سالانہ عظیم الشان جشنِ میلادِ مصطفےٰ(ﷺ) 12اپریل2023ء

سالانہ عظیم الشان جشنِ میلادِ مصطفےٰ(ﷺ) 12اپریل2023ء

سالانہ عظیم الشان جشنِ میلادِ مصطفےٰ(ﷺ) 12اپریل2023ء

مصنف: ادارہ مئی 2023

گزشتہ کئی برسوں سے سالانہ میلادِ مصطفےٰ (ﷺ) کی خوبصورت روایت برقرار رکھتے ہوئے رواں سال بھی آستانہ عالیہ شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبد العزیز (قدس اللہ سرّہٗ) پر عظیم الشان میلادِ مصطفےٰ (ﷺ) اور عُرس مبارک کی روح پرورتقریب کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین،جانشین ِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)نے فرمائی-اس عظیم الشان اجتماع میں پاکستان بھرسے متلاشیانِ حق و عُشّاقانِ مُصطفےٰ (ﷺ) اورمختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک افراد کی کثیر تعداد قلبی وروحانی اکتساب ِ فیض کے لیے حاضر ہوئی-اس موقع پر اصلاحی جماعت کے کارکنان فرائض کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف یونیفارم میں ملبوس ہر مرحلے پر زائرین کی سہولت و رہنمائی کے لئے موجود تھے، ابتدائی مرحلے میں پارکنگ انتظامیہ نے شرکاء کی سینکڑوں گاڑیوں کیلئے اُن کے حجم کے اعتبار سے پارکنگ کا اہتمام کیا،اس نظم و ضبط کی وجہ سے پروگرام کے شرکاء کو واپسی پر اپنی گاڑی تک رسائی میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا، گاڑیوں کی پارکنگ کے بعد سکیورٹی چیکنگ کا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں تین مختلف چیک پوسٹوں پر چیکنگ کا اہتمام کیا جاتا ہےاور کسی حادثہ کی صورت میں ایمبولنسز، فائر بریگیڈ اور ابتدائی طبی امداد کی فراہمی سے لے کر موبائل سروسز کا گشت اس پروگرام کے اختتام تک جاری رہتا ہے- اگرچہ ا س پروگرام میں مختلف خطوں اور مختلف رنگ و نسل کے لوگ موجود تھے لیکن اس اجتماع میں جو چیز مشترک ہوتی ہے وہ رضا ئے الٰہی کے لیے جذبۂ صادق اور عشقِ مُصطفٰے (ﷺ) ہے- یہی اصلاحی جماعت وعالمی تنظیمِ العارفین کا بنیادی پیغام ہے کہ صحبت و تعلیماتِ اولیاء اللہ کے ذریعے اپنی ظاہری و باطنی اصلاح اور پاکیز گی کا اہتمام کیا جائے تاکہ محبت و معرفتِ حق تعالیٰ اور عشقِ مصطفے(ﷺ) کی دولت نصیب ہوسکے-

یہ اجتماع چونکہ رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں انعقاد پذیر تھا،اس لیے شرکاء کیلئے وسیع وعریض پیمانے پہ افطاری کا انتظام کیاگیا اورافطار و نماز کے بعد باقاعدہ پروگرام کا آغاز ہوا ،جس میں محترم قاری نور محمد صاحب نے تلاوت قرآن مجید کا شرف حاصل کیا جس کے بعد محمد رمضان سلطانی صاحب نے خوبصورت انداز میں نعتیہ کلام پیش کئے جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض مفتی محمد منظور حسین صاحب نے سرانجام دیے- اس روح پرور پروگرام میں تحقیقی و خصوصی خطاب شہزادۂ سُلطان الفقر، چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ و دیوان آف جونا گڑھ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے فرمایا-

خصوصی خطاب کا مختصر خلاصہ: 

خطاب کا موضوع منبعِ ولایت مولائے کائنات سیّدنا حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے یوم ِ شہادت کی نسبت سے’’سیرت و فضائل ِ سیدنا حضرت علی المرتضٰی(رض) ‘‘ رہا-خطاب کا آغاز اس پہلو سے ہواکہ اولیاء اللہ اورصالحین کا پیغام تمام تعصبات اور تفریق سے بالاتر ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں محبت و امن،انسان دوستی اوراخوت و بھائی چارے کو فروغ ملا اور لوگوں کے دلوں میں محبت و عشقِ مصطفٰے (ﷺ) کا جذبہ جاگزیں ہوا- یہ اولیاء اللہ کی کاوشیں تھیں جن کی بدولت آج برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی شمع روشن ہے-تاریخ میں یہ بات واضح ہے کہ اولیائے کرام نے پوری دنیا میں اپنے فیضان تربیت سے بہت سے علماء، فقہاء،متکلمین اور مجاہدین اسلام پیداکیے - مثلاً فاتح بیت المقدس سلطا ن صلاح الدین ایوبی کی تربیت سیدنا حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ) نے فرمائی -سلطان محمد فاتح (جنہوں نے قسطنطنیہ فتح کیا ) سلسلہ نقشبندیہ کے اسلاف اور عظیم تربیت کا شاہکار تھا-اسی طرح اور کئی مثالیں موجود ہیں -یہ وہ لوگ تھے جن کے سینے اولیاء اللہ نے بڑے مقاصد کیلئے کھول دیے تھے- تعلیماتِ قرآن مجید و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفٰے(ﷺ) میں بھی یہ رغبت دلائی گئی ہے کہ اہل اللہ کی مجلس اختیار کرو -

صاحبزادہ صاحب نے اولیاء اللہ کے سردار شیرِ خدا سیّدنا حضرت علی المرتضیٰ(رض) کے فضائل و مناقب کی قرآن کریم و احادیث مبارکہ کی روشنی میں نہایت احسن انداز میں تفصیل بیان فرمائی کہ حدیث مبارک کی روسے آپ (رض)کا ذکر بھی عبادت کا درجہ رکھتا ہے –

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ (رض) کی شان میں کئی آیات مبارکہ نازل فرمائی ہیں، اُن میں سے چند  آیات مبارکہ پیش کرتے ہیں-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ‘‘[1]

 

’’پھر اے محبوب جو تم سے عیسٰی (ع)کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرمادو آؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں- پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالی‘‘-

امام رازی ’’تفسیر کبیر ‘‘ میں اسی آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

جب رسول اللہ (ﷺ) نصاری کے ساتھ مباہلہ کرنے کیلئے تشریف لائے تو آپ (ﷺ) پر سیاہ رنگ کی چادرتھی آپ نے بغل میں امام حسین کولیا اورامام حسن کا ہاتھ تھامے اورسیدہ کائنات (رض) آپ (ﷺ) کے پیچھے اور حضرت مولائے علی (ع) اُن کے پیچھے تھے -تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

إِذَا دَعَوْتُ فَأَمِّنُوْا---يَا مَعْشَرَ النَّصَارٰى، إِنِّيْ لَأَرٰى وُجُوْهًا لَوْ سَأَلُوا اللهَ أَنْ يُّزِيْلَ جَبَلًا مِنْ مَّكَانِهِ لَأَزَالَهُ بِهَا، فَلَا تَبَاهَلُوْا فَتَهْلِكُوْا وَلَا يَبْقٰى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ نَصْرَانِيٌّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، --- وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ،  إِنَّ الْهَلَاكَ قَدْ تَدَلّٰى عَلٰى أَهْلِ نَجْرَانَ، وَلَوْ لَاعَنُوْا لَمُسِخُوْا قِرَدَةً وَخَنَازِيْرَ، وَلَاضْطَرَمَ عَلَيْهِمُ الْوَادِي نَارًا،وَلَاسْتَأْصَلَ اللهُ نَجْرَانَ وَ أَهْلَهُ، حَتَّى الطَّيْرَ عَلٰى رُؤُوْسِ الشَّجَرِ وَلَمَا حَالَ الْحَوْلُ عَلَى النَّصَارٰى كُلِّهِمْ حَتّٰى يَهْلِكُوْا،

 

جب میں دعا کروں تو تم نے آمین کہنا ہے (نجران کے وفد کے سر براہ نے کہا)اے گروہ نصارٰی میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں،اگر یہ کسی پہاڑ کواُس کی جگہ سے ہٹنے کی دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ اُسے ہٹادے گا پس اُن سے مُباہلہ نہ کرو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گےاور تا قیامت زمین پر کوئی نصرانی باقی نہیں رہے گا-(پھر وہ صلح پر آمادہ ہوئے اور سالانہ کچھ مال دینے کا وعدہ کیا اور آپ(ﷺ) نے اُن کے ساتھ صلح فرما لی -پھر آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا )اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے  ہلاکت اہل نجران کے قریب آ گئی تھی اگر وہ مباہلہ کرتے تو وہ بندر اور خنزیر کی شکل بن جاتے-وادی اور علاقہ اُن پر  آگ برسا تا اور اللہ تعالیٰ نجران اور ان کے باشندوں کو برباد کر دیتاحتٰی کہ پرندے درختوں پر بیٹھے انتظار کر رہے تھےایک سال میں تمام کے تمام نصارٰی بلاک و برباد ہوجاتے-

یہ مباہلہ بنیادی طور پہ توحید باری تعالیٰ کے مسئلہ پہ ہونا تھا جس میں ’’اَبْنَآءَنَا‘‘  کے تحت اپنے بیٹوں کے لئے  حضورنبی کریم (ﷺ) نے حسنین کریمین (رض) کو ساتھ لیا ، ’’وَ نِسَآءَنَا‘‘ کے تحت خواتین میں حضور خاتونِ جنت (رض) کو ساتھ لیا اور ’’اَنْفُسَنَا‘‘ کے تحت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو ساتھ لیا-اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ بیت صداقتِ توحید کی دلیل کے طور پہ مباہلہ میں تشریف لے گئے-

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ وَیَتْلُوْہُ شَاہِدٌ مِّنْہُ‘‘[2]

 

’’تو کیا وہ جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہو اور اس پر اللہ کی طرف سے گواہ آئے‘‘-

قاضی ثناءاللہ پانی پتی(رح) ’’تفسیر مظہری‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ:

’’مَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ‘‘سے مراد حضور تاجدارِ دو عالم(ﷺ)کی ذات ہے اورشاہد سے مراد حضرت علی المرتضیٰ (رض)ہیں-

قاضی ثناءاللہ پانی پتی (رح)اسی آیت کے تحت مزید ارشادفرماتےہیں  کہ:

’’بلاشبہ حضرت علی (ع) تمام کمالاتِ ولایت کے مرکزی نکتہ اور قطب ہیں-تمام اولیائے کرام، بلکہ صحابہ کرام (رض) بھی مقام ولایت میں آپ  (ع) کے تابع ہیں ‘‘-

فکری خطاب کے آخرمیں صاحبزادہ صاحب نے اس چیزپہ زوردیا کہ اولیاء کی تعلیمات میں امن وبھلائی اور خیر کا سامان پوشید ہے جو انسان کو ہرقسم کی نفرت ، تعصبات،فتنوں اور دیگر سماجی برائیوں سے دور رکھتا ہے -بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے خود کو اہلِ بیت اطہار، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام (رض) کی سیرت و تعلیمات کے مطابق ڈھالیں - اللہ تعالیٰ ہم سب کومحبت وعشقِ اہلِ بیت نصیب فرمائے-آمین!

 پروگرام کے اختتام پہ پروگرام کے آخر میں صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے  جامعہ غوثیہ عزیزیہ انوار حق باھو سلطان سے فارغ التحصیل ہونے والے27 طلباء کی دستار بندی کی-اس کے بعد ہزاروں افراد نے سرپرست اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سخی سُلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)کے دستِ مبارک پر شرفِ بیعت حاصل کر کے سلسلۂ قادریہ میں شمولیت اختیار کی اور اسم اعظم (اسم اللہ ذات ) کی لازوال دولت سے سرفراز ہوئے-

٭٭٭



[1](آلِ عمران:61)

[2](ھود:17)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر