحبِ کوثر کی جلوہ گری دیکھ رہی ہوں-اس وجہ سے سورۃ الکوثر کو اپنا موضوع بنا رہی ہوں-

امام مسلم ’’صحیح مسلم‘‘میں روایت کرتے ہیں:

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللهِ (ﷺ) ذَاتَ يَوْمٍ بَيْنَ أَظْهُرِنَا إِذْ أَغْفَى إِغْفَاءَةً ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مُتَبَسِّمًا، فَقُلْنَا: مَا أَضْحَكَكَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: «أُنْزِلَتْ عَلَيَّ آنِفًا سُورَةٌ» فَقَرَأَ: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ {إِنَّا أَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ. فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ. إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ}[8]

’’حضرت انس بن مالکؓ سے روایت  ہے فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ (ﷺ) ہمارے درمیان تھے جب اسی اثناء میں آپ کچھ دیر کے لیے نیند جیسی کیفیت میں چلے گئے، پھر آپ نے مسکراتے ہوئے اپنا سر  مبارک اٹھایا تو ہم نےعرض کی: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنسے؟ آپ نے فرمایا : ابھی مجھ پر ایک سورت نازل کی گئی ہے - پھر آپ نے پڑھا: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ- إِنَّا أَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ- فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ- إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ- ’’بلاشبہ ہم نےآپ کو کوثر عطا کی-پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں ، یقیناً آپ کا دشمن ہی جڑ کٹا ہے‘‘-

سورۃ ’’الکوثر‘‘ کی اپنی ماقبل سورۃ ’’الماعون‘‘ سے  مناسبت:

امام رازی ’’تفسیر کبیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ  سورۃ الکوثر اپنی ماقبل سورۃ کے بہ منزلہ مقابلے کے ہے-کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے منافق یا مشرک کے چار وصف بیان فرمائے تھے:

پہلا وصف :

سورۃ الماعون  میں منافق کا پہلا وصف یہ  بیان فرمایا ہے کہ وہ  بخیل ہوتا ہے کیونکہ ’’وہ یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر برا نگیختہ نہیں کرتا‘‘-[9]اس سورت کوثر میں بخل کے مقابلہ میں فرمایا:’’ہم نے آپ کوکوثر عطا کی ہے‘‘-[10]یعنی آپ بھی بہ کثرت عطا کیجئے-

دوسرا وصف:

سورۃ الماعون میں منافق کا دوسرا وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ ’’وہ  نماز نہیں پڑھتا‘‘-[11]اس کے مقابلہ میں اس سورت  کوثر میں فرمایا: ’’سو آپ نماز پڑھتے رہیے‘‘-[12]یعنی ہمیشہ نماز پڑھتے رہیے-

تیسرا وصف:

سورۃ الماعون میں منافق کا تیسرا وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ’’وہ ریا کاری کرتا ہے‘‘-[13]اس کے مقابلہ میں الکوثر میں فرمایا ہے:’’ لِرَبِّكَ ‘‘[14]یعنی اپنے رب کی رضا کے لیے نماز پڑھیے نہ کہ لوگوں کو دکھانے کے لیے-

چوتھا وصف:

سورۃ الماعون میں منافق کا چوتھا وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ ’’وہ زکوٰۃ نہیں ادا کرتا‘‘-[15]اس کے مقابلہ میں الکوثر میں فرمایا:’’وَانْحَرْ‘‘[16]یعنی آپ قربانی کیجئے اور اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ آپ قربانی کا گوشت لوگوں میں تقسیم کیجئے؛ اور سورۃ الکوثر کے آخر میں فرمایا:’’إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ‘‘[17] یعنی منافق جو ان کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کر رہا ہے وہ عنقریب مر جائے گا اور دنیا سے اس کا نام و نشان مٹ جائے گا اور آپ (ﷺ) کا ذکر جمیل دنیا میں قیامت تک ہوتا رہے گا اور آخرت میں آپ (ﷺ)کوثواب جزیل حاصل ہوگا-[18]

سورۃ الکوثر کا شانِ نزول:

روح المعانی عربی تفسیر علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی کی تصنیف ہے اس تفسیر کا مکمل نام ’’روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی‘‘ ہے-اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں:

’’عن ابن عباس رضی الله عنها قال کان اکبر ولد رسول الله (ﷺ) القاسم ثم زينب ثم عبد الله ثم ام کلثوم ثم فاطمه ثم رقيه فمات القاسم عليه السلام وهو اول ميت من ولده عليه السلام بمکة ثم مات عبدالله عليه السلام فقال العاص بن وائل السهمی قد انقطع نسله فهو ابتر فانزل الله تعالیٰ ان شَانِئَكَ اوالابتر.

’’حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ)  کے سب سے بڑے صاحبزادے حضرت قاسم تھے، اس کے بعد سیدہ زینب، اس کے بعد عبداللہ، اس کے بعد ام کلثوم، اس کے بعد حضرت فاطمہ، اس کے بعد حضرت رقیہؓ - جب حضرت قاسم کا وصال ہوگیا تو مکہ شریف میں آقا کریم (ﷺ) کے صاحبزادوں میں یہ سب سے پہلے تھے جن کا وصال ہوگیا- اس کے بعد حضرت عبداللہ کا وصال ہو گیا تو عاص بن وائل سہمی نے کہا کہ بس پیغمبر اسلام (ﷺ) کی نسل ختم ہو گی (معاذ اللہ) ’’فھو ابتر‘‘ پس بے نام و نشان ہو گئے-تو اس وقت یہ سورت نازل ہوئی اور فرمایا کہ محبوب تیرا دشمن بے نام و نشان ہو گا تمہارا دین اور رسالت اور نبوت قیامت تک قائم رہیں گے‘‘-[19]

جب سیّد المرسَلین (ﷺ) کے فرزند حضرت قاسم ؓ کا وصال ہوا تو کفار نے آپ کو اَبتر یعنی نسل ختم ہو جانے والا کہا اور یہ کہا کہ اب اُن کی نسل نہیں رہی،ان کے بعد اب ان کا ذکر بھی نہ رہے گا اوریہ سب چرچا ختم ہوجائے گا اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ اُن کفار کا رد بلیغ فرمایا اور اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ

’’اے حبیب! (ﷺ) بیشک تمہارا دشمن ہی ہر بھلائی سے محروم ہے نہ کہ آپ، کیونکہ آپ کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا، آپ کی اولاد میں بھی کثرت ہوگی اور آپ کی پیروی کرنے والوں سے دنیا بھر جائے گی، آپ کا ذکر منبروں پر بلند ہوگا،قیامت تک پیدا ہونے والے عالِم اور واعظ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کرتے رہیں گے اور آخرت میں آپ کے لئے وہ کچھ ہے جس کا کوئی وصف بیان ہی نہیں کر سکتا تو جس کی یہ شان ہے وہ اَبتر کہاں ہوا، بے نام و نشان اور ہر بھلائی سے محروم تو آپ کے دشمن ہیں‘‘-[20]

کوثر کا معنیٰ:

مفتی احمد یار خان نعیمی ’’تفسیر نور العرفان ‘‘میں کوثر کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’کوثر بروزن فوعل مبالغہ کا صیغہ ہے کثرت سے بنا، کثیر زیادہ،اکثر بہت زیادہ، کثار بہت ہی زیادہ اور کوثر بے حد زیادہ جو خلق کی عقل و فہم سے ماوراء ہے‘‘-

کوثر کے معنیٰ کی وضاحت:

اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو فضائل کثیرہ عنایت فرما کرتمام خلق پر افضل کیا- حُسنِ ظا ہر بھی دیا، حُسنِ باطن بھی، نسبِ عالی بھی، نبوت بھی، کتاب بھی،  حکمت بھی، علم بھی،  شفاعت بھی، حوضِ کوثر بھی، مقامِ محمود بھی،  کثرتِ امت بھی،اعداءِ  دین پر غلبہ بھی، کثرتِ فتوح بھی اوربے شمارنعمتیں اورفضیلتیں جن کی انتہاء نہیں-اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

إِنَّا أَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ
ساری کثرت پاتے یہ ہیں

اب کون ہے جو ان بے شمار اور بے انتہاء فضائل اور خوبیوں کا شمار کر سکے-کوثر کثیر سے مبالغہ کا صیغہ ہے کوثر کے معنیٰ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ وغیرہ اور آئمہ تفسیر سے  ’’خیر کثیر‘‘ منقول ہے-

کثیر کی ضد قلیل ہے -اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًۢ‘‘[21]

’’بہت سی قلیل جماعتیں کثیر جماعتوں  پہ غالب آئیں‘‘-

قرآن مجید کے اس مقام سے یہ واضح ہوا کہ قلیل کا متضاد کثیر ہے-اور یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ دنیا کا سازو سامان قلیل ہےیعنی اشیائے خوردنی، ذرائع آمدو رفت، غرض یہ کہ حیوانات، نباتات، جمادات،اربوں کھربوں چیزیں ہیں جو دنیا کا سازو سامان ہیں جو ہمارے شمار سے باہر ہیں اللہ تعالیٰ نے ان سب کو قلیل فرمایا ہے کثیر نہیں-اللہ جل شانہ نے  جو فضائل و کمالات نعمتیں اور خوبیاں اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کو عطا فرمائیں  ہیں وہ قلیل بھی نہیں ہیں  ،وہ کثیر بھی نہیں ہیں بلکہ کوثر ہیں  یعنی کثیر در کثیر ہیں-جب رب اکبر کے ہاں کا قلیل بھی ہمارے شمار سے افزوں تر ہے پھر اس کے ہاں کا کثیر اور پھر کثیر در کثیر اور پھر کوثر ، تو اس کا شمار کون کر سکتا ہے؟ اس کا کون حصر کر سکتا ہے؟ کس کی طاقت کہ اُس کا احصار اور احاطہ کرے-  لہٰذا ثابت ہوا  کہ حضور پاک (ﷺ) کے فضائل کی کوئی حد نہیں ہے-

لفظ کوثر کی تفسیراحادیثِ رسول (ﷺ) سے:

حضرت انس ؓ کی روایت میں ہےکہ جب آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ  ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے اور پھر آقا کریم (ﷺ) نے سورۃ الکوثر کی تلاوت فرمائی اور صحابہ کرام ؓ سے پوچھا:

«أَتَدْرُوْنَ مَا الْكَوْثَرُ؟»    

’’ کیا تم جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ ‘ ‘-

صحابہ کرام نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں-آپ (ﷺ) نے فرمایا : وہ ایک نہر ہے جس کا میرے رب عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے، اس پر بہت بھلائی ہے اور وہ ایک حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت پانی پینے کےلیے آئے گی، اس کے برتن ستاروں کی تعداد میں ہیں‘‘-[22]

’’عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا ، قَالَ: سَأَلْتُهَا عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى إِنَّا أَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ [الکوثر:1]قَالَتْ: نَهَرٌ أُعْطِيَهُ نَبِيُّكُمْ (ﷺ) شَاطِئَاهُ عَلَيْهِ دُرٌّ مُجَوَّفٌ آنِيَتُهُ كَعَدَدِ النُّجُومِ ‘‘[23]

’’حضرت ابو عبیدہ ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’ إِنَّا أَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ ‘‘یعنی ”ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے“ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ یہ (کوثر) ایک نہر ہے جو تمہارے حضور نبی کریم (ﷺ) کو بخشی گئی ہے، اس کے دو کنارے ہیں جن پر خولدار موتیوں کے ڈیرے ہیں- اس کے آبخورے ستاروں کی طرح ان گنت ہیں‘‘-

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ): بَيْنَا أَنَا أَسِيرُ فِي الجنَّةِ إِذا أَنا بنهر حافتاه الدُّرِّ الْمُجَوَّفِ قُلْتُ: مَا هَذَا يَا جِبْرِيْلُ؟ قَالَ: الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَ رَبُّكَ فَإِذَا طِينُهُ مِسْكٌ أذفر (رَوَاهُ البُخَارِيّ ) [24]

’’حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا :’’ (معراج کی رات) میں جنت میں چل رہا تھا کہ اچانک میں ایک نہر پر پہنچا ، اس کے دونوں کناروں پر خول دار موتیوں کے گنبد تھے ، میں نے کہا: جبریل ! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا : یہ کوثر ہے ، جو آپ کے رب نے آپ کو عطا فرمائی ہے ، میں نے دیکھا کہ اس کی مٹی اعلیٰ خوشبو والی کستوری تھی‘‘ -

’’عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ: قَالَ لِی مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ: مَا سَمِعْتَ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍیَذْکُرُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی الْکَوْثَرِ، فَقُلْتُ: سَمِعْتُہُ یَقُولُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ہٰذَا الْخَیْرُ الْکَثِیرُ، فَقَالَ مُحَارِبٌ: سُبْحَانَ اللّٰہِ مَا أَ قَلَّ مَا یَسْقُطُ لِابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلٌ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ لَمَّا أُنْزِلَتْ {إِنَّا أَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ} قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ﷺ): (ہُوَ نَہَرٌ فِی الْجَنَّۃِ حَافَتَاہُ مِنْ ذَہَبٍ، یَجْرِی عَلٰی جَنَادِلِ الدُّرِّ وَ الْیَاقُوتِ، شَرَابُہُ أَ حْلٰی مِنَ الْعَسَلِ، وَأَ شَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَ بْرَدُ مِنْ الثَّلْجِ، وَأَ طْیَبُ مِنْ رِیحِ الْمِسْکِ) قَالَ: صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ ھٰذَا وَاللّٰہِ الْخَیْرُ الْکَثِیْرُ‘‘[25]

’’عطاء بن سائب کہتے ہیں: محارب بن دثار نے مجھ سے کہا: تم نے سعید بن جبیر سے کوثر کے بارے میں سیدنا ابن عباسؓ کی کوئی بات سنی ہے؟ انہوں نے کہا:جی انہوں نےفرمایا ہے کہ کوثر سے مراد خیر کثیر ہے، محارب نے کہا: سبحان اللہ ابن عباسؓ کی بات معتبر ہی ہوتی ہے، میں نے سیدنا ابن عمرؓ کو کہتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا: جب ’’إِنَّا أَ عْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ‘‘ نازل ہوئی، تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا: یہ جنت میں ایک نہر ہے، اس کے کنارے سونے کے ہیں،یہ موتیوں اور یا قوت کی نالیوں میں بہتی ہے، اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا، دودھ سے زیادہ سفید، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری کی خوشبو سے زیادہ مہک والا ہے- سیدنا ابن عباسؓ نے بالکل سچ کہا، اللہ کی قسم! یہ بہت زیادہ خیر اور بھلائی ہے‘‘-

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ (ﷺ)‏‏‏‏ بَيْنَا أَنَا أَسِيرُ فِي الْجَنَّةِ إِذْ عُرِضَ لِي نَهْرٌ حَافَّتَاهُ قِبَابُ اللُّؤْلُؤِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ لِلْمَلَكِ:‏‏‏‏ مَا هَذَا؟ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَهُ اللهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ إِلَى طِينَةٍ فَاسْتَخْرَجَ مِسْكًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَيْتُ عِنْدَهَا نُورًا عَظِيمًا . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ. [26]

’’حضرت انسؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: ”میں جنت میں چل  رہا تھا کہ اچانک میرے سامنے ایک نہر پیش کی گئی جس کے دونوں کناروں پر موتی کے گنبد بنے ہوئے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہی وہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو دی ہے- پھر انہوں نے اپنا ہاتھ مٹی تک ڈال دیا، نکالا تو وہ مشک کی طرح مہک رہی تھی، پھر میرے سامنے سدرۃ المنتہیٰ لا کر پیش کی گئی، میں نے وہاں بہت زیادہ نور ( نور عظیم ) دیکھا“- امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، یہ حدیث کئی اور سندوں سے بھی حضرت انسؓ سے آئی ہے-

لفظ کوثر کی تفسیر میں مفسرین کرام کے اقوال:

امام قرطبی ’’تفسیر قرطبی‘‘ میں لفظِ کوثر کی تفسیر میں  مختلف اقوال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

v      أَنَّ الْكَوْثَرَ النُّبُوَّةُ وَالْكِتَابَ،قَالَهُ عِكْرِمَةُ

عکرمہ نے کہا: کوثر سے مراد نبوت اور کتاب ہے -

v     الْقُرْآنُ، قَالَهُ الْحَسَنُ

حسن بصری نے کہا: کوثر سے مرادقر آ ن ہے-

v     الْإِسْلَامُ، حَكَاهُ الْمُغِيرَةُ

المغیر ہ نے کہا: کوثر سے مرادا سلام ہے -

v     هُوَ كَثْرَةُ الْأَصْحَابِ وَالْأُمَّةِ وَالْأَشْيَاعِ، قَالَهُ أَبُو بَكْرِ بن عياش

ابوبکر بن عیاش نے کہا: کوثر سے مراد آپ کے اصحاب، آپ کی امت اور آپ (ﷺ) کے متبعین کی کثرت ہے-

v     تَيْسِيرُالْقُرْآنِ وَتَخْفِيفُ الشَّرَائِعِ، قَالَهُ الْحُسَيْنُ بْنُ الْفَضْلِ

الحسین بن الفضل نے کہا: کوثر سے مرادقرآن کو آسان کرنا اور احکام شرعیہ میں تخفیف ہے-

v     أَنَّهُ الْإِيثَارُ، قَالَهُ ابْنُ كَيْسَانَ

ابن کیسان نے کہا: کوثر سے مرادا یثار ہے -

v     أَنَّهُ رِفْعَةُ الذِّكْرِ. حَكَاهُ الْمَاوَرْدِيُّ

الماور دی نے کہا: کوثر سے مراد آپ (ﷺ)کے ذکر کی بلندی ہے-

v     أَنَّهُ نُورٌ فِي قَلْبِكَ دَلَّكَ عَلَيَّ، وَقَطَعَكَ عَمَّا سِوَايَ

کوثر سے مراد آپ (ﷺ)کے دل کا وہ نور ہے جس نے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ماسوا سے منقطع کر دیا ہے-

v     هُوَ الشَّفَاعَةُ

کوثر سے مراد شفاعت ہے-

v     وَقِيلَ: مُعْجِزَاتُ الرَّبِّ هُدِيَ بِهَا أَهْلُ الإجابة لدعوتك، حكاه الثَّعْلَبِيُّ

الثعلبی نے کہا: کوثر سے مراد آپ (ﷺ) کے معجزات ہیں جن سے آپ کی امت کو ہدایت حاصل ہوئی -

v     قَالَ هِلَالُ بْنُ يَسَافُ: هُوَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ

ہلال بن یساف نے کہا: کوثر سے مراد’لاالہ الا الله محمد رسول اللہ ‘‘ (ﷺ)ہے-[27]

امام فخر الدین رازی ’’تفسیر کبیر‘‘ میں کوثر کی تفسیر میں مختلف اقوال نقل فرمائے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

v     الْكَوْثَرُ أَوْلَادُهُ

کوثر سے مراد آپ (ﷺ) کی اولادِ اطہار ہے-یعنی اہل بیت ہے

v     الْكَوْثَرُ عُلَمَاءُ أُمَّتِهِ

کوثر سے مراد علمائے امت ہیں

v     اِنَّہٗ حَوْضٌ

کوثر سے مراد حوضِ کوثر ہے

v     أَنَّ الْمُرَادَ مِنَ الْكَوْثَرِ جَمِيعُ نِعَمِ اللهِ عَلَى مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ،

بے شک کوثر سے مراد حضور نبی کریم (ﷺ) پر ہونے والی تمام نعمتیں مراد ہیں-

v     الْكَوْثَرَ الْفَضَائِلُ الْكَثِيرَةُ الَّتِي فِيهِ، فَإِنَّهُ بِاتِّفَاقِ الْأُمَّةِ أَفْضَلُ مِنْ جَمِيعِ الْأَنْبِيَاءِ،

کوثر سے مراد ذاتِ مصطفےٰ (ﷺ) میں پائے جانے والے کثیر فضائل ہیں اور اس پر امت کا اتفاق ہے کہ آپ (ﷺ) تمام انبیاء سےافضل ہیں-

v     أَنَّهُ الْعِلْمُ

کوثر سے مراد علم  مصطفےٰ (ﷺ)ہے

v     الْكَوْثَرُ هُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ

کوثر سے مراد مقامِ محمود ہے

v     أَنَّ الْمُرَادَ مِنَ الْكَوْثَرِ هُوَ هَذِهِ السُّورَةُ

کوثر سے مراد یہی سورت سورۃ الکوثر ہے

سورۃ الکوثر میں صوفیانہ نکات:

امام فخر الدین رازی ’’تفسیر کبیر‘‘ میں  سورۃ الکوثر کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

’’اس سورت کے لطائف میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سالکوں کے تین درجات ہیں:

سب سے پہلا درجہ یہ ہے کہ ان کے دل اور ارواح اللہ کے نور جلال میں مستغرق ہوتے ہیں-

دوسرا درجہ یہ ہے کہ وہ طاعات اور عبادات بدنیہ میں مصروف ہوتے ہیں -

تیسرا درجہ یہ ہے کہ وہ اس مقام پر ہیں کہ نفس کو لذات حسیہ اور شہوات عاجلہ سے روکنے والے ہیں

’’إِنَّا أَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ‘‘ مقام اول کی طرف اشارہ ہے وہ یوں کہ آپ (ﷺ) کی روح مقدس باقی ارواح بشر یہ کی نسبت ، کیمیت اور کیفیت میں ممتاز ہے-۔ کیمیت میں اس لیے کہ وہ تمام مقدمات میں آگے ہے اور کیفیت میں اس لیے کہ مقدمات سے نتائج کی طرف تمام ارواح سے جلدی منتقل ہونے والی ہے-

’’ فَصَلِّ لِرَبِّكَ ‘‘ دوسرے مرتبے کی طرف اشارہ ہے

’’وَانْحَرْ‘‘تیسرے مرتبے کی طرف- کیونکہ نفس کو لذات عاجلہ سے روکنا یہ نحر اور ذبع کا درجہ ہی رکھتا ہے- پھر فرمایا ’’إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ‘‘جس کا مفہوم یہ ہے وہ نفس جو تمہیں ان محسوسات اور شہوات عاجلہ کی دعوت دیتا ہے وہ سب کی سب فنا ہونے والی ہیں اور آپ کے رب کے ہاں باقیات صالحات ہی بہتر ہیں او وہ سعادات روحانیہ اور معارف ربانیہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں -

شیخ الاسلام حضرت امام احمد رضا خان قادریؒ ’’فتاویٰ رضویہ ‘‘فرماتے ہیں:

”عاص بن وائل شقی نے جو صاحبزادہ سید المرسلین کے انتقال پر ملال پر حضور(ﷺ) کو ابتر یعنی نسل بریدہ کہا حق جل و علا نے فرمایا -’’إِنَّا أَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ‘‘ بیشک ہم نے تمہیں خیر کثیر عطا فرمائی،کہ اولاد سے نام چلنے کو تمہاری رفعت ذکر سے کیا نسبت-کروڑوں صاحب اولاد گزرے ہیں جن کا نام تک کوئی نہیں جانتا اور تمہاری ثناء کا ڈنکا تو قیام قیامت تک اکناف عالم و اطراف جہاں میں بجے گا اور تمہارے نام نامی کا خطبہ ہمیشہ ہمیشہ اطباق فلک آفاق ،زمین میں پڑھا جائے گا -پھر اولادبھی تمہیں وہ نفیس و طیب عطا ہوگی جس کی بقا سے بقائے عالم مربوط رہے گی-اس کے سوا تمام مسلمان تمہارے بال بچے ہیں اور تم سا مہربان ان کیلیے کوئی نہیں بلکہ حقیقت کارکو نظر کیجئے تو تمام عالم تمہاری اولاد معنوی ہےکہ تم نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا اور تمہارے ہی نور سے سب کی آفرینش ہوئی- اسی لیے جب ابو البشر آدم تمہیں یاد کرتے ہیں تو یوں کہتے ہیں (یا ابنی صورۃ و ابی معنی)[28] اے میرے ظاہر بیٹے اور حقیقت میں میرے باپ-پھر آخرت میں جو تمہیں ملنا ہے اس کا حال تو خدا ہی جانے-جب اس کی یہ عنایت بے غایت تم پر مبذول ہو تو تم ان اشقیاء کی زبان درازی پر کیوں ملول ہو بلکہ ’’فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ‘‘رب کے شکر میں نماز پڑھو اور قربانی کرو ’’إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ‘‘جو تمہارا دشمن ہے وہی نسل بریدہ ہے کہ جن بیٹوں پر انہیں ناز ہے یعنی عمرو و ہشام ؓ وہی اس کے دشمن ہو جائیں گے اور تمہارے دین میں آکر بوجہ اختلاف دین اس کی نسل جدا ہوکر تمہارے دینی بیٹوں میں شمار کیے جائیں گے-پھر آدمی بے نسل ہوتا ہے تویہی سہی کہ نام نہ چلتا اس سے نام بدکا باقی رہنا ہزار درجہ بدتر ہے- تمہارے دشمن کا ناپاک نام ہمیشہ بدی و نفرین کے ساتھ لیا جائے گا اور روز قیامت ان گستاخیوں کی پوری سزا پایگا-و العیاذ باللہ تعالیٰ“ [29]

خلاصہ کلام:

سورۃ الکوثر اپنے تمام معانی اور مفاہیم کے ساتھ آقا کریم حضور خاتم النبیین رحمۃ للعالمین احمدمجتبیٰ سیدنا حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کی رفعت و بلندی اور شان و عظمت کا  ایک عظیم پہلو ہے-لمحہ بہ لمحہ اور لحظہ بہ لحظہ  آپ (ﷺ) کے درجات و فضائل بڑھتے جا رہے ہیں جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

  وَ لَلْاٰخِرَۃُ  خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی    [30]

’’اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے‘‘-

اس لئےیہ بجا فرمایا گیا ہے:

لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

’’آپ (ﷺ) کی ثنا کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں قصہ مختصر یہ کہ خدا کے بعد آپ (ﷺ) ہی بزرگ ہیں‘‘-

٭٭٭


[1](ابراہیم:34)

[2](الرحمٰن :13)

[7](النساء:77)

[8](صحیح مسلم، رقم الحدیث:894)

[9]( الماعون،2-3)

[10](الکوثر:1)

[11]( الماعون:5 )

[12](الکوثر:2)

[13]( الماعون:6 )

[14](الکوثر:2)

[15](الماعون:7)

[16](الکوثر :3)

[17](الکوثر :3)

[18](تبیان القرآن، ج:12، ص:998-999)

[19]( روح المعانی، ج:15، جز:30، ص:286)

[20](تفسیر مدارک، زیر آیت سورۃ الکوثر:3)

[21](البقرۃ:249)

[22](صحیح مسلم، رقم الحدیث:894)

[23](صحیح البخاری، رقم الحدیث:4965)

[24](مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث:5566)

[25](مسند احمد، رقم الحدیث:8843)

[26](سنن ترمذی، رقم الحدیث:3360)

[27](الجامع لاحکام القرآن، جز:20، ص:194)

[28]( المدخل لابن الحاج فصل فی مولد النبی (ﷺ)، ج:1، ص:34 دار الکتب العربی بیروت  )

[29]( فتاویٰ رضویہ، ج:30، ص:167-168)

[30](والضحیٰ:4)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر