امیر عبدالقادرالجزائری : عصر حاضر کی صوفیانہ تحریکوں کیلئے ایک رول ماڈل

امیر عبدالقادرالجزائری : عصر حاضر کی صوفیانہ تحریکوں کیلئے ایک رول ماڈل

امیر عبدالقادرالجزائری : عصر حاضر کی صوفیانہ تحریکوں کیلئے ایک رول ماڈل

مصنف: مدثر ایوب ستمبر 2018

  (اُردو الفاظ ’’آستانہ، خانقاہ، روحانی تربیت گاہ‘‘ کے متبادل کے طور پہ افریقی عرب دُنیا میں ’’زاویہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے-زیرِ نظر مضمون میں جہاں بھی ’’زاویہ‘‘ کا لفظ آئے گا اُس سے مُراد اِس لفظ کے اُردو متبادل الفاظ ہونگے)

اگر اسلام اور اس کے قائم کردہ معاشرتی نظام کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اسلامی فکر میں تشکیل ِ معاشرہ اور اس میں تبدیلی اور ارتقاء کی بنیادی قوت انسان کو قرار دیا گیا ہے اور فکر اسلامی میں جہد و تحرک کو اس تبدیلی کا بنیادی جوہر قرار دیا گیا ہے- اس کی عملی صورت ہمیں صوفیاء کی علمی و فکری تحریکوں میں نظر آتی ہے کہ جب بھی مرور ِ زمانہ کی وجہ سے مسلمانوں میں فکری و عملی جمود آنے لگا تو صوفیاء نے مختلف ادوار میں مختلف تحریکوں کے ذریعے اسلام کی ترویج و اشاعت میں کلیدی کردار ادا کیا اور اسلام کو ایک ایسی قوت کے طور پر پیش کیا جو جہد مسلسل کے ذریعے سےہر وقت باطل سے نبرد آزما ہے-یہ تحریکیں بڑی معتبر اور جلیل القدر شخصیات کی زیر قیادت اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں ان میں ایک بہت اہم نام امیر عبد القادر الجزائریؒ کا ہے -اس مضمون میں ہم ان کے کردار،تحریکی جدوجہد اور عصر حاضر میں صوفیانہ تحریکوں کے لیے بطور رول ماڈل ان کی موثریت کے متعلق جانیں گے  - 

تصوف و تحرُّک:

اگر تصوف و تحرک کو اسلامی تاریخ کے دریچوں سے دیکھا جائے تو ہمیں یہ دونوں رجحانات باہم دگر مربوط نظر آتے ہیں- اسلامی فکر میں جمود و تنزل نہیں ہے بلکہ یہ جہدو تحرک اور مسلسل کوشش کا استعارہ تصور کیا جا سکتا ہے جس کا مقصود ایک مثالی فلاحی معاشرے کی تشکیل ہے-اسلام کے ابتدائی ایام میں دیکھا جائے تو بارگاہ رسالت مآب ( ) میں بہت سے ایسے اصحابِ صفاء بھی ہیں جنہوں نے غزوہ بدر میں رسولِ پاک( )کے ساتھ بہادری کے جوہر دکھائے مثلاً حضرت ابو عبیدہ بن جراح،حضرت سیدنا بلالِ حبشی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت صہیب بن سنان،حضرت رفاع بن عبد المنذر، حضرت زید بن خطاب،حضرت عبداللہ بن زید اور حضرت عمار بن یاسر (رضی اللہ عنہ)یہ وہ اصحاب تھے [1]جنہیں حضور () نے 13سال تک تزکیے کی مشق سے گزارا جب ان کا ظاہر اور باطن پاک ہو گیا تو پھر انہیں میدانِ جنگ میں اتارا گیا اور جب ان اصحابِ رسول () کے زیر سایہ لوگوں کو دیکھا جائے تو وہ بھی انہیں خصوصیات کے امین نظر آتے ہیں مثلاً سلسلہ نقشبندیہ جن کا سیدنا ابوبکر صدیق سے توسل ہے اور وہ انہیں منبع فیض تصور کرتے ہیں تو سیدنا صدیق اکبر امام تصوف بھی ہیں اور امام خلافت و سلطنت بھی ہیں جن کی باطنی رفعت کے متعلق آقا کریم () نے فرمایا کہ:

’’ابوبکرؓ جن کو جو باقی صحابہ پر برتری حاصل ہے وہ محض کثرت صوم و صلوٰۃ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ وہ برتری اس راز کی وجہ سے  ہےجو ان کے سینے میں پو شیدہ ہے‘‘-[2]

اسی طرح جب اسلام کو نبوت کے جھوٹے دعویداروں اور منکرین ِ زکوٰۃ کا فتنہ درپیش تھا تو وہ میدان کارزار میں جہدو جہد کرتے نظر آتے ہیں-اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم سلطان ولایت اور سلطان شجاعت بھی ہیں-سیدنا امامِ زین العابدین (رضی اللہ عنہ) امام ولایت اور سلطان امارت بھی ہیں- اسی طرح تابعین، تبع تابعین کی بھی یہی روش رہی ہے کہ انہوں نے تصوف وعرفان میں کمال حاصل کیا اور لوگوں کی اصلاح فرماکر میدانِ کارزار میں اعلائے کلمۃ الحق کیلئے اُتارا -مثلاً سلطانِ ولایت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی و الحسینی(قدس اللہ سرّہٗ)امام ولایت بھی ہیں اور انہوں نے جہد ِ مسلسل کے ذریعے اسلام کو درپیش مسائل سے نکال کر محی الدین (دین کو زندہ کرنے والا) کا لقب پایا ہے-حجت الاسلام امام ابو محمد الغزالیؒ کو تصوف اور عرفانِ ذات نے ایک عالم و فلسفی سے صاحبِ حجت امام کے منصب تک پہنچا دیا اور انہوں نے اسلام کو در پیش فکری و عملی مسائل کا مقابلہ کیا-اسی طرح مسلم تاریخ کا ایک بہت بڑا نام سلطا ن صلاح الدین ایوبیؒ کی چشمِ بصیرت فیضانِ نبوی() سے روشن ہوئی اور یہ سلطانِ عادل سلطان نورالدین زنگیؒ کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے اسلام کی خدمت کی اور درپیش خطرات کا کھل کر مقابلہ کیا-ان کی ان مہمات میں سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ)کے فرزند ارجمند اور ان کے مدرسے کے بہت سے طالب علموں نے حصہ لیا اور سلطان کے ساتھ میدانِ کارزار میں جام ِ شہادت نوش فرمایا-

اسی طرح برصغیر پاک و ہند میں اسلام صوفیاء کی تعلیم وتلقین سے آیا اور انہوں نے اس سلسلے میں کار ہائے نمایاں انجام دیے جیسے حضرت مجد د الف ثانیؒ نے اپنی جدوجہد اور روحانی بصیرت سے دور ِ جدید کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے دین ِ متین کی تجدید فرما کر مجدد ہونے کا حق ادا فرمایا او ر برصغیر پاک وہند میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا-اسی طریقِ تربیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں کہ:

با نشۂ درویشی در ساز و دما دم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنتِ جم زن[3]

’’ہر دم درویشی کے نشے میں مست رہ، جب فقر میں  پختہ ہو جائے تو پھر سلطنتِ جم کے خلاف معرکہ آراء ہو‘‘-

یعنی پہلےاپنے آپ کو درویشی(تصوف اور تزکیہ و روحانیت) کا نشہ لگاؤ یعنی جب تمہیں اپنے نفس پر قابو نصیب ہو جائے اس کے بعد اللہ تعالیٰ تمہیں سلطنت عطا فرمائے گا-

اسی طرح ایک اور جگہ اقبالؒ تصوف و تحرک کے باہمی تعلق کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
کہ ہوں ایک جنیدیؒ و اردشیری[4]

یہاں جنیدی سے مراد حضرت جنید بغدادیؒ یعنی استعارہ ہیں فقر و ولایت کا اور اردشیری استعارہ ہے سلطنت وامارت کا کہ جب دونوں اتصال پذیر ہوں تو انسانیت کو بقا نصیب ہوتی ہے یعنی اسی وقت انسانیت کے لیے پرامن معاشرہ وجود میں آتا ہے-

اسرارِ خودی میں اقبال تسخیر کائنات کا کلیہ بیان فرماتے ہیں:

ہر کہ در آفاق گردد بو تراب
باز گرداند زِ مغرب آفتاب[5]

’’کائنات میں جو بھی بو تراب بن جاتا ہے وہ آفتاب کو مغرب سے لوٹا لیتا ہے‘‘-

جو اپنی خاک کو فتح کر لیتا ہے یعنی اپنے وجود پر غلبہ حاصل کر کے اسے فرمان ِ الٰہی کے تابع کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے یہ قوت عطا فرما دیتا ہے کہ وہ مغرب میں غروب ہونے والے سورج کو واپس لے آتا ہے-اسی طرح ایک اور جگہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ:

از خود آگاہی ید اللہی کند
از ید اللہی شہنشاہی کند[6]

’’وہ خود آگہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بن جاتا ہےاور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بن کر دنیا پر حکومت کرتاہے‘‘-

یعنی جب انسان کو خود آگاہی نصیب ہوتی ہے تو اسے اللہ تعالیٰ وہ طاقت عطا فر مادیتا ہے کہ بندہ مومن کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ بن جاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اسے توفیق ِ خاص سےنواز دیتاہے جس کو استعمال کرتے ہوئے انسان زمین پر اللہ کا نظام قائم کر دیتاہے-

اسی طرح سلطان العارفین حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کی تحریک ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں اسلام کو درپیش بنیادی مسائل حل کیے جہاں قلم سے 140 کتب لکھ کر ہر دور کے لوگوں کو علم و عرفان کا وسیع خزانہ عطا فرمایا اس کے ساتھ ساتھ اپنے دور میں جہد مسلسل سے لوگوں کا تزکیہ فرمایا- 

بہت سے ایسے مسلمان ہیرو گزرے ہیں جنہوں نے اپنی علاقائی سالمیت کے لیے بیرونی طاقتوں کے قبضے بالخصوص مشرق و مغرب میں مغربی نو آبادیاتی نظام کے خلاف جد و جہد کی-اس مضمون میں ہم افریقی عرب ہیرو صوفیٔ با صفا، مُجاہدِ سر بکف امیر عبد القادر الجزائریؒ کی جد و جہدِ آزادی کا مطالعہ کریں گے-

مختصر تعارُف

اسم: ناصر الدین امیر عبد القار

ولدیّت: السیّد محی الدینؒ

علاقہ: الجیریا/الجزائر (شمالی افریقہ)

 دور:6ستمبر1808 تا 26 مئی 1883(بمطابق 15 رجب 1223 ھ تا 1300 ھ)

 فقہ: مالکیہ

 عقیدہ: اشعریہ

سلسلہ: قادریّہ

 منہجِ تصوف : شیخ الاکبر ابن ِعربیؒ

خاندانی پسِ منظر:

امیر عبد القادر الجزائریؒ ، حضرت محی الدین ؒ کے تیسرے بیٹے تھے- حضرت محی الدینؒ کا تعلق قبیلہ ’’ریا‘‘ سے تھا جو کہ قبائل ِ مخزن سے زیادہ پرہیزگار اور متقی تھے ان کی اس وابستگی کی وجہ سے انہیں ’’مرابتین‘‘کہا جاتا تھا-حضرت محی الدینؒ کا تعلق خانوادہِ رسول () سے تھا جو رسول اللہ () سے خونی تعلق رکھتے تھے اور انہیں شرفاء کہا جاتا تھا اور ان کا شجرہ نسب نواسئہ رسول () حضرت حسن سے ہوتا ہوا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ملتا ہے-اس لیے امیر عبد القادر الحسنیؒ کے نام سے مشہور ہیں-[7] ان کے والد ابن عربیؒ کے قادریہ سلسلے کے پیروکار اور علاقائی ذمہ دار تھے-[8] اس مذہبی اور روحانی مرتبے کی بنیاد پر لوگوں میں ان کا مقام قائدانہ تھا محی الدینؒ نے الجزائر کے علاقے گیوٹنا میں قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے اپنی بہترین سماجی، معاشی، مذہبی اور تعلیمی خدمات انجام دیں کہ اس وقت گیوٹنا کا علاقہ غیر ملکیوں، پناہ گزینوں، طالبوں اور شاگردوں کا مرکز بن گیا-امیر کے والد کی حیثیت علاقائی قبائل میں ایک مرشد، روحانی استاد اور قاضی کی تھی[9]- امیر عبدالقادر 1807ء میں(بعض کتب کے مطابق 1808ء میں) گیوٹنا میں پیدا ہوئے جو کہ مغربی الجزائر میں مسکارہ کے قریب وادئ حمام میں واقع ہے-آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقائی قصبے گیوٹنا میں حاصل کی اور اس کے بعد مذہبی اور روحانی تعلیم کے لئے انہیں ارزو اور اوران کے ساحلی علاقوں میں بھیج دیا گیا- حضرت محی الدینؒ نے امیر عبد القادرؒ کو اپنا نائب منتخب فرمایا لوگوں نے اپنی وابستگی ظاہر کرتے ہوئے امیر عبدالقادرؒکے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کا لقب امیر المومنین (ایمان والوں کا امیر) رکھاجو (بطور امیر کے)ان کے نام کا حصہ بن گیا -وہ بہت پرہیزگار آدمی تھے اور انہوں نے اپنے دور میں شریعت کے نفاذ اور پانچ وقت نماز یقینی بناتے ہوئے شراب نوشی،دیگر منشیات اور بدعنوانی کو ممنوع قرار دیا[10]-

سفرِ حج:

امیر نے اپنے والد کے ساتھ حج کا سفر کیا-اس وقت افریقی روایت کے مطابق حج صرف مدینہ شریف اور مکہ شریف میں مقامات ِ مقدسہ کی حاضری پر مشتمل نہیں تھا بلکہ بہت دانشورانہ اور علمی و فکری سرگرمی سمجھا جاتا تھا جس میں مختلف مراکز علم و ثقافت مثلا تیونس، قاہرہ،  مکہ، دمشق اور بغداد کے سفر کے علاوہ مختلف خطابات،تعلیم و فکری مباحث میں حصہ لینا اور مختلف اولیاء کے مقابر پر حاضری شامل تھی اور یہ سفر دو سال تک جاری رہتا تھا-[11]

امیر عبد القادر کے عہد پہ اک نظر:

یہ ایک نہایت بدقسمت عہد ہے جب مغربی طاقتیں دانتوں پر خون لگائے دیوانہ وار دولت پہ لپک رہی ہیں اس وقت فرانس کا مراکش،الجیریا،سوڈان،شمالی و مشرقی افریقہ پر اور برطانیہ کا یوگنڈا، نائیجیریا،کینیا، ترکی جزائر، آسٹریلیا، برصغیر پراور پرتگالیوں کا انگولا ، برازیل اور برصغیر کے کچھ علاقوں پر قبضہ ہے-یعنی دولت کی حوس اور تقسیمِ انسانیت کی سازش میں مغربی ممالک کی نوآبادیاتی یلغار جاری ہے اور محکوم اقوام دفاع کیلئے کمر بستہ ہیں-

تحریک کا عالمی قوانین کی نظر میں جائزہ:

امیر عبدالقادرؒ کی جدو جہدِ آزادی کے قانونی طور پہ جائز اور ناجائز ہونے سے متعلق مختلف آراء ہیں-اگرامیر عبد القادر  کی جد و جہدآزادی کو فرانسیسی قبضے کے تناظر میں دیکھا جائے تو بین الاقوامی قوانین ِ آزاد ریاست و اقتدار کے مطابق ان کی جدو جہد قانونی اور جائز تھی کیونکہ آزادی اور خود مختاری کے حوالے سے جتنے بھی قوانین ہیں ہر ریاست اور اس کے لوگوں کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ اپنی ریاست کو کسی بھی بیرونی یا غیر ملکی قبضے سے بچانے کے لیے کوشش کر سکتے ہیں اور یہ ان کا قانونی اور جائز حق ہے-امیر عبد القادر نے اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے اپنے علاقے کی استعماری طاقت سے حفاظت کی-

بین الاقوامی اداروں مثلاً بین الاقوامی انسداد دہشت گردی قوانین، اقوام متحدہ، جنیوا کنونشن، انٹرنیشنل کسٹمری لاء، روم سٹیٹیوٹس جو کہ بین الاقوامی قوانین کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں، کے مطابق کسی بھی آزاد ریاست میں دہشت گردی، قبضہ اور کسی بھی عسکری یا غیر عسکری طریقے سے خودمختاری میں دخل دینا قانونی طور پر جرم اور ناجائز ہے اور اسے کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جا سکتا،ہر آزاد ریاست یہ حق رکھتی ہے کہ کسی بھی ایسی استعماری طاقت کے خلاف مزاحمت کرے اور لڑے جو کسی بھی ریاست کی خود مختاری میں دخل دے- [12]

اقوام متحدہ کے چارٹر برائے خود مختاری اور دخل اندازی آرٹیکل24 کے مطابق تمام رکن ریاستیں جو کسی بھی ریاست کی داخلی خود مختاری اور اس کی ملکی سالمیت کی خلاف ورزی کریں، اسے روکیں گی اور اس کے خلاف اقدام کریں گی-[13] اگر کسی بھی ریاست پر حملہ کر دیا جائے توآرٹیکل 51 کسی بھی رکن ملک کو انفرادی یا اجتماعی سطح پر دفاع کا حق دیتا ہے-اگر اس جدوجہد کو انسانی حقوق کے دفاع کے تناظر میں دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کا قانون برائے انسانی حقوق (UDHR) ہر انسان کو بنیادی سیاسی و سماجی حقوق دیتا ہے اور کسی بھی قسم کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور غیر انسانی رویے کو ممنوع قرار دیتا ہے- آرٹیکل 3 کے مطابق ہر ایک کو زندگی، آزادی اور تحفظ کے حقوق حاصل ہیں-استعماری طاقتوں کے زیر اثر نو آبادیاتی نظام ایک معاشی اور سیاسی غلامی کی قسم ہے جبکہ (UDHR) آرٹیکل 4 کسی بھی قسم کی غلامی یا انسانی غلاموں کے کاروبار کو ممنوع قرار دیتا ہے- ہر شخص کو حق ہے کہ وہ اپنی ریاست قائم کرے، بغیر کسی امتیاز کے اس کی حفاظت کرے، اپنے لوگوں کا دفاع کرے اور کوئی بھی شخص کسی بھی ریاست یا اس کے باشندوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتا-آرٹیکل 30 کسی بھی قسم کی انفرادی یا اجتماعی سرگرمی جس سے کسی ریاست کو نقصان پہچانا یا تباہی مقصود ہو کو ممنوع قرار دیتا ہے-[14] امیر عبدالقادر کی جدو جہد، بین الاقوامی قوانین برائے بنیادی انسانی حقوقِ آزادی و سیاسی خود مختاری اور ہر قانون کے مطابق جائز تھی-

امیر عبد القادرؒ نے اپنی ریاست کا فرانسیسی قبضے سے دفاع کیا جیسا کہ بہت سے لوگوں نے فرانسیسی قبضے اور نو آبادیات کے خلاف دفاع کیا اور جنگیں لڑیں مثلاً انگلینڈ، فرانس اور امریکہ نے بھی اپنے ممالک کی سالمیت اور اقتدار کیلئے نوآبادیاتی طاقتوں سے جنگیں کیں-جیسا کہ سات روزہ جنگ جو نو آبادیاتی مقاصد کی بنیاد پر برطانیہ اور اس کے بدترین دشمنوں فرانس اور سپین کے درمیان لڑی گئی، فرانس نے مزاحمت کی اور بُری طرح شکست کھائی-

دونوں ممالک نے اپنی نوآبادیات کیلئے جنگ کی اور فرانس کی کئی آبادیوں پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا اس کے نتیجے میں فرانس کی مزاحمت کو جائز اور قانونی قرار دیا گیا جو برطانوی نو آبادیاتی مقاصد کے خلاف کی گئی-[15]امریکہ کی طرف سے لڑی جانے والی آزادی کی جنگ جو برطانیہ کے خلاف لڑی گئی،آزادی کیلئے شروع کی گئی جدو جہد کا تسلسل تھی اور سات سالہ جنگ کا نتیجہ تصور کی جا سکتی ہے-[16]ان جنگوں کے لڑنے والے جنگجوؤں تھامسن جیفرسن اور جارج واشنگٹن کو امریکی تاریخ میں ہیروز کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تمام بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان کی تحریک کو جائز اور قانونی قرار دیا گیا اور فرانس نے بھی ہر قسم کی اخلاقی اور مادی مدد فراہم کی-اس تحریک کی چنگاری برطانیہ کی طرف سے لگائے گئے بنیادی ضروریات پر ٹیکسز[17]کی وجہ سے منظم ہوئی جو امریکی عوام کو دبانے کیلئے لگائے گئے- [18]

امیر عبد القادرکی جد و جہد آزادی بھی ایک غیر ملکی قبضے کے خلاف اپنی ملکی سالمیت کیلئے تھی-انہوں نے نہ ہی کسی ملک پر حملہ کیا اور نہ ہی کسی ملک کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی نہ کسی قوم کے انسانی حقوق غصب کیے بلکہ اپنے ملک کا دفاع کیا-یہ دوہرے معیارات ہیں کہ جہاں پر بھی مفادات ہوں تو مختلف سپر پاورز کی طرف سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی بھی ملک کی سالمیت اور خود مختاری کی خلاف ورزی کی جاتی ہے-امیر عبدالقادر کے جنگ کے اصول اور رحمدلانہ رویہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی جنیوا کنونشن کی ایک صدی پہلے کی صورت نظر آتا ہے - [19]

الجیریا جد و جہدِ آزادی سے قبل:

امیر عبد القادر کی جدو جہد آزادی کا ذکر کرنے سے پہلے یہ مناسب ہوگا کہ اُس وقت کے تناظر میں الجزائر کی سیاسی و سماجی حالت اور دوسرے مذہبی اور دانشورانہ رجحانات کا ایک تجزیہ کیا جائے جو امیر عبدالقادر کی اس تحریکِ آزادی کی کامیابی کیلئے موزوں ثابت ہوئے-اٹھارویں صدی سے پہلے الجزائر کی سیاسی حیثیت ریجنسی(ولایت) کی تھی جس کا حکمران ’’Dey‘‘کہلاتا تھا جس کا انتخاب عثمانی عسکری عہدیداروں میں سے ہوتا تھا- اٹھارویں صدی میں جیسے عثمانی حکومت کمزور ہوئی ولایت سیاسی طور پر قریباً آزاد ہوگئی مگر وہاں حکمران ترکش ہی تھے جنہوں نے ریاستی امور بہتر طور چلانے کیلئے بہت سے ٹیکس لگائے- بہت سے قبیلوں نے ان ٹیکسوں کے خلاف بغاوت کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے-

الجزائر کے لوگوں کو سیاسی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک ’’مخزن‘‘ جو کہ جنگجویانہ صلاحیت کے حامل تھے اور دوسرا ’’ریا‘‘-ریا بنیادی طور پر مذہبی لوگ تھے اور ’’مرابتین‘‘کے نام سے مشہور تھے-پہلا گروہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو ترکی حکمرانوں کےماتحت ٹیکس اکٹھا کرتے تھے اور دوسرا گروہ عوام پر مشتمل تھا-مخزن ریا پر غالب تھا، امیر عبد القادر نے بطور حکمران جہاد کیلئے اپنی طاقت استعمال کرنے کی کوشش کی تو انہیں مخزن گروہ کے سیاسی طور پر با اختیار اور مراعات یافتہ لوگوں سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو یہ محسوس کر رہے تھےکہ ان کی طاقت اور شان و شوکت امیر عبد القادرکی وجہ سے ختم نہ ہو جائے- افریقی ساحلی علاقوں سے متعلق یورپی لوگوں کا نقطہ نظر مختلف تھا-یہ علاقے تجارتی کشتیوں اور لوگوں کیلئے محفوظ نہیں تھے کیونکہ ان علاقوں میں بربر  موجود تھے جو کہ بحری قزاقوں کے طور پر مشہور تھے مگر قزاقوں کی طرح غیر قانونی ہونے کی بجائےاپنے افریقی حکمرانوں سے وفادار تھے-یورپی لوگ اپنی تجارتی کشتیوں اور لوگوں کو محفوظ بنانے کیلئے ان سے مختلف معاہدے کرنے اور انہیں ٹیکس ادا کرنے کے لئے مجبور تھے-1803ء میں ان حالات میں ایک نیا کردار داخل ہوا وہ امریکی جنگی بیڑا تھا جس نے حملےشروع کر دیے اور 1816ء میں امریکی جنگی جہازوں نے ان علاقوں پر ایک بہت بڑا حملہ کیا[20]-یہ اس وقت شمالی افریقہ کی حالت تھی جس میں فرانسیسی افریقہ پہنچے-الجزائر کے بارے میں فرانسیسی جنگی سالاروں اور حکمت عملی بنانے والوں کی تین مختلف آراء ہیں پہلی جو فرانسیسی سپاہیوں کو خطرے سے متعلق تھی دوسرے وہ تھے جو فرانسیسی اقتدار کے پھیلاؤ اورتیسرے الجزائر کو مکمل نو آبادیاتی بنانے کے حق میں تھے-[21]

قائدانہ زندگی کا آغاز:

علویوں اور عثمانیوں کے درمیان اختلافات تھے کیونکہ جب علوی سلطان کا نمائندہ علی بن سلیمان عثمانیوں کےپاس آیا تو عثمانیوں نے قلعہ چھوڑنے سے انکار کر دیا، ان دونوں سیاسی قوتوں کے ساتھ مختلف قبائل کے بھی اختلافات تھے جس کی وجہ سے الجزائر کے سیاسی حالات میں ایک طاقت کا خلا نظر آتا ہے جو کہ مرابتین یعنی محی الدین کے ذریعے پُر ہوا اور انہیں جد و جہد کی قیادت کا موقع ملا-محی الدینؒ نے خرقۂ امارت امیر عبد القادر  کو دے کر رسول اللہ () کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے امیر عبد القادرؒ کو امیر المومنین  بنا کر قبائل کی قیادت کے لئے منتخب کیا اور الجزائر کا دفاع، اسلامی حکومت کے قیام،اسلام کے نفاذ اور فرانسسیوں کو اپنے علاقوں سے نکالنے کی ذمہ داری دی[22]- 25 سال کی عمر میں روحانی اور عسکری تربیت کے بعد امیر عبد القادر  کو امیر تسلیم کر لیا گیا اور فرانسیسی قبضے کی وجہ سے الجزائری لوگوں کے روحانی اور دنیاوی قائد کی حیثیت سے اپنی جدو جہدِ آزادی کا آغاز کیا[23]-امیر عبد القادر کے والد نے تاریخ میں دو بڑے نام عبدالرحمٰن ثالث اور یوسف بن تاشفین جنہیں ناصر الدین (دین کا مددگار) کا لقب دیا گیا، سے متاثر ہو کر امیر عبد القادر کو بھی ناصر الدین کا لقب دیا-[24] جیسے ہی امیر عبد القادر  کو بطور امیرالمومنین مقرر کیا گیا تو لوگوں میں امیر المومنین کے جائز اور قانونی ہونے کے معاملے پر سوال پیدا ہوگئے-علوی سلطان اور عثمانی سلطان کے نمائندہ مولی عبد الرحمٰن بھی اسی لقب سے مشہور تھے-اپنے خاندانوں جن کا تعلق قادری سلسلے سے تھا، کے علاقوں میں امیر المومنین عبدالقادرؒکا والہانہ استقبال کیا گیا اور دوسرے علاقوں میں امیر عبدالقادرکی حیثیت اپنے والد کے وارث اور بطور مولے عبد الرحمٰن کے نائب کی تھی اور علوی سلطان کے علاقوں میں لوگوں کا یہی خیال تھا کہ امیر عبدالقادرؒ علوی سلطان کے نائب کے طور پر جہاد میں حصہ لے رہے ہیں-

جیسے ہی فرانسیسیوں نے مولی عبد الرحمن کے علاقے مسکارہ پر حملہ کیا تو مقامی قبائل کے تعاون نہ کرنے کی وجہ سے فرانسیسیوں نے اس علاقے پر قبضہ کرلیا اور مولی عبد الرحمن مراکش کی طرف چلے گئے اور امیر عبد القادرؒ اکیلے اس علاقے میں حکمران بن گئے[25]-جیسے مذہبی علاقوں میں علماء کا اثر و رسوخ ہوتا ہے اور کسی بھی قائد کی جائز حیثیت علماء کی جانب سے جائز حیثیت قرار دینے پر منحصر ہے، امیر عبد القادر کے معاملے میں دو بڑے علماء التسولی جو فاز کے علاقے کے علوی قاضی القضاۃ تھے اور عبد الہادی جنہوں نے بالترتیب 1836ء اور 1839ءمیں اپنے فتاویٰ کے ذریعے امیر کو جائز قائد قرار دیا اور مسکارہ کے ان مسلمانوں سے جنہوں نے تعاون نہ کیا، سے جنگ کو جائز قرار دیا- [26]

بین الاقوامی دنیا میں یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ الجزائر پر فرانسیسی قبضے کی ابتداء ایک اعلیٰ تہذیب یافتہ ملک کی ایک جھوٹ و دھوکے پر مبنی سرگرمی سے ہوئی جیسا کہ فرانسیسیوں کے نزدیک الجزائر کو نوآبادی بنانے کے پیچھے نام نہاد نظریاتی مقاصد تھے- جیسا کہ تہذیبی فہم جس کے مطابق مختلف اقوام کو سائنس اور فرانسیسی تہذیب کی اخلاقی اقدار کے ذریعے مہذب بنانا[27]-نپولی جنگوں کے دوران فرانس نے ولایت سے گندم خریدی اور مقروض ہوگیا جیسے ہی فرانس میں شہنشاہی نظام دوبارہ قائم ہوا تو ولایت نے واجبات کا تقاضہ کیا اور فرانس واجبات کی ادائیگی کے موڈ میں نہیں تھا-Dey‘‘  نے سفارتی عملے سے جب واجبات کا تقاضا کیا تو عملے کے انکار پر ’’Dey‘‘نے جارحانہ رویہ اختیار کیا اس رویے کی وجہ سے فرانس کی طرف سے جنگ کی گئی-[28] بہت زیادہ حملوں کی وجہ سے الجزائر فرانس کے ہاتھوں میں چلا گیا-Dey اور ترکی حکمران علاقہ چھوڑ گئے فرانسیسی فوجوں نے الجزائر میں داخل ہونے کے بعد وعدہ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ مذہبی جگہوں پر حملہ نہیں کیا جائے گا اور بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے گا لیکن تھوڑا وقت گزرنے کے بعد یہ تمام وعدے بھلا دیے گئے اور مساجد کی بے حرمتی کی گئی، گھروں کو جلایا گیا، لوگوں کو مارا گیا، فرانسیسی جنگی شاہدوں کے مطابق الجزائر میں بہت اندوہناک اور نا گفتہ بہ  حالت تھی-

1830ء سے 1847ء تک کا عہد:

1830ء میں جب الجزائر پر حملہ کیا گیا اور فرانسیسی فوجوں کو ان کی طرف بھیجا گیاتو وہاں کے لوگوں نے مراکش کے علوی سلطان کو مدد کیلئے خط لکھا اور بہت سارے تحائف کے ساتھ وہ خط سلطان کو روانہ کیا گیا[29]-امیر عبد القادر کے والد محی الدین  نے بھی مراکش کے سلطان سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے نمائندے علی بن سلیمان کے ہاتھ سیاسی طور پر بیعت کی-1830ء میں فرانسیسی حملےکے بعد وہ تلسمن میں آئے اور سلطان سے غیر ملکی حملے کے خلاف مدد مانگی کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں اور اس قابل نہیں ہیں کہ بیرونی قبضے کے خلاف جدوجہد کی قیادت کرسکیں[30]-یہ ظاہر کرتا ہے کہ محی الدین  کے قریب مراکش کے سلطان کی حیثیت اس موقع پر ایک جائز حکمران کی تھی-1830ء میں فرانس نے جب الجزائر پر حملہ کیا تو امیر عبد القادر نے قبائل کے درمیان اتحاد کے قیام کیلئے قانون لاگو کیا اور فرانسیسی فوجوں پر متحدہ حملے کی منصوبہ بندی کی-امیر نے اپنے حملوں کیلئے مسکارہ جو صوبہ اوران میں واقع تھا کو اپنا مرکز بنایا اور 1832ء سے 1833ء تک کامیابی سے حملے کیے- امیر عبدالقادر ایک غیرمعمولی شخصیت کے طور پر مشہور ہوئے کیونکہ میدان جنگ میں بھی بہت سے ایسے واقعات ہوئے جن کی وجہ سے امیر عبدالقادرؒ کے بارے میں مشہور ہوا کہ ان پر خدا کی طرف سے خصوصی رحمت ہے اور وہ خاص بصیرت اور مہارتوں کے حامل ہیں-[31]امیر عبد القادر  نے تمام قبیلوں سے ملاقات کی اور لوگوں کو جنگ کیلئے متحرک کرنے کے بعد فرانسیسی قابض ساحلی علاقوں کے تین اہم قلعوں کا محاصرہ کر لیا-جب فرانسیسی لوگوں کے حالات زیادہ خراب ہوئے تو جنرل ڈیسمشل نے تین خطوط کے ذریعے امن اور معاہدے کیلئے کہا اور 1834ء میں ایک معاہدہ طے پا گیا-

بنیادی طور پر یہ معاہدہ مختلف مترجمین کے ذریعے طے پایا-ایک معاہدہ فرانسیسی میں لکھا گیا اور دوسرا معاہدہ عربی میں لکھا گیا- عربی میں لکھے گئے معاہدے کی کاپی میں ایک ایسی شرط تھی جو فرانسیسی کاپی سے مختلف تھی اس مخصوص شرط کے مطابق عربی میں لکھی گئی کاپی میں امیر عبد القادر کو الجزائرکی سب سے بڑی سیاسی قوت اور حکمران تسلیم کیا گیا تھا جبکہ فرانسیسی میں لکھے گئے معاہدے میں فرانس کو بطور مقتدر سیاسی قوت تسلیم کیا گیا تھا یہ بھی فرانس کی مہذب قوت کی طرف سے بدعہدی اور جھوٹ کی ایک مثال ہے-

اس معاہدہ کے مطابق امیر عبد القادر ؒ نے فرانسیسیوں کی حکومت کو کاروبار کی اجازت کے ساتھ اور انستغامن اور ارزیوں کے علاقوں میں تسلیم کر لیا- فرانسیسیوں نے مغربی الجزائر کے باقی علاقوں میں امیر کے تجارتی تحکم داری اور سیاسی حکمرانی کو تسلیم کر لیا- اس معاہدے میں قیدیوں کے تبادلے کی بھی شرط شامل تھی[32] جس کے ذریعے امیر عبدالقادرؒ کو فرانسیسیوں نے مغربی الجزائر میں عسکری اور انتظامی حکمران تسلیم کر لیا-بنیادی طور پر فرانس سے معاہدہ اور گفت و شنید سے مراد یہ بھی ہے کہ فرانس کی نو آبادیات کی موجودگی کو بطور ایک فریق تسلیم کر لیا گیا گو کہ یہ موجودگی غیرقانونی تھی جبکہ بہت سے ایسے بنیادی حقائق بھی تھے جن کی وجہ سے معاہدہ ہوا اور فرانس کو بطور فریق تسلیم کیا گیا کیونکہ امیر عبد القادرؒ کو بھی اپنی حکومت یا حکمرانی قائم کرنے کیلئے وقت درکار تھا - دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ فرانسیسیوں کو الجزائر کے حالات اور وہاں جنگی حکمت عملی سے واقفیت نہیں تھی اور ایک وجہ فرانس میں غیر یقینی صورتحال کا ہونا بھی تھا-

معاہدہ ڈیسمشل کی فرانسیسی جنرل کی طرف سے مزید پیروی نہ کی گئی اور فرانسیسیوں نے بد عہدی کرتے ہوئے دریائے میکتا کے علاقوں پر حملہ کیا اور بری طرح شکست کھائی- اس شکست کا بدلہ لینے کیلئے جنرل کلازل نے بہت سے اہم علاقوں بشمول امیر کے دارالخلافہ کو تباہ کر دیا- 1836ء میں جنرل کلازل نے مشرقی علاقوں میں عرب مزاحمت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور7000سے زیادہ افراد پر مشتمل فوج بھیجی جسے امیر کے فوجیوں نے شکست دے دی اور فرانسیسی جنرل کو اچھی طرح سمجھ آئی کہ کیا وہ اس قابل ہیں کہ ایک ہی وقت میں ملک کے مختلف علاقوں میں جنگ کر سکیں اس لیے فرانسیسی جنرل نے امن میں ہی عافیت سمجھی - اس موقع پر امیر نے قیام امن کی رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے ایک اور معاہدہ کیا جسے معاہدہ تافنا کہا جاتا ہے-اس معاہدے کے ذریعے فرانس نے امیرعبدالقادرؒ کو الجزائر کے دو تہائی حصے کا حکمران تسلیم کر لیا-[33] معاہدہ تافنا کے ذریعے امن قائم ہو گیا اور امیرعبدالقادرؒ کو اپنی حکومت مضبوط کرنے کیلئے پانچ سال کا وقت مل گیا-

 (i)حسنِ اِنتظام:

امید عبدالقادر صرف ایک جنگجو نہیں تھے بلکہ بہترین خوبیوں کے حامل ایک اچھے منتظم اعلیٰ بھی تھے امیر نے اپنی ریاست قائم کی ابتدائی انتظامی مشینری تشکیل دی اور بہت سے جنگجو قبائل کو ایک حکومت کے ماتحت کیا-[34] انہوں نے ایک ایسی حکومت قائم کی جو ایک اہرام کی صورت میں مختلف درجوں کے عہدیداروں پر مشتمل تھی جس میں سب سے اوپر عبدالقادرؒ نے خود کو بطور حکمران رکھا- امیر عبدالقادرؒ نے اپنے علاقے کو8حصوں میں تقسیم کیا ہر ایک کو ’’خلیف لیک‘‘ کہا جاتا تھا جس کا نگران خلیفہ کہلاتا تھا جو امیر کا بہت قابل اعتبار آدمی ہوتا تھا- خلیفہ ٹیکس جمع کرنے، لوگوں کی شکایات سننے، فیصلے کرنے اور لڑنے کا ذمہ دار ہوتا تھا- خلف لیک کو مزید ’’آغا لیک‘‘میں تقسیم کیا گیا تھا جس کا نگران آغا ہوتا تھا جو قبیلوں کے درمیان حکمران کی حیثیت رکھتا تھا-اس کے علاوہ قبائلی سطح پر ’’قائد‘‘اور ’’شیخ‘‘ہوتے تھے- امیر نے قاضیوں کا تقرر کیا اور انہیں تنخواہیں دیں تاکہ بدعنوانی کو روکا جائے اور شفاف نظام عدل کی حوصلہ افزائی ہو- امیر نے ایک بہترین نظام ٹیکس لاگو کرتے ہوئے تمام دوسرے ٹیکسوں کو ختم کیااور اسلامی معاشی نظام کے مطابق زکوٰۃ اور عشر کو لاگو کیا- اس کے علاوہ ایک بہترین فوج کی تشکیل کیلئے جہاد ٹیکس بھی لاگو کیا[35]- امیر عبد القادرؒ ایک گہری بصیرت کے حامل حکمران تھے جو اس بات کا تجزیہ کر رہے تھے کہ مستقبل میں کیا ممکنہ خطرات ہیں اور جدید وقت کی کیا ضرورت ہے؟ اس بات کی شدید ضرورت محسوس کی کہ ایک بہترین سازو سامان سے لیس فوج تشکیل دی جائے تاکہ فرانس کے خطرے سے نمٹا جائے جو پوری دنیا میں جدید ہتھیاروں کے مالک تھے- عرب دنیا میں امیر وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے جدید فوج کی اہمیت کو سمجھا اور امیر عبدالقادرؒ اس بات سے پوری طرح واقف تھے کہ افواج کی تجدید وقت کی ضرورت تھی- اس سے نہ صرف انہوں نے بہترین اور منظم فوج تشکیل دی بلکہ اس کے مالی معاملات کیلئے اسے ایک صنعتی ڈھانچے سے جوڑ دیا- امیر نے اپنے آپ کو ایک کثیرالجہتی شخصیت کے حکمران کے ایسے مجسم کے طور پر ثابت کیا جس میں تمام معاشی و ثقافتی اور سماجی و سیاسی مسائل جو مسلم حکمرانی کو الجزائر میں در پیش تھے سے نبرد آزما ہو نے کی صلاحیت تھی-امیر عبدالقادر نے 15 سال تک مسلسل نو آبادیاتی طاقت کے خلاف جد و جہد کی اور فرانسیسیوں کیلئے بہت طاقتور مزاحمت ثابت ہوئے -امیر عبدالقادر کا اپنے علاقوں کا دفاع کرنا،تمام قبائلی طاقتوں کو متحد کرنا اور ایک بہترین قابل فوج کے ساتھ ایک حکومت قائم کرنا افریقی عرب حکمرانوں کیلئے ایک سنگ میل اور رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے-

 (ii) استحکام کے پانچ سال کے بعد:

امن اور استحکام کے 5سال گزرے اور امیرعبدالقادرؒ نے اپنا بہترین نظام قائم کیا-اب جبکہ 5سال گزر گئے تو فرانس کو یہ خیال آیا کہ اب اپنے منصوبوں کا ایک دفعہ دوبارہ تجزیہ کرنا چاہیے کہ کیا اس معاہدے کو قائم رکھنا ہے یا الجزائر پر پوری طرح قبضہ کرنا ہے- دوسری طرف امیرعبدالقادرؒ اور ان کی شوریٰ کے لوگوں کو جہاد کے نعرے سے تشویش تھی جو ابھی جاری نہیں تھا اور قبائل سوچ رہے تھے کہ امیر شائدسستی کاشکار ہو گئے ہیں- اسی اثناء میں مختلف قبائل پر فرانس نے حملہ کیا اور بری طرح شکست کھائی نتیجتاً گورنرجنرل کو تبدیل کر کے جنرل بوگاد کا تقرر کیا گیا اور فرانس نے امیر عبد القادرؒ کو ختم کرنے اور پورے الجزائر پر قبضے کیلئے جنگ کی تیاری شروع کر دی-امیر عبدالقادرؒ نے اس موقع پر امن کیلئے پیغامات بھیجے لیکن جوابات سے پتا چلا کہ اس دفعہ فرانس کا کچھ اور ہی منصوبہ ہے- اس دفعہ فرانسیسیوں نے بہت خطرناک حکمت عملی کا انتخاب کیا انہوں نے پہلے امیر کی فوجوں پر حملے کرنے کی بجائے وہاں کے باشندوں اور شہریوں پر حملے شروع کر دیے-ان کے شہر تباہ کر دیے، زیتون اور پھلوں کے باغات اجاڑ دیے، لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا اور یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا تاکہ قبائل کی طرف سے امیر عبد القادرؒ کو ملنے والی مالی اور اخلاقی مدد ختم کی جائے-فرانسیسیوں نے موسم اور امیر عبد القادر کی گوریلہ جنگی حکمت عملی کی وجہ سے اپنا جنگ کا طریقہ بھی تبدیل کیا-امیر عبد القادر کو بھی اس چیز کا تجربہ دریائے سکاک کی جنگ سے 1836ء میں ہو چکا تھا کہ فرانسیسی فوج جو بہترین سامان جنگ سے لیس ہے اور بہترین تربیت یافتہ ہے تو میدان جنگ میں اس کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے- جنگ جاری تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امیر کے مددگار قبائل کا رویہ بدل رہا تھا اور اہم شہر جن کو بطور سیاسی اور عسکری مرکز کے استعمال کیا جا سکتا تھا مسکارہ، ٹڈمپ ، تلمسن تمام علاقے فرانسیسیوں کے پاس چلے گئے حتیٰ کہ امیر کا اپنا گھر ’’زاویہ‘‘جہاں وہ جوان ہوئے وہ بھی تباہ ہو گیا اور تمام خلفاءکے مراکز پر فرانسیسیوں نے قبضہ کر لیا-

ان تمام باتوں کے باوجود امیر کا جنگی قیدیوں سے رویہ بہت کمال کا تھا کیونکہ امیر انسانی مقام اور اخلاقیات کو ماننے والے تھے اس لیے انہوں نے اپنی والدہ کو درخواست کی کہ وہ قیدی عورتوں کی دیکھ بھال کریں اور بالخصوص کسی بھی کسی قسم کی غیر اخلاقیت سے ان کو بچائیں جو کسی بھی جنگی اور انتشار کی حالت میں ایک عام سی بات ہے- میدانِ جنگ میں امیر عبد القادرؒ نے اپنے رویے کے ذریعے سے مستقبل کے انسانی حقوق کے علمبردار قوانین کے حوالے سے مثال قائم کر دی[36]- جب فرانسیسیوں نے ملک کے زیادہ تر علاقوں پر قبضہ کر لیا تو امیر کا خاندان اور دوسرے بہت سے قبائل اپنی حفاظت کیلئے ایک متحرک دار الخلافہ جسے ’’سمالہ‘‘کہا جاتا تھا جس میں لوگوں کی تمام ضروریات موجود تھیں مثلاً ایک ایسا متحرک قصبہ جس میں کیمپ اور تمبو جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا تھا-’’سمالہ‘‘ میں 60 سے 70 ہزار لوگ شامل تھے- 1843ء میں فرانسیسیوں کی طرف سے سمالہ کو بھی تباہ کر دیا گیا امیر عبد القادرؒ کو جب اس کی خبر ہوئی تو انہیں بہت مایوسی اور تکلیف ہوئی-سمالہ کی تباہی کے بعد 1847ء میں امیر عبدالقادرؒ نے اس شرط پر اپنے آپ کو فرانسیسیوں کے حوالے کر دیا کہ امیر اور ان کے لو گوں کے ساتھ اچھا اور محفوظ برتاؤ کیا جائے گا اور وعدہ کیا گیا کہ انہیں کسی اسلامی ملک مثلاً مصر،فلسطین وغیرہ میں بھیج دیا جائے گا-امیر عبدالقادرؒ نے سرنڈر کردیا لیکن ان کی کہانی ختم نہیں ہوئی بلکہ امیر عبد القادرؒ کی زندگی کا وہ حصہ جو جلا وطنی کی صورت میں گزرا اور با لخصوص امیر کا کردار ایک اجنبی ملک میں وہا ں کی ثقافت، لوگ اور روایات سے متعلق گفتگو بھی اس پیپر کا حصہ ہے- مختلف دانشور روایت پسند مقلدین پر تنقید کرتے ہیں جو وقت کے مطابق رجحانا ت اور ٹیکنالوجی جو وقت کی ترقی اور ضرورت کا نتیجہ ہے، کی جانب تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں- اگر امیر کی زندگی کو اس فکری عینک سے دیکھا جائے تو امیر کی شخصیت منفرد تھی جس میں کسی قسم کی فکری تنگی نظر نہیں آتی- امیر عبد القادرؒ کے کردار کی بہت سی ایسی مثا لیں ہیں جن میں امیر کا جمالیاتی ذوق اور فکری جدت نظر آتی ہے-امیر کو آخر میں اچھی زندگی کی امید میں دمشق بھیج دیا گیا-

قید و بند:

قید کے دنوں میں بھی امیر عبد القادرؒ نے خود اور اپنے لوگوں اور ان سے ملنے والے لوگوں کو پڑھانے سکھانے اور عبادات کی مشق کرنا نہیں چھوڑی- حتیٰ کہ ان کی قید کی جگہ کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے وہ امیر کا ’’زاویہ‘‘ ہو-امیر عبدالقادرنے انتہائی معتبر کردار ادا کرتے ہوئے دمشق میں حالات خراب ہونے کے دوران ہزاروں عیسائیوں کی جان بچائی اور ان کے اس رحم دلانہ عمل کو یورپ میں بہت زیادہ سراہا گیا اور وہ بہت مشہور ہوئے-بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ امیر عبد القادرؒکی جدوجہدِ آزادی قومی درجے کی نہیں تھی اور نہ ہی اس میں تمام لوگوں نے حصہ لیا سوائے ان مریدین کے حلقہ احباب کے جن کی امیر کے ساتھ روحانی وابستگی تھی،لیکن بہت سے بنیادی ماخذات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امیر کی جد و جہدآزادی مریدین تک محدود نہیں تھی بلکہ تمام طبقوں اور عوامی حلقوں نے اس میں حصہ لیا جس کی وجہ سے فرانسیسیوں کو لمبی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا -[37]امیر عبد القادر  صرف ایک جنگجو نہیں تھے جنہوں نے نیک مقصد کیلئے جدوجہد کی بلکہ ان کی ابتدائی روحا نی زندگی، جدوجہد، جلا وطنی، قیدوبند اور میدان جنگ میں اپنی شرافت، وفاداری، روحانی تعلیما ت اور تمام لوگوں تک پھیلے بھائی چارے کے کردار نے بہت سے عام اور خاص لوگوں کو متاثر کیا-

امیر عبدالقادرکی فکری جدت:

امیر عبد القادرؒغیر معمولی خوبیوں کے مالک تھے-وہ ایک عالم اور سپاہی تھے اور ان کی تربیت بنیادی طور پر روایتی علم کی بنیاد پر کی گئی تھی لیکن انہوں نے جدید ٹیکنالوجی اور علمی جدت کی پیروی بھی کی اور ان کے کردار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ علمی و فکری جدت کو انسانی معاشرے کے لیے بہت اہم سمجھتے تھے-امیرکی زندگی فکری ورثے کے طور پر نوجوان نسل کیلئےایک بہترین نمونے کی حیثیت رکھتی ہے مثلاًکامل مومن اور روحانی ورثے کا امین ہونا اور دور جدید کے نئے علوم اور خیالات کو تسلیم کرنا اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کیلئے صبرو تحمل کا پیکر ہونا-جلا وطنی کے دنوں میں دمشق میں امیر عبد القادر نے اپنے آپ کو زندگی کی مصروفیا ت سے دور نہ رکھا بلکہ اپنے خاندان کا بہترین منتظم اعلی ہوتے ہوئے درآمدات اور بر آمدات کے کارو?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر