رجوعاتِ خلق کی اصطلاح

رجوعاتِ خلق کی اصطلاح

کسی بھی علم کا مطالعہ تبھی مُفید ہوتا ہے جب اُس علم کی اصطلاحات سے واقفیّت ہو- علومِ دینیّہ ہوں، معاشرتی و معاشی علوم ہوں یا سائنسی علوم، ہر ایک پہ الگ الگ یہی اصول قائم ہوتا ہے - ایسے اولیاء اللہ جنہیں مشاہداتِ غیبی کی سعادت نصیب تھی اور وہ صاحبانِ تصنیف و تالیف بھی تھے ، اُن کی کتب کے مطالعہ میں بھی ایک مشکل اُن کی اصطلاحات سے واقفیت حاصل کرنا ہے- جب تک عُرفا ء و صوفیاء کی اصطلاحات سے واقفیت نہ ہو ، ان کے معانی و مفاہیم کا علم نہ ہو تب تک اُن کی تصانیف سے کما حقہٗ استفادہ نہیں کیا جا سکتا -

سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ کی فارسی تصانیف کے مطالعہ و تفہیم میں بھی یہ مشکل قدم قدم پہ پیش آتی ہے - جس طرح آپ کا رتبہ و مقام منفرد ہے اُسی طرح آپ کی اصطلاحاتِ عارفانہ بھی منفرد ہیں- اُنہی منفرد اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح ’’رجوعاتِ خلق‘‘ ہے جو کہ آپؒ نے اپنی کتب میں بکثرت استعمال فرمائی ہے- عموماً اس اصطلاح کو حضرت سُلطان باھُوؒ نے طالب کی بھی اور مرشد کی بھی خامی، نقص اور عیب کے طور پہ استعمال فرمایا ہے، مگر ’’من کل الوجوہ‘‘ یہ نقص و خامی نہیں یعنی کئی مقامات پہ یہ ایک خوبی کے طور پہ بھی آئی ہے - زیرِ نظر مضمون میں اِسی اصطلاح کی تفہیم و تسہیل کیلئے چند سوالات سامنے رکھیں گے اور اُنہیں تعلیماتِ حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ سے جاننے کی کوشش کریں گے -

موضوع پہ براہِ راست بات شروع کرنے سے قبل ایک بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ منصبِ مرشد اور مرشد کی رہنمائی کرنے کے حوالے سے تعلیماتِ حضرت سُلطان باھو کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ جب تک چیزوں کی اصلیت اور خاصیت یا بالفاظِ دیگراُن کے اجزائے ترکیبی میں ترتیب دیے گئے اجزاء و اشیاء کے خواص سے کامل واقفیت نہیں ہوتی اُس وقت تک طالب اِن اشیاء کے نقصان سے بچ سکتاہے نہ اِن سے کامل نفع حاصل کر سکتا ہے ؛ اور یہی عالمگیر اصول بھی ہے -

اشیاء کی اصلیت اور اُن کے حقیقی خواص کو جاننا یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے اور یہ شان اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی عطا فرماتا ہے جس کی بدولت وہ چیزوں کے مثبت اور منفی خواص کو جان لیتے ہیں- اس لئے وہ خود بھی ضرر سے محفوظ رہتے ہیں اور لوگوں کو ضرر سے بچنے اور اشیاء سے نفع کے کامل حصول کے ذرائع سے وابستہ رہنے کی تلقین بھی کرتےرہتے ہیں- یہ ضروری نہیں کہ ہر چیز،ہروقت اور ہر حالت میں نقصان دہ ہو، یا اس کے بر عکس ہر وقت و حالت میں فائدہ مند ہی ہو - عین ممکن ہے کہ ایک چیز ایک وقت اور ایک حالت میں فائدہ مند ہواور اُس کا استعمال بھی جائز ہو لیکن وہی چیز اُسی شخص کیلئے دوسرے وقت اور حالت میں نقصان دہ ہو - فرض کیا کوئی چیز ایک وقت و حالت میں ایک شخص کیلئے شفا کا درجہ اختیار کر جائے اور دوسرے وقت میں وہی شفا بخش چیز اُسی شخص کیلئے زہرِ قاتل کا درجہ اختیار کر جائے؛ تو یہ اُس ڈاکٹر یا طبیب (مرشد)کی تشخیص پر منحصر ہے جو ماہرِ ادویات کی طرح ، ڈاکٹر اور طبیب کی طرح چیزوں کے خواص کو جانتا ہے کہ کون سی چیز کس مریض (سالک) کیلئے کس وقت مفید و شِفا ہے اور کس وقت نقصان دہ اور زہرِ قاتل- اس لئے صوفیاء کرام بعض دفعہ اپنی تربیت میں رہنے والے سالکین کو بعض جائز کاموں کے کرنے سے بھی روک دیتے ہیں جس طرح علم ، نکاح ، سفر وغیرہ -صوفیاء کے سِیَر و تذکروں میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں کہ وہ کچھ وقت کیلئے کسی سالک کو علم کے حصول سے بھی روک دیتے ہیں، ایسا محض اُس وقت ہوتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ عقلی و منطقی دلائل اور لمبے چوڑے القابات سے اس کے اندر غرور و تکبر آ رہا ہے یا ’’اصل‘‘ سے بیگانگی پیدا ہو رہی ہے تو بغرضِ تربیت اسے اس سے وقتی طور پہ روک دیتے ہیں- اسی طرح نکاح ایک لازمی اَمَر ہے ، لیکن زیرِ تربیت سالک کو صوفیاء بعض دفعہ روک دیتے ہیں، نفس پرستانہ سوچ میں نکاح حسن پرستی یا جذبۂ شہوانی کی تسکین کا ذریعہ ہے-البتّہ اُس وقت سالک کو اجازت مرحمت ہوتی ہے جب وہ اسے حسن پرستی یا شہوت کی تسکین کی بجائے تسلسل و بقائے بنی نوعِ انسان کا ذریعہ، عظیم ترین حکمتِ الٰہی اور حکمِ شرعِ محمدی (ﷺ) کی تکمیل سمجھتا ہے -

سُلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ اپنی پوری تعلیمات میں اکثر مقامات پر کسی نہ کسی مرتبے پر فائز شدہ شخص کو ہدایت کرتے ہوئے، نقصان اور خسارے سے آگاہ کرتے ہوئے اوررہنمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ آپؒ کے حاذق طبیب ہو نے کا واضح ثبوت ہے کہ آپؒ ہر عمل کے خواص اور اُس کے نتائج و اثرات کو جانتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ آپؒ سالک کو ایسے کام سے بھی روک دیتے ہیں جو لوگوں کی نظر میں درست ہوتا ہے اور اس کی اصل یہ ہے ’’حسنات الابرار سیئات المقربین‘‘ -

اس پوری گفتگو کے خلاصے کے طور پر ’’عین الفقر‘‘ کا ایک اقتباس نہاہت ہی مفید ثابت رہے گا جس میں آپؒ نے ایک خاص مرتبہ تک رسائی کیلئے اللہ کے علاوہ ہر چیز کو ترک کرنے کی تلقین فرمائی :

’’سُن ! فقیر اُس وقت تک غرق فنا فی اللہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ گیارہ چیزوں کو ترک نہیں کر دیتا، (1) ترکِ اکسیر(2) ترکِ تکسیر (3) ترکِ علوم(4) ترکِ ذکر(5) ترکِ فکر(6) ترکِ اُمید ِبہشت(7) ترکِ خوفِ دوزخ(8) ترکِ حُبِّ دنیا و مال و دولت (9) ترکِ رجوعاتِ خلق(10) ترکِ نام و ناموس (11) ترکِ مجلس ِ اہل ِدنیا- جب تک وہ اِن چیزوں سے کنارہ کش نہیں ہو جاتا مراتب فقر فنا فی اللہ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا- ترک ِجان، قتل ِنفس اور دست بیعت ِ مرشدِ کامل کے بغیر راہِ ربّانی ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی‘‘ -

مرشد کا منصب اس بات کا متقاضی ہےکہ وہ ہر چیز (عمل) کی تاثیر اور اس کے نتیجے سے با خبر ہو کیونکہ اس کے بغیر سالک کی رہنمائی نا ممکن ہے-اس بنیادی اصول کو سمجھ لینے کے بعد اب ہم مطلوبہ اصطلاح کی طرف جاتے ہیں-

آپؒ کی کتاب ’’ کلید التوحید خورد‘‘ کے ایک پیراگراف کا آخری حِصّہ ہے:

’’...یہ سکوت اس شخص کے لائق ہے جو ہمیشہ مشاہدۂِ حضور رکھتا ہو- اس قسم کے صاحبِ سکوت کو لامکان لاہوت کا باسی کہتے ہیں- سکوت دراصل جسم و جان سے نکل کر لامکان میں غرق ہو نے کا نام ہے- جو سکوت اس طریقہ کے مطابق نہ ہو وہ مکر ہے اور ’’رجوعات ِ خلق‘‘ کی شکار گاہ ہے- ایسا سکوت شیطان کا مکر ہے اور نفس امارہ کا فریب ہے ‘‘-

مندرجہ بالا عبارت سے اخذ شدہ سوالات:

اس پیراگراف میں دو اصطلاحیں استعمال ہوئی ہیں ’’سکوت ‘‘ اور ’’رجوعاتِ خلق ‘‘-انہی اصطلاحوں کی بنیاد پر ان سوالات نے جنم لیا :

  1. تعلیماتِ باھُو میں ’’رجوعاتِ خلق‘‘کی اصطلاح نقص و خامی کے طور پہ کیوں بیان ہوئی ہے؟
  2. طالب رجوعاتِ خلق میں کیوں گرفتار ہوتا ہے؟
  3. رجوعاتِ خلق کے نقصانات بطورِ طالب کے کیا ہوتے ہیں؟
  4. اس کے نقصانات بطور مرشد کے کیا ہوتے ہیں؟
  5. اگر یہ حالت نقصان دِہ ہے تو پھر بڑے بڑے اولیاء الله کی طرف عامۃ المسلمین کا اتنی کثیر تعداد میں رجوع کیوں ہے؟

اَب بالترتیب اِن سوالات کے جوابات تعلیماتِ حضرت سُلطان العارفین قدس اللہ سرہٗ سے تلاش کرتے ہیں -

1- تعلیماتِ باھُو میں ’’رجوعاتِ خلق‘‘ کی اِصطلاح نقص و خامی کے طور پہ کیوں بیان ہوئی ہے؟

رجوعاتِ خلق کونقص اور خامی کے طور پر اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ یہ راہِ سلوک کے مسافروں کے دلوں میں پیدا ہونے والی محبتِ الٰہی کی چنگاری کو خاکستر کر کے مسافر کو عیب دار کرسکتی ہے یہی نقص اور عیب سالک کی خدا سے دوری کا سبب بنتا ہے- جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒ ’’عین الفقر‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’جان لے کہ شوق و محبت ِالٰہی ایک روشن چراغ ہے اور رجوعاتِ خلق اور کشف و کرامات آندھی ہے جس نے محبت ِالٰہی کے اِس چراغ کو خانۂ شریعت میں محفوظ نہ رکھا تو یہ (چراغ) بجھ جائے گا، آندھی اِسے بجھا دے گی اور اِس کی روشنی برباد ہو جائے گی- اہل ِایمان کیلئے پانچ چیزیں باعث ِزوال ہیں- جس نے اِن کو بند نہ کیا اُس پر راہِ فقر نہ کھلے گی-وہ پانچ چیزیں کون سی ہیں؟وہ حواسِ خمسہ ہیں یعنی سننے، دیکھنے ، چکھنے، سونگھنے اور چھونے کی حسیں- یہ پانچوں چور ہیں جو وجود کے اندر نفس کے ساتھی ہیں- اِن پانچوں سے توبہ کرانی چاہیے‘‘-

ان ہی پانچ چیزوں سے رجوعاتِ خلق کا دروازہ بند کیا جا سکتا ہے، کان ہر وقت اپنی ستائش و تعریف سننے میں مائل ہونے لگیں اور آنکھیں اپنے اردگرد ستائش و تعریف کرنے والوں کا تانتا بندھا دیکھنا چاہیں تو ایسی رجوعاتِ خلق یقیناً نقصِ طلب پہ دلالت کرتی ہیں- اِسی اصول پہ عرفاء نے ظاہر بین زاہدوں سے اختلاف کیا- جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒ تو ایسی ریاضت و زہد سے بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے جس سے وجود میں رجوعاتِ خلق کی خواہش پیدا ہو-

آپؒ ’’محک الفقر ‘‘میں لکھتے ہیں :

’’ظاہری عبادت و ریاضت راہِ حق میں کسی کام نہیں آتی کہ اُس سے اِشتیاقِ رجوعاتِ خلق پیدا ہوتاہے - مَیں اِس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں‘‘-

ظاہر پرست زاہدوں کے علاوہ آپ نے ایسے نام نہاد پیروں فقیروں کی بھی نفی فرمائی ہے جو رجوعاتِ خلق کا شکار ہوں- آپؒ ’’محک الفقر‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’جان لے کہ بے باطن فقیر حرص و طمع ، رجوعاتِ خلق و شہرت اور نام و ناموس کی قید میں گرفتار رہتا ہے ، وہ خود کو صاحب ِحضور سمجھتا ہے لیکن وہ ہوتا خدا سے دور ہے‘‘-

آپ قدس اللہ سرہٗ نے اسے نقص و خامی اس لئے کہا ہے کہ زاہد اور فقیر اِس کے دامِ فریب میں آکر شوق و محبتِ الٰہی کا چراغ بجھا بیٹھتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے دور ہو جاتے ہیں- آپؒ محک الفقر میں دوسرے مقام پر ’’رجوعاتِ خلق‘‘ کی خواہش کے پیدا ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’(تجلی کی) دوسری (قسم ) ناری کہ جس کا تعلق نارِ نفس یعنی غصہ، غضب، عداوت اور کینہ سے ہے- یہ وہ نارِ شیطانی ہے کہ جس سے حرص ،طمع ، طلب ِدنیا ، معصیت اور نارِ جنونیت پیدا ہوتی ہے اور اِسی سے ہی رجوعاتِ خلق اور ترقی ٔدرجاتِ دنیا کی خواہش پیدا ہوتی ہے ، اہل ِ دنیا اور عالمِ غیب کے جنوں اور دیووں کو تابع کر کے یک وجود ہونے کی تمنا پیدا ہوتی ہے، شراب نوشی، بدعت، ترکِ نمازو حج و زکوٰۃ کی عادت اور کفار و یہود سے اخلاص و محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے - جب یہ آگ وجود میں پیدا ہوتی ہے تو دل میں انائے فرعونی اُبھرتی ہے جس سے دل سیاہ ہو جاتا ہے اور نیکی و بدی کی تمیز مٹ جاتی ہے- یہ تمام مقامات ناری اِستدراج کی پیداوار ہیں  ‘‘-

اس اقتباس میں آپؒ نے ’’رجوعاتِ خلق‘‘ کا مآخذ تجلیٔ نور کی بجائے تجلیٔ نار ، نارِ شیطانی اور استدراج بیان فرمایا ہے ، اِس لئے یہ نقص و خامی ہیں -

2-طالب اس حالت میں کیوں گرفتار ہوتا ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ سالک کی رجوعاتِ خلق میں گرفتار ہونے کی دو وجوہات ہیں یا تو وہ شیخ کے بغیر اس راستے کا مسافر ہے یا جس شیخ کی ہمراہی میں سفر کر رہا ہے وہ خود ناقص ہے -اس حوالے سے حضرت سلطان باھوؒ نورالھدٰی میں لکھتے ہیں:

’’مرشد بھی دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک مرشد ِحبیب جو طالب ِغریب کو مجلس ِحبیب حضرت محمدرسول اللہ (ﷺ) میں پہنچاتاہے اور دوسرے مرشد ِ رقیب جو طالب اللہ کو خلوت نشینی اور چلہ کشی کی ریاضت میں ڈال کر طیر سیرِ مقاما ت و رجوعاتِ خلق سے خراب کرتا ہے‘‘-

حضرت سلطان باھُو نے سالک کو اکیلا سفر کرنے سے بھی منع فرمایا ہے آپؒ ابیاتِ باھو میں لکھتے ہیں :

وڑیں بازار محبت والے باھو کوئی رہبر لے کے سوہاں ھو

یعنی محبت کے بازار میں سبھی نشیب و فراز جاننے والا رہبر لے کر داخل ہونا - جب اپنی عقل کے گھوڑے پر سوار ہو کر اس بازار محبت میں قدم رکھتا ہے اور سنی سنائی رسمی رواجی ذکر کو اپناتا ہے تو اس کے نتیجے میں مزید پھنستا جاتا ہے حضرت سلطان باھوؒ ’’محک الفقر‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’جان لے کہ ذکر کی چار اقسام ہیں، پہلا ذکر رسمی رواجی ہے جس میں سانس کو روکا جاتا ہے اور دل کو حبس ِ دم میں لپیٹ کر لَوٹایا جاتا ہے (یعنی حبس ِ دم کے ذریعے دل کی دھڑکن کو بڑھایا جاتا ہے )لیکن اِس طرح تو دل ذکر اللہ سے بے خبر رہ کر مردے کا مردہ ہی رہتاہے - ذکر تو وہ ہے کہ جس میں ذاکرزبان کو حرکت دئیے بغیر محض دل میں توجہ و تفکر سے اسمِ اَللّٰہُ کا ذکر کرے - اِس قسم کے رسمی رواجی ذکر ِحبس ِ دم سے طیر سیر طبقات، رجوعات ِ خَلق، ترقی ٔ عز و جاہِ دنیا اور شہرت ِنام و ناموس تو ہاتھ آ جاتی ہے مگر ذاکر معرفت ِالٰہی سے محروم رہتا ہے‘‘-

اس رسمی رواجی ذکر کے نتیجے میں مطمع نظر اس کی اپنی ذات ٹھہرتی ہے اور وہ اپنی ذات کے خول سے نہیں نکل سکتا- حضرت سلطان باھو صاحبؒ ’’محک الفقر‘‘ میں کمتر اور اعلیٰ مرتبہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’اہل ِ درجات کا مرتبہ کمتر ہے کہ اہل ِدرجات کشف و کرامات کی بدولت رجوعات ِ خلق میں گرفتار رہتا ہے ، اُس کی نظر اپنی ہی ذات پر لگی رہتی ہے اور وہ معیت ِ خدا میں مراتب ِ یقین پر نہیں ہوتا بلکہ وہ اِستدراج کا شکار ہو کر ہوا و ہوس میں مبتلا رہتا ہے‘‘-

3- رجوعاتِ خلق کے نقصانات بطورِ طالب کے کیا ہوتے ہیں؟

رجوعاتِ خلق کے طالب کیلئے بہت زیادہ نقصانات ہیں، کچھ تو گزشتہ اقتباسات سے بھی واضح ہیں ،مزید یہ کہ بعض دفعہ یہ حالت سلب مراتب کا بھی سبب بن جاتی ہے - حضرت سلطان باھوؒ ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں اسی حوالے سے لکھتے ہیں :

’’ وہ ولی اللہ فقیر جو مشق ِوجودیہ مرقومِ اسم اللہ ذات کرتا رہتا ہے اور جس کا مرتبہ مراتب ِلاسویٰ اللہ سے بہت اعلیٰ ہے اور ہمیشہ سرورِ کائنات حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی مجلس میں حاضر رہتا ہے اُس کیلیے ہوائے نفس کی پیروی کرنا، غیرِ حق کی طرف رجوع کرنا، رجوعاتِ خَلق میں اُلجھنا ، کشف و کرامات کا اِظہار کرنا، مؤکلات و فرشتوں سے گفتگو کرنا، طبقاتِ خَلق کی طیر سیر اور اُس کا تماشا دیکھنا وغیرہ حرام و گناہِ کبیرہ ہے بلکہ سلب ِمراتب کا باعث ہے‘‘-

آپؒ ’’محک الفقر‘‘ میں مزید لکھتے ہیں :

’’جان لے کہ شہرت و ناموری، طالبی و مریدی اور رجوعاتِ خلق کے جملہ مراتب مکھی اور چیونٹی کے مراتب ہیں ، اِن پر مغرور نہ ہو‘‘-

رجوعاتِ خلق کے شکار طالب کو مکھی اور چیونٹی سے تشبیہ دینے سے مراد یہ ہے کہ مکھی کانوں کے گرد بھنبھنا تو سکتی ہے مگر شاہباز کی طرح فلک پیمائی نہیں کر سکتی ، اِسی طرح چیونٹی کا مقدر بھی خاک پہ رینگنا ہے نہ کہ افلاک کی سیر- لہٰذا ایسا ہی طالب، طلبِ حق میں منزلِ مراد تک کامیابی سے پہنچتا ہے جو رجوعاتِ خلق سے بے نیاز رہتا ہے -

4- اس کے نقصانات بطور مرشد کے کیا ہوتے ہیں؟

حضرت سلطان باھوؒ کلید التوحید میں لکھتے ہیں:

’’کامل قادری مرشد وہ ہے جو معرفتِ اِلَّا اللّٰہ اور حضوریٔ مجلس ِ محمدی (ﷺ) کے علاوہ اور کسی راہ کا طالب نہیں کیونکہ ذکر فکر اور ورد وظائف کی راہ میں رجعت ِنفسانی و معصیت ِ انائے شیطانی اور رجوعات ِ خلق اور دنیوی پریشانی جیسے بے شمار حادثات پائے جاتے ہیں جن کی راہزنی سے سلب ِقلب و قبض و بسط اور صحو و سکر جیسے خسارے پیش آتے ہیں ‘‘-

آپؒ فَرماتے ہیں کہ رجوعاتِ خلق  شیخ کے دل میں ہوائے خود پسندی پیدا کرتی ہے جیسا کہ ’’اسرار القَادری‘‘ میں ہے :

’’خبردار! رجعت ِنفس، معصیت ِشیطان اور حوادثِ خلق کی آفت سے ہوشیار رہ - عالم کی آفت ِرجعت طمع ہے، فقیر کی آفت ِرجعت رجوعاتِ خَلق ہے کیونکہ بادشاہ و اُمرأ کے مرید ہونے سے اُس کے نفس میں ہوائے خود پسندی پیدا ہوتی ہے جو اُسے خدا کی معرفتِ قُرب سے باز رکھتی ہے ‘‘-

 آپؒ ’’عقل بیدار‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’جس مرشد پر رجوعات ِخلق اور نفس و شیطان کا غلبہ ہو جائے وہ گناہوں میں ڈوب کر شرمندگی اُٹھاتا ہے‘‘-

جیسے ہر چیز کی کوئی نہ کوئی آفت ہوتی ہے ، حضرت سلطان باھُو کے نزدیک مرشد کی آفت ’’رجوعاتِ خلق‘‘ ہے-

5- اگر یہ حالت نقصان دِہ ہے تو پھر بڑے بڑے اولیاء الله کی طرف عامۃ المسلمین کا اتنی کثیر تعداد میں رجوع کیوں ہے؟

بڑے بڑے اولیاء الله کی طرف لوگوں کا اتنی کثیر تعداد میں جانے کی تین وجوہات ہیں اُن میں سے ایک میں تو یقیناً نقصان ہی نقصان ہے دوسرے میں نقصان سے بچنے کے امکانات بھی ہیں اور تیسری میں اُن کی تحسین ہے -

(الف) خطرناک ترین حالت :

حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ بعض سالکین مخلوق کو مسخر کرنے کیلئے ورد و وظائف پڑھتے ہیں ، آپؒ نے ان کو گمراہ فرمایا ہے اور ایسے لوگوں سے اللہ کی پناہ مانگی ہے جس کی تفصیل ’’ محک الفقر‘‘میں یوں ہے :

’’بعض آدمی اہل ِ دنیا پر غلبہ کے لئے دعوت پڑھتے ہیں لیکن وہ دعوت کا مطلب تک نہیں جانتے جیسا کہ کئی آدمی سانپ پر منتر پڑھ کر اُسے اپنا قیدی بنا لیتے ہیں حالانکہ اُن کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ منتر پڑھ کر اُس درندے کو پکڑ لیں - ایسے لوگوں کواولیاء اللہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ تو محض منتر باز ہیں- جو لوگ کلامِ پاک کو رجوعاتِ خلق کی خاطر پڑھتے ہیں اُن کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ خلقِ خدا مسخر ہو جائے اور وہ اُس سے درم و دینار کمائیں اورلوگوں سے نذرونیاز وصول کریں - وہ اپنا رزق اِسی طرح حاصل کرتے ہیں اور اپنے رزق کا وسیلہ اِسی کو سمجھتے ہیں اور خدائے عزو جل پر اعتبار و توکل نہیں کرتے- ایسے لوگ سراسر شرک و ریا میں مبتلا ہیں- مَیں اِس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں - اللہ تعالیٰ ہمیں اِس گمراہ فرقہ سے محفوظ رکھے ‘‘-

آپؒ ’’کلید التوحید‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’بعض لوگوں کی ریاضت ریا پر مبنی ہوتی ہے جو سر اسر تسکین ِ ہوائے نفس، رجوعات ِخلق اور ننگ و ناموس کی خاطر کی جاتی ہے‘‘-

(ب) وہ حالت جس میں نقصان سے بچنے کے امکانات ہیں :

آپؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندے کا امتحان لینے کی غرض سے ان کی طرف اپنی مخلوق کا رخ پھیر دیتا ہے اور اس سے بچنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے-

آپؒ ’’عین الفقر ‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’طریقت میں رجوعات ِخلق کی بھر مارر ہتی ہے چنانچہ جن، ملائک، اِنس اور زر و مال کا رجوع صاحب ِطریقت کی طرف ہو جاتا ہے اور یہ خالی رجوعات ہی نہیں ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صاحب ِطریقت کا امتحان بھی ہوتا ہے- ورطۂ طریقت میں ہزاراں ہزار بلکہ بے شمار طالبوں کا بیڑہ غرق ہوتا ہے، شاید ہی کوئی طالب، اللہ تعالیٰ کے کرم سے اور فقرائے کامل کی برکت سے ساحل مراد تک سلامت پہنچتا ہے ‘‘-

(ج) قابل تحسین حالت :

تیسری حالت یہ ہے کہ (خلق کا ولیءِ کامل کی طرف کثیر تعداد میں راجع ہونا) لوگوں کا اس شیخ کی طرف جانا نہ تو اس ولی نے لوگوں کو عمل کے ذریعے مسخر کیا ہوتا ہے اور نہ اُس ولی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان لینا مقصود ہوتا ہے-بلکہ اس ولیءِ کامل کی عظمت اور وقار کو بلند کرنا مقصود ہوتا ہے کیونکہ اُس نے قُربِ الٰہی کو پانے کا ہر راستہ و درجہ استقامت سے طے کیا ہوتا ہے؛ اور کبھی بھی اللہ کی رضا و طلب کے علاوہ کوئی درجہ و مقام ، رجوعاتِ خلق و کشف و کرامت کی تمنا نہیں کی ہوتی - اِس لئے لوگوں کا اس کی طرف جانا حکم الٰہی کے تحت ہوتا ہے اور جن و انس کا رُخ اس بندٔہ خدا کی طرف کر دینا یہ اس کےلئے انعامِ خداوندی ہے-جس کی وضاحت حضرت سلطان باھوؒ ’’محک الفقر کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’دین کے بھی تین حروف ہیں’’ د ی ن -‘‘ حرف ’’د ‘‘ سے دین معرفت کی آنکھ کو کھول کرمولیٰ کا دیوانہ و فریفتہ کرتا ہے جس سے بندہ طالب ِمحمد رسول اللہ (ﷺ)  بنتا ہے ، حرف ’’ ی ‘‘ سے دین یاری کراتا ہے اللہ سے اور یاری کراتا ہے تمام مومن بھائیوں، اہلِ اسلام مسلمانوں اور تمام مومن مسلمانوں سے اور حرف ’’ن‘‘ سے دین نیت کو خالص کرکے طالب اللہ کو صفا کیش و خیر اندیش بناتا ہے - ہر غنی و درویش اور ہر وہ آدمی جو دین کو اپنے ہاتھ میں رکھ کردنیا کو چھوڑ دیتا ہے، خطراتِ دنیا سے فارغ ہو جاتا ہے ، صدقِ دل سے تن پر لباسِ فقر پہن لیتا ہے اور خدا سے صدقِ خاص و درست اعتقاد رکھ لیتا ہے تو حق سبحانہٗ و تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے میرے فرشتو! میری دوستی میں میرا ایک بندہ دنیائے مردار نجس و پلید سے الگ ہو گیا ہے‘‘- تمام اؤلیا ٔاور اتقیا ٔو جملہ اہل ِاسلام کی ارواح اور اٹھارہ ہزار عالم کی کل مخلوقات کو حکم ہوتا ہے تم سب میرے دوست کی زیارت و پیشوائی کے لئے جا کر اُس کی ہمت پر آفرین کہو اور جو گدڑی و خاکسارانہ لباس اُس نے پہن رکھا ہے ویسا ہی لباس تم بھی پہنو ‘‘-

خاکسارانِ جہان را بحقارت منگر
توچہ دانی کہ درین گرد سواری باشد

’’ خاکسارانِ جہان کو حقارت کی نگاہ سے مت دیکھ، تجھے نہیں معلوم کہ اِس گرد کے پیچھے کون شہسوار چھپا ہوا ہے؟‘‘

خاکسارم جان سپارم جان نثار
حق نگارم غرقِِ وحدت اعتبار

’’ مَیں خاکسار ہوں ، جان سپار و جان نثار ہوں ، حق سبحانہٗ وتعالیٰ میرا محبوب ہے اور مَیں اُس کی وحدت میں گم ہوں‘‘-

حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ کے اس قول کی تائید متفق علیہ حدیث رسول (ﷺ) سے ہوتی ہے جسے سیدنا امام بخاریؒ نے ’’صحیح بخاری کتاب الادب‘‘ میں بھی اور ’’کتاب التوحید‘‘ میں بھی بیان کیا ہے اور سیدنا امام مسلم بن حجاجؒ نے ’’صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب‘‘ میں بیان کیا ہے :

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو بلاکر ارشاد فرماتاہے کہ بیشک میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی اُس سے محبت کر-پس جبرائیل (علیہ السلام) بھی اس سے محبت کرتے ہیں-پھر جبرائیل (علیہ السلام) آسمان میں ندا کرتے ہیں-پس وہ کہتاہے بیشک اللہ تعالیٰ فلاں بندے سےمحبت کرتا ہے توتم بھی اس سےمحبت کروپس اہلِ آسمان اس سے محبت کرتے ہیں-’’ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُوْلُ فِى الْأَرْضِ‘‘ پھر اس کیلیے زمین میں قبولیت (قبولِ عام) رکھ دی جاتی ہے  ‘‘-

’’ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُوْلُ فِى الْأَرْض‘‘ کے الفاظ گونج گونج کر بتا رہے ہیں کہ ایسے کاملین کی طرف مخلوق کا کثیر تعداد میں جانا اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبریلِ امین (علیہ السلام) کی منادی سے ہوتا ہے - اِس لئے یہاں مخلوق کا اولیاء اللہ میں سے کسی طرف بکثرت رجوع نقص و خامی نہیں رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی بن جاتا ہے -  

حضرت سُلطان باھُوؒ ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں ایک مقام پہ ایسے اولیا ءاللہ کے بارے فرماتے ہیں:

’’جان لے کہ فقیر وہ ہے جو عین العیان مرتبے کا مالک ہواور دونوں جہان دل و جان سے اُس پر عاشق ہوں اور اُس کے مکھڑے کی زیارت کیلئے ہر وقت منتظر و بے قرار رہتے ہوں ‘‘-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر