رپورٹ 13 اپریل : سالانہ میلادمصطفےٰﷺ وحق باھوکانفرنس

رپورٹ 13 اپریل : سالانہ میلادمصطفےٰﷺ وحق باھوکانفرنس

رپورٹ 13 اپریل : سالانہ میلادمصطفےٰﷺ وحق باھوکانفرنس

مصنف: ادارہ جون 2018

ہر سال کی طرح اس سال بھی آستانہ عالیہ شہازِ عارفاں حضرت سلطان  محمد عبد العزیز (قدس اللہ سرّہٗ) پر عظیم الشان میلادِ مصطفےٰ (ﷺ) اور عرس مبارک کی پُروقار تقریب کا اہتمام  کیا گیا جس کی صدارت  جانشین ِ سلطان الفقرسرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت  و عالمی تنظیم العارفین،جگر گوشہ بانی اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)نے فرمائی-اس پروگرام میں جہاں ملک بھر سےطالبانِ مولیٰ و عُشّاقانِ مُصطفےٰ عامۃ الناس ، علمائے کرام ، مشائخ عظام ، اہلِ فکرودانش ، دانشوروں ، صحافیوں ، ایم این ایز،ایم پی ایز،صوبائی و وفاقی وزراء وغیرہ نے شرکت کی وہاں ہر سال کی طرح  بیرون ممالک سے بھی بڑی تعداد میں لو گ اکتساب ِ فیض کے لیے حاضر ہوئےچونکہ یہ ایک عالمی اجتماع تھااس لیے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی-اس پروگرام میں لاکھوں شرکاء کے والہانہ  شوق کا عالَم دیدنی ہوتا ہے دنیاوی اغراض و مقاصد سے بے نیاز تا حدِ نظر لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتا ہے-ملک کے تمام صوبوں سےکئی  لوگ قافلوں کی شکل میں وقت سے پہلے ہی پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں-اس مختلف رنگ ونسل کے اجتماع میں جوچیز مشترک ہوتی ہے وہ  ہے اللہ پاک کی رضا کے لیے جذبہ صادق اور عشقِ مُصطفےٰ (ﷺ) -تمام شرکاء اسی جذبہ کو مزید اجاگر کرنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں کیونکہ یہی وہ جذبہ ہے جو دور دراز سے آنے والے زائرین کو سفر کی طوالت اور تھکاوٹ کا احساس نہیں ہونے دیتا-

12اپریل بروز جمعرات بعد از نماز مغرب پہلی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں قاری محمد ریاض قادری صاحب نے احسن انداز میں تلاوت قرآن مجید کا شرف حاصل کیا-اس کے بعدصوفی غلام شبیر صاحب اور محمد رمضان سلطانی صاحب نے نعتیہ  کلام اور ابیاتِ باھو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کئے اور مفتی محمد منظور حسین صاحب نےاپنے خطاب سے لوگوں کے دلوں کو محظوظ کیا-اس کے بعد 13 اپریل کو دوسری نشت کے آغاز میں  صاحبزادہ میاں محمدضیاء الدین صاحب نے خطاب فرما کر لوگوں کے قلوب و اذہان کو مزید جلا بخشی-اس کے بعد ساڑھے چار گھنٹے کا طویل تحقیقی و خصوصی خطاب شہزادۂ بانی اصلاحی جماعت، چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ ،سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے فرمایا-

اپریل 2018ء میں منعقدہ اجتماع کی مختصر جھلک:

سالانہ اجتماع  کی ترتیب کچھ یوں ہوتی ہے کہ ملک بھر سے قافلے اس مبارک محفل میں شرکت کے لئے حاضر ہوتے ہیں-گڑھ مہاراجہ شہر سے دربار عالیہ حضرت سلطان باھُو صاحب قدس اللہ سرّہ کی طرف آنے والے مین روڈ سے آستانہ عالیہ حضرت سلطان محمد عبد العزیز قدس اللہ سرّہ تک عالمی تنظیم العارفین کے کارکن اور محافظ فرائض کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف یونیفارم میں ہر ہر مرحلے پر راہنمائی کے لئے موجود ہوتے ہیں-ابتدائی مرحلے میں پارکنگ سٹاف، انتظامیہ کے احکامات کے مطابق پروگرام میں شرکت کرنے والی ہزاروں گاڑیوں کو اُن کے حجم  کے اعتبار سے پارکنگ کا اہتمام کرتے ہیں-اس نظم و ضبط کی وجہ سےپروگرام کے شرکاء کو واپسی پر اپنی گاڑی تک رسائی میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا-گاڑیوں کی پارکنگ کے بعد سیکیورٹی چیکنگ کا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں تین مختلف چیک پوسٹوں پر چیکنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے-نشست کے بعد پنڈال میں موجود لاکھوں کا مجمع نمازِ ظُہر  کی ادائیگی کے بعد تقریباً نصف گھنٹہ میں لنگر شریف تناول کرنے کے بعد واپسی کی تیاریاں شروع کر دیتا ہے ، دیکھنے والے اور شُرکا اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے کارکنان کے حُسنِ انتظام پہ متحیر و ششدر رہ جاتے ہیں کہ کیسے اتنے بڑے انسانی سمندر کو صرف آدھ گھنٹے میں کھانا پیش کر کے فارغ ہو جاتے ہیں-پروگرام کے آغاز سے لے کر اختتام تک تنظیم العارفین کے سیکیورٹی رضاکاروں کے علاوہ علاقے کی حکومتی انتظامیہ بھی بھر پور تعاون کرتی ہے-کسی حادثہ کی صورت میں ایمبولنسز ، فائر بریگیڈ کی فراہمی سے لے کر موبائل سروسز کا گشت اس پروگرام کے اختتام تک جاری رہتا ہے-

خصوصی خطاب کا مختصر خلاصہ:

صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کا خصوصی خطاب بُنیادی طور پہ معراج النبی (ﷺ) کے موضوع پہ تھا ، آپ نے سفرِ معراج کے دوران پیش آمدہ واقعات سے اخذ ہونے والے مسائل پہ بھی روشنی ڈالی-سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین صاحبزادہ صاحب نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے ہر مخصوص فعل کے لئے مخصوص وقت کا تعین فرمایا ہے-تعیین دوقسم کی ہوتی ہے ،ایک تعیین ِ شرعی اور دوسری تعیین عرفی-تعیین ِ شرعی وہ ہوتی ہے جس کا تعین اللہ اور اس کےرسول کریم(ﷺ) نے فرمایا ہو اور وہ کام انہی مقررہ ایام میں جائز ہو دوسرے ایام میں جائز نہ ہو جیسے ایامِ حج ، ایامِ صوم، ایامِ قربانی وغیرہ-تعیینِ عرفی، یہ بھی عمل صحابہ (رضی اللہ عنھم) سے ثابت ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے وعظ و نصیحت کے لئے جمعرات کا دن متعین کر رکھا تھا اس لئے سوئم، چالیسواں، برسی، محفلِ میلاد یا حضور غوث ِ پاک (قدس اللہ سرہٗ)کو ایصال ِ ثواب کرنے کےلیے جیسے گیارھویں شریف یا نفلی صدقہ اور خیرات کے لیے مسلمانوں کا اپنی سہولت کے لیے دن مقرر کرناتعیین عرفی میں آئے گا- اسی طرح نکا ح یا دعوتِ ولیمہ یا ختمِ بخاری یا دستارِ فضیلت کے لیے تاریخ مقرر کرنا یہ بھی اسی ضمن میں آئے گا اور اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں  ہے-

اسی طرح صاحبزادہ صاحب نے اس نکتہ کو بڑے احسن انداز سے بیان فرمایا کہ بوقت معراج سرورِ دو عالم (ﷺ)اللہ تعالیٰ کےدیدار سے مشرف ہوئےاور دلیل میں یہ روایت بیان فرمائی کہ :

’’الشَّيْخُ أَبُو الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيُّ وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِهٖ (أَنَّ مُحَمَّدًا (ﷺ) رَاَى اللهَ بِبَصَرِهٖ وَعَيْنَيْ رَأْسِهٖ. وَكَانَ الْحَسَنُ يَحْلِفُ بِاللَّهِ الَّذِيْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ‘‘[1]

 

’’حضرت شیخ ابو الحسن اشعری اور آپؒ کےاصحابؒ کی ایک جماعت کا یہی مؤقف ہےکہ حضرت محمد (ﷺ)نے اپنی نظر کے ساتھ اور اپنے سر کی آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہےاورحسن بصری (رضی اللہ عنہ)اللہ کی قسم کھایا کرتے تھےکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں یقیناً حضرت محمد (ﷺ) نے اپنے رب کو دیکھا ہے‘‘-

اسی طرح آپ نےمسئلہ حیات الانبیاء (ﷺ) کو اجاگر کرتے ہوئے  حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے روایت کردہ حدیث مبارکہ کو بیان فرمایا کہ  رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مَرَرْتُ عَلٰى مُوْسٰى لَيْلَةَ أُسْرِىَ بِىْ عِنْدَ الْكَثِيْبِ الأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّى فِى قَبْرِهٖ‘‘[2]

 

’’جس رات مجھے معراج  کرائی گئی  میراحضرت موسی علیہ السلام پر کثیب احمر  کے پاس گزر ہوا  اس وقت  وہ   اپنی قبر میں  کھڑے  ہوئے  نماز پڑھ رہے تھے‘‘-

پھر آپ نے امام بیہقیؒ کی روایت بیان فرمائی جس کو امام ہیثمی نے’’مجمع الزوائد ‘‘میں نقل کیا ہےکہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

اَلْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِيْ قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ‘‘

 

’’انبیاءکرام (علیہھم السلام) اپنی قبور میں حیات ہیں اورنماز پڑھتے ہیں‘‘-

مزید صاحبزادہ صاحب نےمسئلہ حیات النبی (ﷺ)کو سلطان العارفین حضرت سلطان باھوصاحب(قدس اللہ سرّہٗ) کی کتب سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:

’’سن! اگر کوئی شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات کو مردہ سمجھ بیٹھے تو اُس کا ایمان سلب ہو جاتا ہے‘‘-[3]

’’تمام اُمت کی حیات و زندگی اور تمام محبت جو ہر ایک اُمتی کے مغز و پوست میں جاری و ساری ہے اُس کا دارو مدار حیات النبی (ﷺ) کے عقیدے پر ہے-جو کوئی حیات النبی (ﷺ) کا قائل نہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مردہ سمجھتا ہے اُس کے منہ میں مٹی، دنیا و آخرت میں اُس کا منہ کالا، وہ شفاعت ِمحمد رسول اللہ (ﷺ) سے محروم ہے‘‘-[4]

حیاتُ النبی (ﷺ) کے اعتقاد کا سبق اہل ِعرب (اہل حجاز) سے سیکھو کہ وہ حرمِ پاک میں روضۂ رسول (ﷺ) کے دروازہ پر آکر اِلتماس کرتے ہیں: ’’ اے سید الا برار زندہ نبی (ﷺ) بارگاہ ِ اِلٰہی سے ہمار ا فلاں کام کروا دیں اوراُن کے سوال کا جواب اُنہیں مشروحاً مل جاتا ہے اور اُن کے یقین و اعتبار کے باعث اُن کا کام بھی ہو جاتا ہے- جسے حیات النبی (ﷺ) کا اعتبا ر نہیں وہ ہر دو جہان میں ذلیل و خوار ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وہ شخص مردہ سمجھتا ہے جس کا دل مردہ ہو ا ور اُس کاسرمایۂ اِیمان و یقین شیطان نے لوٹ لیا ہو‘‘-[5]

صاحبزادہ صاحب نے قرآن و حدیث اور اسلافِ اُمت کے فرمودات کی روشنی میں واقعہ معراج پر طویل  گفتگو فرماتے ہوئےآخر میں اس نکتہ پر زور دیا کہ عصرِ حاضر میں اُمت مسلمہ کے جمیع مسائل کا حل سیرت ِ مصطفےٰ (ﷺ) پر عمل پیرا ہونے میں ہے   اورسیرت مصطفےٰ (ﷺ) محض آپ (ﷺ) کی سیاسی زندگی نہیں ہے بلکہ اس میں آپ (ﷺ) کے فضائل، خصائل اور شمائل سب شامل ہیں- اگرآپ  اپنے دل میں عشق ِ مصطفےٰ (ﷺ) اُجاگر کرنا چاہتے ہیں اورآپ (ﷺ) کی روح مبارک سے اکتساب ِ فیض چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی زندگی کو جزوی طورپر نہیں بلکہ کلی طور پر سیرتِ مصطفےٰ(ﷺ) کے سانچے میں ڈھالناہو گا-

صاحبزادہ صاحب نے مزید فرمایا کہ  مسلمان کی شناخت کسی ایک خطے تک محدود نہیں ، آپ کو کچھ ناعاقبت اندیش فلسفی اپنی ذات قوم ،قبیلے ،علاقے یا اپنے ملک تک محدود رکھنے کی کوشش کریں گے لیکن یادرکھیں! مسلمان کسی خطے یاعلاقے کا پابند نہیں، آپ اپنی ملی شناخت کو نہ بھولیں،کیونکہ بقول علامہ اقبالؒ:

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

 

موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں[6]

پاکستا ن ایک عظیم ترین نظریہ ’’لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ‘‘کی بنیادپر معرض وجو دمیں آیا ہے جس کی وسعت کا اندازہ عام آدمی  نہیں کرسکتا-ہم نے اس نظریے کی حفاظت کرنی ہے- آج سے کچھ عرصہ پہلے آپ کو جگہ جگہ بدامنی کا سامنا تھا ، لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا مشکل تھا یہاں تک کہ نمازِ جمعہ کے اجتماع میں شرکت بھی لوگوں کے لئے کافی دشوار تھی لیکن الحمد للہ! آج ایسا نہیں ہے اور یہ امن ہماری افواج کی عظیم قربانیوں کا نتیجہ ہے-

سر خاک شہید برگہائے لالہ می پاشم

 

کہ خونش با نہال ملت ما سازگار آمد[7]

اب آپ کا فرض بنتا ہےکہ آپ اس امن کی حفاظت کریں-قدم اٹھائیں، استقامت کا مظاہرہ کریں اور اللہ رب العزت کی فتح ونصرت پر کامل یقین رکھیں کیونکہ استقامت پر فتح و نصرت کی بشارت اللہ رب العزت کے ذمہ کرم ہے-اللہ پاک ہم سب کے دلوں کو عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) سے منورفرمائے اورصحیح معنوں میں آقاکریم (ﷺ) کااُمتی بنائے -

 پروگرام کے آخر میں لوگوں نے اولیاء کرام بالخصوص حضور سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کا تجدید عہد کیا-ہزاروں افراد نے حضور جانشین سلطان الفقرسرپرست اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)کے دستِ مبارک پر  بیعت کا شرف حاصل کر کے سلسلۂ قادریہ میں شمولیت اختیار کی اور ’’اسم اعظم‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوئے-

٭٭٭


[1](تفسیر قرطبی)

[2](صحیح مسلم، کتاب الفضائل)

[3](عین الفقر، باب پنجم)

[4](عقلِ بیدار، شرح حیات النبی (ﷺ)

[5]( کلید التوحید کلان، باب شرحِ مجلسِ صحیح بذکر و تسبیح)

[6](بانگِ درا)

[7](ایضاً)

ہر سال کی طرح اس سال بھی آستانہ عالیہ شہازِ عارفاں حضرت سلطان  محمد عبد العزیز (قدس اللہ سرّہٗ) پر عظیم الشان میلادِ مصطفےٰ (ﷺ) اور عرس مبارک کی پُروقار تقریب کا اہتمام  کیا گیا جس کی صدارت  جانشین ِ سلطان الفقرسرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت  و عالمی تنظیم العارفین،جگر گوشہ بانی اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)نے فرمائی-اس پروگرام میں جہاں ملک بھر سےطالبانِ مولیٰ و عُشّاقانِ مُصطفےٰ عامۃ الناس ، علمائے کرام ، مشائخ عظام ، اہلِ فکرودانش ، دانشوروں ، صحافیوں ، ایم این ایز،ایم پی ایز،صوبائی و وفاقی وزراء وغیرہ نے شرکت کی وہاں ہر سال کی طرح  بیرون ممالک سے بھی بڑی تعداد میں لو گ اکتساب ِ فیض کے لیے حاضر ہوئےچونکہ یہ ایک عالمی اجتماع تھااس لیے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی-اس پروگرام میں لاکھوں شرکاء کے والہانہ  شوق کا عالَم دیدنی ہوتا ہے دنیاوی اغراض و مقاصد سے بے نیاز تا حدِ نظر لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتا ہے-ملک کے تمام صوبوں سےکئی  لوگ قافلوں کی شکل میں وقت سے پہلے ہی پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں-اس مختلف رنگ ونسل کے اجتماع میں جوچیز مشترک ہوتی ہے وہ  ہے اللہ پاک کی رضا کے لیے جذبہ صادق اور عشقِ مُصطفےٰ (ﷺ) -تمام شرکاء اسی جذبہ کو مزید اجاگر کرنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں کیونکہ یہی وہ جذبہ ہے جو دور دراز سے آنے والے زائرین کو سفر کی طوالت اور تھکاوٹ کا احساس نہیں ہونے دیتا-

12اپریل بروز جمعرات بعد از نماز مغرب پہلی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں قاری محمد ریاض قادری صاحب نے احسن انداز میں تلاوت قرآن مجید کا شرف حاصل کیا-اس کے بعدصوفی غلام شبیر صاحب اور محمد رمضان سلطانی صاحب نے نعتیہ  کلام اور ابیاتِ باھو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کئے اور مفتی محمد منظور حسین صاحب نےاپنے خطاب سے لوگوں کے دلوں کو محظوظ کیا-اس کے بعد 13 اپریل کو دوسری نشت کے آغاز میں  صاحبزادہ میاں محمدضیاء الدین صاحب نے خطاب فرما کر لوگوں کے قلوب و اذہان کو مزید جلا بخشی-اس کے بعد ساڑھے چار گھنٹے کا طویل تحقیقی و خصوصی خطاب شہزادۂ بانی اصلاحی جماعت، چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ ،سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے فرمایا-

اپریل 2018ء میں منعقدہ اجتماع کی مختصر جھلک:

سالانہ اجتماع  کی ترتیب کچھ یوں ہوتی ہے کہ ملک بھر سے قافلے اس مبارک محفل میں شرکت کے لئے حاضر ہوتے ہیں-گڑھ مہاراجہ شہر سے دربار عالیہ حضرت سلطان باھُو صاحب قدس اللہ سرّہ کی طرف آنے والے مین روڈ سے آستانہ عالیہ حضرت سلطان محمد عبد العزیز قدس اللہ سرّہ تک عالمی تنظیم العارفین کے کارکن اور محافظ فرائض کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف یونیفارم میں ہر ہر مرحلے پر راہنمائی کے لئے موجود ہوتے ہیں-ابتدائی مرحلے میں پارکنگ سٹاف، انتظامیہ کے احکامات کے مطابق پروگرام میں شرکت کرنے والی ہزاروں گاڑیوں کو اُن کے حجم  کے اعتبار سے پارکنگ کا اہتمام کرتے ہیں-اس نظم و ضبط کی وجہ سےپروگرام کے شرکاء کو واپسی پر اپنی گاڑی تک رسائی میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا-گاڑیوں کی پارکنگ کے بعد سیکیورٹی چیکنگ کا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں تین مختلف چیک پوسٹوں پر چیکنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے-نشست کے بعد پنڈال میں موجود لاکھوں کا مجمع نمازِ ظُہر  کی ادائیگی کے بعد تقریباً نصف گھنٹہ میں لنگر شریف تناول کرنے کے بعد واپسی کی تیاریاں شروع کر دیتا ہے ، دیکھنے والے اور شُرکا اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے کارکنان کے حُسنِ انتظام پہ متحیر و ششدر رہ جاتے ہیں کہ کیسے اتنے بڑے انسانی سمندر کو صرف آدھ گھنٹے میں کھانا پیش کر کے فارغ ہو جاتے ہیں-پروگرام کے آغاز سے لے کر اختتام تک تنظیم العارفین کے سیکیورٹی رضاکاروں کے علاوہ علاقے کی حکومتی انتظامیہ بھی بھر پور تعاون کرتی ہے-کسی حادثہ کی صورت میں ایمبولنسز ، فائر بریگیڈ کی فراہمی سے لے کر موبائل سروسز کا گشت اس پروگرام کے اختتام تک جاری رہتا ہے-

خصوصی خطاب کا مختصر خلاصہ:

صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کا خصوصی خطاب بُنیادی طور پہ معراج النبی (ﷺ) کے موضوع پہ تھا ، آپ نے سفرِ معراج کے دوران پیش آمدہ واقعات سے اخذ ہونے والے مسائل پہ بھی روشنی ڈالی-سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین صاحبزادہ صاحب نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے ہر مخصوص فعل کے لئے مخصوص وقت کا تعین فرمایا ہے-تعیین دوقسم کی ہوتی ہے ،ایک تعیین ِ شرعی اور دوسری تعیین عرفی-تعیین ِ شرعی وہ ہوتی ہے جس کا تعین اللہ اور اس کےرسول کریم(ﷺ) نے فرمایا ہو اور وہ کام انہی مقررہ ایام میں جائز ہو دوسرے ایام میں جائز نہ ہو جیسے ایامِ حج ، ایامِ صوم، ایامِ قربانی وغیرہ-تعیینِ عرفی، یہ بھی عمل صحابہ (﷢) سے ثابت ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود (﷠) نے وعظ و نصیحت کے لئے جمعرات کا دن متعین کر رکھا تھا اس لئے سوئم، چالیسواں، برسی، محفلِ میلاد یا حضور غوث ِ پاک (قدس اللہ سرہٗ)کو ایصال ِ ثواب کرنے کےلیے جیسے گیارھویں شریف یا نفلی صدقہ اور خیرات کے لیے مسلمانوں کا اپنی سہولت کے لیے دن مقرر کرناتعیین عرفی میں آئے گا- اسی طرح نکا ح یا دعوتِ ولیمہ یا ختمِ بخاری یا دستارِ فضیلت کے لیے تاریخ مقرر کرنا یہ بھی اسی ضمن میں آئے گا اور اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں  ہے-

اسی طرح صاحبزادہ صاحب نے اس نکتہ کو بڑے احسن انداز سے بیان فرمایا کہ بوقت معراج سرورِ دو عالم (ﷺ)اللہ تعالیٰ کےدیدار سے مشرف ہوئےاور دلیل میں یہ روایت بیان فرمائی کہ :

’’الشَّيْخُ أَبُو الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيُّ وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِهٖ (أَنَّ مُحَمَّدًا (ﷺ) رَاَى اللهَ بِبَصَرِهٖ وَعَيْنَيْ رَأْسِهٖ. وَكَانَ الْحَسَنُ يَحْلِفُ بِاللَّهِ الَّذِيْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ‘‘[1]

 

’’حضرت شیخ ابو الحسن اشعری اور آپؒ کےاصحابؒ کی ایک جماعت کا یہی مؤقف ہےکہ حضرت محمد (ﷺ)نے اپنی نظر کے ساتھ اور اپنے سر کی آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہےاورحسن بصری (﷜)اللہ کی قسم کھایا کرتے تھےکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں یقیناً حضرت محمد (ﷺ) نے اپنے رب کو دیکھا ہے‘‘-

اسی طرح آپ نےمسئلہ حیات الانبیاء (ﷺ) کو اجاگر کرتے ہوئے  حضرت انس بن مالک ( ﷜) سے روایت کردہ حدیث مبارکہ کو بیان فرمایا کہ  رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مَرَرْتُ عَلٰى مُوْسٰى لَيْلَةَ أُسْرِىَ بِىْ عِنْدَ الْكَثِيْبِ الأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّى فِى قَبْرِهٖ‘‘[2]

 

’’جس رات مجھے معراج  کرائی گئی  میراحضرت موسی علیہ السلام پر کثیب احمر  کے پاس گزر ہوا  اس وقت  وہ   اپنی قبر میں  کھڑے  ہوئے  نماز پڑھ رہے تھے‘‘-

پھر آپ نے امام بیہقی (﷫) کی روایت بیان فرمائی جس کو امام ہیثمی نے’’مجمع الزوائد ‘‘میں نقل کیا ہےکہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

اَلْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِيْ قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ‘‘

 

’’انبیاءکرام (﷩) اپنی قبور میں حیات ہیں اورنماز پڑھتے ہیں‘‘-

مزید صاحبزادہ صاحب نےمسئلہ حیات النبی (ﷺ)کو سلطان العارفین حضرت سلطان باھوصاحب(قدس اللہ سرّہٗ) کی کتب سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:

’’سن! اگر کوئی شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات کو مردہ سمجھ بیٹھے تو اُس کا ایمان سلب ہو جاتا ہے‘‘-[3]

’’تمام اُمت کی حیات و زندگی اور تمام محبت جو ہر ایک اُمتی کے مغز و پوست میں جاری و ساری ہے اُس کا دارو مدار حیات النبی (ﷺ) کے عقیدے پر ہے-جو کوئی حیات النبی (ﷺ) کا قائل نہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مردہ سمجھتا ہے اُس کے منہ میں مٹی، دنیا و آخرت میں اُس کا منہ کالا، وہ شفاعت ِمحمد رسول اللہ (ﷺ) سے محروم ہے‘‘-[4]

حیاتُ النبی (ﷺ) کے اعتقاد کا سبق اہل ِعرب (اہل حجاز) سے سیکھو کہ وہ حرمِ پاک میں روضۂ رسول (ﷺ) کے دروازہ پر آکر اِلتماس کرتے ہیں: ’’ اے سید الا برار زندہ نبی (ﷺ) بارگاہ ِ اِلٰہی سے ہمار ا فلاں کام کروا دیں اوراُن کے سوال کا جواب اُنہیں مشروحاً مل جاتا ہے اور اُن کے یقین و اعتبار کے باعث اُن کا کام بھی ہو جاتا ہے- جسے حیات النبی (ﷺ) کا اعتبا ر نہیں وہ ہر دو جہان میں ذلیل و خوار ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وہ شخص مردہ سمجھتا ہے جس کا دل مردہ ہو ا ور اُس کاسرمایۂ اِیمان و یقین شیطان نے لوٹ لیا ہو‘‘-[5]

صاحبزادہ صاحب نے قرآن و حدیث اور اسلافِ اُمت کے فرمودات کی روشنی میں واقعہ معراج پر طویل  گفتگو فرماتے ہوئےآخر میں اس نکتہ پر زور دیا کہ عصرِ حاضر میں اُمت مسلمہ کے جمیع مسائل کا حل سیرت ِ مصطفےٰ (ﷺ) پر عمل پیرا ہونے میں ہے   اورسیرت مصطفےٰ (ﷺ) محض آپ (ﷺ) کی سیاسی زندگی نہیں ہے بلکہ اس میں آپ (ﷺ) کے فضائل، خصائل اور شمائل سب شامل ہیں- اگرآپ  اپنے دل میں عشق ِ مصطفےٰ (ﷺ) اُجاگر کرنا چاہتے ہیں اورآپ (ﷺ) کی روح مبارک سے اکتساب ِ فیض چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی زندگی کو جزوی طورپر نہیں بلکہ کلی طور پر سیرتِ مصطفےٰ(ﷺ) کے سانچے میں ڈھالناہو گا-

صاحبزادہ صاحب نے مزید فرمایا کہ  مسلمان کی شناخت کسی ایک خطے تک محدود نہیں ، آپ کو کچھ ناعاقبت اندیش فلسفی اپنی ذات قوم ،قبیلے ،علاقے یا اپنے ملک تک محدود رکھنے کی کوشش کریں گے لیکن یادرکھیں! مسلمان کسی خطے یاعلاقے کا پابند نہیں، آپ اپنی ملی شناخت کو نہ بھولیں،کیونکہ بقول علامہ اقبال(﷫):

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

 

موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں[6]

پاکستا ن ایک عظیم ترین نظریہ ’’لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ‘‘کی بنیادپر معرض وجو دمیں آیا ہے جس کی وسعت کا اندازہ عام آدمی  نہیں کرسکتا-ہم نے اس نظریے کی حفاظت کرنی ہے- آج سے کچھ عرصہ پہلے آپ کو جگہ جگہ بدامنی کا سامنا تھا ، لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا مشکل تھا یہاں تک کہ نمازِ جمعہ کے اجتماع میں شرکت بھی لوگوں کے لئے کافی دشوار تھی لیکن الحمد للہ! آج ایسا نہیں ہے اور یہ امن ہماری افواج کی عظیم قربانیوں کا نتیجہ ہے-

سر خاک شہید برگہائے لالہ می پاشم

 

کہ خونش با نہال ملت ما سازگار آمد[7]

اب آپ کا فرض بنتا ہےکہ آپ اس امن کی حفاظت کریں-قدم اٹھائیں، استقامت کا مظاہرہ کریں اور اللہ رب العزت کی فتح ونصرت پر کامل یقین رکھیں کیونکہ استقامت پر فتح و نصرت کی بشارت اللہ رب العزت کے ذمہ کرم ہے-اللہ پاک ہم سب کے دلوں کو عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) سے منورفرمائے اورصحیح معنوں میں آقاکریم (ﷺ) کااُمتی بنائے -

 پروگرام کے آخر میں لوگوں نے اولیاء کرام بالخصوص حضور سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کا تجدید عہد کیا-ہزاروں افراد نے حضور جانشین سلطان الفقرسرپرست اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)کے دستِ مبارک پر  بیعت کا شرف حاصل کر کے سلسلۂ قادریہ میں شمولیت اختیار کی اور ’’اسم اعظم‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوئے-

٭٭٭



[1](تفسیر قرطبی)

[2](صحیح مسلم، کتاب الفضائل)

[3](عین الفقر، باب پنجم)

[4](عقلِ بیدار، شرح حیات النبی (ﷺ)

[5]( کلید التوحید کلان، باب شرحِ مجلسِ صحیح بذکر و تسبیح)

[6](بانگِ درا)

[7](ایضاً)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر