ابیات باھوؒ : طالب غَوث الاعظم والے شالا کدے نہ ہوون مَاندے ھو

ابیات باھوؒ : طالب غَوث الاعظم والے شالا کدے نہ ہوون مَاندے ھو

ابیات باھوؒ : طالب غَوث الاعظم والے شالا کدے نہ ہوون مَاندے ھو

مصنف: Translated By M.A Khan اگست 2020

ط: طالب غَوث الاعظم والے شالا کدے نہ ہوون مَاندے ھو
جیندے اَندر عِشق دی رَتّی سَدا رہن کُرلاندے ھو
جَینُوں شوق مِلن دا ہووے لے خوشیاں نِت آندے ھو
دوہیں جہاں نصیب تنہاندے باھوؒ جِہڑے ذاتی اِسم کماندے ھو

The seeker of Gouth al Azam perplexity they never sustain Hoo

The one who has ishq’s grain in lamenting they remain Hoo

Such who has passion for union from happiness he derives Hoo

Both worlds are in ones fate “Bahoo” in Devine name of Allah who, strives Hoo

Talib Ghous ul Azam walay shala kaday na howan maanday Hoo

Jaindaay andar ishq di ratti sada rahen kurlaanday Hoo

Jainoo’H shoq milan da howay lai khushiya’N nit aanday Hoo

Dohai’N jahaan naseeb tinhaa’N day Bahoo jehray zaati isam kamaanday Hoo

شد مرید از جان باھُو دل صفا

 

خاکِ پا سرمہ کشد در چشم جا

1:’’پاک دل باھُو دل و جان سے( شاہ عبدالقادر جیلانیؒ) کا مرید ہوا اور اُن کی خاکِ پا کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنایا‘‘ -(کلید التوحیدکلاں)

سیدی غوث الاعظم شہنشاہِ بغدادؒ کی ذاتِ اقد س سے حضرت سلطاان العارفینؒ کو جوعشق ہے وہ ماوراءعقل اوراحاطہ تحریر سے باہر ہے اوراس کا اظہار آپؒ کی تحریر میں مختلف مقامات پہ ہوتاہے جیساکہ ایک مقام پہ آپؒ کی شان اقدس بیان کرتے ہوئے رقمطرازہیں :

’’اللہ جل شانہ کی قسم! آپ کا ثانی کوئی نہیں -کیا نا سوتی، کیاملکوتی،کیا جبروتی اور کیا لاہُوتی، سب آپ کے زیرِ قدم ہیں، آہا!  کیسی عالیشان سُلطانی ہے آپ کی-حقیقت آپ سے روشن ہوئی، طریقت آپ سے گلشن بنی،آپ آسمانِ شریعت کے چاند اور نورانی خورشید ہیں، گلشن ِصوفیا کے سرو ہیں، بزمِ مصطفےٰ  (ﷺ)کی شمع ہیں، حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے محبوب ہیں ‘‘-(کلید التوحیدکلاں)

عشق کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ ’’جس آدمی کو جس  سے پیار ہو تا ہے اسے اس سےمنسوب ہر چیز سے والہانا لگاؤ ہوتا ہے‘‘-یہ اسی عشق کااثر ہے کہ آپؒ سیدنا غوث الاعظمؒ کے غلاموں کے حق میں اللہ عزوجل  کی بارگاہِ اقدس میں دستِ سوال درازکرتے ہیں کہ اللہ نہ کرے کہ   میرے پیر و مرشد سیدناغوث الاعظم الشیخ عبد القادر جیلانیؒ کے نام لیواؤں کے  حوصلے ماندپڑجائیں اور وہ راہ فقر میں چلتے ہوئے ہمت نہ ہاربیٹھیں-

2:حضورنبی کریم(ﷺ) کافرمان مبارک ہے : ’’اَلسَّکُوْنُ حَرَامٌ عَلٰی قُلُوْبِ الْاَوْلِیَآءِ‘،’’ اؤلیائے   اللہ کے دلوں پر سکون حرام ہے‘‘-(نور الھدٰی)

یہاں سکون سے مراد کسی ایک منزل و مقام پر مطمئن ہو جانا ہے-جیساکہ آپؒ رقم طرازہیں :’’کسی درجہ و منزل و مقام پر ٹک کر مطمئن ہوجانا فقراء کے دلوں پر حرام ہے‘‘-(نور الھدٰی)

یہ سب کچھ عشقِ مصطفٰے (ﷺ) کی بدولت ہوتاہے کہ جب مئے نایاب کسی دل میں قرار پکڑتی ہے تو وہ دل دنیاوی خوف و خطر سے تو قرار پکڑ جاتا ہے البتہ وہ یادِ مصطفٰے (ﷺ)اورمالک حقیقی کے ذکر و فکر میں مچلتا رہتا ہے جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں:

بی قراری و عشق نی تمکین
عاشقانی کہ مستِ زینجام اند

 

جُز بمُردن نباشدش تسکین
چوں بہ میرند ہم نہ آرام اند

’’بے قراری غضب کی ہے اور عشق پر زور نہیں ،عاشق کو مرے بنا تسکین نہیں - جو عاشق جامِ عشق سے مست ہوا اُسے مرکر بھی آرام نہ ملا‘‘ -(نور الھدٰی)

کُن تصرّف جان مال ہر چہ ہست

 

تا ترا حاصل شود کنہش الست

’’اپنی جان و مال اور ہر پیاری چیزکو اللہ کی راہ میں قربان کردے تاکہ تجھ پر حقیقت ِ الست کھل جائے‘‘-(کلید التوحیدکلاں)

3: یہاں بیت مبارک کے اس مصرع کا ایک معانی ومفہوم یہ ہوسکتاہے کہ جولوگ اللہ عزوجل کے وصال مبارک کے متلاشی ہیں وہ اپنی دنیاوی چاہتیں اور خوشیاں اپنی مالک حقیقی کی بارگاہ ِ اقدس میں برضاورغبت پیش کردیتے ہیں اوراس راہ میں آنے والے تمام مصائب کو برضاورغبت قبول کرتے ہیں بلکہ ان کو دنیاوی چاہتوں پہ ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اللہ عزوجل کافرمان مبارک بھی ہے:

’’ لَنْ تَنَالُواالْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْامِمَّا تُحِبُّوْنَ ‘‘            ’’ تم ہر گز اپنی مراد کو نہیں پہنچو گے جب تک کہ اپنی پیاری چیزوں کو اللہ کی راہ میں قربان نہیں کروگے‘‘ -(آل عمران:92)

ہر کہ خواند الف عالم شد تمام

 

در قیدِ او عالم شود ہم خاص و عام

4: ’’جو کوئی علمِ الف (علمِ اسمِ اللہ ذات)پڑھ لیتا ہے وہ مکمل عالم بن جاتا ہے جس کی قید میں تمام عالم آ جاتا ہے‘‘-  (امیرالکونین)

اگر یہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ حضور سلطان العارفینؒ نے ساراکلام و کتب اسمِ اللہ ذات کی شان اورشرح میں رقم فرمایا ہے- قاری کوآپؒ کی جس کتاب کو بھی پڑھنے کا شرف حاصل ہو، وہ ’’اسم اللہ ذات‘‘کی شان کو مختلف جگہوں پہ مرقوم پائے گا-ہم یہاں صرف ایک حوالہ پہ اکتفاکریں گےجس میں آپؒ کے اس بیت مبارک کے آخری مصرع کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے-آپؒ ارشاد فرماتے ہیں :

’’اے عارف باللہ! اے عاقل اہل ِ حضور ولی اللہ! اور اے صاحب ِشعور ظل اللہ! تم سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ علمِ توریت و علمِ انجیل، علمِ زبور و علمِ قرآن،علمِ اسمِ اعظم و علمِ کیمیاء جو اِن چاروں کتابوں میں موجود ہے اور علمِ احادیث ِنبوی و علمِ احادیث ِقدسی،علمِ صحیفہ و خواب و الہامِ جملہ پیغمبران وحضرت آدم صفی اللہ سے خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) تک تمام انبیاءکا سارا علمِ ظاہر و باطن اور اٹھارہ ہزار عالم کی کل مخلوقات میں جاری کن فیکون کی تمام حکمتوں کا علم، لوحِ محفوظ و عرشِ اکبر و کرسیٔ عظیم، علمِ ازل و ابد، علمِ دنیا و عقبیٰ اور شرف ِ دیدار ِتوحید ِپروردگار کے جملہ علوم کی تفصیل اسم اللہ ذات کی طے میں ہے- کوئی چیز بھی اسمِ اللہ ذات کی طے سے باہر نہیں ہے‘‘-(امیرالکونین)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر