اسلامی تعاون تنظیم OIC کا 48 واں اجلاس

اسلامی تعاون تنظیم OIC کا 48  واں اجلاس

اسلامی تعاون تنظیم OIC کا 48 واں اجلاس

مصنف: اُسامہ بن اشرف مئی 2022

عالم ِاسلام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے21 اگست 1969ء کو ایک سربراہی تنظیم قائم کی گئی جس میں 57 اسلامی ممالک شامل ہیں- یہ اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا قیام ایک انتہائی ناخوشگوار واقعے کے نتیجے میں ہوا-جب ایک انتہاپسند آسٹریلوی مسیحی ڈینس مائیکل روہان نے ایک عظیم مسلمان جرنیل صلاح الدین ایوبی کے ممبر جوکہ 800 سال پرانہ تھا، اس کو نظر آتش کردیا- اس وقت ایک اسلامی تنظیم کی ضرورت محسوس کی گئی اور فلسطین کے مفتی اعظم ’امین الحسینی‘ نے اسلامی ممالک سے درخواست کی کہ ایک سربراہی کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ اس طرح کے جارہانہ واقعات کا سدباب کیا جا سکے- اس درخواست کے جواب میں 24 مسلم اکثریتی ممالک کے سربراہان مراکش کے شہر ’’رباط‘‘ میں اکٹھے ہوئے اور 25 ستمبر 1969ء میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس کے بعد سعودی عرب کے شہر جدہ میں وزرائے خارجہ کی کانفرنس منعقد کی گئی- پھر 1972ء میں ’اسلامی تعاون تنظیم‘ مسلمانوں کی ایک باضابطہ تنظیم کے طور پر وجود میں آئی جو کم و پیش 1.5 عرب مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے- اسلامی تعاون تنظیم کے قیام کا بنیادی مقصد عالم ِ اسلام کو درپیش مسائل کا ایک باضابطہ حل تلاش کرنا اور اسلامی ممالک کے درمیان مضبوط رشتہ، ہم آہنگی اور اتحاد کو فروغ دینا ہے- اسلامی تعاون تنظیم کے چارٹر میں یہ واضح ہے کہ سائنسی، اقتصادی، ثقافتی، یکجہتی، اسلامی اقدار کے تحفظ، عالمی امن و سلامتی اور جدید تعلیم کو فروغ دیا جائے-

اسلامی تعاون تنظیم کےرکن ممالک کی وزرائے خارجہ کونسل کا 48واں اجلاس 22-23 مارچ 2022 ءکو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوا- اس اجلاس میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود ’’اسلامی تعاون تنظیم‘‘ کے سیکرٹری جنرل ’’حسین ابراہیم طہ‘‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اور مہمان خصوصی چینی سٹیٹ کونسلر وانگ ژی نے اجلاس سے خطاب کیا- اس کے علاوہ شرکاء میں دیگر رکن ممالک کے 20 وزرائے خارجہ اور دس نائب وزرائے خارجہ کے علاوہ پانچ بڑی طاقتوں کے مندوبین اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے کارکنوں نےبھی اجلاس میں شرکت کی- اسلام آباد میں ہونے والی یہ سب سے بڑی اور اہم وزرائے خارجہ کانفرنس تھی-OIC کے وزرائے خارجہ کا یہ اجلاس اس وقت منعقد ہوا جب اُمتِ مسلمہ کو سنگین مسائل درپیش ہیں جن میں معاشی مسائل، عالمی دہشت گردی، موسمیاتی تبدیلی و تغیرات، قدرتی آفات، قحط، کووڈ 19اور بین الاقوامی تنازعات سرفہرست ہیں-

OIC کے اجلاس کے ایجنڈا میں اسلاموفوبیا اور ممالک کے درمیان جنگی کشیدگی، ناموس رسالت (ﷺ) کا دفاع اور اس کیلئے مؤثر اور جامع لائحہ عمل مرتب کرنا شامل تھا- اس کے علاوہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کو ظلم و زیادتی، غیر امتیازی سلوک کا سامنا اور اسلام پہ دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا جاتا ہے، اس کے خاتمےکیلئے مسلم ممالک کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت پر توجہ دینا تھا اور تمام مسلم ممالک کو یکجا اور متحد ہونے کی طرف راغب کرنا تھا-

OIC کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہونا خوش آئند عمل ہے جو کہ سرکاری، عسکری اور سول اداروں کی کاوشوں کی بدولت کامیابی سے ہمکنار ہوا- جنوبی ایشیا میں استحکام قائم کرنے پر OIC کے ممبرممالک نے پاکستان کے اہم کردار کو تسلیم کیااور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے اصولوں پر مبنی علاقائی امن کے فروغ کیلئے پاکستان کے کردار اور کوششوں کو سراہا-

اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس سے قبل بھارتی پروپیگنڈہ کیا گیا جب حریت رہنما (کشمیر) میر واعظ عمر فاروق کو اجلاس میں شرکت کی آفیشل دعوت دی گئی، جس پر بھارت نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا، جس کی وجہ اس کانفرنس میں پیش ہونے والی قرار داد تھی جس میں کشمیر میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور بھارت کا کشمیریوں کے ساتھ جارحانہ سلوک اور بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا تھا-

وزیراعظم عمران خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم فلسطین اور کشمیر کے معاملے کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے- یہی وجہ ہے کے فلسطین میں دن دیہاڑے فلسطینیوں کے حقوق پامال کئے جا رہے ہیں- دوسری جانب کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم اور اس کی ڈیموگرافی کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے- کشمیر کو مسلم اکثریت سے مسلم اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے- اس کے علاوہ افغانستان کی اہمیت، سیاسی کشیدگی اور دہشتگردی پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے کہا کے افغانستان کا مستحکم ہونا امن کا ضامن ہے- اسلاموفوبیا کو خطرہ مانتے ہوئے نیوزی لینڈ حادثہ کی مثال دی کہ 15 مارچ 2019ء کو نیوزی لینڈ کی مسجد میں ایک عیسائی ’’برینٹن ٹیرنٹ‘‘ نامی ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور 50 سے زائد افراد کو شہید کردیا محض مسلمان ہونے کی وجہ سے جو نماز ادا کررہے تھے- ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے مسلمانوں کی مضبوط تنظیم سازی کی اشد ضرورت ہے- وگرنہ اس طرح کےانسانیت سوز واقعات مستقبل میں بھی ہوتے رہیں گے-

سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران اس بات پر زور دیا کہ کشمیر، فلسطین اور دیگر مسلم ممالک کو درپیش مسائل کو انسانی حقوق کی بنیادوں پر حل کیا جائے- اسی طرح عالمی برادری کو بھی چاہیے کے وہ منصفانہ طور پر کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ پر امن طریقے سے حل کروائے-

اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل ’’حسین ابراہیم طہ‘‘ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امت مسلمہ کے مفاد کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے- یمن میں جاری خون ریزی کو ایک منصفانہ طریقہ سے حل کیا جائے- اسی طرح کشمیر کو بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق خود ارادیت کا حق دیا جائے- بھارت کا 5 اگست 2019ء کو کشمیر کے حوالے سے کیے گیےردعمل کی مزاحمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا ردِّعمل قانون کے منافی ہے- اس کے علاوہ انہوں نے فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے اور اس کے فوری حل کا مطالبہ کیا- مزید کہا کہ افغانستان کے امن کیلئے عالمی برادری سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے اور امن کی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے-

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ’’انتونیو گوتریس‘‘ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اقوام متحدہ ‘‘ اور ’’او آئی سی‘‘ تجارتی، ثقافتی اقدار، امن، رواداری اور افہام و تفہیم پہ یقین رکھتے ہیں- اس کوشش کے ساتھ کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی، مذہبی عدم برداشت اور دہشتگردی کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے- اس وقت بیشتر ترقی پذیر ممالک غربت کے دہانے پر ہیں- جس کی بنا پر معاشرے میں بدامنی پیدا ہوتی ہے- اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم پائیدار ترقی کی جانب رجوع کریں-

چائنہ کے وزیر خارجہ کو بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا- چائنیز وزیر خارجہ کی آمد اس بات کی طرف واضح اشارہ تھا کہ چین اسلامی ممالک خاص کر اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات اور خطے میں امن و سلامتی قائم کرنا چاہتا ہے- چین کے وزیر خارجہ ’’وانگ ژی‘‘ جو کے ’’او آئی سی‘‘ اجلاس کے خصوصی مہمان تھے انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کے چین نے ہمیشہ عالمی استحکام کے لیے کام کیا اور تعاون جاری رکھا ہے اور آگے بھی جاری رکھا جائے گا- ان کا کہنا تھا کے چین عالمی سطح پر امن و سلامتی کا خواہاں ہے-

کانفرنس کے اختتام پہ ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں مندرجہ ذیل مطالبات پیش کیےگئے:

فلسطین جو کئی سالوں سے اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہا ہے، اقوام متحدہ کی قرارداد 194 کے مطابق فلسطین کو حق خود ارادیت حاصل ہے اور بیت المقدس فلسطین کا قانونی حصہ ہے جس پر اسرائیل قابض ہے- اسرائیلی کالونیوں کو ختم کرنے کیلئے عالمی برادری کو آواز بلند کرنے کا مطالبہ کیا گیا- دوسری جانب بھارت کا کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف عالمی برادری سے مطالبہ اور بھارت کا کشمیریوں کی مرضی کے خلاف کشمیر پر قبضہ اور ان پر ظلم و زیادتی کے بارے میں اقوام متحدہ کو بھارت کے خلاف کاروائی کرنے کی اپیل کی گئی اور بھارت کوبین الاقوامی ذمہ داریوں کا احساس دلایا گیا- بھارت نے 9 مارچ 2022 ’’سپرسونک‘‘ میزائل کے لانچ سے جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کو خراب کرنے کی کوشش کی تھی جس سے بے شمار منفی اثرات مرتب ہو سکتے تھے-

اجلاس میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگی کشیدگی ختم ہونے کا خیرمقدم کیا گیا- جنگی کشیدگی سے اندرونی طور پر بے گھر (آی ڈی پیز) افراد کو جلد واپس کرنے، آرمینیا کاجارحانہ بیان بازی سے بازرہنے اور ایک اچھا پڑوسی ہونے کا مطالبہ کیا گیا-

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے خلاف دہشتگردی کے حملوں کی مزمت کی گئی- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہیومن رائٹس کی حفاظت کیلئے قرارداد 2624 کو منظور کرنے پر اقوام متحدہ کا خیرمقدم کیا گیا-

روس اور یوکرائن کے درمیان اختلافات کو جلد از جلد ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تاکہ انسانی جانوں کے ضیاع اور خونریزی کو روکا جا سکے اور خطے میں نقل و حرکت کو یقینی بنایا جا سکے-

بوسنیا اور ہرزیگوینا میں مذہبی اور قومی کشیدگی پھیلانے کی مزاحمت کی گئی- یہ کشیدگی نہ صرف بوسنیا اور ہرزیگووینا بلکہ پورے مغربی بلقان کےعلاقے میں امن اور سلامتی ختم ہونے کا باعث بن سکتی ہے جس کے فوری حل کا مطالبہ کیا گیا-

 افغانستان میں امن کے قیام کے لیے عالمی برادری سے تعاون کی اپیل کی گئی اور افغانستان کو بین الاقوامی کمیونٹی میں شامل کرنے کا کہا گیا تاکہ امن قائم کیا جا سکے-

عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر ’’اسلامی تعاون تنظیم‘‘ کا  کامیاب اجلاس ہونا ایک خوش آئند بات ہے- اسلامی، ثقافتی اور مذہبی اقدار کیلئےا سلامی تعاون تنظیم مؤثر ترین ادارہ ہے- یہ اجلاس اس بات کا ضامن ہے کہ امت مسلمہ ہمیشہ سے امن کی خواہاں ہیں- انفرادیت پرستی،قوم پرستی اور علاقائیت پرستی کو چھوڑ کر ایک اجتماعی سوچ کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی تعاون تنظیم دنیا میں موثر کردار ادا کر سکے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر