ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

سوز کنُوں تَن سَڑیا سارا مَیں تے دُکھاں ڈیرے لائے ھو
کوئل وانگ کُوکیندی وَتاں ناں وَنجن دِن اضائے ھو
بول پَپِیہا رُت سَاون آئی مَتاں مولا مِینہ وَسائے ھو
ثَابِت صِدق تے قَدم اگوہاں باھوؒ رَبّ سِکدِیاں دوست مِلائے ھو

 

My body is burning and grief has taken up abode Hoo

I shriek like blackbird perhaps my days don’t erode Hoo

Sing O papeeha it is rainy session hopefully God might bless with rain Hoo

Stead fast and pursue ahead Bahoo Rabb unite with longing friend of mine Hoo

Soz kanu’H tan sa’Rya sara main tay dukha’N Deray laye Hoo

Koil wang kukendi wata’N na’H wanjan din azaye Hoo

Bol papeha rut sawan Aai mata’N mola meenh wasaye Hoo

Sabat sidq tay qadam agoha’N Bahoo rab sikdiya’N dost milaye Hoo

تشریح

باھُو! رشدانِ واصلان عشق سوز

 

ہر ساعتی ہر دم بسوزد شب و روز[1]

’’اے باھُو ! واصل باللہ مرشد عشق سوز ہوتے ہیں جو ہر وقت، ہر گھڑی اور ہر دم سوزِ عشق میں جلتے رہتے ہیں‘‘ -

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے مقربین کی شان بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :

أَفَمَنْ شَرَحَ اللہُ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖط فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَۃِ قُلُوْبُھُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللہِ[2]

 

’’بھلا، اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر (فائز) ہوجاتا ہے، (اس کے برعکس) پس اُن لوگوں کیلیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر (کے فیض) سے (محروم ہوکر) سخت ہوگئے‘‘- 

امام ابو عبد الله محمد بن احمد القرطبی  سیدناعلی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) کا قول مبارک نقل فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں :

أَوْلِيَاءُ اللهِ قَوْمٌ صُفْرُ الْوُجُوهِ مِنَ السَّهَرِ، عُمْشُ الْعُيُونِ مِنَ الْعِبَرِ، خُمْصُ الْبُطُونِ مِنَ الْجُوعِ، يُبْسُ الشِّفَاهِ مِنَ الذُّوِيِّ[3]

 

’’اولیاء اللہ ایسی قوم ہے جن کے چہرے جاگنے کے سبب زرد ہوں آنسوؤں کے سبب آنکھیں کمزور ہوں بھوک کے سبب پیٹ دبلے اور خالی ہوں اور ان کے ہونٹ گرمی یا پیاس کے سبب خشک ہوں‘‘-

حضرت سلطان باھوؒ  نے جہاں مختلف طرق و امثال (تلقین ذکر و فکر،تصور شیخ و مراقبہ وغیرہ )سے سالک کو ’’ففرو الی اللہ‘‘کادر س دیاہے ،یہاں بھی آپؒ نے اس چیز کو واضح فرمایاہے  کہ راہ ِفقر مجاہدہ ِنفس،  جان سوزی اور خونِ جگر پینے کانام ہے -جیساکہ  آپؒ فرماتے ہیں :

’’فقیر کو راہِ حق میں روز بروز ترقی پذیر اور جان سوز ہونا چاہیے نہ کہ درم اندوز- حقیقت ِ نفس کو جاننا سیکھ‘‘- [4]

حضور سلطان العارفینؒ اولیاء اللہ ،اپنی والدہ ماجدہ اورخوداپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :

’’چودہ طبق کا اِس طرح تماشا دیکھنا اُن (اولیاء اللہ)کے لئے کوئی مشکل نہیں- جب وہ تصورِ اسم اﷲذات میں محو ہوتے ہیں تو اسم اﷲذات کی گردانی سے اُن کی آنکھوں سے خون جاری ہوجاتا ہے -اِس فقیر کی والدہ ماجدہ کو یہ مرتبہ حاصل تھا کہ شوقِ حق تعالیٰ کی سوزش سے اُن کی آنکھوں سے خون بہتا رہتا تھا‘‘- [5]

’’باھُو ذکر ِ’’ھُوْ‘‘ سے جان سوزی و مغز سوزی کرتا ہے کہ عاشقوں کی برات ہی عشق میں جان سوزی کرناہے‘‘ -[6]

’’فقر کی ابتداء  و انتہاء  مجھ پر ختم ہو چکی ہے اور سوزِ عشق سے میرے وجود میں نفس جل کر راکھ ہو چکا ہے‘‘-[7]

’’اسم اللہ ذات سے مَیں نے اپنا نصیبہ حاصل کرلیا ہے ، وہ میرے لئے کافی ہے - جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور چیز کا طالب ہے وہ اہل ِہوس ہے‘‘-

اولیاء اللہ ان کیفیات سے کیوں گزرتے ہیں ،اس کی وجہ بیان کرتےہوئے آپؒ رقمطراز ہیں :

’’راہِ خدا ئے تعالیٰ بال سے بھی زیادہ باریک ہے کہ اِس میں فنا فی اللہ ذات ہونا پڑتا ہے جو فرمانِ حق تعالیٰ کے مطابق ایسے ہے کہ جیسے سُوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا-فقیری ایک پُردرد کشالہ ہے نہ کہ اماں و خالہ کے گھر کا حلوہ و چرب نوالہ، بلکہ رات دن سوزِ عشق میں جلنا ہے‘‘-[8]

4-’’ابتدائے فقر صدق و یقین ہےاور انتہائے فقر خدائے تعالیٰ کی ہم نشینی ہے‘‘-’’بے صدق اسلام میں قدم رکھنا ریا سے بڑھ کر قبیح فعل ہے‘‘-[9] خلوصِ نیت وصدقِ دل مؤمن کے لیے ایسازادہ راہ ہیں جس کی بناء پہ وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی منازل طے کرتاہے جیساکہ آپؒ فرماتے ہیں :’’فقر بے شمار خزائن ِالٰہی میں سب سے قیمتی خزانہ ہے جسے با اخلاص صدق و اعتبار سے حاصل کیا جا سکتا ہے‘‘- [10]

حضرت سلطان باھُو صاحبؒ صدق کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’صدق وہ ہے جو طالب ِ صادق کو رات دن قرار و آرام سے نہ رہنے دے اور نہ ہی نیند و سکون کے قریب جانے دے اور پیادۂ محبت ِواحد اور طلب ِتحصیل ِحصول الوصولِ معرفت اُسے اِس قدر پریشان رکھےکہ جب تک اُسے قربِ الٰہی تک نہ پہنچا دے اُس کی جان نہ چھوڑے - پس طالب ِحق کی مصلحت اِس میں ہے کہ وہ حصارِ یقین میں رہے ‘‘- [11]

آپؒ اس صدق ویقین کے حصول کا طریقہ بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :

’’آدمی کا ظہور نورسے ہے ، تُو اِس نور کو نگاہِ نور سے دیکھ کہ نگاہِ نور جب اِس نور تک پہنچتی ہے تو صدق و یقین حاصل ہو جاتا ہے  ‘‘-[12]


[1](عین الفقر، باب سوم)

[2](الزمر:22)

[3](تفسیر قرطبی زیرِ آیت: یونس:62)

[4](عین الفقر)

[5](کلید التوحید کلاں)

[6](عین الفقر)

[7](اسرارالقادری،شرح حاضرات)

[8](عین الفقر)

[9](ایضاً)

[10](اسرارالقادری،شرحِ مقامات)

[11](امیر الکونین، شرحِ غرق)

[12](محک الفقر کلاں)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر